سید افتخار حسین نقوی

    ویکی‌وحدت سے
    سید افتخار حسین نقوی
    سید افتخار حسین نقوی.jpg
    ذاتی معلومات
    پیدائش کی جگہپاکستان
    اساتذہسید ساجد علی نقوی
    مذہباسلام، شیعہ
    مناصبرکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، اور امام خمینی (رہ) ٹرسٹ پاکستان کے چیئرمین

    سید افتخار حسین نقوی پاکستان کے معروف بزرگ عالم دین و اسکالر، رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، اور امام خمینی (رہ) ٹرسٹ پاکستان کے چیئرمین ہیں۔

    سوانح عمری

    نام، سید افتخار حسین نقوی، والد کا نام سید منظور حسین ہے۔

    تعلیم

    میں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی ضلع ملتان کی آبادی مظفرآباد سے حاصل کی۔ پھر وہاں سے والد کے کام کی وجہ سے ضلع بکھر چلے گئے اور پھر وہاں سے ضلع مظفرگڑھ جو اب ضلع کوٹ ادو بن گیا ہے، وہاں پر مڈل اور پھر 1968ء میں ملتان سے میٹرک کی۔ ہمارے والد کام وغیرہ کے سلسلے میں مختلف شہروں میں جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ حیدر آباد گئے ہوئے تھے کہ وہیں انہیں موقع ملا اور وہاں سے ہی پیدل کربلا چلے گئے۔

    اس وقت میں میٹرک کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا۔ تو اس وقت میرا پروگرام یہ تھا کہ میں میٹرک کر کے کہیں کلرک وغیرہ لگ جاؤں گا تاکہ گھر کی ضروریات پوری کر سکیں۔ دوسری طرف والد کی کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہیں؟ کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ چھ ماہ کے بعد بابا کا خط کربلا سے آ گیا کہ "میں کربلا میں پہنچ چکا ہوں، میرا بیٹے افتخار کو کہیں نوکری پر نہیں بھیجنا، اس کو کہیں دینی مدرسے میں داخل کرانا ہے"۔

    تو ملتان کا ہی مشہور دینی مدرسہ ہے "مخزن العلوم العربیہ الجعفریہ" استاد العلماء علامہ گلاب علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، وہ اس مدرسہ کے بانی ہیں، تو اسی مدرسے میں ہی میں نے میٹرک کا امتحان دینے کے بعد داخلہ لے لیا۔

    دینی تعلیم کا آغاز

    میں نے اپنی دینی تعلیم کا آغاز وہاں "قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی" سے کیا۔ جو اس وقت وہاں پر استاد تھے۔ تو پھر والد نے بتایا تھا کہ انہوں نے جو حرم مولا میں دعائیں مانگیں تھیں ان میں سے ان کی ایک دعا یہی تھی کہ "جس طرح یہاں پر علماء عمامہ والے پھر رہے ہیں، میرا بیٹا بھی اسی طرح کا عمامہ پہنے"۔ جب وہ کربلا سے واپس آئے تو انہوں نے ہمارے سمیت سب خاندان والوں کے پاسپورٹ بنوائے اور پھر اپنے سب رشتہ داروں کا قافلہ لے کر کربلا چل دئے، مجھے بھی ساتھ لے کر گئے تھے۔ اس وقت تک میں ملتان میں کوئی ڈیڑھ سے دو سال تک ہی پڑھا تھا۔ اولیٰ اور ثانیہ کی کتابیں میں وہاں جلدی جلدی ختم کر لی تھیں۔

    حوزہ علمیہ نجف اشرف میں

    1969ء کا اوائل تھا کہ ہم نجف اشرف میں داخل ہو گئے۔ پھر 1969ء سے لے کر 1975ء تک میں نجف اشرف میں رہا ہوں۔ نومبر 1975ء میں جب صدام نجف اشرف کے حوزہ کو خالی کر رہا تھا تو وہاں سے نکالنے کی جو تیسری ٹیم تھی اس میں ہم بھی گرفتار ہوئے، 15 دن وہاں جیل میں رہے اور انہوں نے وہاں سے ہمیں پاکستان بھیجنے کے لیے ڈیپورٹ کیا، وہاں سے ہم ایران پہنچے، رات کے ۲ بجے تقریبا ہم قم پہنچے تو ہم نے بس والوں سے کہا کہ ہمیں یہی نماز پڑھنے دیں۔ غرض ہم نے صبح کی نماز یہاں قم پڑھی اور پھر انہوں نے ہمیں میرجاوہ چھوڑ دیا اور پھر جہاں تک مجھے یاد ہے دسمبر میں ہم کوئٹہ پہنچے، غدیر کا مہینہ تھا، وہاں جشن کا پروگرام بھی ہو رہا تھا۔

