ابو طالب

ویکی‌وحدت سے
ابو طالب
ابوطالب.jpg
تاریخ ولادتحضرت محمد کی ولادت سے 35 سال پہلے
جائے ولادتمکہ
القاب
  • سیدالعرب
  • شیخ بطحا
  • مومنِ قریش
والد ماجدعبد المطلب
والدہ ماجدہفاطمہ بنت عمرو
اولاد
  • جعفر الطیار
  • عقیل ابن ابی طالب علی ابن ابی طالب
  • طالب ابن ابی طالب
  • ام ہانی بنت ابی طالب
  • جمانہ بنت ابی طالب
مدفنمکہ، قبرستان ابوطالب (قبرستان حُجون)

ابو طالب عبد مناف بن عبد المطلب بن ہاشم اور ابو طالب کے نام سے مشہور تھے۔ آپ امام علی علیہ السلام کے والد، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا اور مکہ میں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے۔ رسول خدا(ص) اپنی والدہ آمنہ بنت وہب اور دادا عبدالمطلب کی وفات کے بعد آٹھ سال کی عمر سے آپ کے زیر کفالت رہے۔ آپ نے ایک بار شام اور بصرہ کا تجارتی سفر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی ہمراہ لے گئے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر بارہ برس کے لگ بھگ تھی۔ کچھ مدت کے لیے آپ سقایۃ الحاج کے عہدے پر فائز رہے اور اپنے والد عبد المطلب کی وفات کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی سر پرستی قبول کی اور آنحضرت (ص) کی جانب سے نبوت کے اعلان کے بعد ان کی مکمل حمایت کی۔ اور جب تک زندہ رہے مشرکین اور کفار کو جرأت نہ ہوئی کہ حضرت رسول(ص) خدا پہ کسی قسم کی سختی کر سکیں۔ آپ کے القاب میں سیدالعرب ، شیخ بطحا اور مومنِ قریش زیادہ مشہور ہیں۔

خاندان

آپ کے والد کا نام عبدالمطلب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبد المطلب کے واحد سگے بھائی تھے چونکہ دیگر کی والدہ مختلف تھیں۔

قابل قبول روایتیں

ابو طالب اپنی شخصیت کی عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے میں دین ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ تھے. ان کی قابل قبول روایتیں: انہوں نے عصر جاہلیت میں ایسی نیک روایات کی بنیاد رکھی جن کو کلام وحی کی تأئید حاصل ہوئی. (2) حضرت ابوطالب علیہ السلام «قسامہ» کے بانی ہیں جو اسلام کے عدالتی نظام میں مورد قبول واقع ہوا[1]۔

قبولیتِ اسلام و ایمان

ابوطالب بن عبد المطلب کے اشعار

ابو طالب شاعر تھے اور ان کے بے شمار اشعار تاریخ میں ملتے ہیں۔ ان کا ایک قصیدہ بہت مشہور ہے جس کا ابن کثیر نے تذکرہ و تعریف کی ہے۔ یہ سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے اور تمام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح و ثنا میں ہے۔ ایک شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے : میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا سچا جانثار ہوں۔ اور انہیں اللہ کا سچا رسول مانتا ہوں۔

خدا نے انہیں دنیا کے لیے رحمت قرار دیا ہے۔ کوئی ان کا مثل نہیں ہے۔ ان کا معبود ایسا ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ان سے غافل نہیں ہوتا۔ وہ ایسا ممتاز ہے کہ ہر بلندی اس کے آگے پست ہے۔ اور اس کی حفاظت کے لیے ہم نے اپنے سینوں کو سپر بنا لیا ہے۔ خدا اس کو اپنی حمایت و حفاظت میں رکھے اور اس کے نہ مٹنے والے دین کو دنیا پر غالب کر دے۔ تاریخ ابوالفداء میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔ ابوالفداء کے دیے ہوئے اشعار میں سے ایک کا ترجمہ یہ ہے: بخدا کفارِ قریش اپنی جماعت سمیت تم (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں زمین میں دفن نہ ہوجاؤں۔

اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم کو جو خدا کا حکم ہے اس کا بے خوف اعلان کرو۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تم نے مجھ کو اللہ کی طرف دعوت دی ہے۔ مجھے تمہاری صداقت و امامت کا محکم یقین ہے اور تمہارا دین تمام مذاہبِ عالم سے بہتر اور ان کے مقابلے میں کامل تر ہے۔ سیرت ابن ہشام میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔ سیرت ابن ہشام میں کچھ شعر ایسے ہیں جس میں حضرت ابوطالب نے ابولہب کو متنبہ کیا ہے کہ اسے عرب کے میلوں اور محفلوں میں برا کہا جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی کئی اشعار سیرت ابن ہشام نے نقل کیے ہیں۔

رسول خدا(ص) کی تربیت اور نگہداشت

ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازیں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل میں رسالت الہیہ کے حامل ٹہریں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کی پرورش و تربیت اور حفاظت کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور اس راستے میں انہوں نے قربانی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کیں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں میں بھی آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا [2]۔

شریک حیات کو ہدایت

سرپرستی کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: " یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں جو میرے نزدیک میری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں؛ خیال رکھنا! مبادا کوئی ان کو کسی چیز سے منع کرے جس کی یہ خواہش کریں" اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بھی ایسی ہی تھیں اور ان کو پالتی رہیں اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی رہیں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھیں۔

رسول خدا(ص) کی سرپرستی

حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ السلام کی سرپرستی آپ کے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ذمہ قرار پائی، چونکہ ایک تو یہ کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ دونوں ایک ہی ماں (حضرت فاطمہ بنت عمرو مخذومی بن عائذ) سے تھے۔ اس نسبت کی بناء پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بہت زیادہ محسوس کرتے تھے [3]۔

ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازیں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل میں رسالت الہیہ کے حامل ٹہریں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کی پرورش و تربیت اور حفاظت کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور اس راستے میں انہوں نے قربانی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کیں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں میں بھی آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا [4]۔

اور دوسرے یہ کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام سخاوت اور نیک امور کے انجام دینے میں بہت ہی زیادہ مشہور و معروف تھے۔ بہرحال حضرت ابوطالب علیہ اسلام خاندان عبدالمطلب علیہ السلام کے آٹھ سالہ یتیم کو اپنے گھر لائے اور آپ اور آپ کی شریکہ حیات حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اور آپ کے بچے حضرت علی ،جعفر اور عقیل علیہم السلام پورے ذوق و شوق کے ساتھ آپ کی خدمت میں مشغول رہے [5]۔

رسول خدا (ص) کی حفاظت و حمایت

قریش کے تمام مشرک قبائل نے شعب ابی طالب میں خاندان رسالت اور مسلمانوں کو مکہ سے جلاوطن کیا اور شعب ابی طالب میں ان کی ناکہ بندی کردی. یہ ناکہ بندی معاشی، سماجی اور سیاسی ناکہ بندی تھی. شعب ابی طالب اس وقت شہر مکہ سے باہر واقع ایک درہ تھا. یہ ناکہ بندی شدید ترین اقدام کے طور پر قریش کی طرف سے مسلمانوں پر ٹھونسی گئی تھی اور اس دوران پیغمبر اکرم (ص) اور آپ (ص) کے ہمراہ دیگر مسلمان و مؤمنین صرف حرام مہینوں اور ایام حج میں بیت اللہ الحرام آسکتے تھے اور حج اور عمرہ بجالاسکتے تھے۔

اور اسی دوران تبلیغ اسلام بھی کیا کرتے تھے. اس دوران صرف حضرت ابوطالب علیہ السلام تھے جو پیغمبر کی حفاظت کرتے اور رات بهر جاگتے اور نبی اکرم (ص) کے سونی کے مقام کو تبدیل کرکے اپنے بیٹے علی علیہ السلام کو آپ (ص) کے بستر پر لٹایا کرتے تا کہ اگر دشمن حملہ کرنا چاہے تو نبی (ص) کی بجائے علی قربان ہوجائیں اور ایسا عمل صرف مؤمن قریش ہی کے بس میں تھا جو اپنے ایمان کی بنیاد پر بیٹے کو بآسانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے[6]۔

