حزب اللہ لبنان
| حزب اللہ لبنان | |
|---|---|
![]() | |
| پارٹی کا نام | المقاومۂ الاسلامیہ فی لبنان |
| بانی پارٹی | صبحی طفیلی، سید حسن نصر اللہ |
| پارٹی رہنما | سید حسن نصر اللہ، شیخ نعیم قاسم |
| مقاصد و مبانی |
|
حزب اللہ لبنان میں شیعوں کی ایک طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم ہے۔ ایران کی حمایت سے 1980ء میں تشکیل پانے والی اس تنظیم نے لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلاء کے لیے جدوجہد کی۔ اس تنظیم کو مئی 2002ء میں اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس عمل کے پس منظر میں جماعت کی عسکری شاخ اسلامی مزاحمت یا اسلامک ریزسسٹینس کا ہاتھ تھا۔ لبنان پر اسرائیلی قبضے کے بعد علما کے ایک چھوٹے سے گروہ سے ابھرنے والی اس تنظیم کے مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت جنگ، لبنان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء، لبنان کی کثیر المذہبی ریاست کی جگہ ایرانی طرز کی اسلامی ریاست کی تشکیل ہے۔ لبنان میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور یہ تنظیم لبنان کے شیعوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ لبنان سے اسرائیلی فوجوں کے انخلاء سے اس تحریک نے عام لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ اس وقت لبنان کی پارلیمان میں اس تنظیم کے امیدواروں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ حزب اللہ سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ اس تنظیم کا اپنا ٹی وی سٹیشن المنار کے نام سے قائم ہے۔ اس تنظیم کا موجودہ سربراہ سید حسن نصر اللہ ہے۔
حزب اللہ کی تشکیل
طالبان کی طرح حزب اللہ کے جنم کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ ایک مکتبہ فکر کے مطابق 20ویں صدی کے چھٹے عشرے میں ذرائع مواصلات میں بے پناہ ترقی کی وجہ سے لبنان سے مسلمان بھی عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہونے لگے۔ کچھ لبنانی مسلمان فلسطین کی آزادی کی مختلف تحریکوں سے وابستہ ہوگئے جبکہ بعض ممتاز شیعہ عالم امام موسی صدر کی مسلمانوں کی فلاح کے لیے تشکیل دی گئی تنظیم حرکت المحرومین میں شامل ہوگئے۔ امام موسی صدر 15 مئی 1928ء کے ایران کے شہر قم میں پیدا ہوئے۔ 1956ء میں انہوں نے اسلامی فقہ و قانون میں ڈگری حاصل کی اور مختلف مذہبی اداروں میں مذہب کی تعلیم دیتے رہے۔ 1960ء میں وہ لبنان کے شہر طائر میں آباد ہوگئے۔ وہ مذہبی تعلیم دینے کے علاوہ لبنان میں شیعہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ 1974ء میں حرکت المحرمین کے جھنڈے تلے انہوں ںے دیہی علاقوں میں پسماندگی کے خاتمے میں لبنانی حکومت کی عدم دلچسپی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران انہوں نے الامل نامی تحریک کا آغاز کیا جو حرکت المحرومین کی ذیلی تنظیم تھی۔ 1978ء میں دورہ لیبیا کے دوران وہ پر اسرار طور پر لاپتہ ہوگئے جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی علم نہ ہوسکا۔
حرکت الامل، حرکت المحرومین کا فوجی ونگ تھا جو جلد ہی ایک سیاسی پارٹی کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ 1982ء میں اسرائیل نے لبنان میں اپنے حامی تلاش کرنے کے لیے طائر میں ایک سنٹر قائم کیا جس کا سربراہ امریکی نژاد اور اسرائیلی پروفیسر اور علوم شرقیہ کے ماہر 70 سالہ بیلے کو مقرر کیا گیا۔ بیلے نے 1982ء کے آخر میں اپنے منصوبے کا آغاز کیا۔ بیلے لبنان کے مختلف افراد سے ملاقات کرتا اور ان کو اسرائیل کے جنوبی لبنان میں کردار کے حولے سے قائل کرتا۔ شاطر یہودیوں نے جلد ہی حرکت الامل میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔ تحریک کے کچھ لوگ خفیہ طور پر اسرائیل کی مدد کو تیار ہوگئے۔ لیکن الامل جلد ہی انتشار کا شکار ہو کر کئی گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ الامل سے علیحدہ ہونے والے ایک گروپ نے حزب اللہ کے نام سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔
لیطانی آپریشن
1970ء کے عشرے میں اردن کے فلسطینیوں کے خلاف رسوائے زمانہ کریک ڈاؤن کے دوران جان بچا کر فلسطینی جنوبی لبنان میں آباد ہوگئے۔ اسرائیل نے فسلطینیوں کو جنوبی لبنان سے نکالنے لے لیے آپریشن لیطانی شروع کیا۔ اسرائیلی فوجین بغیر کسی بڑی مزاحمت کے 20 میل تک لبنان کے اندر دریاۓ لیطانی کے جنوبی کنارے پر آکر رک گئیں۔ لبنان کی سرحدی پٹی میں آباد فلسطینی مقامی راستوں سے زيادہ آشنائی نہیں رکھتے تھے۔ اسرائیل نے عالمی دباؤ کے زیر اثر جنوبی لبنان خالی کردیا لیکن دریائے لیطانی کے جنوبی کنارے تک علاقے پر اندھا دھند بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسرائیل وزیر دفاع (بعد ازاں صدر) اذرویزلسن نے ہر چلتی ہوئی چیز پر چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہو، بمباری جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ علاقہ انسانی آبادی سے بالکل خالی ہوجائے۔ اسرائیلی طیارے ہر حرکت کرتے انسان کو فلسطینی کوریلا سمجھ کر نشانہ بنارہے تھے۔ مارکیٹ میں فروخت کے لیے تمباکو اور دوسری زرعی اجناس لے کر جانے والے کسان، پہاڑوں سے پکنک مناتے خاندان، گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچے، گھریلو کام میں مصروف عورتیں اور بمباری سے جان بچا کر علاقے سے دور ہونے کی کوشش کرنے والے عام شہری سب اس بمباری کا شکار ہوگئے۔ اسرائیلی بمباری سے بچ کر بیروت پہنچنے والے خوش نصیبوں کی بڑی تعداد ان بد نصیب بچوں پر مشتمل تھی جن کے والدین لقمہ اجل بن چکے تھے۔ ان بے گھر خاندانوں کو مقامی تنظیمون نے بیروت ائیرپورٹ اور دریائے لیطانی کے درمیان بنجر پٹی میں آباد کیا یہاں ایا نیا شہر آباد ہوا جس کا نام ضائیہ رکھا گیا۔ تعاقب کرتے ہوئے اسرائیلی طیاروں کے خوف سے بچ جانے والے یہ بچے جب بڑے ہوئے تو ان کی نظر میں اسرائیل سے انتقام کرنے علاوہ اور کوئی جذبہ نہیں تھا۔
فاذ اللہ اور حزب اللہ
حرکت المحرومین کے زوال کے بعد یہ بے گھر یتیم بچے جو اب جوان ہوچکے تھے ممتاز شاعر اور عالم دین محمد حسین فاذ اللہ کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ 67 سالہ محمد حسین فاذ اللہ بڑی کرشماتی شخصیت کے حامل عالم دین تھے۔ ضائیہ کی مقامی آبادی میں اتنے مقبول ہیں کہ 20 ہزار افراد کی امامت میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ فاذ اللہ حزب اللہ کے ساتھ اپنے کسی بھی تعلق کا انکار کرتے ہیں لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ حزب اللہ کی روح رواں ہیں اور وہ جان بوجھ کر خود کو مخفی رکھتے ہیں۔ کئی عشروں پر محیط جنوبی لبنان کے ان مسلمانوں کو مسلسل دربدری اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائیلی درندگی کا شکار ہونے کے ناقابل فراموش مناظر، بے روزگاری اور غربت نے بہت زیادہ راسخ العقیدہ بنا دیا۔
حزب اللہ اور انقلاب اسلامی ایران
افغانستان میں مجاہدین کی فتح اور آنے والے ایرانی انقلاب نے انہیں اپنے سب بہت زیادہ طاقتور دشمن سے لڑنے کا حوصلہ بخشا۔ یہ تمام عوامل حزب اللہ کے قیام کی وجہ بنے۔ حزب اللہ کی پارٹی کی عمارت چار ستونوں پر کھڑی ہے۔ ان میں سیاسی جد و جہد، سماجی و فلاحی خدمات، جہاد اور گوریلا جنگ ہے۔ حزب اللہ نے کبھی اپنے مقاصد خفیہ نہیں رکھے۔ حزب اللہ کی منزل مقصود یروشلم کی آزادی اور لبنان میں اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ حزب اللہ کے ترجمان نے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک فلسطین کو آزاد نہیں کروا لیتے اور فلسطین میں آباد کار یہودیوں کو ان ممالک کو واپس جانے پر مجبور نہیں کرلیتے جہاں سے وہ آئے تھے۔ حزب اللہ کے مجاہدین کی تعداد 3 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ 20 ہزار کے قریب مسلح رضا کار ہیں۔ حزب اللہ جدیدیت کی قائل ہے اور وہ پراپیگنڈہ جنگ کے رموز سے آشنا ہے۔
قائدین
اسرائیل امریکہ مشرکہ آپریشن کا مقصد لبنان کی اسرائیل کے مخالف مزاحمت کو کچل کر فلسطینیوں کے آزادی کے عزائمم کو کچلنا ہے۔ لیکن میں عالم اسلام کے شہریوں پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ 1991ء میں عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ 1992ء میں حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری موسوی اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہو گئے اور ان کی جگہ حسن نصر اللہ کو حزب کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ نصر اللہ اپنے پیش روؤں کے برعکس لیڈر ثابت ہوئے جو عملی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے سماجی میدان میں بے پناہ خدمات انجام دے کر عام لبنانی شہری کا دل جیت لیا۔ انہوں نے سکول، ہسپتال اور شیعہ آبادی کے علاقوں میں مکانات تعمیر کروائے۔
ذرائع ابلاغ
حزب اللہ کا سب سے خطرناک ہتھیار اس کے زیر اہتمام چلنے والا المنار ٹیلی ويژن اور النور ریڈیو سٹیشن ہے۔ المنار ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر نے سی- این- این اور الجزیرہ ٹیلی ويژن کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سی این این صہیونی نیٹ ورک، الجزیرہ غیر جانبدار جبکہ المنار فلسطینیوں کا حامی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہے [1]۔ حزب اللہ نے ایک ریڈیو سٹیشن بھی قائم کر رکھا ہے جو لبنانی شہریوں کو معلومات فراہم کرتا رہتا ہے۔ المنار ٹیلی ویژن کے ناظرین کی تعدار ایک کروڑ سے زائد ہے۔
اسلحے
مغربی ذرائع کے مطابق حڑب اللہ کے پاس روسی ساختہ ایرانی ماڈل کیتوشا راکٹ ہیں جن کی رینج چند کلو میٹر سے لے کر 70 کلو میٹر تک ہے۔ یہ راکٹ دنیا کے 50 سے زائد ملکوں کے زیر استعمال ہیں۔ حزب اللہ کے پاس ایرانی ماڈل فجر 3 کے 12 ہزار کے قریب راکٹ موجود ہیں۔ 5 ہفتوں سے جاری حزب اللہ اسرائیل جنگ میں حزب اللہ 100 راکٹ فی یوم کے حساب سے فائر کرتی رہی جس کی وجہ سے اسرائیلی صنعتی شہر حیفہ ویران ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے پاس زلزلہ نامی ایرانی ہیں۔ جن کی رینج 2 سو کلو میٹر سے زائد ہے اور وہ 400 کلو گرام گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ
2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جنگ رہی اور اسرائیل‘ جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے‘ نے جو کچھ اُس کے پاس تھا اس جنگ میں جھونک دیا۔ بیروت اور دیگر شہروں پہ بے پناہ ہوائی بمباری ہوئی۔ 1200 کے لگ بھگ لبنانی سویلین اُس بمباری میں ہلاک ہوئے۔ لیکن میدان میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو مزہ چکھا دیا۔ جنگ میں تقریباً ڈیڑھ سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جو کہ اسرائیل کے لئے بہت بھاری نقصان تھا۔ جیسا ہمارا ٹینک الخالد ہے‘ ویسا اسرائیل کا بھاری ٹینک 'مرکاوا‘ ہے۔ ایسے کئی معرکے ہوئے جس میں 'مرکاوا‘ آتے تھے اور حزب اللہ کے مجاہدین نزدیک جا کر ٹینک شکن میزائلوں سے انہیں نشانہ بناتے تھے۔ ایک قصہ اسرائیلی اخبار Haaretz میں جنگ کے کچھ دن بعد رپورٹ ہوا۔ ایک اسرائیلی جرنیل نوجوان فوجی افسروں سے مخاطب تھا۔ اُس نے حزب اللہ کو برا بھلا کہا۔ نوجوان فوجی افسروں نے کہا: ہم حزب اللہ سے لڑے ہیں اور وہ بہادر سپاہی ہیں۔ یہ تب کی بات تھی۔ اب سرزمینِ شام میں کامیاب فوجی حکمتِ عملی کے بعد حزب اللہ کی حیثیت کو مزید تقویت ملی ہے [2]۔
حزب اللہ کے حملے، اسرائیلی فوج کو جانی نقصانات
سرحدی علاقوں پر حزب اللہ کے حملوں میں اسرائیلی فوج کی تنصیبات تباہ ہونے کے علاوہ جانی نقصان ہوا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، المیادین نے کہا ہے کہ لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ نے لبنانی سرحد پر صہیونی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق زرعیت قصبے میں حزب اللہ میزائل گرنے سے صہیونی فوجی تنصیبات کو نقصان ہوا ہے۔ حزب اللہ نے حملوں کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ صہیونی فوج لبنان پر حملے کی تیاری کررہی تھی تاہم حزب اللہ کے جوانوں نے بروقت کاروائی کرکے دشمن کے منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے شدید نقصان سے دوچار کیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے حملوں میں کم از کم ایک صہیونی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ کے میزائل حملوں کے بعد صہیونی بستی شومیرا اور جلیل علیا میں بھی خطرے کے سائرن بجائے گئے ہیں۔ دوسری طرف لبنانی سرحد اور غزہ کے اندر صہیونی فوج کو مسلسل شکست کے بعد تل ابیب کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ نتن یاہو کابینہ کے اجلاس میں اراکین کے درمیان تلخ کلامی اور الزامات کے ردوبدل کے بعد اجلاس ہنگامی کا شکار ہوگیا ہے۔ صہیونی میڈیا کے مطابق کابینہ کے اراکین ایک دوسرے پر چیخ رہے تھے۔ تلخی بڑھنے کے بعد وزیرجنگ یواو گیلانت نے اجلاس کو ترک کیا [3]۔
حزب اللہ نے صیہونی فوج کا مرکاوا ٹینک تباہ کر دیا
