ہدایت الرحمن
ہدایت الرحمن | |
---|---|
![]() | |
پورا نام | مولانا ہدایت الرحمن بلوچ |
ذاتی معلومات | |
پیدائش کی جگہ | گوادر پاکستان |
مذہب | اسلام، سنی |
مناصب | جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی جنرل سیکرٹری |
ہدایت الرحمن صوبہ بلوچستان کے اہل سنت سے تعلق سے رکھنے والے ایک عالم دین، پاکستانی سیاست دان اور جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی جنرل سیکرٹری ہیں۔
سوانح عمری
مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق بلوچستان کے ضلع گوادر میں مچھیروں کی ایک بستی سربندن سے ہے۔ وہ مضبوط سیاسی خاندانی پس منظر نہیں رکھتے۔ان کے باپ دادا ماہی گیر تھے۔ اس کے برعکس مولانا ہدایت الرحمان نے میدان سیاست میں نام بنایا۔
جماعت اسلامی وابستگی
وہ زمانہ طالب علمی سے ہی جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور پھر جماعت اسلامی کا حصہ بن کر یونین کونسل کے امیر، ضلعی امیر، مرکزی شوریٰ کے رکن، صوبائی سیکریٹری جنرل اور صوبائی نائب امیر کے عہدوں تک پہنچے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے درسِ نظامی یعنی عالم کورس کر رکھا ہے جو ایم اے اسلامیات کے برابر ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ 1994 میں لاہور میں دینی تعلیم کے حصول کے دوران ہی وہ جماعت اسلامی سے متاثر ہوئے اور اس کا حصہ بنے۔
سیاسی سرگرمیاں
سنہ 2003 کے بعد گوادر میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے 2024 سے پہلے کئی بار قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست کا انتخاب لڑا مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔ مولانا ہدایت الرحمان کو اُس وقت مقبولیت ملی جب انہوں نے گوادر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مقامی افراد کو چیک پوسٹوں پر تلاشی کے نام پر تنگ کرنے اور گھروں پر چھاپوں کے خلاف آواز بلند کی اور پھر ان مسائل کے حل کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کی جسے ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کا نام دیا۔
فلسطین جذبہ جہاد وشوق شہادت سے آزادہوگا
جماعت اسلامی ضلع کوئٹہ کے زیراہتمام صوبائی جنرل سیکرٹری و حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ ، امیر جماعت اسلامی ضلع کوئٹہ حافظ نورعلی کی قیادت میں اتوار کو سائنس کالج چوک سے فلسطین مارچ کا اہتمام کیا گیا ، جس میں جماعت اسلامی کے کارکنوں سمیت شہریوں نے بھی شرکت کی ، اس موقع پر مارچ کے شرکاء نے فلسطینیوں کے حق اور اسرائیلی مظالم کے خلاف نعرے بازی کی ، مارچ کے شرکاء مناح چوک پہنچے جہاں احتجاجی مظاہرہ ہوا۔
جس سے جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری و حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ ، امیر جماعت اسلامی ضلع کوئٹہ حافظ نورعلی، مولانا عبدالکبیر شاکر ، تنویر احمد کاکڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہودی اسرائیلیوں نے غزہ میں فلسطینی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے لیکن 57 مسلم ممالک خواب غفلت کا شکار ہیں لیکن فلسطین جذبہ جہاد وشوق شہادت سے آزادہوگا۔ فلسطینی نہتے ہوکر بھی قبلہ اول کی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں یہودی امریکی سرپرستی ومددسے معصوم فلسطینیوں پر بم برسارہے ہیں، ہسپتال محفوظ نہ تعلیمی ادارے بچے محفوظ ہیں نہ خواتین۔ایسے میں بھی مسلم حکمران اور او آئی سی خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے[1]۔
فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی اور بلوچستان بھر میں عوامی احتجاج
ڈیرہ مراد جمالی:جماعت اسلامی نصیرآباد کے زیر اہتمام ایک روزہ ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں جماعت اسلامی نصیرآباد کے کارکنان، ممبران اور حمایتیوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ورکرز کنونشن سے صوبائی امیر جماعت اسلامی بلوچستان و رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن بلوچ، صوبائی نائب میر جماعت اسلامی بلوچستان غلام مرتضی خان کاکڑ، صوبائی یوتھ آفیئر جماعت اسلامی بلوچستان نقیب اللہ اخوان اور ضلع امیر جماعت اسلامی نصیرآباد بشیر احمد ماندائی نے کارکنان کی تربیت کے حوالے سے خطاب بھی کیا۔
ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی بلوچستان اور رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک عوامی جماعت ہے، جو قرآن و سنت کی روشنی میں ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہے ہماری تحریک کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی ہے ہم اقتدار کے طلبگار نہیں بلکہ قرآن و سنت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اقتدار کو ایک ذریعہ سمجھتے ہیں مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ دنیا فانی ہے، یہاں ہر چیز کو زوال ہے طاقتور کو تکبر نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آج غریب مزید غریب ہو رہا ہے جبکہ چند خاندان امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ صرف چند خاندان ملک پر قابض ہیں بار بار حکومت میں آتے ہیں لیکن عوام کو کچھ نہیں دیتے۔ ہمارے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ معدنیات کو بے دردی سے نکالا جا رہا ہے مگر صوبے کے عوام کو ان کا حق نہیں دیا جا رہا ان خاندانوں کے بچے انہی وسائل کے سہارے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں، خود اور اپنے خاندان کا علاج باہر سے کرواتے ہیں جبکہ عوام کے لیے سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اور تو اور ضلعی افسران بھی عوام کی تذلیل میں پیچھے نہیں رہتے یہ ہماری اپنی کمزوری ہے کہ ہم ان ظالموں کے سامنے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
عالمی حالات پر بات کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور کہا کہ ہم دنیا کے ہر اس خطے میں مظلوم انسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جہاں ظلم، جبر اور قتل و غارت گری ہو رہی ہو انہوں نے خاص طور پر غزہ میں جاری ظلم و بربریت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 22 اپریل 2025 کو ملک گیر سطح پر شٹر ڈان ہڑتال کی جائے گی تاکہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا جا سکے اس موقع پر انہوں نے صوبے میں جاری ظلم و ناانصافی کے خلاف بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اعلان کیا کہ عنقریب صوبے بھر میں ان جابروں، کرپٹ حکمرانوں اور ظالم افسران کے خلاف شٹر ڈان ہڑتال کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے کے عوام جو دن رات محنت مزدوری کر کے دو وقت کی روٹی کمانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا حق بھی ان سے چھینا جا رہا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی کے تمام کارکنان اور عوام الناس کو تیار رہنا چاہیے کہ ظلم کے خلاف کھل کر میدان میں اترا جائے خطاب کے اختتام پر مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ ہمیں دولت کی نہیں، ہمت، اتحاد اور اللہ پر کامل یقین کی ضرورت ہے اگر ہم عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں، تو اللہ تعالی ضرور ہماری مدد فرمائے گا اور ہمیں ان ظالموں سے نجات دلائے گا اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی نصیرآباد پروفیسر محمد ابراہیم ابڑو، ضلعی نائب امیر کرم اللہ منگریو، سابق ضلعی امیر خاوند بخش مینگل، سابق امیر ضلع مولانا عبد الواحد زہری، سابق قائم مقام ضلعی امیر عبد الرشید مستوئی، عبد الخالق ڈومکی، ضلعی ناظم مالیات محمد ندیم ایری اور ضلعی ناظم نشرواشاعت مختیار مخلص سمیت دیگر عہدیداران بھی شریک تھے[2]۔
امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت کی علامت ہے
کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے ذریعے نہ صرف ایران کو بیدار کیا بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں خصوصاً فلسطینی عوام کیلیے آواز بلند کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امیر جماعت اسلامی بلوچستان و رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا ہے کہ امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت کی علامت ہے۔ دیانتداری و اخلاص سے عوامی حقوق کے حصول ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فلسطینی غزہ کے مسلمانوں پر مظالم کے ذمہ دار امریکہ و اسرائیل کیساتھ مسلم حکمران و سپہ سالار بھی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ لاکھوں افواج اسلحہ و گولہ بارود اور ایٹم بم تک ہونے کے باوجود غزہ میں نسل کشی جاری ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں بانی انقلاب اسلامی آیت اللہ روح اللہ خمینی (ر) کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت، اور اسلامی غیرت کی علامت ہے۔ مظلوموں کوحقوق دلانے کیلئے انقلاب کی ضرورت ہے۔ امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے ذریعے نہ صرف ایران کو بیدار کیا بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں خصوصاً فلسطینی عوام کے لیے آواز بلند کی۔
انہوں نے کہا کہ امام خمینی کا پیغام آج بھی ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے اور فلسطین کی آزادی امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے[3]۔
عوام میں مقبولیت
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ آج کل بلوچستان کی سیاست میں خاصی اہمیت حال کرچکے ہیں، اس اہمیت کی وجہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں گوادر کے شہر میں پے در پے جلسے جلوس، دھرنے اور مارچ ہیں۔ مولانا کا تعلق پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت (جماعت اسلامی ) سے ہے، ماضی میں جماعت اسلامی کو بلوچستان میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جو مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں حالیہ دھرنوں کی وجہ ملی ہے۔ اس پذیرائی کی وجہ مولانا کا جماعت اسلامی کی بنیادی پالیسیز اینٹی قوم پرست نظریات سے یکسر مختلف ہونے کی وجہ بھی ہے کیونکہ جماعت اسلامی جن نظریات کی روز اول سے نفی کرتی آ رہی تھی مولانا نے بلوچستان میں اسی سوچ کو اپناتے ہوئے پارٹی پالیسیز کی سیاست سے ہٹ کر کام کیا اور اس حکمت عملی کا خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھا لیا ہے۔
مولانا کی تقریریں بظاہر ریاستی اداروں پر کھلم کھلا تنقید ہے گو کہ جماعت اسلامی بھی وقتاً فوقتاً اداروں پر تنقید کرتی آ رہی ہے مگر یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما نے قوم پرست سوچ و نظریات کو بنیاد بنا کر اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا جس کی وجہ سے مولانا کے گرد ہجوم در ہجوم کی صورت میں لوگ جمع ہونے لگے۔ جماعت اسلامی شاید مولانا کی تقاریر و بلوچ ازم کو قبول ہرگز نہ کرتی مگر اب مولانا کو جماعت اسلامی کی اتنی ضرورت نہیں رہی بلکہ مولانا جماعت کی مجبوری بن چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے جماعت اسلامی سمجھوتہ کی طرف جا چکی ہے۔
ایسے میں مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت کا ابھرنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ المختصر قیادت کے فقدان کا مولانا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہت کامیاب بھی رہے۔ یہ کہنا بالکل بھی مبالغہ آرائی میں شمار نہ ہو گا کہ مذہبی نظریات اور بالخصوص جماعت اسلامی کے رہنماء ہونے کے باوجود بلوچستان میں مولانا کی شخصیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور پورے بلوچستان کے عوام کی نظریں مولانا کے احتجاج اور دھرنوں پر ہے۔ ذاتی رائے کے مطابق مولانا بلوچستان کی سیاست میں ایک قدآور سیاسی شخصیت بن کر ابھرے ہیں جس کے بعد قوم پرست سیاسی جماعتوں کو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے[4]۔
مگر کچھ اور بھی ہے!