مگر علی علیہ السلام بھی اس قربانی پر سمعاً و طاعتاً راضی و خوشنود تھے. قریش نے ایک میثاق تحریر کی تھی جس پر ناکہ بندی کے حوالے سے متعدد نکات درج تھے اور یہ عہدنامہ کعبہ کی دیوار پر ٹانکا گیا تھا جسے ایک دیمک نے نیست و نابود کردیا تو ابوطالب علیہ السلام نماز شکر بجالانے بیت اللہ الحرام میں حاضر ہوئے اور وہیں انہوں نے مشرکوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مخالفین کو بددعا دی اور ان پر نفرین کردی [7]۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو سزا

ایک مرتبہ حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ و آلہ و سلم مسجد الحرام مین نماز ادا کررہے تھے کہ قریشی مشرکین نے اونٹ کی اوجڑی آپ (ص) کے جسم مبارک پر پھینک دی اور آپ (ص) کے کرتے کو آلودہ کیا. رسول اللہ (ص) حضرت ابوطالب کے پاس آئے اورفرمایا: چچاجان! آپ اپنے خاندان میں میرے رتبے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ ابوطالب نے کہا: پیارے بھتیجے ہؤا کیا ہے؟

رسول اکرم (ص) نے ماجرا کہہ سنایا. ابوطالب (ع) نے فوری طور پر بھائی حمزہ کو بلایا اور شمشیر حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ایک اوجڑی اٹھالاؤ اور یوں دونوں بھائی قوم قریش کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نبی اکرم (ص) بھی ان کے ہمراہ تھے. کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے قریش کے سرداروں کے پاس پہنچے. جب انہوں نے ہاشمی بھائیوں اور رسول اللہ (ص) کو اس حالت میں دیکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے.

مؤمن قریش نے بھائی حمزہ کو ہدایت کی کہ اوجڑی کو قریشیوں کی داڑھیوں اور مونچھوں پر مل لیں. حمزہ نے ایسا ہی کیا اور آخری سردار تک کے ساتھ ہدایت کے مطابق سلوک کیا. اس کے بعد ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پیارے بھتیجے یہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درمیان۔(10) یوں قریشی مشرکین کو اپنے کئے کی سزا ملی اور قریش کے سرغنوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ «جب تک ابوطالب زندہ ہیں رسول اللہ (ص) کو حصول ہدف سے روک لینا، ممکن نہیں ہے [8]۔

ایمان ابو طالب

تمام علمائے شیعہ اور اہل سنت کے بعض بزرگ علما مثلاً "ابن ابی الحدید" شارح نہج البلاغہ اور"قسطلانی" نے ارشاد الساری اور "زینی دحلان" نے سیرہٴ حلبی کے حاشیہ میں حضرت ابوطالب کو مومنین اور اہل اسلام میں سے بیان کیا ہے،اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ہمیں اس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ہیں جن کے مطالعہ کے بعد ہم گہرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ حضرت ابوطالب پرایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تہمتیں کیوں لگائی گئیں؟!

جس نے اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا اور بار ہا خوداپنے فرزند کو پیغمبر اسلام کے مقدس وجود کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنادیا !!یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس پر ایسی تہمت لگائی جائے؟!۔ یہی سبب ہے کہ تحقیق کرنے والوں نے دقت نظر کے ساتھ یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابوطالب کے خلاف، مخالفت کی لہر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ہے جو "شَجَرةُ خَبِیثَةٌ بَنِی اٴُمیّہ" کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداہوئی ہے۔

کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ہی نہیں تھی جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی ہو، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ہے ایسے ناجواں مردانہ حملوں سے نہیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ ہونے کے علاوہ حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نہیں تھا ! ہم یہاں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواہی دیتے ہیں کچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بیان کرتے ہیں تفصیلات کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہا، پھر گہری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔” بحیرا“ نے کہا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ہے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہیں [9]۔

