مجلس وحدت المسلمین پاکستان
مجلس وحدت المسلمین پاکستان (MWM پاکستان میں ایک شیعہ مذہبی و سیاسی تنظیم ہے۔ راجہ ناصر عباس جعفری اس کے موجودہ سیکرٹری جنرل ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں اس تنظیم کی شاخیں قائم ہیں۔اس وقت یہ تنظیم سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی طور پر فعال ہے اور 2013ء کے عام انتخابات میں شرکت کرکے بلوچستان سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ جیت چکی ہے اور 2024ء عام انتخابات میں بھی شرکت کرکے قومی اسمبلی میں دو سٹیں حاصل کرلی ہے۔ طاہر القادری کے لانگ مارچ میں اس تنظیم نے ساتھ دیا تھا۔ وحدت المسلمین شیعہ سنی اتحاد کی داعی ہے۔ یہ تنظیم، پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں ہمیشہ آواز اٹھاتی رہتی ہے۔ سیاسی میدان میں یہ تنظیم نے شیعہ ووٹ بنک کو اپنی طرف متوجہ کر چکی ہے جس کی واضح مثال گلگت بلتستان کے الیکشن ہیں جس میں مجلس کا ووٹ بنک تیسرے نمبر پر آیا ہے اور اس نے دو سیٹیں جیتیں جو پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے زیادہ ہے جو صرف ایک ایک سیٹ جیت سکیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اسلامی تحریک پاکستان گلگت بلتستان الیکشن میں بالترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن میں رہیں۔مجلس کشمیر اور فلسطین کے لیے واضح موقف رکھتی ہے اور آزادی ہی اس کا حل ہے اسی وجہ سے تنظیم واضح طور پر ہندوستان اور اسرائیل مخالف ہے۔
تاریخی پس منظر
یہ تنظیم اگست 2009ء میں وجود میں آئی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد پاکستان میں شیعہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ شیعہ سنی اتحاد کے لیے کام کرنا تھا۔ اسی لیے اس تنظیم نے ہر دہشت گردی کے واقعہ کی کھل کر مذمت کی ہے اور قاتلوں اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے حکومت وقت پر ہمیشہ زور ڈالتی رہی ہے وہ چاہے احتجاج ہو یا دھرنے کی صورت میں۔تنظیمی سیٹ اپ میں اس کا یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل تنظیم کو چلاتا ہے اور اس کے نیچے دو ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہوتے ہیں [1]۔
تنظیم کی ابتداء
جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو حکومت کے ایوانوں تک آواز پہنچی، مختلف علاقوں میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، لوگوں میں بیداری بڑھنا شروع ہو گئی، پاراچنار کے لوگوں کو بھی تسلی ملنا شروع ہو گئی۔ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ اب جب حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہوتے ہیں تو اس پر ان چیزوں کا اثر دیکھنے میں آتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ اس کے بعد ہم نے سوچا کہ یہ 40 یا 50 دوستوں کا کام نہیں ہے اور دوسرے علماء کو بھی شامل کرنا چاہیئے لہذا ہم نے پورے پنجاب سے تمام علماء کو پھر دعوت دی اور تقریبا 140 کے قریب دوستوں نے دو دن 11 اور 12 اپریل 2008ء کو جامعۃ الحجت اسلام آباد میں اجتماع کیا۔ اس اجتماع میں دوستوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ علماء کا ایک سیٹ اپ ہونا چاہیئے جس کا نام مجلس وحدت مسلمین رکھا جائے۔ اگر ہم یہ کام پورے ملک کی سطح پر کرتے تو کافی وقت درکار تھا لہذا ہم نے سوچا کہ چونکہ پنجاب میں ہم دوست آپس میں رابطے میں ہیں اس لئے پنجاب کی سطح پر ہی کام شروع کیا جائے۔ اسی اجتماع میں ایک شورائے عالی اور ایک شورائے مرکزی کا انتخاب کیا گیا۔ شورائے مرکزی 37 منتخب علماء پر مشتمل تھی اور شورائے عالی 12 افراد پر مشتمل تھی۔ شورائے عالی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر مجھے منتخب کیا گیا۔ 6 افراد پر مشتمل منتخب کابینہ بھی بنائی گئی۔ کابینہ بننے کے بعد یہ ضرورت محسوس کی جاتی تھی کہ ایسے علمی اور دینی مراکز کا وجود میں آنا لازمی ہے جو اس فکر کے حامل ہوں اور اس کو طلباء کے ذریعے عوام اور لوگوں تک منتقل کریں۔ ہم نے آئی ایس او اور آئی او کے دوستوں سے ان کاموں کے حوالے سے رابطہ کیا، اور ایک 15 رکنی رابطہ کمیٹی بنائی، 5 علماء مجلس وحدت مسلمین سے، 5 آئی ایس او کے دوست، موجودہ اور سابقین اور 5 آئی او کے دوست، یہ مل کر پلاننگ کریں گے اور پاراچنار اور مختلف حوالوں سے یہ فیصلہ کریں گے اور پھر اس فیصلہ کا اجراء کیا جائے گا۔ پھر پتا چلا کہ ڈی آئی خان کے حالات بہت خراب ہیں۔ پروگرام بنایا اور وہاں چلے گئے، کیونکہ جب ہم نے دیکھا کہ اگر ڈی آئی خان فعال نہ ہو تو حالات بدتر ہو جائیں گے۔ ہم نے وہاں دیکھا کہ لوگ خوفزدہ ہیں، فرار کر رہے ہیں، مایوس ہیں، ناامید ہیں، ہمت ہارچکے ہیں۔
پہلا پروگرام
