صاحب زادہ فضل کریم

ویکی‌وحدت سے
صاحب زادہ فضل کریم
صاحب فضل کریم.jpg
پورا نامصاحب زادہ فضل کریم
دوسرے نامحاجی فضل کریم
ذاتی معلومات
پیدائش1955 ء، 1333 ش، 1374 ق
یوم پیدائش24 اکتوبر
پیدائش کی جگہصوبہ پنجاب، پاکستان
وفات2013 ء، 1391 ش، 1433 ق
یوم وفات15اپریل
وفات کی جگہفیصل آباد
اساتذہ
  • مولانا محمد سردار احمد قادری
  • مفتی محمد نواب الدین
  • مولانا غلام رسول رضوی
مذہباسلام، سنی
مناصب
  • سنی اتحاد پاکستان
  • جمعیت علماء پاکستان

صاحب زادہ فضل کریم اتحاد بین المسلمین کے داعی اور عالمی سامراج کے سخت مخالف تھے۔ آپ محدث اعظم پاکستان محمد سردار احمد قادری کے صاحبزادے اور پاکستان کے ایک مذہبی سیاست دان اور اسکالر تھے۔ فضل کریم مرکزی جمعیت علماء پاکستان اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ رہ چکے تھے۔ ان کے والد محدث محمد سردار احمد قادری، اہل سنت کے بزرگ عالم دین مولانا محمد احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی کے شجرہ طریقت سے فیض یافتہ ہوچکے تھے۔

سوانح عمری

صاحبزادہ کے والدین مشرقی پنجاب کے شہر گورداس پور سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے دادا جٹ قبیلہ کے ایک بڑے زمین دار اور صوفی منش انسان تھے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان آنے والے قافلوں پر حملوں کے دوران ان کے خاندان کے 12 افراد شہید ہوئے۔ اس ملک میں آکر ان کے والدین نے اس وقت کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد میں سکونت پذیر ہوئے۔ جھنگ بازار میں ان کی رہائش گاہ تھی اور اسی گھر میں1955ء میں فضل کریم نے فیصل آباد کے جھنگ بازار میں واقع اپنے والد کی گھر آنکھ کھولی ان کے والد محدث پاکستان مولانا سردار احمد، احمد رضا خان بریلوی کے خاص شاگردوں میں شامل ہو چکے تھے۔ چھ بہنوں اور تین بھائیوں میں صاحبزادہ کا نمبر تیسرا تھا۔ ان کے بڑے بھائی صاحبزادہ فضل رسول اپنے والد کے سجادہ نشین ہیں اور دوسرے بڑے بھائی صاحبزادہ فضل احمد بزنس کے ساتھ تبلیغ بھی کیا کرتے تھے، ان کا پہلے ہی انتقال ہوچکا ہے۔

تعلیم

آپ نے دین کی ابتدائی تعلیم مولانا غلام رسول رضوی، محمد نواب الدین اور مولانا عرفان الحق سے حاصل کی۔ 1987ء میں انہوں نے جامعہ رضویہ فیصل آباد سے دینی تعلیم مکمل کی، آپ کی شادی 1977ء میں ہوئی، اس وقت ان کی عمر بائیس سال تھی اور ان کا نکاح مولانا شاہ احمد نورانی نے پڑھایا تھا۔ انہوں نے انیس 1987میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد سے اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور دینی علوم کے علاوہ 1987ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری بھی حاصل کی اور عملی زندگی کا آغاز ایک کاروباری شخصیت کے طور پر کیا۔

سیاسی سرگرمیاں

فضل کریم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جمیعت علمائے پاکستان کے اسٹیج سے اس زمانے میں جب یہ جماعت پاکستان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی تھی۔ اکتوبر 1978ء میں ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ہونے والے پاکستان کی تاریخی سنی کانفرنس میں 15 ہزار علماء اور 10 لاکھ عوام کی موجودگی میں صاحبزادہ کو جماعت اہل سنت پاکستان کا مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ آپ 14 برس تک جماعت اہلسنت پاکستان کے سیکرٹری جنرل کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ چار برس عالمی جماعت اہل سنت کے بھی سیکرٹری جنرل رہے۔ اس دوران انہوں نے برطانیہ، فرانس، اٹلی، امریکہ، ہالینڈ، مصر، سعودی عرب، دبئی اور کینیڈا کے تبلیغی دورے کئے تھے۔

آپ نے جمعیت علماء پاکستان میں مولانا عبدالستار خاں نیازی کے ہمراہ سینئر نائب صدر کی حیثیت سے سیاسی جدوجہد کرتے رہے، آپ 1993ء میں پہلی بار فیصل آباد سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے اس کے بعد 1997ء کا الیکشن لڑ کر دوبارہ رکن صوبائی اسمبلی بنے اور انہیں صوبائی وزیر اوقاف کا قلمدان دیا گیا۔ ان کی وزارت کے دور میں حضرت داتا گنج بخش کے مزار کی تزئین و آرائش اور توسیع کی گئی تھی۔ بعد میں صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم فیصل آباد کے این اے 82 سے دو بار مسلسل قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2008ء میں سابق وزیراعلٰی پنجاب محمد شہباز شریف کی حکومت میں انہیں متحدہ علماء بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا، لیکن بعد میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ دہشت گردی، سانحہ داتا دربار اور کالعدم تنظیموں کے مسئلے پر اختلافات میں شدت آنے پر صاحبزادہ نے متحدہ علماء بورڈ کے عہدے سے استعفٰی دے دیا اور مسلم لیگ (ن) سے اتحاد ختم کرکے اپنے سیاسی راستے جدا کر لیا۔

