"سید جواد نقوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 13 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 4: سطر 4:
| name =  سید جواد نقوی
| name =  سید جواد نقوی
| other names = آغا جواد نقوی
| other names = آغا جواد نقوی
| brith year = 1952
| brith year = 1952 ء
| brith date =  
| brith date =  
| birth place = پاکستان
| birth place = پاکستان
سطر 41: سطر 41:
سید جواد نقوی امامت و ولایت نظام کے حامی ہیں، آپ ایران کے سیاسی نظام اور ولایت فقیہ کا دفاع کرتے ہیں، اور اپنا تعارف رہبر انقلاب اسلامی [[سید علی خامنہ ای|حضرت آیت اللہ العظمی سید علی]] کے سپاہی کے طور پر کراتے ہیں۔ سید جواد نقوی خود کو ایک سیاسی سماجی مصلح سمجھتے ہیں۔
سید جواد نقوی امامت و ولایت نظام کے حامی ہیں، آپ ایران کے سیاسی نظام اور ولایت فقیہ کا دفاع کرتے ہیں، اور اپنا تعارف رہبر انقلاب اسلامی [[سید علی خامنہ ای|حضرت آیت اللہ العظمی سید علی]] کے سپاہی کے طور پر کراتے ہیں۔ سید جواد نقوی خود کو ایک سیاسی سماجی مصلح سمجھتے ہیں۔
== مسلمانوں کے اتحاد کے لیے جد و جہد ==
== مسلمانوں کے اتحاد کے لیے جد و جہد ==
سید جواد نقوی پاکستان میں [[شیعہ]] اور [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]] کے درمیان اتحاد کے حامی ہیں۔ اس لیے آپ  نے اس حوالے سے بہت کوششیں کی ہیں۔ ان کے مطابق، شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد دو طرفہ اور تعمیری رابطے کا نتیجہ ہے، نہ کہ بیٹھ کر اتحاد کا نعرہ لگانا۔ [[ہفتہ وحدت]] کے دوران اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں کو ہر ممکن حد تک قریب لانے کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ ان کے مطابق یہ امام امت، [[امام خمینی (رح)]] تھے جنہوں نے 12-17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت کا نام دیا۔ آپ اتحاد امت  مارچ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم]] کی ولادت کے مناسبت سے '''وحدت کانفرنس''' اور عروہ الوثقی کی طرف سے یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کی تقریب کو اسلامی اتحاد کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں اور  ان کا کہنا ہے کہ اگر سنی پروگرام کریں تو ہم گھر بیٹھیں اور جس دن ہمارا پروگرام ہو اور سنی حضرات اس میں شرکت نہ کریں، یہ اتحاد سے خیانت ہے، لیکن اگر شیعہ سنی آپس میں  متحد ہوں تو اسلامی اتحاد کا نظریہ مضبوط اور فرقہ واریت کے خلاف جنگ میں یہ ایک موثر اقدام ہو گا۔
سید جواد نقوی پاکستان میں [[شیعہ]] اور [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]] کے درمیان اتحاد کے حامی ہیں۔ اس لیے آپ  نے اس حوالے سے بہت کوششیں کی ہیں۔ ان کے مطابق، شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد دو طرفہ اور تعمیری رابطے کا نتیجہ ہے، نہ کہ بیٹھ کر اتحاد کا نعرہ لگانا۔ [[ہفتہ وحدت]] کے دوران اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں کو ہر ممکن حد تک قریب لانے کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ ان کے مطابق یہ امام امت، [[امام خمینی]] (رح) تھے جنہوں نے 12-17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت کا نام دیا۔ آپ اتحاد امت  مارچ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم]] کی ولادت کے مناسبت سے '''وحدت کانفرنس''' اور عروہ الوثقی کی طرف سے یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کی تقریب کو اسلامی اتحاد کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں اور  ان کا کہنا ہے کہ اگر سنی پروگرام کریں تو ہم گھر بیٹھیں اور جس دن ہمارا پروگرام ہو اور سنی حضرات اس میں شرکت نہ کریں، یہ اتحاد سے خیانت ہے، لیکن اگر شیعہ سنی آپس میں  متحد ہوں تو اسلامی اتحاد کا نظریہ مضبوط اور فرقہ واریت کے خلاف جنگ میں یہ ایک موثر اقدام ہو گا۔
 