پہلا پروگرام جو 20 جون 2008ء کا تھا اس کے لئے ھم 90 فیصد لوگ باہر سے لے کر گئے تھے، وہاں سے 10 فیصد لوگوں نے شرکت کے تھی۔ جب لوگ ہمت ہارے ہوئے ہوں، حوصلہ ہارے ہوئے ہوں، ناامید ہو چکے ہوں تو ان کو کھڑا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ الحمدللہ! 20 جون کے پروگرام کے بعد ہمت بھی بڑھی، حوصلہ بھی ہوا، اور پھرانہوں نے مقاومت بھی کی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر پاراچنار میں دوائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم نے اسلام آباد میں مارگلہ ہوٹل کے اندر موثر قسم کے 66 لوگوں کو بلایا ان میں سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور بڑے مخیر اور موثر لوگ بھی تھے۔ ہم نے ان کو بلایا، پارا چنار کے بارے میں مکمل بریفنگ دی، کہ در اصل کیا صورت حال ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، خطرات کیا ہیں، اور اس حوالے سے ان سے مشاورت بھی کی اور وہیں پر فنڈز کمیٹی بھی بنائی گئی، فوج کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے 3 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی، میڈیا میں مسئلے کو اٹھانے کے لئے ایک الگ کمیٹی بنائی گئی، ایک وکلاء کی کمیٹی بنائی گئی کہ اگر کوئی قانونی مسئلہ ہو تو دیکھ لیں، یعنی جو اس قضیہ کے مختلف پہلو بنتے ہیں، اس پہلو سے ہم اقدامات کریں۔ آہستہ آہستہ ملک میں اسی تناظر میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، رابطہ مہم شروع ہو گئی، اور سنسر ٹوٹنا شروع ہو گیا، اخباروں میں، میڈیا میں آنا شروع ہو گیا، دہلی میں مظاہرے ہوئے، لندن، امریکہ میں مظاہرے ہوئے، پاکستان کے دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے، باہر کے ملکوں میں لوگ جمع ہو کے جاتے اور پاکستان کی سفراء کے سامنے احتجاج کیا پاکستان میں یہ ظلم ہو رہا ہے، اسکو روکا جائے، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے پاس دو تین مرتبہ لوگ گئے، مختلف ملکوں کے اندر اسی طرح سے، تو ایک بیداری شروع ہو گئی، جب بیداری شروع ہو گئی تو لوگوں کو ریلیف اور مدد پہنچنا بھی شروع ہو گئِی، اور حکومت پر بھی دبائو بڑھنا شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں بھرپور کوشش کر کے پاراچنار کے حوالے سے آواز بلند کی جائے، وہاں جو ظلم ہو رہا ہے اس کو ایوانوں تک پہنچایا جاِئے، 12، 13 جولائی 2018 کو ہم نے طے کیا کہ 2 اگست 2008ء کو ہم پروگرام کریں گے، اتنے شارٹ نوٹس پر 1980ء کے بعد شاید پہلا اجتماع تھا جس میں ہزاروں لوگ آئے اور ریلی بھی نکالی گئی، حکومت کی طرف سے دباو تھا، ناامنی بہت زیادہ تھی، احتمال تھا کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ یہاں کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، 4 سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکتے، ٹیلیویژن پر باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، حکومت نے بہت ہتھکنڈے استعمال کئے، لیکن دوستوں کی استقامت کی وجہ سے بھرپور پروگرام ہوا، خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی، بچے بھے تھے، بڑے بھے تھے، اس پروگرام میں اکثر دوست اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تھے، یہ ایک عجیب موقع تھا، یعنی دوستوں کے اندر یہ احساس تھا کہ اگر لوگوں کو خطرہ ہے تو وہ بھی اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ جائیں، یہ لوگوں کی طرف سے صداقت تھی اپنے مقصد اور ہدف کی جانب، بالکل اسی طرح جیسے حضرت رسول خدا ص مباہلہ میں اپنےگھر والوں کے ساتھ گئے تھے کیونکہ ان کو اپنے مقصد پر یقین تھا۔ خیر بہت بڑا اجتماع ہوا، اس نے لوگوں کو بڑا حوصلہ دیا اور ان کی بڑی ہمت بندھائِی، 2 سے 31 اگست تک پھر مسلسل مظاہرے شروع ہو گئے، سارے ملک میں، ہم نے تقسیم کیا ہوا تھا، کہیں شبیر بخاری صاحب جا رہے تھے، کہیں عبدالخالق اسدی کو بھیج رہے ہیں، کہیں امین شہیدی جا رہے ہیں، کہیں میں جا رہا ہوں، کہیں دوسرے دوست جا رہے ہیں، ہم تقسیم ہو گئے تھے تا کہ 31 اگست تک مظاہرے رہیں، اور ہم نے 3 اگست کو اعلان کیا تھا کہ پارا چنار کے جو راستے بند ہیں، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی لئے ہم یکم ستمبر کو ملک کے تمام شاہراہوں کو 3 گھنٹوں کے لئے بند کریں گے، تاکہ لوگوں کو بھی پتہ چلے اور حکومت پر بھی پریشر پڑے کہ سڑکیں بند ہونے سے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اور لوگ اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔ پچھلے سال تقریبا 28 مقامات پر گلگت سے لے کر کراچی تک اور خیبر سے لے کر بلوچستان تک اہم شاہراہیں بند کی گئیں، جو کہ 4 بجے سے لے کر شام 7 بجے تک بند رہیں، اور بڑا منظم احتجاج تھا، پورے ملک میں نہ 4 بجے سے پہلے یا بعد میں سڑکیں بند ہوئیں، نہ 7 بجے سے پہلے یا بعد میں کھولی گئیں، اسلام آباد سارا بند تھا، کراچی لاڑکانہ سکھر کوئٹہ، سرگودھا اور جو موٹروے کی طرف راستے آتے ہیں، سارے بند تھے، اسی طرح سیالکوٹ ، لیہ ،بھکر اور لاہور بھی بند تھا، جوں جوں بیداری کے لئے کام ہو رہا تھا، ان اقدامات کے ذریعے لوگ آرگنائز ہو رہے تھے، آپس میں اعتماد بڑھ رہا تھا۔ فیصلہ ہم اسلام آباد میں کرتے تھے لیکن تعاون پورا پاکستان کرتا تھا، کوئٹہ، سرحد، سندھ اور شمالی علاقہ جات کے لوگ۔ اس کے بعد یہ ڈیمانڈ ہونا شروع ہو گئی کہ آپ جو فیصلے کرتے ہیں ان میں ہمیں بھی شریک کریں، ہم آپ کے ساتھ تعاون تو کرتے ہی ہیں لہذا ہمیں ان فیصلوں میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ دوسرے علاقوں کے علماء اور غیر علماء بھی اس میں آنے چاہیئیں۔ کیونکہ وہ نظری اور فکری لوگ جو شہید کے ساتھ رہے تھے یا شہید کے ساتھ محبت کرتے تھے اور رہبر کے پیروکار تھے انہیں ایک پلیٹ فارم نظر آنا شروع ہو گیا، ایک سسٹم بنتا نظر آ گیا جس کو اگر اچھی طرح بنائیں تو ہم اس پرچم کو جو شہید کے ہاتھ سے گرا تھا مل کر تھام سکتے ہیں، ہم اپنے مظلوموں اور محروموں کو ظلم سے نجات دلا سکتے ہیں، انکے حقوق کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں اور بالاخر پاکستان کیلئے کام کر سکتے ہیں اور اپنے وطن کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ لہذا پھر دوستوں کی میٹنگز شروع ہو گئیں، رابطہ مہم شروع ہو گئی، پورے ملک میں رابطے ہوئے اور پچھلے سال 2 اور 3 مئی 2008ء کو رجوعہ سادات جامعہ بعثت چنیوٹ میں اجتماع ہوا جس میں 160 کے قریب علماء اور اس کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرعلماء نے بھی شرکت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم اس سسٹم کو وسعت دیں گے۔ اس اجتماع میں دو اھم اعلان کئے گئے، ایک تو مجلس وحدت مسلمین کو وسعت دینے کا اور دوسرا یہ کہ 2 اگست کو اسلام آباد میں گذشتہ سال کی طرح ایک مرکزی اجتماع کیا جائے گا۔ جس میں دفاع وطن کے حوالے سے پروگرام کروایا جائے گا۔ پھر 3 مئی سے لے کر جون کے آخر تک مجلس وحدت مسلمین کا تشکیلاتی کام شروع ہو گیا۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں 5 جولائی تک ہم نے تشکیلاتی کام انجام دیا، 25 اضلاع میں تنظیم سازی کا کام مکمل کر لیا تھا۔ بلوچستان میں بھی 5 جولائی کو تنظیمی اجتماع ہوا تھا، وہاں پر بھی اکثر اضلاع میں پنجاب کی طرح ہم نے ابتدائی تشکیلاتی سیٹ اپ بنا لیا تھا۔ پنجاب میں بھی صوبائی سیکرٹری جنرل بن گیا تھا اور بلوچستان میں بھی بن چکا تھا۔ پھر اس کام کو ہم نے روک دیا، صوبہ سندھ کے دورے بھی ہم نے کئے، کراچی کی دورے کئے دوسرے علاقوں میں بھی گئے اور صوبہ سرحد کے جو علاقے پنجاب سے ملتے ہیں مثلا ہری پور اور دوسرے، وہاں بھی تنظیم سازی کر دی گئی۔ باقی علاقوں کے بارے میں طے تھا کہ 2 اگست کے بعد ان کو آگے لے کر چلیں گے۔ 2 اگست کے پروگرام کے لئے بھرپور کوششیں کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ 2 اگست کو اسلام آباد میں مرکزی اجتماع ہوا، دفاع وطن کے نام سے، ہم چاہتے تھے کہ اس انداز سے نئے فیز میں داخل ہوں کہ ہم فقط اپنے لئے نہیں سوچتے ہیں بلکہ اپنے وطن کے لِئے بھی سوچتے ہیں، ان مشکل ترین حالات میں جب ہر طرف سے ملک کو توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کو ناامن کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہیں، ہمارے اجداد نے اس وطن کو بنایا تھا، ہم اٹھیں اور وطن کے دفاع کے لئے شہید کی برسی کا نام رکھ دیں "دفاع وطن کنونشن" اور الحمدللہ اسلام آباد میں ایک نیا فیز تھا جس میں ہم داخل ہوئے، دفاع وطن کنوینشن کے حوالے سے اسلام آباد میں تقریبا ایک لاکھ افراد اکٹھے ہوئے، جو "پاکستان بنایا تھا، پاکستان بچائیں گے" کے نعرے لگا رہے تھے، اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم تھے اور اپنی ھویت کو بھی نہیں چھپاتے تھے، ہم رہبر کے پیرو ہیں، ایک ہاتھ میں پاکستان کا پرچم تھا اور لبوں پر "خامنہ ای رہبر" کے نعرے تھے، الحمدللہ اس طرح انہوں نے اپنی ھویت کا اظہار بھی کیا کہ ہم کس رستے کے راہی ہیں اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم لے کر اس بات کا بھی اعلان کیا کہ پاکستان ہمارا ہے اور ہم اس کو ہر مشکل سے بچانے کی لئے اٹھ کھڑے ہوں گے، ہم ہر قربانی دینے کی لئے تیار ہیں اور ان خطرناک ترین حالات میں جب اسلام آباد کی انتظامیہ کہہ رہی تھی کہ خودکش حملے ہو سکتے ہیں آپ نہیں کریں، ہم آئے، ہماری عورتیں آئیں، ہمارے بچے آئے، ہمارے بڑے آئے، بوڑھے آئے اور ملک کے کونے کونے سے آئے، الحمدللہ۔۔ بالکل یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہید حسینی رہ کی شہادت کے بعد یہ ایک اہم موڑ تھا۔، شہید کے افکار، راستوں، سوچ کے حوالے سے اور شیعیان پاکستان کا ایک بدلتا ہوا کردار اور رول جو شہید چاہتے تھے کہ ہم ادا کریں اس کے حوالے سے الحمدللہ یہ ایک اہم موڑ تھا اور پھر جب پروگرام ختم ہو گیا
، جو 12، 13 دسمبر تک جاری رہے گا اور تب تک انشاء اللہ ہم پاکستان کے تمام علاقوں میں تنظیم سازی مکمل کر لیں گے جس پر کام شروع ہے اور اس کے بعد 12، 13 دسمبر کو تنظیمی اجتماع کریں گے انشاء اللہ، اور اس میں نئے مرکزی سیکرٹری جنرل کا ہم انتخاب کریں گے، اور اس دوران ہم نے اعلان کیا ہے کہ عوام کی مدد سے عوام کے کام کریں گے، ہم نے پاکستان میں تقریبا 10 اہم ریجن منتخب کئے ہیں، جن میں ہم ہر ریجن میں 10 ہزار افراد کو ممبر بنائیں گے، کل ایک لاکھ ممبر پہلے مرحلے میں بنا رہے ہیں، ہر ایک ممبر کم از کم 100 روپے ماھانہ ادا کرے گا، اس طرح عوام کے دیئے ہوئے سرمائے کے ساتھ ہم انتظام بھی چلائیں گے، اور عوام کے ضروریات بھی پوری کریں گے، اور کام بھی کرنے کی کوشش کریں گے، اور اسی طرح مختلف حوالوں سے امام بارگاہوں اور مساجد کے لئے سیکیورٹی سسٹم بنا رہے ہیں جو پاکستان کے قوانین کے مطابق ہو اور جس کی اپنی ایک قانونی حیثیت ہو اور الحمدللہ اس حوالے سے ایک پورا شعبہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ہم پلاننگ کر رہے ہیں اور جلد ہی اعلان کر کے اس پر عمل شروع کر دیا جائے گا [2]۔
