فلسطین
فلسطین ایک عرب اسلامی ملک ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ ملک ایک چھوٹی سی زمین ہے جو مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کے مشرق میں واقع ہے اور لبنان، شام، مصر، اردن کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھتا ہے اور ایشیا، افریقہ اور یورپ کے تینوں براعظموں کو ایک پل کی طرح ملاتا ہے۔ فلسطین کو عرب دنیا کا دل اور مشرق و مغرب کے درمیان ربط کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس سرزمین کو مشرق وسطیٰ اور عرب اسلامی ممالک کے درمیان اسٹریٹجک مقام حاصل ہے۔ فلسطین، ایک اور معنی میں، فلسطین کے موجودہ ملک سے وسیع ہے اور اس میں لبنان اور شام کے کچھ حصے شامل ہیں۔
تاریخ
جس زمانہ میں لوگ ایک جگہ رہنے کی بجائے تلاش معاش میں چل پھر کر زندگی بسرکیا کرتے تھے۔ عربستان سے قبیلہ سام کی ایک شاخ جو کنعانی یا فونیقی کہلاتی تھی، 2500قبل مسیح میں یہاں آ کر آباد ہو گئی۔ پھر آج سے 4000سال پہلے یعنی لگ بھگ 2000 قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ار سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد تھا ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے اسمعٰیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام، کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔
الہیٰ انبیاء
ان علاقوں میں عبرانی قومیت کے لوگوں کی آمد کا پتہ ولادت مسیح سے لگ بھگ 1100 سال قبل میں ملتا ہے۔ حضرت سیموئیل جو اللہ کے نبی تھے، پہلے اسرائیلی بادشاہ تھے۔ انہوں نے کافی عرصہ حکومت کی اور جب وہ بوڑھے ہو گئے تو انہوں نے اللہ کے حکم سے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کے پارہ دوم میں سورہ بقرہ کی آیات 247 تا 252 میں ملتا ہے۔
حضرت طالوت علیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 1020 قبل مسیح تک حکمرانی کی۔ اس دوران میں انہوں نے جنگ کر کے جالوت کو مغلوب کیا اور اس سے تابوت سکینہ واپس لیا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے۔
حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔ انہوں نے پہلے الخلیل اور پھر بیت المقدس میں اپنا دار الحکومت قائم کیا۔ بیت المقدس دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر مقدس اور محترم ہے۔ اس شہر کا موجودہ نام ”یروشلم“ حضرت داؤد علیہ السلام نے رکھا تھا۔
حضرت داؤدعلیہ السلام نے 1004 قبل مسیح سے 965 قبل مسیح تک 33 سال حکمرانی کی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے 965 قبل مسیح میں حکومت سنبھالی جو 926 قبل مسیح تک 39 سال قائم رہی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست دو حصوں سامریہ اور یہودیہ میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں ریاستیں ایک عرصے تک باہم دست و گریبان رہیں۔
598 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کر کے یروشلم سمیت تمام علاقوں کو فتح کر لیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو گرفتار کر کے بابل میں قید کر دیا۔ 539 قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رہا کر کے لوٹا ہوا مال واپس یروشلم بھیج دیا۔
332 قبل مسیح میں یروشلم پر سکندراعظم نے قبضہ کر لیا۔ 168 قبل مسیح میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن اگلی صدی میں روما کی سلطنت نے اسے زیر کر لیا۔ 135 قبل مسیح اور 70 قبل مسیح میں یہودی بغاوتوں کو کچل دیا گیا۔ اس زمانے میں اس خطے کا نام فلسطین پڑ گیا۔
فلسطین کی فتح
اگست 636 کو عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کر لیا۔ یہ قبضہ پرامن طریقہ سے عمل میں آیا۔ 463 سال تک یہاں عربی زبان اور اسلام کا دور دورہ رہا۔ تاہم یہودی ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عرب سلجوق، مملوک اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ رہا۔ 1189 میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917 میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔
یہودیوں کا قبضہ
چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔ فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی 17 ویں صدی کے اواخر میں شروع ہو گئی۔ 1930، 1920، 1921، 1929 اور 1936 ءمیں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اِس علاقے میں آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ سلسلہ جاری رہا۔
- 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948 میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کر دیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں اور اضافہ ہو گیا۔
