لبنان

ویکی‌وحدت سے
لبنان
Flag of Lebanon.svg
سرکاری ناملبنان
پورا نامجمہوریہ لبنان
طرز حکمرانیوفاقی جمہوریہ
دارالحکومتبیروت
مذہباسلام اور عیسائیت
سرکاری زبانعربی

لبنان ایک جمہوری ملک ہے جو مشرقی وسطیٰ اور بحیرہ روم کے مشرقی جانب واقع ہے۔ یہ ملک چھوٹا، خوبصورت اور پہاڑی ہے۔ اس کی سرحد شمال اور مشرق سے شام اور جنوب سے اسرائیل سے ملتی ہے۔ لبنان کا جھنڈا دیودار کے ایک سبز درخت کی شکل میں ہے جس کے درمیان ایک سفید پس منظر ہے جس کے اوپر اور نیچے دو سرخ سرحدیں ہیں۔ خصوصی نسلی اور سماجی ڈھانچے کے مطابق، لبنان کا ایک خاص ڈھانچہ اور سیاسی نظام ہے، اور سیاسی طاقت مختلف نسلوں اور مذاہب میں تقسیم ہے۔

لبنان کی پرانی تاریخ

اس ملک کی تاریخ 50000 قبل مسیح تک جاتی ہے۔ موجودہ لبنان سرزمین بابل میں شامل تھا، جسے قدیم ترین انسانی قوموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس ملک نے بحیرہ روم کے ساحل پر رہنے والے فونیشینوں کی میزبانی کی ہے۔ ایران کے بادشاہ سائرس کے بابل پر قبضہ کرنے کے بعد، اس سرزمین پر دو صدیوں تک ایرانیوں نے حکومت کی ، لیکن سکندر اعظم ایرانی فوجوں کے ساتھ جنگ جیتنے میں کامیاب رہا اور صور شہر کو فونیشینوں کا دارالحکومت بنا دیا۔ اس ملک پر کئی صدیوں تک ایرانیوں، مقدونیوں، رومیوں، بازنطینیوں، عربوں ، صلیبیوں اور عثمانیوں کی حکومت رہی۔ 400 سال تک لبنان عثمانی سرزمین کا حصہ تھا (جس علاقے کو گریٹر شام کہا جاتا ہے)۔

لبنان فرانس کے زیر نگیں

1916ء میں، یہ علاقے فرانسیسی خودمختاری کا حصہ بن گئے تھے ( پہلی جنگ عظیم کے دوران )۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد شام اور موجودہ لبنان فرانس کے زیر تسلط تھے۔ یکم ستمبر 1926 کو فرانس نے جمہوریہ لبنان قائم کیا۔ یہ جمہوریہ شام کا الگ حصہ تھا اور اس پر فرانسیسیوں کا غلبہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ، برطانیہ نے نازی جرمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے شام اور لبنان میں فوج بھیجی تھی۔

فرانس والوں کی سازش

فرانس کے حکمرانوں نے خاص سازش کے تحت اور مسلمان ممالک کی وحدت کو توڑنے کی خاطر 1920ء میں لبنان اور شام کو علیحدہ علیحدہ ملک کی حیثیت دے دی اور بہانہ بنایا کہ انتظامی معاملات مشکل ہو رہے تھے، اس لیے مجبوری میں یہ قدم اٹھانا پڑا ہے۔ فرانس کے حکمرانوں نے اس سلسلے میں ایک گندی حرکت یہ کی کہ شام اور لبنان کی تقسیم خالصتاً مذہبی بنیادوں پر ہو۔ شام میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور لبنان عیسائیوں کے اقتدار میں دے دیا گیا کہ ان دنوں لبنان میں عیسائی اکثریت میں تھے۔ کوئی بیس برس بعد، 26 نومبر 1941ء کو لبنان آزاد ہو گیا۔ لیکن ایک علیحدہ ملک چلانے کے لیے اہل لبنان کو پاور ٹرانسفر نہ کی گئی تھی بلکہ بدستور فرانس والے ہی حکومت کرتے رہے۔ اس سلسلے میں لبنان کے منتخب نمائندوں اور فرانس کی نیشنل کمیٹی آف لبریشن کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت 1944 ء میں اختیارات بتدریج لبنان کو منتقل کر دئیے گئے۔ 1946ء کے اواخر میں فرانسیسی فوجی دستے بھی نکل گئے تھے۔