لبنان کی حزب اللہ نے شمالی مقبوضہ فلسطین میں البغدادی بیس میں صیہونی فوج کے مرکاوا ٹینک کو میزائل مار کر تباہ کرنے کی اطلاع دی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المنار ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ لبنان کی حزب اللہ نے شمالی مقبوضہ فلسطین کے البغدادی اڈے پر صیہونی فوج کے مرکاوا ٹینک کو نشانہ بنایا ہے۔
حزب اللہ کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے مظلوم اور ثابت قدم عوام اور مزاحمتی فورسز کی حمایت میں حزب اللہ کے مجاہدین نے آج دوپہر کو صیہونی فوج کے اڈے البغدادی کو نشانہ بناتے ہوئے ایک مرکاوا ٹینک کو تباہ کر دیا۔ واضح رہے کہ حزب اللہ آج کے دن مقبوضہ شمالی فلسطین کے اسرائیلی جاسوسی اڈے "دوویو" کو بھی تباہ کر چکی یے [4]۔
لبنان اور مزاحمت کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے، ایرانی وزیر خارجہ
ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے لبنان پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی قیادت نے فلسطین اور لبنان میں سیاسی اور عملی میدان میں تدبر اور حکمت سے کام لیا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان جمعہ کی شام بیروت پہنچ گئے۔ امیر عبداللہیان نے لبنان پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی قیادت نے فلسطین اور لبنان میں سیاسی اور عملی میدان میں تدبر اور حکمت سے کام لیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ فاتح فلسطینی مزاحمت نے حماس کے نام سے ایک سیاسی آپشن میز پر رکھ دیا ہے۔ ہم نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے کی نسل کشی میں صیہونیوں کی حمایت نہ کرے۔ ہم نے غزہ بحران کے آغاز پر ہی واضح اعلان کیا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی جانب سے صیہونی رجیم اور نیتن یاہو کی حمایت جاری رکھنے کا نتیجہ قطعی ناکامی اور شکست کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ صیہونی رجیم مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو جنگ کی دلدل میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ ہم لبنان اور مزاحمت کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے کیونکہ لبنان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں [5]۔
حزب اللہ کے صہیونی فوج کے ٹھکانوں پر حملے
لبنانی تنظیم نے صہیونی قصبوں یارون اور بنت جبیل پر میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی نے لبنانی مقاومتی تنظیم کے حوالے سے خبر دی ہے کہ غزہ میں فلسطینی شہریوں پر حملوں کے جواب میں حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے ٹھکانوں پر حملے کئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق حزب اللہ نے شبعا فارم کے اطراف میں صہیونی فوج کے ٹھکانوں پر میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔
تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ السماقہ قصبے میں صہیونی فوج کے اجتماع پر حملے میں دشمن کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ علاوہ ازین تنظیم نے الظہرہ میں واقع اسرائیلی فوجی مرکز کو بھی نشانہ بنانے کا دعوی کیا ہے۔ دوسری طرف صہیونی فوج نے حزب اللہ کے حملوں کے جواب میں لبنانی قصبے یارون اور بنت جبیل پر حملہ کیا ہے [6]۔
صیہونی رجیم کی حزب اللہ کے خلاف گیدڑ بھبکیاں!
صہیونی حلقوں نے خبروں میں اعتراف کیا ہے کہ لبنان کی سرحد سے متصل شمالی محاذ پر لڑائی کے بارے میں صہیونی حکام کے میڈیا کے دعووں کے برعکس پردے کے پیچھے ایک اور صورت حال چل رہی ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی نے العہد ویب سائٹ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حالیہ دنوں میں صہیونی حکام نے مقبوضہ علاقوں کی شمالی سرحدوں میں لبنان کی حزب اللہ کے خلاف ہمہ گیر جنگ کے تناظر میں متعدد دعوے کیے ہیں۔
اس دوران صیہونی حکومت کے وزیر جنگ نے اس حقیقت کے باوجود کہ اسرائیلی فوج غزہ جنگ میں طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود ابھی تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے، شمالی محاذ میں ایک مکمل جنگ کی تیاری کی دھمکی دی ہے۔ جس پر صہیونی حلقوں نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے تل ابیب حکام کے پر فریب اور بزدلانہ موقف کو برملا کیا۔
لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کا سرحدی قصبہ کریات شیمونا عبرانی میڈیا نے خبر دی ہے کہ ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے امریکی حکومت کو بتایا کہ حزب اللہ کے خلاف تل ابیب کی دھمکیاں صرف نفسیاتی جنگ تک محدود ہیں اور اسرائیل کے پاس عملی طور پر حزب اللہ کو شمالی محاذ کی سرحدوں سے ہٹانے کی طاقت نہیں ہے۔
دوسری جانب مقبوضہ علاقوں کے سرحدی قصبے کریات شمونہ کے میئر نے آج ایک بیان میں لبنان کی حزب اللہ کے خلاف صیہونی لیڈروں کی گیدڑ بھبکیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: کیا حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اسرائیل لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنے کے لئے التماس کرنے لگا ہے؟![7]۔
حزبُ الله کے جنرل سیکریٹری سید مقاومت حسن نصرُالله کے پوتے شہید
حزبُ اللہ نے اعلان کیا ہے کہ عباس خلیل جو سید مقاومت کے پوتے ہیں وہ بھی اُن جنگجووں میں سے ایک ہیں جو یروشلم کے راستے پر شہید ہوگۓ ہیں۔ سید مقاومت کے بیٹا بھی 1997 میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شہید ہو گۓ تھے، جس پر حسن نصراللہ نے کہا تھا ” مجھے اپنے بیٹےکی شہادت پر فخر ہے۔
حزب اللہ کے شبعا کے صیہونی ٹھکانوں پر نئے حملے
میڈیا ذرائع نے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صیہونی فوجی ٹھکانوں پر حزب اللہ کے نئے میزائل حملے کی اطلاع دی ہے۔
لبنانی مزاحمت کی جانب سے میزائل حملے کے بعد بالائی الجلیل میں کریات شمونا اور دیگر علاقوں میں خطرے کا سائرن بج گیا۔
در این اثناء لبنان کی حزب اللہ نے اعلان کیا: غزہ میں ثابت قدم فلسطینی قوم اور دلاوران مزاحمت کی حمایت میں مجاہدین نے شبعا کے میدانوں میں صیہونی ٹھکانے زبدین کو میزائل سے نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ حزب اللہ کی کارروائیاں طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز اور غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے تجاوزات کے بعد شروع ہوئیں۔ صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے بھی کئی بار اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے شمال میں اب بھی حزب اللہ کا قبضہ ہے اور صیہونی فوج اس علاقے میں پھنسی ہوئی ہے [8]۔
صہیونی ڈرون طیارہ "ہرمس450" کو مارگرانے کا دعوی
لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ نے صہیونی فوج کا معروف ڈرون طیارہ "ہرمس 450" کو لبنانی فضائی حدود کے اندر مارگرانے کا دعوی کیا ہے۔
حزب اللہ نے ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ صہیونی ڈرون لبنان کی فضائی حدود کو پامال کرتے ہوئے اندر گھس آیا جس کے بعد مخصوص ہتھیاروں سے حملہ کرکے ڈرون کو مارگرایا گیا۔
"ہرمس450" طیارہ کثیرالمقاصد ڈرون طیارہ ہے جو جاسوسی اور نگرانی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے [9]۔
مقبوضہ فلسطین کے شمال میں غاصب صیہونی فوج کے متعدد ٹھکانوں پر نئے میزائل حملہ
صیہونی ذرائع نے اس رجیم کے فوجی ٹھکانوں پر حزب اللہ کی جانب سے نئے میزائل حملوں کی تصدیق کی ہے۔
مذکورہ ذرائع کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع صیہونی قصبے تنوعا کو اینٹی آرمر میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے [10]۔
ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم
ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کا اہم بیان جو مندرجہ ذیل ہیں:
- اگر اسرائیل ہمہ گیر جنگ لڑنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔
- لبنان پر جنگ کی کسی بھی اسرائیلی توسیع میں اسرائیل کو تباہی و بربادی اور قابض علاقوں سے نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
- مزاحمت جنگ کے لیے تیار ہے اور اسرائیل کو کبھی فاتح نہیں ہونے دے گی۔
- ہمارا فیصلہ ہے کہ جنگ کو نہ بڑھایا جائے، لیکن اگر جنگ ہم پر مسلط کی گئی تو ہم لڑیں گے۔
- ہمیں پچھلے دو مہینوں میں دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور ہمارا جواب تھا کہ لبنانی محاذ غزہ سے منسلک ہے۔
- فلسطین کے ساتھ لبنان کی سرحد سے حزب اللہ کے Special Rodwan forces کو واپس بلانے کی کوئی بھی بات درست نہیں ہے۔
- ہم نے اب تک اپنی صلاحیتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ جنگ کی نوعیت کے مطابق استعمال کیا ہے۔
- بائیڈن کی خوشامدی پیشکشوں میں واقعیت کا فقدان ہے اور اس کی تجویز آئندہ امریکی انتخابات میں ووٹرز کو متاثر کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
- غزہ پر اسرائیل کی جنگ روکنے کے لیے امریکہ کا کوئی سنجیدہ اقدام نہیں ہے۔
حزب اللہ کے درست حملوں سے اسرائیلی دفاعی سسٹم کی کمزوری ظاہر ہوئی
اسرائیلی حکومت سے وابستہ ذرائع نے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں حزب اللہ کے میزائل حملوں کی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اسرائیلی دفاعی نظام کی کمزوری کی دلیل قرار دیا۔ مہر خبررساں ایجنسی نے النشرہ ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ لبنان کی حزب اللہ نے صیہونی فوجی ٹھکانے زرعیت کو توپ خانے سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں صیہونیوں کو بھاری جانی نقصان پہنچا۔ اسی دوران صہیونی میڈیا چینل ماکور ریشون نے اعتراف کیا: حزب اللہ نے اسرائیل کے دفاعی نظام میں موجود کمزور پکڑ لی ہے اور اسی لئے اس کے میزائل صیہونی دفاعی سسٹم کو چکمہ دیتے ہوئے ٹھیک نشانے پر جا لگتے ہیں۔
اس چینل کی رپورٹ کے مطابق: حالیہ مہینوں میں، حزب اللہ کی طرف سے کئے گئے ٹھیک نشانے پر لگنے والے فضائی حملوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ادھر صیہونی فوج نے حسب سابق ہلاکتوں کی تعداد کو ظاہر کئے بغیر تصدیق کی ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں میں فائر فائٹنگ آپریشن کے دوران چھے فوجی زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع علاقوں میں بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی ہے جس پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا [11]۔
حزب اللہ لبنان کے اہم کمانڈر شہید؛ حماس کا اظہارِ تعزیت
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے غاصب صہیونیوں کے حملے میں حزب اللہ لبنان کے کمانڈر کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت پیش کی ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی نے عرب ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا ہے کہ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک بیان میں جنوبی لبنان کے شہر جویا پر غاصب صہیونی فوج کے حملے میں حزب اللہ کے سینئر فیلڈ کمانڈر "طالب سامی عبداللہ" کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک بیان میں طوفان الاقصیٰ میں فلسطینی قوم کے لیے حزب اللہ کی حمایت کو سراہتے ہوئے غاصب صہیونی فوج کے حملوں میں لبنان کے درجنوں مجاہدین کی شہادت پر تسلیت اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ یہ پاکیزہ خون غاصب صہیونی دشمن اور اس کی جارح فوج کو شکست دے گا اور فلسطینی قوم اور ملت اسلامیہ کو مزید مزاحمت اور قربانیوں پر ابھارے گا جس سے فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار ہو جائے گی [12]۔
حزب اللہ کا اسرائیل کے خلاف وسیع آپریشن/ بیک وقت100 راکٹ اور 30 ڈرون لانچ کئے
عبرانی ذرائع نے مقبوضہ علاقوں کے شمال میں الجلیل اور گولان کی بلندیوں پر لبنان سے ڈرونز اور میزائلوں کے بڑے پیمانے پر حملے کی اطلاع دی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المنار ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ عبرانی ذرائع نے حزب اللہ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں پر بڑے پیمانے پر ڈرون اور میزائل حملے کی خبر دی ہے۔
عبرانی میڈیا کے مطابق مقبوضہ گولان کے علاقوں پر کم از کم 50 راکٹ داغے گئے۔ دوسری طرف المنار ٹی وی چینل نے اطلاع دی ہے کہ مقبوضہ شمالی علاقے الجلیل اور گولان پر صرف آخری گھنٹے میں کم از کم 100 راکٹ داغے گئے۔ صہیونی میڈیا نے اس کارروائی کو بڑے پیمانے کا حملہ قرار دیتے ہوئے الجلیل اور گولان کے بڑے علاقوں میں انتباہی سائرن بجنے کی اطلاع دی۔
مذکورہ ذرائع ابلاغ نے کم از کم 30 ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ سرزمین پر بڑے پیمانے پر ڈرون حملے کی بھی خبر دی ہے۔ ان حملوں میں ابتدائی طور پر گولان میں صیہونی رجیم کی حساس فوجی تنصیبات کو وسیع نقصان پہنچا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز لبنان کی حزب اللہ نے اپنے ایک سینئر فیلڈ کمانڈر کی شہادت کے بدلے میں مقبوضہ علاقوں پر بڑے پیمانے پر حملے کیے اور بعض ذرائع نے بتایا کہ اس آپریشن کے دوران 200 راکٹ داغے گئے[13]۔
