مندرجات کا رخ کریں

سید علی الحسینی

ویکی‌وحدت سے
سید علی الحسینی
دوسرے نامسید علی الحسینی
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہپاکستان کارفو پی ٹوق، کھرگرونگ، سکردو
وفات1985 ء، 1363 ش، 1404 ق
یوم وفات25 مارچ
وفات کی جگہسکردو بلتستان
مذہباسلام، شیعہ

سید علی الحسینی کا نامِ نامی یا ذکرِ خیر جب بھی آتا ہے، دل عقیدت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ تصور میں تقویٰ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ایک باعمل عالم، شفیق و مہربان اور شریف النفس شخصیت کا نورانی چہرہ ابھر آتا ہے اور نظریں احترام سے خود بخود جھک جاتی ہیں۔ آج چونکہ اس عظیم ہستی کی برسی ہے، تو میں یادوں کی ڈائری کے اوراق پلٹنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ ان کی یاد میں چند باتیں اور واقعات یہاں شیئر کر رہا ہوں [1]۔

سوانح عمری

یہ میری کم سنی کا دور تھا، لیکن مجھے وہ منظر اچھی طرح یاد ہے 25 مارچ 1985ء کا دن تھا۔ میرے والدِ محترم انتہائی پریشانی اور گریہ کی کیفیت میں گھر تشریف لائے اور یہ روح فرسا خبر سنائی کہ "آغا سید علی صاحب انتقال فرما گئے ہیں"۔ یہ خبر ہم سب کو سوگوار کر گئی، بالخصوص میری والدہ صاحبہ کو، جو آغا مرحوم کی انتہائی عقیدت مند تھیں۔ آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ کا عقیدت مند بھلا کون نہیں ہوگا؟

انڈیا، کشمیر، پاکستان اور پوری دنیا میں ان کے چاہنے والے موجود تھے۔ پاکستان بننے کے اتنے عرصے بعد بھی انڈیا تک سے ان کے عقیدت مند ان سے رابطے میں رہتے تھے۔ ہمارے گھر ہی کیا پورا بلتستان، بالخصوص سکردو کے ہر گھر میں ان کا مقام انتہائی اہم اور قابلِ عزت تھا۔ ذاتی طور پر ہمارے والدین کے ساتھ ساتھ ہم تمام بہن بھائیوں سے بھی آغا صاحب بہت پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے۔

ابتدائی زندگی اور دینی مزاج

سید علی الحسینی کی پرورش ایک ایسے دینی و روحانی ماحول میں ہوئی جہاں علم، عبادت اور اخلاق کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ بچپن ہی سے ان میں سنجیدگی، وقار اور عبادت کا ذوق نمایاں تھا۔ وہ کم عمری میں ہی نماز، تلاوتِ قرآن اور دینی مجالس سے خاص شغف رکھتے تھے۔ یہی ابتدائی تربیت آگے چل کر ان کی پوری زندگی کی بنیاد بنی۔

علمِ دین کے حصول میں انہوں نے غیر معمولی شوق اور محنت کا مظاہرہ کیا۔ مطالعہ ان کی زندگی کا مستقل حصہ تھا، اور وہ دینی کتب کے ساتھ ساتھ تاریخ، اخلاق اور سماجی موضوعات میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کا مقصد صرف عالم بننا نہیں تھا بلکہ ایک ایسا انسان بننا تھا جو معاشرے کے لیے نفع بخش ہو۔

علمی مقام اور فکری بصیرت

سید علی الحسینی ایک صاحبِ مطالعہ، صاحبِ بصیرت اور عمیق فکر رکھنے والے عالم تھے۔ ان کی گفتگو میں توازن، دلائل میں پختگی اور انداز میں شائستگی نمایاں ہوتی تھی۔ وہ مسائل کو سطحی انداز میں نہیں بلکہ گہرائی سے سمجھتے اور پھر قرآن و اہلِ بیتؑ کی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی فرماتے۔

ان کی علمی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مشکل دینی مفاہیم کو نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کرتے تھے، تاکہ ہر طبقے کا فرد ان سے استفادہ کر سکے۔ نوجوانوں کے سوالات ہوں یا بزرگوں کے فکری مسائل، وہ سب کے لیے یکساں شفقت اور توجہ رکھتے تھے۔