== علمی آثار ==
== علمی آثار ==
== قرآن ==
== قرآن ==
سطر 49: سطر 50:
* دشمن شناسی از نظر قرآن و عاشورہ
* دشمن شناسی از نظر قرآن و عاشورہ
== امام حسین علیہ السلام اور عاشورا ==
== امام حسین علیہ السلام اور عاشورا ==
{{کالم کی فہرست|3}}
* مقصد [[حسین بن علی|امام حسین]]
* مقصد [[حسین بن علی|امام حسین]]
* فلسفہ [[عزاداری]]
* فلسفہ [[عزاداری]]
سطر 106: سطر 108:
* خصائص حسینی
* خصائص حسینی
* قیام امام حسین میں بنی ہاشم کا کردار۔  
* قیام امام حسین میں بنی ہاشم کا کردار۔  
{{اختتام}}
=== دیگر دینی موضوعات ===
=== دیگر دینی موضوعات ===
* عهد الهی و میثاق ربوبی
* عهد الهی و میثاق ربوبی
سطر 198: سطر 201:
01۔ ایرانی انقلاب کے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں [[اسلام]] پسندوں اور بائیں بازو کی تحریکوں میں انقلابی فکر کےعالمی اثرات
01۔ ایرانی انقلاب کے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں [[اسلام]] پسندوں اور بائیں بازو کی تحریکوں میں انقلابی فکر کےعالمی اثرات
02۔ طویل المیعاد پروجیکٹ، 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران اہل سنت اسلامی مکتبہ قانون (مدحیب) کی ہٹتی ہوئی تقدیر کا تقابلی مطالعہ
02۔ طویل المیعاد پروجیکٹ، 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران اہل سنت اسلامی مکتبہ قانون (مدحیب) کی ہٹتی ہوئی تقدیر کا تقابلی مطالعہ
== جامعہ العروة الوثقیٰ میں سید ابراہیم رئیسی اور ہوائی سانحہ کے دیگر شہداء کیلئے تعزیتی مجلس ==
مقررین کا کہنا تھا کہ [[ ایران|اسلامی جمہوریہ ایران]] اور صدر [[سید ابراہیم رئیسی|ابراہیم رئیسی]] کے [[فلسطین]] کے متعلق دو ٹوک موقف لائق تحسین ہے اور امید ہے کہ شہید رئیسی کے بعد آنی والی قیادت اسی راہ کو جاری رکھیں گے اور دیگر مسلم حکمران بھی اسی راہ کو اپنائیں گے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے مرحوم صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور ہوائی سانحہ کے دیگر شہداء کیلئے حوزہ علمیہ جامعۃ عروة الوثقیٰ لاہور میں تعزیتی مجلس منعقد ہوئی، جس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام، دانشور حضرات، مشائخ اور ایرانی قونصل خانہ پاکستان کے وفود نے شرکت کی۔ مقررین میں علامہ سید جواد نقوی، مولانا امیر حمزہ، پیر سید محمد حبیب عرفانی، پیر شمس الرحمان مشہدی، مولانا جاوید احمد قصوری، ڈاکٹر میر آصف اکبر، ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ڈاکٹر رضا مسعودی و دیگر شامل تھے۔
سید جواد نقوی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ آیت الله سید ابراہیم رئیسی نے اپنی صدارت کے مختصر عرصے میں نہ صرف ملت ایران کی خدمت کی بلکہ اپنے انقلابی جذبے سے [[اسلام]] ناب محمدی (ص) کے عالمی مشن کو بھی بھر پور طریقے سے آگے بڑھایا۔
سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ و صہیونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کا محاذ ہو یا [[غزہ]] کے مظلومین کی مدد، آپ ہر محاذ پر صف اول میں نظر آئے اور اپنی دینی، انسانی اور اخلاقی ذمہ داری آخری دم تک ادا کی۔ مجلس ترحیم میں مقررین کا کہنا تھا کہ آیت اللہ سید صدر ابراھیم رئیسی فقط ایران کے صدر نہیں، بلکہ عالم اسلام کے لیڈر اور امت مسلمہ کے قیمتی سرمایہ تھے۔
جن سے امت محروم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی نے پہلے بھی حق و صداقت کی راہ میں کافی قربانیاں دی ہیں، جن کی بدولت دشمن نظام اسلامی کو کمزور کرنے میں ناکام رہا اور اب بھی وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1924290/%D8%AC%D8%A7%D9%85%D8%B9%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B1%D9%88%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%88%D8%AB%D9%82%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85-%D8%B1%D8%A6%DB%8C%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DB%81%D9%88%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D8%B3%D8%A7%D9%86%D8%AD%DB%81-%DA%A9%DB%92 جامعہ العروة الوثقیٰ میں سید ابراہیم رئیسی اور ہوائی سانحہ کے دیگر شہداء کیلئے تعزیتی مجلس]-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 24 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 جون 2024ء۔</ref>۔
== حسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ اسرائیل کا صفحۂ ہستی سے محو ہو جانا ہے ==
تحریک بیداری کے سربراہ کا ریلی سے خطاب میں کہنا تھا کہ دنیا کے تمام باہمت انسان حزب اللہ، حماس اور غزہ کیساتھ کھڑے ہیں اور یہ پیغام جلد ہی عالمی سطح پر پھیل جائے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، [[سید حسن نصر اللہ|سید حسن نصراللہ]] کی شہادت پر، امریکہ اور سفاک صیہونی ریاست  کیخلاف پنجاب اسمبلی سے امریکی قونصلیٹ تک "شہید راہ قدس ریلی" نکالی گئی۔
جس کا اہتمام [[تحریک بیداری امت مصطفی]] اور حامیان مظلومین فلسطین نے کیا تھا۔ ریلی میں مرد و زن، بچے بوڑھے اور جوان اپنے خاندان سمیت شریک ہوئے جنہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور وہ بزدل دشمن سے اپنی بیزاری و نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ تحریک بیدارئ امت مصطفی کے سربراہ سید جواد نقوی نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم شہادت کے صدقے جرثومۂ ظلم و ستم و فساد اسرائیل جلد ہی صفحۂ ہستی سے محو ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک لاکھ شہادتوں کا بدلہ چند اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت سے نہیں لیا جا سکتا، بلکہ اصل جواب اسرائیل کا مکمل صفحۂ ہستی سے مٹنا ہے، جیسا [[سید علی خامنہ ای|رہبر معظم]] نے فرمایا ہے کہ اس جنگ کا فیصلہ [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] نے کرنا ہے اور وہ روحیہ، حوصلہ اور جذبہ ان مجاہدین کے اندر اب پہلے سے زیادہ قوت و شدت سے موجود ہے۔
سید جواد نقوی نے کہا کہ دنیا کے تمام باہمت انسان حزب اللہ، [[حماس]] اور [[غزہ]] کیساتھ کھڑے ہیں اور یہ پیغام جلد ہی عالمی سطح پر پھیل جائے گا، آنیوالے دنوں میں غیرت مند لوگ اپنی ملتوں کا پیغام اپنے اجتماعات، ریلیوں، اور جلوسوں کے ذریعے اپنے حکمرانوں، امریکہ اور اسکی ناجائز اولاد کو پہنچا کر ثابت کر دینگے کہ امام خمینی کی آرزو کے مطابق اسرائیل کے مٹ جانے کا لمحہ آگیا ہے اور اس کیلئے تمام اسباب مہیا ہو رہے ہیں، یہ شہادت موجب بن رہی ہے کہ لوگ جو پہلے اس عمل کیلئے آمادہ نہیں تھے، اب آمادگی ظاہر کریں گے اور ان کیساتھ ہم بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہماری ملت ظلم کیخلاف قیام کیلئے تیار ہے، ہر بچہ، ہر بزرگ، ہر فرد اس فریضے کے تحت آمادہ ہے۔
سید جواد نقوی  نے مزید کہا کہ وہ عظیم دن جس نے مسلمانوں پر جہاد اور شہادتوں کا راستہ کھولا ہے سات اکتوبر ہے۔ اس دن امت کو اپنی غفلت کی تلافی کرنی چاہیے اور امام خمینی کی تاکید کے مطابق فلسطین سمیت اسلامی سرزمینوں کی آزادی کے راستے خیانت کار حکمرانوں سے الگ کر لینے چاہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ امت اسلامیہ اس  دن مذہب، نسل، یا فرقہ کی تفریق سے بالاتر ہو کر ذلت کا طوق گردن سے اتار پھینکے اور حماس کے شروع کردہ "طوفان الاقصی" کو عالمی سطح پر ایک تحریک کی شکل میں ڈھال دیں <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1927026/%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D9%86%D8%B5%D8%B1%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%AF%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%D8%AF%D9%84%DB%81-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D8%A7-%D8%B5%D9%81%D8%AD%DB%81-%DB%81%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AD%D9%88-%DB%81%D9%88 حسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ اسرائیل کا صفحۂ ہستی سے محو ہو جانا ہے، علامہ جواد نقوی]- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 29 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2024ء۔</ref>۔
== پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی مضبوطی، عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے ==
تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ پاکستان کے سربراہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پاکستان کو مشکلات میں ڈال کر غاصب صیہونی لابی اپنے مقاصد پورے کر رہی ہے، کہا کہ پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی مضبوطی، عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق، تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں دو اہم پہلو نمایاں ہیں: ایک، اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے ہونے والی جنایت اور دوسری، [[مسلمان]] ممالک کی خیانت، دن دہاڑے اس قدر بڑا ظلم سب کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے اور اسلامی ممالک بے بس و لاچار بنے بیٹھے ہیں۔
ترکی، [[مصر]]، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، مراکش اور دیگر ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا، خاص طور پر آل سعود جیسے خیانت کار، جو ابتداء سے مسلمانوں کی طاقت کو تقسیم کرنے اور [[مسجد اقصی|اقصیٰ]] اور فلسطین کے معاملے میں خیانت کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، مکمل خاموش ہیں۔ ان کی طرف سے نہ کوئی سفارتی کوشش کی جا رہی ہے، نہ مذاکرات، نہ دباؤ، نہ احتجاج، اور نہ ہی اقوام متحدہ میں کوئی مؤثر اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔
یہ جنگی جرائم کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے باوجود انتہائی بے شرمی سے اسرائیل کو دو ریاستی حل کی پیشکش کر رہے ہیں، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کھل کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بنا کسی تردید کے سعودی عرب کے ساتھ جلد تعلقات نارملائز کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔
جواد نقوی نے مزید کہا کہ عرب ممالک پر مشتمل صیہونی گروہ، اسلامی مزاحمت کے امریکہ و اسرائیل سے سے بھی بڑے دشمن ہیں جو مزاحمت کی ناکامی تک جنگ کے خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، یہی انسانی المیے میں امریکہ و اسرائیل کے سرمایہ کار ہیں، چونکہ ان کے منصوبے اور مفادات ہی خطے میں مزاحمتی تحریکوں کے خاتمے سے وابستہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی بارڈر سے محض 40 میل دور بن سلمان کے افسانوی شہر نیوم کی تعمیر، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی حسرت اور وژن 2030ء کے تحت سرزمین حجاز کی حرمت پامال کرنے کے منصوبے اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب حماس اور [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] ناکام ہوں، چونکہ اگر حماس اور حزب اللہ کو اس جنگ میں کامیابی ملتی ہے تو یہ کھوکھلی حکومتیں ختم ہو جائیں گی اور ان کے عوام خود انہیں عبرت کا نشان بنائیں گے۔
سید جواد نقوی نے مزید کہا کہ پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی ہوئی مضبوطی بھی عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔ فلسطین کی حمایت کا کمزور ہونا، فلسطین کا نام لینے والوں کو ہراساں کرنا اور احتجاج کو جرم سمجھا جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں یہ تمام اقدامات صیہونی منصوبوں کے نفاذ کا حصہ ہیں، جس کے نتیجے میں، پاکستان تاریخی طور پر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود آج اس سے بیگانہ ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طاقتور صیہونی لابی پاکستان کو اقتصادی و سیاسی مشکلات میں گھیر کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہے <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/403583/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B5%DB%8C%DB%81%D9%88%D9%86%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%DA%91%DA%BE%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D8%B6%D8%A8%D9%88%D8%B7%DB%8C-%D8%B9%D8%B1%D8%A8-%D9%85%D9%85%D8%A7%D9%84%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AB%D8%B1-%D9%88-%D8%B1%D8%B3%D9%88%D8%AE پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی مضبوطی، عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے، علامہ سید جواد نقوی]-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 21 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 اکتوبر 2024ء۔</ref>۔
== پارا چنار کی شیعہ سنی مذہبی قیادت،طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ دہشت گردی کا فتنہ دونوں ہی کے خلاف ہے ==
سید جواد نقوی نے سانحہ پاراچنار پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارا چنار کی [[شیعہ]] اور [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]]  مذہبی قیادت، طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ دہشت گردی کا  فتنہ دونوں  ہی کے خلاف ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ سید جواد نقوی نے پاراچنار سانحے پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاراچنار کی صورتحال یہ ہے کہ معمولی حادثہ بھی وہاں بڑا بحران ایجاد کر دیتا ہے۔ اساتذہ کے بہیمانہ و سفاکانہ قتل کے افسوسناک واقعہ میں بھی یہی مدنظر تھا کہ بڑی سطح پر ایک اشتعال آور کارروائی کی جائے جس کے بعد لوگ مشتعل ہو کر جوابی کارروائیاں کریں گے اور اس بدامنی میں دہشت گرد داخل ہو کر اپنی کارروائیاں کریں گے جو پہلے قوم کی قربانیوں اور افواج پاکستان کی محنت سے ملک سے باہر نکالے گئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعض نا عاقبت اندیش، خیانت پیشہ اقتدار پسند مجرمین اور بعض ریاستی اداروں کے اندر موجود ناپاک عناصر کی خیانت سے دوبارہ [[افغانستان]] سے پاکستان میں جدید ترین نیٹو اسلحے سمیت اور باقاعدہ دعوت ناموں کے ذریعے واپس لائے گئے ہیں۔
سید جواد نقوی نے کہا کہ ہر چند بظاہر یہ حوادث اتفاقی نظر آتے ہیں لیکن یہ اتفاقی نہیں ہیں ان کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ موجود ہے اور اگر اسے ملکی اور خطے کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو اس طرح کے واقعات پیش بینی شدہ تھے۔
انہون نے کہا کہ اس وقت ملک کے اندر ہمہ گیر اور شدید قسم کا سیاسی، معاشی اور امنیتی بحران ایجاد کر دیا گیا ہے، عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس بیچ ملک میں دہشت گردوں کے سلیپنگ سیل افغانستان کے حالات میں تبدیلی کی بنا پر دوبارہ متحرک ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اندر ان کے سہولت کار اور ان کے مختلف دھڑے اور جتھے مختلف مسجدوں اور مدرسوں میں اپنی طاقت بحال کرنے میں مصروف ہیں۔
ان دہشت گردوں نے پہلے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کے خطرے کو بھانپ کر ان سے معائدے کئے جائیں اور ملک افغانستان کی طرح پرامن طریقے اور مذاکرات کے ذریعے ان کے حوالے کر دیا جائے اور وہی سارے طبقات اور ٹیمیں جنہوں نے افغانستان میں کردار ادا کیا تھا وہ سارے پاکستان میں ابھی فعال ہیں۔
وہ ظلمے خلیل زاد ہو، پاکستان کے اندر ان کے حمایتی و سہولت کار ہوں، عرب دنیا و عالمی سطح پر انکے حمایتی ہوں سب اس وقت پاکستان کے اوپر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، اب جبکہ تمام دہشت گرد واپس پاکستان لاکر مختلف ٹھکانوں میں بٹھا دیئے گئے ہیں جن کا گلگت بلتستان، پارا چنار، سوات، وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر پشاور تک اثر رسوخ ہے
جہاں پولیس کو مکمل طور پر بے اثر کر دیا ہے جو اپنی حفاظت تھانوں کے اندر کرنے سے بھی قاصر ہے ایسے میں ایک ایک کر کے ان علاقوں میں یہ اپنا تسلط جمانے میں مصروف ہیں ۔
انہوں نے تاکید کی کہ یہاں پر ضرورت ہے کہ پاراچنار کے تمام شیعہ سنی عوام مل کر اس فتنے کو بھانپیں اس کی جڑوں کو پہچانیں کہ یہ ایک بڑے بحران کے لیے پیش خیمہ بنایا جا رہا ہے۔ پارا چنار کی شیعہ سنی مذہبی قیادت، طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ یہ فتنہ دونوں ہی کے خلاف ہے۔
جواد نقوی  نے کہا کہ دھیان رکھیں کہ ملک کے اندر جو فضاء بنی ہوئی ہے اس فضاء میں خدا ناخواستہ کود نہ جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ نقشہ دوسرے بنائیں، میدان دوسرے سجائیں اور ہمیں اشتعال دے کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
انہوں نے تاکید کی کہ بحرانوں کی اس طرح مدیریت کریں کہ وہ اس طرف نہ جائے جدھر دشمن چاہ رہے ہیں یا جدھر یہ فتنہ گر چاہتے ہیں۔
سید جواد  نے کہا کہ یہ تجزیہ ہماری مذہبی قیادت کے پاس علاقائی طور پر بھی ہونا چاہیئے ان کی نگاہ ملکی حالات پر ہونی چاہیئے یہ نہ ہو کہ فقط لوکل مسائل میں الجھے رہیں اور جو دشمن نے جال بنایا ہے اس میں اتنے کھو جائیں کہ احساس نہ رہے کہ باقی ملک میں اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے کیا تیاریاں ہو رہی ہیں اسلئے ہوشیاری و بیداری کے ساتھ ان کے فتنے کو اسی نطفے میں ناکام بنا دیں
بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس موقع پر شیعہ سنی دونوں مل کر اس فتنے کا مقابلہ کریں دہشت گردوں کو علاقے میں داخل نہ ہونے دیں اور اس قسم کی جنایت کرنے والوں کو اتنی سخت سزا دیں کہ پھر تکرار نہ کریں، لیکن یہ مذہبی جھگڑا اور فرقہ واریت نہ بنے اور مسئلے کی نوعیت بھی مذہبی بنیاد پر نہیں ہے۔ در عین حال جو جنایت ہوئی ہے۔