فرانس سے مکمل آزادی حاصل کرنے کے بعد لبنان میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جسے نیشنل پیکٹ کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت لبنان میں صدر ہمیشہ عیسائی ہوتا ہے، وزیر اعظم سنی اور پارلیمنٹ کا سپیکر شیعہ ۔ یہ سلسلہ برسہا برس سےبہ نحو احسن چل رہا ہے لیکن اس دوران کئی بار بغاوتیں بھی پھوٹ پڑی ہیں اور تصادم بھی ہوا ہے۔

آزادی

نومبر 1941ء میں اندرونی اور بیرونی دباؤ کے تحت فرانس کے جنرل چارلس ڈوگال نے فرانس سے لبنان کی آزادی کو تسلیم کر لیا اور دو سال بعد نومبر 1943 میں انتخابات کے انعقاد کے بعد لبنان کی نئی حکومت نے کام شروع کیا اور 22 نومبر کو باضابطہ طور پر اس کا قیام عمل میں آیا۔ 1943ء میں لبنان کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ فرانس کے آخری فوجی 1946 ء میں لبنان سے نکلے تھے۔ 1943ء سے ایک غیر تحریری قومی معاہدے کے مطابق صدر کا انتخاب عیسائیوں میں سے اور وزیراعظم کا انتخاب مسلمانوں میں سے ہوتاہے۔

خانہ جنگی

1975ء میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور یہ 15 سال تک جاری رہی اور اس نے بہت سے انسانی، معاشی اور سیاسی نقصانات چھوڑے اور لبنان کو ایک امیر اور ترقی یافتہ ملک سے ایک ضرورت مند اور غریب ملک میں تبدیل کردیا تھا۔ خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تخمینہ 150,000 سے 200,000 کے درمیان ہے۔ یہ جنگ 1990ء میں طائف امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ ختم ہوئی۔ جنگ کے دوران، عسکریت پسندوں اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ارکان (جو ستمبر 1972 میں بلیک فرائیڈے کے بعد لبنان میں رہ رہے تھے ) نے اسرائیل پر حملے کے لیے لبنان کا استعمال کیا۔ 1958ء میں لبنان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ مسلمانوں کے دو گروہوں نے (جن میں سے ایک کی رہنمائی کمال جنبلاط کر رہے تھے اور دوسرے کی صا‏ئب سلام) لبنانی عیسا‏ئی صدر کمیل شمعون کے خلاف علم بلند کر دیا۔ اس بغاوت نے لبنان کو معاشی اور سماجی اعتبار سے سخت نقصان پہنچایا۔ جب حالات زیادہ خراب ہوگئے اور کنٹرول کرنے کی کو‏ئی صورت نہ رہی تو مجبورا لبنانی عیسائی صدر کمیل شمعون نے امریکی صدر آئزن ہاور کو امداد کے لیے آواز دی۔ اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکی صدر نے 15 جولائی 1958ء کو امریکی فوجیں لبنان میں داخل کردی۔ جنہوں نے لبنان کی خانہ جنگی کو بھی ختم کردیا اور شمعون کی حکومت بھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی کردی۔