اغراض و مقاصد
مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جس کے اغراض و مقاصد مندرجہ ذیل ہیں:
- دین کا احیاء،
- مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا،
- اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد،
- مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ،
- تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے،
- پیروان اہل بیت کی جان ومال اور ان کے حقوق کا تحفظ،
- دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت،
- عالمی سامراج اور استعمار کے خلاف جدوجہد اور اسلامی تحریکوں سے روابط اور ان کی حمایت،
- عزاداری حسین بن علی کا فروغ اوراس کا تحفظ،
- امر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء کرنا،
- راہ امام خمینی اور فکر شہید عارف حسین حسینی پرگامزن رہنا،
- نظام ولایت فقیہ کی عملی پیروی کرنا [3]۔
تنظیمی ڈھانچہ
سب سے نیچے یونٹ، پھر ضلع، صوبہ اور اس کے اوپر مرکز ہے۔ ہر یونٹ کا مسئول ضلعی شورای کا رکن ہو گا، اگر ایک ضلع میں 20 یونٹس ہیں تو ضلعی شورا کے ارکان 20 ہوں گے، یہ اراکین اپنا سیکرٹری جنرل انتخاب کریں گے، جو ضلعی سیکرٹری جنرل ہو گا وہ اپنی کابینہ بنائے گا جس کی ضلعی شورا سے منظوری لے گا، پھر ہر ضلع سے 2 آدمی، ضلعی سیکرٹری جنرل اور ایک اور آدمی جس کو ضلعی شوری منتخب کرے گی، یہ صوبائی شوری کے رکن بن جائیں گے، صوبائی شوری اپنا صوبائی سیکرٹری جنرل بنائے گی، پھر 6 مناطق: چاروں صوبوں، شمالی علاقہ جات اور کشمیر کے سیکرٹری جنرل اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل سے مل کر مرکزی شوری بنے گی، مرکزی شوری 2 کام کرے گی، ایک تو مرکزی سیکرٹری جنرل کا انتخاب کرے گی اور اس کے اوپر ایک شوری عالی ہے جو 27 افراد پر مشتمل ہو گی، اس کا انتخاب بھی مرکزی شوری کرے گی، اور اسی طرح اس کے اوپر مجلس نظارت ہے اور اس کا انتخاب بھی شوری عالی کرے گی۔ مجلس نظارت جس میں بزرگ علماء ہوں گے اس کے نیچے شوری عالی ہے جو اعلی اختیاراتی ادارہ ہے پاور کے اعتبار سے۔ اس کے اراکین کی تعداد 27 ہو گی جن میں سے 21 منتخب ہوں گے اور 6 عہدیدار ہوں گے۔ ہر صوبے کا سیکرٹری جنرل بلحاظ عہدہ اس کا ممبر ہو گا اور باقی 21 افراد کا انتخاب مرکزی شوریٰ کرے گی۔ شوریٰ عالی سیکرٹری جنرل کا نام بھیجیں گے۔ سکروٹنی کرنے کے بعد، ایک ٹیم ان میں سے الیکشن کمیشن کا رول بھی پلے کرے گی جو 2 یا 3 افراد کے نام بھیجیں گے مرکزی شوری کو جو ان تینوں یا دونوں میں سے کسی کو بھی ووٹنگ کے ذریعے اپنا سیکرٹری جنرل منتخب کر لے گی۔ مرکزی شوری 6 مناطق کے صوبائی جنرل سیکرٹریز پر مشتمل ہو گی، اور صوبائی شوری ہر علاقے کے ضلع کے دو دو افراد اس میں شامل ہوں گے، ہر ضلع کی شوری ہر یونٹ کے مسئولین پر مشتمل ہو گی۔ یونٹ،ضلع،صوبہ اورمرکز میں سیکرٹری جنرل اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل مسئول ھوں گئے۔ == شیعیان پاکستان کے اھم مسائل == شیعیان پاکستان کے مسائل مختلف نوعیت کی ہیں، بعض ایسے ہیں جو باقی پاکستانیوں کے ساتھ مشترک ہیں، جیسے تعلیم کے مسائل ہیں، ہیلتھ کے مسائل ہیں، جو باقی پاکستانیوں کے درد اور مشکلات ہیں وہی ان کے ہیں، بیروزگاری ہے، اقتصادی مشکلات ہیں، اور ناامنی ہے، سب کے لئے، صرف شیعوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ان کے لئے باقیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہے۔ پاکستان کے اندر مختلف قسم کی فکری، سیاسی اور اجتماعی محرومیتیں ہیں، جو ہمارے حقوق ہیں وہ ہمیں نہیں دیئے جا رہے، مثلا ہمارے ہزاروں لوگ قتل کئے جا چکے ہیں، ان کے کسی قاتل کو سزا نہیں دی گئی، کتنے ہی لوگ بیگناہ مارے جاتے ہیں حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی، ہمارے لوگ مشکلات کا شکار ہیں، جانی مالی اور امنیتی حوالے سے، حکومت کی طرف سے جس معاملے پر توجہ دی جانی چاہئے نہیں دی جاتی، اور شیعوں کے اندر داخلی مسائل بھی بہت زیادہ ہیں، عقائد کے مسائل ہیں، تقسیم بندیاں ہیں، مختلف حوالوں سے، یہ بھی ہمارے ایشوز ہیں، مشکلات ہیں، انشاء اللہ العزیز ہم ان تمام حوالوں سے جتنے ہمارے پاس وسائل آتے جاتے ہیں، فرصتیں حاصل ہوتی جاتی ہیں، ہم کوشش کریں گے کہ آگے بڑھ کر کام کریں، چاہے ان کے رفاہی مسائل ہوں، تعلیمی ہوں، سیاسی اور امنیت کے حوالے سے ہوں، شیعوں کی داخلی پرابلمز ہیں ، اختلافات ہیں، ان حوالوں سے انشاء اللہ ھم اپنا کردار ادا کریں گے، رول پلے کریں گے، گذشتہ دو سالوں میں ہم نے کوشش کی ہے کہ ان کا آپس میں داخلی ٹکراو۔
امپیریلزم جھانی