اخلاقی زندگی

گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان سے متعلق جو بھی کام ہوتا، یا بالخصوص شبِ برات کی شام اماں جی کی جانب سے یہ میری خصوصی ڈیوٹی لگتی تھی کہ سب سے پہلے "نغلسپنگ" جانا ہے اور آغا سید علی صاحب کو تبرک پہنچانا ہے۔ جب میں وہاں پہنچتا تو آغا صاحب چہرے پر مسکراہٹ سجائے کمال شفقت سے مجھے اپنے پاس بٹھاتے، احوال پرسی کرتے، مذاق کرتے (جو ان کی پیاری عادت تھی) اور کچھ کھلائے پلائے بغیر واپس نہیں آنے دیتے تھے۔

مجھے ایک واقعہ اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن اماں جی نے مجھے کہا کہ آغا صاحب کے پاس جاؤ اور انہیں کہنا کہ فلاں مقصد کے لیے مجھے ایک تعویذ لکھ دیں۔ میں آغا صاحب کی خدمت میں پہنچا اور ابھی مدعا بیان ہی کیا تھا کہ وہ اٹھے، قرآن پاک کھولا اور اس میں سے ایک تعویذ نکال کر مجھے تھماتے ہوئے فرمایا: "ہاں بیٹا! یہ لے لو، میں نے لکھ رکھا تھا۔" شعوری طور پر یہ میرے لیے ان کی روحانیت اور کشف کی پہلی واضح دلیل تھی۔

ابھی تو میں نے انہیں پورا مقصد بتایا بھی نہیں تھا کہ ایسے میں انہوں نے وہ تعویذ، جو پہلے ہی سے لکھ رکھا تھا، مجھے دے دیا؛ یعنی وہ اس ضرورت کو پہلے سےہی جانتے تھے۔ یہ میں اس دور کی بات کر رہا ہوں جب فون یا رابطے کا آج جیسا کوئی جدید نظام موجود نہیں تھا کہ یہ شک بھی گزرے کہ شاید کسی نے پہلے سے کہہ دیا ہو کہ فلاں بندہ آ رہا ہے۔انھیں اس مقصد سے یہ تعویذ لکھ کردے دیں۔

اس کے علاوہ ان کا ایک اور دلچسپ واقعہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ میں جب کسی کام سے ان کے پاس گیا تو وہ مجھ سے ہمیشہ کی طرح خوش مزاجی اور شفقت کے ساتھ پیش آئے۔ حالانکہ میں اس وقت ایک چھوٹا بچہ تھا۔ گھر میں ڈانٹ پڑنے کے خوف سے میں نے جلدی واپس جانے کی اجازت چاہی، مگر وہ کمال شفقت سے مجھے کہنے لگے: "کھانا کھائے بغیر نہیں جاؤ گے۔"

یہ انتہائی محبت سے دیا ہوا حکم تھا جسے ٹالنے کی جرأت نہیں تھی۔ اس دن آغا صاحب نے مجھ سے کافی باتیں کیں اور حسبِ معمول مذاق بھی کیا۔ باتوں باتوں میں پوچھنے لگے کہ آپ کے گھر میں کون کون سے درخت ہیں؟ میں اپنے گھر کے چھوٹے سے باغیچے کے درختوں کے نام لینے لگا۔جب میں نے ایک درخت کا نام "گیلاس" (Cherry) لیا تو وہ انجان بنتے ہوئے کہنے لگے: "اچھا! یہ 'گلاس' کیسا ہوتا ہے؟ کیا اسے پھل بھی لگتا ہے؟"

میں نے بڑے جوش سے کہا: "جی ہاں جناب آغا صاحب! اس میں پھل بھی لگتا ہے۔" تو وہ مصنوعی حیرت سے بولے: "مگر ہمارے 'گلاس' (پانی پینے والا برتن) کو تو پھل نہیں لگتے۔ ہمارے گلاس تو کافی دیر پانی کے کول (Cool) میں بھی پڑے ہوں تو ان پر پھل نہیں اگتے۔" اس بات پر میں اپنے بچپن کے معصومانہ انداز میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ یہ تھے میرے عظیم روحانی باپ، جن کی ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ اتنی محبت تھی، تو سوچئے پوری ملت کے لیے ان کے دل میں کیا فکر اور درد ہوگا۔

آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ صحیح معنوں میں متقی اور پرہیزگار عالمِ دین تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں جو چند انتہائی دیندار، متقی اور پرہیزگار علماء یا شخصیات دیکھی ہیں، آغا سید علی الحسینی مرحوم کا نام ان میں سرِ فہرست ہے۔ وہ سواری کے بجائے پیدل چلنا پسند فرماتے تھے۔ 'سندس' میں نماز پڑھانے کے لیے انہیں جانا ہوتا تو وہ پیدل تشریف لے جاتے۔ کہتے ہیں جب وہ کھیتوں کے درمیان سے گزرتے تو آہستہ آہستہ کسی سے باتیں کرتے ہوئے چلتے تھے۔

وہ کون ہستیاں تھیں؟ اس بارے میں وہ اور ان کا خدا ہی بہتر جانتے ہیں۔

وہ ایک انتہائی زیرک اور معاملہ فہم عالم تھے۔ اس سادہ دور میں بھی وہ آج کی دنیا کے تقاضوں کو اپنی بصیرت سے بخوبی درک کر چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سکردو اور بلتستان کی عظیم الشان مسجد "مرکزی جامع مسجد امامیہ" کا سنگِ بنیاد بھی انہی کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ "امامیہ مرکز سکردو" کے بھی بانی ہیں۔ آج کی نوجوان نسل ان عظیم اداروں سے اندازہ لگا سکتی ہے کہ وہ کس پائے کے عالمِ دین تھے۔

نماز جنازہ

ان کی نمازِ جنازہ بلتستان کی تاریخ کا ایک ایسا جنازہ تھا جس میں لاتعداد افراد نے شرکت کی۔ پورا شہر امڈ آیا تھا اور حدِ نگاہ تک خلقتِ خداوندی نظر آتی تھی۔ ان کے جنازے کا ایک سرا "سکمیدان" میں اور دوسرا "جامع مسجد امامیہ سکردو" تک پھیلا ہوا تھا۔ سکردو کے رہائشی اس طویل فاصلے کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ جنازے کے دوران ہیلی کاپٹر بھی فضا میں گردش کر رہا تھا، کیونکہ سکردو کی فضا نے محرم کے جلوسوں کے علاوہ کبھی اتنے لوگوں کو ایک ساتھ جمع نہیں دیکھا تھا۔

لوگ شدتِ غم سے نڈھال تھے؛ آج ان کا انتہائی عزیز سرپرست اور روحانی باپ انہیں چھوڑ کر جا رہا تھا۔ اگرچہ اب اس دنیا میں ان سے ظاہری ملاقات نہ ہو سکے گی، لیکن اس کے باوجود وہ مجسم انداز میں فکر و خیال میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔ کافی سالوں بعد جب سکردو جانے کا اتفاق ہوا تو آغا سید علی الحسینیؒ سے انتہائی مماثلت رکھنے والی ہمہ گیر شخصیت اور جید عالم، آغا سید باقر الحسینی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

انہیں دیکھ کر ایسے لگا جیسے آغا سید علی صاحب مرحوم سے ہی ملاقات ہو رہی ہو۔ اگرچہ ہماری عمروں اور گردشِ زمانہ کی وجہ سے ہم دونوں میں کافی تبدیلیاں آ چکی تھیں، لیکن آغا باقر صاحب کمال شفقت سے پیش آئے اور بڑے آغا صاحب کی طرح انہوں نے بھی خوش مزاجی اور مذاق کی باتیں نہ چھوڑیں۔ یہ مذاق دراصل انتہائی قربت اور شفقت کا بے اختیار اظہار ہے۔

