مندرجات کا رخ کریں

حسن ترابی

ویکی‌وحدت سے
حسن ترابی
دوسرے نامشہید راہ وحدت
ذاتی معلومات
پیدائش1953 ء، 1331 ش، 1372 ق
پیدائش کی جگہشگر بلتستان پاکستان
یوم وفات14 جولائی
وفات کی جگہکراچی
مذہباسلام، شیعہ
مناصبتحریک جعفریہ پاکستان کا راہنما

شہید حسن ترابی اسلامی اتحاد کے علمبرداروں میں سے ایک تھے جو پاکستان کے بلتستان کے شہر شگر میں پیدا ہوئے۔ شگر کے علاقے میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کراچی شہر میں داخل ہوئے۔ اس شہر میں انہوں نے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور سماجی سرگرمیاں انجام دیں۔ وہ تحریک جعفریہ پاکستان کے راہنما اور اہم ارکان میں سے تھے۔ آپ نے تبلیغی اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے صوبہ سندھ کے دور دراز علاقوں کا سفر کیا اور اس کے ذریعے اس صوبے کے بہت سے شیعہ مکتب اہل بیت علیہم السلام سے زیادہ دلچسپی لینے لگے ۔ وہ اس ملک کے ممتاز خطیبوں اور مبلغین میں سے تھے۔ انہیں تکفیریوں نے کراچی میں شہید کیا۔

ولادت

آپ 6 جولائی 1953 ء کو شمالی علاقہ جات کے علاقے شگر تحصیل کے ہیڈ کوارٹر کے محلہ چمقپہ کے ایک انتہائی دین دار گھرانہ میں آنکھ کھولی۔ آپ پردادا مولانا اخوند محمد حسین، دادا مولانا اخوند محمد رضا، والد اخوند محمد حسین ترابی شگر کے نامور اور عظیم علماء کرام میں شمار ہوتا تھا اور یہ بھی اس گھرانے کی تاریخی سعادت ہے کہ ان تمام کی جائے مدفن مساجد ہی رہیں۔ قدرت کے کاموں میں بشر کا کیا دخل ، علامہ حسن ترابی نے بھی عباس ٹا‎ؤں کی جامع مسجد محمد مصطفی کے صحن اور علم حضرت عباس عملدار علیہ السلام کے زیر سایہ جگہ پائی۔

بچپن

مولانا محمد حسین نے اپنے عزيز فرزند محمد حسن کو جن کی عمر اس وقت 12 سال تھی عالم نزع میں وصیت کی تھی کہ تمہیں عالم دین بننا ہے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اب کم سن محمد حسن کے لیے مشکل مشکل دور کا آغاز تھا کہ گھر کے بڑے ہونے کے ناطے اپنی والدہ، دو بھائیوں اور ایک بہن کی ذمہ داری کے علاوہ والد کی وصیت پر عمل کرنا تھا۔ آپ بچپن ہی سے فطرتا بہادر، دلیر اور حالات سے نبرد آزما ہونے کی خداداد صلاحیت کے مالک تھے۔ اسی وجہ سے کٹھن حالات بھی آپ کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ آپ نے 1968 میں کراچی ہجرت کی۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم

علامہ حسن ترابی نے ابتدائی تعلیم شگر خاص کے مدرسہ امامیہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد کراچی تشریف لائے۔

کراچی میں تعلیم

کراچی میں مولانا سید ظفر الحسن امروہوی اور مولانا بشیر انصاری فاتحہ ٹیکسلا اور سید مسیب علی زیدی کے قائم کردہ مدرسۂ الواعظین جامعہ امامیہ ناظم آباد کراچی میں داخلہ حاصل کیا۔ مدرسۂ الواعظين جس کا سن تاسیس 1995ء اور تدریس کا آغاز 1958ء میں ہوا۔ مدیران مدرسہ میں آغا سید طیب جزائری، مولانا مرزا بندہ حیدر لکھنوی، مولانا احمد عباس نجفی، مولانا مصطفی جوہر قبلہ، علامہ طالب جوہری، علامہ شیخ محمد موسی نجفی اور آغا فاضل علی موسوی جیسی نامور ہستیاں شامل ہیں۔