وہ کچھ اور یہ کہ مولانا اگرچہ سیاسی طور بلوچ قوم کی نظر میں اہمیت حاصل کرچکے ہیں جبکہ دوسری طرف قوم پرست سیاسی جماعتوں نے بلوچ عام آدمی کو کافی حد تک مایوس کر دیا ہے۔ مگر بلوچستان میں دو گروپ نہیں بلکہ ایک تیسرا گروپ بھی ہے۔ وہ تیسرا گروپ مکمل اپنے معاملات سے بخوبی آگاہ ہی نہیں بلکہ اپنے نظریات و سوچ میں مکمل واضح بھی ہے۔ وہ جانتا ہے قوم پرست سیاسی جماعتیں بخوشی یا مجبوراً سمجھوتوں کا شکار ہوجاتی ہیں کیونکہ انہیں سیاست میں زندہ رہنا ہوتا ہے۔
انہیں اپنی پارٹی پالیسیز کے ماتحت چلنا پڑتا ہے۔ جبکہ مولانا ہی جدوجہد دراصل حقوق کی جدوجہد نہیں بلکہ مسائل کی جدوجہد ہے۔ مولانا اپنے حساب سے بہتر کام کر رہے ہیں مگر ان کی ریلیاں اور دھرنے کہاں اختتام پذیر ہونے ہیں مولانا کی جدوجہد کا آخری و حتمی نتیجہ کیا نکلنا ہے وہ سب کھلی کتاب کی طرح ہے۔ مولانا لاکھ بھی اداروں پر تنقید کرے مگر ادارے بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کی تنقید کا حتمی نتیجہ کیا نکلنا ہے۔
اور اس حتمی لکیر سے مولانا کبھی آگے نہیں جا سکتے کیونکہ ایک مقام پر آ کر مولانا کی جدوجہد خود بخود دم توڑ جائے گی اور مولانا اسے اپنی جہد کی آخری لکیر سمجھتے ہیں۔ یہ تمام ڈر صورتحال گو کہ ظاہری طور اداروں اور ریاست کی ناراضگی کا سبب ہے مگر یہ جہدوجہد درحقیقت کسی بھی موڑ پر پہنچ کر ریاستی موقف کی تقویت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس لئے تیسرا گروہ مولانا کو زیربحث لانا ہی نہیں چاہتا وقتی مسائل کے حل تک پورا بلوچستان مولانا کی حمایت کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ جس کی مخالفت کوئی بھی ذی شعور بلوچ نہیں کر سکتا۔
جبکہ قوم پرست سیاسی جماعتیں سمجھوتہ کی نظر ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے عام نظریاتی و سیاسی سنگت مایوس ہو کر پیچھے ہٹ رہا ہے۔ ایسے بھی تیسرا گروہ اگر غیر پارلیمانی سیاست کو لے کر سامنے آ جاتا ہے اور میدان میں آ کر جہدوجہد تیز کرتا ہے تو قوم پرست جماعتیں اور مولانا دونوں کے ہاتھ خالی رہ جائیں گے۔ مگر جو مشکلات انہیں درپیش آنی ہیں وہ مولانا کے لاکھ کامیاب جلسے بھی ہوں انہیں درپیش نہیں آنی۔ اس لئے مولانا کے لئے اداروں کی پالیسی یکسر مختلف ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کے لئے مختلف، اور تیسرے گروپ کے لئے ریاست نے الگ پالیسیز اپنا رکھی ہیں جن میں حد درجے کی مشکلات آ رہی ہیں اور آتی رہیں گی۔
فی الحال مولانا ایک انتہائی اہمیت کے حامل ہیں مگر یہ سب ایک حد تک ہے اور وقتی ہے جس کے بعد خاموشی ہی خاموشی ہے۔ مولانا سے اداروں کو کوئی مسئلہ نہیں نہ ہی مولانا اداروں کے لئے کوئی مسئلہ بن سکتا ہے جہاں تک بنیادی مسائل کی بات ہے وہ یقینی طور پورے بلوچستان کے مسائل ہیں اگر مولانا اسی روش پر چلتا رہا تو کافی اہمیت حاصل کرنے کے امکانات واضح ہیں اور آنے والے الیکشن میں مولانا کی جیت یقینی بن جائے گی۔
بلوچستان کو حق دو تحریک شروع کریں گے
"حق دو گوادر کو" تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن نے بلوچستان کو حق دو تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد دس لاکھ لوگوں کو کوئٹہ سے اسلام آباد لے کر جائیں گے۔ریاستی اداروں کو سوچنا چاہئے کہ جو لوگ انتخابات میں حصہ لیتے تھے وہ اب پہاڑوں پر کیوں چلے گئے۔ سی پیک کا وجود بلوچستان میں ہے ہی نہیں۔ بلوچستان کی تباہی میں جاگیر دار اور سردار برابر کے شریک ہیں، جو لوگ آج باپ میں ہیں اس سے قبل یہی لوگ پیپلزپارٹی اور اس سے پہلے مسلم لیگ ن میں تھے۔
کراچی پریس کلب کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ ہم نے گوادر میں دھرنا دیا لیکن بدقسمتی سے اس دوران کترینہ کیف کی شادی ہوئی جس کی وجہ سے ہمیں کوریج نہیں ملی۔ اگر بلوچ عوام کو کلبھوشن یادیو جتنی عزت بھی دی جائے تو مسائل ہو سکتے ہیں، بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچ عوام کا ہے، ہم وسائل کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں لیکن ہم بخار کے علاج کے لئے بھی کراچی آتے ہیں، کیا ہم ترقی کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے وسائل سب سے پہلے ہمارے اوپر خرچ کئے جائیں[5]۔
