مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:مصطفی شیخ

ویکی‌وحدت سے
(مصطفی شیخ سے رجوع مکرر)

مصطفی شیخ.jpg مصطفی شیخ نام: حاجی مصطفیٰ تاریخِ پیدائش: 1926ء جائے پیدائش: کارفو پی ٹوق، کھرگرونگ، سکردو تاریخِ وفات:** دسمبر 2010ء جائے وفات:** کارفو پی ٹوق، کھرگرونگ، سکردو

ابتدائی زندگی اور تعلیم

حاجی مصطفیٰ نے نہایت سادہ اور کٹھن حالات میں آنکھ کھولی۔ ان کی رسمی تعلیم سوم (ابتدائی جماعت) تک تھی۔ 14 سال کی عمر میں والدین کے انتقال کے باعث وہ کم عمری میں یتیم ہو گئے اور عملی زندگی کی ذمہ داریاں سنبھالنا پڑیں۔

عملی و ملازمت کی زندگی

ابتدائی طور پر پولیٹیکل ایجنٹ آفس میں بطور نائب قاصد ملازمت اختیار کی، تاہم والد کی زبانی ہدایت پر کچھ عرصے بعد استعفیٰ دے دیا۔ روزگار کی تلاش میں دہلی (انڈیا) چلے گئے اور وہاں محنت مزدوری کی۔ بعد ازاں اسلام آباد آئے جہاں بہتر مستقبل کی تلاش جاری رکھی۔

امریکن ایمبیسی میں بطور نائب قاصد ملازمت ملی، مگر عاشورۂ محرم کے موقع پر چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے دینی وابستگی کے تحت استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد ایک ٹھیکیدار کے ساتھ ایوانِ صدر میں مزدوری کی۔

اپنی دیانت، محنت اور خوش اخلاقی کی بدولت ایوانِ صدر میں بحیثیت خدمت گار مستقل ملازمت حاصل کر لی۔ طویل اور باعزت سروس کے بعد 1986ء میں ہاؤس اٹینڈنٹ (اسکیل 7) کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد

ریٹائرمنٹ کے بعد حاجی مصطفیٰ اپنے آبائی علاقے سکردو (کارفو پی ٹوق، کھرگرونگ) واپس آ گئے اور بقیہ زندگی سادگی، عبادت اور خاندان کے ساتھ گزاری۔

تجزیہ و تبصرہ

حاجی مصطفیٰ کی زندگی صبر، محنت، دیانت اور دینی استقامتکی روشن مثال ہے۔ کم عمری میں یتیمی، محدود تعلیم، اور وسائل کی کمی کے باوجود انہوں نے کبھی حلال روزی اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

امریکن ایمبیسی جیسی اہم ملازمت کو عاشورہ کے احترام میں چھوڑ دینا ان کے مضبوط مذہبی شعور اور کردار کی دلیل ہے۔ ایوانِ صدر جیسے حساس ادارے میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینا ان کی اعتماد، نظم و ضبط اور اخلاقی ساکھ کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی زندگی یہ سبق دیتی ہے کہ عہدہ نہیں بلکہ کردار انسان کو بڑا بناتا ہے۔ حاجی مصطفیٰ بظاہر ایک سادہ سرکاری ملازم تھے، مگر حقیقت میں وہ اس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جو خاموشی سے ریاست اور معاشرے کی بنیاد مضبوط کرتا ہے۔

بلتستان کا اصل ہیرو،حاجی مصطفےشیخ مرحوم

آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند لیڈر نما شخصیات کی محبت میں ہم اپنے ہی رشتے ۔ناطے اور سماجی تعلقات قربان کرنے پر تل جاتے ہیں ۔ وہ لیڈر جو پانچ سال کے عرصے میں عوام کو چند میگاواٹ بجلی تک فراہم نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے آج بلتستان کا ہیڈکوارٹر سکردو اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ایسے ماحول میں جب ہمیں صاحب ویژن قیادت کی اشد ضرورت ہے ، میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں سکردو کھرگڑونگ کرفوٹوق کے عظیم فرزند حاجی مصطفے'شیخ مرحوم کو جن کا احسان بلتستان کے لوگوں پر اتنا عظیم ہے کہ شاید یہ قوم کبھی اس کا حق ادا نہ کرسکے۔

مرحوم مصطفے شیخ فیلڈ مارشل ایوب خان کے ذاتی خانساماں تھے۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں ایسی لذت رکھی تھی کہ ایوب خان ان کے بنائے بغیر کھانا نہیں کھاتے بلکہ انہیں اپنے گھر کے افراد کی طرح سمجھتے۔

بلتستان سکردو روڈ بنانے میں ان کا کردار

یہ اس دور کی بات ہے جب گلگت سکردو روڈ کا نام ونشان تک نہیں تھا ۔ ایک بار مصطفے شیخ مرحوم کو ایک ماہ کی چھٹی ملی مصطفے'شیخ تین ماہ بعد ایوب خان کے گھر واپس پہنچے۔ تاخیر کی وجہ پوچھی تو مصطفے'شیخ نے کہا:

"ایک ماہ پیدل چل کے بلتستان پہنچے ایک ماہ گھر میں قیام کیا واپسی پر ایک ماہ پیدل چل کے آپ کے پاس پہنچا ہوں۔ ایوب خان اس صورتحال پر بے حد متاثر ہوئے انہوں نے مصطفے شیخ سے فوری سکردو روڈ بنانے کا وعدہ کیا ۔ چند دن بعد ایوب خان نے ملتان میں مصطفے شیخ کے لئے 80کنال زمین الاٹ کرتے ہوئے کہا:

"مصطفے شیخ اگر تمہیں اس کے علاؤہ کسی اور چیز کی ضرورت یا خواہش ہو تو ضرور بتانا میں تیری ہر خواہش پوری کرونگا ۔" مگر غربت کے دور میں مشکلات کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے اس عظیم انسان نے کہا : " حضور نہ مجھے زمین چاہئیے نہ کوئی اور خواہش ہے میری ایک ہی آرزو ہے کہ میری زندگی میں بلتستان کے عوام کے لئے سڑک بنا دیں"۔

تاریخ گواہ ہے ایوب خان نے اپنے اس محبوب خانسامے کی خواہش پر سکردو روڈ کی تعمیر فوری طور شروع کرنے کا حکم صادر فرمایا وہی روڈ جس پر آج لوگوں لوگ سفر کرتے ہیں جس نے بلتستان کو پورے پاکستان سے جوڑ دیا۔

کاش ہمارے منتخب نمائیندے بھی کم از کم اس خانساماں کے برابر ثابت ہوتے ہر پانچ سال میں ایک بڑا مسئلہ سب مل کے حل کرلیتے تو شاید بلتستان کا ہیڈ کوارٹر آج اندھیرے میں نہ ڈوبے ہوتے۔ افسوس ہم میں سے بہت سے لوگ اس عظیم محسن کو جانتے بھی نہیں جس نے وہ کام کر دکھایا جو آج تک ہمارے نمائیندے اکھٹے ہوکر بھی نہیں کرسکے ۔ خدا مرحوم حاجی مصطفے'شیخ کو جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔جو بھی یہ پیغام پڑھے مرحوم کے لئے ایک مرتبہ سورہ فاتحہ ضرور پڑھیں [1]۔

  1. تحریر:احمد چو شگری