مندرجات کا رخ کریں

گلگت بلتستان کی نایاب معدنی ذخائر کی صلاحیت

ویکی‌وحدت سے

گلگت بلتستان کے نایاب معدنی ذخائر کی صلاحیت، گلگت بلتستان کے پہاڑوں کے درمیان ایک ایسا خزانہ پوشیدہ ہے جو پاکستان کے ٹیکنالوجیکل اور معاشی مستقبل کو بدل سکتا ہے۔ اس کے گلیشیئرز اور گرینائیٹ کی تہوں کے نیچے نایاب ارضی عناصر (Rare Earth Elements) کی موجودگی کے آثار ملے ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا لیتیھیم، کوبالٹ اور نایاب معدنیات کے حصول کی دوڑ میں مصروف ہے، پاکستان کی یہ شمالی سرحدی پٹی قیمتی معدنیات کی پراسیسنگ کا ایک علاقائی مرکز بن سکتی ہے۔ چین سے زمینی رابطہ، اندرونی روڈ نیٹ ورک، نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ، پن بجلی کی بڑی صلاحیت، اور تعلیم یافتہ و باصلاحیت نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ، گلگت بلتستان سرمایہ کاری کے لیے ایک موزوں مقام بن چکا ہے [1]۔

گلگت بلتستان آج بھی ایسے نوآبادیاتی طرز کے قانونی نظام کے تحت چل رہا ہے

تاہم نایاب معدنیات کی پراسیسنگ ایک بہت مہنگا عمل ہے۔ ٹیکنالوجی سے لے کر ماحولیاتی نظم تک کئی چیلنجز ہیں جن پر قابو پانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری، مہارت اور مؤثر ضابطہ بندی ضروری ہے۔ مگر غیر شفاف طرزِ حکمرانی ان کوششوں میں رکاوٹ ہے، اور گلگت بلتستان آج بھی ایسے نوآبادیاتی طرز کے قانونی نظام کے تحت چل رہا ہے جو نہ سرمایہ کاروں کو تحفظ دیتا ہے اور نہ ہی مقامی آبادی کو ان کے جائز حقوق — اور یہ سب خطے کی غیر متعین سیاسی حیثیت کے باعث مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

گلگت بلتستان کو پاکستان میں آئینی حیثیت حاصل نہیں

گلگت بلتستان کو پاکستان میں آئینی حیثیت حاصل نہیں، اور یہاں کی حکمرانی انتظامی احکامات کے ذریعے چلتی ہے جو سرکاری فائلوں کے ذریعے کبھی بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ موجودہ قانون، گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2018، بظاہر بااختیار بنانے کے لیے جاری کیا گیا تھا، مگر درحقیقت — جیسا کہ سپریم کورٹ نے بھی نشاندہی کی — یہ 2009 کے آرڈر کے ذریعے ملنے والے محدود اختیارات کو واپس لے کر وفاقی کنٹرول بڑھانے کا ایک ذریعہ تھا۔ 2018 کے آرڈر میں تمام اختیارات ایک ہی عہدے میں مرکوز کر دیے گئے ہیں۔

یعنی پاکستان کے وزیر اعظم، جو گلگت بلتستان کونسل کے سربراہ بھی ہیں۔ آرڈر کی دفعہ 60 کے مطابق وزیر اعظم کو بڑے تمام موضوعات پر قانون سازی کا خصوصی اختیار حاصل ہے، جن میں مخصوص معدنیات، صنعتیں، بجلی اور سرمایہ کاری کی پالیسی شامل ہے۔ وہ اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی تعینات یا برطرف کر سکتے ہیں۔ ایسے معدنیات، خصوصاً Rare Earth Elements، جو دفاعی اور ہائی ٹیک سپلائی چین سے جڑے ہوں، ان کے لیے واضح قانون اور دائرۂ اختیار انتہائی ضروری ہے۔ کوئی سنجیدہ سرمایہ کار ایسے خطے میں سرمایہ نہیں لگائے گا جہاں حقوق غیر واضح ہوں، عدالتیں بےاختیار ہوں، اور قوانین کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتے ہوں۔