امپیریلزم جھانی کے اھداف میں سب سے بڑی رکاوت حقیقی جمہوریت ہے، چونکہ ان کے جو اہداف و مقاصد ہیں جمہوریت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔ نہ ہو، ہم نے جتنے بھی قدم اٹھائے ہیں 2004ء سے، بلکہ اس سے پہلے بھی جب سے کام شروع کیا ہے تو کوشش کی ہے کہ صرف ان کاموں کو ہاتھ لگایا جائے جہاں اختلاف ممکن نہ ہو، شہید فائونڈیشن کو دیکھیں، اسراء کو دیکھیں، اور زخمیوں کا علاج معالجہ ہم کرواتے رہے ہیں، سیکڑوں زخمیوں کا علاج کروایا ہے، چونکہ اس میں کوئی تعرض نہیں ہو سکتا، اسراء کے حوالے سے کوشش کی ہے کہ کہیں تعرض نہ ہو۔ جب اجتماعی حوالوں سے آگے بڑھے تو کوئی بھی ایسا پروگرام نہیں ہے جس میں دوسرے لوگوں کو دعوت نہ دی ہو۔ کوئی ایک، چھوٹے سے چھوٹے سے لے کر بڑے سے بڑے پروگرام تک، سب کو دعوت دی ہے، چاہے وہ جس طبقے کے بھی شیعہ تھے، ماتمی، ملنگ، عزادار، نمازی، تحریکی، دوسری تحریک والے، ذاکرین، خطباء و شعراء وغیرہ، ہم نے کسی کو نظرانداز نہیں کیا، ہم نے سب کو دعوت دی ہے اور کوشش کی ہے کہ ہماری طرف سے کھلے دل کے ساتھ ان تک پہنچا جائے اور اندر کے جو اختلافات ہیں ان کو جتنا بھی کم سے کم کیا جا سکے ہم کریں، تب ہی ہم مل کر دشمن کے حربوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اور کامیاب ہو سکتے ہیں [4]۔
شعبہ جات اور ادارے
وحدت المسلمین مختلف شعبہ جات اور ادارے مندرجہ ذیل ہیں:
- شعبہ جوانان
- شعبہ شماریات
- تنظیم سازی وامور تنظیم کا شعبہ
- روابط کا شعبہ
- شعبہ خواتین
- شعبہ مالیات
- نشر و اشاعت کا شعبہ
- میڈیا کا شعبہ
- شعبہ تربیت
- شعبہ تعلیم
- تبلیغات کا شعبہ
- شعبہ فلاح وبہبود
- شعبہ سیاسیات
- اسکاؤٹنگ کا شعبہ
[5]۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی کارگردگی
شہید فاونڈیشن
پاکستان میں بسنے والے مومنین اور شیعیان اہلبیت مختلف مشکلات اور مسائل کا شکار تھے۔ کچھ کام ایسے تھے جو نہیں ہو رہے تھے اور جنہیں ہونا چاہیئے تھا اور ان کیلئے قدم نہیں اٹھائے جا رہے تھے لہذا پاکستان میں وہ لوگ جو ولائی اور آرمانی تھے اور جن کی اس بارے میں آرزویں تھیں انہوں نے مختلف کاموں کو انجام دینا شروع کیا۔ مثلا پاکستان میں شہداء کی فیملیز کی کفالت کے حوالے سے کوئی سیسٹم موجود نہیں تھا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ انہی آرمانی لوگوں نے جو شہید عارف حسینی رہ کے پیرو تھے شہید فاونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ ان میں سے کسی نے اس کی تاسیس میں کردار ادا کیا اور کسی نے اسکو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس کام کیلئے رابطہ کیا گیا تاکہ انکی مدد سے شہید فاونڈیشن اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے انجام دے سکے۔ یہ الحمدللہ ایک کامیاب قدم تھا جو شہید عارف حسینی رہ سے محبت کرنے والے امام خمینی رہ اور رھبر معظم انقلاب کے پیروکاروں کی طرف سے اٹھایا گیا تھا۔
جیلوں میں قید اسراء کی رہائی
اسی طرح جیلوں میں قید اسراء کی رہائی کیلئے بھی کوئی کوشش نہیں کی جا رھی تھی یا بہت کم کوشش کی جاتی تھی۔ لہذا ان افراد نے ایک کمیٹی بنائی تاکہ اسراء کے کیسز کو لڑا جا سکے اور انہیں آزاد کروایا جا سکے۔ اس میں بھی ہمارے نظری و فکری علماء دوست شامل تھے اور انہوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ جس کیلئے جتنا ممکن تھا وہ اتنی کوشش کرتا رہا۔ اس طرح سے الحمدللہ کافی افراد کو جیلوں سے رہائی دلوائی گئی۔ بعض کو سزائے موت ہو چکی تھی جنکی سزا ختم کروائی گئی۔
علمی مراکز کا قیام
اسی طرح پاکستان میں ایسے علمی مراکز کا فقدان تھا جو فکر امام خمینی رہ کو لوگوں میں رائج کر سکیں اور اسکے امین اور وارث بن سکیں۔ اگر ایسے مراکز تھے بھی تو انکی تعداد بہت کم تھی۔ یہ ضرورت محسوس کی جاتی تھی کہ ایسے علمی اور دینی مراکز کا وجود میں آنا لازمی ہے جو اس فکر کے حامل ہوں اور اس کو طلباء کے ذریعے عوام اور لوگوں تک منتقل کریں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دوستوں نے مختلف علاقوں میں ایسے علمی مراکز بنائے جو اس سوچ کے حامل بھی تھے اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق بھی تھے۔ یعنی آج کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے تھے۔ ان علمی مراکز کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا، اسلام آباد میں، رجوعہ میں، کراچی میں اور دوسرے علاقوں میں دوستوں نے ایسے علمی مراکز قائم کئے جو آج کامیاب مدارس کی صورت میں موجود ہیں۔
تبلیغی مراکز کا قیام
اسی طرح پاکستان میں تبلیغات کا سلسلہ جو شہید عارف حسینی رہ کے زمانے میں موجود تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔ لہذا انہی دوستوں نے مل کر صوبہ سرحد، پنجاب، کراچی اور دوسرے علاقوں سے جمع ہو کر ایک تبلیغی مرکز بنایا تاکہ لوگوں تک معارف اہلبیت ع اور ہدایت اہلبیت ع پہنچ سکے۔ اس کیلئے باقاعدہ میٹنگز ہوتی رہیں اور ایک دستور بنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک مرکز قائم کیا گیا جو پہلے کراچی میں تھا اور اب لاہور میں شفٹ ہو چکا ہے۔ اس کو دو دوست برادر ابوذر مہدوی اور سید احمد اقبال رضوی چلا رہے ہیں۔
مظلومین کی حمایت