جامعہ امامیہ میں آپ نے ممتاز الواعظین کی سند فرسٹ ڈویژن میں فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ 1970ء میں عربی ادیب فاضل کا امتحان کراچی بورڈ سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1974ء میں میٹرک کا امتحان بطور پرائیوٹ امیدوار کراچی بورڈ سے تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا۔

جامعہ امامیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دوبارہ بلتستان کے علاقہ شگر چلے گئے۔ جہاں آپ نے آمر وقت ضیاء الحق کے خلاف اپنی جد و جہد کا آغاز کیا۔ جس کی پاداش میں آپ اپنے رفقاء کے ہمراہ پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے [1]۔

شہید علامہ حسن ترابی نے صوبہ سندھ میں بے پناہ خدمات انجام دیں، علامہ سید ساجد علی نقوی

علامہ سید ساجد علی نقوی نے تحریک کے سابق صوبائی صدر اور متحدہ مجلس عمل کے صوبائی رہنما علامہ حسن ترابی شہید کی 16 ویں برسی کے موقع پر ان کی قومی و ملی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی شخصیت کے اپنے نظریے یا مشن کے ساتھ وابستگی کے مختلف مدارج اور عملی کام کے مختلف انداز ہوتے ہیں جن کے ذریعے ان کی شخصیت دوسروں پر ظاہر ہوتی ہے۔تاریخ اور تجربہ شاہد ہے کہ اپنے نظریے اور مشن پر راسخ لوگ ہی بلندمرتبے اور بڑے درجے پر فائز ہوتے ہیں وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوتے ہیں۔

علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ایک مدت سے ارض پاک معصوموں اور بے گناہوں کے خون ناحق سے رنگین نظر آئی۔ قائدین ملت ہوں یا دین مبین اسلام کی ترویج و اشاعت میں مشغول علماءکرام ہوں‘ اتحاد و وحدت کے فروغ میں مصروف عمل اکابرین وسماجی شخصیات ہوں یا ملک کے قانون و امن پسند عام شہری ….مختلف حالات میں حتیٰ کہ حالت مسافرت میں بسوں سے اتار کرشناخت کرکے انہیں اپنے ہی خون میں نہلادیا گیا۔ علامہ ساجد نقوی نے یہ بھی کہا کہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں میں ملک کے طول و عرض میں ہونے والے سانحات کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کو کیفرار کردار تک پہنچائے تاکہ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کا اعادہ نہ ہو اور ملکی سا لمیت اور قومی وحدت کے لئے کام کرنے والی شخصیات دہشت گردی کی بھینٹ نہ چڑھیں۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے ایک بار پھر شہید علامہ حسن ترابی کے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ علامہ حسن ترابی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان اہداف و مقاصد کی تکمیل کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے جن کی خاطر شہید نے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی[2]۔

شہید علامہ حسن ترابی نے بے پناہ ملی و قومی خدمات انجام دیں

شیعہ نیوز (پاکستانی خبر رساں ادار ہ )شیعہ علماء کونسل پاکستان کے قائد علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ ملک میں اتحاد و وحدت کی بنیاد، اخوت و یگانگت کے فروغ اور داخلی سلامتی و استحکام کیلئے ہماری جدوجہد تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس راستے میں قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ اسی تناظر میں علامہ حسن ترابی نے متواتر اور مسلسل جدوجہد جاری رکھی اور اعلیٰ و ارفع اہداف کے حصول کی خاطر اور نیک و پاکیزہ مشن کی تکمیل کرتے ہوئے اس راہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔

شہید علامہ حسن ترابی کی 14ویں برسی کی مناسبت سے اپنے پیغام میں علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ قرآنی و نبوی تصور کے مطابق امت مسلمہ درحقیقت امت واحدہ ہے۔ اس تصور کو اجاگر کرتے ہوئے ہم نے امت مسلمہ کی وحدت کو ایک تنظیم اور نظم کی صورت دے کر اس ملک میں بلکہ برصغیر کی تاریخ میں متحدہ مجلس عمل پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان جیسے منفرد اور معتبر فورم کی تاسیس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ اس کے اثرات ملک کے گلی کوچوں تک پہنچے، جس کے نتیجے میں نہ صرف اسلامیان پاکستان بلکہ عالم اسلام کسی نہ کسی حوالے سے استفادہ کر رہا ہے۔