لبنان میں شام کی مداخلت

اس ملک کی خانہ جنگی کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ یہاں کے عیسائی، سنی اور شیعہ مسلمان، دروز اور گنوٹی سزم آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں لیکن سب سے خوفناک اور مہلک خانہ جنگی 1975ء میں ہوئی جس میں مسلمانوں کے دو فرقے آپس میں کشت و خون کرتے رہے۔ اس خانہ جنگی نے 40 ہزار لبنانیوں کو ہلاک کر ڈالا اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو کر ہمیشہ کے لیے اپاہچ ہوگئے۔ یہ خانہ جنگی مارچ 1975ء سے لے کر نومبر 1976ء تک جاری رہی۔ لبنانیوں کے کہنے اور دعوت پر ہمسایہ شام نے اس خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے فوجی مداخلت کی تھی تو اسے بھی بہت دنوں تک لبنان کے اہم شہروں میں خونریز جنگ کرنا پڑی۔ لبنانی خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں لبنانی شہری ہجرت کرکے شام جانے پر مجبور ہوگئے تھے جس نے شام کی معیشت پر خاصے منفی اثرات مرتب کیے۔ شام اس وجہ سے بھی لبنان میں فوجی مداخلت کرنے پر مجبور ہوا تھا کہ چند سال آرام و امن سے گزر جائیں لیکن 1977ء ميں دوبارہ یہاں خانہ جنگی کی آگ لگ گئی جو 1990ء تک جاری رہی۔ تقریبا تیرہ برس کی اس خانہ جنگی نے لبنان کا بھر کس نکال دیا۔اس کے شاندار اور عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارے تباہ ہوگئے اور اس کے اقتصادیات بربادی کے دہانے پر پہنچ گئے [1]۔

لبنان فلسطینی گوریلوں کا مرکز

یہ ملک ایک عرصہ تک فلسطینی گوریلوں کا مرکز رہا ہے۔ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات بھی عرصہ دارز تک یہاں رہے ہیں۔ فلسطینی گوریلا تنظیمیں اور حریت پسند تحریک لبنان کی طرف سے اسرائیل پر حملہ آور ہوتی تھیں۔ ان سے تنگ آکر اسرائیل نے کئی بار لبنان پر حملے کیے اور سینکڑون لبنانی مسلمانوں کو شہید کیا۔ اسرائیل نے لبنان کے خلاف جو ہلاکت خیز جنگیں مسلط کی ہیں، ان میں 1978ء اور 1982ء کی جنگیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی جنگ کے دوران اسرائیل حملہ آور ہو کر لبنان کے خاصے حصے پر قابض ہو گیا تھا اور جون میں اقوام متحدہ کی وجہ سے اسرائیل کو واپس آنا پڑا۔ لیکن 6 ہزار امن فوجیں وہاں تعینات کرنا پڑیں جنہیں یونیفیل کا نام دیا گیا۔ جونہی اسرائیلی فوجیں لبنان سے نکلیں تو انہوں نے جاتے جاتے اپنے اڈے یو این او کے دستوں کے حوالے کرنے کی بجائے لبنان کی عیسائی ملیشیا کے حوالے کر دئیے جس نے لبنان کی خانہ جنگی کو ہوا دی۔ اسرائیل نے لبنان پر دوسرا بڑا حملہ 6 جون 1982ء کو کیا۔ بہانہ یہ تھا کہ فلسطینی اور لبنانی گوریلوں نے لبنان میں تعینات اسرائیلی سفیر کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ 80ء کےعشرے میں لبنان فلسطینی حریت پسندوں کا مرکز رہا ہے۔ اس لیے بھی اسرائیل بار بار لبنان پر حملے کرتا رہا جس کی وجہ سے سینکڑوں فلسطینی مار ڈالے گئے۔ ان حملوں کی وجہ سے سات ہزار کے قریب فلسطینی مہاجر یہاں سے مزید ہجرت کا عذاب سہتے ہوئے ہمسایہ عرب ممالک میں منتقل ہوگئے۔ 14اگست 1982ء کو لبنان کے نوجوان منتخب عیسا‏ئی صدر بشیر جمائل، جن کی عمر 34 برس تھی، کار بم دھماکے میں ہلاک کر ڈالے گئے [2]۔