اور ہر مرتبہ کہتے تھے: پروردگارا! اس بچہ کے حق کا واسطہ ہم پر بابرکت بارش نازل فرما ۔زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا جس سے خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجد الحرام ہی ویران نہ ہوجائے"۔ اس کے بعد شہرستانی کا کہنا ہے کہ یہی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے[10]۔

اہل سنت پیغمبر اکرم(ص) کے مشن کو آگے بڑھانے میں جناب ابوطالبؑ کے فیصلہ کن کردار کو تسلیم کرتے ہیں

ابو طالب تحقیقاتی اور ثقافتی مرکز کے سربراہ نے کہا کہ بعض اس طرح سے سفسطہ کرتے ہیں کہ چونکہ رسول خدا نے جناب ابوطالب کے جنازے پر نماز نہیں پڑھائی لہذا وہ مسلمان نہیں تھے۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک پیغمبر مکہ میں تھے نماز میت کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا۔ نماز میت کا حکم پیغمبر اکرم کی مدینہ ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے۔ جناب ابوطالب(ع) حامی پیغمبر اعظم(ص) بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے پچیسویں علمی نشست “جناب ابوطالب (س) کے بارے میں تحقیقی اور علمی رہنمائی” کے زیر عنوان ورچوئل طریقے سے منعقد ہوئی۔

محمد رضا محقق زارع خورمیزی نے اس علمی نشست کے آغاز میں جناب ابوطالب کی حیات طیبہ پر روشنی ڈولتے ہوئے کہا: آپ نے 30 سال تک پیغمبر اکرم کی بھرپور حمایت کی اور 10 سال مومن قریش ہونے کے عنوان سے کردار پیش کیا۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر جناب ابوطالب کے چہرے پر نقاب ڈال دی گئی۔ اور یہ ایسے حال میں ہے کہ اسلام کے تئیں ان کی حمایت اور خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ جنہیں یہاں بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جناب ابوطالب نے شعب ابی طالب میں محاصرے کے تین سال تک مزاحمت کی اور رسول خدا (ص) کی پشت پناہی کرتے رہے۔ یہاں پر جن اہم موضوعات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے وہ ان بحرانی حالات اور اقتصادی پابندیوں کے خلاف مزاحمت ہے کہ جو جناب ابوطالب نے ان تین سالوں میں کی۔

محمد مہدی صباحی کاشانی نے ابوطالب کی عملی زندگی کی طرف اشارہ کیا اور کہا: پہلی بات جس پر تمام مراجع کی تاکید ہے اور رہبر انقلاب نے بھی اس پر توجہ مبذول کروائی ہے وہ جناب ابوطالب کی شخصیت کی شناخت اور پہچان ہے۔ ائمہ طاہرین اس کے باوجود کہ امام تھے جناب ابوطالب کے نسبت ایک خاص لگاؤ رکھتے تھے اور ان کی خصوصیات کو لوگوں کے لیے بیان کرتے تھے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انقلاب اسلامی کے گزشتہ بیالیس سالوں میں اس موضوع پر کام نہیں ہوا۔

ابوطالب کی شخصیت اہل سنت کی نگاہ میں

مسلمانوں کی اکثریت مذہب اہل سنت کی پیرو ہے اور اہل سنت کی بعض تاریخی اور تفسیری کتابوں میں جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کو بیان کیا گیا ہے وہاں جناب ابوطالب کے بنیادی کردار کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر ان موارد کو اکٹھا کیا جائے تو رسول اسلام کی حمایت اور آپ کے مشن کی ترقی کے سلسلے میں جناب ابوطالب کے کردار کا اندازہ ہو جائے گا۔ [11]۔