اس فورم کے ذریعے خاص طور پر صوبہ سندھ میں شہید علامہ حسن ترابی نے بے پناہ خدمات سرانجام دیں اور وحدت و اخوت کے پیغام کو پھیلانے میں شب و روز جدوجہد کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہید کی ملی خدمات، ان کے مشن، ہدف اور مقصد کو آگے بڑھانے، ان کی یاد منانے اور حقیقی معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے لازم و ناگزیر ہے۔ ان کے مثبت کردار کو مشعل راہ بنایا جائے۔ شہید کی برسی کے اس موقع پر علامہ ساجد نقوی نے شہید علامہ حسن ترابی کے خانوادے کی دلجوئی کرتے ہوئے شہید حسن ترابی اور شہدائے ملت کے درجات کی بلندی اور وطن عزیز کے استحکام و سلامتی کی خصوصی دعا کی[3]۔

شہید حسن ترابی ؒ ایک عہد ساز شخصیت

کسی شہر میں جب کوئی بڑا آدمی اس دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے تو شہر کے اکثر پڑھے لکھے احباب کہتے ہیں کہ مرحوم اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھا ، مگر ایک شخصیت اس پاکستان میں ایسی بھی گزری ہے کہ جو بظاہر تو ایک خاص الخاص کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھی ، مگر ملک کے کونے کونے میں اس کی گونج تھی ، وہ تھا ہی ایسا متحرک و بےباک کہ رہتا تو و ملک کے ایک کونے میں تھا مگر اس نے کمندیں ملک کے آخری کونہ تک ڈالی ہوئی تھیں۔

اپنی ذات میں انجمن ہونا جیسے الفاظ و جملے تو حسن ترابی شہید کے ہاتھ کی صرف انگشت شہادت تک ہی رہ جاتے ہیں اس سے آگے ان کے ان کی قوت پرواز ختم ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اپنی ذات میں پوری ایک کمیونٹی کو سموے ہوے تھا ، جی ہاں وہ جہاں جاتا ، پوری قوم اس کے ساتھ چلتی وہ جہاں ہوتا ، پوری قوم اس کے ساتھ موجود ہوتی وہ جہاں بیٹھتا ، پوری قوم وہاں ٹانگیں پسار کر بیھٹ جاتی وہ جہاں بولتا ، پوری قوم کی آواز ہوتا وہ سندھ میں ہر شہید کے لاشہ پر اس کے عزیزوں سے پہلے موجود ہوتا تھا وہ اتنا متحرک تھا کہ کوئی بھی قومی ذمداری اس سے ہٹ کر گزر ہی نہیں پاتی تھی۔

وہ شہر کراچی کا جنرل سیکریٹری تھا ، جب پورے صوبہ کا سیکریٹری تھا تب پورے صوبہ سندھ کا صدر تھا تب ، متحدہ مجلس عمل کا عہدہدار تھا جب وہ ہر عہدہ و ذمداری کو چار چاند لگا دیتا تھا ، ذمداریاں اس کے تعاقب میں رہتی تھیں ،وہ ان سے آگے آگے چلتا تھا ، وہ امام علی کا سچا پیروکار و اسلام محمدی کا حقیقی فرزند تھا. آج کوئی لکھاری و مؤرخ اس کے متحرک ہونے کی منظر کشی نہیں کرسکتا آج کوئی عام ذھن یا قلم اس کی فعالیت کا اندازہ نہیں کرسکتا ہے آج واقعا حسن ترابی شہید پر لکھنے والا ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے سکتا ہے۔

