امیر حمزہ
| امیر حمزہ | |
|---|---|
| پورا نام | مولانا امیر حمزہ فاختہ |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1953 ء، 1331 ش، 1372 ق |
| پیدائش کی جگہ | پاکستان |
| مذہب | اسلام دیوبندی، سنی |
| مناصب |
|
امیر حمزہ پاکستان کے ایک سنی عالم دین، جماعت الدعوۃ اہل حدیث کا راہنما اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہے۔ اس نے ہر پلیٹ فارم پر فلسطینی مظلومین کی حمایت میں آواز اٹھائی اور اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کی بھرپور مذمت کی ہے۔
اسلام کی ابتدائی صورت حال
اللہ تعالیٰ ہی نے یہ جہان بنایا اور اس جہان میں اک شاہکار بنایا۔ اس شاہکار کو 'انسان‘ کے نام سے یاد فرمایا۔ سینے میں دل رکھا تو سر میں دماغ بنایا۔ اسے عزت ووقار سے یوں سجایا کہ اقتدار کی مسند پر اسے براجمان فرمایا۔ اس چوراہے سے دو راستے نکال دیے۔ ایک راستہ انسانیت کی خدمت کا‘ جس میں پیار ہی پیار ہے اور دوسرا راستہ ظلم کا‘ جس میں خون ہی خون ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں کے درمیان خون کے فوارے پھوٹ نکلے۔ پرنالوں سے خون آبشار بن کر گرا۔ ندیاں بہہ گئیں اور خون کے دریا رواں دواں ہوئے تو اقتدار کے ظالمانہ راستے سے ہوئے۔
ختم المرسلین کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کیلئے حضور کو رحمت ہی رحمت اور مجسم رحمت بنا کر بھیجا۔ حضور نے اپنے اقتدار کو نبوت ورحمت‘‘ کا نام دیا۔ اللہ کی مشیت کچھ اس طرح سامنے آئی کہ حضورنے 23سال جو تربیت فرمائی تھی‘ اپنے بعد اقتدار کی مسند کو اس تربیت کے حوالے کر دیا۔ چھوٹے موٹے اختلاف سے قطع نظر‘ یہ تربیت اپنا کام دکھلا گئی؛ چنانچہ اہلِ مدینہ کی مشاورت سے جانشینِ مصطفی منتخب ہوتے چلے گئے۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد یہ مسند حضرت علی المرتضیٰؓ کو ملی۔
حضور کریم محض چھ برس کے تھے جب آپ کی والدہ حضرت آمنہ کا انتقال ہوا تھا۔ آپ اپنے دادا کی تربیت وپرورش میں رہے اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی والدہ اور آپ کی چچی حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا آپ کا خیال رکھا کرتی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں آپ حضرت فاطمہؓ زوجہ ابو طالب کے گھر ہی میں پرورش پانے لگ گئے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے جونہی ہوش سنبھالا تو حضور کے پاس پرورش اور تربیت پانے لگے۔ حضور کو نبوت ملی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد جس نے سب سے پہلے کلمہ پڑھا وہ حضرت علی المرتضیٰؓ ہیں۔
حضرت علی المرتضیٰؓ بستر رسول پر
حضورﷺ نے ہجرت کی تو اپنے بستر پر حضرت علی المرتضیٰؓ کو سلایا۔ مدینہ میں حضورﷺ سرکارِ مدینہ بن گئے۔ اس زمانے میں جس قدر جنگیں ہوئیں‘ ان میں مجموعی طور پر سب سے بڑھ کر جو تلوار چلی اور جس نے اسلام کے قدم مضبوط کیے وہ حیدرِ کرارؓ کی تلوار ہے۔ حضورﷺ کی تربیت کا شاہکار دیکھنا ہو تو بہت نظر آئیں گے مگر اقتدار کی گلی میں زاہد نظر آئے گا تو دل کہے گا علی علی۔ دماغ بھی سوچے گا علی علی اور زبان بھی نعرے لگائے گی علی علی۔ جی ہاں! علی کا لفظی معنی بلندی ہے‘ سرفرازی ہے۔ اس نامِ علی کی یاری اپنے معنی کے ساتھ پختہ دکھائی دے گی‘ پتھر پر لکیر نظر آئے گی۔