اسرائیل کا لبنان پر پہلا حملہ

اس ملک پر اسرائیل نے 1978ء اور 1982ء میں دو بار حملہ کیا اور اس پر قبضہ کیا۔ اسرائیل نے 2000 تک جنوبی لبنان کے بڑے حصے پر کنٹرول کیا تھا جس کے بعد اسے لبنان سے دستبردار ہونا پڑا۔ اسرائیلی افواج کا انخلاء لبنانی حزب اللہ اسلامی مزاحمتی تحریک کی مزاحمت کا نتیجہ تھا ، جو 1982 میں ایک اہم اور بااثر فوجی، سیاسی اور سماجی قوت کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 425 کے مطابق اسرائیل کو لبنان سے نکل جانا چاہیے تھا لیکن 18 سال تک غاصبانہ قبضہ جاری رکھا۔ شبہ فارمز اب بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔

لبنان کا سیاسی پس منظر

لبنان کی تاریخ بھی عالم اسلام کے دوسرے مسلمان ممالک کی طرح ہے جس میں مغربی اور یورپی سامراج نے ملت اسلامیہ کو اپنا غلام بناکر اسے جی بھر کر لوٹا۔ لبنان کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے حصے بخرے ہوئے فرانس نے اس پر قبضہ کرلیا۔ حالانکہ اس وقت لبنان بطور ایک علیحدہ ملک نہیں بلکہ شام کا ایک صوبہ تھا جس کی نگرانی سلطنت عثمانیہ کے پرچم تلے تھی۔ جنگ عظیم اول کے بعد لیگ آف نیشنز کے ایک حکم کے تحت لبنان کو باقاعدہ فرانس کے زیر نگیں کردیا گیا۔

خصوصیات

اس ملک میں خانہ جنگیوں (1990-1975) سے پہلے، لبنان ایک پرامن اور خوبصورت ملک تھا، اور اس کا دارالحکومت، بیروت ، مشرق وسطیٰ کی دلہن کے طور پر جانا جاتا تھا، اور سیاحت ، زراعت ، اور بینکنگ سے ملک کی آمدنی اچھی تھی۔ بیروت کو عرب دنیا کا بینکنگ دارالحکومت سمجھا جاتا تھا اور اسے مشرق وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا تھا۔ قدرتی حسن اور اچھی سیکورٹی نے خانہ جنگیوں سے پہلے لبنان میں غیر ملکی سرمائے کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا اور بیروت کو مشرق وسطیٰ کا پیرس بھی کہتے تھے۔

محل وقوع

یہ ملک ایشیا کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ہے اور اس کا بحیرہ روم کے ساتھ 225 کلومیٹر طویل ساحل ہے۔ لبنان کی شام کے ساتھ 375 کلومیٹر اور اسرائیل کے ساتھ 79 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ لبنان کی جنوبی سرحد کا ایک حصہ اب بھی اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ لبنان کا رقبہ 10,452 مربع کلومیٹر ہے اور رقبے کے لحاظ سے یہ دنیا کے ممالک میں 166 ویں نمبر پر آتا ہے۔ لبنان میں بحیرہ روم کی آب و ہوا ہے جس میں سرد اور برساتی سردی اور گرم اور مرطوب گرمی ہوتی ہے۔ یہاں بارش اور برف باری کی مقدار زیادہ ہے۔ لبنان کے مغربی پہاڑوں کے مقابلے مشرقی اور شمالی حصوں میں سمندر سے دوری کی وجہ سے کم بارشیں ہوتی ہیں۔ لبنان میں دیودار کے درختوں کے وسیع جنگلات ہیں، جو لبنان کی قومی علامت بن چکے ہیں۔

لبنان کے صوبے اور اضلاع

لبنان میں 6 صوبے اور 25 اضلاع شامل ہیں اور ہر علاقہ کئی علاقوں میں تقسیم ہیں، جن میں کئی شہر اور دیہات بھی شامل ہیں۔ لبنان کے صوبوں میں صوبہ بیروت، صوبہ بیکا (جس میں ہرمل، بعلبیک ، ظہلیہ، مغربی بیکا اور رئیسہ شامل ہیں)، صوبہ نباتیہ ( جیبل امیل ) شامل ہیں، جس میں نباتیح، حسبیہ، مرجعون اور نبیت شامل ہیں۔ شمالی صوبے (الشمال) میں 7 اضلاع عکر، طرابلس، زغرتہ، بشریٰ، البطرون، الکورا اور المنیہ شامل ہیں، اور جنوبی صوبے (الجنوب) میں سیدہ، طائر اور جیزین شامل ہیں۔ اور صوبہ ماؤنٹ لبنان (جبل البنیہ) میں جمیل، کسروان، متن بابدہ، عالیہ اور الشمف شامل ہیں۔