مولانا ہدایت الرحمان صوبائی امیر، جماعت اسلامی بلوچستان میں مقبول ہوسکے گی؟
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی الیکشن کے بعد صوبائی امرا کے انتخاب کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا ہے۔بلوچستان میں جماعت اسلامی کی قیادت مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کے سپرد کردی گئی ہے جو پہلی بار یہ منصب سنبھالیں گے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے بلوچ قوم پرستوں کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں خود کو سیاسی طور پر منوایا ہے۔
اب جماعت اسلامی کا صوبائی امیر بننے کے بعد صوبے کی سیاست میں اُن کا کردار بڑھ گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کے لیے قوم پرستوں اور جمعیت علما اسلام جیسی مضبوط جماعتوں کی موجودگی میں صوبے میں جماعت اسلامی کو مزید فعال، مضبوط اور عوامی مقبولیت دلانا بڑا چیلنج ہوگا۔
جماعت اسلامی کے ترجمان کے مطابق صوبائی امیر کے لیے خفیہ رائے دہی گذشتہ ماہ ہوئی۔ مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمان نے ارکان کی اکثریت کی رائے کے مطابق مولانا ہدایت الرحمان کو تین سال کے لیے امیر جماعت اسلامی بلوچستان مقرر کردیا۔ وہ یکم نومبر 2024 کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور 31 اکتوبر 2027 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔آئندہ مرحلے میں ضلعی سطح پر انتخابات ہوں گے۔
انہوں نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بڑی کشتیوں کے غیر قانونی شکار، ماہی گیروں کی سمندر میں نقل و حرکت اور سرحدی تجارت پر پابندیوں کے خاتمے کو بھی اپنے مطالبات کا حصہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے 2021 میں 32 روز اور 2022 میں مسلسل 56 روز تک دھرنا دیا۔انہوں نے بڑی احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کیا جن میں تاریخ میں پہلی بار خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ گوادر کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ناصر رحیم سہرابی کا کہنا ہے کہ گوادر میں پورٹ کی تعمیر اور چین کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد لوگوں کے مسائل حل ہونے کے بجائے نئی مشکلات نے جنم لینا شروع کیا۔
سکیورٹی کے نام پر لوگوں کو تنگ کرنا معمول بن گیا تھا، ماہی گیروں کو سمندر تک رسائی میں مشکلات تھیں، بڑی کشتیوں کے ذریعے مچھلیوں کے بے دریغ شکار سے چھوٹے ماہی گیروں اور ایران سے غیر رسمی سرحدی تجارت پر پابندیوں سے مقامی افراد کا روزگار متاثر ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مسائل پر لوگوں کے حقیقی جذبات کی عکاسی کرنے میں سیاسی جماعتیں ناکام رہیں۔ لوگ روایتی سیاست دانوں سے مایوس ہوگئے اور ایک خلا پیدا ہوگیا۔
مولانا ہدایت الرحمان نے اس خلا کا فائدہ اٹھایا اور نوجوانوں اور خواتین کو ساتھ ملاکر زبردست عوامی احتجاج سے ان مسائل کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کر کے پذیرائی حاصل کی۔ مولانا ہدایت الرحمان نے اپنے مطالبات کے حق میں 2021 میں 32 جبکہ 2022 میں 56 روز دھرنا دیا۔
انتخابات میں شرکت
انہوں نے کہا کہ حق دو تحریک نے عوامی مقبولیت کی بنا پر نہ صرف مئی 2022 کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی بلکہ 2024 کے عام انتخابات میں مولانا ہدایت الرحمان خود بھی پہلی بار کامیاب ہو کر بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔ انہوں نے گوادر کی سیاست پر کئی دہائیوں سے چھائے ہوئے مضبوط قوم پرست جماعتوں اور خاندانوں کے امیدواروں کو شکست دی۔