- 1949میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کیے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی۔ تاہم ان دونوں عرب ممالک نے فلسطینیوں کواٹانومی سے محروم رکھا۔
- اکتوبر 1958 کو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6 نومبرکو جنگ بندی عمل میں آئی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان میں ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19مئی 1967ءتک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلالیے گئے۔ مصری افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور خلیج عقبہ میں اسرائیلی جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی۔
- 5جون 1967 کو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی۔ اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے علاوہ صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشرقی یروشلم کا علاقہ، شام کی گولان کی پہاڑیاں اور غرب اردن کا علاقہ بھی اپنے قبضہ میں کر لیا۔ 10 جون کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی اور معاہدے پر دستخط ہو گئے۔
- 6 اکتوبر 1973 کو یہودیوں کے مقدس دن ”یوم کپور“ کے موقع پر مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شامیوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور نہر سویزعبور کر کے مصر پر حملہ آور ہو گیا۔ 24 اکتوبر 1973ءکو جنگ بندی عمل میں آئی اور اقوام متحدہ کی امن فوج نے چارج سنبھال لیا۔ 18 جنوری 1974ء کو اسرائیل نہر سویز کے مغربی کنارے سے واپس چلا گیا۔
- 3 جولائی 1976 کو اسرائیلی دستوں نے یوگنڈا میں انٹی بی کے ہوائی اڈے پر یلغار کر کے 103 یرغمال شدہ افراد کو آزاد کرا لیا جنہیں عرب اور جرمن شدت پسندوں نے اغواءکر لیا تھا۔
- نومبر 1977ءمیں مصر کے صدر انور السادات نے اسرائیل کا دورہ کیا اور 26 مارچ 1979ءکو مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کر کے 30 سالہ جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہو گئے۔ (تین سال بعد 1982ءمیں اسرائیل نے مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ واپس کر دیا۔)
- جولائی 1980ءمیں اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قراردے دیا۔ 7 جون 1981ءکو اسرائیلی جیٹ جہازوں نے بغداد کے قریب عراق کا ایک ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔ 6 جون 1982ءکو اسرائیلی فوج نے پی ایل او کی مرکزیت کو تباہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کر دیا۔ مغربی بیروت پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے بعد پی ایل او نے شہر کو خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اسی سال 14 ستمبر کو لبنان کے نومنتخب صدر بشیر جمائل کو قتل کر دیا گیا۔
- 16 ستمبر لبنان کے مسیحی شدت پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس سفاکانہ کارروائی پر اسرائیل کو دنیا بھر میں شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا
فلسطین میں حکومت کی نوعیت
آج فلسطین میں فلسطینی اتھارٹی کے نام سے ایک تنظیم مختلف امور کے انتظام کی ذمہ داری سنبھال رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی تاریخ 1939 کی ہے۔ اس وقتتنظیم آزادی فلسطین کے رہنما یاسر عرفات الفتح پارٹی کے راہنما محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پرز کے درمیان اسرائیلی اعلامیہ کے نام سے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔
اس معاہدے کخلاصہجہ یہ نکلا کہ اسرائیل پانچ سال کے اندر غزہ اور اریحا جیسے علاقوں سے دستبردار ہو جائے گا اور ان علاقوں کی حکمرانی خود مختار تنظیموں کے حوالے کر دے گا۔
تاہم 1995 کے آخر میں اسرائیل نے ایک بار پھر اپنے زیر تسلط علاقوں کی طرف واپسی کی اور متفقہ علاقے کا صرف 27 فیصد حصہ تنظیم کے حوالے کر دیا، جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ صورت حال میں تبدیلی آئی اور اس وقت یاسر عرفات کی حکومت تھی۔ فلسطینیوں کا حق جیتنے کے قابل، اس نے ویٹو جیت لیا، اور 2003 میں فلسطینی کونسل میں احتجاج کے بعد، عرفات نے وزیر اعظم کا عہدہ بنانے کے لیے ویٹو کا استعمال کیا، اور یہ عہدہ الفتح پارٹی کے محمود عباس کے پاس چلا گیا۔
مضبوط حمایت نہ ملنے کی وجہ سے محمود عباس مختصر عرصے میں اس عہدے سے محروم ہو گئے اور وہ مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔ 2004 میں یاسر عرفات کی موت کے بعد 2005 میں نئے انتخابات ہوئے، اس بار 62% فلسطینی عوام نے محمود عباس کو ووٹ دیا اور جنوری 2005 میں فلسطینی قانون ساز کونسل کے انتخابات بھی ہوئے۔44.45% ووٹ حاصل کر کے، وہ ووٹوں کی اکثریت تک پہنچ گئے اور اسماعیل ہنیہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