انہوں نے زور دے کر کہا: جناب ابوطالب کی خدمات تھیں کہ پیغمبر اکرم قرآن کریم کی آیات اور الہی قوانین کو بیان کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آپ دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے اور رسول اپنا مشن انجام دیتے تھے۔ یہ چیز اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہذا ہم اس سیمینار میں ان مطالب کی طرف عالم اسلام کی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ صباحی کاشانی نے ان منابع اور کتابوں کے بارے میں واضح کیا: اہل سنت کے منابع اور مصادر کی 300 کتابوں کا جائزہ کیا گیا ہے 135 اخلاقی، حدیثی، تفسیری اور تاریخی کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے کہ جن میں جناب ابوطالب کے اہم کردار کو بیان کیا گیا ہے۔

اولاد

ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں سب سے بڑے بیٹے کا نام طالب ابن ابی طالب تھا۔ باقی بیٹوں میں جعفر الطیار، عقیل ابن ابی طالب اور علی ابن ابی طالب شامل تھے اور دو بیٹیاں ام ہانی بنت ابی طالب اور جمانہ بنت ابی طالب اور طالب بن ابی طالب۔

غم ہجران

شعب ابی طالب میں ناکہ بندی کے دوران مؤمن قریش کو شدید صعوبتیں جهیلنی پڑیں اور شدید دباؤ اور مشکلات سہہ لینے کی وجہ سے حضرت ابوطالب کمزور ہوگئے چنانچہ ناکہ بندی کے خاتمے کے چھ مہینے بعد بعثت نبوی کے دسویں برس کو حضرت ابوطالب علیہ السلام وفات پاگئے جس کی وجہ سے حضرت رسول اللہ (ص) کو شدید ترین صدمہ ہوا اور بے تاب ہوکر اپنے چچا اور غمخوار کے سرہانے تشریف فرما ہوئے۔

ان کے چہرے پر اپنے مقدس ہاتھ پھیر پھیر کر فرمایا: چچا جان! آپ نی بچپن میں میری تربیت کی؛ میری یتیمی کی دور میں آپ نے میری سرپرستی کی اور جب میں بڑا ہؤا تو آپ نے میری حمایت اور نصرت کی؛ خداوند متعال میری جانب سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے. میت اٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنازے سے آگے آگے قبرستان کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی محسن اسلام کے لئے دعائے خیر فرماتے رہے[12]۔

وفات

ابو طالب کی وفات کے بعد کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مظالم کی انتہا کر دی۔ آپ کی وفات 619ء میں ہوئی۔ اسی سال خدیجہ بنت خویلد کی وفات بھی ہوئی۔ ان دو واقعات کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی "دکھ کا سال" قرار دیا۔

حوالہ جات

  1. صحيح بخاری، ج 3، ص 196.
  2. امام علی صدای عدالت انسانی، جرج جرداق، ترجمه سيدهادی خسروشاهی، ج1 . 2، ص 74.
  3. ابن جریر طبری ، تاریخ طبری ج 1 ص 34 و35
  4. امام علی صدای عدالت انسانی، جرج جرداق، ترجمه سيدهادی خسروشاهی، ج1 . 2، ص 74.
  5. تاریخ اسلام » پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی- شائع شدہ از: 4 نومبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 جنوری 2025ء۔
  6. 26 رجب : حضرت ابو طالب(ع) کی وفات کا دن- شائع شدہ از: 11مارچ 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 جنوری 2025ء۔
  7. الغدير، ج 7، ص 364 والكامل فی التاريخ، ج 2، ص 71.
  8. محمد بن یعقوب کلینی، الکافی ج1 ص 449۔
  9. تلخیص از سیرہ ابن ہشام، ج۱ص ۱۹۱، سیرہ حلبی ، ج1، ص۱۳۱
  10. کیا جناب ابوطالب مومن تھے؟- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 جنوری 2025ء
  11. اہل سنت پیغمبر اکرم(ص) کے مشن کو آگے بڑھانے میں جناب ابوطالبؑ کے فیصلہ کن کردار کو تسلیم کرتے ہیں،ڈاکٹر صباحی- شائع شدہ از: 5 مارچ 2021ء- اخذ شدہ از: 27 جنوری 2025ء۔
  12. تاريخ انبيإ، ج 3، ص 218.