مشاہد حسین سید

ویکی‌وحدت سے
مشاہد حسین سید
مشاہد حسین سید.jpg
ذاتی معلومات
پیدائش1952 ء، 1330 ش، 1370 ق
یوم پیدائش2نومبر
پیدائش کی جگہپاکستان
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • سیاست دان
  • صحافی
  • مؤرخ

مشاہد حسین سید پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن ہیں۔ اس سے پہلے آپ مسلم لیگ (ق) کے رکن تھے۔ آپ ایک سیاست دان، صحافی اور مؤرخ ہیں 2018 میں پارٹی نے ان کو سینیٹ کا رکن منتخب کیا۔ سیاست اور صحافت میں ان کو معتدل اور متوازن شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔

سوانح عمری

مشاہد حسین سید 2 نومبر 1952ء شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔

سیاسی سرگرمیاں

1996-97ء کی مسلم لیگ کو ان باتوں کا بہتر ادراک تھا۔ یہی ماہ و سال ہیں جب مشاہد حسین سید مسلم لیگ کے اُفق پر نمایاں ہوئے۔ صحافت اور بین الاقوامی تعلقات کا قابلِ رشک پس منظر اور اس پہ مستزاد ان کی ابلاغی صلاحیت نے ان کو پارٹی میں ایک ممتاز مقام دلا دیا۔ انہوں نے مخالفین کے کڑاکے نکال دیے۔ پہلی بار مسلم لیگ ایک جاندار بیانیے اور حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے آئی۔

اس سے پہلے یہ خدمت حسین حقانی بھی سر انجام دے چکے تھے مگر وہ اسلامی جمہوری اتحاد کے لیے تھی۔ مسلم لیگ جس کی سب سے اہم مگر ایک رکن جماعت تھی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف موجود مذہبی بیانیے کی تشکیلِ نوکی اور اسے کامیاب ابلاغی حکمتِ عملی کے ساتھ مقبول بنا دیا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف غیر اخلاقی ابلاغی مہم بھی ان کے ذرخیز دماغ کی اختراع تھی۔ لوگ آج اس کا تنہا ذمہ دار مسلم لیگ کو ٹھہرا تے ہیں، در آں حالیکہ اس کی ذمہ داری میں وہ سب جماعتیں شریک ہیں جو اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھیں۔

1993ء کے انتخابات کے بعد اتحادی سیاست کم و بیش ختم ہو گئی۔ مسلم لیگ نے تنہا پرواز کا فیصلہ کیا۔ بعض جماعتیں اس کے ساتھ تھیں مگر گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں‘‘ کے مصداق۔ مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کا بیانیہ بنایا۔ اس کو عوامی بیانیہ بنانے میں مرکزی کردار مشاہد صاحب کا تھا۔ 1997ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو جو غیرمعمولی کامیابی ملی، اس میں پارٹی کی ابلاغی حکمتِ عملی کو مرکزیت حاصل رہی۔ 1999ء میں مارشل لا نافذ ہو گیا۔

مشاہد حسین سید کچھ عرصہ نظر بند رہے اور پھر مسلم لیک (ق) کو پیارے ہوگئے۔ طویل عرصہ چودھری شجاعت حسین صاحب کے دستِ راست رہے۔ چند سال پہلے نون لیگ میں واپس آگئے۔ پارٹی نے سینیٹر بنا دیا۔ نواز شریف کے ساتھ ان کی ہجر و وصال کی ایک داستان ہے لیکن وہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ تاریخ کے اس باب سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ میں اپنی بات کو بنیادی سوال تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔

نون لیگ اس وقت قلتِ دانش (Intellectual deficit) کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی ایسا بیانیہ نہیں جسے وہ عوام کے سامنے رکھ سکے۔ 2017ء میں اقتدار سے رخصتی کے بعد‘ اس کا ایک بیانیہ تھا: ووٹ کوعزت دو۔ یہ بیانیہ ہر طرف زیرِ بحث تھا۔ کسی سیاسی جماعت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کا بیانیہ‘ حمایت اور مخالفت سے قطع نظر ہر مجلس میں موضوعِ سخن ہو۔ اپریل سے مگر نون لیگ اس معاملے میں تہی دامنی کا شکار ہے۔ بیانیہ اب عمران خان کے پاس ہے اور اس کے ساتھ ایک کامیاب ابلاغی حکمتِ عملی بھی۔ اس موقع پر نون لیگ کو مشاہد حسین سید کی شدید ضرورت تھی مگر وہ کہیں نہیں دکھائی دے رہے۔ آخر وہ ہیں کہاں؟ [1]۔