آبادیاتی - مذہبی ڈھانچہ

سیاسی اور مذہبی حساسیت کی وجہ سے لبنان میں 1932 تک کوئی سرکاری مردم شماری نہیں کی گئی۔ تازہ ترین اعدادوشمار (جولائی 2006) کے مطابق لبنان کی آبادی 4،196،253 کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ لبنان کی آبادی کا 60% مسلمان ( سنی ، شیعہ ، دروز اور علوی ) اور 40% عیسائی (زیادہ تر مارونائٹ ، یونانی آرتھوڈوکس ، یونانی کیتھولک ، آشوری، اور اریزی) ہیں۔ لبنان میں کردوں کی ایک چھوٹی سی آبادی بھی ہے جو شمالی شام اور جنوب مشرقی ترکی سے ہجرت کر کے آئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 75,000 سے 100,000 کے درمیان لوگ سنی علاقوں میں رہتے ہیں۔ کرد حالیہ برسوں میں لبنانی حکومت کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ شیعہ لبنان کا سب سے بڑا فرقہ ہے۔ لبنانی نژاد تقریباً 16 ملین لوگ پوری دنیا میں رہتے ہیں۔ برازیل میں لبنانی کمیونٹیز سب سے زیادہ ہیں۔ ارجنٹائن، آسٹریلیا، کینیڈا، کولمبیا، فرانس، انگلینڈ، میکسیکو، وینزویلا، اور ریاستہائے متحدہ میں بڑی لبنانی کمیونٹیاں ہیں۔ لبنان میں 1948 سے تقریباً 400,000 فلسطینی پناہ گزین رہ رہے ہیں۔

ثقافت اور زبان

اپنی خاص سماجی ساخت اور مختلف نسلوں اور مذاہب کے وجود کی وجہ سے، لبنان میں متنوع اور مختلف ثقافتیں ہیں۔ عیسائی اکثر خود کو غیر عرب سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی ثقافت انہی اختلافات اور امتیازات سے جنم لیتی ہے۔ لبنان کو مغرب اور مشرق کی دو ثقافتوں کے درمیان ایک چوراہا سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ لبنان کی موجودہ ثقافت کی واضح تصویر ہے: مسلم، عیسائی، عرب اور آرمینیائی ثقافت کا مرکب ۔ لیکن لبنان میں غیر عرب ایسے ماحول میں پیدا ہوتے اور پروان چڑھتے ہیں جو مکمل طور پر عرب جدلیاتی ماحول ہے۔ زبان ، موسیقی ، فن اور ثقافت کے شعبے سے متعلق دیگر مسائل اگرچہ مختلف ہیں، لیکن وہ رواداری کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ اگرچہ آج کے لبنانی نوجوان کی شکل مغربی اور جدید ہے اور وہ مشرق وسطیٰ کی روایات سے مختلف ہے۔ لیکن وہ اب بھی متحدہ لبنان کے وفادار ہیں۔ لبنان کی موجودہ ثقافت فونیشین، یونانیوں، اشوریوں، ایرانیوں، رومیوں، عربوں اور عثمانی ترکوں کی کئی ہزار سالہ ثقافت کا ایک کرسٹلائزیشن ہے اور پچھلی چند دہائیوں کے دوران فرانسیسی ثقافت کو بھی اس مجموعہ میں شامل کیا گیا ہے۔ لبنان ایک شاہراہ ہے جو یورپ کو مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کو مغرب سے ملاتی ہے اور لبنان کی سرکاری زبانیں عربی اور فرانسیسی ہیں۔