کونسل کو صرف ایک مشاورتی ادارہ بنا دیا گیا ہے جس کے فیصلے لازمی نہیں۔ دفعہ 118 کہتی ہے کہ گلگت بلتستان کی عدالتیں اس آرڈر کی آئینی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا سکتیں۔ مقامی عدلیہ زیادہ تر نامزد شدہ ہے، جسے انتظامیہ کا ایک بازو بنا دیا گیا ہے۔ عملاً وزیر اعظم گلگت بلتستان اسمبلی کو نظر انداز کرکے نئے ضابطے جاری کر سکتے ہیں یا آرڈر میں من پسند تبدیلیاں کر سکتے ہیں — اور اس دوران مکمل استثنا بھی رکھتے ہیں۔ یہ خود حکمرانی نہیں، بلکہ نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے۔

معدنیات کی صنعت کے لیے یہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے:

  • قانون کسی بھی وقت ختم یا تبدیل ہو سکتا ہے؛
  • معاہدوں کو بااختیار عدالتی تحفظ حاصل نہیں؛
  • مقامی آبادی کی معاوضے اور ماحولیات کے تحفظ سے متعلق حقوق مکمل طور پر وفاقی صوابدید پر ہیں؛
  • لوگوں کے پاس رائلٹی یا روزگار کا قابلِ نفاذ حق نہیں؛
  • اور ایسی قانونی خامیوں کے ساتھ کوئی معتبر عالمی کمپنی سرمایہ نہیں لائے گی۔

پاکستان اس فرسودہ نظام کو برقرار رکھ کر اپنی ہی اسٹریٹجک دلچسپی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ شفافیت اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے بجائے، مرکزی کنٹرول اور غیر یقینی کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس خطرے کو بھانپ لیا تھا اور جنوری 2019 میں ایک تاریخی فیصلہ دیا، جس میں ہدایت کی گئی کہ 2018 کا آرڈر ختم کرکے متفقہ "گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر 2019" نافذ کیا جائے — جو سرمایہ کاروں اور شہریوں دونوں کے لیے درکار قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

اس مسودے میں بنیادی حقوق کا مکمل باب موجود ہے: قانون کے سامنے برابری، اظہار کی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی، جائیداد کا تحفظ اور انصاف تک رسائی۔ کوئی بھی قانون جو ان حقوق سے متصادم ہو، باطل تصور ہوگا۔ اس میں گلگت بلتستان کے شہری کی تعریف بھی واضح کی گئی ہے: یعنی جس کا وہاں ڈومیسائل ہو یا جو وہاں رہائش پذیر ہو — تاکہ زمین اور روزگار کے حقوق سے صرف مقامی لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس میں سپریم کورٹ کو حتمی نگرانی کا اختیار دیا گیا ہے۔

آرڈر میں کوئی بھی ترمیم یا خاتمہ اس وقت تک نافذ نہیں ہو سکتا جب تک اسے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے نظرثانی کے لیے پیش نہ کیا جائے۔ یہ تحفظ سرمایہ کاروں کے لیے استحکام اور پیشگی یقین دہانی فراہم کرتا ہے۔ 2019 کے مسودے میں ایک آزاد اعلیٰ عدلیہ کے قیام اور سماجی و اقتصادی قانون سازی میں جی بی اسمبلی کے اختیارات کو بھی مضبوط کیا گیا ہے۔ یہ صوبائی درجہ نہیں، مگر قانون کی حکمرانی کی طرف ایک بامعنی پیش رفت ضرور ہے۔