اس کے عاملوں کو اتنی سخت سزا دیں کہ پھر یہ تکرار نہ ہونے پائے چونکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ باقی ملک کے اندر جو ماحول ہے وہ پاراچنار کے حالات کے اوپر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اس وقت ملک جس سطح پہ چلا گیا ہے وہاں اس طرح کے فتنے بڑا بحران کھڑا کر سکتے ہیں۔ ان گندے اور ننگے سیاستدانوں نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ملک کو جس حالت میں پہچا دیا ہے وہ صورتحال سب کے مد نظر رہے <ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/390297/%D9%BE%D8%A7%D8%B1%D8%A7-%DA%86%D9%86%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%DB%8C%D8%B9%DB%81-%D8%B3%D9%86%DB%8C-%D9%85%D8%B0%DB%81%D8%A8%DB%8C-%D9%82%DB%8C%D8%A7%D8%AF%D8%AA-%D8%B7 پارا چنار کی شیعہ سنی مذہبی قیادت،طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ دہشت گردی کا فتنہ دونوں ہی کے خلاف ہے، علامہ سید جواد نقوی]-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 6 مئی 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 نومبر 2024ء۔</ref>۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{پاکستان}}
{{پاکستانی علماء}}
{{پاکستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:پاکستان]]
[[زمرہ:پاکستان]]