حضرت عثمان غنیؓ کے گھر کا محاصرہ تھا۔ حضرت علی المرتضیٰؓ نے سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ جائو اور اپنے چچا جان کے دروازے پر تلواریں لے کر کھڑے ہو جائو۔ جنت کے سرداران وہاں پاسبان بن کر کھڑے تھے۔ بلوائی پیچھے سے گھر کی دیوار پھلانگ کر آئے اور حضرت عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا۔ اب حضرت علی المرتضیٰؓ کو خلافت سنبھالنے کا کہا گیا۔ مرحب اور ابن عبدود کے غرور کو خاک میں ملانے والا اقتدار کے میدان کا ایسا زاہد تھا کہ انکار کر دیا۔ ترلے منتیں کر کے اہلِ مدینہ نے منایا۔ جب وہ خلیفہ گئے تو شام کے گورنر نے قصاصِ عثمانؓ کا مطالبہ کر دیا۔
حضرت علیؓ کے بعد حضرت حسنؓ کو امیر المومنین بنا لیا
اللہ اللہ! یہ دن بھی آنے تھے کہ حضرت علی المرتضیٰؓ سے عدل کا مطالبہ کیا جا رہا تھا‘ وہ بھی اس طرح کہ مقابلہ کریں گے۔ اور پھر اہلِ اسلام کے درمیان تلوار‘ تلوار اور تلوار۔ پھر ایک دن یہ تلوار حضرت علی المرتضیٰؓ کو بھی شہید کر گئی۔ اہلِ کوفہ نے حضرت علیؓ کے بعد حضرت حسنؓ کو امیر المومنین بنا لیا مگر چھ ماہ بعد ہی سیدنا حسنؓ نے اپنے نانا کے دین کی خاطر صلح کر لی۔ لوگو! ساری کوشش اقتدار کے حصول کیلئے ہوتی ہے‘ اقتدار ہو تو اسے کون چھوڑتا ہے؟
حضرت حسنؓ کے پاس اسلامی ریاست کا 80 فیصد کے قریب رقبہ تھا اور شام کی حکومت کے پاس شاید 20فیصد سے بھی کم۔ مگر کیا کہنے حضرت حسنؓ کے زہد اور تقویٰ کے کہ اُمت کے اتحاد کی خاطر خلافت کو چھوڑا اور گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گئے۔ لوگو! حضورﷺ کی پاک زبان سے جنت کی سرداری کی نوید ملے تو شاہِ فردوس کا کردار پھر ایسا ہی ہونا تھا کہ اقتدار کی گلی میں ان کے ہاتھوں سے ظلم ناممکن ہے! ناممکن۔ آہ! جنت کے اس شاہ کو بھی شہید کر دیا گیا۔ طیبہ کی زمین پر اب بے حد حَسین‘ نام جس کا حُسینؓ تھا‘ وہ اکیلا رہ گیا۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر امیر شام اک نظر حضورﷺ کے کرم پر ڈالتے‘ آپﷺ کی فیاضی کو ذہن میں لاتے‘ فتح مکہ کے دن عام معافی کے اعلان کا منظر ذہن میں لاتے اورترازو ہاتھ میں لیتے‘ آخرت کی جوابدہی کو سامنے رکھتے اور اپنی زندگی میں اپنے ولی عہد کی بیعت لینے اور حضرت حسنؓ سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے بجائے اہلِ مدینہ کی مجلس کا انعقاد کرتے اور لوگوں کو آزادی دیتے کہ جس کو چاہو اپنا حکمران بنا لو۔
موروثی بادشاہت کی بنیاد
اگر لوگ حضرت حسینؓ کو اپنا حکمران بنا لیتے تو وہ اٹھتے‘ ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور حضرت حسنؓ والا کردار ادا کرتے تو آج سارا منظر نامہ ہی کچھ اور ہوتا۔ مگر دوسرا راستہ چنا گیا۔ ولی عہد کے لیے مہم چلائی گئی۔لوگوں سے بیعت لی گئی۔ یوں موروثی بادشاہت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ خلافت علٰی منھاج النبوہ ختم ہو چکی تھی‘ اسے دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کے بجائے امت کو ایک نئی ڈگر پر ڈال دیا گیا جس کا نام بادشاہت تھا۔ آخر وہ وقت آ گیا کہ جب یزید مسلم دنیا کا حکمران (بادشاہ) بن گیا۔
