سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی

ویکی‌وحدت سے
سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی
پورا نامسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی
دوسرے نامشرف الدین
ذاتی معلومات
پیدائش1942 ء، 1320 ش، 1360 ق
پیدائش کی جگہپاکستان
اساتذہ
  • سید ذیشان حیدر جوادی
  • آیت اللہ باقر الصدر
  • آیت اللہ خوئی
شاگردشیخ محمد حسن جلال الدین
مذہباسلام شیعہ، شیعہ
اثرات
  • امام و امت قرآن میں، دار الثقافہ سے عروۂ الوثقی تک و قرآن سے پوچھو
مناصب
  • دار ثقافہ اسلامیہ پاکستان

سید علی شرف الدین موسوی کی شخصیت کو پاکستان میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ اس دور کے ایک مصلح اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔ آپ قرآن اور اسلام ناب محمدی کی دعوت دینے والے افراد میں سے ہیں۔ آج بھی سید علی شرف الدین موسوی پاکستان میں فرقہ بندی اور مذہبی اختلافات کی بجائے صرف اسلام کی طرف دعوت دینے علماء میں سے ہیں۔ شرف الدین نے انبیاء اور آئمہ علیہم السلام کے بارے میں کتابیں تالیف کی ہیں اورشیعوں کی بعض اہم کا کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

سوانح عمری

شرف الدین کی جائے پیدائش بلتستان کے گاؤں چھورکاہ محلہ علی آباد ضلع شگر کی ہے، جو مشہور پہاڑی چوٹی کے ٹو کے گردونواح کی ایک وادی ہے۔ آپ کا سنہ پیدائش 1360ھ (1942ء) ہے۔ آپ بلتستان کے ایک شیعہ سادات کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قرآن و عربی زبان اور ابتدائی تعلیم اپنے علاقے بلتستان سے حاصل کی۔ آپ نےتقریبا 13 سال آبائی گاؤں میں زندگی کی، ساتھ ہی چوتھی جماعت تک مروجہ تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ اسلامی تعلیم کے حصول کے لیے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔

تعلیم

جامع المنتظر میں

شرف الدین نے 1956 عیسوی میں بلتستان سے لاہور کا سفر کیا اور وہاں جامعہ المنتظر میں داخلہ لیا وہاں پر عربی زبان نیز دیگر دینی علوم کی مزید تعلیم حاصل کی [1]۔

عراق میں

شرف الدین حصول علم کے لیے 1958 عیسوی کو حوزہ علمیۂ نجف اشرف عراق پہنچے وہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ آپ نے وہاں جن علماء سے تعلیم حاصل کی مندرجہ ذیل ہیں:

  • ذیشان حیدر جوادی سے فلسفہ و ادب،
  • آیت اللہ شیخ صدرا البادکوبی۔
  • آیت اللہ سید مسلم حلی سے کفایہ پڑھا۔
  • آیت اللہ شیخ محسن آصفی کے پاس آپ نے منطق اور فلسفہ پڑھا۔
  • شیخ راستی کے پاس مکاسب پڑھا۔
  • آیت اللہ شیخ تسخیری سے اقتصادنا و فلسفتنا کی تعلیم حاصل کی۔
  • آیت اللہ شیخ صادقی تہرانی سے تفسیر قرآن کا درس پڑھا۔
  • آیت اللہ سید کوکبی کے پاس رسائل کا درس پڑھا۔
  • آیت اللہ سید خوئی اور آیت اللہ سید باقر صدر کے درس خارج میں شرکت کی نیز باقر الصدر سے فقہ و اصول اور تدقیق میں استفادہ کیا۔آیت اللہ باقر الصدر سے کافی متاثر ہوئے اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے لیے بعد میں آپ نے کام کیا،نیز باقر الصدر کی تفسیر موضوعی کا اردو ترجمہ کیا [2]۔

اساتذہ

علی شرف الدین نے حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف میں جن علماء و مجتہدین سے دینی تعلیم حاصل کیں ان کے نام یہ ہیں:

  • سید ذیشان حیدر جوادی
  • آیت اللہ باقر الصدر
  • آیت اللہ خوئی
  • آیت اللہ مشکینی
  • آیت اللہ صدرا البادکوبی
  • آیت اللہ سید مسلم الحلی
  • آیت اللہ محسن آصفی
  • آیت اللہ راستی
  • آیت اللہ کوکبی
  • آیت اللہ صادقی تھرانی
  • آیت اللہ محمد علی تسخیری
  • آیت اللہ کاظم حائری
  • آیت اللہ خمینی
  • آیت اللہ آصف محسنی
  • آیت اللہ شیخ عباس قوچانی
  • آیت اللہ حسین حلی
  • آیت اللہ محسن الحکیم [3]۔

