وفاق المدارس الشیعہ پاکستان

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، شیعہ دینی مدارس کا واحد تعلیمی بورڈ ہے جسے پاکستان میں شیعہ دینی مدارس کے باہمی روابط کی خاطر سنہ 1958 کو جامعۃ المنتظر لاہور میں منعقد شیعہ علماء کے ایک ملک گیر اجلاس میں بنایا گیا۔ یہ ادارہ مارچ سنہ 1979 میں حکومت پاکستان کی جانب سے مختلف مکاتب فکر کے مدارس کو منظم کرنے کے لئے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کا رکن بنا۔ شیعہ دینی مدارس کے لیے مشترکہ تعلیمی نصاب مرتب کرنا، سالانہ تعطیلات اور امتحانات کے نظام الاوقات کا اعلان، مختلف تعلیمی سطوح سے فراغت کے بعد طلباء کے لئے تعلیمی اسناد جاری کرنا، اسی طرح میٹرک سے لے کر ایم اے تک کی مساوی اسناد جاری کرنا اس ادارے کے بنیادی امور میں سے ہیں۔
تاسیس
پاکستان میں سنہ 1950 کی دہائی میں شیعہ مدارس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہونے لگا تو سید صفدر حسین نجفی نے ان مدارس کے مابین ہماہنگی اور جامع نصاب ترتیب دینے کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے سنہ1958 میں وفاق المدارس کا ابتدائی ڈھانچہ مرتب کیا [1] اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں مدارس دینیہ کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن شیعہ مدارس دینیہ کی تاریخ کے مطابق موجودہ پاکستان میں سنہ 1914 میں شہر چکرالہ اور میانوالی میں دو دینی مدرسوں کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد سنہ1925 میں ملتان میں مدرسہ علمیہ باب العلوم، سنہ1941 میں مدرسہ مخزن العلوم الجعفریہ، سنہ1951 میں سرگودھا میں مدرسہ محمدیہ، لاہور میں جامعہ امامیہ اور سنہ1954 میں لاہور میں جامعۃ المنتظر کی بنیاد رکھی گئی [2].
وفاق المدارس کی تاریخ
سنہ1958 میں سید صفدر حسین نجفی نے وفاق المدارس کا ابتدائی ڈھانچہ مرتب کیا اور امور کو مرحلہ وار انجام دینے کے لیے ایک تنظیم "مجلس نظارت شیعہ پاکستان" کے نام سے وجود میں لائی گئی۔ اس کے پہلے اجلاس میں شیعہ مدارس کے تعلیمی نظم و نسق کو چلانے کی ذمہ داری نصیر حسین نجفی کے سپرد کی گئی [3] .
سنہ1962 میں محمد حسین نجفی اس کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ مجلس نظارت کی کوئی خاص کارکردگی سامنے نہ آنے کی وجہ سے 17نومبر1976 کو پیر محمد ابراہیم کے زیر صدارت مدرسہ جعفریہ کراچی میں بین المدارس کے تیسرے اجلاس میں طے پایا کہ جامعہ المنتظر کا مجوزہ تعلیمی نصاب تمام شیعہ مدارس کے لیے لازم الاجراء ہوگا۔ پیر محمد ابراہیم کی وفات کے بعد یہ اقدام عملی نہیں ہوسکا۔
جنوری 1979 میں حکومت نے قومی کمیٹی برائے دینی مدارس بنائی جس میں تمام مدارس کے مشترکہ نصاب اور اسناد کے اجرا پر غور و خوض کیا گیا۔ اس کمیٹی میں دیگرمکاتب فکر کے علاوہ شیعہ مدارس کی نمائندگی علامہ سید صفدر حسین نجفی اورمولانا شبیہ الحسنین محمدی نے کی۔
29، 30 مارچ 1979 کو جامعۃ المنتظر میں تمام شیعہ مدارس کا عظیم اجتماع منعقد ہوا۔ جس میں حکومت سے مربوط اموراور دینی مدارس کے دیگر مسائل کے بارے میں غور و فکر کیا گیا۔ اس اجتماع میں متفقہ طور پر دینی مدارس کی باقاعدہ تنظیم کے قیام کو آخری شکل دینے اور اسے فعال بنانے کے فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور مجلس نظارت جیسے سابقہ تنظیمی ڈھانچوں کے نتیجے میں وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
ادارے کے سربراہان