اسرائیل کے حملے کی صورت میں حزب اللہ کے شانہ بشانہ کھڑیں ہوں گے
عراقی مزاحمتی گروہوں نے لبنانی حزب اللہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر تل ابیب رجیم نے نئی جنگ چھیڑنے کا فیصلہ کیا تو وہ حزب اللہ کا ساتھ دیتے ہوئے غاصب رجیم کے خلاف لڑیں گے۔ مہر نیوز کے مطابق لبنان کے روزنامہ الاخبار نے عراق کی اسلامی مزاحمت کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سرگرم مزاحمتی گروہ کتائب حزب اللہ، کتائب سید الشہداء اور حرکت حزب اللہ النجباء نے لبنان کے خلاف کسی بھی ممکنہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے حزب اللہ کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے اپنی بھرپور تیاری کا اعلان کیا ہے۔
تاہم ذرائع نے واضح کیا کہ عراقی مزاحمتی گروہ حزب اللہ کی منظوری کے منتظر ہیں۔ اس سلسلے میں کتائب سید الشہداء کے ترجمان کاظم الفردوسی نے کہا کہ حزب اللہ کے پاس زبردست جنگی صلاحیت، طاقتور اور موثر ہتھیار اور بڑی تعداد میں مجاہدین موجود ہیں جو کہ اسرائیل کی جارحیت کو پسپا کرنے کے لئے کافی ہیں۔
انہوں نے واضح کیا: اگر جنوبی لبنان میں عراقی مجاہدین کی ضرورت پیش آئی تو ہم حزب اللہ کی حمایت میں سب سے پہلے صہیونی دشمن کی جارحیت کا سامنا کریں گے، کیونکہ یہ ایک مسلم اور عرب مسئلہ ہے،"۔ یاد رہے کہ بدھ کے روز، حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے خبردار کیا کہ مکمل جنگ کی صورت میں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں "کوئی جگہ" حزب اللہ کے ہتھیاروں سے محفوظ نہیں ہوگی۔
انہوں نے واضح کیا نے کہ اگر اسرائیل جنوبی لبنان پر حملہ کرتا ہے تو الجلیل کے علاقے پر چڑھائی کا آپشن موجود ہے۔ حسن نصر اللہ نے قبرص کا حوالہ دیتے ہوئے کہ جس نے تربیتی مشقوں کے لئے اسرائیلی افواج کی میزبانی کی ہے، واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کی جنگی جارحیت میں مدد کرنے والے خطے کے کسی بھی دوسرے ملک کو غاصب رجیم کا حلیف سمجھتے ہوئے ضرور حملہ کریں گے۔
حزب اللہ، لبنان کے خلاف صیہونی رجیم کی جارحیت کے جواب میں اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیلی ٹھکانوں پچھلے نو مہینوں سے مسلسل حملے کرتی آرہی ہے۔
غزہ میں امریکہ اور یورپ کی حمایت سے غاصب رجیم کی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 37,551 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق، لبنان کی سرحد پر کم از کم 455 شہید ہو گئے ہیں، جن میں 80 سے زیادہ عام شہری ہیں۔ یاد رہے کہ لبنان کے خلاف دو اسرائیلی جنگوں 2000ء اور 2006ء میں، حزب اللہ کی طرف سے غاصب رجیم کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو شکست فاش ہوئی اور وہ بے آبرو ہو کر پسپائی اختیار کرنے پر مجبورا ہوا [14]۔
عرب لیگ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کردیا
عرب لیگ نے لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ نے لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تنظیم کے سیکریٹری جنرل حسین زکی نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عرب لیگ اب حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتی ہے۔
لبنان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد حسین زکی نے کہا کہ عرب لیگ کے سابقہ فیصلوں میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں لبنانی تنظیم اور عرب لیگ کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا تھا تاہم اب عرب لیگ کے اراکین نے فیصلہ کیا ہے کہ حزب اللہ دہشت گرد تنظیم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرب لیگ اور لبنانی مقاومتی تنظیم کے درمیان تعلقات کی شرائط موجود ہیں۔ یاد رہے کہ عرب لیگ نے 11 مارچ 2016 کو اسرائیل کے حامی مغربی ممالک کے دباو پر حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا [15]۔
حزب اللہ کے ساتھ سرحدی جھڑپ میں ایک صیہونی فوجی ہلاک، متعدد زخمی
اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ محاذ جنگ پر اپنے ایک فوجی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے ہاریٹز کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اس کا ایک فوجی لبنانی سرحد کے ساتھ ایک کارروائی کے دوران مارا گیا ہے۔
صہیونی فوج نے اس جھڑپ میں دو فوجیوں کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی ہے۔ پچھلے ہفتے کے اندر حزب اللہ کے مجاہدین کے ہاتھوں 9 صہیونی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ مزاحمتی فورسز غاصب صیہونی فوجیوں کو ناکوں چنے چبوا رہی ہیں [16]۔
ہمارا کمانڈ اور کنٹرول ڈھانچہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر دوبارہ کام کر رہا ہے
جیسا کہ ہمارے نائب سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے فرمایا، ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری میزائل قوت مکمل طور پر فعال ہے اور مقبوضہ ف لسطین کے اندر ہر جگہ کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہے۔
ہمارا کمانڈ اور کنٹرول ڈھانچہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر دوبارہ کام کر رہا ہے۔ حیفہ اور حیفہ کے بعد کے علاقے کرایت شمونا، میتولا اور دیگر سرحدی بستیوں کو ہم نشانہ بناتے رہیں گے۔
حزب اللہ دشمن کو وہاں سے دیکھتی اور سنتی ہے جہاں سے وہ توقع بھی نہیں کرتا۔ ہمارا ہاتھ مقبوضہ ف لسطین میں جہاں چاہے پہنچ سکتا ہے، اور ہماری آگ صرف میزائلوں یا حملہ آور ڈرونز تک محدود نہیں رہے گی۔
ہمارے بہادر مجاہدین دشمن کا مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جو کہ شرمناک شکستوں کا سامنا کر رہا ہے، یہاں تک کہ وہ یونائیٹڈ نیشنز انٹرمیڈیٹ فورس ان لبنان (UNIFIL) کی پوزیشنوں کے پیچھے اور لبنانی سرحد کی غیر مرئی راہوں میں چھپنے پر مجبور ہے۔ اب تک دشمن ہمارے دیہات میں داخل ہونے میں ناکام رہا ہے اور اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے، جس میں اس کے 35 سے زیادہ ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جن میں اس کے ایلیٹ افسران اور فوجی شامل ہیں۔
دشمن جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ صرف شروعات ہے۔ ہم اپنے معزز عوام سے کہتے ہیں کہ آپ ہمارے تمام مجاہدین کے دلوں میں بستے ہیں، آپ وہ ہیروز ہیں جو اس دشمن کو ذلیل کرتے ہیں، آپ میدان میں اللہ اکبر کی صدائیں ہیں، اور آپ وہ فتح کی دعائیں ہیں جن سے ہم خدا کی رضا کے قریب ہوتے ہیں۔
جہاں تک ہمارے محبوب غزہ کا تعلق ہے، ہم اپنے عہد اور وعدے پر قائم ہیں اور کبھی بھی غزہ کو اور غزہ کی عوام اور ان کی بہادر اور عزت دار مزاحمت کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
حزب اللہ کا اسرائیل پر شدید حملہ، بیک وقت 100 میزائل داغے
لبنان کی ح ز ب اللہ نے مقبوضہ علاقوں میں حیفہ اور کیریوت پر میزائلوں کی شدید بارش کر دی۔ حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کے خطاب کے ساتھ ہی اسلامی مزاحمتی تنظیم نے مقبوضہ حیفہ پر ایک سو 100 میزائل داغے ہیں جس پر علاقے میں خطرے کا سائرن بج گیا ہے جب کہ اس دوران کیریوٹ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں بھی میزائل گرنے کی آواز سنائی دی۔
دوسری طرف صہیونی میڈیا نےتصدیق کی ہے کہ کریات یم میں ایک عمارت کو براہ راست نشانہ بنایا گیا جب کہ حیفا شہر سے دھواں اٹھنے کی اطلاع دی ہے۔ در این اثناء اسرائیلی ہسپتال ذرائع نے حیفا پر حزب اللہ کے بھاری میزائل حملے کے بعد زخمیوں کی بڑی تعداد کو منتقل کرنے کی اطلاع دی ہے۔ صہیونی آرمی ریڈیو نے بھی تصدیق کی ہے کہ حیفہ پر آج کا حملہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اس شہر پر سب سے شدید اور وسیع حملہ تھا۔ صیہونی چینل 12 نے بھی خلیج حیفہ کے علاقوں میں 5 میزائل گرنے کی تصدیق کی ہے۔
آسٹریلیا کے شہریوں کا حزب اللہ کے جھنڈوں کے ساتھ ملک کی حکومت کے خلاف احتجاج
ہزاروں آسٹریلوی شہریوں نے ملبورن میں لبنان اور حزب اللہ کے جھنڈے اٹھا کر حکومتی اقدام کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ مہر خبررساں ایجنسی نے رشیا ٹو ڈے کے حوالے سے بتایا ہے کہ میلبورن میں لبنان کی حزب اللہ کے جھنڈے پر پابندی کے حکومتی اقدام کے خلاف ہزاروں آسٹریلوی باشندوں نے لبنان اور حزب اللہ کے جھنڈے اٹھا کر احتجاج کیا۔
مظاہرین نے غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت کے جرائم کی بھی مذمت کی۔ واضح رہے آسٹریلوی حکومت نے ملک میں حزب اللہ کے جھنڈوں پر پابندی لگائی تھی جس پر ملک بھر کے عوام نے مشتعل ہو کر حزب اللہ کی حمایت میں جھنڈے اٹھا کر احتجاج کیا اور یورپ کے انسانی حقوق کے دوغلے پن کو برملا کرنے کے ساتھ ان کی اسرائیل نوزی پر بھی بھرپور تنقید کی[17]۔
حزب اللہ کے ڈرون حملے نے صیہونی حکومت کی گولانی بریگیڈ کو تباہ کر دیا
حزب اللہ کے ڈرون حملے نے صیہونی حکومت کی گولانی بریگیڈ کو تباہ کر دیا، 72 ہلاک اور زخمی۔ غاصب صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اعتراف کیا ہے کہ بنیامینہ میں حکومت کی گولانی بریگیڈ بیرکوں میں حزب اللہ کے خودکش ڈرون کے دھماکے کے نتیجے میں 72 صیہونی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، الجزیرہ کے حوالے سے صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں لبنانی حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے خودکش ڈرون کے دھماکے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں صیہونی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ حیفہ کے جنوب میں صیہونی حکومت کے فوجی اڈے پر لبنانی حزب اللہ کے ڈرون حملے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 69 ہوگئی ہے۔
دوسری جانب صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ حیفہ کے شمال میں حیفہ بے اور کریوت میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ ان ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ صیہونی حکومت کی فوج کے فوجی مقبوضہ حیفہ میں حکومت کے بحری اڈے کی پناہ گاہوں میں فرار ہوگئے ہیں۔
صہیونی حکومت کے آرمی ریڈیو نے جنوبی حیفہ میں بنیامینہ پر ڈرون حملے کے بارے میں اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ لبنانی اسلامی مزاحمت کے آپریشن کے نتیجے میں تین صیہونی ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے چار کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ بعض ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ زخمی صیہونیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لئے آپریشن کے مقام پر متعدد ہیلی کاپٹر اور 50 ایمبولینسیں روانہ کی گئی ہیں [18]۔
حزب اللہ کا "لبیک یا نصراللہ" کے ساتھ حیفا بندرگاہ پر میزائل حملہ
حزب اللہ نے خیبر آپریشن میں "لبیک یا نصراللہ" کے نعرے کے ساتھ حیفا بندرگاہ پر میزائل حملے کئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المنار کے حوالے سے کہا ہے کہ حزب اللہ نے صہیونی ساحلی شہر حیفا کی بندرگاہ پر میزائل حملہ کیا ہے۔
لنبانی مقاومتی تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور لبنان پر جارحیت کے خلاف حزب اللہ خیبر آپریشن کے تحت صہیونی ساحلی شہر حیفا کی بندرگاہ کو نشانہ بنایا ہے۔
بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ مقاومت اسلامی لبنانی عوام اور اپنی سرزمین کی حفاظت میں کامیاب ہوگی۔ مقاومت غاصب صہیونی حکومت کے خلاف کاروائی کو اپنا وظیفہ سمجھتی ہے اور اس حوالے سے اللہ بہترین سرپرست اور مددگار ہے۔ علاوہ ازین تنظیم نے حیفا کے شمال میں واقع الکریوت پر بھی میزائل حملوں کا دعوی کیا ہے [19]۔
پاکستان کی جانب سے لبنانی عوام کے لئے امداد کھیپ روانہ کر دی گئی
وزیر اعظم کے حکم پر لبنان کے عوام کے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد سامان بھیجا گیا۔
مہر خبررساں ایجنسی نے ایکسپریس ٹریبیون کے حوالے سے بتایا ہے کہ ابتدائی طبی امداد کی کھیپ آج بدھ کو پاکستان سے لبنان روانہ کردی گئی۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لبنان میں جنگ کے متاثرین کو امداد فراہم کرنے کا حکم دیا۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ آرگنائزیشن کے ترجمان کے مطابق ایک کارگو طیارے پر 3 ٹن ادویات اور دیگر ضروری اشیاء لبنان پہنچا دی ہیں۔ یہ امدادی پیکج NDMA، پاک فوج اور الخدمت فاؤنڈیشن کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے
حزب اللہ کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی رہائشگاہ پر ڈرون حملہ
لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ذاتی رہائشگاہ پر ڈرون حملے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ سعودی میڈیا رپورٹس کے مطابق غیر مصدقہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے شہر قیصریہ میں فائر کیے گئے راکٹ میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ذاتی رہائشگاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹ پر بھی بتایا گیا ہے کہ حزب اللہ کے راکٹ حملے میں جس عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتین یاہو کی ذاتی رہائشگاہ ہے [20]۔
