محمد اقبال لاہوری
محمد اقبال لاہوری | |
---|---|
دوسرے نام | علامہ محمد اقبال |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1877 ء، 1255 ش، 1293 ق |
پیدائش کی جگہ | کراچی پاکستان |
وفات | 1948 ء، 1326 ش، 1366 ق |
یوم وفات | 21اپریل |
وفات کی جگہ | لاہور |
مذہب | اسلام، سنی |
اثرات |
|
مناصب |
|
محمد اقبال لاہوری ڈاکٹر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877 ء21 اپریل 1938 ء ) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر ، مصنف ، قانون دان ، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے ۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے ۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا ۔ ” دار یکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام ” کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی ۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کار نامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے ، جو انہوں نے 1930 ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔
یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے ۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
سوانح عمری
اقبال کے والد شیخ نور محمد کشمیر کے پروپر ہمنوں کی نسل سے تھے ۔ غازی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جد نے اسلام قبول کیا ۔ اقبال کے آباء و اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آۓ اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوۓ ۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضرور ہوا جس نے فقط دل سے راور کھی ۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے ۔ بزرگوں نے کشمیر مچھوڑا تو سیالکوٹ میں ہے ۔
تعلیم
سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغا اور وظیفہ ملا۔ اسکاچ مشن اسکول میں انٹر میڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہو چکی تھیں لہذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، وہیں رہے ، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا با قاعد وآغا ہوتا ہے۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی ، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے ، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔
لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی ۔ اس وقت پورا بر صغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا۔ خصوصاً اردوزبان پر ان کی مجزانہ گرفت کا مہر کسی کو اعتراف تھا ۔ اقبال کو یہی گرفت درکار تھی ۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی ۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا ۔ داغ جگت استاد تھے ۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی روپ تھے۔
ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا ۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا ۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا ۔ یہ کہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مگر اقبال اس مختصر سی بنا گردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے ۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا ۔
شاعری
- کُلیّاتِ اِقبال نثر
- علم الاقتصاد – 1903ء
فارسی شاعری
- اسرار خودی – 1915ء
- رموز بے خودی – 1917ء
- پیام مشرق – 1923ء
- زبور عجم – 1917ء
- جاوید نامہ – 1932ء
- مسافر – 1936ء
- پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق – 1931ء
اُردو شاعری
- مہدف مقالہ: اردو شاعری
- بانگ درا – 1924ء[22]
- بال جبریل – 1934ء[23]
- ضرب کلیم – 1936ء[24]
فارسی +اُردو شاعری
- ارمغان حجاز – 1938ء[25]
- انگریزی تصانیف
- فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء – 1908ء
- اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو – 1930ء
وفات
محمد اقبال 21 اپریل 1938 ء بمطابق ۲۰ ، صفر المصفر ۱۳۵۷ ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جاملے۔ علامہ اقبال کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔ آپ کا مزار لاہور بادشاہی مسجد کے احاطے میں ہے[1]۔
اسلام اور علامہ محمد اقبال
علامہ اقبال کو مغربی علوم پر بے پناہ دسترس تھی، لیکن جو لوگ مغربی علوم و فنون کے رعب سے مرعوب ہو کر اسلامی نظام حیات کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں، علامہ اقبالؒ نے ان کو بڑے زوردار انداز میں چیلنج کیا اور پُرزور استدلال سے یہ نقطہ ء نظر پیش کیا کہ اسلامی نظریات آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں،جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔
مسلم ریاست کا قیام