2009ء میں اہل سنت کی تیس جماعتوں نے متحد ہو کر محمد فضل کریم کی سربراہی میں سنی اتحاد کونسل قائم کی۔ صاحبزادہ نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے طالبانائزیشن اور مزارات اولیاء پر حملوں کے خلاف تاریخی جدوجہد اور کوشش کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی دہشت گردی اور پاکستان میں امریکی مداخلت کے خلاف زور دار آواز اٹھائی۔ یکم جولائی 2010ء کو برصغیر کے سب سے بڑے روحانی مرکز دربار حضرت داتا گنج بخش پر بم دھماکے کے خلاف محمد فضل کریم کی قیادت میں بھرپور تحریک چلائی گئی تھی ، 27 اکتوبر 2010ء کو ان کی قیادت میں مزارات اولیاء پر حملوں اور دہشت گردی کے خلاف دربار بری امام اسلام آباد سے دربار داتا گنج بخش لاہور تک تاریخی لانگ مارچ کیا گیا تھا۔

اپریل 2011ء کو مینار پاکستان گراؤنڈ میں ان کی زیر صدارت ملک گیر استحکام پاکستان سنی کانفرنس منعقد کی گئی، 14 اکتوبر 2012ء کو فضل کریم کی زیر قیادت ناموس رسالت کے تحفظ، ڈرون حملوں، دہشت گردی، مہنگائی کے خلاف کراچی سے راولپنڈی تک ٹرین مارچ کیا گیا ۔ آپ نے حضور نبی کریم (ص) کے گستاخانہ خاکوں اور امریکہ میں تیار ہونے والی گستاخانہ فلم کے خلاف بھی احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی ۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ پر بھی صاحبزادہ مسلسل میدان میں رہے، نومبر 2012ء میں جماعت اہل سنت پاکستان کے زیراہتمام گستاخان فلم کے خلاف راولپنڈی سے کراچی تک لبیک یارسول اللہ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والوں میں بھی صاحبزادہ شامل تھے۔ انہوں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفٰی میں بھی بنیادی کردار ادا کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ [1]

اتحاد امت کے لیے جد و جہد

صاحبزادہ مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے بھی سربراہ تھے۔ ان کی زیر نگرانی فیصل آباد میں عظیم دینی درسگاہ جامعہ رضویہ نصف صدی سے دینی علوم کی ترویج واشاعت کے لیےفعال ہے۔ آپ کے والد گرامی کے مریدین اور شاگرد پوری دنیا میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ محمد فضل کریم نے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی راستے جدا کرنے کے بعد مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر رکھا تھا اور وہ فیصل آباد حلقہ این اے 82 سے امیدوار بھی تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ جب یہ سیاسی جماعت مختلف دھڑوں کا شکار ہوئی۔ تو انہوں نے اپنی جماعت الگ منظم کی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کر کے چار دفعہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شہباز شریف کے سابقہ دور حکومت میں وہ وزیر اوقاف بھی رہے تھے اور کامیابی کے ساتھ اپنا دور نبھایا۔ چند سال قبل جب پاکستان میں دہشت گردی کی وبا عام ہوئی اور مختلف گروہوں اور تنظیموں نے اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تو آپ نے سید حسین الدین شاہ کے ایماء اور ہدایت پر اہل السنّت والجماعت کے دھڑوں کو منظم کرنے کی جد و جہد کی اور بالآخر آپ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اہل السنّت والجماعت کے مطالبات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد سے ان کے مخالف ہوئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے آخری دنوں میں مسلم لیگ (ق) سے اپنے روابط بڑھائے [2]۔ آپ نے خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے ساتھ ساتھ لاہور کے داتا دربار سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، فضل کریم جمیعت علما پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہ چکے تھے۔ آپ نے امریکا، برطانیہ، مصر،شام سمیت بہت سے ملکوں کے دورے بھی کیے۔ صاحبزادہ انیس سو ترانوے سے ستانوے تک پنجاب اسمبلی کے رکن رہے جب کہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ جب کہ انہوں نے دوہزار دو میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کامیابی حاصل کی پھر اسی نشست پر دوہزار آٹھ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ فضل کریم کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق موقف بھی واضح رہا،2013ء کے انتخابات کے لیے ن لیگ سے اختلافات کے باعث وہ پیپلزپارٹی اور قاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں تھے۔