پاکستان میں دینی خدمات

علی شرف الدین 1971عیسوی میں اپنے وطن واپس آئے اور بلتستان میں مذھب اثناعشری کی تبلیغ اور دینی علوم کی تدریس میں مشغول ہوگئے اور وہاں نماز جمعہ پڑھانے کا اہتمام بھی کیا اور آپ کی کاوش سے مسجد جامع محمدی قائم کی گئی نیز ایک مدرسہ بنام مدرسہ امام علی کی بنیاد رکھی تاکہ علوم قرآن اور عقائد اسلامی کی تعلیم دی جا سکے۔آپ وہاں 1979 تک موجود رہے [4]۔

ایران کا سفر

1979 عیسوی میں آپ نے اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے قم گئے۔ وہاں حوزہ علمیہ قم میں داخلہ لیا اور آیت اللہ شیخ کاظم حائری کے درس اصول اور آیت اللہ شیخ مشکینی کے درس فقہ میں شرکت کی [5]۔

دارالثقافہ الاسلامیہ کی تاسیس

شرف الدین موسوی تقریباً 14 سال کے بعد جب نجف اشرف سے پاکستان آئے، تو آپ نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی اس کا نام دارالثقافہ الاسلامیہ رکھا۔اس اداراے کی بنیاد 1405 ہجری میں رکھی گئی اور 1420 ہجری میں یہ ادارہ بند ہوگیا، یہ ادارے اپنے قیام سے لے کر اب تک کسی قسم سے بھی مرجعییت کے ذیر تسلط نہیں رہا اور نہ اس ادارے کو چلانے کے لیے کسی قسم کے رقوم شرعیہ کا استعمال کیا گیا [6]۔

مذہب تشیع کی تبلیغ

پاکستان آنے کے بعد ادارہ دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان کے تحت شرف الدین نے مذہب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔ آپ نے شیعہ مسلک کی بہت سی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔ آپ نے پاکستان میں امام مھدی علیہ السلام سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب اور "دعائے ندبہ" کو بھی عام کیا۔ اس کے علاوہ عربی و فارسی کی مندرجہ ذیل کتب کا اردو ترجمہ کیا :

  • شیعت کا آغاز کب اور کیسے،
  • تیجانی سماوی ہو جاو سچوں کے ساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا،
  • فلسفہ امامت،
  • مذہب اہل بیت،
  • شب ہاے پشاور،
  • اہل بیت آیۂ تطھیر کی روشنی میں

اوراس کے علاوہ سینکڑوں کتب کے اردو ترجمہ کا بھی اہتمام کیا [7]۔

انقلاب اور ولایت فقیہ کی تبلیغ

شرف الدین نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا [8]۔

قرآن فہمی مہم

شرف الدین موسوی نے ہی سب سے پہلے کراچی میں قرآن فہمی کے پروگرام کرائے اور قرآن فہمی کے عنوان سے مختلف مقابلے بھی کرائے۔ آپ نے ہی سب سے پہلے کراچی میں دعائے ندبہ کی محافل کا آغاز کیا۔ دروس کا سلسلہ بھی آپ کے ادارے میں طویل عرصے تک جاری رہا- جس کے ذریعے سینکڑوں عاشقان دین مستفید ہوتے رہے [9]۔ آپ نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار یوم القرآن منعقد کیا، تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت، قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔ اس سیمینار میں ملک کے علما و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔ چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا گیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دلائی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔ 1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا، جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں اس کے سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا گیا۔[10]۔

امام حسین اور عزاداری

شرف الدین نے نہ صرف عزاداری اور قیام امام حسین علیہ السلام سے متعلق کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔ چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران میں آپ کو عزاداری میں موجود خرافات کا علم ہوا چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے :

  • اللولو والمرجان کا اردو ترجمہ "آداب اہل منبر"،
  • آیت اللہ یزدی کی "حسین شناسی" جیسی کتب کے ترجمے شایع کیں۔

اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ:

  • "عزاداری کیوں"،
  • "انتخاب مصائب امام حسین"،
  • "قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ"،
  • "تفسیر عاشورا" وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔

آپ نے سمجھ لیا کہ مذہب تشیع میں رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چنانچہ آپ نے

  • عقائد اور رسومات شیعہ،
  • شیعہ اہل بیت
  • "موضوعات متنوعہ" پر کئی کتابیں لکھی۔

اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں [11]۔

شیعہ علی

شرف الدین نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں محرم 2013 م میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔ اس سے پہلے بھی شیعہ اہل بیت نامی کتاب میں اور حالیہ کتاب دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی میں بھی شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کرایا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی شیعہ علی کا نظریہ اپنی کتاب "تشیع علوی و تشیع صفوی" میں پیش کر چکے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر موسی الموسوی نے بھی اپنی کتاب "الشیعہ و التصحیح" میں شیعوں کو "علی کے شیعہ" اور خرافاتی میں تقسیم کیا ہے۔ ابو الفضل برقعی قمی اور حیدر علی قلمداران بھی اپنے نام کے ساتھ "شیعہ اثنا عشری جعفری" کی بجائے "شیعہ علی"لکھتے تھے [12]۔

مخصوص نظریات اور عقائد

شرف الدین امامت کو نص قرآنی نہیں مانتے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ نص وہ ہوتی ہے جس میں کوئی ابہام نہ ہو اور جب امت کے ایک بڑے طبقے نے غدیر خم کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ سننے کے باوجود مولا کے معنوں میں اختلاف کیا تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ نص نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ علی ابن ابی طالب ہمیشہ اپنی فضیلت کو معیار بنا کر خلافت پر اپنے حق کو ثابت کیا ہے اور نص کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے علاوہ علی ابن ابی طالب کا خلافت کی نامزدگی کے لیے ہونے والے ہر طریقہ کار میں شامل ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے۔ اہلیبیت کے خاندان کے مختلف لوگوں نے امامت کا دعویٰ کیا [13]۔ اس کے علاوہ شرف الدین تقلید غیر مشروط کے مخالف ہیں:

  • توسل کے مخالف ہیں۔
  • نکاح متعہ کو غلط اور حرام سمجھتے ہیں۔
  • تقیہ کو درست نہیں سمجھتے۔
  • امام مہدی سے متعلق روایات کو صحیح نہیں سمجھتے۔ بلکہ ایسی تمام روایات کو افسانہ پردازوں اور قصہ سازوں کی گھڑی گئی روایات قرار دیتے ہیں۔۔ اور حالیہ برسوں میں سید علی شرف الدین نے عقیدہ مہدویت پر سب سے زیادہ تنقید کی ہے اور اپنی کتاب خطداھیون صفحہ 34 سے صفحہ 50 تک روایات مہدی اور وجود مہدی کو غیر اسلامی،باطل ،غیر قرآنی اور مفاد پرستوں کی اختراع و کارنامہ قرار دیا۔ [14]۔
  • قبروں پہ تعمیرات کو غلط قرار دیتے ہیں۔
  • فرقہ کی بجائے صرف اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔
  • توحید پر زور دیتے ہیں۔
  • خلفاءراشدین کے دور کو بہترین اسلامی دور قرار دیتے ہیں۔
  • خلفاء و اصحاب رسول پر سب و شتم اور تبراء و لعن کو جائز نہیں سمجھتے۔
  • علم، ذوالجناح، زنجیر زنی اور دیگر رسومات عزاداری کو بھی غیر شرعی سمجھتے ہیں۔
  • تربت حسینی یا ٹکیے پر سجدہ کرنا ان کے خیال میں ضروری نہیں ہے۔ اس لیے وہ اب کارپیٹ یا قالین یا جائے نماز پر ہی سجدہ کرتے ہیں [15]۔

چند احادیث کے بارے میں شرف الدین کا نظریہ

سید علی شرف الدین بہت سی احادیث کو جعلی سمجھتے ہیں جیسے:

  • اول ما خلق اللہ نوری و نور علی۔
  • اولنا محمد و اوسطنا محمد و آخرنا محمد و کلنا محمد۔
  • آسمان و زمین کو اللہ تعالی نے آل محمد کے لیے خلق کیا ہے،یہ حدیث کساء کے نام سے بھی مشہور ہے۔
  • من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔
  • علی نفس رسول اللہ ہیں۔
  • اہل بیت کے لیے صدقہ حرام ہے۔
  • ائمہ نوری مخلوق ہیں۔
  • ائمہ محدث ہیں۔
  • حضرت علی ابراہیم و موسی و عیسی کے ساتھ تھے۔
  • ذکر علی عبادت ہے۔
  • علی ؑ سے منسوب جملہ "میں تیری عبادت جہنم کے خوف اور جنت کی لالچ میں نہیں کرتا ہوں۔"
  • علی ؑ لاکھوں حروف جانتے تھے۔
  • نبی ص نے علی ؑ کو ہزار کلمات سکھائے ہیں۔
  • نبی ص نے مجھے ہزار باب سکھائے،ہر باب سے ہزار باب کھل گئے۔
  • انا مدینۃ العلم و علی بابھا۔
  • سلونی قبل ان تفقدونی۔
  • علی ع عالم غیب و غیوب ہیں۔
  • حضرت علی ؑ کا بتوں کو توڑنا۔
  • انا و علی من نور واحد۔
  • چہرہ علی ؑ کو دیکھنا عبادت ہے۔
  • علی ؑ کے لیے سورج کا پلٹانا۔
  • علی ؑ کعبہ میں پیدا ہوئے۔
  • امامت افضل از نبوت ہے۔
  • لولاک لما خلقت الافلاک [16]۔