اپریل 1981ء میں عزیز المدارس چیچہ وطنی میں وفاق المدارس شیعہ پاکستان کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ تمام علمائے کرام نے متفقہ طور پر علامہ سید صفدر حسین نجفی کو وفاق المدارس کا صدر منتخب کیا اور انہیں اس تنظیم کو فعال بنانے کے مکمل اختیارات سونپ دیے گئے۔ قومی کمیٹی برائے دینی مدارس کی 55 باقاعدہ نشستوں میں جامعہ کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ صاحب کی باقاعدہ شرکت اور انتھک محنت کے نتیجے میں ایک مشترکہ نصاب کی منظوری اور شیعہ طلبہ کے لیے درجہ سلطان الافاضل کی سند کو ایم۔ اے عربی اسلامیات کے مساوی منظور کرانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔
علامہ نجفی صاحب نے امتحانی بورڈ قائم کیا جس کے فرائض میں باقاعدہ امتحان کے بعد کامیاب طلبہ کو سند جاری کرنا شامل ہے۔ اس سند کی بدولت سینکڑوں شیعہ فارغ التحصیل طلبہ تعلیمی اداروں اور دیگر محکموں میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
2 جنوری 1987 کو صدر وفاق المدارس نے دستور کمیٹی اور نصاب کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں دستور کی باقاعدہ منظوری دی اور مرتبہ نصاب پر غور و فکر کے لیے جامعہ میں بزرگ علمائے کرام کی اہم نشست بلائی گئی جس میں اہم دینی مدارس کے اکثر مدرسین اعلیٰ اور اساتذہ نے شرکت فرمائی۔ اس اجلاس میں وفاق کا دستور متفقہ طور پر منظور کیا گیا اور سید صفدر حسین نجفی کو مزید 5 سالوں کے لیے وفاق کی صدارت کے فرائض سونپے گئے۔ دسمبر 1989 میں علامہ صاحب کی وفات کے بعد یہ عہدہ خالی ہو گیا۔
وفاق المدارس شیعہ پاکستان، جامعتہ المنتظر تمام دینی مدارس کی ترجمانی کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ وفاق المدارس شیعہ پاکستان، جامعتہ المنتظر لاہور کی طرف سے شائع شدہ دستور پر ملک بھر بزرگ علمائے کرام کے تائیدی دستخط جامعہ کے تمام مدارس کا نمائندہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور اس کے فیصلوں کو تمام مدارس کے علمائے کرام کی حمایت حاصل ہے۔ وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے موجودہ سربراہ سید ریاض حسین نجفی صاحب ہیں جنہیں مجلس عاملہ نے 3 اپریل 2000ء کو آیندہ 5 سالوں کے لیے رئیس الوفاق منتخب کیا ہے [4].
نصاب ساز کمیٹی کی تشکیل
ابتدائی ایام میں شیعہ مدارس میں عربی ادبیات، عقائد اور فقہ و اصول کی کتابیں تدریس کی جاتی رہیں۔ وفاق المدارس شیعہ پاکستان نے ان میں بہتری لانے اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک جامع نصاب کی تدوین کے سلسلے میں ایک نصاب سازکمیٹی تشکیل دی جس نے سنہ2007 میں 12 سالہ جامع نصاب تیار کیا جسے شیعہ مدارس کے سربراہان نے سنہ 2009 میں متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس کے علاوہ میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے کی مساوی ڈگری جاری کرنے کے سلسلے میں بھی چار مراحل میں نصاب تدوین کیا گیا [5] ۔
ذمہ داریاں
وفاق المدارس شیعہ پاکستان کی بعض ذمہ داریاں مندجہ ذیل ہیں:
- شیعہ مدارس کے لیے نصاب سازی کرنا
- شیعہ مدارس میں مشترکہ نصاب لاگو کرنا
- سالانہ امتحانات کے نظام الاوقات جاری کرنا
- فارغ التحصیل طلاب کو اسناد جاری کرنا
- میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے اسناد کے خواہشمند طلبا کے لیے امتحان کا انعقاد اور اسناد کا اجراء
- سالانہ یا بوقت ضرورت مدارس دینیہ کے اساتذہ کا اجلاس بلانا۔
علمائے اسلام صہیونی مظالم کے بارے میں عوامی شعور بیدار کریں
ایرانی دینی مدارس کے سربراہ آیت اللہ اعرافی نے وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سربراہ آیت اللہ حافظ ریاض کے خط کے جواب میں کہا ہے کہ مقاومت کی حمایت کے ساتھ صہیونی حکومت کے مظالم اور عالمی برادری کے سکوت کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنا علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی دینی مدارس کے سربراہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سربراہ آیت اللہ حافظ ریاض حسین نقوی کے خط کے جواب میں کہا کہ فلسطین اور لبنان میں صہیونی حکومت کے مظالم کے بارے میں عوامی شعور کو بیدار کرنا علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے۔