    دینی و تبلیغی، اجتماعی و تنظیمی فعالیت کا آغاز اور حوزہ علمیہ قم میں آمد کا سبب!!:

    تقریبا 1975ء کے اواخر یا 1976ء کے اوائل میں ہی میں نے ملتان کے علاقہ "اندرون پاک گیٹ کے چھِک محلہ کی جعفریہ مسجد" میں، میں نے پیشنمازی شروع کی، وہاں تقریبا 2 سے اڑھائی سال میں رہا اور پھر وہاں سے ہم "جامعۃ اہل البیت (ع) اسلام آباد"، محسن ملت علامہ شیخ محسن علی نجفی کے پاس منتقل ہو گئے۔ انہوں نے مجھے وہاں بلایا اور وہاں نائب مدیر اور مدرس کی حیثیت سے وہاں خدمت شروع کی۔ اس وقت میری عمر کوئی 25 سے 26 سال تھی۔

    جامعۃ اہل البیت (ع) میں دو سے تین سال رہے پھر ایران میں "انقلاب" آ گیا۔ تو اب اسلام آباد میں جب میں کام کر رہا تھا تو ظاہر ہے وہاں پر یونیورسٹیوں سے وابستہ اور تعلیم یافتہ افراد موجود تھے اسی طرح ہم وہاں سیکٹر وائز دروس بھی دیتے تھے تو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ہمیں "قم" جانا چاہیے اور کچھ جدید مسائل جیسے سیاست اور معیشت، فلسفہ اور اخلاق اور اجتماعیات وغیرہ کی تعلیم حاصل کر کے یہاں اسلام آباد میں کام کریں۔

    1980ء کا جو شیعہ کنونشن ہوا اس میں ظاہر ہے ہم بنیادی کردار ادا کرنے والوں میں شامل تھے بلکہ سارے انتظامات ہمارے ہی پاس تھے اور اسی دوران جب میں جامعہ اہل البیت (ع) میں تھا تو قائد ملت جعفریہ پاکستان کو جو پہلے نجف اشرف، پھر قم میں رہنے کے بعد اب ملتان میں تھے تو وہاں سے راولپنڈی کے "مدرسہ آیت الحکیم" میں تشریف لے آئے۔ تو شیخ محسن علی نجفی مرحوم، قائد ملت جعفریہ اور ہم چند لوگ یہاں تھے۔

    پھر شہید باقر الصدر (رہ) کی شہادت ہو جاتی ہے تو اس کے لیے احتجاج کرنا، پروگرام کرنا وغیرہ ہم ہی اکٹھے کر رہے تھے اور شہید کا چہلم ہم نے کرنا تھا تو اسی اثنا میں ہمارے اس وقت کے قائد "علامہ مفتی جعفر حسین رحمت اللہ علیہ"، انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل سے اس بنیاد پر استعفی دیا کہ ضیاءالحق کا دور تھا اور وہ زبردستی سب پر قانون زکوۃ نافذ کر رہا تھا، تو انہوں نے وہاں احتجاج کیا کہ ہم نے اپنا اختلافی نوٹ دیا تھا کہ "شیعہ کے ہاں نوٹوں پر زکوۃ نہیں ہوتی" تو پھر اس کے لیے اپنا مطالبہ منوانے کے لیے کہ "شیعوں کو زکوۃ سے استثنا دیا جائے" وہاں باقاعدہ "شیعہ کنونشن" ہوا جو 1980ء کا معروف کنونشن ہے تو میں اسی کنونشن کے اختتام پر جولائی میں ایران آ گیا۔

    ایران میں یہاں "آیت اللہ مصباح یزدی رحمۃ اللہ علیہ کے موسسہ در راہ حق میں یونیورسٹی سے وابستہ افراد کے لئے ایک خصوصی کورس رکھا گیا تھا تھا جس میں اجتماعیات، سیاسیات، فلسفہ، اخلاق، ولایت فقیہ اور اقتصاد وغیرہ یہ سارے موضوع تھے۔ میں اسی میں داخل ہوا البتہ وہاں "قاضی کورس "بھی تھا لیکن میں نے قاضی کورس میں حصہ نہیں لیا۔ وہاں اس وقت ہمارے ساتھ ایک اور مولانا صاحب تھے لیکن وہ پھر درمیان میں چھوڑ گئے اور انہوں نے پھر وہی "قاضی کورس" کر لیا۔