حزب اللہ کا "لبیک یا نصر اللہ" کے کوڈ نام کے ساتھ تل ابیب کی ملٹری انڈسٹری پر میزائل حملہ
حزب اللہ کا "لبیک یا نصر اللہ" کے کوڈ نام کے ساتھ تل ابیب کی ملٹری انڈسٹری پر میزائل حملہ لبنان کی حزب اللہ نے خیبر آپریشن کے ایک حصے کے طور پر تل ابیب کے مضافات میں ایک فوجی انڈسڑی کو "لبیک یا نصر اللہ" کے کوڈ نام کے ساتھ گائیڈڈ میزائلوں سے نشانہ بنایا۔
مہر خبررساں ایجنسی نے النشرہ ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ صیہونی رجیم کی فوجی تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے حزب اللہ کے محکمہ اطلاعات کے بیان میں کہا گیا کہ غزہ اور لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کے جواب میں، خیبر آپریشن سیریز کے کوڈ نام "لبیک یا نصراللہ" کے ساتھ تل ابیب کے قریب ملٹری انڈسٹریز کو گائیڈڈ میزائلوں سے نشانہ بنایا جب کہ ایک اور حملے میں ایک مرکاوا ٹینک کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں دشمن کا ٹینک تباہ جب کہ عملہ ہلاک ہوگیا۔
حزب اللہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کے قصبوں زرعیت، عیتا الشعب، خلہ وردہ میں بھی صہیونی فوج کے مراکز کو نشانہ بنایا ہے، اس کے علاوہ حزب اللہ نے آج دوپہر کو صہیونی فوج کے پیادہ دستوں کو "العدیسہ" اور "الطیبہ" میں گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنایا ہے [21]۔
حزب اللہ نے انٹیلی جنس شعبے کے سربراہ کی شہادت کی تصدیق کردی
حزب اللہ نے کہا ہے کہ تنظیم کے شعبہ اطلاعات کے سربراہ حسین علی ہزیمہ صہیونی حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے کہا ہے کہ لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ نے ایک بیان میں اپنے شعبہ اطلاعات کے سربراہ حسین علی ہزیمہ کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ الحاج حسین علی ہزیمہ المعروف ابو مرتضی کئی سالوں سے حزب اللہ کے شعبہ اطلاعات کے سربراہ تھے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران صہیونی حکومت کی جانب سے شہید ہاشم صفی الدین پر حملے میں الحاج حسین علی ھزیمہ بھی شہید ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ صہیونی حکومت نے تین ہفتے پہلے بیروت کے علاقے ضاحیہ میں رہائشی مکانات پر شدید بمباری کی تھی جس میں حزب اللہ کے اعلی رہنما سید ہاشم صفی الدین اور دیگر اراکین شہید ہوگئے تھے [22]۔
حزب اللہ کا اسرائیلی فوجیوں کے اہم مرکز پر میزائل حملہ
حزب اللہ صیہونی قابض فوج کے مرکز ایویم پر نئے حملے سے آگ بھڑک اٹھی۔ مہر خبررساں ایجنسی نے النشرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ حزب اللہ کے مرکز برائے جنگی اطلاعات کے ایک بیان میں کہا گیا ہے: غزہ میں ثابت قدم فلسطینی قوم اور مزاحمت کی حمایت اور لبنانی قوم کے دفاع میں مجاہدین نے مقبوضہ گولان کی یواف بیس پر گولہ باری کی۔
صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے بالائی الجلیل کے علاقے ایوییم میں صیہونی فوج کے اہم ٹھکانے پر درجنوں میزائلوں سے کئے گئے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اس مقام کی تصاویر شائع کیں۔ عبرانی ذرائع نے بتایا ہے کہ اس حملے میں چار صیہونی فوجی زخمی ہوئے ہیں جن میں سے تین کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے بھی مغربی الجلیل کے شہر جورین پر میزائل حملے کی خبر دی ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں مانوت، آیلون، غورین، نوی زیو اور کچھ دوسری بستیوں میں خطرے کے سائرن بج گئے ہیں۔ اس کے علاوہ تل ابیب اور اس کے نواحی علاقوں میں دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں[23]۔
حزب اللہ زندہ ہے، مزاحمت اور فلسطین کی حمایت جاری رکھیں گے
ایران کے نائب صدر برائے اسٹریٹجک امور نے کہا کہ مزاحمتی قائدین کی راہ میں شکست معنی نہیں رکھتی، جب کہ حزب اللہ زندہ ہے اور اسرائیل کو فلسطینی سرزمین کی مکمل آزادی تک امن نصیب نہیں ہوگا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر برائے اسٹریٹجک امور محمد جواد ظریف نے مزاحمتی رہنما شہید سید حسن نصر اللہ کے چہلم کے موقع پر تہران میں "مکتب نصر اللہ" بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ زندہ ہے اور اسرائیل کو فلسطینی علاقوں کی مکمل آزادی تک امن نصیب نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے شروع ہوئی تھی اور تمام اسلامی سرزمینوں کی صیہونیوں کے چنگل سے مکمل آزادی تک جاری رہے گی۔ جواد ظریف نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت اور امریکہ کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جب تک فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا اور فلسطینی پناہ گزین اپنی سرزمین کو واپس نہیں آتے تب تک انہیں امن نصیب نہیں گا۔
انہوں نے کہا کہ آج ہر کوئی کسی دوسری طاقت یا ملک کی حمایت کے بغیر فلسطین کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ جواد ظریف نے مزید کہا کہ اگر امریکی اور مغربی ممالک نے یہ اسٹریٹیجک غلطی جاری رکھی تو اس خطے میں کبھی امن نہیں ہو گا۔
انہوں نے امریکہ اور مغربی ممالک کے لئے رہبر معظم انقلاب کے حل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چاہیے کہ وہ تمام فلسطینیوں اور اس خطے کے تمام باشندوں بشمول یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک آزاد ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا تعین کرنے دیں۔
ظریف نے زور دے کر کہا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ ایک واضح مثال ہے جسے دہرایا جا سکتا ہے اور اسے دہرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پیغام در حقیقت سید حسن نصر اللہ، جنرل قاسم سلیمانی، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور دیگر رہنماؤں کے خون کا پیغام ہے[24]۔
فلسطین ہمارا بنیادی مسئلہ ہے جس سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے
حزب اللہ کی سیاسی کونسل کے نائب سربراہ نے واضح کیا کہ فلسطین لبنان کا اولین مسئلہ ہے جس سے ہم کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کی سیاسی کونسل کے نائب سربراہ "محمود قماطی" نے بیروت میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ ہم نے دو ماہ کے مسلسل جہاد، ثابت قدمی اور عزم و ہمت سے فتح حاصل کر لی جب کہ دشمن اپنے کسی ایک ہدف کو بھی حاصل نہیں کر سکا۔
حزب اللہ کی سیاسی کونسل کے نائب سربراہ نے کہا کہ جنوب میں مزاحمت کی ثابت قدمی نے دشمن کو شکست دی نیز مشرق وسطیٰ میں جاری جارحیت کو بھی شکست ہوئی۔ آج کے واقعات عرب قومی سلامتی کی فتح ہیں۔ قماطی نے مزید کہا کہ ہم مزاحمت کی سرزمین کے باسیوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو پوری ثابت قدمی، صبر اور وفاداری کے ساتھ مزاحمت کی راہ میں متحرک رہے، ہم بھی اس سرزمین کے وفادار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم شہید سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ کی تیاری کر رہے ہیں جو کہ راہ مزاحمت کی عوامی قبولیت کے لیے ایک سیاسی ریفرنڈم کی حیثیت رکھتی ہے۔ حزب اللہ کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ ہم حزب اللہ کے قیدیوں کے معاملے کو اسرائیل کے ساتھ تعمیر نو کے مسئلے کی طرح جاری رکھیں گے، ہم اس پر بنیادی توجہ دیتے ہوئے سنجیدگی سے اس کی پیروی کریں گے۔
انہوں نے تاکید کی کہ میں لبنانی رائے عامہ سے کہتا ہوں کہ دشمن کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی مزاحمت کی فتح ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس اور اسلامی جہاد فلسطین نے مزاحمت اور اس کے کمانڈروں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ہم آج یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم فلسطین سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے اور فلسطین ہمارا بنیادی اور اولین مسئلہ ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ہم کس طرح فلسطین کی حمایت جاری رکھیں گے، اس کا فیصلہ وقت پر ہوگا۔ قماطی نے کہا کہ یہ فتح مزاحمت کے موقف اور اس سرزمین کی فتح ہے، یہ فتح پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کی سربراہی میں لبنان کی مذاکراتی ٹیم کے مضبوط اور ٹھوس موقف کی جیت ہے[25]۔
حزب اللہ نے اسرائیل کے غبارے سے ہوا نکال دی
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ لبنانی مقاومت نے صہیونی حکومت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے لبنان میں جنگ بندی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ نے صہیونی حکومت کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا ہے۔
ایکس پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران نتن یاہو نے امریکی ٹیکس دہندگان سے اربوں ڈالر ہتھیالئے اور امریکی سیاسی اور دفاعی حمایت کے تحت غزہ میں ظلم کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی لبنان میں بھاری جانی نقصان کے بعد نتن یاہو جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور ہوا۔ حزب اللہ نے ایک بار پھر اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا افسانہ کو توڑ دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کو چاہئے کہ غزہ میں بھی شکست تسلیم کرے۔ انہوں نے لبنانی اور فلسطینی مقاومت کے ایران کی حمایت کا دوبارہ اعادہ کیا[26]۔ == شام کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں حزب اللہ کا مذمتی بیان == حزب اللہ لبنان نے ایک بار پھر شام، وہاں کی عوام اور اس کی سرزمینی سالمیت کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے شام کی سرزمین پر قبضے اور جارحیت کی شدید مذمت کی ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ لبنان نے ایک بار پھر شام، وہاں کی عوام اور اس کی سرزمینی سالمیت کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے شام کی سرزمین پر قبضے اور جارحیت کی شدید مذمت کی ہے۔
حزب اللہ نے کہا کہ شام کی سرزمین پر قبضے کی کوششیں، لبنان پر مسلسل حملے اور غزہ میں روزانہ اسرائیلی جارحیت جاری ہے، جو ملتوں کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال امت کی مشترکہ جدوجہد اور جارحیت کے خلاف متحدہ مزاحمت کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ حزب اللہ نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے شام کے جولان کی بلندیوں پر قبضے اور شام کی دفاعی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے اقدامات کھلی جارحیت اور شام کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ یہ اقدامات شام میں مزید عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
حزب اللہ نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے سنگین نتائج سے خبردار کیا اور عالمی برادری، خاص طور پر عرب اور اسلامی دنیا، سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مظالم کے خلاف سخت موقف اختیار کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے سیاسی اور قانونی دائرہ کار میں دباؤ ڈالیں۔ حزب اللہ نے واضح کیا کہ اسرائیل کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں اور قابض صہیونی ریاست کے یہ اقدامات غیر قانونی ہیں۔
بیان کے آخر میں حزب اللہ نے کہا کہ اسرائیل کی شام کی زمینوں پر قبضے کی کوششیں کسی قسم کا قانونی حق پیدا نہیں کر سکتیں، کیونکہ جولان کی سرزمین پر قبضہ 1967 سے جاری ایک مسلسل غاصبانہ عمل ہے۔ حزب اللہ نے شام، اس کی عوام، اور اس کی جغرافیائی و قومی وحدت کی حمایت پر زور دیا[27]۔
حزب اللہ لبنان اور حماس نے صہیونی فوج کے یمن پر حملے کی شدید مذمت کی
حماس اور حزب اللہ لبنان نے جمعرات کی شب ایک بیان میں صہیونی فوج کے یمن پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے یمن کی خودمختاری پر واضح جارحیت قرار دیا۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حماس اور حزب اللہ لبنان نے جمعرات کی شب ایک بیان میں صہیونی فوج کے یمن پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے یمن کی خودمختاری پر واضح جارحیت قرار دیا۔