مشاہد حسین سید ایک اور اہم عہدے کیلئے منتخب

سینیٹر مشاہد حسین سید انٹر پارلیمانی یونین کی کمیٹی آف ہیومن رائٹس فار پارلیمنٹیرینز کے نائب صدر منتخب ہوگئے۔

جینوا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کینیا کی ملی اودھیمبو صدر منتخب ہوئیں جبکہ مشاہد حسین سید متفقہ طور پر نائب صدر منتخب ہوئے۔ مشاہد حسین سید سی ایچ آر پی میں ایشیا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ پہلے پاکستانی پارلیمنٹیرین ہیں جنہیں آئی پی یو کی باڈی کے اہم عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔

مشاہد حسین سید کو 2 سال قبل سی ایچ آر پی کا رکن منتخب کیا گیا تھا اور وہ پاکستان پارلیمانی فورم آن فلسطین، کشمیر اور روہنگیا کے کنوینر بھی ہیں۔ مشاہد حسین استنبول میں قائم القدس پارلیمنٹ کے ایگزیکٹو بورڈ میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں[2]۔

ایرانی سفارت پر حملہ ریاستی دہشت گردی ہے/ اقوام متحدہ اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دے

مہر نیوز سے گفتگو میں مسلم لیگ ن پاکستان کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر صہیونی حملے کی وسیع مذمت ہونی چاہئے۔ اقوام متحدہ اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دے۔

شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر صہیونی حکومت کے حملے کو ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر جو حملہ کیا ہے وہ ایک کھلم کھلا جارحیت اور ریاستی دہشت گردی ہونے کے ساتھ ہر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی قوانین میں شام کی سرزمین کو پار کرکے ایک سفارت خانے پر حملہ کرنے سے بڑا کوئی جرم نہیں ہوسکتا۔

پاکستانی سینئر سیاستدان کے مطابق دمشق میں کل ہونے والے حملے سے ثابت ہوگیا کہ اسرائیل اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ریاستی دہشت گرد ہے جو غزہ اور غرب اردن میں فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران پر اسرائیل نے جو حملہ کیا ہے اس کی پوری دنیا میں مذمت ہورہی ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ ایران کے خلاف حملے کے باعث اسرائیل کو ایک ریاستی دہشت گرد ملک قرار دے۔ اس قسم کی کاروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا کیونکہ اگر ایسا کام ہوجائے تو یہ جنگل کا قانون بن جائے گا۔

مشاہد حسین سید نے مغربی ممالک کی دوغلی پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے مغربی ممالک کی منافقت بھی واضح ہوگئی ہے۔ مغربی ممالک روس اور یوکرائن کے معاملے میں بین الاقوامی قوانین کی بات کرتے ہیں لیکن جب مسلمانوں کا مسئلہ آتا ہے خواہ غزہ ہو یا دمشق ہو یا ایرانی سفارت خانے پر حملہ، اس موقع پر اسرائیلی جارحیت کی تائید کرتے ہیں یا خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

پاکستانی سینیٹر اور مسلم لیگ کے رہنما نے کہا کہ ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں اور ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ پوری یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس قسم کی دہشت گردی برداشت نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی ہے [3]۔

آیت اللہ خامنہ ای کا عالمی حالات پر گہرا اور وسیع مطالعہ ہے

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطین اور عالمی حالات پر جامع اور واضح گفتگو کی جس سے ان کے وسیع مطالعے کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی برسی کی مناسبت سے ایران سمیت دنیا بھر میں تقریبات ہوئیں۔ ایران میں مرکزی تقریب تہران میں امام خمینی کے حرم میں ہوئی جس میں رہبر معظم نے خطاب کیا۔ تقریب میں ملکی اور غیر ملکی اہم سیاسی و سفارتی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان سے آنے والے مہمان سینیٹ کی دفاعی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے مہر نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔

رہبر معظم کے خطاب کے بارے میں آپ کیا تجزیہ کریں گے؟

مشاہد حسین سید:" میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے امام خمینیؒ کی برسی میں شرکت کی۔ رہبر معظم نے بہت جامع خطاب کیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا بڑا وسیع مطالعہ ہے۔ انہوں نے تین موضوعات پر گفتگو کی۔ آپ بین الاقوامی حالات سے پوری طرح پر باخبر تھے۔ آپ مبصرین کے بیانات اور تھنک ٹینکس میں ہونے والی باتوں کا گہرا ادارک رکھتے ہیں۔ غزہ پر انہوں نے کئی ریفرنسز دیے اور نام لئے بغیر مبصرین کے بیانات اور تجزئے نقل کئے۔

انہوں نے غزہ کے حوالے سے کہا کہ طوفان الاقصی بہت بڑا واقعہ ہے جس سے دنیا کی سمت تبدیل ہوگی۔ اسرائیلی رژیم کی جو بالادستی تھی اس کی نابودی کا یہ آغاز ہے اور انہوں نے واضح پیغام دیا۔ انہوں نے طوفان الاقصی کے اثرات اور نتائج کا بھی وقتا فوقتا ذکر کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شہید صدر رئیسی کا نام لے کر کافی تعریف کی اور کہا کہ وہ امام خمینیؒ کے سچے شاگرد تھے اور ان کی راہ کے پیرو تھے۔

سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ماضی میں متعدد صدور آئے لیکن صدر رئیسی کا عوام سے رابطہ بہت مستحکم تھا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ انتخابات میں بڑی تعداد میں شرکت کریں۔ انہوں نے آئندہ آنے والے صدر کے حوالے سے بھی کہا کہ ان کے اندر کیا خصوصیات ہونی چاہئے۔ ایسا صدر آنا چاہئے جو ذاتی صلاحیت اور قابلیت کے علاوہ انقلابی خیالات کا حامل ہو۔ لوگوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود رہبر کا مجمع پر پورا کنٹرول تھا اور لوگ وقتا فوقتا نعرے لگارہے تھے۔

اسرائیل کی نابودی کے بارے میں کیا کہیں گے؟

مشاہد حسین سید:" میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے تازہ ترین خبریں دیں اور اسرائیلی تجزیہ کاروں کی باتوں کا حوالہ دیا۔ ان کا یہی پیغام تھا جو سالوں پہلے امام خمینیؒ نے دیا تھا۔ ان کا بڑا جامع مطالعہ ہے۔ انہوں نے امریکہ اور دوسرے میں اسرائیل کی مخالفت میں طلباء کے احتجاج کا ذکر کیا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عیسائیوں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنا شروع کیا ہے"۔

رہبر معظم نے امریکی طلباء کے نام خط لکھا، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

مشاہد حسین سید:" یہ انتہائی امید افزا لیٹر ہے۔آپ پہلے مسلم لیڈر ہیں جنہوں نے امریکی طلباء کی تائید کی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس سے پہلے 1989 میں امام خمینی نے سویت یونین کے سربراہ گوباچوف کے نام خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تمہارا نظام ناکام ہوچکا ہے اس لئے دستبردار ہوجائیں۔ ان کے خط دو سال بعد سویت یونین کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے بھی ایسا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے طلباء کی تعریف کی ہے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے مغربی معاشرے میں امید کی کرن روشن ہوگئی ہے۔ یہ بڑا اچھا اور صائب قدم تھا۔

صدر رئیسی اور وزیرخارجہ شہید اور مسلم ممالک کی پالیسی کے بارے میں کیا کہیں گے؟

مشاہد حسین سید:" شہید صدر رئیسی نے حلف اٹھاتے ہی پیغام دیا تھا کہ ہمسایہ اور مسلم ممالک کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کو فروغ دیں گے جس میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور آذربائیجان وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے آخری دورہ بھی پاکستان کا کیا تھا۔ جہاں ان کو اور ایرانی خاتون اول کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دی گئی۔ اس طرح ان کا دورہ صرف سیاسی شخصیت کا دورہ نہیں تھا بلکہ ایک دانشور کا بھی دورہ تھا۔ ان کا دورہ بہت زبردست تھا۔ دورے کے ایک ہفتے بعد انہوں نے اسلام آباد میں اپنے سفیر علی رضا مقدم کو تہران طلب کرکے دورے کے دوران ہونے والے معاہدوں پر ہونے والی پیشرفت پر رپورٹ طلب کی اور کہا کہ میرے دورے کے دوران ہونے والے معاہدوں پر من و عن عملدرامد ہونا جاہے۔