آج ملت کے قاید و نمائندہ ولی امر المسلمین کے علاوہ بلا مبالغہ پورے ملک میں حسن ترابی جیسا متحرک و جانباز ملت کا محافظ ڈھونڈے سے نہیں ملے گا آج شہادتوں کا سفر اتنا تیز تر ہوچکا ہے کہ حسن ترابی جیسے شہید سالار کی یاد راہ حق کے ہر مسافر کو بے چین کیے دے رہی ہے کراچی کی ایک بستی ( نیو کراچی ) کی مسجد سکینہ سے1982 میں اٹھنے والی ملی سیاست و مصائب کی لہر آج پاکستان میں شعیہ شہادتوں کے ساتوں سمندروں کا سب سے قدیم پانی بن چکی ہے

سماجی سرگرمیاں

مسجد سکینہ کا واقیہ ، پھر بنر روڈ کا تین روزہ دھرنا ، مرکزی امام بارگاہ لیاقت آباد کا سانحہ و ، لیاقت آباد میں شعیوں کے گھروں کا جلایا جانا اور وہاں سے شعیہ آبادی کی ہجرت اور پھر کراچی ہی میں ایک جلوس عاشورہ کا امام بارگاہ علی رضا پر دن بھر رکا رہنا ، یہ سب واقیات حسن ترابی جیسے لیڈر کی متحرک زندگی کا نقطہء آغاز تھے ، مگر آج شہید حسن ترابی کی 10 برسی کے موقع پر راقم الحروف یہ سوچ رہا ہے کہ وہ حسن ترابی شہید کی کس کس فعالیت کا ذکر کرے۔

حسن ترابی شہید کی فعالیت ایک دریا ، تو ، راقم کا دماغ صرف اس دریا میں چلنے والی ایک چھوٹی سی کشتی اور قلم اس کشتی کا معمولی سا چپو ہے یقینا چوبیس سال سے ملت کی قیادت سنبھالے ہوے قاید ملت جعفریہ ( کہ جن کی قیادت آج اس مقام پر ہے کہ علاوہ رہبر معظم کوئی ان کی ہمسری نہیں کرسکتا ہے ، دنیا کے تمام ممالک بلا تشخص اسلامی و غیر اسلامی ، کے اندر موجود شعیہ کمیونٹیز تو کجا خود مسلمانوں میں ایسا کوئی بھی مذھبی لیڈر موجود نہیں ہے کہ جو سیاست دین میں مدرسہ نہیں ، یونیورسٹی نہیں بلکہ پورا حوزہ ہو ، ساری دنیا گھوم کر آجایے۔

دنیا کے کسی کونہ میں آپ کو خط انبیاء ، خط آئمہ ، خط امام خمینی ، پر سیاست کرنے والی شخصیات میں سے ایک بھی ایسا لیڈر و رہنما بعد از رہبر معظم نہیں ملے گا ، یہ راقم کا ہر عالم و جاہل کو کھلا چیلنج ہے — مسلہ یہ ہے کہ انبیاء بہت اچھے تھے ، ختم المرسلین رسول خدا ساری بشریت سے اعلیٰ تھے ، مگر انبیاء و ختم المرسلین کو امتیں اچھی نہیں ملیں ، مولا امام علی بے مثل تھے۔

لیکن امت و اصحاب وہ ہی تھے جو رسول خدا کے تھے ، سواے امام حسین کے اصحاب کسی کے بھی تاریخی حیثیت کے حامل نہیں ہوسکے آج بھی ایسا ہی ہے ، جب امام علی جیسے امام اچھی امت و اصحاب سے محروم تھے تو آج غلام امام علی ساجد علی بھی اچھی امت سے محروم کر دیے گیے پاکستان میں نایب امام کے نایب آیت الله ساجد علی نقوی ہی ایک ایسی واحد شخصیت ہیں کہ جو شہید حسن ترابی کو سمھج سکے ہیں ، حسن ترابی شہید ،قاید ملت کے لیے پاکستان کے صوبہ سندھ میں وہ ہی حیثیت رکھتے تھے کہ جو مولا امام حسین کے لشکر میں مولا عباس علمدار کی تھی۔

اس بات کو آج کے دور کا ہر کدس و نا کس درک کر ہی نہیں سکتا ہے کہ شہید علامہ حسن ترابی کی شہادت ، شہید قاید علامہ عارف حسینی کے بعد دوسری سب سے بڑی شہادت تھی کہ حسن ترابی واقعا صوبہ سندھ کا عارف حسینی و ساجدعلی نقوی تھا۔