حماس نے اپنے بیان میں عرب اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ "اس غاصب حکومت کو قابو میں کریں اور خطے میں اس کی جارحیت کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔" حماس نے مزید کہا: "ہم انصار اللہ کی جانب سے ظاہر کیے گئے مؤقف کو سراہتے ہیں کہ یمن پر جارحیت انہیں ہمارے (فلسطینی) عوام کی حمایت سے باز نہیں رکھے گی۔" حزب اللہ نے بھی ایک بیان میں صہیونی فوج کے یمن پر حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "تحریک حزب اللہ، امریکہ اور برطانیہ کی شرکت سے کیے گئے اسرائیلی جارحیت کے اس وسیع حملے کی شدید مذمت کرتی ہے، جس میں یمن کے شہری، اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ حملہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کا تسلسل ہے، جو عرب اور اسلامی ممالک، بالخصوص فلسطین، لبنان اور شام کے عوام کے خلاف جاری ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ انہوں نے یمن کے ہوائی اڈے کے ساتھ ساتھ حدیدہ، صلیف، اور راس کتیب کے ساحلی علاقوں میں فوجی بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے اور حزیز اور راس کتیب کے بجلی گھروں پر بھی حملہ کیا ہے۔ انصار اللہ نے اعلان کیا کہ اسرائیلی حملے میں صنعا کے ہوائی اڈے پر کم از کم تین افراد شہید اور 11 دیگر زخمی ہوئے ہیں[28]۔
شہید حسن نصراللہ کی بے مثال تشییع جنازہ سے حزب اللہ کی طاقت میں اضافہ ہوا
معروف عرب تجزیہ کار نے شہدائے مقاومت سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ میں لاکھوں لوگوں کی موجودگی کو حزب اللہ کی بھرپور عوامی طاقت کا اظہار قرار دیا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روزنامہ "رائ الیوم" کے مدیر اور معروف فلسطینی تجزیہ نگار "عبدالباری عطوان" نے اپنے اداریے میں شہدائے مقاومت سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی شاندار تشییع جنازہ کو بے مثال قرار دیا۔
انہوں نے لکھا کہ اس موقع پر بیروت میں لاکھوں لوگوں کا اجتماع ان عرب اور اسرائیلی تجزیہ نگاروں کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ کہتے تھے کہ حزب اللہ کی قیادت کی شہادت کے بعد لبنان میں اسلامی مزاحمت ختم ہو چکی ہے اور اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس نہیں آئے گی۔ عطوان نے مزید کہا کہ بیروت کے اسٹیڈیم پر لاکھوں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، مزاحمت کی عوامی مقبولیت اور طاقت کا اظہار تھا جس نے مصر کے جمال عبدالناصر کے جنازے میں لوگوں کی بے مثال موجودگی کی یاد تازہ کرائی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ بدقسمتی سے عظیم مزاحمتی رہنماؤں کی آخری رسومات میں عرب سربراہان کی عدم موجودگی در حقیقت واشنگٹن اور تل ابیب میں اپنے آقاؤں کو ناراض نہ کرنے کا غلامانہ اعلان تھی۔ البتہ یہ عدم شرکت ثابت کرتی ہے کہ عرب حکمران امت مسلمہ کے خیر خواہ نہیں ہیں، یقیناً یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، ہم ان لوگوں سے شہدائے مزاحمت کے احترام کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں جو غزہ جنگ کے دوران خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے۔
انہوں نے زور دیا کہ لبنان کی اسلامی مزاحمت اپنی طاقت کے ساتھ واپس آرہی ہے اور وہ پہلے سے زیادہ مضبوط شکل میں میدان میں لوٹ رہی ہے۔ شہید نصر اللہ کے ساتھی اور حزب اللہ تحریک کے موجودہ سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے سب سے پہلے امریکیوں کو مخاطب کیا: حزب اللہ یہ کبھی قبول نہیں کرے گی کہ تم اپنی پالیسیوں کے ذریعے لبنان پر قبضہ کرلو اور تم جنگ میں جو کچھ حاصل نہیں کر سکے، اسے فوجی دباؤ کے ذریعے بالکل بھی حاصل نہیں کر سکو گے۔
دوسرا یہ کہ مزاحمت ختم نہیں ہوئی ہے اور صہیونی دشمن کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھنے کے لیے ہم مکمل طور پر تیار ہیں۔ عطوان نے لکھا کہ شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر بھی تاکید کی کہ فلسطین مزاحمت کا مرکز ہے، جو امریکی صدر کے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے منصوبے کے خلاف کھڑی رہے گی۔
اس مضمون کے آخر میں کہا گیا ہے کہ شیخ نعیم قاسم کی فیصلہ کن تقریر اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ لبنان میں اسلامی مزاحمت کے ڈھانچے کو منظم کرنے اور اس کی افواج اور قائدین کی صفوں میں اتحاد کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور نوجوان قوتیں اب صف کے پیچھے کھڑی ہیں اور اپنی کی قیادت کے اشارے کی منتظر ہیں[29]۔
مقاومت صہیونی حکومت کو اس کے مذموم اہداف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
حزب اللہ لبنان کے ایک سینئر عہدیدار نے صہیونی حکومت کے مقابلے میں مقاومت کی کامیابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقاومت کی وجہ سے اسرائیل اپنے مذموم اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کی سیاسی کونسل کے نائب صدر محمود قماطی نے کہا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا اور مسلسل لبنان میں معاہدوں کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ صہیونی حکومت خطے میں مقاومت کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے، لیکن حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی قوتوں کی استقامت نے اسرائیل کو اپنے مقاصد حاصل کرنے سے روک رکھا ہے۔
قماطی نے مزید کہا کہ حزب اللہ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ضبط و تحمل سے کام لیا تاکہ عالمی برادری کے سامنے صہیونی حکومت کی اصلیت کو بے نقاب کیا جاسکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حزب اللہ تنازع کو بڑھانے یا جنگ میں الجھنے کا خواہاں نہیں، لیکن مقاومت ہر طرح کے حالات کے لیے تیار اور چوکس ہے[30]۔
حزب اللہ کی طاقت برقرار ہے، کوئی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی جرات نہیں کر سکتا
بین الاقوامی امور کے لبنانی تجزیہ کار نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی مزاحمتی ہتھیاروں کو نقصان پہنچانے کی جرات نہیں کرسکتا اور لبنانی حکومت کو بنیادی طور پر صیہونی حکومت کی جارحیت اور قبضے پر توجہ دینی چاہیے۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی حالیہ تقریر نے اس ملک کے اندرونی دشمنوں اور صیہونی حکومت کو اشتعال دلایا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے زور دیا کہ ہم سربلند، قابل فخر اور ایک حقیقی طاقت ہیں جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹر وردہ سعد نے لبنانی مصبف اور تجزیہ اسماعیل نجار سے شیخ نعیم قاسم کے حالیہ خطاب اور لبنان سے متعلق صورت حال کے حوالے سے گفتگو کی، جس کا متن حسب ذیل ہے:
سوال:1
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے حالیہ تقریر میں مکمل اعتماد اور اپنے فیصلہ کن لہجے کے ساتھ، مختلف مسائل پر حزب اللہ کے موقف کا اعلان کیا۔ آپ کی رائے میں وہ کون سے اہم عوامل تھے جنہوں نے حزب اللہ کی پوزیشن کو مضبوط کیا اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا؟
جواب:1
سب سے پہلے، لبنان کی حزب اللہ کی داخلی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں، مجھے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس جماعت کے قائدین نے ہمیشہ مختلف حالات میں منطق کی بنیاد پر مختلف صورت حال کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی۔ جنوبی لبنان میں مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے بعد لبنانی فریق قرارداد 1701 کی تمام شقوں اور اس کے الحاق پر کاربند رہا۔
لیکن صیہونی حکومت نے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری رکھی، راکٹ داغے، قتل و غارت گری، مختلف دیہاتوں پر حملے اور مکانات کو تباہ کیا۔ اسی دوران، لبنان کے اندر، صیہونی دشمن کے تعاون سے، مزاحمت کو شکست دینے اور اسے غیر مسلح کرنے کے بارے میں آوازیں بلند ہوئیں اور بعض کرائے کے ٹی وی چینلوں نے دعویٰ کیا کہ حزب اللہ نے اپنے ہتھیاروں کو حکومت کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے!
اس صورت حال میں مزاحمت نے بڑے فیصلہ کن لہجے میں اس بات پر زور دیا کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالے گی اور کوئی بھی مزاحمت کو غیر مسلح نہیں کر سکتا۔ انہی حالات نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کو اپنی عوامی تقریر میں اس مسئلے کو اٹھانے پر مجبور کیا، انہوں مزاحمت کی ریڈ لائنز واضح کیں اور اس حوالے سے زیر گردش افواہوں کا خاتمہ کیا۔
سوال:2
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے ملک کی دفاعی حکمت عملی کو حل کرتے ہوئے اسٹریٹجک فیصلہ سازی کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ انہوں اپنی تقریر میں حزب اللہ کے ہتھیاروں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی طاقت لبنانی مزاحمت کو غیر مسلح نہیں کر سکتی۔ کیا اسے حزب اللہ کےموقف اور نئی حکومت اور صدر کے ساتھ اس کے وعدوں میں تبدیلی کے طور پر دیکھا جائے گا یا یہ بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی پوزیشن کو مضبوط کرے گا؟
جواب: 2
لبنانی صدر نے کئی بار زور دیا کہ ہتھیاروں پر صرف فوج کا کنٹرول ہو، اس سلسلے میں شیخ نعیم قاسم کے بیانات پختہ تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ صدر نے اس پیغام کو سمجھ لیا ہے کہ لبنانی حکومت کو سب سے پہلے صیہونی رژیم کو لبنان کے خلاف اپنی زمینی اور فضائی جارحیتوں کو روکنے اور جنوبی لبنان سے مکمل طور پر دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے بعد اسرائیل کے خطرات اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم سے لبنان کی حفاظت کے لیے ایک دفاعی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے حزب اللہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہئے۔
اس طرح کے اقدام سے شام میں داعش اور نصرہ فرنٹ سے وابستہ دہشت گرد گروہوں کے اقتدار میں آنے کے بعد لبنان کی مشرقی اور شمالی سرحدوں پر پیدا ہونے والے نئے خطرات کو بھی روکا جائے گا اور لبنان کو اپنے اردگرد موجود خطرات کے خلاف ضروری قوت مدافعت اور طاقت حاصل ہو جائے گی۔ اس لیے ایسی صورت حال میں ہتھیار ڈالنا سب سے بڑی غلطی ہوگی۔
سوال:3
شیخ نعیم قاسم کا مزاحمتی ہتھیاروں کے معاملے میں ملکی مداخلت کاروں کے بارے میں موقف ایک طرف ان کی برتری کی علامت ہے اور دوسری طرف صہیونی منصوبے سے ان کی گفتگو کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ شیخ نعیم قاسم کے موقف کو کس حد تک درست سمجھتے ہیں، اور کیا یہ موقف داخلی گروہوں کو بھڑکانے کا باعث بن سکتا ہے یا ان کو روک سکتا ہے؟
جواب:3
لبنان کے اندر سیاسی جماعتوں کے ملک سے باہر کے ساتھ وسیع روابط ہیں، اور ان میں سے کچھ نے گزشتہ دہائیوں کے دوران مسلسل اندرونی امن اور لبنان میں بقائے باہمی کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو لبنانی عوام کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بیرونی ایجنڈے پر چلتے ہیں اور ان پروگراموں کے اہداف بین الاقوامی، عرب اور ملکی حلقوں میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں، اور یہ اسرائیل کے مفادات کے مطابق ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔
سوال:4
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بار پھر تحریک کے واضح موقف پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی حل لبنان کی سرزمین کو آزاد کرانے اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن یہ موقف ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہے گا۔ مستقبل میں تنازعات کے بڑھنے کے امکان سے متعلق پیش رفت کی روشنی میں، آپ اس موقف کا کیسے جائزہ لیتے ہیں، اور کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ الفاظ اسرائیلی جارحیت کے خلاف حتمی انتباہات کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں؟
جواب:4
جب مزاحمت نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تو اس نے جنگ بندی کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی اور ساتھ ہی ساتھ جنگ بندی کی تمام شقوں کی پاسداری کی۔ لیکن صیہونی حکومت نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی اور جنوبی لبنان کے دیہاتوں میں گھس کر ان دیہاتوں میں سینکڑوں گھروں کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یہ اس حقیقت کے باوجود تھا کہ جنگ کے 66 دنوں کے دوران کسی گاؤں میں صہیونی پرچم نہیں لہرایا گیا تھا۔ مزاحمت نے صیہونی حکومت کی تمام جارحیتوں کو دستاویزی شکل دی اور لبنانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دشمن پر قابو پانے اور دیہاتوں کی تباہی کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کرے۔
لیکن لبنانی حکومت اس سلسلے میں مکمل طور پر بے بس تھی، کیونکہ امریکیوں نے جنوبی لبنان کو تباہ کرنے کے لیے صیہونیوں کو ہری جھنڈی دکھائی تھی۔ مزاحمت نے اس حوالے سے اپنا لہجہ تیز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شیخ نعیم قاسم نے خبردار کیا کہ مزاحمتی قوت صیہونی حکومت کے جرائم اور جارحیت کو ہمیشہ کے لیے برداشت نہیں کرے گی اور اس پر پابندی کی پالیسی ختم ہو رہی ہے اور اسرائیل پر حملے کا وقت آئے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمت اب بھی مضبوط ہے اور نہ صرف اسے شکست نہیں ہوئی بلکہ وہ دوبارہ لڑنے کے لیے تیار ہے اور اس لڑائی کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