    تو یہاں ہم نے اس پہلے کورس کو مکمل کیا اور پھر میں نے چونکہ طے یہ تھا کہ مجھے واپس پاکستان جانا ہے، میں نے یہاں مزید رہنا مناسب نہیں سمجھا البتہ یہیں ہم نے آیت اللہ مصباح یزدی سے تفسیر پڑھی جو بعد میں چھپی بھی، اسی طرح آیت اللہ مظاہری یہاں درسِ اخلاق دیتے تھے اور ولایت فقیہ کا بھی انہوں نے درس دیا جو بعد میں ان کی کتاب بھی چھپی۔ اسی طرح دکتر احمد احمدی تھے جو ہمیں مکاتبِ فلسفی پڑھاتے تھےاور پھر تہران سے دکتر عزتی، دکتر جعفری سمیت کئی دوسرے انتہائی قابل اساتذہ تھے۔ تقریبا 14 مضامین تھے جو ہم ہفتے میں پڑھ رہے تھے۔ البتہ اس دوران میں آیت اللہ وحید خراسانی حفظہ اللہ کے درسِ اصول فقہ میں بھی جاتا تھا اور آیت اللہ منتظری (رہ) کے درسِ فقہ، کتاب زکوۃ میں بھی جا رہا تھا۔

    میانوالی میں پہلے دینی مدرسہ کی تشکیل

    اب اتفاق ایسا ہوا کہ میرا پروگرام تو یہ تھا کہ میں واپس اسلام آباد جاؤں گا اور یہ کورس بھی اسی حوالے سے کیا تھا، لیکن ضلع میانوالی میں اس وقت کوئی دینی مدرسہ نہیں تھا اور ضلع میانوالی کی ایک یہ خصوصیت یہ ہے کہ قبلہ محمد باقر المعروف الہندی، چکڑالہ جو دراصل پاکستان کی تشکیل کے بعد پاکستان میں علم کی شمع روشن کرنے والے ہیں، قبلہ گلاب علی شاہ صاحب بھی انہی کے شاگرد تھے، قبلہ یار محمد شاہ صاحب بھی انہی ے شاگرد تھے لیکن خود ان کے اپنے علاقے میں دینی ادارہ نہیں تھا جو یہ ماڑی انڈس جو ہے۔

    خیر ضلع میانوالی ویسے ہی پسماندہ ضلع تھا اور پھر ماڑی انڈس جو ہے اس کا پسماندہ گاؤں۔ اگرچہ اس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے لیکن تھا پسماندہ۔ تو یہاں 1981ء میں ایک مولانا محمد حسن بلتستانی ماہ رمضان پڑھانے کے لیے آئے تو انہوں نے وہاں پر ایک تحریک چلائی کہ "یہاں ایک دینی مدرسہ ہونا چاہیے"۔ تو وہاں کا جو ایک زمیندار تھا جو ان کا متولی تھا وہ قائل ہو گیا کہ ٹھیک ہے اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ یہاں دینی مدرسہ ہونا ہے۔

    اس میں نو روز کے موقع پر ضلع کے مختلف گاؤں سے افراد کو بلا لیا اگرچہ وہ دارالعلوم محمد یہ سرگودھا میں "شرائع الاسلام" کے ایک طالبعلم تھے اور وہاں سے یہاں تبلیغ کے لئے آئے ہوئے تھے انہوں نے وہاں تحریک چلائی۔ اس کے نتیجے میں مدرسہ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اب بات چلی کہ اس مدرسہ کا کیا نام ہو؟ توضلع میانوالی جیسا کہ ایک قبائلی علاقہ ہے، و ہاں سادات برادری ہے، اعوان ہیں اور نیازی پٹھان جو غیر پشتون ہیں اور پشتو پٹھان۔ سب سے زیادہ نیازی ہیں اور اس کے بعد اعوان ہیں اور تیسرے نمبر پر سادات ہیں اور چوتھے نمبر پر پشتون ہیں۔