حالیہ نسخہ بمطابق 23:59، 12 نومبر 2024ء

سید جواد نقوی
سید جواد نقوی.jpg
پورا نامسید جواد نقوی
دوسرے نامآغا جواد نقوی
ذاتی معلومات
پیدائش1952 ء، 1330 ش، 1370 ق
پیدائش کی جگہپاکستان
اساتذہآیت جوادی آملی
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • عروۂ الوثقی

سید جواد نقوی اسلامی اتحاد کے علمبرداروں اور مدرسہ عروہ الوثقی کے بانی اور مدیر ہیں۔ آپ پاکستان میں نظام امامت و ولایت کے نظریہ دان ہیں۔ سید جواد نقوی آیت اللہ جوادی آملی اور حسن زادہ آملی کے شاگردوں میں سے ہیں ۔ آپ نے لاہور شہر میں عروہ الوثقی کے نام سے سب سے بڑی دینی درسگاہ قائم کی ہے جس کی زیر نگرانی کئی دینی، تعلیمی، ثقافتی اور سماجی مراکز فعال ہیں۔ سید جواد نقوی انقلاب اسلامی ایران کے حامیوں میں سے ہیں اور حالات حاضرہ، ملکی اور عالمی سیاست پر تجزیہ و تبصرہ کرتے ہیں۔ آپ ماہنامہ مشرب ناب کے بانی بھی ہیں۔

تعلیم

سید جواد نقوی 1952ء میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ہری پور میں پیدا ہوئے [1]۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اس ملک کے مشہور استاتذہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے حوزہ قم تشریف لے گئے۔ سید جواد نقوی نے اس حوزہ میں مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کی۔ آیت اللہ جوادی آملی اور حسن زادہ آپ کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں [2]۔

اساتذہ

  • آیت الله جوادی آملی؛
  • آیت الله حسن زاده آملی؛
  • آیت الله مصباح یزدی؛
  • آیت الله جواد تبریزی؛
  • آیت الله فاضل لنكرانی؛
  • آیت الله علامه تقی جعفری؛
  • آیت الله ستوده؛
  • آیت اللہ وحید خراسانی اور ان جیسی دوسری بزرگ شخصیات سے بھرپور استفاده كیا۔

ہم جماعت

  • آیت اللہ محمود رجبی؛
  • آیت اللہ غلام رضا فیاضی؛
  • آیۃ اللہ سید کمال حیدری؛
  • آیت اللہ حسینی بوشہری وغیرہ جیسے بزرگان علم و دانش سر فہرست ہیں۔
  • استاد محترم حضرت اللہ العظمی آقای جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی ھیئت استفتاء کے بھی رکن رہے ہیں۔

تعلیمی سرگرمیاں

سید جواد نقوی نے حوزہ قم میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ طلباء کی بھی تربیت کی اور ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ انہوں نے قم سے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ بہت سارے طلباء ان کے افکار اور نظریات سے متاثر ہوئے۔ آپ حوزہ قم میں کئی سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے اور عروہ الوثقی کے نام سے ایک بڑا حوزہ قائم کیا اور اس دینی درسگاہ کی ملک بھر میں کئی شاخیں ہیں اور اس وقت اس حوزہ میں ہزاروں طلباء، لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ سید جواد نقوی میڈیا میں سرگرم ہیں اور انہوں نے بعثت کے ٹی وی کے نام پر ایک ٹی وی چینل بنایا ہے اور اس نیٹ ورک کے ذریعے سید جواد نقوی کے تفاریر اور دروس نشر کئے جاتے ہیں۔

سیاسی نظریہ

سید جواد نقوی امامت و ولایت نظام کے حامی ہیں، آپ ایران کے سیاسی نظام اور ولایت فقیہ کا دفاع کرتے ہیں، اور اپنا تعارف رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی کے سپاہی کے طور پر کراتے ہیں۔ سید جواد نقوی خود کو ایک سیاسی سماجی مصلح سمجھتے ہیں۔

مسلمانوں کے اتحاد کے لیے جد و جہد

سید جواد نقوی پاکستان میں شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد کے حامی ہیں۔ اس لیے آپ نے اس حوالے سے بہت کوششیں کی ہیں۔ ان کے مطابق، شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد دو طرفہ اور تعمیری رابطے کا نتیجہ ہے، نہ کہ بیٹھ کر اتحاد کا نعرہ لگانا۔ ہفتہ وحدت کے دوران اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں کو ہر ممکن حد تک قریب لانے کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ ان کے مطابق یہ امام امت، امام خمینی (رح) تھے جنہوں نے 12-17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت کا نام دیا۔ آپ اتحاد امت مارچ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے مناسبت سے وحدت کانفرنس اور عروہ الوثقی کی طرف سے یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کی تقریب کو اسلامی اتحاد کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر سنی پروگرام کریں تو ہم گھر بیٹھیں اور جس دن ہمارا پروگرام ہو اور سنی حضرات اس میں شرکت نہ کریں، یہ اتحاد سے خیانت ہے، لیکن اگر شیعہ سنی آپس میں متحد ہوں تو اسلامی اتحاد کا نظریہ مضبوط اور فرقہ واریت کے خلاف جنگ میں یہ ایک موثر اقدام ہو گا۔

علمی آثار

قرآن

  • آداب فہم قرآن جلد اول
  • آداب فہم قرآن جلد دوم
  • شناخت قرآن
  • دشمن شناسی از نظر قرآن و عاشورہ

امام حسین علیہ السلام اور عاشورا

  • مقصد امام حسین
  • فلسفہ عزاداری
  • فلسفہ تحریک کربلا
  • حسین چراغ ہدایت
  • پیغام عاشورہ
  • حرارت القلوب
  • کرامت و شرف حسینی
  • عاشورہ از نظر خمینی
  • کربلا کی عبرتیں
  • کردار زینبی [3]۔
  • وحدت پیغام کربلا
  • ہم حسین و غم حسین
  • اسلامی بیداری و پیغام عاشورہ
  • عقیدت و حقیقت عزاداری
  • مفہوم لبیک یا حسین
  • غم حسین
  • کربلا عقیدت سے حقیقت تک
  • کربلا منشور دفاع حق
  • کربلا حقیقی و کربلا خیالی
  • کل یوم عاشورا کل ارض کربلا
  • مجلس عزا اہمیت و مقصد
  • عزاداری عالمی تحریک بیداری
  • کربلا قرآن کی تفسیر
  • عزاداری عشق حسینی
  • تحریک امام حسین از مدینہ تا کربلا
  • سیاست کوفی و امامت حسینی
  • امت کی تاریخی موت
  • فلسفہ قیام امام حسین
  • مکتب عاشورہ کی نگاہ میں نفرت آنگیز نظریے و راستے
  • رسوماتی حسینیت و مکتبی حسینیت
  • اسرار شب عاشور
  • اقتدار پرستی در مقابل اقدار پرستی
  • یزید کی بیعت کا انکار [4]۔
  • کربلا کے قرآنی اصول
  • تفسیر زیارت عاشورہ
  • قیام امام حسین کا مکی مرحلہ(1,2,3,4)
  • امر بالمعروف نظام اصلاح امت
  • کربلا میں خواص کا کردار
  • قافلہ حجاز میں اک حسین بھی نہیں
  • عاشورہ با عنوان مکتب
  • کربلا حق و باطل میں جدائی کا راستہ
  • امت کی امامت فراموشی اور کربلا میں احیا امامت
  • حامیان دین و حاملان دین
  • اہل بصرہ کے نام خط
  • اہل کوفہ کے نام خط
  • شعار حسینی
  • کربلا آگاہانہ و اختیاری رستہ
  • عاشورہ نہضت قیام و بیداری
  • کربلا اتمام حجت
  • کوفہ اور کوفی
  • کربلا ہر دور کی مشکل کا حل
  • دنیا پرستی اور اس کے نتائج
  • سر کربلا از نظر علامہ اقبال
  • خواص کا کردار قیام امام حسین کا مکی مرحلہ
  • خوشنودی خلق معصیت خالق
  • خصائص حسینی
  • قیام امام حسین میں بنی ہاشم کا کردار۔