سیاسی نظام

اس ملک کا سیاسی نظام پارلیمانی ہے۔ لبنان میں پارلیمانی نظام اس ملک کی مخصوص فرقہ وارانہ، سماجی اور مذہبی صورت حال سے متاثر ہے۔ یہ نظام اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ تمام نسلی گروہوں اور مذاہب کو سیاسی طاقت میں حصہ ملے۔ اس معاہدے کے مطابق صدر کا انتخاب میرونائٹ عیسائیوں میں سے، وزیراعظم کا انتخاب سنیوں میں سے، پارلیمنٹ کے اسپیکر کا شیعہ اور نائب وزیراعظم کا انتخاب قدامت پسند عیسائیوں میں سے ہوگا۔ لبنانی پارلیمنٹ کی 128 نشستیں ہیں، جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان برابر تقسیم ہیں۔ یہ معاہدہ طائف معاہدے (1990) کا نتیجہ ہے جس نے لبنان میں خانہ جنگیوں کا خاتمہ کیا۔ اس معاہدے سے پہلے سیاسی اقتدار میں عیسائیوں کا حصہ مسلمانوں سے زیادہ تھا۔ پارلیمانی انتخابات ہر چار سال بعد ہوتے ہیں اور جیتنے والی پارٹی یا اتحاد کی طرف سے نامزد کردہ شخص، وزیر اعظم بنتا ہے۔ لبنان کے صدر کو 6 سال کی مدت کے لیے پارلیمنٹ منتخب کرتی ہے۔ تاہم، الیاس ہاروی (1995) اور ایمل لاہود (2004) کی صدارتی مدت میں 3 سال کی توسیع کرتے ہوئے اس مسئلے کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ لبنان کی عدالتی تقسیم نپولین قوانین (فرانسیسی عدالتی نظام) کے تابع ہے، لیکن مختلف مذاہب میں سے ہر ایک کی شادی ، طلاق وغیرہ سے متعلق قوانین کے حوالے سے اپنی عدالتیں ہیں۔

سیاسی جماعتیں

اس ملک کے سیاسی جماعتیں مندرجہ ذیل ہيں:

  • سعد حریری کی قیادت میں مستقبل کا گروپ؛
  • ترقی پسند سوشلسٹ پارٹی جس کی قیادت ولید جمبلات (دروز کے نمائندہ) کر رہے ہیں؛
  • سابق جنرل مائیکل عون کی قیادت میں آزاد محب وطن تحریک (ان کے حامی زیادہ تر شمالی اور ماتان کے علاقے کے عیسائیوں میں سے ہیں اور انہیں سلیمان فرانجیہ اور شیل مور کی حمایت حاصل ہے، جو دو ممتاز عیسائی سیاستدان ہیں)؛
  • اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ 1982 میں قائم ہوئی تھی اور اس میں بنیادی طور پر جنوبی لبنان کے شیعہ شامل ہیں۔ سید عباس موسوی،حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل 1992 میں اسرائیلی دہشت گردانہ حملے میں شہید ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد سے سید حسن نصر اللہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ حزب اللہ کے حامیوں کے اثر و رسوخ اور موجودگی کے علاقے زیادہ تر جنوب اور بیکا (مشرقی لبنان) اور عالیہ (صوبہ لبنان میں) ہیں۔
  • امل تحریک کو سیکرٹری جنرل نبیہ بری سے امید ہے جو کئی سالوں سے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ہیں۔ امل تحریک لبنان میں شیعوں کے ایک حصے کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ امل تحریک کا حزب اللہ سے گہرا تعلق ہے۔