وفات

ممتاز مذہبی رہنما سیاسی شخصیت، معروف سیاستدان اور سابق وزیراوقاف صاحبزادہ حاجی فضل کریم چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی نماز جنازہ آج (منگل) صبح 10 بجے دھوبی گھاٹ مےں ادا کی جائے گی۔ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم گذشتہ چند روز سے شدید علیل تھے وہ جگر کے کینسر میں مبتلا تھے اور طبیعت مزید خراب ہونے کی وجہ سے قومے میں چلے گئے تھے۔ وہ پیر کے روز الائیڈ ہسپتال فیصل آباد کے پرائیویٹ وارڈ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات کی خبر سے پورے ملک میں سوگ پھیل گیا۔ ملک بھر کے مذہبی، سیاسی، سماجی، عوامی اور صحافتی حلقوں نے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں نے کہا ہے کہ صاحبزادہ حاجی فضل کریم کی وفات سے ملک میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے جسے صدیوں تک پر نہیں کیا جا سکتا۔ صاحبزادہ حاجی فضل کریم نے اپنے سوگواروں میں چار بیٹے صاحبزادہ حامد رضا، حسن رضا، حسین رضا اور محسن رضا کے علاوہ ایک بیٹی اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔

ان کی وفات پر تعزیت

فضل کریم کی وفات پر ان کے مریدین اور سیاسی و مذہبی لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے تھے اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی راجہ ریاض احمد نے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے الائیڈ ہسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حاجی فضل کریم کی وفات سے ملک میں سیاسی اور مذہبی طور پر بہت بڑے خلا نے پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ صاحب زادہ جیسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں اور ان کی مذہبی، سیاسی اور سماجی خدمات کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔

قائم مقام چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے صاحبزادہ حاجی فضل کریم کی وفات پر اپنے تمام حامیوں اور مریدین کو صبر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ صاحبزادہ فضل کریم پاکستان میں مسلک اہل سنت کے بہت بڑے عظیم لیڈر تھے۔ آپ نے ساری زندگی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد اور کوشش کی تھی۔ تاہم صاحبزادہ کے انتقال کے بعد ان کی میت ان کی اقامت گاہ واقع کینال روڈ لے جائی گئی اور سنی اتحاد کونسل نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران کونسل کی تمام سرگرمیاں معطل رہیں گی۔ صدر زرداری، وزیر اعظم کھوسو، گورنر و وزیر اعلیٰ پنجاب، مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف، شہباز شریف، منور حسن، مولانا فضل الرحمن، الطاف حسین، علامہ ڈاکٹر طاہر القادری، سرپرست انجمن اشاعت دین اسلام علامہ منیر احمد یوسفی اور دیگر رہنماؤں نے ان کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ خصوصی رپورٹر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، صدر جاوید ہاشمی، وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی اور دیگر نے صاحبزادہ فضل کریم کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ الگ الگ تعزیتی پیغامات میں انہوں نے کہا آج ملک ایک مخلص، ایماندار سیاسی شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔ خصوصی نامہ نگار کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بھی ان کی رحلت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لواحقین کے نام تعزیتی پیغام میں کہا مرحوم کی مذہبی و ملی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور، سابق وزرائے اعظم پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی نے بھی گہرے دکھ، دلی رنج و غم اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ق لیگ کے صدر شجاعت حسین، رہنما پرویز الہی، مسلم لیگ کے سربراہ پیر صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا، محمد علی درانی نے بھی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ الطاف حسین کی ہدایت پر ایم کیو ایم کا اعلی سطحی وفد ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی [3]۔

انہیں جھنگ بازار فیصل آباد میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام کے احاطے میں دفن کیا گیا[4]۔

جانشین

یہ امر قابل ذکر ہے کہ حاحب زادہ کی وفات سے دو روز قبل سنی اتحاد کونسل کے ایک اہم اجلاس میں متفقہ طور پر انکے صاحبزادے حامد رضا کو کونسل کا قائم مقام چیئرمین نامزد کر دیا گیا۔ ان کے صاحبزادے حامد رضا ان کے جانشین ہوں گے، ان کے سوگواران میں بیوہ، ایک بیٹی اور 4 بیٹے شامل ہیں۔

حوالہ جات

  1. صاحبزادہ فضل کریم کی زندگی پر ایک نظر- islamtimes.org -شائع شدہ از:15 اپریل 2013ء-اخذ شده به تاریخ:27 فروری 2024ء.
  2. ادریہ، ماہنامہ ضیائے حرم، ص 10 مئی 2013ء
  3. صاحبزادہ فضل کریم انتقال کر گئے‘ تدفین آج فیصل آباد میں ہو گیnawaiwaqt.com.pk، -شائع شدہ از:16 اپریل 2013ء-اخذ شده به تاریخ:27 فروری 2024ء۔
  4. قائد اہل سنت صاحبزادہ فضل کریمnawaiwaqt.com.pk،15،- اپریل 2017ء-اخذ شده به تاریخ:28 فروری 2024ء۔