سوال:5
جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حزب اللہ کمزور ہو گئی ہے وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ یہ جملہ شیخ نعیم قاسم کی زبان سے کئی بار نکلا، آپ کے خیال میں یہ انتباہ کس کو دیا گیا تھا، اور حزب اللہ کی طاقت پر زور دینے والے پیغامات کیا ہیں؟
جواب: 5
جیسا کہ میں نے کہا، لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے میں بعض نے اس جنگ میں مزاحمت کی شکست کو یقینی جانا تھا اور وی سوشل میڈیا پر اس کی پیروی کر رہے تھے۔ یہ دعوے ایسے حالات میں کیے گئے جب مزاحمتی رہنماؤں نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ حزب اللہ کے رہنماؤں نے مزاحمت کی تیاری اور متعدد محاذوں پر لڑنے کے لیے اس کی طاقت کی بحالی کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا۔
سوال:6
لبنان کبھی بھی امریکی تسلط میں نہیں رہے گا، اور حزب اللہ کبھی بھی لبنانی فیصلہ سازی پر امریکی تسلط کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرے گی۔ کیا آپ کے خیال میں امریکی کیمپ میں مزید لبنانی تحریکوں کی موجودگی کے پیش نظر یہ ممکن ہے؟ اور کیا حزب اللہ اور اس کے اتحادی لبنان میں مساوات کو تبدیل کر کے نیا توازن پیدا کر سکتے ہیں؟
جواب:6
لبنان پر امریکی تسلط ایک روایتی مسئلہ ہے جو آج زیادہ وسیع ہو چکا ہے۔ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ حزب اللہ طاقتور ہے اور مختلف قبائل میں اس کے حامی اور سازگار بیس موجود ہیں اور اگر شیخ نعیم قاسم نے میز کو اُلجھانا چاہا تو حالات بدل جائیں گے اور "امریکہ کے لوکل چوہے" چھپ جائیں گے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ لبنانی فوج اور اس کے کمانڈروں کے ساتھ مزاحمت کے تعلقات ایک لمحے میں پیدا نہیں ہوئے تھے، بلکہ یہ گہرے اور تاریخی تعلقات ہیں اور مزاحمت کے عناصر اور فوج کا خون آپس میں ملا ہوا ہے۔ لہذا لبنانی معاشرے کے اتحاد اور داخلی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے فریقین کے درمیان اعلیٰ سطح پر مشترکہ رابطہ ضروری ہے اور صیہونی حکومت کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی طاقت فوج، قوم اور مزاحمت کی بنیادوں میں دراڑ نہیں ڈال سکتی۔
سوال:7
حالیہ تقریر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے لہجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمت اب بھی مضبوط ہے اور کسی بھی وقت میدان جنگ میں واپس آ سکتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:7
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے پیغام نے ثابت کر دیا کہ مزاحمت مضبوط اور طاقتور ہے۔ پیغام یہ تھا کہ اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس نے ہمیں شکست دے دی ہے تو زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ہم میدان میں واپس آئیں اور پوری دنیا مزاحمت کی طاقت کا مشاہدہ کرے گی[31]۔
دنیا کی کوئی طاقت حزب اللہ کو کمزور نہیں کر سکتی

لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ حامی رکن نے مزاحمتی تحریک کے خلاف بڑے پیمانے پر حملوں کے باوجود اس کی مضبوط پوزیشن پر زور دیا۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، لبنان کی حزب اللہ سے وابستہ مزاحمتی دھڑے کے رکن حسن فضل اللہ نے تاکید کی ہے کہ اس جماعت نے لبنانی قوم کے درد اور مصائب سے جنم لیا ہے اور ملک کے دفاع اور امریکی پالیسیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے خلاف حملوں کے باوجود اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی طاقتور پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے۔ لبنانی رہنما نے کہا کہ حزب اللہ قابضوں کو تباہ کرنے اور وطن کو آزاد کرنے کے لیے اپنے آپشنز پر اعتماد کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ حزب اللہ لبنانی معاشرے کا حصہ ہے اور ملک کے عوام کے ایک بڑے حصے نے حزب اللہ کو منتخب کیا ہے۔ کوئی بھی طاقت خواہ کتنی ہی بڑی یا طاقتور کیوں نہ ہو، وہ حزب اللہ کو کمزور یا اس کی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی[32]۔
لبنانی انتخابات میں حزب اللہ کو ہرانے کی سعودی کوششیں ناکام، مزاحمت کی جیت یقینی

لبنانی اخبار نے بعلبک میں حزب اللہ کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ہرانے کی سعودی کوششوں کے باوجود اس تنظیم کی انتخابی جیت کی طرف اشارہ کیا۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، لبنانی روزنامہ الاخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بعلبک شہر کے بلدیاتی انتخابات میں حزب اللہ کے حمایت یافتہ امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ یہ فتح آسان نہیں تھی، کیونکہ بعلبک میں ایک طرف حزب اللہ اور امل تحریک کے درمیان شدید سیاسی کشمکش تھی تو دوسری طرف سعودی عرب کے حمایت یافتہ مہرے میدان میں اتارے گئے تھے، تاہم سعودی مہروں کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔
لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت کے بعد بعض بیرونی قوتیں بالخصوص سعودی عرب اس سال لبنان کے انتخابی عمل میں مداخلت کرنے لگا، تاکہ بعلبک شہر کے باشندوں کی عمومی پالیسی کو تبدیل کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ وہ ووٹ خریدنے اور اس علاقے کے مکینوں سے انتخابی اور مالی وعدے تک کرنے لگے اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ مساجد میں بعض خطیبوں نے امل موومنٹ اور حزب اللہ کو ووٹ دینے کو گناہ قرار دیا!
اس کے باوجود بیروت اور طرابلس کے برعکس، بعلبک کے ووٹروں کی شرکت کی شرح 70 فیصد رہی۔ واضح رہے کہ بیروت، بعلبک اور بقاع میں لبنانی بلدیات اور سٹی کونسلوں کے انتخابات کا تیسرا مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ ووٹوں کی گنتی کا عمل کل رات شروع ہوا، اور لبنان کی وزارت داخلہ ابتدائی نتائج کا اعلان کرنے والی ہے۔
ملکی پارلیمان میں لبنانی حزب اللہ سے وابستہ دھڑے کے رکن امین شیری نے اس بات پر زور دیا کہ بیروت میں شیعہ ووٹرز کی تعداد 18,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ المنار نیٹ ورک کے رپورٹر نے بھی اطلاع دی ہے کہ اتحاد "ترقی اور وفاداری" بعلبک شہر میں چار ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے اپنے حریف سے آگے ہے۔
مغربی بقاع کے علاقے سحمر میں حزب اللہ کے تمام اتحادی (15) امیدوار بھی ضروری ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں[33]۔
امریکی-صہیونی منصوبہ: حزب اللہ کے خلاف اقتصادی محاصرہ تیز
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے لبنانی عوام اور حزب اللہ کے مالی نظام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکہ اور غاصب صہیونی حکومت نے حزب اللہ لبنان کے خلاف فوجی اور سیاسی دباؤ میں ناکامی کے بعد اب معاشی جنگ چھیڑ دی ہے۔ حزب اللہ سے وابستہ مالی ذرائع پر حملے، منی چینجرز کی ٹارگٹ کلنگ اور بیروت ایئرپورٹ پر مسافروں کی تلاشی جیسے اقدامات کے ذریعے لبنانی مزاحمت کو مالی طور پر مفلوج کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
گزشتہ موسم خزاں میں شروع ہونے والی صہیونی جارحیت کے دوران بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ وہاں حزب اللہ کی مالی ذخائر موجود ہیں۔ میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی افواہوں کے نتیجے میں بیروت کے ساحل ہسپتال کے نیچے خفیہ خزانے کی تلاش بھی شروع کردی گئی۔
اپریل 2024 میں اسرائیلی انٹیلیجنس نے معروف لبنانی صراف محمد ابراہیم سرور کو قتل کیا، جن پر الزام تھا کہ وہ حزب اللہ اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے لیے مالی ترسیل کرتا تھا۔ بعد ازاں 27 نومبر کو جنگ بندی سے محض چند گھنٹے قبل بیروت میں کئی منی ایکسچینج مراکز کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
حال ہی میں ایک اور منی چینجر اور اس کے دو بیٹے جنوبی لبنان میں گاڑی پر حملے کے دوران شہید کر دیے گئے۔ دوسری طرف بیروت ایئرپورٹ پر ایران، عراق اور افریقہ سے آنے والے مسافروں کے سامان کی سخت چیکنگ کی جا رہی ہے، تاکہ حزب اللہ کے لیے مبینہ مالی معاونت کو روکا جا سکے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ سب اقدامات لبنان کے مزاحمتی ڈھانچے کو کمزور کرنے اور عوام کو خوف و دباؤ کا شکار بنانے کی امریکی-اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہیں۔ جنگ سے کئی سال پہلے امریکی حکام لبنان میں جس کسی کو بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرتے تھے، اس پر بدعنوانی، حزب اللہ سے مالی تعاون یا اس تحریک سے وابستہ تاجروں کے ساتھ روابط کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔
سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ صہیونی حکومت نے لبنان میں ان افراد کو اپنا آلہ کار بنایا جو املاک و جائیداد کے ڈیٹا تک رسائی رکھتے تھے۔ لبنانی بینکوں نے بھی امریکیوں کی درخواست پر اپنی مالی جانچ پڑتال کے حصے کے طور پر اکاؤنٹ ہولڈرز اور حزب اللہ کے درمیان ممکنہ تعلقات کا سراغ لگانے کی کوشش کی۔
اس دشمنانہ مہم کے نتیجے میں لبنان کے بڑے اور چھوٹے بینکوں نے کئی سرکاری ملازمین، یونیورسٹی کے اساتذہ اور عوامی شخصیات کے اکاؤنٹس صرف اس بنیاد پر بند کر دیے کہ وہ مبینہ طور پر حزب اللہ سے وابستہ ہیں۔ اسی دوران، صہیونی حکومت نے بھی ان افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جن پر حزب اللہ کی مالی معاونت کا الزام تھا۔
انجمن قرض الحسن کے خلاف امریکہ و اسرائیل کی پس پردہ جنگ
جنگ شروع ہونے سے پہلے انجمن "قرض الحسن" امریکی اور یورپی حکام کی جانب سے لبنانی مالی و اقتصادی اداروں سے گفتگو کا ایک مستقل موضوع رہی۔ یہ دعوی کیا جاتا تھا کہ یہ انجمن حزب اللہ سے وابستہ ہے، جو امریکہ کی نام نہاد دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔
بعد ازاں، قرض الحسن کو دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے ادارے کے طور پر نامزد کیا گیا اور یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ انجمن کالے دھن کو جمع کرکے منی لانڈرنگ میں استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ امریکی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ انجمن قرض الحسن لبنانی بینکاری نظام سے منسلک نہیں، اور اس پر کوئی بینکنگ ضوابط لاگو نہیں ہوتے۔ یہ صرف ایک عوامی فلاحی ادارہ ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے چکا ہے اور ہزاروں لبنانی شہری اس سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔
حزب اللہ نے کبھی اس انجمن سے اپنی وابستگی یا حمایت کو چھپایا نہیں۔ حتی کہ سید حسن نصراللہ نے اپنے ایک خطاب میں مزاحمت کے حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس انجمن کے فنڈز کو تقویت دینے کے لیے اپنی رقوم جمع کروائیں۔ انجمن قرض الحسن کی سب سے بڑی قوت اس کا عوامی اعتماد تھا؛ لوگ کبھی تصور بھی نہیں کرتے تھے کہ ان کی جمع شدہ رقوم ضائع ہوسکتی ہیں۔ جبکہ لبنانی مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور امریکہ کا اہم آلہ کار ریاض سلامہ کی قیادت میں لبنانی بینکاری نظام میں پائی جانے والی منظم کرپشن نے عوام کے مالی اثاثوں کو سخت نقصان پہنچایا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں لبنانی شہری اپنی رقوم سے محروم ہوئے۔
حالیہ جنگ کے دوران جب غاصب اسرائیلی حکومت نے لبنان کے مختلف علاقوں میں انجمن قرض الحسن کے دفاتر کو بمباری کا نشانہ بنایا، تو اس کے بعد اس انجمن کے عملے کو بھی قتل و تعاقب کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے باوجود، انجمن میں سرمایہ رکھنے والے کسی فرد نے کبھی شکایت یا اعتراض نہیں کیا، بلکہ جنگ کے دوران خود انجمن کی انتظامیہ نے کھاتے داروں سے رابطہ کرکے ان کی رقوم واپس کردیں۔ جیسے ہی جنگ ختم ہوئی، وہی افراد دوبارہ اپنی رقوم قرض الحسن میں جمع کروانے واپس آگئے۔
جنگ کے دوران، لبنانی معاشرے میں ایک بھرپور یکجہتی مہم بھی شروع ہوئی۔ بہت سے افراد نے اصرار کیا کہ وہ اپنے پیسے واپس نہیں لینا چاہتے، کیونکہ انہیں اعتماد تھا کہ ان کی رقوم بغیر ان کی اجازت اور پیشگی منظوری کے کسی بھی مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جاتیں۔
لبنان کے مالیاتی اور اقتصادی شعبوں سے وابستہ تمام افراد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ حزب اللہ کا ادارہ برائے تعمیر نو جب قرض الحسن کے فنڈز سے امداد دینے کے لیے چیکس جاری کرتا ہے، تو وہ صرف جنگ زدگان اور متاثرین کی فوری مدد کو ممکن بنانے کے لیے ہوتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب لبنانی حکومت خود عوام کو بنیادی امداد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