    پھر یہ کہ مدرسے کا نام کیا ہو؟ تو کسی نے کہا "آیت اللہ خمینی رہ" نے تشیع کی بہت زیادہ خدمت کی ہے تو لہذا یہ مدرسہ ان کے نام پر ہونا چاہئے۔تو وہاں پر انہوں نے اس مدرسے کا نام رکھ دیا "مدرسہ آیت اللہ خمینی رہ"۔ پھر یہ بحث ہوئی کہ اس مدرسے کو کون بنائے گا؟۔ تو میانوالی کے جو لوگ کو اسلام آباد میں ملازمت کرتے تھے وہاں انہوں نے چونکہ ہمارے کام کو دیکھا ہوا تھا تو انہوں نے کہا کہ "اگر سید افتخار نقوی یہاں پر آئے تو ایک تو نقوی سادات ہے دوسرا ہے بھی جوان (اس وقت میری عمر 26 سال تھی) تو اگر وہ آ جائیں تو مدرسہ بھی بن جائے گا۔

    تو یہ میرے لیے اب بڑا مشکل ہو گیا۔ انہوں نے رابطہ کیا اور بڑی تاکید تھی کہ آپ آئیں۔ آخر کار پھر یہ فیصلہ ہوا کہ ہم استخارہ کر تے ہیں۔ تو پھر قم میں ہی ایک بڑی شخصیت سے استخارہ کروایا۔تو اس میں یہ آیت آئی کہ "قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَ الْجِنُّ عَلَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا" تو پھر یہ حکمِ الہی سمجھ کے ہم میانوالی آگئے۔

    پہلی دفعہ میں جب 1982ء میں میانوالی گیا تو ماہ رمضان تھا۔ وہاں مجھے بتایا گیا کہ دینی مدرسی کی تاسیس کے لئے ساڑھے سات کنال زمین اور سات ہزار روپیہ جمع ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ سات کنال زمین کم ہے اسے دس کنال کیا جائے اور پھر اگست 1982ء میں مدرسہ کے سنگ بنیاد کی تقریب رکھی گئی جس میں پھر تقریبا پاکستان کے تمام بڑے علماء تشریف لائے۔ قائد ملت جعفریہ "مفتی جعفر حسین مرحوم" بھی تشریف لائے، موجودہ قائد محترم بھی موجود تھے، قبلہ گلاب علی شاہ صاحب، مولانا صفدر حسین نجفی صاحب وغیرہ بھی۔ کیونکہ وہ قبلہ محمد باقر المعروف الہندی صاحب کا علاقہ تھا تو اس مناسبت سے سب نے اس کو بڑا ایک اچھا اور نیک قدم سمجھا کہ یہاں ایک مدرسہ بن رہا ہے۔

    پھر ہم نے مدرسہ کی تعمیرات کا کام شروع کیا۔ اپریل 1983ء میں اس ویرانے میں ہم نے چار کمرے بنا کے تعلیمی سلسلہ شروع کر دیا۔ تو بس وہ اللہ تبارک و تعالی نے ایسا انتظام کیا کہ 1985ء میں "امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن" جو کہ کال اور یونیورسٹیز میں ہمارے شیعہ اسٹوڈنٹس کی ایک تنظیم تھی، ان کا یہاں ایک کیمپ ہوا اور اس کیمپ میں "امامیہ اسکاؤٹس کی بنیاد رکھی گئی۔

    اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جو ہم نے یہاں حوزہ علمیہ قم میں یہ سیاسیات، اقتصادیات اور فلسفہ، اخلاق اور ولایت فقیہ وغیرہ سب کچھ سیکھا تھا تو اللہ تبارک و تعالی نے پورے ملک سے یونیورسٹیوں کے طلبہ کو وہاں بھیجنا شروع کر دیا۔ تو ہر سال تقریباً پانچ سو کے قریب اسٹوڈنٹس وہاں آیا کرتے تھے۔ چیئرمین امام خمینی (رہ) ٹرسٹ علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کہا: تبلیغِ دین کے حوالے سے جو نتیجہ ہمیں خواتین کو پڑھانے سے ملا وہ لڑکوں کے پڑھانے سے نہیں ملا۔ جب آپ ایک بچی کو پڑھا دیتے ہو تو گویا پورا ایک گھرانہ پڑھا اور سنوار دیتے ہو[1]۔

    سیاسی نظریہ

    اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور بزرگ عالم دین کا "اسلام ٹائمز" کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ ہم دوسری سیاسی جماعتوں کیطرح نہیں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیتے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اچھالتے ہیں۔ کیونکہ اس سیاست کے حمام میں سارے ننگے ہیں تو پھر باہر نکل کر ایک دوسرے کیساتھ بغل گیر بھی ہو جاتے ہیں۔ ہم بالکل ایسے نہیں ہیں۔ ہم ایک نظریہ رکھتے ہیں۔ ہمارا ایک عقیدہ ہے، ہماری اخلاقیات ہیں۔ ہمیں اشاروں کنایوں میں بھی منفی پہلووں کو اجاگر نہیں کرنا چاہئے۔

    سید افتخار حسین نقوی ایک جانی پہچانی مذہبی شخصیت ہیں۔ آپ اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور امام خمینی (رہ) ٹرسٹ کے سرپرست کے طور پر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ آپ ماضی میں تحریک جعفریہ کے ایک سرگرم رہنماء بھی رہے۔ اب بھی ملت امور میں پیش پیش رہتے ہیں اور ہر دستیاب فورم پر دین و ملت کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔ علامہ صاحب ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی (رہ) کے سرپرست بھی ہیں۔

    اتحاد بین المسلمین کے ساتھ ملت تشیع کے اتحاد کے بھی شدید خواہش مند ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ سید افتخار حسین نقوی کے ساتھ ایک انٹرویو میں گفتگو کی جسے ابنا نے اپنے قارئین کے لیے نقل کیا ہے۔

    سیاست میں شیعوں کی مداخلت

    اسلام ٹائمز: ملک میں عام انتخابات قریب ہیں، اور ملت تشیع کی دو بڑی نمائندہ جماعتیں بھرپور انداز میں حصہ لینے کا اعلان کرچکی ہیں، آپ کے خیال میں اس الیکشن کے ذریعے ملت تشیع اپنے حقوق کے تحفظ اور دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔؟ علامہ افتخار حسین نقوی: دیکھیں، شیعہ تنظیمیں جو ہیں، اسلامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین۔ وہ اکیلے تو میدان میں اتر نہیں سکتے اور انہیں ایسے اترنا بھی نہیں چاہئے اور انہیں ہم خیال سیاسی جماعتوں کیساتھ معاملات طے کرنے چاہیں۔ اسلامی تحریک ایک پرانی جماعت ہے۔

    جبکہ مجلس وحدت مسلمین نوجوانوں اور نوجوان علماء کے ذریعے بنی ہے۔ نوجوان جلسوں میں تو آجاتے ہیں لیکن ووٹ کے حوالے سے مشکلات ہوسکتی ہیں۔ ہر حلقہ میں چار پانچ ہزار ووٹ مل سکتے ہیں، بعض حلقوں میں جہاں پینتیس، چالیس ہزار ووٹ ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ وہ سارے مل جائیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اب بھی جو دیہاتی حلقے ہیں، ان میں حتیٰ کہ ان سیاسی جماعتوں کا بھی اثر نہیں ہے، بلکہ وہاں ووٹ سیاسی خاندانوں کا ہے، جو براجمان ہیں۔

    اسلام ٹائمز: آپ گذشتہ دنوں علامہ ساجد نقوی اور علامہ ناصر عباس جعفری کے مابین ہونے والی ملاقات میں بھی شریک تھے۔ اس قسم کی ملاقاتیں کیا ملت تشیع کو کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد کرسکتی ہیں اور ملی وحدت کے حوالے سے بزرگ علماء اس حوالے سے کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔؟ علامہ افتخار حسین نقوی: میری تو دلی خواہش ہے کہ یہ جتنے قریب ہوں۔ یہ کہنا کہ ایک جماعت ہوجائے، یہ ایک ایسی خواہش ہے کہ جس پر عمل نہیں ہوسکتا۔

    ان کا آپس میں تفاہم نامہ ہونا چاہیئے، آپس میں ہم آہنگی ہونی چاہیئے، ملاقاتیں ہونی چاہئے اور ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت ہونی چاہیئے۔ قومی مسائل کے حوالے سے ایک موقف ہونا چاہیئے۔ اگر فرض کریں کہ طے کرنا ہے کہ شیعہ افراد اس قسم کے امیدواروں کو ووٹ نہ دیں جو ان کے مفاد میں نہ ہو۔ یا پھر جس کو ووٹ دیں اس سے یہ یقین دہانی لی جائے کہ اسمبلی میں قانون سازی ہو جو ہماری آئینی حق ہے اس کا تحفظ کیا جائے۔

    آئینی حقوق کے حوالے سے یہ ہے کہ جو جس فقہ کا پیروکار ہے، اس کے حوالے سے قانون سازی ہوگی جو ابھی تک نہیں ہوئی، سوائے ایک دو قوانین کے جو زکواۃ کے بارے میں ہوئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جو سفارشات جاتی رہیں وہ صرف ایک فقہ کیلئے جاتی رہیں، دوسری فقہ کیلئے گئی ہی نہیں، جبکہ یہ خلاف آئین ہے۔ آئین کہتا ہے کہ جو جس فقہ سے تعلق رکھتا ہے اس سے اس کے مطابق ہی عمل ہوگا۔ اب ہمارے ساتھ لوئر عدالتوں میں زیادتی ہو رہی ہے۔ طلاق، وراثت اور نکاح کے مسائل میں ہمارے اصولوں کے خلاف فیصلے ہو رہے ہیں۔ یہاں تو حرام اور حلال کا مسئلہ ہے۔

    لیکن اس پر کسی نے آواز ہی نہیں اٹھائی۔ میں نے البتہ اسمبلی میں کچھ شیعہ ممبران تک یہ بات پہنچائی اور صدر کو بھی خط لکھا اور ایک خط باقاعدہ ان کے ہاتھ میں بھی دیا۔ لیکن اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس حوالے سے متفقہ طور پر مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ شیعوں کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ راجہ صاحب، آغا صاحب (علامہ سید ساجد علی نقوی) کے گھر تشریف لے آئے، انہوں نے یہ بہت اچھا قدم اٹھایا ہے اور یہ ایک قسم کا آغاز ہوگا۔

    یہ ملاقاتیں جاری رہنی چاہیں۔ بزرگ علماء کیوں نہیں چاہتے کہ یہ آپس میں مل بیٹھیں کیونکہ دوری نقصان دہ ہے۔ دشمن کو اس سے فائدہ ہوگا۔ جتنے ان کی ملاقاتیں زیادہ ہوں گی وہ فائدہ مند ہیں۔ ایک ضابطہ اخلاق بن جائے۔ ایک دوسرے کی توہین نہ کریں، ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں۔ ایک دوسرے کے منفی پہلوں کو اجاگر نہ کریں۔ ہر ایک میں منفی پہلو ہیں، کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔ ہر ایک میں خامیاں بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جتنی قدیمی جماعت ہوگی اس میں منفی پہلو بھی زیادہ ہوں گے، اور جو نئی جماعت بن رہی ہے لوگوں نے ابھی اسے دیکھا ہی نہیں۔ ابھی تو وہ آزمائے گئے ہی نہیں۔ جب کام کریں گے تو پتہ چلے گا۔

    خالی اعلانات سے تو نہیں ہوتا۔ میدان میں جب اترے ہیں تو کمزوریاں بھی سامنے آئیں گی۔ خامیاں بھی سامنے آئیں گی۔ اب مثلاً کوئٹہ میں جو یہ چھوٹا سا واقعہ ہوا تو مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری صاحب کو کتنی سبکی اٹھانا پڑی۔ جس تنظیم کو 30 سال ہوگئے ہیں اس کیلئے خرابیاں اور خامیاں نکالنا تو بڑا آسان ہے ناں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ بجائے منفی پوائنٹ تلاش کرنے کے ایک دوسرے کیساتھ چلا جائے۔

    خاص کر میں جوانوں سے کہوں گا، خاص کر اپنے عزیزان اسٹوڈنٹس سے کہوں گا، چاہے ان کا تعلق جعفریہ اسٹوڈنٹس سے ہو یا امامیہ اسٹوڈنٹس سے، جو منظم ترین جماعت ہے کہ وہ اپنے کارکنوں سے کہیں کہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش کرنے کی بجائے مثبت پہلووں کو تلاش کریں، کیونکہ مثبت پہلو ہر جگہ ہے۔ علمائے اخلاق کہتے ہیں اور حدیثوں میں بھی ہے کہ مومن کی مثال شہد کی مکھی کی سی ہے، گند بھی ہو تو وہ پھول پر جا کر بیٹھے گی اور جو گند کی مکھی ہے وہ چاہے ہزار پھول بھی ہوں اگر کہیں چھوٹی سے جگہ پر میل اور گند لگا ہوا ہو[2]۔

    حوالہ جات

    1. جب آپ اپنے خاندان کی ایک بچی کو پڑھا دیتے ہیں تو گویا آپ ایک پورا گھرانہ پڑھا اور سنوار دیتے ہیں- شائع شدہ از: 27 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔
    2. علامہ افتخار حسین نقوی کے ساتھ ایک انٹرویو- شائع شدہ از: 26مارچ 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 جنوری 2025ء۔