دیگر دینی موضوعات

  • عهد الهی و میثاق ربوبی
  • حالت امت بعد از پیغمبر
  • لوگ دنیا کے بندے( مردم بنده دنیا) [5]۔

ثقافتی اور سماجی سرگرمیان

مسجد بیت العتیق

4 ہزار مربع میٹر اور 40 ہزار سے زیادہ افراد کی گنجائش پر برصغیر کی سب سے بڑی شیعہ مسجد۔

حوزہ علمیہ العروة الوثقیٰ

پاکستان میں اہل تشیع کا سب سے بڑا علمی مرکز، جس میں دو ہزار کے لگ بھگ طلبہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور اس وقت 1300 طلبہ اسلام ناب محمدی کی تعلیمات سے روشناس ہو رہے ہیں۔ نیز حوزہ علمیہ العروة الوثقیٰ سے ملحقہ دینی مدارس اور مراکز کی بڑھتی ہوئی تعداد تیس تک پہنچ چکی ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  • خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے ملکی سطح کا سب سے بڑا حوزہ علمیہ ام الکتاب جس میں 3 ہزار کے قریب طالبات فریضہ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں اور فی الحال ایک ہزار تک طالبات زیر تعلیم ہیں۔
  • قائد فقید مفتی جعفر حسین کی گرانبہا میراث جامعہ جعفریہ گوجرانوالہ کی تعمیر نو، توسیع و ارتقاء۔
  • جامعه علمیہ حجت، علی پور۔
  • جامعہ علمیہ امام صادق (ع) بمقام کرڑ خوشاب۔
  • جامعہ بحرالعلوم۔
  • جامعہ امام علی نقی علیہ السلام۔
  • جامعہ حجتیہ گلگت۔

تشیع کے سب سے بڑے ملکی و ملی کتاب المبین کتابخانہ کا قیام

مجازی حوزہ علمیہ جامعة الدین القیم

جامعہ العروۃ الوثقیٰ اور ملحقہ دینی مدارس میں پاکستان کے بزرگ علماء کی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے اور مضبوط علمی و تحقیقی حوزوی نصاب تعیین اور تعمیل کیا گیا ہے، جسے تمام بزرگان نے سراہا ہے۔

  • عصری علوم کا صراط تعلیمی نظام
  • امت مصطفیٰ (ص) کی بیداری اور قیام کی نہضت و تحریک۔
  • ایم آئی6 کے تازہ حملوں اخباریت، غلو اور تفویض وغیرہ کے جواب میں بھرپور ردعمل اور تحریک تحفظ تشیع پاکستان کا قیام۔
  • علمی و فکری ملکی و بین الاقوامی مجلات ماہانہ مشرب ناب، ششماہی مجلہ العروة الوثقی اور مجلہ طلاب صبح صادق۔
  • بعثت تعلیمی و نیوز ٹی وی۔
  • 17 ربیع الاول کو علمی و تحقیقی سالانہ وحدت کانفرنسوں اور 12 ربیع الاول کو وحدت ریلی کا انعقاد۔
  • ہر سال حوزہ علمیہ العروة الوثقیٰ میں سینکڑوں بلکہ ہزار کے لگ بھگ نوجوانوں اور جوانوں کی سالانہ دو اور ملک بھر میں سینکڑوں تربیتی فکری مطلع الفجر کارگاہیں۔
  • مفازة الحیاة ہسپتال
  • امام خمینی اور علامہ اقبال کے خالص اور انقلابی افکار کا احیاء۔
  • کتب، مجلات اور دیگر تبلیغی آثار کی نشر و اشاعت کے لیے متاب پبلیکیشنز
  • ملک بھر کے خواص و عوام کی علمی، فکری، انقلابی اور نظریاتی مرجعیت۔
  • عبادی و سیاسی فریضہ جمعہ کا احیاء۔
  • ہفت روزہ اخبار احیائے جمعہ میں خطبات جمعہ کے ذریعے پیغام بیداری و مقاومت۔
  • نوجوانوں اور جوانوں کیلئے ہفتہ وار مطلع الفجر کلاسیں۔
  • ملک بھر میں المصطفیٰ اسکاؤٹس کا با برکت قیام۔
  • حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان ارتباط اور وحدت کے لئے کوشاں۔
  • علمی، دینی، اجتماعی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں دروس اور تقاریر صوتی، تصویری اور متنی صورت میں قوم و ملت کے استفادے کے لیے موجود۔
  • دس سے زیادہ مختلف ویب سائٹس کی فعالیت۔
  • پاکستان، کشمیر، ایران اور ہندوستان میں بین الاقوامی دینی تربیتی کارگاہیں۔
  • آئمہ جمعہ و جماعات کے ساتھ علمی فکری نشستیں۔
  • حوزہ علمیہ العروۃ الوثقیٰ کے سینکڑوں طلباء کی جانب سے محرم و رمضان میں اسلام ناب محمدی کی ہدف مند اور جہت دار تبلیغ و ترویج۔
  • ثقافتی و حوزوی ضرورت کے تحت کہف الصحف پرنٹنگ پریس کا قیام۔
  • ابھی تک مختلف موضوعات پر ساٹھ سے زیادہ اقدار عاشوراء، کربلا اتمام حجت، حسین وارث انبیاء، شناخت قرآن، آداب فہم قرآن، وحدت امت ایک تاریخی مطالبہ، دشمن شناسی، آفات امت، سنن الہیٰ، فتنہ آخر الزمان جیسی کتب اور متعدد موضوعات پر 150 سے زیادہ کتابچوں کی اشاعت کے علاوہ دسیوں کتابیں اشاعت کے مراحل میں۔
  • ملت کے اندر خودی اور خود اعتمادی کا احساس پیدا کرنا۔
  • اسلامی انقلاب کو علمی، نظریاتی اور فکری بنیادوں پر پیش کرنا۔
  • استاد کے مقام کی تجلیل و تکریم کے لیے حوزہ و یونیورسٹی کی سطح پر یوم معلم کا انعقاد۔
  • حوزہ کے فاضل طلاب کی عمامہ گزاری کی ثقافت کا احیاء۔
  • پاکستانی میں امامت و ولایت کی اسلام کے سیاسی نظام کے طور پر تبلیغ و ترویج کرنا۔
  • پوری دنیا کے اردو دانوں کے لیے حالات حاضرہ اور سیاسی و انقلابی بصیرت افروز راہنمائی۔
  • عزاداری سید الشہداء(ع) کے اندر فکری و روحی جہت کو اجاگر کرنا۔
  • امام امت کے فرمان کے مطابق اسلام ناب محمدی اور امریکی اسلام میں فرق کی توضیح و تشریح۔
  • جوانوں کی فنی و ہنری صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ہنرستان رشد نامی ٹیکنکل کالج کا قیام۔
  • خالص دودھ، گوشت اور اقتصادی منصوبہ بندی میں لبنیات سلسبیل اور مویشی باڑہ کا قیام۔
  • جس طرح امام خمینی کے اسلامی انقلاب کی برکت سے علماء و مدارس کا مقام و مرتبہ زندہ ہوا، اسی طرح پاکستان میں فرزند انقلاب نے دینی مدارس کو خصوصی عزت و عظمت فراہم کی۔
  • عالمی وبا کرونا کے حوالے سے بہترین قرنطینہ سنٹر کا قیام اور المصطفیٰ اسکاؤٹس کی ملکی سطح پر خدمات۔
  • گویا فرزند انقلاب زبان حال و عمل سے گویا ہیں [6]۔

مركز تحقیقات اسلامی بعثت(متاب)