33 دن کی جنگ

حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان 33 روزہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حزب اللہ نے لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر واقع اسرائیلی بیس پر حملہ کیا جس میں تین اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو دیگر فوجیوں کو یرغمال بنا لیا گیا اور اسرائیل کا ردعمل لبنان پر زبردست فضائی حملہ تھا۔ اسرائیل نے غیر آباد علاقوں کو تباہ کرکے اور لبنان کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرکے جنگ کی مساوات کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی۔ جنگ کے دوران، اسرائیل نے بیروت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے، کارخانوں، سڑکوں اور بیروت کی بندرگاہ، اور بیروت کے جنوب میں رہائشی علاقوں کے ساتھ ساتھ جنوب اور مشرق کے قصبوں اور دیہاتوں پر بمباری کی۔ اس جنگ میں تقریباً 1200 لبنانی شہید ہو گئے، 4400 زخمی اور 000 300 افراد بے گھر ہو گئے۔ قرارداد 1701 کی منظوری کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور 14 اگست 2005 کو جنگ کا خاتمہ ہوا۔ زمینی محاذوں پر حزب اللہ کے جنگجوؤں کی مزاحمت اور استقامت اور 000 40سے زیادہ لانچنگ۔ اسرائیل کے شمالی علاقوں پر راکٹوں نے حزب اللہ کو، ایک عرب قوت اور تحریک کے طور پر، شمالی اسرائیل اور خاص طور پر اہم اور اقتصادی شہر حیفہ کو خوف اور عدم تحفظ میں ڈال دیا۔ جنگ کا نتیجہ ایک ایسی فوج کی شکست تھی جو اس آپریشن سے پہلے ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ کرتی تھی۔ لبنان میں سیاسی تنازعات اب بھی جاری ہیں، اور حریری کے قتل اور لبنان کے لیے نئے صدر کے انتخاب نے سیاسی منظر کو اب بھی سوگوار رکھا ہوا ہے۔ لبنان میں سیاسی اشتعال اور متنازعہ مسائل پر سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے لبنان میں کئی ماہ تک صدر کے بغیر حکومت رہی [3]۔

لبنان میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پوزیشن

اسلامی جمہوریہ ایران کا سرکاری موقف ہمیشہ استحکام، علاقائی سالمیت اور اسرائیل کی زیادتیوں کے خلاف تمام لبنانی قوتوں کے اتحاد کو برقرار رکھنا رہا ہے۔ اسلامی انقلاب کا ظہور ان اسلام پسند اور مزاحمتی قوتوں اور تحریکوں کے لیے ایک الہام تھا جو کئی دہائیوں سے پان عربی اور بائیں بازو اور زیادہ تر سیکولر دھاروں کے حاشیے پر تھے ۔ انقلاب کی فتح کے بعد خطے میں اسلام پسند اور عسکری قوتوں کی پہلی چنگاری 1982 میں لبنانی حزب اللہ اسلامی مزاحمتی تحریک کی تشکیل تھی۔ آج حزب اللہ لبنانی عوام کی قومی مزاحمتی تنظیم بن چکی ہے اور اسرائیل کے قبضے کے خلاف جدوجہد میں تحریک کا شاندار ریکارڈ حزب اللہ کے جنگجوؤں اور لبنانی شیعہ تنظیم کے لیے روحانی سرمایہ بن چکا ہے۔ حزب اللہ کی تشکیل کے بعد سے، اسلامی جمہوریہ ایران نے مزاحمتی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی لڑنے والی افواج کی مسلح حمایت کے علاوہ، یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ حزب اللہ سماجی اور سیاسی میدانوں میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرے۔ اب تک اسلامی جمہوریہ پر اسلامی مزاحمتی تحریک کی حمایت کی وجہ سے امریکہ اور عالمی صیہونیت کی طرف سے دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ 33 روزہ جنگ اور حزب اللہ کی کامیابی اور اسرائیل کی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی اور اس سے پہلے ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ کرنے والی فوج کے خوف کے ٹوٹنے کے بعد، حزب اللہ عوام میں ایک پسندیدہ تنظیم بن گئی ہے۔ آج حزب اللہ ایک بااثر سماجی اور سیاسی قوت کے طور پر عالم اسلام کے عمومی مفادات کو فروغ دینے میں کامیاب رہی ہے ۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران امل تحریک کے ساتھ ایران کے تعلقات قریبی اور اچھے رہے ہیں۔

حوالہ جات

  1. محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنزز، 2007ء، ص23
  2. سید حسین شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک، الباقر پبلی کیشنز اسلام آباد2021ء، ص54
  3. سید شفقت حسین شیرازی، حزب اللہ لبنان، تاسیس سے فتوحات تک، ص262