کیا غزہ میں دوبارہ جنگ بندی ممکن ہے؟

مشاہد حسین سید:" اسرائیل کی چابی امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ جنگ سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ نتن یاہو کو معلوم ہے کہ جنگ بندی کا نتیجہ اس کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ اسرائیل سیاسی، سفارتی، نفسیاتی، اخلاقی اور قانونی طور پر جنگ ہارچکا ہے۔ سات مہینے گزرنے کے باوجود غزہ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف جنگ بندی صدر جوبائیڈن کے لئے بہت ضروری ہے۔ اگر جنگ مزید طول پکڑتی ہے تو جوبائیڈن الیکشن ہار جائیں گے۔ اسرائیل کا ساتھ دینے کی وجہ سے پارٹی کے اندر سے لوگ صدر جوبائیڈن کی مخالفت کررہے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف ایک سوچ پیدا ہورہی ہے۔ اس وجہ سے جوبائیڈن جنگ بندی پر مجبور ہیں [4]۔

فلسطین پاکستانی عوام کے ڈی این اے میں شامل ہے

فلسطین پاکستانی عوام کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن پاکستانی عوام کی ضرورت ہے۔ پاکستانی سینٹ میں دفاع کمیٹی کے سربراہ نے مہر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں جس کا بانی قائداعظم محمد علی جناح ہیں۔ ان کا قول، کردار اور پالیسی ہمارے لئے مقدم اور مقدس ہے اس سے کوئی انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔

پاکستان اور ایران کو اپنے روابط کو مزید مستحکم کرنے کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

سینیٹر مشاہد حسین؛ :" پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے پاکستان اور ایران کے درمیان مفادات، سوچ اور مقاصد کے حوالے سے کوئی بنیادی تنازع، مسئلہ یا تضاد نہیں ہے۔ تو ایک بنیاد ہے پختہ قربت کی جو کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ ایران پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو تسلیم کیا۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے 1979 میں امام خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کو تسلیم کیا۔ تو ایک بنیاد ہے۔ میرے خیال میں ہمیں تین چیزیں کرنی چاہئیں جس سے ہمارے باہمی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا۔

پہلا تو یہ کہ اس سال صدر رئیسی اور پاکستانی وزیراعظم نے جس بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا۔ ان بارڈر مارکیٹس کو مزید وسیع کرنا چاہئے تاکہ ہماری تجارت ہو اور تجارت ریال اور روپے میں ہو یہ بہت ضروری ہے اور اس کو کھول دے اور زیادہ آسانی پیدا کرے۔

دوسرا یہ کہ بارڈر پر کبھی کبھی دہشت گردی ہوتی ہے کبھی پاکستان کی طرف سے کچھ دہشت گرد جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں، فری لانس دہشت گرد حملے کرتے ہیں کبھی ایران کی طرف سے کچھ گمراہ بھائی کاروائی کرتے ہیں تو یہ چپقلش کبھی کبھی ہوتی رہتی ہے اور اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور جو بارڈر منیجمنٹ ہے اس کو فول پروف بنانے کی ضرورت ہے اور جو دہشت گرد پاکستان میں ہیں ایران کی حکومت کے خلاف اور جو دہشت گرد ایران میں ہیں پاکستان کی حکومت کے خلاف میرے خیال میں تعاون کرکے ان دونوں کا صفایا کردینا چاہئے یا ان کو قانون کے تحت ڈیل کرنا چاہے۔