سرمایہ کار مستحکم قوانین اور آزاد عدالتوں کا تقاضا کرتے ہیں

یہ مسودہ گلگت بلتستان کے باشندوں کو پاکستانی شہریوں کے برابر حقوق دیتا ہے، آزاد عدلیہ اور سپریم کورٹ تک رسائی کا حق دیتا ہے، اور مضبوط مقامی حکمرانی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ نایاب معدنیات کی تلاش اور پراسیسنگ بھاری سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے، اور اس کی واپسی میں طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ سرمایہ کار مستحکم قوانین اور آزاد عدالتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کے بغیر پاکستان اربوں ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری کھو سکتا ہے — ایسی سرمایہ کاری جو دوسرے ممالک اپنی قانونی یقینیّت اور شفافیت کی بنیاد پر حاصل کر لیں گے۔

اسی طرح گلگت بلتستان کی عوام کو ایک بار پھر اس تاریخ کو دہرانے کا خطرہ ہے جس میں وسائل تو نکالے گئے مگر مقامی لوگ خالی ہاتھ رہ گئے۔ ان کا ماحول تباہ ہو سکتا ہے اور نوجوان بے روزگار رہ جائیں گے۔ 2018 کا آرڈر انہیں اپنے ہی وسائل میں حصہ نہیں دیتا۔ یہ پاکستان کو بھی عالمی ٹیکنالوجی اور توانائی کی کمپنیوں کے درمیان اپنی ساکھ بنانے سے روکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا 2019 کا فریم ورک سرمایہ کاروں اور جی بی کے باشندوں — دونوں — کے لیے ایک قانونی اور قابلِ عمل راستہ فراہم کرتا ہے۔

اب واحد رکاوٹ سیاسی تذبذب اور کنٹرول پر مبنی ماضی کی ذہنیت ہے

عدالت نے واضح کیا کہ اس آرڈر کو نافذ کرنے سے کشمیر تنازع پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ یہ صرف انصاف اور اچھی حکمرانی کو یقینی بناتا ہے۔ اب واحد رکاوٹ سیاسی تذبذب اور کنٹرول پر مبنی ماضی کی ذہنیت ہے۔ گلگت بلتستان کے پہاڑ وہ معدنیات رکھتے ہیں جو پاکستان کو ہائی ٹیک مستقبل کی طرف لے جا سکتی ہیں، لیکن یہاں کی حکمرانی آج بھی نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے۔ 2018 کا آرڈر قانونی طور پر کمزور، سیاسی طور پر فرسودہ اور معاشی طور پر نقصان دہ ہے۔

اگر پاکستان واقعی اپنے نایاب معدنی وسائل کی صلاحیت کھولنا چاہتا ہے تو اسے سپریم کورٹ کی منظور کردہ 2019 کی گورننس ریفارمز کو نافذ کرنا ہوگا۔ تب ہی سرمایہ کار ایک مستحکم قانونی ماحول دیکھیں گے اور جی بی کے عوام کو وہ انصاف ملے گا جس کے وہ دہائیوں سے منتظر ہیں۔ دنیا تیزی سے صاف توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پاکستان مزید پیچھے نہیں رہ سکتا۔ فیصلہ واضح ہے: یا تو اس نوآبادیاتی آرڈر کو دفن کر دیں، یا خطے کی صلاحیت کو۔

اب وقت ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں — جو صوبوں میں حکومتیں چلا رہی ہیں اور کچھ مرکز میں بھی شریک ہیں — اس پر عمل کریں۔ گلگت بلتستان کے لوگ عزت اور شمولیت کے لیے بہت طویل انتظار کر چکے ہیں۔ 2019 کا مسودہ پہلے ہی سپریم کورٹ سے منظور شدہ ہے؛ باقی صرف اس پر عملدرآمد کی سیاسی ہمت درکار ہے۔ اس سے انکار نہ صرف خطے سے غداری ہوگا بلکہ پاکستان کے اسٹریٹجک اور معاشی مستقبل کو بھی نقصان پہنچائے گا[2]۔

حوالہ جات

  1. (انگریزی اخبار ڈان نیوز میں شائع شدہ مضمون کا اردو ترجمہ)افضل علی شگری — 19 نومبر 2025
  2. گلگت بلتستان کے نایاب معدنی ذخائر کی صلاحیت ...-شائع از: 23 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 نومبر 2025ء