ان کا فرزند آغا سید باقر الحسینی

آج آغا سید باقر الحسینی 'مرکزِ امامیہ' کے صدر ہیں اور ان کی شکل میں آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ کی ذات اور ان کا علم و عمل عملی صورت میں موجود ہے۔ آغا باقر الحسینی صاحب بھی اپنے والدِ محترم کی طرح عظیم شخصیت ہیں۔ "پھیالونگ واٹر سپلائی" کا منصوبہ ایک ایسا ناممکن خواب تھا جو حکومتی سطح پر بھی عمل پذیر نہ ہو سکا تھا، لیکن آغا سید باقر الحسینی نے اپنی ذاتی کوششوں سے عوامی سطح پر اسے ممکن کر دکھایا، جو کہ بلاشبہ ایک بہت بڑا کارنامہ اور صدقہ جاریہ ہے۔جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

اللہ پاک ان کی تمام کاوشوں کو قبول و منظور فرمائے اور انہیں اپنے والدِ مرحوم، جو کہ ایک عظیم روحانی شخصیت تھے، کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کامیابیوں اور کامرانیوں سے سرفراز فرمائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین [2]۔

سید علی الحسینیؒ — تقویٰ، علم اور خدمتِ دین کی روشن علامت

سید علی الحسینی کا نامِ نامی یا ذکرِ خیر جب بھی زبان پر آتا ہے تو دل خود بخود عقیدت، احترام اور محبت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ ان کی شخصیت محض ایک عالمِ دین کی نہیں بلکہ ایک ایسے باعمل، متقی اور خدا ترس انسان کی تھی جو علم و عمل، اخلاق و کردار اور اخلاص و خدمت کا حسین امتزاج تھے۔ ان کا نورانی چہرہ، متانت بھرا اندازِ گفتگو اور خلوص سے لبریز طرزِ زندگی ہر اس شخص کے لیے مشعلِ راہ تھا جو دینِ اسلام کو محض گفتار نہیں بلکہ کردار میں دیکھنا چاہتا تھا۔

تقویٰ اور عملی زندگی

سید علی الحسینی کی سب سے نمایاں صفت ان کا **تقویٰ** تھا۔ وہ جو کچھ کہتے تھے، اس پر خود سب سے پہلے عمل کرتے تھے۔ سادگی، قناعت اور پرہیزگاری ان کی زندگی کے نمایاں اصول تھے۔ دنیاوی نمود و نمائش، شہرت یا مفادات سے انہیں کوئی رغبت نہ تھی۔ ان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور بندگانِ خدا کی خدمت تھا۔

ان کا اخلاق ایسا تھا کہ دشمن بھی ان کے کردار کا معترف نظر آتا۔ نرم گفتاری، برداشت، عاجزی اور دوسروں کے لیے دل میں خیر خواہی رکھنا ان کی شخصیت کے روشن پہلو تھے۔ وہ اختلافِ رائے کو بھی حسنِ اخلاق کے ساتھ برداشت کرتے اور کبھی تلخی کو اپنے قریب نہ آنے دیتے۔

یادگار اثرات اور فکری وراثت

اگرچہ وقت گزر جاتا ہے، مگر بعض شخصیات اپنے کردار، فکر اور خدمات کے سبب ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ سید علی الحسینی بھی ایسی ہی شخصیت تھے۔ ان کی تعلیمات، نصیحتیں اور عملی نمونہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ:

  • علم، عمل کے بغیر بے روح ہے
  • تقویٰ، عالم کی اصل پہچان ہے
  • اخلاق، دین کی سب سے خوبصورت تبلیغ ہے۔

سید علی الحسینی کی زندگی دینِ اسلام کی عملی تفسیر تھی۔ وہ خاموشی سے کام کرنے والے، مگر گہرے اثرات چھوڑ جانے والے انسان تھے۔ ان کا ذکر محض ماضی کی یاد نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے لیے رہنمائی ہے۔

وفات

آپ 25 مارچ 1985ء شہر سکردو بلتستان میں وفات پا گئے۔

حوالہ جات

  1. تحریر: حاجی شبیر احمد شگریحضرت آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ کی برسی کے موقع پر
  2. تحریر: حاجی شبیر احمد شگری عظیم روحانی پیشوا: حضرت آغا سید علی الحسینی سبزواریؒ کی برسی کے موقع پر ، شگری کی ڈائری-شائع شدہ از: 23 دسمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 دسمبر 2025ء