مذکورہ عمل کو باقی رہ جانے والے صحابہ اور اکثر تابعین برا سمجھتے تھے مگر فتنے کے ڈر سے خاموش رہے۔ یہ ذمہ داری فردوس کے دوسرے سردار نے اپنے کندھوں پر لی۔ اب دوسرے سردار کے اٹھ کھڑے ہونے کا وقت تھا۔ غالباً ان کی سوچ یہ تھی کہ امت اس طرح اقتدار کی خونیں کشمکش سے محفوظ ہو جائے گی اور محلاتی سازشیں ختم ہو جائیں گی۔ قارئین کرام! ہم نبوت کے منہج پر آگے بڑھتے رہتے تو نااہلوں کو آگے آنے کا موقع نہ ملتا‘ وصیتوں سے حکمران نہ بنتے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی ذاتی جائیداد میں بھی اس طرح وصیت نہیں کر سکتا جس طرح وہ عوامی اور قومی ورثے پر وصیت کر جاتا ہے۔ اپنی جائیداد پر بھی وہ زیادہ سے زیادہ کُل جائیداد کے تیسرے حصے کی وصیت کر سکتا ہے مگر اقتدار ایک بیٹے کو سونپ کر وہ ساری امت یا ساری قوم اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اگر وہ دیکھے گا کہ بیٹے یا رشتے دار کو آگے لانا ناممکن ہے تو پھر کوئی کمزور یا کم صلاحیت والا ڈھونڈے گا کہ اس پر احسان کروں تو یہ میرے خاندان کا خیال رکھے گا۔ حالانکہ یہ سب سے بڑی خام خیالی ہے۔
یزید نے بادشاہ بننے کے بعد وہ کیا جو بادشاہ کیا کرتے ہیں۔ اور حضرت حسینؓ نے وہی کیا جو فردوس کے شاہ کو کرنا چاہیے تھا۔ کوفہ سے حضرت سلیمان بن صردؓ جو ایک جلیل القدر صحابی تھے اور حضرت علی المرتضیٰؓ کے ساتھی تھے انہوں نے اور دیگر سرداروں نے خطوط لکھے تھے۔ حضرت حسینؓ اپنے خاندان کو لے کر چل دیے۔ کوفہ والے‘ جو ان کے وفادار تھے وہ گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیے گئے جبکہ حضرت حسینؓ کو راستے میں خاندان سمیت کربلا کے مقام پر شہید کر دیا گیا۔
اس کے بعد ایسا طوفان اٹھا کہ خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ قافلۂ حسین کے قاتل ایک ایک کرکے قتل کر دیے گئے‘ بنو امیہ اور بنو عباس میں دشمنی شروع ہو گئی۔ الغرض حضرت حسینؓ کی قربانی امت کو وہ راہ دکھاتی ہے جس میں رحمت ہی رحمت ہے کہ تدریج کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے جمہوری نظام کو اس کی روح کے مطابق اپنائے۔ امت مسلمہ متحد ہو۔ حسینی راہ کو اپنا کر‘ شیعہ سنی دونوں آگے بڑھیں۔ حضرت حسینؓ کسی ایک کے نہیں‘ پوری امت اور تمام انسانیت کے سیاسی رہنما اور قائد ہیں۔ ان کی راہ پر چلنے ہی سے دل ظلم کی راہ سے رکے گا اور اقتدار کا انتقال پُرامن بنے گا[1]۔
قائداعظم ؒ اور آزادیٔ فلسطین
آج سے تین صدیاں قبل برطانیہ دنیا کی سپر پاور تھا۔ اس کی حکمرانی میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک اس کی حکمرانی تھی۔ لہٰذا سورج مشرق سے طلوع ہوتا تھا تو اس کی حکمرانی پر طلوع ہوتا تھا۔ جب غروب ہوتا تھا تو موجودہ امریکہ اور کینیڈا پر سے ہوتا ہوا آگے بڑھتا تھا تو یہاں پر بھی برطانیہ کی حکمرانی قائم تھی۔ پھر سورج الاسکا سے غروب ہو کر دوبارہ آسٹریلیا سے طلوع ہو جاتا۔ درمیان کی دنیا میں بھی کئی ملک اور جزائر اسی کی حکمرانی میں تھے۔ آٹھ عشرے قبل تک برصغیر بھی اس کی حکمرانی میں تھا۔
اس خطے میں پاکستان‘ بھارت‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ بھوٹان پر اسی کی حکمرانی تھی۔ برما پر بھی وہی حکمران تھا۔ چین کے علاقوں ہانگ کانگ‘ تائیوان اور مکائو وغیرہ پر بھی برطانیہ کی حکومت تھی۔افریقہ کے کئی ملکوں پر اس کی حکمرانی تھی۔ جنوبی افریقہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر مسلمانوں کی عثمانی سلطنت ایک کمزور عالمی قوت کے طور پر باقی تھی۔ اس کے پاس مشرقی یورپ کے ملک بھی تھے۔ مشرق وسطیٰ اس کے پاس تھا۔