مركز تحقیقات اسلامی بعثت،(متاب) حوزه علمیه جامعہ العروة الوثقی لاہور كا ایك ذیلی شعبه ہے جو شہر مقدس قم اور دوسرے ممالك کے علاوہ پاکستان میں بھی مختلف شهروں میں اپنی فعالیت کو جاری رکھے هوئے ہے۔ جس میں اسلامی ثقافت و فکر ناب کی ترویج کے علاوہ ان کے متعدد آثار پر تحقیقاتی كام بھی انجام دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی استاد محترم كے آثار پر تحقیقاتی كام جاری ہے ان كی اردو زبان میں تقریبا 45 سے زائد کتب چھپ چكی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق تقریبا 500 كی تعداد میں مزید کتابیں شائع كیے جانے کا امکان هے۔ ان میں سے اچھی خاصی كتب انگریزی زبان میں بھی ترجمه هوكر چھپ چکی ہیں اور بعض تقاریر فارسی زبان میں بھی شائع هوچكی ہیں۔

ترجمہ

سید جواد نقوی نے خود جن كتابوں كا فارسی سے اردو ترجمه كیا هے ان میں حضرت آیۃ اللہ العظمی آقای جوادی آملی كی كتاب

  • اسرار حج،
  • حماسه و عرفان،
  • عورت آئینه جمال میں پرنٹ ہوچكی ہے۔ ان کتب کے علاوہ اس عصر کی لیٹیسٹ اور عالم تشیع کی بہت عظیم
  • تفسیر تسنیم جو کئی جلدوں پر مشتمل ھے اس كی پہلی جلد کا ترجمه ہوچکا ہے لیکن ابھی پرنٹ کے مرحلے سے نہیں گزری۔

مجلات

چند مجلات بھی جامعہ العروة الوثقی کے ماتحت ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

  • مشرب ناب ہے جس کے ابھی تک تقریبا 166 شمارے پرنٹ ہو چكے ہیں جسے پورے پاكستان کے علاوہ دوسرے ممالك میں بھی ارسال كیا جاتا ہے،
  • عروة الوثقی، تخصصی مجلہ بھی ہے۔
  • اس كے علاوه دو داخلی مجلے ایک حوزه خواهران کی جانب سے ہے جس كا نام ام الكتاب ہے
  • اور ایک مجله حوزه كے طلاب كی جانب سے ہے جس نام صبح الصادق ہے۔
  • اس كے علاوه ہفته وار اخبار جس كا نام احیاء جمعه ہے پاکستان بھر کے نماز جمعه كے اجتماعات میں تقسیم کیا گیا هے اور بیرون ممالك كے لئے اس كو انگریزی و اردو میں سوشل میڈیا پر بھی ارسال كیا جاتا ہے۔
  • جامعہ العروة الوثقی میں ہر سال ماه محرم الحرام سے پہلے مركزی قومی مشاورتی كانفرس كا انعقاد ہوتا ہے جس میں اہل سنت و شیعه مسالک كے برجسته علماء شركت كرتے ہیں۔ ان علماء کے بیانات كو رفوگران امت اسلامیه كے عنوان سے پرنٹ كیا جاتا ہے جس كی ابھی تک تین جلدیں چھپ چكی ہیں [7]۔

سید جواد نقوی کے افکار پر امریکہ کی مشہور یونیورسٹی میں ایک اور نئی تحقیق

یاد رہے کہ عالمی سطح پر یہ پہلا ریسرچ نہیں بلکہ چند سال پہلے 2017 میں بھی دنیا کے167ویں جرمنی یونیورسٹی نے Politics of Shi‘i Identity in South Asia: Syed Jawad Naqvi’s Concept of Wilayat-e Fiqh کے عنوان سے ایک تحقیق شائع کی تھی، جو کہ وہ الگ ہے، اور اب اپریل 2019کو استاد سید جواد نقوی کے متعلق ایک اور نئی تحقیق سامنے آئی ہے جو دنیاکے ٹاپ 1000/ہزار یونیورسٹیز میں سے بہترین 23ویں نمبر پر آنے والی امریکہ کی مشہور "یونیورسٹی آف نارتھ کیرو لائنا پریس" (North Carolina Press) سے PHD ڈاکٹر Simon(سائمن) آف جرمن نے 375صفحات پر مشتمل، بعنوان خالص اسلام کی سرزمین میں، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے مابین مکتب تشیع " کے ذیل میں مفکر اسلام سید جوادنقوی کے افکار پر ایک تحقیق شائع کی ہے، اسکے ٹائٹل پر "ولایت فکری، تعلیمی و تربیتی کارگاہ عروۃ الوثقیٰ "برسئ امام خمینی نشترپارک" میں سید جواد نقوی کے خطاب کے پوسٹر کی تصویر لگی ہے۔

کتاب کی تفصیلات

اس کتاب کی قیمت 65ڈالر جو پاکستانی 10000/ دس ہزار روپے بنتے ہیں۔ اس تحقیق کا عنوان ہے: خالص اسلام کی سرزمین میں، پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں مکتبِ تشیع! In a Pure Muslim Land shIʿIsM between Pakistan and the MIddle east اسکے صفحہ 146 سے استادمعظم کے بارے فصول بندی کی ہے۔ اب نتیجۃً و مختصراً یہ کہ مفکر عالم اسلام سید جواد نقوی کو دوسری دنیا نے مغزِ متفکرِ تشیّع، مسلم فیلسوف اور امام خمینی کے بعد ایک اور "عالمی و آفاقی مفکرِاسلامی" تسلیم کر لیا ہے، اور انکی آواز عالمی اداروں تک پہنچ گئہ ہے اور ڈاکٹر سائمن کا کہنا ہے کہ اگر سید جواد نقوی نے شیعہ اور مسلم معاشرے میں یہ آگاہی جاری رکھی تو انقلابِ اسلامی ایران کے بعد مسلمانوں کے مقابلہ مزید مشکل ہو جائیگا چونکہ انکی تعلیمات، نظریات اور انکے افکار درحقیقت وہی افکارِخمینی ہیں جو شیعوں کو انکے مقدس واقعہ کربلا کے نظریہ سے منسلک کر رہا ہے۔

محقق ڈاکٹر سائمن کون

زیر نظر ریسرچ لکھنے والا ڈاکٹر سائمن آف جرمن جو کہ غیر مسلم یے اور مشرقی علوم میں PHD کے بعد امریکی یونیورسٹی آف نارتھ کیرو لائنا میں مسلمانوں کے متعلق تحقیقات کا مسول ہیں۔ اس تحقیق کیلئے 2012 کو پاکستان آیا تھا اور یہ پچھلے دو سالوں میں فیلڈ ورک کی خاطر خود مصر، ہندوستان، ایران، عراق، تیونس، لبنان اور پاکستان آیا۔ انکا جدید عصری مسلم معاشروں میں کام عربی ، فارسی اور اردو زبان میں مواد پر مبنی ہے۔ [8] پر دیا ہے کہ اس وقت میں دو نئے منصوبوں پر کام کر رہا ہوں۔ 01۔ ایرانی انقلاب کے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں اسلام پسندوں اور بائیں بازو کی تحریکوں میں انقلابی فکر کےعالمی اثرات 02۔ طویل المیعاد پروجیکٹ، 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران اہل سنت اسلامی مکتبہ قانون (مدحیب) کی ہٹتی ہوئی تقدیر کا تقابلی مطالعہ

جامعہ العروة الوثقیٰ میں سید ابراہیم رئیسی اور ہوائی سانحہ کے دیگر شہداء کیلئے تعزیتی مجلس

مقررین کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور صدر ابراہیم رئیسی کے فلسطین کے متعلق دو ٹوک موقف لائق تحسین ہے اور امید ہے کہ شہید رئیسی کے بعد آنی والی قیادت اسی راہ کو جاری رکھیں گے اور دیگر مسلم حکمران بھی اسی راہ کو اپنائیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے مرحوم صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور ہوائی سانحہ کے دیگر شہداء کیلئے حوزہ علمیہ جامعۃ عروة الوثقیٰ لاہور میں تعزیتی مجلس منعقد ہوئی، جس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام، دانشور حضرات، مشائخ اور ایرانی قونصل خانہ پاکستان کے وفود نے شرکت کی۔ مقررین میں علامہ سید جواد نقوی، مولانا امیر حمزہ، پیر سید محمد حبیب عرفانی، پیر شمس الرحمان مشہدی، مولانا جاوید احمد قصوری، ڈاکٹر میر آصف اکبر، ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ڈاکٹر رضا مسعودی و دیگر شامل تھے۔