علمی آثار

آغا سید علی شرف الدین موسوی کی لکھی گئی کتابوں کے نام یہ ہیں۔

قرآن

  • قرآن سے پوچھو
  • انبیا قرآن(محمد مسطفی)
  • مکتب تشیع اور قرآن
  • سوالات و جوابات معارف قرآن
  • قرآن اور مستشرقین
  • قرآن میں مذکر و مونث
  • قرآن میں شعر و شعرا
  • انبیا قرآن(آدم، نوح، ابراہیم)
  • انبیا قرآن(موسی، عیسی)
  • قرآن میں امام و امت

عاشورا اور امام حسین علیہ السلام

  • تفسیر عاشورا
  • تفسیر سیاسی قیام امام حسین
  • قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزہ
  • اسرار قیام امام حسین
  • عزاداری کیوں؟
  • انتخاب مصائب۔ ترجیحات-ترمیمات
  • مثالی عزاداری کیسے منائیں؟
  • عنوان عاشورا
  • قیام امام حسین غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
  • معجم کتب مولفین امام حسین

دینیات

  • دراسات فرق و مذاھب
  • ملاحظات خاطفہ بر پایان نامہ صاخبۃ
  • مذھب چھورکا
  • مدخل دراسات فی الفرق و المذاھب
  • خطداحیون کا اسماعیلیوں کا اغوا
  • معجم حج والحجاج
  • موضوعات متنوعہ
  • باطنیہ
  • شیعہ اہل البیت علیہ السلام

تاریخ اسلامی

  • فدک وما ادراک ما الفدک
  • مدخل الدراسات تاریخ اسلامی
  • دور رشد و رشادت
  • شاہراہ مسکونی کے مسافر
  • سلاطين عضوض مسلمين
  • سلاطين عضوض مسلمين۔

اجتماعیات

  • قرآن میں شعر و شعراء
  • صحیفات سودا
  • سیکولرازم دخت الحادازم
  • اعیاد مسلمین میں اسلام نہیں
  • دارالثقافۃ الاسلامیہ سے عروۃ الوثقی
  • بک گئے
  • علماء و دانشوران بلتستان
  • اخبار سودا
  • فقیہ غلات [17]۔

متفرق موضوعات

  • عقائد و رسومات شیعہ
  • مسجد
  • آمریت کے خلاف ائمہ طاہرین کی جدو جہد
  • افق گفتگو
  • مدارس دینی و حوزات علمیہ پر نگارشات
  • ہماری ثقافت و سیاست کیا ہے؟اور کیا ہونی چاہیے؟
  • شکوؤں کے جواب
  • مجلہ اعتقاد
  • شکوہ جواب شکوہ
  • فصل جواب
  • جواب سے لاجواب
  • عوامی عدالت کے شمارے
  • مجلہ فصلنامہ عدالت
  • موضوعات متنوعہ
  • تعدد قرآت مترادف تحریفات
  • فرقوں میں جذور شرک و الحاد
  • ادوار تاریخ اسلام
  • دور رشد و رشادت
  • غشوانہ فرمان شگری

حوالہ جات

  1. سید علی شرف الدین موسوی،امام و امت قرآن میں، 1423ق، ص50
  2. سید علی شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص35
  3. سید علی شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص36
  4. سید علی شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص36
  5. سید علی شرف الدین موسوی، دار الثقافۂ سے عروۂ الوثقی تک، 1422ق، ص34
  6. سید علی شرف الدین موسوی، دار الثقافہ سے عروۂ الوثقی تک، 1435ق، ص60
  7. سید علی شرف الدین موسوی، امام امت قرآن میں، 1420ق، ص98
  8. فرمان علی سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذہبی، 13400ش، 134
  9. سید علی شرف الدین موسوی، انبیاء قرآن، 1423ق، ص290
  10. سید علی شرف الدین موسوی، اٹھو قرآن کا دفاع کرو، 1420ق، ص40
  11. سید علی شرف الدین موسوی، مثالی عزاداری کیسے منا‏‎ئیں؟ 1423ق، ص28
  12. سید علی شرف الدین موسوی، دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی، 1425ق، ص23
  13. سید علی شرف الدین موسوی، غشوانہ فرمان شگری، 1444ق، ص29
  14. سید علی شرف الدین موسوی، خطداحیون، ص 34
  15. ملک صفدر حسین ڈوگر، صحیفۂ حقائق، ج2، ص34
  16. سید علی شرف الدین موسوی، غشوانہ فرمان شگری، 1444ق، ص29
  17. ویٹ سائٹ،sibghatulislam.com