لبنان میں مزاحمتی تحریک کو غیر مسلح کرنے کے خواہش مند حلقے اب اس کی مالی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسی مقصد سے حزب اللہ کے مالی ذرائع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لبنانی مرکزی بینک جو عملی طور پر امریکی ایجنڈے کا تابع بن چکا ہے، برسوں سے ان ہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جنہیں عالمی مالیاتی نظام سے ہم آہنگی کے نام پر نافذ کیا جاتا ہے۔
مرکزی بینک کے نئے سربراہ کریم سعید بھی اپنے پیشرو ریاض سلامہ کی طرح امریکہ کے قریبی مہرے سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے حزب اللہ کو مالی طور پر محدود کرنے کی امریکی پالیسیوں پر مکمل عمل درآمد کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ وہ مرکزی بینک کی قیادت کو حزب اللہ کے اقتصادی محاصرے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بناچکے ہیں۔
مزاحمت کے دشمن شاید یہ سمجھتے ہیں کہ پابندیاں، اقتصادی محاصرہ، اور دہشت گردی کے الزامات حزب اللہ کو ختم کر دیں گے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دشمنوں کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے حزب اللہ کی عوامی ساکھ متاثر ہونے کے بجائے اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس سازشوں کے نتیجے میں لبنانی قوم پر یہ حقیقت مزید واضح ہورہی ہے کہ مسلح مقاومت صرف ایک دفاعی ہتھیار نہیں بلکہ ان کی خودی، آزادی اور تشخص کا ناگزیر حصہ ہے[34]۔
امریکہ کی نئی حکمت عملی: حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں تیز
جنگ بندی کے آٹھ ماہ بعد صہیونی جارحیت میں شدت، امریکہ و اسرائیل حزب اللہ کی عسکری طاقت کی بحالی کو روکنے کے لیے نئی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جنوبی لبنان میں جنگ بندی کو آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب امریکہ نے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنا لی ہے، جس میں واشنگٹن اور تل ابیب کی مشترکہ کوششوں سے عسکری دباؤ کے ذریعے حزب اللہ کی دفاعی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسرائیلی زمینی افواج جنوبی لبنان کے پانچ اسٹریٹجک علاقوں میں اب بھی تعینات ہیں اور لبنانی سرزمین کو مکمل طور پر نہیں چھوڑا گیا۔ اس دوران اسرائیل حزب اللہ کے ٹھکانوں اور عسکری ساز و سامان کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے تاکہ مزاحمتی قوت کی بحالی اور دوبارہ طاقت حاصل کرنے کے عمل کو روکا جاسکے۔
اطلاعات کے مطابق، لبنانی فوج کے سربراہ جوزف عون نے امریکی عہدیدار ٹام باراک کو پیغام دیا ہے کہ موجودہ حالات میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا کوئی آسان آپشن نہیں۔ یہ معاملہ صرف اسرائیل کی جانب سے اپنے وعدے پورے کرنے کے بعد ہی تدریجا ممکن ہوسکتا ہے۔
ادھر جنوبی شام میں اسرائیل نواز گروہوں کی عسکری سرگرمیوں میں اضافہ، جولانی کے حمایت یافتہ گروپوں کی نقل و حرکت اور ساحلی علاقوں میں دروزی و علوی برادری کے خلاف ممکنہ کارروائیاں، حزب اللہ کے لیے ایک واضح اشارہ ہیں کہ اگر اس نے غیر مسلح کا مطالبہ تسلیم کیا تو اس کا نتیجہ ایک نئی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے اور اس بار محاذ شام کی طرف سے کھولا جاسکتا ہے۔
ان بدلتے حالات میں صہیونی حکام نے ایک بار پھر کھلے عام دھمکی دی ہے کہ اگر حزب اللہ کو مکمل طور پر غیر مسلح نہ کیا گیا تو اسرائیل ایک نئی اور وسیع تر جنگی مہم کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی یہ نئی حکمت عملی نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
امریکہ کے شام کے لیے خصوصی نمائندے ٹام باراک نے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک نئی حکمتِ عملی اختیار کی ہے، جس کا مقصد بظاہر مزاحمت کو دھوکے میں رکھ کر اسرائیل کے مطالبات کو پورا کرنا ہے۔ باراک حزب اللہ سے براہ راست رابطے کی کوشش میں بھی ناکام رہے ہیں۔
لبنانی حکومت نے واضح انداز میں امریکی فریق کو یہ پیغام دیا ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہ صرف ملک میں تنازعے کو ہوا دے سکتی ہے بلکہ لبنان کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
ادھر حزب اللہ نے اس نازک مسئلے پر حکومت لبنان سے مکالمے پر آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن صرف اس دائرے میں کہ ایک مشترکہ دفاعی حکمت عملی تشکیل دی جاسکے۔ اس سے پہلے امریکہ کی سابق خصوصی ایلچی مورگان اورٹاگس نے حکومت لبنان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک باقاعدہ ٹائم ٹیبل پیش کرے، تاکہ اس کے مالی ذرائع بند کیے جاسکیں اور فلسطینی پناہ گزینوں کے 12 کیمپوں کو بھی غیر مسلح کیا جاسکے۔ تاہم ان اہداف میں ناکامی کے بعد ٹام باراک نے اب ایک نئی تجویز دی ہے جس کے تحت حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری ونگز میں فرق کرتے ہوئے، صرف فوجی دھڑے کو غیر مسلح کرنے کی پیش کش کی گئی ہے۔
حزب اللہ کے قریبی تجزیہ نگار خلیل نصر اللہ نے ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ٹام باراک نے ابتدا میں حزب اللہ سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن مزاحمتی گروہ نے امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کو صاف طور پر مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ حکومت لبنان کا حصہ ہے اور وہ لبنانی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہی بات چیت کرے گا۔ حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ مقاومت کا اسلحہ کوئی خارجی ایجنڈا نہیں بلکہ ایک قومی معاملہ ہے، جس پر لبنانیوں کو باہمی گفت و شنید سے خود فیصلہ کرنا ہے اور امریکی مداخلت اس عمل میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
لبنان کے مالیاتی اور بینکاری نظام کا حزب اللہ کے ادارہ قرض الحسن سے رابطہ منقطع کیا جانا دراصل امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد لبنان میں حزب اللہ کی سیاسی اور سماجی حیثیت کو مرحلہ وار کمزور کرنا ہے۔ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو لبنان میں تعمیر نو کے کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے خلاف ہیں۔
اسرائیل سے تعلق رکھنے والے تحقیقی ادارے آلما نے اپنی ایک رپورٹ میں بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں ہونے والی تعمیر نو پر سوالات اٹھائے ہیں۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ حزب اللہ اب ایک ریاست جیسا کردار ادا کر رہی ہے اور بظاہر شہری ڈھانچے کی بحالی کے ساتھ ساتھ اپنی عسکری انفراسٹرکچر کو بھی دوبارہ فعال کر رہی ہے۔
عبرانی میڈیا، خاص طور پر روزنامہ معاریو نے دعوی کیا ہے کہ حزب اللہ تعمیر نو کی آڑ میں آئندہ جنگ کی تیاری کررہی ہے۔ اخبار کے مطابق، لبنان میں ریاستی اداروں کی ناکامی اور کمزوری کے سبب حزب اللہ نہ صرف ضاحیہ میں خالی جگہوں کو پر کررہی ہے بلکہ اس دوران اپنی عسکری قوت کو بھی منظم کررہی ہے۔ یہ الزام ایسے وقت میں سامنے آرہا ہے جب حالیہ مہینوں کے واقعات سے واضح ہوچکا ہے کہ نتن یاہو کی حکومت نہ تو بین الاقوامی سرحدوں کی پرواہ کرتی ہے اور نہ ہی کسی قانونی یا سکیورٹی لائن کو مانتی ہے۔ ان کا ہدف صرف مشرق وسطی کے نقشے کو بدلنا ہے۔
اسی تناظر میں حزب اللہ نے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کو ایک تازہ پیغام میں واضح کر دیا ہے کہ اگر اسرائیل جنوبی لبنان سے پیچھے ہٹ بھی جائے، تب بھی وہ اپنے ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی۔ اگرچہ حزب اللہ کا یہ مؤقف لبنانی حکومت کے لیے سخت تشویش کا باعث بنا ہے، مگر اس کی بنیاد ایک حقیقی اور بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظرنامے پر ہے۔ امریکی خصوصی نمائندے نے دمشق اور بیروت کا موازنہ کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ شام ممکنہ طور پر لبنان پر مکمل قبضہ کر سکتا ہے اور اسے اپنے علاقے میں شامل کرسکتا ہے۔
اس غیریقینی، خطرناک اور بیرونی دباؤ سے بھرپور ماحول میں دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ لبنان کسی طور بیرونی قوتوں کے ناجائز مطالبات کے آگے نہ جھکے، اور حزب اللہ کی مزاحمتی طاقت کو محفوظ رکھے کیونکہ یہی اس وقت لبنان کے دفاع کا واحد موثر ذریعہ ہے۔ ایسے میں یہ تجویز کہ حزب اللہ اپنے بھاری ہتھیار حوالے کردے جبکہ ہلکی ہتھیار اپنے پاس رکھے، محض ایک فریب ہے۔ اس فریب کا شکار ہونے سے نہ صرف لبنان مزید کمزور ہوگا بلکہ عوامی قتل عام کا راستہ ہموار ہوگا۔ لہذا حزب اللہ کے عسکری ڈھانچے کی فوری اور منظم بحالی اس بات کی ضامن بن سکتی ہے کہ آئندہ کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں یہ گروہ میدان میں موثر انداز میں اترے اور قابض اسرائیلیوں پر دباؤ بڑھائے[35]۔
امریکہ کی سازش کے باوجود حزب اللہ ہتھیار ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی
لبنانی سابق وزیر نے کہا ہے کہ امریکہ کے دباؤ اور اسرائیلی حملوں کے باوجود حزب اللہ اپنے ہتھیاروں سے کبھی دستبردار نہیں ہوگی اور ملک کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔ مشرق وسطی کی پیچیدہ صورت حال میں حزب اللہ لبنان ایک اہم مزاحمتی قوت کے طور پر ابھری ہے، جس نے امریکہ کی طرف سے اپنی مسلح حیثیت کو ختم کرنے کی سخت سازشوں کے باوجود اپنی دفاعی صلاحیت کو مضبوطی سے برقرار رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ لبنان میں جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے مگر صہیونی حکومت کی جارحیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس نے مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جو خطے میں کشیدگی کو بڑھا رہے ہیں۔
حزب اللہ نے واضح کردیا ہے کہ نہ وہ اپنے ہتھیار زمین پر پھینکے گی اور نہ ہی کسی بھی دباؤ یا سازش کے سامنے جھکے گی کیونکہ یہ ہتھیار لبنان کی خودمختاری اور دفاع کا ضامن ہیں۔ موجودہ حالات میں، حزب اللہ کی یہ پوزیشن نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ لبنان کے سابق وزیر عدنان السید حسین نے مہر نیوز سے گفتگو میں لبنان کی موجودہ صورت حال اور مقاومت کے کردار کا جائزہ لیا۔
ذیل میں السید حسین کے انٹرویو کا متن پیش کیا جاتا ہے
مہر نیوز: لبنان میں امریکی نمائندے ٹام براک نے لبنان کے صدر سے ملاقات کے بعد درپیش حالات پر مایوسی ظاہر کی۔ اس مایوسی کا مطلب کیا ہے؟
السید حسین: ٹام براک نے لبنان کے تیسرے دورے پر مایوسی کا اظہار اس لیے کیا کیونکہ وہ توقع کررہے تھے کہ لبنان کے صدر جنرل جوزف عون سے مختلف اور مثبت جواب ملے گا، جو پہلے لبنانی حکام سے حاصل نہیں ہوا تھا۔ یہ مایوسی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ لبنان پر دباؤ مزید بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ لبنان امریکی منصوبے کو بہتر طریقے سے قبول کرے۔ اگر لبنان ایسا نہ کرے تو اس پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ لبنان پر بڑھتا ہوا دباؤ اسرائیلی حکومت کو لبنان میں بلا روک ٹوک کارروائیوں کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل لبنان میں جاری قتل و غارتگری اور شمالی لبنان کے علاقوں جیسے طرابلس اور بقاع پر حملوں کا سلسلہ بڑھا سکتا ہے۔
امریکی ایلچی اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہے تو اب اگلا قدم کیا ہوگا؟
مہر نیوز: براک نے لبنان پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے صہیونی حکومت پر کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالنے سے مکمل طور پر پہلوتہی کی اور دعوی کیا کہ یہ معاملہ اس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے لبنان کے معاملے میں نام نہاد تصفیے کے لیے امریکی منصوبے سے بھی پسپائی اختیار کرلی۔ کیا آپ اس امریکی پسپائی کو لبنان کی حکومت کے لیے ایک چھپا ہوا خطرہ سمجھتے ہیں؟ اور جب امریکی ایلچی اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہے تو اب اگلا قدم کیا ہوگا؟
السید حسین: کب امریکی حکومتوں نے صہیونی حکومت پر دباؤ ڈالا ہے؟ بائیڈن حکومت نے تل ابیب کو تمام تر مہلک ہتھیار اور تباہ کن آلات فراہم کر دیے ہیں، اب امریکہ کے پاس تل ابیب سے روکنے کے لیے باقی کیا بچا ہے؟
مغرب بالعموم صہیونیوں پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتا، اور امریکہ کی حکومت نے نہ کبھی اسرائیل پر دباؤ ڈالا ہے، نہ ہی مستقبل میں کبھی ڈالے گی۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہی اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ حماس نے کئی بار امن کے لیے تجاویز پیش کیں، لیکن صہیونیوں نے ہمیشہ انہیں مسترد کر دیا۔ امریکی حکومت ہمیشہ تل ابیب کو حق پر سمجھتی ہے اور کبھی نہیں کہتی کہ حماس کا مؤقف درست ہے۔ امریکہ ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ آج بھی وائٹ ہاؤس میں وہی پرانا منظرنامہ قائم ہے، اور یہ سوچنا بھی ممکن نہیں کہ کبھی امریکی حکومت صہیونی حکومت پر واقعی کوئی دباؤ ڈالے گی۔