جو لوگ یہ رائے رکھتے تھے کہ اسلامی نظامِ زندگی موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے ناکافی اور ناقابل عمل ہے، وہ علامہ اقبال کے دلائل کا سامنا نہیں کر سکتے تھے اور ان کے روبرو بولنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ مسلم ریاست کا جو مطالبہ پیش کیا تھا، اس کی بنیاد بھی علامہ اقبال کا یہ نظریۂ تھا کہ اسلام میں مذہب اور سلطنت ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہیں۔
محمد اقبال لاہوری نے فرمایا تھا کہ رسالتِ محمدیہؐ کا مقصد صرف یہی نہیں کہ بندوں کو اپنے رب سے ملائے، بلکہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا میں رہنے اور انفرادی و ملی زندگی بسر کرنے کے لئے ایک مکمل آئین بھی تیار فرمائے اور یہ آئین آج بھی مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ہر فعل کے لئے خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ میں اپنے لئے نظامِ کار تلاش کرنا چاہیے۔
اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کے لئے احکام وضع کئے ہیں
ان کے نزدیک اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کے لئے احکام وضع کئے ہیں اور مسلمانوں کا اس پر عقیدہ ہے کہ ہمارے لئے انفرادی ، قومی اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد الہامِ الٰہی، یعنی قرآن کے احکامات پر مبنی ہے۔ اسلام میں وہی عمل قربِ الٰہی اور رضائے الٰہی کا باعث ہوگا جو اللہ اور رسولِ کریمؐ کے احکامات کے مطابق کیا جائے گا۔ اقبال اس سیاست کو، جو مذہب کے احکامات کے مطابق نہ ہو، ضلالت و گمراہی قرار دیتے تھے۔
علامہ محمد اقبال کے ان خیالات کی رہنمائی میں اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں ایک الگ سلطنت کا قیام اس لئے ضروری تھا کہ ہم اپنی اجتماعی ملی زندگی کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں۔ دینِ اسلام ہمارے لئے اور پورے عالم انسانیت کے لئے نجات دہندہ بھی اسی صورت میں ثابت ہو سکتاہے، جب ہم اپنی اجتماعی زندگیوں میں اسے بروئے کار لائیں گے۔
ان کا یہ ارشاد انتہائی قابلِ غور ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’ایک سبق جو مَیں نے تاریخ اسلام سے سیکھا ہے، یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی‘‘ قیام پاکستان کے پس منظر میں جب ہم علامہ اقبال کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہم پر یہ راز کھل جائے گا کہ جب ہندوؤں کی دائمی غلامی کا خطرہ اسلامیانِ ہند کو درپیش تھا تو اس وقت اسلام ہی مسلمانوں کی مدد کو پہنچا۔
آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر شریعت اسلامیہ کا نفاذ ممکن نہیں
اسلام ہی تصور پاکستان کی بنیاد قرار پایا اور اسلام ہی کی برکات سے پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔شریعتِ اسلامیہ کے بارے میں یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ اس میں صرف عبادات ہی کے لئے احکامات نہیں ہیں، بلکہ ہماری معاشی اور سماجی زندگی کے لئے بھی اسلام ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا تھا۔یہ خط علامہ اقبال کے خطوط کی کتاب اقبال نامہ کے حصہ دوم میں محفوظ ہے۔۔۔
"شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قانون کو معقول طریقے سے سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم از کم اپنے معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے، لیکن ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر شریعت اسلامیہ کا نفاذ ممکن نہیں"۔ علامہ اقبال نے اپنے اس خط میں آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت بھی بیان کر دی ہے اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے مقاصد بھی واضح کر دیئے ہیں۔ عوام کے معاشی مسائل کے حل کے لئے یہ نسخہ بھی تجویز کر دیا ہے
کہ شریعتِ اسلامیہ پر عمل کیا جائے۔ اقبال نامہ کی جلد اول میں علامہ اقبالؒ کا ایک خط موجود ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’اگر آزادی ء ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر موجود ہے، ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادیء وطن پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہے‘‘ اندازہ کیجئے کہ اقبال کو اسلام سے کس درجے کا عشق تھا کہ اسلام کی سربلندی کے بغیر انہیں آزادی بھی قبول نہیں تھی
حالانکہ اقبال کی ساری شاعری آزادی اور حریت کی پیامبر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے لئے جس آزاد سلطنت کے علمبردار تھے، اس سے علامہ اقبال کامقصود مسلمانوں کی آزادی اور اقتصادی بہبود بھی تھا، لیکن ایک اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی سب سے مقدم ذمہ داری اسلام کا نفاذ ہے۔علامہ اقبالؒ نے ہندوستانی قومیت یا دوسرے الفاظ میں وطن کی بنیاد پر قومیت کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے اسلامی قومیت کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس کی وجہ ہی یہ تھی کہ علامہ اقبالؒ اسلام کی بالادستی چاہتے تھے اور اسی مقصد کی خاطر مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار مملکت کا تصور پیش کیا تھا۔ علامہ قبالؒ فرماتے ہیں: ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے‘‘۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے
اقبال کی فکر کے حوالے سے یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا جو تصور دیا تھا، اس کے پس منظر میں علامہ اقبالؒ کا یہ عقیدہ تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس کو فرد اور معاشرہ دونوں پر نافذ کرنے کا حکم ہے۔ اسلام کے ثمرات بھی ہمیں اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں، جب یہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر نافذ ہو۔
انہوں نے اپنے الٰہ آباد کے خطبے میں اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: ’’اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نصب العین سے الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کو بھی ترک کرنا لازم ہو جائے گا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اگر اسلام کا ہماری ریاست کے امور سے، سیاست سے، معاشرت سے اور معیشت سے تعلق باقی نہیں رہے گا تو پھر اسلام کی بطور نظام حیات اہمیت موجود نہیں رہے گی۔ اسلام پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے ایک اعلیٰ و ارفع نظام ہے، لیکن اگر مسلمان ہی اپنی اجتماعی زندگی کا رشتہ اسلام سے توڑ ڈالیں گے[2]۔
مسلمان کا مقام اقبال کی نظر میں
اقبال اسلام کے سچے پرستار تھے۔ مسلمانوں کے ہمدرد اور خیر خواہ تھے۔ چنانچہ ان کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور مسلمان کے متعلق ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی کھوئی ہوئی عظمت یاد دلانا اور اس کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ مسلمانوں کو مختلف اصولوں اور پیرایوں میں آپ نے خطاب کیا ہے‘ اُن کی بانگ درا نے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔ نالہ نیم شئ نے مردہ قلوب کو جھنجھوڑا اور زندگی کی روح پھونکی۔ ضرب کلیم نے دلوں کے جامد بتوں کو توڑ ڈالا۔
علامہ اقبال مسلمانوں کی درماندہ حالت پر غور کرتے ہیں اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے خود اپنے آپ کو اپنی سیرت وکردار کو لٹا دیا ہے۔ غلامی اور محکومی کی زندگی کے عادی ہو گئے ہیں۔ اپنے کردار کی خوبیوں سے اس قدر دور ہوئے کہ خود اپنی کتاب سے بے بہرہ ہو گئے اور اسے ناقص سمجھنے لگے اس لیے کہ یہ ان کو غلامی کے طریقے نہیں سکھاتی۔
علامہ اقبالؒ کا دل درد انسانیت سے معمور تھا‘ مسلمانوں کی پس ماندہ حالت سے اقبالؒ کا دل تڑپ اُٹھتا تھا۔ چنانچہ کئی بار بارگاہ ایزدی میں اپنی قوم کی حالت پیش کی کبھی دعائیں مانگیں اور کبھی شکایت بھی کی اور پھر شکریہ بھی ادا کیا:
میں بندۂ ناداں ہوں‘ مگر شکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاک بخاریٰ وسمرقند
تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں
مرغانِ سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
جس دیس کے بندے‘ ہیں غلامی پہ رضا مند
ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی
ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی
بر آں صفت تیغ وپیکر نظر اس کی[3]۔
عالم اسلام کا موجودہ بحران اور فکر اقبال کی اہمیت
آج سے 1376؍ سال قبل کربلا کے میدان میں سیدنا حضرت حسینؓ کی شہادت ہوئی تھی۔ اسی وقت سے عالم اسلام میں بحران کا آغاز ہوا۔ حضرت حسینؓ کی شہادت دراصل عالم اسلام کے بحران کو روکنے کی جاں توڑ کوشش کا نام ہے۔ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا مبارک دور ختم ہو کر ملوکیت کا آغاز ہورہا تھا، حضرت حسینؓ نے اپنی جان پر کھیل کر اُسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ بحران رک نہ سکا، مگر حضرت حسینؓ کامیاب رہے۔ اپنی عظیم شہادت سے آپ نے جو درس دیا، اُس کو یاد رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی شدید ضرورت ہے:
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادئ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیو ں کی غلامی نہ کر قبول
ملوکیت کے دور کی تان بھی 1270؍ سال بعد ٹوٹ گئی جب پہلی عالمی جنگ کے بعد سن 1920ء میں ترکی میں کمال اتاترک کی قیادت میں نادان ترکوں نے انگریزوں کے اشاروں پر خلیفہ کو معزول کردیا۔ مسلم دنیا پر اس سانحے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بالخصوص ہندوستا ن میں مسلمانوں کے ذہنوں پر بجلی کوند گئی، مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ ہمتیں جواب دے گئیں۔ مسلم قیادت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا۔ جس نے پورے ملک میں بحالئ خلافت کی تحریک چلائی تھی۔ ملت افراتفری کا شکار ہو گئی۔ اتحاد بکھر گیا۔ مسلمان بے بسی، بے کسی اور بے چارگی میں مبتلا ہو گئے[4]۔
علامہ اقبال اور اسلامی بیداری