تیسرا اہم ایشو ہے ایران پاکستان پائپ لائن معاہدہ کچھ دس سال پہلے صدر زرداری کے دور میں ہوا تھا۔ ایران نے وہ پائپ لائن بنادی ہے 900 کلومیٹر۔ اب پاکستان معاہدے کے تحت پابند ہے کہ ہم بھی پائپ لائن مکمل کریں تو ہمیں چاہئے کہ پائپ لائن جس سے پاکستان کی معیشت اور عوام کو بہت فائدہ پہنچے گا، اس کو شروع کریں اور اس خوف سے نکلیں کہ پابندیاں لگیں گی۔ اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے اقدام کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے ہمارے عوام کو فائدہ ہے۔ ملکی اور قومی مفاد ہے؛ علاقائی مفاد ہے اور عوام کا بھی بہترین مفاد ہے تو یہ تین چیزیں ضروری ہیں۔

اس کانفرنس کے ذریعے کیا غزہ میں جاری صہیونی جارحیت کو روکنے میں کوئی مدد مل سکتی ہے؟

مشاہد حسین سید ؛ یہ بڑی اہم کانفرنس تھی جس میں تقریبا 70 ممالک شامل تھے اور مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ پاکستانی وفد کی قیادت کررہا تھا اور پاکستان کی ریاست، حکومت اور پارلیمنٹ کی نمائندگی کررہا تھا اور میں نے تقریر بھی کی۔ صدر رئیسی اور وزیرخارجہ امیرعبداللہیان اور دیگر دوستوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ بنیادی طور پر پاکستان اور ایران کا فلسطین کے مسئلے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح شروع دن سے اسرائیل، اس کی توسیع پسندی، جارحیت اور فلسطین پر اس کے قبضے کے مخالف تھے۔

بانی اسلامی انقلاب امام خمینیؒ ان کا بھی شروع دن سے یہی موقف رہا ہے تو ہماری ایک ہماہنگی ہے فلسطین کے مسئلے پر چاہے ایران کی حکومت ہو یا عوام یا پاکستان کی حکومت ہو یا عوام، اس کو آگے لے جانا ہمارا فرض ہے۔ اس کانفرنس سے یکجہتی کا ایک بنیادی پیغام گیا ہے۔ اور یہ بھی پیغام گیا کہ جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست جس کا دارالخلافہ القدس الشریف ہو۔

کوئی پائیدار امن مشرق وسطی میں قائم نہیں ہوسکتا اور اس حوالے سے یہ بھی ہوا کہ اسرائیل کے لئے ایک پیغام گیا کہ یہ دنیا کی اور بین الاقوامی رائے عامہ مسلمان ہو یا غیر مسلم اس میں مسیحی برادری کے لوگ بھی تھے، یہودی برادری کے بھی تھے جن کو اہل کتاب کہتے ہیں۔ اس سے عالمی یکجہتی کا پیغام گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی برپا ہونے کے بعد یہ سب سے اہم بین الاقوامی کانفرنس تھی۔ میں داد دیتا ہوں ایرانی وزارت خارجہ کو اور خاص طور پر میرے دوست ہیں امیر عبداللہیان جو وزیرخارجہ ہیں اور پارلمینٹ میں خارجہ امور کے سربراہ تھے۔

انہوں نے کم عرصے میں جب 23 تاریخ کو کانفرنس ہے اور 25 کرسمس ہوتی ہے اور لوگ مصروف ہوتے ہیں لیکن انہوں نے ماریطانیہ سے ملائشیا، شام سے سری لنکا، آئرلینڈ سے انڈونیشیا تک، پوری دنیا سے لوگ بلایا۔ لوگ آئے اور بات کی میں ان کو مبارک باد دیتا ہوں یہ بہت کامیاب اور اہم کانفرنس تھی۔ میں نے تجویز بھی دی ہے کہ آئندہ کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے اور اس تجویز میں دو تین چیزیں ہیں؛ ایک یہ کہ بین الاقوامی برادری مسلمان ہو یا غیر مسلم ان کو چاہئے کہ اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ فلسطینی عوام پر ظلم اور انسانیت کے خلاف جنایت کی ہے اس کا حساب لینا چاہئے اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جانا چاہئے،

دوسرا یہ کہ میڈیا کے حوالے سے فلسطین کے بارے میں ہمیں مشترکہ بیانیہ اور تعاون کی ضرورت ہے۔

تیسرا یہ کہ ہمارا ایک ہی ہدف ہونا چاہئے یعنی نسل کشی کا خاتمہ، اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کا خاتمہ اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام جس کا دارالخلافہ القدس الشریف ہو۔