شمالی افریقہ کے ملک بھی اس کے پاس تھے۔1914ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔1918ء کے آخر پر اس کا اختتام ہوا۔ عثمانی ہار گئے تو ان کے سارے علاقے ہاتھوں سے نکل گئے۔ صرف ترکیہ نام کا ملک‘ جو آج موجود ہے‘ یہ بچ گیا۔ لبنان اور شام فرانس کے حصے میں آ گئے جبکہ عراق اور فلسطین برطانیہ کے حصے میں آ گئے۔ یہودی گزشتہ دو ہزار سالوں سے یورپ میں بڑی تعداد میں آباد تھے اور یورپی مسیحی لوگوں کے ظلم کا نشانہ بنتے تھے۔
وہ ہمہ وقت اپنی چالاکیوں اور فریب کاریوں میں مسلسل مصروف تھے۔ یورپ اب ان سے جان چھڑانا چاہتا تھا لہٰذا مسلمانوں کو یہودیوں کے ساتھ الجھا کر اپنے سے دور رکھنے کا منصوبہ سوچا گیا؛ چنانچہ برطانیہ نے یورپ اور امریکہ کی مشاورت سے ان کو فلسطین میں آباد کرنا شروع کردیا اور انہیں معاشی‘ سیاسی اور عسکری طور پر بھی مضبوط کرنا شروع کردیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی ریکارڈ بتاتا ہے کہ فلسطین کی آزادی کی حمایت میں 1933ء سے لے کر 1946ء تک 18قراردادیں مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش اور منظور کی گئیں۔
ان قراردادوں کو برصغیر اور برطانیہ کے اشاعتی اداروں نے شائع کیا۔ یہ برٹش انڈیا کے وائسرائے اور برطانیہ کے حکمرانوں کے حوالے بھی کی گئیں۔ انڈیا بھر میں ہزار ہا جلسوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان جلسوں اور کانفرنسوں میں پیش کی گئی قراردادیں ان کے علاوہ ہیں۔ اس جدوجہد کے ذریعے برطانیہ کی حکومت کو اس کا عہد اور وعدہ یاد دلایا گیا جو اس نے عربوں سے کیا تھا کہ پہلی عالمی جنگ میں جونہی برطانیہ کو فتح ملے گی تو ان علاقوں کی حکمرانی ان کے حوالے کر دی جائے گی۔1937
1937ء میں‘ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد‘ جو آزادیٔ فلسطین کیلئے 1933ء سے جاری تھی‘کو پانچ سال ہونے کو آئے تھے۔ اب حالات نے واضح کردیا تھا کہ عربوں اور اہلِ فلسطین کے ساتھ عہد شکنی ہونے جا رہی ہے۔ اس پر 11 جولائی 1937ء کو بمبئی سے حضرت قائداعظمؒ نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے فرمایا: فلسطینی رپورٹ عربوں کے ساتھ شدید ترین ناانصافی کا شاہکار ہے۔ اگر برطانوی پارلیمنٹ نے اس رپورٹ کو اپنے ایوان میں پاس کر لیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ برطانوی قوم عہد شکنی کی مرتکب ہو گئی ہے۔ برطانیہ کو چاہیے کہ وہ اپنا کیا ہوا وعدہ نڈر ہو کر پورا کرے‘‘ [2]۔
آزادیٔ فلسطین کے لیے قائد اعظم کی جد و جہد
مصر کے شہر قاہرہ میں آزادیٔ فلسطین کا دفتر قائم ہو گیا تھا۔ دفتر کے ناظم جناب علویہ پاشا نے حضرت قائداعظمؒ کو خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ عالم اسلام کے نمائندے آزادیٔ فلسطین کے لیے قاہرہ میں منعقدہ اجلاس میں تشریف لا رہے ہیں‘ آپ سے گزارش ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نمائندے بھی قاہرہ میں بھیج کر شکرگزار فرمائیں۔ حضرت قائداعظم نے مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکا کو بتایا کہ 7 اکتوبر 1938ء کو قاہرہ میں فلسطین کے حوالے سے ایک اجلاس ہو رہا ہے۔