اسی طرح یہ دیکھا گیا کہ دہشت گردی کی کاروائیوں کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا، کوئی احتجاج نہیں کیا جاتا اور موثر قسم کی آواز بلند نہیں کی جاتی۔ 2004ء میں جب بلوچستان کے شھر کوئٹہ میں مسجد کے اندر بڑی تعداد میں افراد کو شہید اور زخمی کیا گیا تو اسکے خلاف آواز انہی لوگوں نے اٹھائی۔ یہ لوگ اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں گئے، شہداء کے سوم اور چہلم کی مجالس میں شرکت کی، بعد میں بھی گئے تاکہ لوگوں کے حوصلے بلند کئے جائیں اور انکی مدد کی جائے۔ اس وقت مختلف ناموں سے مختلف علاقوں میں یہ کام ہونا شروع ہو گیا۔ اسلام آباد میں ایک نام سے، کراچی میں ایک نام سے لیکن یہ کام کرنے والے افراد آپس میں مربوط تھے۔ تمام علاقوں میں انہوں نے پریس کانفرنسز کا انعقاد کیا، احتجاجی جلسے منعقد کئے، متاثرہ افراد کو تسلی دی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ 2005ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ جوں جوں ایسے واقعات رونما ہوتے گئے، یہ افراد اجتماعی حوالے سے زیادہ فعال ہوتے گئے۔ مثلا 2004ء میں اسلام آباد اور اسکے اطراف میں تمام جمعہ کی نمازیں تعطیل ہوئی تھیں اور ایک بڑی نماز جمعہ برگزار ہوئی تھی اور اسلام آباد میں کئی سالوں کے بعد ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ 2006ء میں جب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ ہوئی تو حزب اللہ کی مظلومیت کو آشکار کرنے، انکی حمایت کا اعلان کرنے اور ان کیلئے امداد جمع کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر اجتماعات ترتیب دیئے گئے۔ 35 دن میں 5 بڑے اجتماع منعقد ہوئے جن میں خواتین، بوڑھوں، بچوں اور جوانوں نے بھرپور حصہ لیا۔ اس کے بعد 2007ء میں پاراچنار کے حالات بہت خراب ہونا شروع ہو گئے۔ وہاں کے لوگ کیونکہ ہماری فعالیت دیکھ چکے تھے لہذا انہوں نے ہم سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے افراد سے بھی رابطہ کرتے تھے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے تھے۔ وہ پاکستان سے باہر کے افراد سے بھی رابطہ کرتے تھے۔ لوگ ہم سے پوچھتے تھے کہ آپ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں بتائیں کہ کیا صورتحال ہے۔
ہم 2007ء میں علامہ جواد ہادی اور پاراچنار کے لوگوں سے ملنے پشاور گئے تاکہ انکے حالات کو نزدیک سے دیکھا اور سنا جائے۔ ہم علماء کے ایک وفد کی صورت میں وہاں چلے گئے اور صورتحال کا جائزہ لیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ شدید دباو کا شکار ہیں، حکومت اور میڈیا نے انکی صورتحال کو چھپایا ہوا ہے، کسی قسم کی خبر نہیں دیتے، حکومت ہماری کوئی بات نہیں سنتی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پیچھے کوئی ہے ہی نہیں اور ہم تنہا ہیں، لہذا اس حوالے سے آپ ہماری مدد کریں اور ہمارا ساتھ دیں، سنسر کو توڑیں، عوام میں بیداری پیدا کریں، عوام تک ہماری آواز پہنچائیں، حکومت پر دباو بڑھائیں اور ہمیں ریلیف دلوائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کام ایک یا دو افراد کا نہیں ہے بلکہ ایک لمبا اور طولانی کام ہے جو سب کو مل کر کرنا ہو گا۔
دہشت گردی کی مخالفت
تحریک طالبان پاکستان بہت خطرناک ہے جو پاکستان کو مستقبل میں غیرمستحکم کرے گی۔ یہ ایک خطرناک گروہ ہے جس کے پیچھے عالمی قوتیں موجود ہیں۔ لہذا یہ سوچنا صحیح نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے کیلئے ایک سیسٹم بنانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے آپ ہماری سپورٹ بھی کر سکتے ہیں اور لمبی مدت تک اس کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس سیسٹم کے ذریعے ہماری مدد بھی کی جا سکتی ہے اور اس خطرے کو ایک فرصت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم پاراچنار میں شکست کھا گئے تو صوبہ سرحد میں تشیع کیلئے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور یہ مزید آگے بڑھیں گے۔ ہم واپس آئے اور لاہور میں فوری طور پر ایک میٹنگ کی۔ تمام علماء کو جمع کیا، جنکی تعداد 40 کے قریب تھی۔ پاراچنار کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ انہیں دوائیں بھجوائی جائیں، سنسر توڑنے کیلئے سی ڈیز بنوائی گئیں، پمفلٹس بنوائے گئے، رابطہ مہم شروع کی گئی، ٹیلی فون کے ذریعے، ایس ایم ایس کے ذریعے، فزیکلی دورے کرنے شروع کئے، تا کہ اس سنسر کو توڑا جائے اور لوگوں تک آواز پہنچائی جائے۔
اہداف
تحفظ تشیع
تحفظ تشیع ، پاکستان کو محفوظ کرنے، اس کا امن لوٹانے اوراس کی سالمیت کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے اور پاکستان میں ایک طویل مدت پروگرام ہے۔ پاکستان میں عوام متدین ہیں، دین سے محبت رکھتے ہیں اور یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ ان پر ایک ایسی حکومت قائم ہو جو اسلام اور قرآن کے مطابق ہو، لھذا پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ وہاں دین کی پابندی کی جائے اور لوگ اسلام کے پرچم تلے زندگی گزاریں، اس کے علاوہ وحدت بین المسلمین کے ہم تمام کے تمام طبقات میں وحدت کے لئے کام کریں جو امام خمینی رہ اور شہید قائد حسینی رہ کی آرزو تھی، لھذا اس حوالے سے ہم ان کے پاس گئے اور مختلف پروگراموں میں جہاں قائد شہید کی تصویر تھی، وہیں ساتھ شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی اور ساتھ ھی شہید حسن جان کی تصویر بھی تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کے سب، ان لوگوں نے مارے ہیں کہ جو وطن اور ملک کے دشمن ہیں، اور ان مرنے والوں کا جرم یہ تھا کہ یہ وطن دوست تھے، یہ پاکستان سے محبت کرنے والے تھے، ان کا وجود پاکستان کے لئے بہت مفید تھا، لھذا وحدت بین المسلمین، وحدت بین المومنین کے حوالے سے کام کرنا، شیعوں میں شعور کو بلند کرنا، کہ وہ اٹھیں اور اپنے حقیقی مقام کی طرف آگے بڑھیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی اقلیتیں جو کہ پاکستانی ہیں کے لئے کام کرنا اور پاکستانیت کو رواج دینا کہ پاکستانی ہونا ہمارے لئے بےحد اہم ہے، جیسے جمہوری اسلامی ایران کے اندر 3 چیزوں کو ملایا گیا ہے اور اسی وجہ سے دشمن کی کافی سازشیں ناکام ھوئی ہیں، وھاں وطنیت ہے، اسلام ہے اور جمہوریت ہے۔ اگر دشمن آتا ہے تو وہ یا وطنیت کے نام سے، اسلام کے نام سے اور یا جمہوریت کے نام سے آتا ہے، وھاں کا سسٹم امتزاج ہے وطنیت کا، اسلام کا اور جمہوریت کا۔ لھذا اسی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایک ایسا سسٹم بنائیں جس میں وطنیت اہم ہو اور پاکستان سے محبت کو رواج دینے میں ہمارا باقاعدہ نقش اور کردار ہو۔ اور اسی طرح سے امن و امان جو پاکستان سے لوٹ لیا گیا ہے، اس امن کو لوٹانے کے لئے کردار نبھائیں۔ اور اسی طرح سے سالمیت ہے، یکجہتی ہے اور مختلف اقوام جیسے پاکستانی شیعہ بلوچ بھی ہے، سندھی بھی ہے، مہاجر، پنجابی اور پٹھان بھی ہے، ہمارے پاس بڑی صلاحیت اور ظرفیت ہے کہ ہم ان اقوام کے اتحاد کے لئے کام کریں، اور اس میں ایک کردار ادا کر سکیں۔
اتحاد بین المسلمین
ہمارے درمیان بہت زیادہ مشترکات ہیں، خدا، توحید، نبوت، قرآن، قبلہ کے حوالے سے اور پھر جہان اسلام کو جو خطرات درپیش ہیں اس حوالے سے، ایشوز کے حوالے سے ہمارے درمیان بہت زیادہ مشترکات ہیں، پاکستان کے اندر مسلمانوں کو جو مشکلات درپیش ہیں، جو مختلف یلغاریں ہے، تہاجم فرہنگی ہے، لوگ کہتے ہیں ہم سے دینی ھویت چھینی جا رہی ہے، ان حوالوں سے اتنے زیادہ ایشوز ہیں، یوم القدس، فلسطین کے حوالے سے، مسلمانوں کے جو بین الاقوامی ایشوز ہیں، ہم بہت زیادہ ایشوز پر اکٹھے ہو سکتے ہیں اور اکٹھے سٹینڈ لے سکتے ہیں اور استکبار کے حوالے سے ایک مشترکہ محاذ بنا سکتے ہیں۔ ایسے نہیں ہے کہ شیعہ شیعہ نہ رہے، سنی سنی نہ رہے، بریلوی بریلوی نہ رہے بلکہ اپنی اپنی دینی ھویت پر قائم رہتے ہوئے نیشنل اور انٹرنیشنل ایشوز پر اکٹھے ہوں۔ مثلا پاکستان میں امن کا مسئلہ ہے، پاکستانیوں کو بھی اکٹھے ہونا چاہئے، مسلمانوں کو بھی، فلسطین کا مسئلہ ہے، کشمیر کا مسئلہ ہے، امریکہ کا مسئلہ ہے، پاکستان اس وقت خطرناک حد تک امریکی شکنجے میں جکڑا جا رہا ہے، پاکستان کو امریکی شکنجے سے نکالنے کے لئے ہمیں اکٹھے کھڑے ہونا چاہئے، غیرملکی قوتیں جو پاکستان میں مداخلت کر رہی ہیں ان کے خلاف ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں، بہت زیادہ ایشوز ہیں، لا متناہی۔
قومی اسمبلی کی نشست این اے 37 سے ایم ڈبلیو ایم امیدوار حمید حسین کامیاب
ایم ڈبلیو ایم امیدوار انجینئر حمید حسین نے 58650 ووٹ حاصل کئے جبکہ پیپلز پارٹی کے ساجد حسین طوری 54384 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مولوی عصمت اللہ نے 23815 ووٹ حاصل کئے [6]۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت کا امکان
راجہ ناصر کی کامیاب سیاسی حکمت عملی پر ایک نظر
پی ٹی آئی کے منتخب شدہ اراکین کی شمولیت سے مجلس وحدت مسلمین وفاق میں حکومت بنائے گی، مخصوص نشستوں پہ اپنے اراکین کی ایک تعداد قومی اسمبلی میں لانے میں کامیاب ہو جائے گی اور وفاقی کابینہ میں ایم ڈبلیو ایم کی نمائندگی ہو گی۔ اس بات کا واضح امکان ہے کہ ایم ڈبلیو ایم حکومت تشکیل دے، اگر ایسا نہ بھی ہو تو یہ پاکستان کی تاریخ میں منفرد سیاسی کامیابی ہے، جس کی نظیر تحریک پاکستان کی کامیابی میں اہل تشیع کے نمایاں کردار سے کم نہیں۔ مسئلہ پاکستان کی بقا، استحکام اور غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ ملکی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور فرقہ واریت سے پاک پاکستان کے حوالے سے شیعہ قیادت کے عمدہ اور موثر کردار کا ہے، جس میں علامہ ناصر عباس جعفری کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
آزاد امیدواروں کا مجلس وحدت المسلمین پاکستان میں ضم ہونے کا امکان
ڈان نیوز نے خبر دی ہے کہ مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) بھی موجودہ صورتحال کا حصہ بن گئی ہے جس کا 2014 میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دھرنے کے بعد سے پی ٹی آئی سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) بھی موجودہ صورتحال کا حصہ بن گئی ہے جس کا 2014 میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دھرنے کے بعد سے پی ٹی آئی سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ دونوں جماعتوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا مجلس وحدت المسلمین میں ضم ہونے کا امکان ہے تاکہ انہیں منظم کیا جاسکے اور خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں بھی حاصل کی جاسکیں۔ مجلس وحدت المسلمین کے حمید حسین این اے-37 کرم (پاراچنار) کی نشست 58 ہزار 650 ووٹوں کے ساتھ جیتنے میں کامیاب رہے، انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساجد طوری کو شکست دی جنہوں نے 54 ہزار 384 ووٹ حاصل کیے۔
