سید محمد علی نقوی

    ویکی‌وحدت سے
    سید محمد علی نقوی
    شہید محمد علی.jpg
    دوسرے نامشہید محمد علی نقوی
    ذاتی معلومات
    پیدائش1954 ء، 1332 ش، 1373 ق
    یوم پیدائش28 ستمبر
    پیدائش کی جگہپاکستان
    یوم وفات7 فروری
    وفات کی جگہلاہور
    مذہباسلام، شیعہ
    اثرات
    • المصطفی سکول سسٹم
    • امداد فاونڈیشن
    مناصب
    • امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا بانی

    سید محمد علی نقوی وہ اپنی سیاسی اور تعلیمی خدمت کی وجہ سے پاکستان کے چمران کے لقب سے معروف ہیں۔ وہ اس قدر مقبول اور مخلص تھے کہ لوگ انہیں پاکستان کا چمران کہتے تھے۔ وہ پاکستانی معاشرے میں بیداری اور شعور پھیلارہے تھے۔ امریکی ایجنٹوں کے لئے ان کی سرگرمیاں ناقبول ہوگئی تھیں لہذا ان کو شہید کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ آپ نے والدین کے ہمراہ مختلف ممالک میں گزارا۔ کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ 1979ء کو آپ نے سرکاری ملازمت شروع کی۔ 1990ء میں ملازمت چھوڑنا پڑی اور پرائیویٹ کلینک پر کام شروع کیا۔ آپ کا شمار، طلبہ تنظیم امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اور بعض دیگر تنظیم کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ طالب علمی کے بعد آپ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سے منسلک ہوئے۔ نظریہ ولایت فقیہ کے بڑے حامی اور عاشق تھے۔ آپ نے ہی ملت کی ضرورت کے پیش نظر المصطفی سکول سسٹم اور امداد فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا۔ 1995ء کو دفتر جاتے ہوئے لاہور میں سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔

    سوانح عمری

    شہید ڈاکٹرمحمد علی نقوی لاہور کے علاقہ علی رضا آباد میں 1962ء میں پیدا ہوئے اس دواران شہید ڈاکٹر کے والد سید امیر حسین نجفی جو نجف اشرف میں دینی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے اسی سال واپس آئے اور اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لئے گئے شاید یہ خوش قسمتی تھی شہید کی کہ عالم زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نجف اور کربلا کی فضائیں جذب کرنے کا موقع نصیب ہوا ڈاکٹر صاحب نے چلنا نجف میں سیکھا اور بولنا کربلا میں شاید یہ وجہ تھی کہ انہوں نے زندگی بھر اسی فقرے کو لائحہ عمل بنایا۔

    تعلیم

    اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم کینیا کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی اس کے بعد والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ آنا پڑا وہاں پر آپ نے سنیئیر کیمبرج کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا بعد ازاں انٹر پری میڈیکل گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جو کہ GCکے نام سے جانا جاتا ہے اس کے بعد پاکستان کے قدیمی اور معروف کالج King Edwardsسے ایم بی بی ایس کیا اور نوکری سرکاری سروسز ہسپتال میں کی۔Ansthesiaمیں Specialization کرنے کے ساتھ ساتھ دوران ملازمت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں استاد کے فرائض انجام دئیے۔

    سینئیر کیمبرج کے زمانہ طالب علمی میں آپ نے اسکا ؤٹنگ میں شمولیت اختیار کی اور اس دوران اپنے آپ کو بہترین اسکاؤٹ ثابت کیا ،دوران تعلیم سینئیر کیمبرج میں آپ ایک اچھے Debater بھی تھے جس کی وجہ سے آپ کو Debating Society کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا آپ نے ایک Debater کی حثییت سے کمپالہ میں ملکی سطح پر شہرت پائی۔ آپ زمانہ طالب علمی میں جوڈوکراٹے سے بھی واقف تھے

    اور آپ نے بچپن میں مولا علی ؑ کے قول پر عمل کرتے ہوئے تیرا کی بھی سیکھی اوربہترین تیراک کا ایواڈ بھی حاصل کیا اور ساتھ ہی گھڑسواری اور نشانہ بازی سیکھی ۔آپ بچپن سے ہی Stamp Collecting کا شوق تھاجوStampS آپ نے جمع کی وہ آج تک محفوظ ہیں جب کی معیاری کتب کا مطالعہ آپ کا بہترین مشغلہ تھا جسکا انداز اس لابئریری سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ کے گھر پر قائم ہے جہاں ہزارہا انگلش، اردو، فارسی او ر عربی کی کتب موجود ہیں ۔ہم اس بات کو بڑے کامل یقین سے تحریر کر رہے ہیں ان تمام کتب کا ڈاکٹر صاحب نے بغوار مطالعہ کیا ہوا تھا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مطالعہ میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے اور یہ اسی ہستی کی کوششوں کا ثمر ہے جو آج امامیہ لائبریریز کے نیٹ ورک کی صورت میں آتا ہے۔

    تنظیمی سرگرمیاں

    ڈاکٹر محمد علی نقوی نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم اپنے دوستوں کے انسانی شعور کو بیدار کرنے کے لئے (ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن) قائم کی اور اس کے روح رواں بھی بن گئے اس دوران آپ کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہوئی نظر آئی اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ والد صاحب نے میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی صورت میں منہ مانگے انعام کی پیشکش کر دی۔

    ڈاکٹر صاحب نے والد صاحب کے حکم کی اطاعت کی اور خوب محنت کے ساتھ امتحان کی تیاری کی ،ان واقعات کو شہید کے چچا زاد بھائی یوں نقل کرتے ہیں ہم نے ڈاکٹر صاحب کو 18گھنٹے پڑھتے دیکھا ہے یہاں تک رات کو پڑھتے وقت پانی پاس رکھتے تھے اگر نیند کا غالب آتی تو پانی منہ پر ڈال کر خود کو بیدار کرتے۔آخر کار محنت رنگ لائی آپ نے 70%نمبروں سے امتحان پاس کیا اور میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ۔شہید ڈاکٹر نے نوجوانی کے عالم میں اپنے سچے جذبہ عشق اہل بیت ؑ کی بنا پر والد صاحب سے زیارت چہاردہ معصومین اور عمرہ کا ٹکٹ بطور انعام حاصل کیا۔

    انہوں نے اپنی Student Life میں محسوس کیا وطن عزیز مستقبل کے مماروں کی دینی اور فکری نشونما کے لئے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو کہ اسلامی افکار کی ترجمانی کرئے چونکہ اس دور میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کمیونیزم کی بحث اپنے عروج پر تھی اس لئے شہید نے ایکStudent Organizatoin کی بنیاد رکھی جو آج ایک تناور درخت کی صور تمیں وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کے لئے سفر جا ری رکھا ہوا ہے شہید ڈاکٹرمحمد علی نقوی کی شہادت کے بعد آج پوری دنیا انہیں بانی امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے جانتی ہے۔

    تعلیمی سرگرمیاں

    ڈاکٹر محمد علی نے اپنی زندگی میں مختلف فلاحی پروجیکٹس کا آغاز کیا جیسے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے المصطفیٰ اسکول سسٹم جس کہ تحت مختلف سکولوں کا آغاز کیا جس کے تحت دور حاضر میں پاکستان بھر میں مختلف ناموں سے یہ سکول کام کر رہے ہیں ان میں نمایاں کامیابیوں سے ہم کنار ہونے والا ادارا گلگت بلتستان میںCareer Guidance School And Collegeہیں اور اسی طرح اٹک میں جناح پیلک سکول اور میانوائی مں انڈس ماڈل سکول اینڈ کالج جھنگ کے علاقہ بھوانہ میں المصطفیٰ سکول قابل ذکر ہیں۔

    میڈیکل سرگرمیاں

    اسی طرح شہید نے میڈیکل کے شعبہ میں بے پناہ خدمات سرانجام دیں،جسکی نظیر آج دنیا میں نہیں ملتی اُسی دوران میانوالی کے علاقہ کالاباغ میں انڈس ہسپتال میں انڑنیشنل ریڈ کراس ا ین جی او کے تحت افغان مہاجرین کے لئے طبی خدمات سرانجام دیں بعد ازاں شہر لاہور میں الزہرا زنبیہ کمپلکس میں بہترین خدمات سر انجام دیں تواس دورکے پاکستانی میڈیا پی ٹی وی ٹو پر تقربیاً پچیس منٹ کا پروگرام کر کے علاقے میں ہونے والی خدمات کا عتراف کیا گیااور آپ کا خصوصی انٹریو بھی نشر کیا گیا۔

    شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی شہادت سے قبل شیخ زاہد ہسپتال لاہور میں رجسٹرار کےعہدے پر فائض تھے ان کیساتھ کام کرنے والوں کی آج بھی اُن کی یادوں میں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں وہ کہتے ہیں شہید وقت کی پابندی کرتے تھے کبھی بھی کام سے نہیں گھبراتے تھے یہ وجہ تھی شہادت کے بعد جب ایک دفعہ مجھے علاج کی غرض سے ہسپتال جانا ہوا ایمبولینس کے ڈرائیوار سے ملاقات ہوئی اس سے جب تعارف ہوا کہ میں شہید کا فرزند ہوں تو کہنے لگا باخدا اس جیسافرشتہ صفت انسان نہیں دیکھا۔

    تو کہنے لگا میں آپ کا خادم ہوں کیونکہ آپ ایک عظیم باپ کے فرزند ہیں جہنوں نے دکھی انسانوں کی بلاتفریق خدمات کی۔ویسے تو ان کولوگ شیعہ کے لیڈر کے طور پر جانتے ہیں لیکن میں ایک کرسچن ہوں میری نوکری فقط و فقط اُنہیں کی مرہون منت ہے شہید کی خدمات کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کیونکہ سیرت انہوں نے علی ابن ابطالب ؑ سے حاصل کی اور خود ایک پرائیویٹ کلینک بنایا جو آج بھی انسانیت کی خدمت میں بلا امتیاز مشغول عمل ہے ۔

    قلاحی سرگرمیاں

    آج شہید کی فلاحی سرگرمیوں کو زندہ رکھنے کے لئے ان سے محبت کرنے والوں نے ان کی خدمت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے نام سے منسوب ایک NGOرجسٹرر کرائی ہے جس کا نام ہے MAWAمحمد علی ویلفیئر فاونڈیشن ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہے جس کے قابل ذکر کام یہ ہیں فری میڈیکل کیمپس ،مستحق طلبا و طالبات کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے اسکالرشب پروگرام۔اسی طرح پاکستان میں قدرتی آفات سے بچنے لئے کے Management Disaster سیل کا قیام جس کے تحت بالخصوص پاکستان میں اور اسی طرح سیلاب کے بعد قابل ذکر خدمات سر انجام دیں گئی۔

    آج وقت آگیا ہے پھر ااس شہید کے روز شہادت پر اس سے عہد کریں دور حاضر کے طاغوت سے ٹکرائیں گے شہید انسانی محفل کی وہ روشن شمعیں ہیں جن کا نورتا ابد مہکتا رہے گا۔شہداء اپنے کاموں کے سبب ہر دور میں زندہ رہتے ہیں اور وہ کیوں نہ زندہ ہوں کہ ان کے زندہ رہنے کی گواہی خود قرآن نے دی ہے بسا اوقات انسانی معاشرے اپنی قوم کے ان عظیم مسیحوں کے نام تو یاد رکھتے ہیں لیکن ان کے افکار کو اور راہ علم سے یکسر غاغل ہو جاتے ہیں ۔انہی شہداء کا پاک و پاکیزیہ خون ہے جو اس سر زمین کی مٹی میں رچ بس گیا اور اسی نے ہمیں آج وہ قوت وطاقت عطا کی ہے جسکی بنا پر وطن عزیز کے کونے کونے سے دور حاضر کے شیطان و نمرود کے خلاف صدائے حق بلند ہو رہی ہے نوجوانان پاکستان آئی ایس او کی پہچان یہ نعرہ بن گیا ہے[1]۔

    شہید ڈاکٹر نقوی انقلاب اسلامی سے پہلے

    محمد علی ایک ایسے باپ کا بیٹا تھا جس نے دین اسلام کو پھیلانے کے لیے تین براعظموں کا سفر کیا تھا، وہ اپنی ذہانت کے ساتھ لاہور کے میڈیکل کالج میں داخل ہوا، لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستان کے شیعہ طالب علموں کو سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ شیعہ طلباء اپنے مکتب فکر سے ناواقف تھے اسی لئے ہر گروہ میں داخل ہوتے تھے۔

    ان حالات میں ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شیعہ نوجوانوں کے لیے "امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن" کا آغاز کیا تاکہ ان کے اصل اور صحیح عقائد سیکھیں۔ وہ تنظیم جس کی اب پاکستان کے تمام شہروں میں شاخیں ہیں اور اس کے لاکھوں ممبران ہیں۔ ڈاکٹر نقوی نے ایسے افراد کو شامل کیا جن کے نام شیعوں سے ملتے جلتے تھے۔ ان سالوں میں وہ امام خمینی رح کے افکار سے آشنا ہو چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ صحیح راستہ اور زیادتیوں سے دوری امام خمینی کے افکار کے دل سے نکلتی ہے۔ انہوں نےاپنے دوستوں سے مل کر امام خمینی کے توضیح المسائل کا اردو میں ترجمہ کیا اور پاکستان کے مختلف علاقوں تک پہنچایا۔

    شیعہ نوجوان تقلید کے موضوع سے واقف ہو گئے، اپنے فرائض کو بہتر طور پر سمجھ گئے اور آخر کار خمینی کی انقلابی جدوجہد کے حامی بن گئے۔ 1976 میں جب ایران کے شاہ پاکستان کا دورہ کرنے کا ارادہ کر رہے تھے، محمد علی نے انقلابی اور استکبار مخالف نعرے لگائے کہ محمد رضا پہلوی کا دورہ پاکستان منسوخ ہو گیا۔ انہیں امریکہ کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگانے اور امریکی ثقافتی اثر و رسوخ کے خلاف جدوجہد کے الزام میں کئی بار گرفتار کیا گیا لیکن وہ بازنہیں آئے۔ پاکستان کے لوگ شہید نقوی کی فعالیت کی وجہ سے دن رات خبروں سے مطلع رہتے تھے اور آخر کار پاکستان ایران کے اسلامی انقلاب کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔

    شہید نقوی اور انقلاب اسلامی

    اسلامی انقلاب کی فتح ایک خوشگوار خبر تھی جس نے پاکستان کے عوام کے دلوں میں امیدیں تازہ کر دیں۔ محمد علی نے اپنی سرگرمیوں کو دوگنا کر دیا اور انقلاب کے افکار اور نظریات کو پھیلانا شروع کیا۔ ہر وقت امام خمینی کا نام ان کی زبان پر رہتا تھا۔ ایران کے خلاف جنگ مسلط کی گئی تو امام خمینی کی جانب سے دعوت عام کے بعد شہید نقوی اچانک منظر عام سے غائب ہوگئے۔

    محمد علی نقوی کے لاپتہ ہونے کے 3 دن بعد ایران سے ان کے اہل خانہ کو کال کی گئی اور انہیں پتہ چلا کہ محمد علی حق و باطل کی جنگ کے محاذوں پر پہنچ گئے ہیں اور خوزستان کے مختلف شہروں میں مجاہدین اسلام کے لئے طبی خدمات فراہم کررہے ہیں۔ شاہد نقوی نے 8 گھنٹے کی بجائے 16 گھنٹے کام کیا اور جب انہیں آرام کرنے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ میں یہاں آرام کرنے نہیں آیا۔ اپنے جوش و جذبے کی وجہ شہید نقوی پاکستانی ڈاکٹر یا محنت کش ڈاکٹر کے نام سے معروف ہوگئے۔

    آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا تاریخی استقبال

    محمد علی نقوی کا منفرد اقدام 1986 میں پاکستانی عوام کا ایرانی صدر کا تاریخی استقبال تھا۔ یہ استقبال اتنا شاندار اور عجیب تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای اس کو برسوں تک یاد کرتے تھے۔ ایران کے صدر کا مقبرہ اقبال تک کا سفر 15 منٹ میں مکمل ہونا تھا لیکن اس سفر میں 8 گھنٹے سے زائد کا وقت لگا جس میں استقبال کرنے والے بہت بڑے ہجوم نے شہید نقوی کی دعوت کو قبول کیا اور امام خمینی کے نمائندہ کے استقبال کے لیے چوک پر پہنچے۔ لوگ اکثر رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے ایران کے صدر کو لے جانے والی گاڑی کو اٹھاتے تھے۔

    خبر ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کی لاہور میں موجودگی اعلان کردہ شیڈول سے ایک دن بعد ہوئی، لیکن شہید نقوی نے انتظار کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں دکھانا چاہیے کہ ہم کتنے انقلاب کے ساتھ ہیں۔ لاہوریوں کو چاہیے کہ وہ کل تک مختلف شہروں سے آنے والے مہمانوں میں سے ایک ایک مہمان اپنے گھر لے جائیں اور ان کا استقبال کریں۔

    ایک بار پھر مقدس دفاع

    شہید نقوی کو اطلاع ملی کہ جنگی محاذ پر مجاہدین کے لئے دوائیوں کی قلت کا سامنا ہے اس لیے اس نے ایک ٹرک کرائے پر لیا اور کم سے کم وقت میں اس میں دوائی بھر دادی۔ جب وہ سرحد پر پہنچے تو انتظامی مسئلے کی وجہ سے اسے ایران میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، اسے کوئٹہ (600 کلومیٹر دور) جا کر اپنا مسئلہ حل کرنا تھا، شاید کسی اور نے سفر روک دیا تھا۔

    ایک دن بعد محمد علی دوبارہ ایران کی سرحد پر پہنچ گئے۔ سرحدی اہلکاروں نے اس سے کہا کہ آپ اس وقت تک ایران میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک آپ کا مسئلہ حل نہ ہو جائے، اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ محمد علی اس وقت کوئٹہ گئے، مسئلہ حل کیا اور واپس آ گئے!

    امام خمینی کی محبت میں آل سعود کی قید میں

    محمد علی نے سنا کہ ایرانی زائرین کے قتل کی وجہ سے حج پر پابندی لگ گئی ہے اور مشرکین سے ا ظہار برائت کرنے کے امام کے حکم پر عمل کرنے والا کوئی نہیں بچا۔ وہ امام کے حکم سے اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔ دوسری جانب سعودی حکام مطمئن تھے لیکن اچانک ان کا سامنا پاکستانیوں کے ایک ہجوم سے ہوا جو امام کی تصویریں اٹھائے ہوئے اور مشرکین کے برائت کے نعرے لگا رہے تھے۔

    یہ محمد علی ہی تھے جنہوں نے ایک ماہ قبل اپنے دوستوں کو پوسٹرز اور پلے کارڈز کے ساتھ سعودی عرب بھیجا تھا۔ محمد علی کو اس کے کام کی وجہ سے مہینوں تک سعودیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور اذیتیں ختم ہونے کے بعد انہوں نے دوبارہ مسکراتے ہوئے کہا کہ "امام خمینی پر قربان" اس طرح دوبارہ اذیتوں کاسلسلہ شروع ہوا ۔

    چمران پاکستان

    سفیر انقلاب کو فرزند کو بالآخر 7 مارچ 1995 کو سپاہ صحابہ کے کارندوں نے اپنے دفتر کے قریب شہید کر دیا جس سے ان کی وصیت پوری ہوگئی کہ مجھے امام کے لشکر میں شہید ہونا ہے تاکہ شہداء کی صف میں شامل ہوکر بخشش مل جائے[2]۔

    شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا

    امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی رہنما، ممتاز معالج، سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ستائیسویں برسی کی مناسبت سے لاہور کی محمدی مسجد میں خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کا اہتمام "محمد علی نقوی ویلفیئر ایسوسی ایشن” (ماوا) کی جانب سے کیا گیا۔ سیمینار میں ڈاکٹر ثاقب اکبر نقوی، سید وجاہت حسین نقوی، سید علی رضا نقوی، علامہ غلام شبیر بخاری، احمد رضا خان، افسر رضا خان، کرنل (ر) عارف حسین، علامہ محمد رضا عابدی، سید امجد کاظمی ایڈووکیٹ، سید نثار ترمذی، اقرارالحسن، علامہ حسن رضا ہمدانی سمیت شہید کے رفقاء، سینیئر رہنماوں اور عمائدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ نقابت کے فرائض سید انجم رضا نے ادا کئے۔

    مقررین نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی انسانیت کیلئے خدمات پر روشنی ڈالی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا، انہوں نے قوم کی بیداری کیلئے خاطر خواہ خدمات سرانجام دیں، بش جب دورہ پاکستان پر آیا تو شہید نے مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ پر مردہ باد امریکہ کو طویل بینرز لہرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا، شہید نے نوجوانوں میں انقلابی روح بیدار کی، جس کی بدولت آج بھی پورے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صالح اور باکردار نوجوان انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید نے آئی ایس او پاکستان کی شکل میں ایسا پودا لگایا جو آج ایک گھنا اور تناور درخت بن کر نسل نوء کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کر رہا ہے۔

    مقررین کا کہنا تھا کہ جو قوم شہادت سے خوفزدہ ہو جائے اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے، قوم میں شہادت کو شوق بیدار کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت حادثاتی نہیں تھی بلکہ یہ شہادت اختیاری تھی، انہیں علم تھا کہ انہیں شہید کر دیا جائے گا، اس کے باوجود وہ دن رات انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ شہید کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ وہ بیک وقت درجنوں منصوبوں پر کام کر رہے تھے، کم سونا اور کم کھانا ان کی عادت بن چکی تھی اور وہ خدا کے حقیقی اور سچے عاشق بن کر وہ قرب خدا حاصل کر چکے تھے۔

    مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے جو فکر دی، آج اس پر عمل پیرا ہونیوالے سست روی کا شکار ہو چکے ہیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی تنالیس برس کی عمر میں شہید ہو گئے، مگر ان کے منصوبوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے فرد واحد ہو کر اتنے بڑے بڑے منصوبے چلا رہے تھے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نقوی نے جو فکر دی اس پر عمل کیلئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں بیدار ہونا ہوگا اور اس فکر کو مزید آگے بڑھانا ہوگا، ہم فکرِ شہید کے امین ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ شہید تمام شعبوں کیساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے بھی مکمل آگاہ تھے، وہ چاہتے تھے، ملی اخبارات و جرائد بھی ملک کی تربیت اور آگاہی میں کردار ادا کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہفت روزہ "رضا کار” کے آفس میں آکر ٹیم کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید کے تعلیمی میدان میں منصوبے لائق تحسین ہیں، طب کے شعبہ میں بھی ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہین۔ مقررین نے کہا کہ شہید آج بھی اپنے رفقاء کیساتھ رابطے میں ہیں، شہید زندہ ہوتا ہے اور وہ زندہ ہیں، ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کے درمیان موجود ہیں[3]۔

    ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مبارزانہ زندگی گزاری

    ابنا کی رپورٹ کے مطابق سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی 24ویں برسی کے موقع پر علی رضا آباد رائیونڈ لاہور میں شہید کے مزار پر افکار شہداء سیمینار منعقد ہوا۔ افکار شہداء سیمینار میں کرنل (ر) عارف، علامہ حیدر موسوی، رفیقِ شہید ثاقب نقوی، عباس نقوی، قاسم شمسی سمیت دیگر رہنماوں نے افکار شہداء سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مبارزانہ زندگی گزاری، انہوں نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے ملت تشیع پاکستان کی بے نظیر خدمت کی، ضرورت اس امر کی ہے کہ شہید نقوی کے افکار پر عمل پیرا ہوکر ملت کی مضبوطی کیلئے کلیدی کردار ادا کیا جائے۔

    مقررین کا کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی کامیابی کی ایک اہم وجہ تقوی تھا، نوجوانوں کو چاہیئے کہ اپنی شخصیت میں شہید ڈاکٹر نقوی جیسا تقوی، اخلاق و جذبہ پیدا کریں اور علما کو اپنی کردار سازی کیلئے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی پیروی کرنی چاہیئے، نوجوانوں کی روزمرہ اور معاشرتی زندگی بالکل یکساں نہیں ہونی چاہیئے، ایسی زندگی ہونی چاہیئے جس میں آئمہ طاہرین کی حیات طیبہ کا عکس دکھائی دے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی نوجوانوں کی زندگی دینی اقدار کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔ سیمینار میں سابقین آئی ایس او سمیت ملک بھر سے ہزاروں کارکنان نے شرکت کی[4]۔

    شہادت

    یہ 7 مارچ 1995ء کی ایک المناک صبح تھی، تقریباً پونے آٹھ بجے ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی رہائش گاہ حسین اسٹریٹ بھلا اسٹاپ سے ہسپتال جانے کیلئے نکلے۔ عید کی چھٹیوں کے باعث آپ نے اپنے حفاظتی عملہ کو چھٹیاں دے دی تھیں۔ فقط آغا تقی حیدر جو لاہور کے نواحی علاقہ امامیہ کالونی سے تعلق رکھتے تھے آپ کے ہمراہ تھے اور ہمیشہ کی طرح فرنٹ سیٹ پر الرٹ بیٹھے تھے۔

    ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی منی پجارو جیپ جس کا نمبر QAD 3428 سلور کلر، کو خود ڈرائیو کر رہے تھے، ان دنوں یتیم خانہ چوک سے ساہیوال کیلئے ٹویؤٹا ہائی ایس گاڑیاں نکلتی تھیں، جس کی وجہ سے لاہور کا یہ مصروف ترین چوک ہمیشہ ٹریفک کے مسائل سے دوچار رہتا تھا۔ چوک سے تھوڑا پہلے ویگن اسٹینڈ کے پاس الٹے ہاتھ پر گلی مڑتی ہے، اور گلی کے عین نکڑ پر اخبارات اور کتابوں کا اسٹال لگا ہوتا تھا۔

    گھر سے یہاں تک کا فاصلہ بمشکل دو کلومیٹر ہوگا، آپ کی گاڑی جیسے ہی اس ویگن اسٹینڈ کے سامنے پہنچی، بک اسٹال کے پاس کھڑے دہشت گردوں نے سامنے آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق ان کی تعداد پانچ تھی اور یہ دو طرف سے گاڑی پر فائرنگ کر رہے تھے، جبکہ ان میں سے دو دہشت گرد اندھا دھند ادھر ادھر بھی فائرنگ کر رہے تھے۔

    تاکہ موقع پر موجود لوگ ان کی دہشت اور رعب میں آجائیں۔ کلاشنکوفوں سے کی جانے والی اس اندھا دھند فائرنگ سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے محافظ آغا تقی حیدر سنبھل ہی نہ پائے، اس کے باوجود دہشت گردوں کا ایک ساتھی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بھی نشانہ لے رہا تھا۔ جب دہشت گردوں کو یقین ہوگیا تو وہ فائرنگ کرتے ہوئے بڑے آرام سے فرار کر گئے۔ اس وقت پنجاب میں میاں منظو احمد وٹو وزیراعلٰی تھے[5]۔

    شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی قومی و ملی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی

    شیعہ علماءکونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے ملی پلیٹ فارم کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی 26 ویں برسی کے موقع پر کہا ہے کہ ہماری جانب سے ارض پاک کی داخلی سلامتی اور استحکام کی خاطر ایک طرف اتحاد و وحدت کی بنا ڈال کر انتشار و افتراق ، بدامنی و انارکی فضا کا خاتمہ کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا گیا تو دوسری جانب مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے علماءکرام، دانشور، ماہرین ، اکابرین اور اور کارکنان کی قیمتی جانوں کی قربانی دے کر ملک کو تباہی و بربادی اور خانہ جنگی سے محفوظ بنایا گیا۔

    انہوں نے مزید کہاکہ ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسی متحرک اور فعال سماجی و روشن فکر شخصیت کی شہادت اسی جدوجہد کا تسلسل تھی ان کی قومی و ملی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔ان کی یاد منانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مذہب و ملت کی خدمت کو اپنا شعا ر بنایا جائے، وحدت و یکجہتی کو فروغ دیا جائے‘ باہمی پیار و محبت اور الفت کو عام کیا جائے اور باہم متحد ہوکر اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنایا جائے[6]۔

    حوالہ جات

    1. مسیحائے ملت شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒبزبان فرزندِ شہید، تحریر: سید دانش علی نقوی (فرزند شہید ڈاکٹر محمد نقوی ؒ)- شائع شدہ از:1 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7فروری 2025ء۔
    2. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی 29 ویں برسی، سفیر انقلاب کی جدوجہد پر ایک نظر- شائع شدہ از: 7 مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 فروری 2025ء-
    3. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے پاکستان میں سب سے پہلے مردہ باد امریکہ کا نعرہ متعارف کروایا,مقررین- شائع شدہ از: 2 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7فروری 2025ء۔
    4. ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مبارزانہ زندگی گزاری- شائع شدہ از: 12 مارچ 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 فروری 2025ء۔
    5. ارشاد حسین ناصر، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، زندگی کے چند پہلو-شائع شدہ از: 10مئی 2013ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7فروری 2025ء۔
    6. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی قومی و ملی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی علامہ ساجد نقوی- شائع شدہ از: 7مارچ 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 فروری 2025ء