ہمارے تین نمائندے جناب خلیق الزمان‘ جناب عبدالرحمان اور مولانا مظہر الدین قاہرہ کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ دیگر دو افراد بھی جلد روانہ ہونے والے ہیں۔ ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کو یقین دلایا ہے کہ آزادیٔ فلسطین کے لیے اپنی مقدور بھر قوت کو بھر پور طریقے سے استعمال کریں گے [3]۔ 8 اکتوبر 1938ء کو حضرت قائداعظمؒ نے کراچی سے ایک خط لکھا جس میں اہلِ فلسطین کو آگاہ کیا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے سارے ہندوستان میں 26 اگست کو یوم فلسطین منایا۔ ہندوستان بھر میں ہزاروں جلسوں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اہلِ اسلام کے دل اُس وقت شدید مجروح ہوتے ہیں جب ہم بہادر عربوں پر ظلم اور بے رحمی کی خبریں سنتے ہیں‘ ظلم پر مبنی تصاویر دیکھتے ہیں [4]۔ 30 جنوری 1939ء کو حضرت قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکا کو آگاہ کیا کہ انہوں نے برطانیہ کے وزیراعظم چیمبر لین‘ برطانوی نو آبادیات کے وزیر مسٹر مالکم میکڈونلڈ اور برطانوی کابینہ میں انڈین امور کے وزیر کو ٹیلی گرام ارسال کیا ہے کہ آپ لوگ فلسطین کے بارے میں 7 فروری 1939ء کو فلسطین کے مسئلے پر جس کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں اس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے وفد کو بھی شرکت کی دعوت [5] ۔
23 مارچ 1940ء کو لاہور کے تاریخی جلسے میں چار قراردادیں پیش کی گئیں۔ پہلی قرارداد پاکستان کے حصول کی قرارداد تھی اور دوسری آزادیٔ فلسطین کیلئے تھی۔ اس قرارداد میں اس بات پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ فلسطین میں برطانوی فوج کی ایک بڑی تعداد کیوں موجود ہے؟ 17 فروری 1944ء کو حضرت قائداعظم نے نئی دہلی سے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کے نام ٹیلی گرام بھیجا جس میں کہا گیا کہ آپ لوگوں نے انڈین وائسرائے لارڈ لنلتھگو کے ذریعے یقین دہانی کرائی تھی کہ عربوں کے ساتھ عدل ہوگا مگر امریکی اور صہیونی ذرائع ابلاغ مذکورہ یقین دہانی کی نفی کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو سارا عالم اسلام اور مسلمانانِ ہند غم وغصے میں مبتلا ہو جائیں گے [6]۔
مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی آزادیٔ فلسطین کیلئے جدوجہد کی قیادت کر رہے تھے۔ وہ یکم جنوری 1895ء کو القدس شریف (یروشلم) میں پیدا ہوئے تھے۔ برطانیہ نے انہیں فلسطین سے نکل جانے کا حکم دیا۔ 1945ء میں جب وہ جلاوطن ہو رہے تھے تو قائداعظمؒ نے عالمی سطح پر اس جلاوطنی کی مذمت کی اور اس اقدام کو ظلم پر مبنی قرار دیا۔12 اکتوبر 1945ء کو مفتی اعظم نے حضرت قائداعظمؒ کو ایک خط لکھا‘ جس میں آزادیٔ فلسطین کیلئے مسلم لیگ کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا مجھے جلاوطن کرنے پر آپ کی آواز پہلی اسلامی آواز تھی جو میرے کانوں تک پہنچی۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں‘‘۔
قائداعظم ؒ نے مسٹر ارنسٹ سی مارٹی (نامہ نگار یونائیٹڈ پریس امریکہ) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے فلسطین سے برطانوی اور امریکی اثر ورسوخ کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہاں یہودی آمد کا سلسلہ ختم کیا جائے بلکہ جو یہودی فلسطین میں لائے گئے ہیں ان کی آباد کاری کا بندوبست آسٹریلیا‘ کینیڈا یا کسی ایسے ملک میں کیا جائے جہاں وسیع گنجائش ہو۔ قائداعظمؒ نے خبردار کیا کہ یہود کو جس طرح فلسطین میں دھکیلا جا رہا ہے‘ مستقبل میں ان کے ساتھ ہٹلر کے سانحہ سے بڑا سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔
حضرت قائداعظمؒ اپنی وفات تک اہلِ فلسطین کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ وفات سے محض 34دن پہلے 8اگست 1948ء کو دی پاکستان ٹائمز نے ان کا جو پیغام شائع کیا وہ یہ تھا: فلسطین اور کشمیر میں طاقت کا ڈرامہ کیا گیا۔ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کیلئے ہمیں متحد ہونا ہو گا‘‘۔ اے اللہ کریم! ہمارے قائد‘ ہمارے بابائے قوم کو جنت الفردوس عطا فرما‘ آمین![7]۔
ایران کی استقامت، فتح کی بشارت
اللہ تعالیٰ کا حکم آیا، اللہ کے آخری رسول نے مشرکینِ مکہ کو ان کے حال پر چھوڑا اور ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے۔ مدینہ منورہ میں یہود کے تین مضبوط قبیلے آباد تھے۔ مدینہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ان کا قلعہ خیبر تھا۔ یہود کی یہاں ایک مستحکم حکومت تھی۔ دس ہزار فوج تھی اور معاشی طور پر یہ پورے عرب میں ایک خوشحال ریاست تھی۔ مدینہ منورہ میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ نازل فرمائی۔ لگ بھگ اڑھائی پاروں پر مشتمل قرآنِ مجید کی یہ سب سے بڑی سورۃ ہے۔
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد کریم کو وہ زمانہ یاد کرایا جب عمونی، کنعانی اور فلسطینی قومیں بت پرست تھیں اور بنو اسرائیل امتِ مسلمہ اور توحید کی علمبردار تھی۔ ایک وقت پہ اس امت کو شکست پر شکست کی وجہ سے بُرے دنوں کا سامنا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے حال احوال کو درست کیا۔ سموئیل نبی نے ان کی درخواست پر اللہ سے دعا کی اور حضرت طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ بائبل میں ان کا نام سائول (Saul) بتایا گیا ہے۔
ان کے مقابلے پر جالوت (Goliath) تھا جس کا قد کوئی دس فٹ تھا۔ اسلحہ، فوج، جسمانی قوت اور فوجیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کے مقابلے پر حضرت طالوت اپنا لشکر لے کر نکلے۔ اللہ تعالیٰ اگلا منظر اپنے آخری رسول کو بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ اہلِ ایمان (کی فوج) نے دریائے (اردن) کو عبور کیا تو جالوت اور اس کے لشکر کو دیکھتے ہی کہہ اٹھے کہ آج ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہماری اندر کوئی ہمت نہیں مگر وہ لوگ جو اللہ سے (شہادت کی صورت میں) ملاقات پر یقین رکھتے تھے۔ وہ کہنے لگے: بسا اوقات کتنی ہی چھوٹی سی جماعت اللہ کے حکم سے کثیر تعداد لشکر پر غالب آ جایا کرتی ہے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے"[8]۔
اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ شہید ہو چکے۔ غزہ کے ساٹھ ہزار جبکہ جنوبی لبنان کے ہزاروں مسلمان شہید ہو چکے۔ غزہ پر حملے کے پونے دو سال بعد اب دنیا ایران کو گھیر چکی تھی۔ اسرائیل نے اچانک اس پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں ایران کے 20 جرنیل اور 13 ایٹمی سائنسدان شہید ہو گئے۔ پاکستان نے ایرانی بھائیوں کو آگاہ کیا۔ یہ سازش ایران کے اندر سے ہوئی۔ بھارت کی را‘‘ اور اسرائیل کی موساد‘‘ نے مل کر سازش کی۔