آیت اللہ اعرافی نے اپنے خط میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ اور دیگر مقاومتی رہنماؤں اور مقاومتی مجاہدین کی شہادت پر تعزیت پیش کی اور کہا کہ شہید حسن نصر اللہ اور دیگر شہداء نے جرائت اور بہادری کے ساتھ میدان نبرد میں اپنی جان قربان کی اور امت مسلمہ اور مقاومت کو مزید جذبہ عطا کیا۔
انہوں نے کہا کہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت سے مقاومت کا پرچم سرنگوں نہیں ہوگا بلکہ پہلے سے زیادہ موثر طریقے سے صہیونی حکومت کی نابودی کے لئے فعالیت کرے گی۔ آیت اللہ اعرافی نے مزید کہا کہ علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے کہ مقاومت مخصوصا فلسطین اور لبنان میں صہیونی حکومت کے ساتھ برسر پیکار مجاہدین کی مادی اور معنوی حمایت کریں اور صہیونی مظالم کے بارے میں عالمی برادری کی خاموشی اور بعض مغربی ممالک کی حمایت کے بارے میں دنیا کو آگاہ کریں۔
انہوں نے پاکستانی علماء، دینی جماعتوں اور عوام کی جانب سے مقاومت کی حمایت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا سفاک اور جعلی صہیونی حکومت کا زوال دیکھے گی اور خطے اور عالم اسلام سے شر کا منبع مٹ جائے گا [6]۔
تشیعِ پاکستان کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری صاحب نے "پاکستان میں دینی مدارس کو درپیش مسائل اور ان کا راہِ حل" کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری صاحب نے "پاکستان میں دینی مدارس کو درپیش مسائل اور ان کا راہِ حل" کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
حوزہ نیوز: وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے تشکیلی ڈھانچے کو بیان کرتے ہوئے اس ادارہ کی خدمات پر مختصر روشنی ڈالیں؟
حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری: وفاق المدارس الشیعہ علماء پاکستان کے موجودہ سربراہ کراچی کے سید رضی جعفر نقوی صاحب ہیں۔ وفاق علماء شیعہ میں علماء مدارس اور ائمہ جمعہ والجماعت سب اس کے عضو تھے۔ میں تقریباً دس سال وفاق علماء شیعہ کا سیکرٹری رہا ہوں۔ اس کے بعد وفاق المدارس کا سیکرٹری بنا۔ وفاق المدارس کا ایک مہم کام سازمان کا قیام تھا جس کا نام "سازمان اتحاد تنظیمات مدارس" ہے۔ اس میں شیعہ و سنی تمام مدارس شامل ہیں۔
قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں کل پانچ وفاق موجود ہیں:
- وفاق العربیہ کہ جو دیوبندی مدارس سے مربوط ہے ۔
- وفاق المدارس سلفیہ کہ جو اہلحدیث کے مدارس کے ساتھ مربوط ہے ۔
- وفاق المدارس الشیعہ جو کہ ہمارے شیعہ مدارس سے مربوط ہے ۔
- تنظیم المدارس ہے کہ جو اہلسنت حنفی و بریلوی مدارس سے مربوط ہے ۔
- سازمان رابطۃ المدارس جو کہ جو دیوبندی ہیں اور جماعت اسلامی کہ جو سیاسی، مذہبی گروہ ہیں۔
پھر ان تمام پانچ وفاق کا مجموعہ ہے۔ میں اس وقت اس سازمان کا نائب سرپرست ہوں۔ یہ سازمان جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو سب جمع ہو کر ایک فیصلہ کرتے ہیں۔ اور آج تک حکومت بھی جو مدارس کو اپنے کنٹرول میں لینے میں کامیاب نہیں ہوئی یہ اسی سازمان اتحاد تنظیم المدارس کے طفیل ہے۔ تشیعِ پاکستان کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے
وہاں حکومت مدارس کے بجٹ کے بہانے کافی عرصہ سے اس تلاش میں ہے کہ مدارس حکومت کے کنٹرول میں چلے جائیں وغیرہ لیکن علماء کرام اور یہ سازمان مانع ہیں تاکہ مدارس کے استقلال اور حریت میں کوئی حرف نہ آئے۔