مہر نیوز: لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت میں مسلسل شدت اور تسلسل کے باوجود امریکہ جو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کے منصوبے کی نوعیت کیا ہے؟ اور لبنانی مزاحمت اور حکومت کے اداروں نے اسے کیوں مسترد کردیا ہے؟
السید حسین: لبنانی مزاحمتی قوتوں نے امریکی تجاویز، خاص طور پر ان کے حتمی مسودے کو قطعی طور پر مسترد کردیا ہے۔ ان تجاویز میں اسرائیل سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی حدود سے بھی تجاوز کیا گیا ہے، جب کہ خود اسرائیل کو کسی قانون کا پابند نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس، امریکہ چاہتا ہے کہ حزب اللہ پورے لبنان میں اپنے ہتھیار حکام کے حوالے کردے۔ کیا کوئی باشعور انسان اس طرح کے یک طرفہ منصوبے کو قبول کرسکتا ہے؟
جب امریکہ خود کو غیرجانبدار ثالث کے بجائے صہیونی جارحیت کا مکمل شریک کار بناتا ہے، تو ایسی صورت میں حزب اللہ کیا کہے؟ اور لبنانی حکام اس پر کیا مؤقف اختیار کریں؟ ایسی صورت حال میں یہ بالکل فطری ہے کہ حزب اللہ اپنے اسلحے سے محفوظ رکھے اور دفاعی صلاحیت کو ختم نہ کرے۔
امریکی ایلچی اب بھی لبنانی حلقوں کو حزب اللہ کے خلاف اکسانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟
مہر نیوز: صدر جوزف عون کے مؤقف کے پیش نظر، آپ اس مرحلے پر لبنان کی داخلی صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا امریکی ایلچی اب بھی لبنانی حلقوں کو حزب اللہ کے خلاف اکسانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ السید حسین: یقینا اس وقت لبنان کی داخلی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کا ایک سنگین خطرہ موجود ہے، اور یہی وہ کام ہے جو امریکہ اس وقت تقریبا تمام عرب ممالک میں کر رہا ہے۔ آپ شام اور عراق کی صورتحال کو دیکھ لیجیے، اور اس سے پہلے لیبیا، یمن، صومالیہ اور افغانستان سے لے کر شمالی افریقہ تک جو کچھ ہوا، اس پر بھی غور کیجیے۔ لبنان کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کچھ لبنانی افراد امریکہ کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کر بیٹھیں اور اختلافات کا شکار ہوجائیں۔
ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ امریکی وعدوں پر اعتماد نہ کیا جائے۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے جو دباؤ ڈالا جارہا ہے، اس کا بہترین جواب قومی وحدت ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ لبنان کی قیادت اور عوام کے مابین اتحاد ہی وہ بنیادی ہتھیار ہے جس کے ذریعے تمام سازشوں اور جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ امریکی وعدوں کے دلدل میں نہ پھنسے، بلکہ اس تاریخی حقیقت کو ذہن میں رکھے کہ امریکہ نے گزشتہ دہائیوں کے دوران خاص طور پر سویت یونین کے زوال کے بعد لبنان اور عرب دنیا میں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے کس طرح کام کیا ہے۔ لبنانی عوام کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں۔ یہ اتحاد، وہ طاقت ہے جو لبنانی فوج یا مزاحمت کے کسی بھی ہتھیار سے زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر یہ وحدت قائم ہو جائے تو لبنان اسرائیلی تجاوزات کے خلاف مؤثر اور اسٹریٹجک اقدامات اٹھاسکتا ہے[36]۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا گریٹر اسرائیل کے خطرناک منصوبے کا حصہ ہے
یمنی مبصر نے کہا ہے کہ تل ابیب حزب اللہ کو غیر مسلح کرکے گریٹر اسرائیل کا خطرناک منصوبہ آگے بڑھا رہا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق یمنی صحافی اور المسیرہ چینل کے تجزیہ کار احمد عبدالوہاب الشامی نے مہر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوشش دراصل خطرناک صہیونی منصوبہ گریٹر اسرائیل کے نفاذ کا حصہ ہے۔
انہوں نے سورۂ نساء کی آیت 102 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’کافر چاہتے ہیں کہ تم اپنے اسلحے اور سازوسامان سے غافل ہو جاؤ تاکہ وہ اچانک تم پر ٹوٹ پڑیں‘‘۔ دشمن اسی موقع کے انتظار میں ہے کہ حزب اللہ کو اسلحہ سے محروم کرے تاکہ لبنان اور خطے پر غلبہ حاصل کرسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ لبنان میں مزاحمت کو غیر مسلح کردیا جائے۔ اس سازش کے پیچھے امریکہ اور صہیونی حکومت ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ حزب اللہ کو کمزور کرکے لبنان اور پورے خطے پر اپنی بالادستی قائم کریں۔
الشامی نے کہا کہ مقاومت کے ہتھیار کے بل بوتے پر 2000 میں جنوبی لبنان کو آزادی ملی اور یہی وہ اسلحہ ہے جس نے 2006 میں صہیونی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لہٰذا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی ہر کوشش دراصل گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہے۔
یمنی مبصر نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کو ان ہتھیاروں پر اعتراض نہیں جو ان کے اپنے قبضے میں ہیں، بلکہ وہ ہتھیار انہیں کھٹکتے ہیں جو آزاد انسانوں اور باعزت مجاہدوں کے پاس ہیں۔ یہی ہتھیار حقیقی امن کا ذریعہ بنتے ہیں۔ دشمن ان سے خوفزدہ ہے کیونکہ یہ اس کی جارحیت اور تسلط کی راہ میں دیوار ہیں۔
احمد عبدالوہاب الشامی کے مطابق حزب اللہ کا اسلحہ صرف ایک جنگی قوت نہیں بلکہ قومی وجود کی علامت ہے۔ اگر یہ ہتھیار چھین لیے جائیں تو دشمن پیشقدمی کرے گا اور اگر باقی رہیں تو دشمن کے ناپاک عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یمن کا ماننا ہے کہ حزب اللہ کا اسلحہ صرف لبنان کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کا ہتھیار ہے۔ یہ غیرت اور شرافت کی علامت ہے۔ حزب اللہ نے 2000 اور 2006 میں امت مسلمہ کی آبرو کو بچایا۔ آج پوری امت اسلامی پر فرض ہے کہ مقاومت اور اس ہتھیاروں کی حمایت کرے اور اس کا دفاع کرے[37]۔
حوالہ جات
- ↑ محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص53
- ↑ ایاز میر، ہمیں سبق حزب اللہ کی تاریخ سے سیکھنا چاہیے،www.taghribnews.com
- ↑ حزب اللہ کے حملے، اسرائیلی فوج کو جانی نقصانات، mehrnews.com
- ↑ حزب اللہ نے صیہونی فوج کا مرکاوا ٹینک تباہ کردیا، mehrnews.com
- ↑ لبنان اور مزاحمت کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے، ایرانی وزیر خارجہ، .mehrnews.com
- ↑ حزب اللہ کے صہیونی فوج کے ٹھکانوں پر حملے، .mehrnews.com
- ↑ صیہونی رجیم کی حزب اللہ کے خلاف گیدڑ بھبکیاں!،mehrnews.com
- ↑ فلسطین: حزب اللہ کے شبعا کے صیہونی ٹھکانوں پر نئے حملےmehrnews.com،- شائع شدہ:29مارچ 2024ء- اخذہ شدہ:3اپریل 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ نے صہیونی ڈرون طیارہ "ہرمس450" مارگرایاmehrnews.com-شائع شدہ:7اپریل 2024ء -اخذ شدہ: 7اپریل 2024ء
- ↑ حزب اللہ کے شمالی مقبوضہ فلسطین پر میزائل حملے-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:24اپریل 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:24اپریل 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ کے درست حملوں سے اسرائیلی دفاعی سسٹم کی کمزوری ظاہر ہوئی، صیہونی میڈیا کا اعتراف-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 7 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 جون 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ لبنان کے اہم کمانڈر شہید؛ حماس کا اظہارِ تعزیت-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 12 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 جون 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ کا اسرائیل کے خلاف وسیع آپریشن/ بیک وقت100 راکٹ اور 30 ڈرون لانچ کئے-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 13 جون - اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 جون 2024ء۔
- ↑ اسرائیل کے حملے کی صورت میں حزب اللہ کے شانہ بشانہ کھڑیں ہوں گے، عراق کے مزاحمتی گروہوں کا اعلان-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 22جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22جون 2024ء۔
- ↑ عرب لیگ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کردیا- ur.mehrnews.com-شائع شدہ از: 30 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 جون 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ کے ساتھ سرحدی جھڑپ میں ایک صیہونی فوجی ہلاک، متعدد زخمی- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 7 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2024ء
- ↑ آسٹریلیا کے ہزاروں شہریوں کا حزب اللہ کے جھنڈوں کے ساتھ ملک کی حکومت کے خلاف احتجاج-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 13 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ کے ڈرون حملے نے صیہونی حکومت کی گولانی بریگیڈ کو تباہ کر دیا، 72 ہلاک اور زخمی+ ویڈیو-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 13 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ کا "لبیک یا نصراللہ" کے ساتھ حیفا بندرگاہ پر میزائل حملہ- -ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 18 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی رہائشگاہ پر ڈرون حملہ- urdu.geo.tv- شائع شدہ از: 19 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ کا "لبیک یا نصر اللہ" کے کوڈ نام کے ساتھ تل ابیب کی ملٹری انڈسٹری پر میزائل حملہ-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 22 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ نے انٹیلی جنس شعبے کے سربراہ کی شہادت کی تصدیق کردی- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 25 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 اکتوبر 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ کا اسرائیلی فوجیوں کے اہم مرکز پر میزائل حملہ-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 6 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء
- ↑ حزب اللہ زندہ ہے، مزاحمت اور فلسطین کی حمایت جاری رکھیں گے، جواد ظریف-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 9 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 نومبر 2024ء-
- ↑ فلسطین ہمارا بنیادی مسئلہ ہے جس سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے، حزب اللہ-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 27 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 نومبر 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ نے اسرائیل کے غبارے سے ہوا نکال دی، عباس عراقچی-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 28 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 نومبر 2024ء۔
- ↑ شام کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں حزب اللہ کا مذمتی بیان-ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 10 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 دسمبر 2024ء۔
- ↑ حزب اللہ لبنان اور حماس نے صہیونی فوج کے یمن پر حملے کی شدید مذمت کی- شائع شدہ از:27 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 دسمبر 2024ء۔
- ↑ شہید حسن نصراللہ کی بے مثال تشییع جنازہ سے حزب اللہ کی طاقت میں اضافہ ہوا، عرب تجزیہ کار- شائع شدہ از: 24 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 فروری 2025ء-
- ↑ مقاومت صہیونی حکومت کو اس کے مذموم اہداف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، حزب اللہ- شائع شدہ از: 3 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 3 اپریل 2025ء۔
- ↑ حزب اللہ کی طاقت برقرار ہے، کوئی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی جرات نہیں کر سکتا- شائع شدہ از: 12 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:13 مئی 2025ء
- ↑ دنیا کی کوئی طاقت حزب اللہ کو کمزور نہیں کر سکتی، لبنانی رہنما-شائع شدہ از: 14 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 مئی 2025ء
- ↑ لبنانی انتخابات میں حزب اللہ کو ہرانے کی سعودی کوششیں ناکام، مزاحمت کی جیت یقینی- شائع شدہ از: 19 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 مئی 2025ء
- ↑ امریکی-صہیونی منصوبہ: حزب اللہ کے خلاف اقتصادی محاصرہ تیز- شائع شدہ از: 17 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 جولائی 2025ء
- ↑ امریکہ کی نئی حکمت عملی: حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں تیز-شائع شدہ از: 29 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 جولائی 2025ء
- ↑ امریکہ کی سازش کے باوجود حزب اللہ ہتھیار ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی-شائع شدہ از:2اگست 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 2 اگست 2025ء
- ↑ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا گریٹر اسرائیل کے خطرناک منصوبے کا حصہ ہے- شائع شدہ از: 29 اگست 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 اگست 2025ء