اتفاق سے مجلس وحدت المسلمین پی پی 18 راولپنڈی سے جیتنے والے اپنے امیدوار راجہ اسد عباس کی موجودگی کے سبب پنجاب اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کو یہی فائدہ پہنچانے کی پوزیشن میں ہے۔ پنجاب اسمبلی میں 297 جنرل نشستیں ہیں جن میں سے 66 خواتین کے لیے اور 8 غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہیں۔ مجلس وحدت المسلمین یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہونے سے پی ٹی آئی پنجاب میں 24 خواتین اراکین اسمبلی حاصل کر سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن نے بتایا کہ پارٹی اجلاسوں میں اس موضوع پر بہت زیادہ بحث ہوئی ہے اور کئی آپشنز زیر غور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح اپنی پارٹی کو قائم کرنا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کیسے کر پائیں گے۔ رؤف حسن نے مزید کہا کہ ہمارے اراکین اسمبلی مجلس وحدت المسلمین یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہوں گے یا آزاد رہیں گے، اِس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں کیا جائے گا۔ تاہم مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی امور کے سیکرٹری اسد نقوی نے کہا کہ اس حوالے سے تاحال پی ٹی آئی قیادت سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے [7]۔
Pti اور Mwm اتحاد کے خلاف دوست ممالک کا رد عمل
انٹرنیشنل کھلاڑی متحرک ہوگئے، خبر آرہی ہے کہ سعودی مقتدر اداروں نے پاکستانی اداروں اور مذہبی سیاسی ھمنواوں سے مل کر Pti اور Mwm کے اتحاد کی شدید مخالفت کی ہےاور اس اتحاد کو توڑنے کامطالبہ کردیا ہے، اور اسکی قیمت کے طور پر اگلی حکومت کو بھرپور شاہی امداد دینے کی پیشکش بھی کردی ہے، پیسہ پھینک، تماشہ دیکھ کا عملی مظاھرہ شروع ہوچکا ہے۔
تکفیری متعصب فرقہ پرست دہشتگرد جماعتوں اور ان کے سرپرستوں کے ہاں صف ماتم تو بچھ ہی چکی تھی لیکن PTI کے بعض کمزور لیڈرز بھی اسی تعصب کی بھینٹ چڑھ کر عمران خان پر شیعہ جماعت کی بجائے کسی اور مسلکی اور فرقہ وارانہ جماعت سے اتحاد کے لئے شدید پریشر ڈال رہے ہیں، اس وقت عمران خان کا بھی امتحان شروع ہوچکا ہے اور ہمارے خود دار اداروں کی آزاد خارجہ پالیسی کا بھی، پاکستانی قوم کو تب شدید افسوس ہوگا جب ماضی کے چالیس سالوں کی فرقہ وارانہ پالیسیز سے سبق حاصل کرکے ملک کو پاکستانیت کی بنیاد پر متحد کرنے کی بجائے مقتدر حلقے سعودیوں کی خواھش کو پالیسی بنالیں اور قوم کو ایک بار پھر فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھادیا جائے [8]۔ صحافی ادیب یوسفزئی کی تحریر
ایک خوبصورت تصویر، اہل تشیع اور سنی بھائی ایک ساتھ
تخریب کار عناصر نے مسلسل کوشش کی کہ اِس ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی جائے لیکن خدائے واحد کو یہ منظور تھا. نہایت خوشی کا مقام ہے کہ سیاست نے ہم سب کو اکھٹا کر لیا. کیا اہل تشیع کیا سنی اور کیا سیاستدان، یہ فیصلے درحقیقت کہیں اور سے ہوتے ہیں۔
تخریب عناصر سیاست اور مذہب کی آڑ لے کر ایک سیاسی جماعت کے مذہبی و سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کو گویا ایسے پیش کر رہے تھے جیسے یہ کوئی گناہ گبیرہ ہو. لیکن آج دیکھیں کہ اِن تخریب کاروں کے منہ پر کیسا زوردار طمانچہ پڑا. پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اتحاد کر لیا ہے اور تمام منتخب اراکین اب اس جماعت میں شامل ہو کر حکومت سازی کا مرحلہ طے کریں گے. یہ تو سیاسی بحث ہے لیکن جو خوبصورتی مجلس وحدت المسلمین نے دکھائی ہے اُس کا ثانی نہیں.
پی ٹی آئی نے پہلے مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا تھا تاہم اب یہ جگہ سنی اتحاد کونسل نے لے لی. اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری بھی موجود تھے. انہوں نے کوئی گلہ شکوہ کرنے کی بجائے کہ 'جیسے پاکستان بناتے وقت شیعہ سنی متحد ہوئے تھے ہم آج ملک کے تحفظ کے لئے متحد ہیں. سنی اتحاد کونسل سے سیاسی اتحاد کا مشورہ ہمارا تھا. ہم پاکستان میں فرقہ واریت نہیں چاہتے. ہمیں اس پہ خوشی ہے کوئی تحفظات نہیں'
آپ کو کیا لگتا ہے ہمارے اہل تشیع احباب نے ہماری طرف سے چلائی جانے والی منفی مہم نہیں دیکھی ہوگی؟ بالکل ملاحظہ کی ہوگی لیکن جن کے دل بڑے ہوتے ہیں وہ شکوے کرنے کی جائے ایک ہونے کو ترجیح دیتے ہیں. جن کی نیت صاف ہوتی ہے وہ توڑنے کی بجائے جوڑنے میں پہل کرتے ہیں. ہماری طرف سے کئی تخریب کاروں نے نفرتوں کو بڑھاوا دیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ 'وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے' سیاست اپنی جگہ لیکن للہ تعالیٰ ہمیں ایسی تصویریں مزید دکھائے [9]۔
حوالہ جات
- ↑ سائٹ، مجلس وحدت المسلمین، mwmpak.org
- ↑ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری حجۃ الاسلام و المسلمین راجہ ناصر عباس کا انٹرویو، islamtimes.org
- ↑ سائٹ، مجلس وحدت المسلمین، mwmpak.org
- ↑ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری حجۃ الاسلام و المسلمین راجہ ناصر عباس کا انٹرویو، islamtimes.org
- ↑ تنظیمی شعبہ، mwmpak.org
- ↑ قومی اسمبلی کی نشست این اے 37 سے ایم ڈبلیو ایم امیدوار حمید حسین کامیاب، www.islamtimes.org
- ↑ آزاد امیدواروں کا مجلس وحدت المسلمین پاکستان میں ضم ہونے کا امکان ہے، ڈان نیوز کا دعویٰ، mehrnews.com
- ↑ علامہ محمد امین شہیدی حفظہ اللہ کا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام
- ↑ صحافی ادیب یوسفزئی