سید جواد نقوی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ آیت الله سید ابراہیم رئیسی نے اپنی صدارت کے مختصر عرصے میں نہ صرف ملت ایران کی خدمت کی بلکہ اپنے انقلابی جذبے سے اسلام ناب محمدی (ص) کے عالمی مشن کو بھی بھر پور طریقے سے آگے بڑھایا۔

سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ و صہیونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کا محاذ ہو یا غزہ کے مظلومین کی مدد، آپ ہر محاذ پر صف اول میں نظر آئے اور اپنی دینی، انسانی اور اخلاقی ذمہ داری آخری دم تک ادا کی۔ مجلس ترحیم میں مقررین کا کہنا تھا کہ آیت اللہ سید صدر ابراھیم رئیسی فقط ایران کے صدر نہیں، بلکہ عالم اسلام کے لیڈر اور امت مسلمہ کے قیمتی سرمایہ تھے۔

جن سے امت محروم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی نے پہلے بھی حق و صداقت کی راہ میں کافی قربانیاں دی ہیں، جن کی بدولت دشمن نظام اسلامی کو کمزور کرنے میں ناکام رہا اور اب بھی وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا [9]۔

حسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ اسرائیل کا صفحۂ ہستی سے محو ہو جانا ہے

تحریک بیداری کے سربراہ کا ریلی سے خطاب میں کہنا تھا کہ دنیا کے تمام باہمت انسان حزب اللہ، حماس اور غزہ کیساتھ کھڑے ہیں اور یہ پیغام جلد ہی عالمی سطح پر پھیل جائے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سید حسن نصراللہ کی شہادت پر، امریکہ اور سفاک صیہونی ریاست کیخلاف پنجاب اسمبلی سے امریکی قونصلیٹ تک "شہید راہ قدس ریلی" نکالی گئی۔

جس کا اہتمام تحریک بیداری امت مصطفی اور حامیان مظلومین فلسطین نے کیا تھا۔ ریلی میں مرد و زن، بچے بوڑھے اور جوان اپنے خاندان سمیت شریک ہوئے جنہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور وہ بزدل دشمن سے اپنی بیزاری و نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ تحریک بیدارئ امت مصطفی کے سربراہ سید جواد نقوی نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم شہادت کے صدقے جرثومۂ ظلم و ستم و فساد اسرائیل جلد ہی صفحۂ ہستی سے محو ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک لاکھ شہادتوں کا بدلہ چند اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت سے نہیں لیا جا سکتا، بلکہ اصل جواب اسرائیل کا مکمل صفحۂ ہستی سے مٹنا ہے، جیسا رہبر معظم نے فرمایا ہے کہ اس جنگ کا فیصلہ حزب اللہ نے کرنا ہے اور وہ روحیہ، حوصلہ اور جذبہ ان مجاہدین کے اندر اب پہلے سے زیادہ قوت و شدت سے موجود ہے۔

سید جواد نقوی نے کہا کہ دنیا کے تمام باہمت انسان حزب اللہ، حماس اور غزہ کیساتھ کھڑے ہیں اور یہ پیغام جلد ہی عالمی سطح پر پھیل جائے گا، آنیوالے دنوں میں غیرت مند لوگ اپنی ملتوں کا پیغام اپنے اجتماعات، ریلیوں، اور جلوسوں کے ذریعے اپنے حکمرانوں، امریکہ اور اسکی ناجائز اولاد کو پہنچا کر ثابت کر دینگے کہ امام خمینی کی آرزو کے مطابق اسرائیل کے مٹ جانے کا لمحہ آگیا ہے اور اس کیلئے تمام اسباب مہیا ہو رہے ہیں، یہ شہادت موجب بن رہی ہے کہ لوگ جو پہلے اس عمل کیلئے آمادہ نہیں تھے، اب آمادگی ظاہر کریں گے اور ان کیساتھ ہم بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہماری ملت ظلم کیخلاف قیام کیلئے تیار ہے، ہر بچہ، ہر بزرگ، ہر فرد اس فریضے کے تحت آمادہ ہے۔

سید جواد نقوی نے مزید کہا کہ وہ عظیم دن جس نے مسلمانوں پر جہاد اور شہادتوں کا راستہ کھولا ہے سات اکتوبر ہے۔ اس دن امت کو اپنی غفلت کی تلافی کرنی چاہیے اور امام خمینی کی تاکید کے مطابق فلسطین سمیت اسلامی سرزمینوں کی آزادی کے راستے خیانت کار حکمرانوں سے الگ کر لینے چاہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ امت اسلامیہ اس دن مذہب، نسل، یا فرقہ کی تفریق سے بالاتر ہو کر ذلت کا طوق گردن سے اتار پھینکے اور حماس کے شروع کردہ "طوفان الاقصی" کو عالمی سطح پر ایک تحریک کی شکل میں ڈھال دیں [10]۔

پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی مضبوطی، عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے

تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ پاکستان کے سربراہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پاکستان کو مشکلات میں ڈال کر غاصب صیہونی لابی اپنے مقاصد پورے کر رہی ہے، کہا کہ پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی مضبوطی، عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق، تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں دو اہم پہلو نمایاں ہیں: ایک، اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے ہونے والی جنایت اور دوسری، مسلمان ممالک کی خیانت، دن دہاڑے اس قدر بڑا ظلم سب کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے اور اسلامی ممالک بے بس و لاچار بنے بیٹھے ہیں۔

ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، مراکش اور دیگر ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا، خاص طور پر آل سعود جیسے خیانت کار، جو ابتداء سے مسلمانوں کی طاقت کو تقسیم کرنے اور اقصیٰ اور فلسطین کے معاملے میں خیانت کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، مکمل خاموش ہیں۔ ان کی طرف سے نہ کوئی سفارتی کوشش کی جا رہی ہے، نہ مذاکرات، نہ دباؤ، نہ احتجاج، اور نہ ہی اقوام متحدہ میں کوئی مؤثر اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔

یہ جنگی جرائم کا آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے باوجود انتہائی بے شرمی سے اسرائیل کو دو ریاستی حل کی پیشکش کر رہے ہیں، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کھل کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بنا کسی تردید کے سعودی عرب کے ساتھ جلد تعلقات نارملائز کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ جواد نقوی نے مزید کہا کہ عرب ممالک پر مشتمل صیہونی گروہ، اسلامی مزاحمت کے امریکہ و اسرائیل سے سے بھی بڑے دشمن ہیں جو مزاحمت کی ناکامی تک جنگ کے خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، یہی انسانی المیے میں امریکہ و اسرائیل کے سرمایہ کار ہیں، چونکہ ان کے منصوبے اور مفادات ہی خطے میں مزاحمتی تحریکوں کے خاتمے سے وابستہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی بارڈر سے محض 40 میل دور بن سلمان کے افسانوی شہر نیوم کی تعمیر، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی حسرت اور وژن 2030ء کے تحت سرزمین حجاز کی حرمت پامال کرنے کے منصوبے اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب حماس اور حزب اللہ ناکام ہوں، چونکہ اگر حماس اور حزب اللہ کو اس جنگ میں کامیابی ملتی ہے تو یہ کھوکھلی حکومتیں ختم ہو جائیں گی اور ان کے عوام خود انہیں عبرت کا نشان بنائیں گے۔

سید جواد نقوی نے مزید کہا کہ پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی ہوئی مضبوطی بھی عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے۔ فلسطین کی حمایت کا کمزور ہونا، فلسطین کا نام لینے والوں کو ہراساں کرنا اور احتجاج کو جرم سمجھا جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں یہ تمام اقدامات صیہونی منصوبوں کے نفاذ کا حصہ ہیں، جس کے نتیجے میں، پاکستان تاریخی طور پر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود آج اس سے بیگانہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طاقتور صیہونی لابی پاکستان کو اقتصادی و سیاسی مشکلات میں گھیر کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہے [11]۔