حوزہ نیوز: اتحاد و وحدت المسلمین میں سازمان اتحاد تنظیم المدارس کا کیا کردار رہا ہے؟
حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:سازمان اتحاد تنظیم المدارس کی ہی برکت سے آج علماء و مدارس کے درمیان اتحاد و وحدت کی فضا قائم ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب میں لاہور میں موجود مدرسہ اشرافیہ میں ایک پروگرام میں گیا تو واپسی پر ایک طالبعلم نے مجھے دیکھ کر "کافر کافر شیعہ کافر" کا نعرہ لگایا اور بھاگ گیا تھا یعنی مذاہب کے درمیان نفرت و کدورت پائی جاتی تھی لیکن اب الحمد للہ تمام مدارس میں آتے جاتے ہیں اور کبھی ایسی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
آیت اللہ اعرافی جب پاکستان کے دورہ پر گئے تھے تو جامعۃ المنتظر میں تمام مدارس کے سرپرست حضرات کو جمع کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ نشست رکھی گئی تھی۔ اب انہوں نے کہیں دوسرے پروگرام میں شرکت کرنا تھی تو ان کے ساتھ موجود افراد انہیں بار بار یادآوری کرا رہے تھے کہ اگلے پروگرام میں پہنچنا ہے۔ بالآخرہ آیت اللہ اعرافی نے انہیں کہا کہ "اگلے پروگرام کو کینسل کر دیں چونکہ مدارس کے سربراہان کے ساتھ یہ نشست بہت مہم ہے"۔
سازمان اتحاد تنظیم المدارس اس سے پہلے صرف مرکز میں کام انجام دیا کرتا لیکن اب تمام شہروں میں اس کی برانچز بنا دی گئی ہیں۔ سازمان اتحاد تنظیم المدارس میں کثرتِ رائے کی اہمیت نہیں "اتفاقِ رائے" مہم ہے سازمان اتحاد تنظیم المدارس میں سب سے مہم بات کسی بھی قسم کا فیصلہ کثرت آراء سے نہیں کیا جاتا بلکہ سب کے اتفاقِ نظر سے کیا جاتا ہے یعنی اگر ایک ممبر بھی کسی مسئلہ میں مخالف ہوا تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
چونکہ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان پانچ وفاقوں میں برادران اہلسنت چار ممبرز ہیں اور شیعہ کا ایک رکن میں ہوں تو اب اس میں کثرتِ رائے کی اہمیت نہیں "اتفاقِ رائے" مہم ہے جو کہ اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ایک دفعہ مفتی منیب الرحمن مدرسہ المنتظر میں آئے تو نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔ ہم انہیں نماز کے لئے مسجد لے کر گئے تو نماز ظہر ختم ہو چکی تھی۔ میں نے انہیں کہا بسم اللہ نماز کی امامت کرائیں، آپ اپنی نماز ظہر پڑھیں باقی افراد آپ کے پیچھے نماز عصر پڑھ لیں گے۔
بہت حیران ہوئے اور وہاں نمازِ جماعت ان کی اقتداء میں منعقد ہوئی۔ نماز کے بعد جب فارغ ہوئے تو مجھ سے کہتے ہیں کہ کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ سب نے میرے پیچھے نماز پڑھی اور کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا حالانکہ اگر آپ ہمارے ہاں آئیں تو شاید میں آپ کو اس طرھ نماز جماعت کی امامت کا نہ کہہ سکوں۔ تو میں نے وہاں ان سے کہا کہ "کہ ہاں؛ چونکہ ہم اپنی نماز جمعہ کے خطبوں میں مومنین کو بتاتے ہیں کہ آپ لوگ بھی مسلمان ہیں حالانکہ یہی چیز آپ کے ہاں سے منتقل نہیں ہوتی لہذا وہ لوگ کیسے ہمیں قبول کریں گے"۔
اسی ضمن میں پاکستانی علماء کی تاریخ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری نے کہا: ہماری علمی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو وہ کوئی اتنی طولانی نہیں ہے۔ جب تک ہند و پاکستان نے استقلال حاصل نہیں کیا تھا تو اس وقت تک ہمارا تعلیمی مرکز لکھنؤ تھا،اس وقت سب مسلمان لکھنؤ مراجعہ کیا کرتے۔ اس وقت ایک مسلم آیت اللہ تھے بنام "آیت اللہ دلدار حسین"۔ پھر ان کے بعد بہت سارے شیعہ علماء سامنے آئے۔منجملہ آقای سید ناصر، مفتی احمد علی اور اسی طرح علامہ سید علی نقی نقن صاحب قبلہ جو انتہائی برجستہ عالم دین تھے، پھر 1947ء میں ہند و پاکستان کی آزادی کے بعد پاکستان میں صرف ایک مدرسہ ہوا کرتا تھا حالانکہ اس وقت بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا۔ اب تقریباً 74 سال کے بعد پاکستان نے دینی مدارس اور علمی شخصیات میں بہت زیادہ پیشرفت کی ہے۔
انہوں نے پاکستان میں دینی مدارس کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: اس وقت الحمد للہ پاکستان میں 500 سے زیادہ دینی مدارس موجود ہیں۔ جن میں سے کوئی بھی مدرسہ ایسا نہیں ہے جو تحت اشراف وفاق المدارس نہ ہو یعنی سبھی وفاق المدارس کا رکن ہیں۔ البتہ ابھی تازہ حکومت کی طرف سے ایک نیا وفاق تشکیل دیا گیا ہے جس میں 5 سے 6 مدارس شامل ہیں۔
حوزہ نیوز: پاکستان کے شیعہ مدارس کا کوئی علمی مجلہ یا ماہنامہ بھی نشر ہوتا ہے؟
حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:جی بالکل؛ مختلف مدارس کے کئی ایک ماہنامہ نشر ہوتے ہیں۔ جیسے لاہور سے ماہنامۂ المنتظر شائع ہوتا ہے، جامعہ مخزن العلوم ملتان سے "المخزن" نشر ہوتا ہے، اسلام آباد میں علامہ سید حسنین گردیزی صاحب کی طرف سے اور اسی طرح جامعۃ الکوثر کی طرف سے بھی مجلہ منتشر ہوتا ہے اورمیانوالی سے علامہ سید افتخار حسین نقوی صاحب کی طرف سے "پیامِ زینب" وغیرہ منتشر ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہندوستان کی سرزمین علماء کی رفت و آمد اور حصولِ علم کا مرکز ہوا کرتی تھی، صاحبِ الغدیر علامہ امینی، آیت اللہ سید مرعشی نجفی اور کئی دیگر بزرگ علماء حصولِ علمِ دین کے لئے ہندوستان کا رخ کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں علامہ شیخ اختر عباس نجفی جو کہ جامعۃ المنتظر لاہور کے موسس ہیں، وہ آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ منتظری کے ہم مباحث تھے۔ اسی طرح میں کچھ عرصہ پہلے عراق زیاراتِ عتبات کے لئے مشرف ہوا تو وہاں آیت اللہ اسحٰق فیاض سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ "آقای شیخ اختر عباس نجفی کا سنائیں؟" تو میں نے عرض کیا کہ وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ تو ان کا افسوس سے کہنا تھا کہ انہوں نے یہاں نجف اشرف سے جا کر گویا اپنے آپ پر ظلم کیا چونکہ اگر وہ یہاں رہتے تو مرجع اور بزرگ ملا بن کر سامنے آتے، بہت فاضل شخصیت کے مالک تھے"۔
حوزہ نیوز: آپ کی نظر میں اس وقت پاکستان میں تشیع کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:میری نظر میں بحیثیتِ تشیع ہمیں پاکستان میں اس وقت کسی خاص چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ پاکستان میں تشیع کی خدمت کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے۔ ہاں کچھ ذیلی مسائل ہیں لیکن جو قابلِ حل ہیں البتہ ہمیں مزید اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے، منبر کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، حالانکہ حالیہ عرصہ میں منبر و مجالس کے حوالے سے کافی مثبت بہتری دیکھنے کوملی ہے بہرحال علماء کرام کو منبر کے لحاظ سے مزید مضبوط ہونے کی بھی ضرورت ہے۔
حوزہ نیوز:پاکستان میں تعلیمی نصاب کے حوالے سے مذہبِ تشیع کے خدشات کو دور کرنے میں وفاق المدارس کیا کردار رہا ہے؟
حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:تعلیمی نصاب سے آپ کی مراد یکساں قومی نصاب ہے تو اس میں سب سے پہلے گورنمنٹ کی طرف سے جب اعلان ہوا تو کمیٹی میں تمام وفاقوں کا ایک ایک نمائندہ لیا گیا۔ ہماری طرف سے علامہ قاضی نیاز نقوی صاحب ممبر تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد کوئی دوسرا بندہ منتخب نہیں ہوا چونکہ نصاب تشکیل پا چکا تھا۔ اب اگر دیکھا جائے تو اس یکساں قومی نصاب کی تشکیل کے وقت مختلف اداروں کے وائس چانسلرز سمیت تقریبا 50 ممبرز تھے جن میں یہ ایک شیعہ تھے۔ لہذا اس میں ظاہر ہے صرف ایک نمائندہ کی حد تک ہی بات منوائی جا سکتی تھی۔
اس کے بعد جب نظرثانی کا مرحلہ آیا تو اس میں ہمارے دو ممبرز موجود تھے۔ ایک کلاس اول سے کلاس پنجم تک کے نصاب میں ڈاکٹر علامہ سید محمد نجفی صاحب تھے اور دوسرا کلاس ششم سے کلاس ہشتم تک کے ممبر علامہ شیخ محمد شفا نجفی صاحب تھے۔ اب ایک دو میٹنگ میں ڈاکٹر علامہ سید محمد نجفی صاحب نہیں جا سکے تو جب نصاب سامنے آیا تو اس میں کئی پرابلمز تھیں جس پر ہم نے احتجاج کیا جس کے کافی اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بہت ساری چیزیں میں اصلاح کو انہوں نے قبول کیا ہے اور کچھ ایک پر ابھی بحث ہو رہی ہے۔ البتہ ذہن میں رہے کہ یہ نصاب 2023ء تک کا ہے۔ پھر اس نصاب پر نظرِ ثانی ہو سکتی ہے اور ممکنہ تبدیلیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔
حوزہ نیوز:پاکستان میں دینی مدارس کی بہتری کے لئے وفاق المدارس کی فعالیت کو بیان کریں
حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:پاکستان کے شیعہ دینی مدارس کا حکومت سے رابطہ یا کسی بھی قسم کے معاملات کو وفاق المدارس ہی دیکھتا ہے۔ اسی طرح حکومت سے منظور شدہ اسناد کی فراہمی بھی وفاق المدارس کے ہی توسط سے انجام پاتی ہے۔ مدارس کی بہتری کے لئے ہر 5 سال میں ایک دفعہ پورے ملک میں مدارس کا دورہ کیا جاتا ہے
مدارس کی بہتری کو اگر دیکھا جائے تو ہر 5 سال میں ایک دفعہ پورے ملک میں مدارس کا دورہ کیا جاتا ہے، انہیں قریب سے دیکھا جاتا ہے، ان کی مشکلات سنی جاتی ہیں اور حتی الامکان ان کے مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ مثلا کسی مدرسہ کو مدرس کی ضرورت ہے انہیں مدرس فراہم کیا جاتا ہے وغیرہ۔
حوزہ نیوز: حوزہ نیوز مدارس اور علماء کرام کا پلیٹ فارم ہے، اس میں مزید بہتری کے لئے آپ کیا مشورہ دیں گے؟
حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:میرے خیال میں سب سے پہلے حوزہ نیوز کا پاکستانی مدارس میں تعارف کرایا جائے اور اس توسط سے جو آپ خدمات انجام دے رہے ہیں یا جو مدارس خدمت کر رہے ہیں وہ ایک دوسرے تک پہنچائی جائیں۔ آج کی دنیا میں میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں ہے اور حوزہ نیوز جیسے پلیٹ فارمز سے مدارس اور علماء کو اپنی فعالیت اور علمی سرگرمیوں کو دوسروں تک پہنچانے کا موقع مل سکتا ہے۔بہرحال اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی خدمت ہو تو ہم حاضر ہیں[7]۔
حوالہ جات
- ↑ مرکزی دفتر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، پانچ سالہ کارکردگی رپورٹ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان(2015تا2021)، 2021، ص5
- ↑ دفتر وفاق المدارس شیعہ پاکستان، معرفی نامہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، بی تا، ص6
- ↑ دفتر وفاق المدارس شیعہ پاکستان، معرفی نامہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، بی تا، ص7
- ↑ دفتر وفاق المدارس شیعہ پاکستان، معرفی نامہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، بی تا، ص10
- ↑ دفتر وفاق المدارس شیعہ پاکستان، معرفی نامہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، بی تا، ص21
- ↑ آیت اللہ اعرافی کا وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سربراہ کے خط کا جواب؛ علمائے اسلام صہیونی مظالم کے بارے میں عوامی شعور بیدار کریں-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 21 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ تشیعِ پاکستان کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے- شائع شدہ از: 30 جولائی 2022ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 جولائی 2025ء