فلسطین کے بارے میں پاکستان کا موقف

مشاہد حسین سید میں کسی اور کے بیان پر بات نہیں کرتا بلکہ قائداعظم کی بات کرتا ہوں۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں جس کا بانی قائداعظم محمد علی جناح ہیں۔ ان کا قول، کردار اور پالیسی ہمارے لئے مقدم اور مقدس ہے اس سے کوئی انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ انحراف پاکستانی عوام کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ بڑی سادہ بات ہے کیونکہ ان کا جو قول ہے انہوں نے کشمیر کے بارے کہا تھا کہ پاکستان کا شہہ رگ ہے انہوں نے فلسطین کے بارے میں اور فسلطینی ریاست کے حوالے ناجائز ریاست اسرائیل کو مسترد کیا تھا۔

یہ دونوں ہمارے لئے مقدم ہیں اور میرے خیال میں کوئی بھی پاکستانی ان سے انحراف کا سوچ نہیں سکتا کیونکہ عوام کی خواہشات اور جذبات کے منافی اور پاکستان کے بنیادی قومی مفادات اور قومی سوچ کے خلاف ہوگا اور یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ فلسطین تو پاکستانی عوام کے ڈی این اے میں ہے۔ فلسطین اور کشمیر ہمارے دل کی دھڑکن ہیں [5]۔

اسرائیل سیاسی، اخلاقی، قانونی اور سفارتی طور پر جنگ ہار چکا ہے

اسرائیل سیاسی، اخلاقی، قانونی اور سفارتی طور پر جنگ ہار چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد حسین سید نے غزہ میں نسل کشی پر اپنے اصولی مؤقف کے لیے روس اور چین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سیاسی، اخلاقی، قانونی اور سفارتی طور پر جنگ ہار چکا ہے۔

روس کی حکمراں جماعت متحدہ روس کی میزبانی میں برکس فورم کی دو روزہ تقریب کا انعقاد شمالی کوریا اور جاپان کے قریب واقع روس کی بندرگاہ ولاڈی ووستوک میں ہوا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان 26-2025ء کے دوران سلامتی کونسل کے رکن کے طور پر مظلوموں کے لیے مضبوط آواز ہو گا۔

انہوں نے غزہ میں نسل کشی پر اپنے اصولی مؤقف کے لیے روس اور چین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سیاسی، اخلاقی، قانونی اور سفارتی طور پر جنگ ہار چکا ہے۔ مشاہد حسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل کے حمایتی بھی اپنے دہرے معیار اور غزہ میں نسل کشی میں مدد دینے کی وجہ سے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی اقتصادی اور سیاسی نظام ٹوٹ رہا ہے، برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے ادارے نئے عالمی نظام کے ستون ہوں گے۔

مشابد حسین سید نے کہا کہ نیا عالمی نظام بالادستی، فوجی آمریت اور دہرے معیار کو مسترد کرے گا۔ انہوں نے روس کے صدر پیوٹن کے 14 جون کے اقدام کا خیر مقدم کیا اور عالمی سلامتی کے اقدام کے لیے صدر شی جن پنگ کی کوشش کی بھی تعریف کی [6]۔

حوالہ جات

  1. مشاہد حسین سید کہاں ہیں؟-dunya.com.pk- 13 نومبر 2022ء- 4 جون 2024ء۔
  2. مشاہد حسین سید ایک اور اہم عہدے کیلئے منتخب-jang.com.pk- شائع شدہ 28جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 جون 2024ء۔
  3. ایرانی سفارت پر حملہ ریاستی دہشت گردی ہے/ اقوام متحدہ اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دے-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از 2 اپریل 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 جون 2024ء۔
  4. آیت اللہ خامنہ ای کا عالمی حالات پر گہرا اور وسیع مطالعہ ہے-ur.mehrnews.com- شائع شدہ 4 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 جون 2024ء۔
  5. فلسطین پاکستانی عوام کے ڈی این اے میں شامل ہے/ پاک ایران گیس پائپ لائن پاکستانی عوام کی ضرورت ہے-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از 25 دسمبر 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 جون 2024ء
  6. رفح میں کاروائیاں جلد ختم ہوں گی، واشنگٹن پوسٹ-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 19 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جون 2024ء۔