اس احتجاج کے دوران مولانا ہدایت الرحمان اور اُن کے ساتھیوں نے سختیاں بھی برداشت کیں۔احتجاج کے دوران جھڑپوں میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کے الزام میں حق دو تحریک کے کئی کارکن گرفتار کیے گئے۔ مولانا ہدایت الرحمان خود بھی جنوری 2023 سے مئی 2023 تک چار ماہ تک جیل میں رہے۔ مقامی مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کی گوادر میں پذیرائی اور کامیابی اُن کی مذہبی یا جماعتی وابستگی کی وجہ سے نہیں بلکہ گوادر کے دیرینہ مسائل پر کُھل کر آواز اٹھانے کی وجہ سے ہوئی۔
’اسی لیے انہوں نے انتخاب بھی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑا اور حق دو تحریک کو الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹر کروا کر خرگوش کے انتخابی نشان پر انتخاب لڑا۔ جماعت اسلامی کو اس پر سمجھوتہ بھی کرنا پڑا۔‘ مولانا ہدایت الرحمان نے اسمبلی کا انتخاب بھی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑا۔
اب حق دو تحریک اور جماعت اسلامی کو مولانا ہدایت الرحمان ساتھ ساتھ کیسے چلائیں گے؟ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے نومنتخب صوبائی امیر کا کہنا ہے کہ وہ حق دو تحریک سے اپنی وابستگی ختم نہیں کریں گے، کارکن کی حیثیت سے اس سے جُڑے رہیں گے لیکن توجہ اب پورے صوبے پر رہے گی۔ ناصر رحیم سہرابی کے مطابق اسمبلی میں جانے اور بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں پارلیمانی سیاست کے مخالف طبقے کی احتجاجی تحریک اُبھرنے کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور مولانا ہدایت الرحمان کی پذیرائی کم ہوئی ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ پہلے اُن کی جدوجہد کا محور گوادر اور مکران ڈویژن تھا، اب پارٹی کی صوبائی قیادت سنبھالنے کے بعد پورے صوبے کے مسائل پر بھرپور توجہ دیں گے اور عوام کی آواز بنیں گے۔ جماعت اسلامی کے نومنتخب صوبائی امیر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ جماعت اسلامی کو بلوچستان کی ایک بڑی سیاسی قوت بنائیں گے۔
سینیئر صحافی اور کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رِند سمجھتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمان کی جانب سے مقبول سیاسی نعروں کے ساتھ سیاست کرنے کی حکمت عملی سے جماعت اسلامی کو چلائیں گے تو اس سے جماعت کو فائدہ ملے گا۔
’تاہم ان سے یہ توقعات کرنا درست نہیں ہوگا کہ وہ جماعت اسلامی کو صوبے میں پارلیمانی سیاست میں مضبوط حصہ دِلا سکیں گے کیونکہ مضبوط الیکٹ ایبلز، قوم پرستوں اور جے یو آئی کے ساتھ مقابلہ آسان نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ملک کے باقی حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی کبھی پارلیمانی سیاست میں زیادہ کامیاب نہیں رہی[6]۔
حوالہ جات
- ↑ فلسطین جذبہ جہاد وشوق شہادت سے آزادہوگا،مولانا ہدایت الرحمٰن - شائع شدہ از: 16 اکتوبر 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء
- ↑ 22اپریل کو فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی، عنقریب بلوچستان بھر میں عوامی احتجاج ہوگا، ہدایت الرحمن بلوچ- 20 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء
- ↑ امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت کی علامت ہے، مولانا ہدایت الرحمٰن- شائع شدہ از: 9 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء
- ↑ امین مگسی، مولانا ہدایت الرحمن کے حالیہ دھرنے- شائع شدہ از: 30 نومبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء
- ↑ بلوچستان کو حق دو تحریک شروع کریں گے، مولانا ہدایت الرحمٰن- شائع شدہ از: 5 جنوری 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء
- ↑ مولانا ہدایت الرحمان صوبائی امیر، جماعت اسلامی بلوچستان میں مقبول ہوسکے گی؟- شائع شدہ از: 9 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء