آغا علی موسوی
آغا علی موسوی | |
---|---|
![]() | |
دوسرے نام | آغا علی موسوی بلتستانی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1928 ء، 1306 ش، 1346 ق |
پیدائش کی جگہ | پاکستان |
وفات | 2012 ء، 1390 ش، 1432 ق |
یوم وفات | 30 جولائی |
وفات کی جگہ | لاہور |
اساتذہ |
|
مذہب | اسلام، شیعہ |
مناصب | |
آغا علی موسوی سید علی موسوی المعروف آغا علی موسوی پاکستان کے ایک مجاہد اور ممتاز شیعہ عالم دین تھے جنہوں نے اپنی بابرکت زندگی اس ملک میں مکتب اہل بیت کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کی۔
سوانح عمری
حجت الاسلام آغا علی کا تعلق سادات کے موسوی سلسلے سے تھا۔ وہ 1928ء میں بلتستان کے گاؤں ڈورو میں ایک مذہبی اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید حسن موسوی اور دادا بھی عالم دین تھے۔ جب وہ چار سال کے تھے تو اپنے والد کے ساتھ کشمیر اور ہندوستان کے راستے ایران گئے اور قم میں حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے جوار میں چھے سال تک کسب فیض کیا۔ بعد از آں دس سال کی عمر میں نجف اشرف کی طرف ہجرت کی اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے حرم مبارک کے جوار میں سکونت اختیار کی اور وہاں سترہ سال تک اسلامی علوم سے فیض یاب ہوتے رہے۔ آغا علی موسوی مرحوم کی زندگی پر ایک نظر۔ پروڈیوسر: حاجی شبیر احمد شگری پیشکش: مرحوم کی برسی کے موقع پرنورپروڈکشنز کی خصوصی پیشکش التماس سورہ فاتحہ برائے آغا مرحوم و جملہ مومنین و مومنات۔
تربیت
تقریباً 1926ء کا وقت ہے کہ ایک سیدہ نے اپنے چھ مہینے کے بچے کو گود میں لے کر ایمان اور توکل سے بھرپور عزم و ارادے کے ساتھ اپنے آپ کو ایک لمبے سفر اور بامقصد ہجرت پر آمادہ کرکے رخت سفر باندھ لیتی ہے۔ یہ مختصر قافلہ سفر کی تمام سختیوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے کبھی پیدل اور کبھی کرایہ کے گھوڑوں پر راستہ طے کرتے ہوئے بلتستان سے کرگل اور کرگل سے کشمیر اور وہاں سے ہوتے ہوئے دل میں ایک آرزو، ایک خواہش اور ایک عظیم ہدف کو سامنے رکھ کر نجف اشرف یعنی باب مدینۃ العلم کے دروازے پر دستک دینے لگا۔
ان سیدہ کے پیش نظر ایک عظیم مقصد تھا۔ وہ سیدہ چاہتی تھیں کہ اپنے نومولود بچے کو علم و آگہی اور علوم آل محمدؑ سے آشنا کریں اور اسے اسلام کے لئے ایک عظیم مبلغ تیار کریں، یوں اس عظیم ماں نے ایک عظیم بیٹے کی تربیت کی جو بعد میں آغا علی موسوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ جن کی آج برسی ہے، آپ کے والد محترم حجۃالاسلام و المسلمین آغا سید حسن موسوی بھی اپنے دور کے انتہائی بزرگ اور قابل احترام باعمل عالم دین تھے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آپ نے اس دور کے بزرگ مجتہدین آیت اللہ ابولحسن اصفہانی، آیت اللہ سید حسین بروجردی، آیت اللہ محسن الحکیم اور دیگر اساتید سے کسب فیض کیا۔
تعلیم
آپ نے نجف اشرف کے برجستہ علمائے دین سے کسب فیض کیا اور شیخ محمد تقی عرب، شہید محراب آیت اللہ مدنی، مدرس افغانی اور شیخ محمد ترکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان کے علم و فضل سے مستفید ہوئے۔ اسی طرح انہوں نے آیت اللہ العظمی سید محسن حکیم، آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی اور آیت اللہ العظمی اشراقی کے درس خارج میں بھی شرکت کی۔ نجف اشرف میں تحصیل علم کے دوران آپ حجۃ الاسلام و المسلمین شہید نواب صفوی کے روم میٹ تھے۔ نیز اس دور میں آپ نے خالصہ الحساب کے نام سے ایک کتاب بھی تالیف کی۔
وطن واپسی
آپ نجف اشرف میں سترہ سال رہنے کے بعد 1954ء میں اپنے آبائی شہر واپس آئے اور وہاں مذہبی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ آپ اپنے والد کے ساتھ لاہور شہر کے موچی دروازہ میں تبلیغ اہل بیت (ع) میں مصروف رہے اور آخر تک اس خدمت کو جاری رکھا۔ پاکستان واپس آنے کے بعد آپ آغا علی موسوی کے نام سے مشہور ہوئے اور تب سے لوگ انہیں اسی نام سے جانتے ہیں۔ وہ فن خطابت میں یدطولی رکھتے تھے اور آیات و احادیث کے علاوہ علامہ اقبال کے اشعار بھی اپنی تقریروں میں استعمال کرتے تھے۔ یہی چیز نوجوانوں کی ان کی تقریروں میں دلچسپی کا باعث بنی۔ انہوں نے پاکستان کی مساجد میں نوجوانوں کے لیے درس اخلاق کو عام کیا۔
سیاسی سرگرمیاں
یہ سرگرم شیعہ عالم دین ثقافتی اور مذہبی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے۔ وہ تحریک جعفریہ کی سپریم کونسل کے رکن تھے اور پاکستان کے شیعوں کے دوسرے بے مثال قائد شہید حجۃ الاسلام و المسلمین سید عارف حسین الحسینی کے دور میں اس جماعت کے نائب صدر تھے اور 1986 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
نیز، انہوں نے پاکستان میں سید عارف حسین الحسینی کی قیادت کو متعارف کرانے میں بھی بہت بڑا کردار ادا کیا اور انہیں شہید کے قریبی ساتھیوں میں سے سمجھا جاتا تھا۔ آغاعلی موسوی مرحوم عالمی یوم القدس کی تشہیر اور پاکستان میں عالمی استکبار مخالف ریلیوں کی سرپرستی اور حمایت کرتے تھے۔ آپ نے آیت اللہ سید محسن حکیم کی رحلت کے بعد امام خمینی کی مرجعیت کو متعارف کرانے کے لیے حجۃ الاسلام و المسلمین سید صفدر حسین نجفی کے ساتھ مل کر امام خمینی کی توضیح المسائل کا اردو میں ترجمہ کیا اور پاکستان کے مختلف شہروں میں پہنچایا۔
انہوں نے خالص اسلامی ثقافت کے فروغ کے لیے حبل المتین کے نام سے ایک مجلہ بھی شائع کیا۔ آپ نے 1974 میں انجمن علمائے امامیہ بلتستان کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور اس کے سربراہ کی حیثیت سے وہاں کے شیعہ علماء کو متحد کیا۔ انہوں نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تشکیل اور قیام میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
سماجی اور ثقافتی خدمات
حجت الاسلام آغا علی موسوی نے علمی اور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ بہت سی سماجی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ نے مدرسہ علوم اسلامی کے نام سے ایک دینی تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی اور وہاں بطور مدیر اور استاد کے خدمات انجام دیں۔ آپ کی کوششوں سے حسین آباد کے حسینی مشن اور لاہور کے ادارہ درس و عمل کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ کچھ فلاحی ادارے جیسے کہ آل عمران انسٹی ٹیوٹ، امام بارگاہوں، مساجد، مدارس اور سڑکوں کی تعمیر میں حجۃ الاسلام و المسلمین سید صفدر حسین نجفی کا ہاتھ بٹایا۔
لاہور میں مدرسہ المنتظر، مدرسہ حیدریہ، سیالکوٹ شہر میں مدرسہ قرآن و عترت، فیصل آباد میں مدرسہ علوم اسلامی اور اسی نام کے مدرسے کی لاہور شہر میں تاسیس آپ کی بے مثال خدمات میں شمار ہوتی ہیں۔ بلتستان میں انہوں نے محکمہ شرعیہ کا احیاء کیا تاکہ لوگ سرکاری عدالتوں کے بجائے اس شرعی ادارے کی طرف رجوع کریں اور اسی وجہ سے انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے نشان خدمت سے نوازا گیا۔
شیعہ سیاسی اور مذہبی شخصیات سے اچھے تعلقات
آغا علی موسوی مرحوم کے پاکستان کی شیعہ مذہبی اور سیاسی شخصیات کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ علمی مباحثوں اور سیاسی میدانوں میں انہوں نے حجۃ الاسلام و المسلمین سید صفدر حسین نجفی، مولانا اظہر حسین زیدی، سید محمد دہلوی، حافظ کفایت حسین، مفتی جعفر حسین، شہید حسینی، شیخ محسن علی نجفی اور سید ساجد علی نقوی جیسی برجستہ شخصیات کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھے اور تعاون کیا۔
آپ اتحاد بین المسلمین کے میدان میں بھی سرگرم تھے اور سنی علماء جیسے جماعت اسلامی اہلسنت کے سربراہ ابوالاعلی مودودی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا ابوالحسنات، مولانا عبدالستار خان نیازی۔ قاضی حسین احمد، اور مولانا عبدالقادر آزاد وغیرہ سے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔
ذاتی اور اخلاقی خصوصیات
وہ نماز کو اول وقت میں پڑھنے کو اہمیت دیتے تھے اور شب زندہ دار تھے۔ آپ بہت خوش مزاج اور نکتہ سنج تھے اور بہت سے دینی اور قومی امور نہایت ظرافت اور خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔ 1986ء میں جب ایران کے اس وقت کے صدر آیت اللہ خامنہ ای نے پاکستان کا دورہ کیا تو ضیاء الحق (اس وقت کے صدر پاکستان) سے ان کی ملاقات کے وقت حجت الاسلام موسوی بھی موجود تھے۔
اس ملاقات میں آپ نے ہاتھ کی مشکل کا بہانہ بنا کر ضیاءالحق سے ہاتھ ملانے سے گریز کیا۔ جب آیت اللہ خامنہ ای نے اس اقدام پر ناراضگی کا اظہار کیا تو آپ نے جواب میں کہا: میں ایسے شخص سے مصافحہ نہیں کر سکتا جس کے ہاتھ کوئٹہ کے شہداء کے خون میں رنگے ہوئے ہیں اور ہمارے بھائی اس کی جیلوں میں قید ہیں۔" آپ کے اس زیرکانہ اقدام کی وجہ سے آیت اللہ خامنہ ای کی سفارش پر اسیروں کو رہا کیا گیا۔
آئی ایس او پاکستان کا بانی
مرحوم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ آئی ایس او پاکستان جو کہ ایک الٰہی کاروان ہے کے بانیوں میں سے تھے اور آخری دم تک آئی ایس او پاکستان کی سرپرستی فرماتے رہے۔ آغا علی موسوی مرحوم امامیہ آرگنائزیشن پاکستان کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ اسی طرح بے شمار تنظیموں اور اداروں کی سرپرستی فرماتے رہے جن کی طویل فہرست ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں گو ناگوں اسلامی موضوعات پر درس و دروس کا آغاز آپ ہی نے کیا تھا اور آج ہر مسجد و مدرسہ اور امام بارگاہ میں دروس کا اہتمام ہوتا ہے۔
تبلیغی سرگرمیاں
آغا مرحوم پاکستان میں جہاں بھی سفر کرتے وہاں مجالس و محافل کے علاوہ خصوصی طور پر جوانوں کے لیے درس دیا کرتے تھے ۔ آپ جہاں بھی سفر کرتے وہاں کے جوان شمع کے پروانے کی طرح آپ کے گرد جمع ہوتے اور ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ گھنٹوں آپ تقریر کرتے رہیں اور وہ علم و معرفت کے اس چشمے سے سیراب ہوتے رہیں۔ آپ نے روایتی مجالس و محافل کو بامقصد اور زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لیے نہایت اہم کردار ادا کیا۔
مرحوم نے علماء کو ہمیشہ متحد رکھنے اور انہیں اپنے زمانے سے ہم آہنگ اور صالح قیادت کے ساتھ مربوط رکھنے میں کردار ادا کیا جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے آپ کی حاضر جوابی کی داستان اگر لکھی جائے تو کتابیں بن جائیں۔ حسینیہ مشن حسین آباد، ادارہ درس و عمل لاہور، آئی ایس او پاکستان کی تشکیل میں آپ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 1974 میں ہیئت علماء امامیہ کے نام سے بلتستان بھر کے جید علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جس کے آپ پہلے صدر بنے۔
مجلہ حبل المتین کا اجراء