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو بنیادی کردار علامہ اقبال کے افکار و اشعار نے ادا کیا ہے تاریخ اسے فراموش نہیں کر سکتی۔ برطانوی سامراج کے چنگل میں فکری، نظری، ثقافتی اور سیاسی تسلط میں گرفتار امت مسلمہ کے لیے علامہ محمد اقبال نے جو چراغ روشن کیے اس کی روشنی اور کرنیں آج بھی با آسانی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے قرآنی تعلیمات اور صدر اسلام کو اپنا منشور اور آئیڈیل قرار دے کر بر صغیر پاک و ہند کی نوجوان نسل میں ایسی روح پھونکی کہ وہ نہ صرف اپنی خوابیدہ صلاحیتوں سے آشنا ہوا بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان عمل میں وارد ہوگیا۔
آج عرب ممالک بالخصوص مصر، تیونس، لیبیا، بحرین و غیرہ میں جس اسلامی بیداری نے سر اٹھایا ہے اس کے پیچھے جہاں امام خمینی ، حسن البنا، سید ابوالاعلی مودودی اور جمال الدین اسدآبادی جیسے مسلمان علماء و دانشوروں کے افکار و نظریات ہیں وہاں علامہ اقبال کے فکر و اندیشے کو بھی آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔
آج عرب دنیا اور شمالی افریقہ کے ممالک میں جس اسلامی بیداری کا آغاز ہوا ہے اس میں سامراج دشمنی، اسلام سے محبت، مغربی تہذیب سے نفرت اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد واضح و نمایاں ہے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری اور نثر کا جب مطالعہ کریں تو اس میں بھی یہی عناصر غالب نظر آتے ہیں علامہ اقبال کی شاعری کا ایک بڑا ہدف اپنے دور کے استعمار و سامراج کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اور اپنی ملت کو اس کے تسلط سے آزادی دلانا تھا۔ آپ کے مختلف اشعار میں اس مبارزے کو بڑی آسانی سے درک کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسلام کی نشات ثانیہ کے لیے جتنے ہی اشعار لکھے ہیں ان میں سامراج کے چنگل سے آزادی کا عملی پیغام ہے۔
شب گریزان ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
علامہ اقبال ایک اور مقام میں فرماتے ہیں:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا
ایک اور جگہ پر کہتے ہیں:
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہاں گیر تری
ماسوااللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلمان ہو تو تقدیر سے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یا آپ کا بہت ہی مشہور شعر ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
علامہ اقبال نے فارسی اور اردو میں سامراج کے خلاف قیام کی ضرورت اور اس کے نتائج کے بارے میں ہزاروں شعر کہے ہیں اور جیسا کہ ہم نے شروع میں کیا ہے کہ اسلامی بیداری کی حالیہ تحریک میں سامراج دشمنی کے علاوہ مغربی ثقافت اور مغربی نظام سے نفرت بھی نمایان ہے یہی خصوصیات علامہ اقبال کی شاعری میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔
علامہ اقبال نے مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا موازنہ کرتے ہوئے لکھے ہیں:
عرب کے سوز میں ساز عجم ہے
حرم کا راز توحید امم ہے
تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
علامہ اقبال کی شاعری اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کا سبق دیتی ہے اور آپ نے "خودی " کا جو نظریہ پیش کیا اس کے پیچھے بھی بنیادی طور پر یہی فلسفہ ہے وہ مسلمانوں کو "خودی" کی بیداری کا پیغام دیتے ہیں اس موضوع پر ان کے کلام میں سب سے زیادہ اشعار موجود ہیں:
خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ سرّ زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاودان ہوجا
تو راز کن و مکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیان ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہوجا
یہ ہندی وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اسے شرمندہ ساحل، اچھل کر بے کراں ہوجا
خودی کے زور سے دنیا پہ چھاجا
مقام رنگ و بو کا راز پا جا
برنگ بحر، ساحل آشنا رہ
کف ساحل سے دامن کھینچتا جا
جس طرح کہ ہم نے شروع میں اشارہ کیا تھا کہ حالیہ اسلامی بیداری کا اصل منشور قرآن اور رسول اللہ کی سیرت ہے اقبال بھی اسلامی بیداری کا اصل منبع قرآن حکیم کو قرار دیتے ہیں:
قران میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار[5]۔
وفات
محمد اقبال 21 اپریل 1938 ء بمطابق ۲۰ ، صفر المصفر ۱۳۵۷ ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جاملے۔ علامہ اقبال کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔ آپ کا مزار لاہور بادشاہی مسجد کے احاطے میں ہے[6]۔
حوالہ جات
- ↑ علامہ اقبال کی سوانح اور شخصیت-20 اپریل 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 دسمبر 2024ء۔
- ↑ اسلام اور علامہ محمد اقبالؒ محمد آصف بھلی- شائع شدہ از: 10 فروری 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔
- ↑ مسلمان کا مقام علامہ اقبالؒ کی نظر میں- شائع شدہ از: 17 اپریل 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔
- ↑ عالم اسلام کا موجودہ بحران اور فکر اقبال کی اہمیت-شائع شدہ از: 20 نومبر 2014ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔
- ↑ "علامہ اقبال" اور اسلامی بیداری- اخد شدہ بہ تاریخ:29 دسمبر 2024ء۔
- ↑ علامہ اقبال کی سوانح اور شخصیت-20 اپریل 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 دسمبر 2024ء۔