پاکستان کا ایران کی حمایت
ایران نے معلومات کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے جاسوس افراد کو ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کر لیا۔ ساتھ ہی اسرائیل پر میزائلوں سے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے۔ پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ قومی اسمبلی میں اس کا اعلان وزیر دفاع خواجہ آصف نے کیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان ایران کے حق میں ڈٹ کر کھڑا ہو گیا۔ سعودی عرب اور خلیجی عرب ریاستیں ایران کے حق میں ابھر کر سامنے آگئیں۔ اس سارے عمل میں پاکستان کا کردار باکمال تھا۔ اس پر ایران کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔
پاکستان کا شکریہ نعروں کی صورت میں محبت بھرا آوازہ بن گیا۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ یہاں تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اللہ خامنہ ای نے آغاز اپنی ذات سے کیا اور کہا: میں قربان ہو جائوں تو یہ قربانی معمولی سی قربانی ہو گی۔ اللہ قبول فرما لے۔ مجلس اعلیٰ سے کہا: میرے بعد دو تین جانشین طے کر لو۔ شہید ہوتے جائیں اور کھڑے ہو کر ذمہ داری سنبھالتے جائیں۔ افواج میں بھی یہ پیغام چلا گیا۔ وہاں یکے بعد دیگرے چھ سات افراد ہر شہادت کے بعد کھڑے ہونے کے لیے تیار اور پابہ رکاب ہو چکے تھے‘ جس طرح بھارتی جارحیت کے خلاف پوری پاکستانی قوم بنیانٌ مرصوص بن چکی تھی‘ یہی کیفیت ایران میں بن چکی تھی۔ اہلِ ایران وار سہہ بھی رہے تھے اور وار کر بھی رہے تھے۔
اسرائیل ایران جنگ میں اسرائیل پسپائی
قمری لحاظ سے اسرائیل کی عمر چند ماہ کم 80 سال ہے۔ ان 80 سالوں میں اسرائیل نے امریکہ اور یورپ کی قوت کو فضا‘ سمندر اور زمین پر اپنے ہمرکاب پاتے ہوئے‘ صرف مارنا سیکھا ہے۔ انہیں مار کھانے کا اندیشہ بھی نہ تھا۔ اب بھی ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اہلِ دنیا کا تجزیہ یہی تھا۔ عراق‘ لیبیا‘ شام اور یمن کی طرح فضائی بمباری ہو گی۔ ایران کی فوج بھاگ جائے گی‘ لوگ نئے حکمران کا استقبال کریں گے۔ شاہ ایران پہلوی کے بیٹے نے اپنا پہلو بدل لیا تھا۔
ایران کی حکومت سنبھالنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ امریکہ اس کے ہمراہ تھا۔ ناٹو کی افواج اسرائیل کے ساتھ تھیں۔ ایران کا ہر جانب سے ہوائی اور بحری گھیرائو تھا۔ سید علی خامنہ ای ڈٹ چکے تھے۔ قوم بھی ڈٹ چکی تھی۔ پاکستان میں سید جواد نقوی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے بارے آگاہ کر رہے تھے کہ وہ کردار کے دلدار ہیں‘ پاکستان کی آن کے دلدادہ ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم نے ایران میں پاکستان کے مفاد کے خلاف بات کہی تو انہوں نے وہیں وزیراعظم کو کہہ دیا کہ آپ نے اپنے منصب اور حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ سب اکٹھے ہو چکے ہیں۔ سنی‘ شیعہ اسرائیل کے خلاف ایک ہو چکے ہیں۔ اللہ خیر نکالے گا۔ جناب سید عاصم منیر نے امریکہ کی فیلڈ میں ڈیرے لگا لیے تھے۔ ایران کے بارے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ حالات بگاڑ کی آخری شکل اختیار کر گئے تو بارڈر مٹ جائیں گے۔ علاقے میں طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ یہ طوفان اسرائیل سے ٹکراتا رہے گا۔ پھر اگلا منظر زیادہ خوفناک ہوگا۔ صدر ٹرمپ کا بیان آیا: پاکستان سب سے بڑھ کر ایران کو جانتا ہے۔
جنگ میں اسرائیل کو نقصانات
یہ حقیقت پسندانہ کمال انتہائی پُرجمال انداز سے پاک فیلڈ مارشل نے وائٹ ہائوس کی فیلڈ میں انجام دیا تھا۔ امن کی فاختہ کو پرواز کے لیے تیار کر دیا تھا۔ اللہ اللہ! گزشتہ 80 سالوں میں پہلی بار ایران نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے نصف حصے کو کھنڈر بنا دیا۔ حیفہ کی بندرگاہ‘ جو کافی حد تک انڈیا کے کنٹرول میں تھی‘ اسے ویران کر دیا۔ اسرائیل کو جس ڈیفنس ٹیکنالوجی پر ناز تھا‘ ایران نے آئرن ڈوم‘ امریکی تھاڈ‘ ڈیوڈ سلنگ اور ایرو سپیس کے سسٹم کو اڑا کر رکھ دیا۔
ڈیمونا کے ایٹمی مرکز پر بھی حملے کیے گئے۔ ہیرے جواہرات کی سب سے بڑی عالمی مارکیٹ کو برباد کر دیا گیا۔ کئی چھائونیوں کو ویران کر دیا گیا۔ تاریخ پر نظر رکھنے والو! ذرا ایک صدی پیچھے چلے جائو! دنیا بھر سے یہودی مقبوضہ فلسطین متواتر آتے ہی چلے جا رہے تھے۔ انہیں اسرائیل سے جاتے اور بھاگتے ہوئے پہلی بار دنیا نے دیکھا۔ ایران مین آف دی میچ تھا تو اس میچ کو دیکھنے والوں نے بھی کمال کر دیا۔ اہلِ غزہ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا[9]۔
دنیا بھر کے فلسطینی خوش ہیں کہ ہم نے اپنے ظالم دشمنوں کو پہلی بار بھاگتے ہوئے دیکھا۔ اسرائیل کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بن گوریان‘‘ ایرانی ہاتھوں سے تباہ ہو چکا۔ بہت سارے نکل چکے تھے۔ باقی پڑوسی ملکوں کے ہوائی اڈوں سے بھاگ رہے تھے۔ بحرِ روم کی کشتیوں کے ذریعے یونان کی جانب بھاگ رہے تھے۔ 'یہ فرار جاری رہا تو اسرائیل یہود سے خالی ہو جائے گا‘۔ نیتن یاہو صدر ٹرمپ کے سامنے چلایا۔ صدر ٹرمپ اب ایران کی تعریفیں کرنے پر آ گئے۔ ایران کو May God bless you‘‘ کی دعائیں دینے لگ گئے۔ اس موقع پر سید علی خامنہ ای نے وہی کیا جو قرآن مجید کا حکم تھا۔ فرمایا اگر وہ صلح کے لیے جھک جائیں تو تم بھی صلح کی جانب مائل ہو جائو۔ اللہ پر توکل کرو۔ بلاشبہ وہ سننے اور جاننے والا ہے‘‘ [10]۔ لوگو! فرقہ واریت میں ڈوبی اور لتھڑی ہوئی سازشی تھیوریاں اور نکتہ دانیاں لاتعداد ہیں مگر سامنے کی بات ایک ہی ہے۔ وہ آفتاب کی طرح سارے جہاں کو روشنی دے کر ہر آنکھ کو دِکھ رہی ہے۔ کس قدر تھوڑی سی جمعیت تھی جو کثیر (طاقتوں پر مشتمل) جمعیت پر غالب آ گئی‘‘۔ ہنود اور یہود کی یکے بعد دیگرے شکستوں پر الحمدللہ! پاک ایران فتح زندہ باد۔ اتحادِ امتِ مسلمہ پائندہ باد۔ انسانیت کا امن زندہ باد۔
حوالہ جات
- ↑ راہِ حق- شائع شدہ از: 4 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جولائی 2025ء
- ↑ دی ٹائمز‘12 جولائی1937ء
- ↑ دی ٹربیون‘ ستمبر1938
- ↑ دی ٹربیون: اکتوبر 1938ء
- ↑ دی جائے دی سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ یکم فروری 1939ء
- ↑ دی ڈان‘ 18 فروری 1944ء
- ↑ امیر حمزہ، قائداعظم ؒ اور آزادیٔ فلسطین- شائع شدہ از: 22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جولائی 2025ء
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ 249
- ↑ امیر حمزہ فاختہ، ایران کی استقامت‘ فتح کی بشارت- شائع شدہ از: 27 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جولائی 2025ء
- ↑ سورہ الانفال، آیہ 61