پارا چنار کی شیعہ سنی مذہبی قیادت،طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ دہشت گردی کا فتنہ دونوں ہی کے خلاف ہے

سید جواد نقوی نے سانحہ پاراچنار پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارا چنار کی شیعہ اور سنی مذہبی قیادت، طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ دہشت گردی کا فتنہ دونوں ہی کے خلاف ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ سید جواد نقوی نے پاراچنار سانحے پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاراچنار کی صورتحال یہ ہے کہ معمولی حادثہ بھی وہاں بڑا بحران ایجاد کر دیتا ہے۔ اساتذہ کے بہیمانہ و سفاکانہ قتل کے افسوسناک واقعہ میں بھی یہی مدنظر تھا کہ بڑی سطح پر ایک اشتعال آور کارروائی کی جائے جس کے بعد لوگ مشتعل ہو کر جوابی کارروائیاں کریں گے اور اس بدامنی میں دہشت گرد داخل ہو کر اپنی کارروائیاں کریں گے جو پہلے قوم کی قربانیوں اور افواج پاکستان کی محنت سے ملک سے باہر نکالے گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بعض نا عاقبت اندیش، خیانت پیشہ اقتدار پسند مجرمین اور بعض ریاستی اداروں کے اندر موجود ناپاک عناصر کی خیانت سے دوبارہ افغانستان سے پاکستان میں جدید ترین نیٹو اسلحے سمیت اور باقاعدہ دعوت ناموں کے ذریعے واپس لائے گئے ہیں۔ سید جواد نقوی نے کہا کہ ہر چند بظاہر یہ حوادث اتفاقی نظر آتے ہیں لیکن یہ اتفاقی نہیں ہیں ان کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ موجود ہے اور اگر اسے ملکی اور خطے کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو اس طرح کے واقعات پیش بینی شدہ تھے۔

انہون نے کہا کہ اس وقت ملک کے اندر ہمہ گیر اور شدید قسم کا سیاسی، معاشی اور امنیتی بحران ایجاد کر دیا گیا ہے، عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس بیچ ملک میں دہشت گردوں کے سلیپنگ سیل افغانستان کے حالات میں تبدیلی کی بنا پر دوبارہ متحرک ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اندر ان کے سہولت کار اور ان کے مختلف دھڑے اور جتھے مختلف مسجدوں اور مدرسوں میں اپنی طاقت بحال کرنے میں مصروف ہیں۔

ان دہشت گردوں نے پہلے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کے خطرے کو بھانپ کر ان سے معائدے کئے جائیں اور ملک افغانستان کی طرح پرامن طریقے اور مذاکرات کے ذریعے ان کے حوالے کر دیا جائے اور وہی سارے طبقات اور ٹیمیں جنہوں نے افغانستان میں کردار ادا کیا تھا وہ سارے پاکستان میں ابھی فعال ہیں۔

وہ ظلمے خلیل زاد ہو، پاکستان کے اندر ان کے حمایتی و سہولت کار ہوں، عرب دنیا و عالمی سطح پر انکے حمایتی ہوں سب اس وقت پاکستان کے اوپر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، اب جبکہ تمام دہشت گرد واپس پاکستان لاکر مختلف ٹھکانوں میں بٹھا دیئے گئے ہیں جن کا گلگت بلتستان، پارا چنار، سوات، وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر پشاور تک اثر رسوخ ہے

جہاں پولیس کو مکمل طور پر بے اثر کر دیا ہے جو اپنی حفاظت تھانوں کے اندر کرنے سے بھی قاصر ہے ایسے میں ایک ایک کر کے ان علاقوں میں یہ اپنا تسلط جمانے میں مصروف ہیں ۔ انہوں نے تاکید کی کہ یہاں پر ضرورت ہے کہ پاراچنار کے تمام شیعہ سنی عوام مل کر اس فتنے کو بھانپیں اس کی جڑوں کو پہچانیں کہ یہ ایک بڑے بحران کے لیے پیش خیمہ بنایا جا رہا ہے۔ پارا چنار کی شیعہ سنی مذہبی قیادت، طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ یہ فتنہ دونوں ہی کے خلاف ہے۔

جواد نقوی نے کہا کہ دھیان رکھیں کہ ملک کے اندر جو فضاء بنی ہوئی ہے اس فضاء میں خدا ناخواستہ کود نہ جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ نقشہ دوسرے بنائیں، میدان دوسرے سجائیں اور ہمیں اشتعال دے کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ انہوں نے تاکید کی کہ بحرانوں کی اس طرح مدیریت کریں کہ وہ اس طرف نہ جائے جدھر دشمن چاہ رہے ہیں یا جدھر یہ فتنہ گر چاہتے ہیں۔ سید جواد نے کہا کہ یہ تجزیہ ہماری مذہبی قیادت کے پاس علاقائی طور پر بھی ہونا چاہیئے ان کی نگاہ ملکی حالات پر ہونی چاہیئے یہ نہ ہو کہ فقط لوکل مسائل میں الجھے رہیں اور جو دشمن نے جال بنایا ہے اس میں اتنے کھو جائیں کہ احساس نہ رہے کہ باقی ملک میں اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے کیا تیاریاں ہو رہی ہیں اسلئے ہوشیاری و بیداری کے ساتھ ان کے فتنے کو اسی نطفے میں ناکام بنا دیں

بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس موقع پر شیعہ سنی دونوں مل کر اس فتنے کا مقابلہ کریں دہشت گردوں کو علاقے میں داخل نہ ہونے دیں اور اس قسم کی جنایت کرنے والوں کو اتنی سخت سزا دیں کہ پھر تکرار نہ کریں، لیکن یہ مذہبی جھگڑا اور فرقہ واریت نہ بنے اور مسئلے کی نوعیت بھی مذہبی بنیاد پر نہیں ہے۔ در عین حال جو جنایت ہوئی ہے۔

اس کے عاملوں کو اتنی سخت سزا دیں کہ پھر یہ تکرار نہ ہونے پائے چونکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ باقی ملک کے اندر جو ماحول ہے وہ پاراچنار کے حالات کے اوپر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اس وقت ملک جس سطح پہ چلا گیا ہے وہاں اس طرح کے فتنے بڑا بحران کھڑا کر سکتے ہیں۔ ان گندے اور ننگے سیاستدانوں نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ملک کو جس حالت میں پہچا دیا ہے وہ صورتحال سب کے مد نظر رہے [12]۔

حوالہ جات

  1. سید عارف حسین نقوی، تذکره علمای امامیه پاکستان، ۱۳۷۰ش ص۱۱۲
  2. فرمان علی سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۰
  3. سید مقاومت پاکستان سید جواد نقوی، blogfa.com
  4. mashrabenaab.com
  5. islamimarkaz.com
  6. حسن عسکری نقوی، شجرہ طیبہ کی چند سرسبز و شاداب شاخیں، blog.ir
  7. سایت اسلامی مرکز، islamimarkaz.com
  8. اس نے اپنی سائٹ https://www.frias.uni-freiburg.de/…/f…/current-fellows/fuchs
  9. جامعہ العروة الوثقیٰ میں سید ابراہیم رئیسی اور ہوائی سانحہ کے دیگر شہداء کیلئے تعزیتی مجلس-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 24 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 جون 2024ء۔
  10. حسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ اسرائیل کا صفحۂ ہستی سے محو ہو جانا ہے، علامہ جواد نقوی- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 29 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2024ء۔
  11. پاکستان میں صیہونیت کی بڑھتی مضبوطی، عرب ممالک کے اثر و رسوخ کا نتیجہ ہے، علامہ سید جواد نقوی-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 21 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 اکتوبر 2024ء۔
  12. پارا چنار کی شیعہ سنی مذہبی قیادت،طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ دہشت گردی کا فتنہ دونوں ہی کے خلاف ہے، علامہ سید جواد نقوی-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 6 مئی 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 نومبر 2024ء۔