بلتستان میں پہلی مرتبہ ایک ادبی مجلہ ‘‘ حبل المتین ’’ کا اجراء کیا۔ اس مجلے کی وساطت سے تبلیغ کے ساتھ ساتھ علماء، شعراء اور مذہبی و سماجی شخصیات کے تعارف اور معارف دین کی تبلیغ و ترویج کرتے رہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت حسین آباد کے گھر گھر سڑکیں بنائی۔ پاکستان بھر میں مساجد، امام بارگاہیں اور مدارس کی تعمیر میں آپ عمر بھر کوشاں رہے۔ جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاؤن کی تعمیر میں آپ نے علامہ صفدر حسین نجفی کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا۔ مدرسہ حیدریہ کھرگرونگ، مدرسہ قرآن و عترت سیالکوٹ، درسگاہ علوم اسلامی فیصل آباد نیز درسگاہ علوم اسلامی موچی دروازہ لاہور بھی آپ ہی کی کا وشوں کا نتیجہ ہے[1]۔
وفات
آخرکار زندگی بھر کی علمی، ثقافتی اور سیاسی جدوجہد کے بعد یہ مجاہد عالم دین 84 برس کی عمر میں 30 جولائی 2012ء بمطابق 10 رمضان المبارک 1433 ہجری کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو حسین آباد (سکردو بلتستان) کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا[2]۔
علماء مینارہ نور اور امت کی اصلاع کیلئے کردار ادا کرتے ہیں
آغا سید علی الموسوی کی برسی کی تقریب سے خطاب میں سابق مرکزی صدر سمیت دیگر کا کہنا تھا کہ آغا سید علی الموسوی کی قومی اور تنظیم کیلئے خدمات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ علماء مینارہ نور اور امت کی اصلاع کیلئے کردار ادا کرتے ہیں، اور آغا سید علی الموسوی نے یہ کردار مثالی طریقے سے ادا کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ آغا سید علی موسوی کی تنظیم کیلئے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ممتاز عالم دین علامہ آغا سید علی الموسوی کی برسی کی مناسبت سے مسجد کشمیریاں اندرون موچی گیٹ خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب آئی ایس او موچی گیٹ یونٹ کے زیراہتمام منعقد ہوئی۔ تقریب میں علامہ غلام شبیر بخاری، علامہ سید جواد الموسوی، سابق مرکزی صدر آئی ایس او ناصر عباس شیرازی، امامیہ آرگنائزیشن کے سابق رہنما لال مہدی خان، آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر حسن عارف سمیت دیگر نے شرکت کی۔ علامہ سید شبیر بخاری نے علامہ سید آغا علی الموسوی کیساتھ گزرے ایام کی یاد تازہ کی، جبکہ ناصر عباس شیرازی نے آغا سید علی الموسوی کی قومی اور تنظیم کیلئے خدمات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ علماء مینارہ نور اور امت کی اصلاع کیلئے کردار ادا کرتے ہیں، اور آغا سید علی الموسوی نے یہ کردار مثالی طریقے سے ادا کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ آغا سید علی موسوی کی تنظیم کیلئے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ علامہ سید علی الموسوی نے ہمیشہ نوجوانوں کیلئے شجر سایہ دار کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ علامہ موسوی نے دیگر علماء سے بڑھ کر آئی ایس او پر دست شفقت رکھا اور نوجوانوں کی ہر میدان میں حوصلہ افزائی کی۔ اختتام پر حجتہ الاسلام آغا سید جواد موسوی نے دعائیہ کلمات ادا کیے [3]۔
حوالہ جات
- ↑ [حاجی شبیر احمد شگری، آغا علی موسوی مرحوم کی زندگی پر ایک نظر-شائع شدہ از: 11 مارچ 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 مارچ 2025ء۔
- ↑ علامہ سید علی موسوی ایک ہمہ جہت شخصیت- شائع شدہ از: 21 مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 مارچ 2025ء۔
- ↑ مینارہ نور اور امت کی اصلاع کیلئے کردار ادا کرتے ہیں،علامہ شبیر بخاری- شائع شدہ از: 25 مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 مارچ 2025ء۔