آج راقم کا قلم ٹوٹے جا رہا ہے حسن ترابی کے لیے سوچتے سوچتے کہ وہ سندھ کی سر زمین پر دین و اسلام ناب محمدی کا کتنا بڑا سپاہی تھا ، وہ ہر میدان کا مرد جری تھا ، وہ ساجد علی نقوی جسے لیڈر کا حقیقی جانشین تھا ، راقم نے 1998 میں اپنے اصحاب با وفا کو فیصلہ دے دیا تھا کہ یہ شخص حسن ترابی ہر حال میں شہادت کے درجہ پر فایز ہوگا ، اس شخص کا انعام شہادت کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتا — حسن ترابی کے لیے سارے تکفیری گروہوں نے مل کر زور لگایا ہوا تھا کہ کسی طرح بھی ممکن ہو اس لیڈر کو ہر حال میں ختم کرنا ہے۔

ایک مرتبہ دوستوں نے پوچھا کے آغا آپ اپنی حفاظت کی کیوں پروا نہیں کرتے ہیں تو مرد مجاہد کہنے لگا میری حفاظت کا ضامن الله رب العزة ہے ، میں گھر سے نکلتے وقت وہ آیات تلاوت کر کے چلتا ہوں کہ جو رسول الله نے وقت ہجرت دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لیے تلاوت کی تھیں ، یہ ہی وجہ تھی کہ سارا یزیدی لشکر حسن ترابی کو مارنے سے عاجز آچکا تھا ، آخر ، کو ، اس نے ایک انتہائی الگ و خاص طریقہ سے اس مرد قلندر کو مارنے کی ٹھانی ، اور ایک دہشت گردخود کش بمبارکو شعیہ سید عالم (کالی عبا و کالا عمامہ) کا لباس پہنا کر کہ جس کے اندر اس نے جیکٹ بم پہنا ہوا تھا ، کو شہید حسن ترابی کے گھر ان سے ملنے بھجا۔

اور اس طرح وقت کا بو لہب و بو سفیان و بو معاویہ و یزید سندھ پاکستان کے سالار لشکر محمد و علی و حسن و حسین و خمینی و خامنائی و ساجد نقوی کو شہید کرنے میں کامیاب رہا ، مگراس دن حسن ترابی مرے نہیں تھے بلکہ اس دن ان کے دشمنوں نے ان کے قدموں میں گر کر اپنی ناک زمین پر رگڑی تھی اور حسن ترابی سے گڑ گڑا کر یہ التجا کی تھی کہ خدارا تم اس دنیا سے چلے جاؤ۔

ہم سے تمہارا مقابلہ نہیں ہوپارہا ہے ، تم بہت طاقتور ہو اور ہم بہت کمزور ، اور آخر کار کفر و شیطان و یزیدیت کی اس التجا پر وقت دوراں میں ، امام علی و امام حسین کے ایک اور بیٹے حسن ترابی کو اس پر رحم آگیا اور اس نے اپنے گھر کے دروازہ کے باہر آ کر اپنی تلوار نیام میں رکھ لی اور ” رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا” کا نعرہ لگا کر خدا کے حضور ایک نفس مطمئن بن کر پہونچ گیا ، خدا ہم سب کو شہید حسن ترابی جیسا فعال کارکن ہونے کی توفیق عطا فرمائے[4]۔

شہید علامہ حسن ترابی ملت تشیع اور ریاست پاکستان کے محسن تھے

جعفریہ الائنس پاکستان کے نائب صدر علامہ باقر حسین زیدی کا شہید علامہ حسن ترابی کی 13ویں برسی کے موقع پرناظم آباد میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہید علامہ حسن ترابی ملت تشیع کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کے بھی محسن تھے۔

علامہ باقر حسین زیدی کا کہنا تھا کہ جب ریاست پاکستان کے اندر دشمن فرقہ واریت پھیلاکر ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے، اُس وقت شہید علامہ حسن ترابی نے اتحاد و بھائی چارگی کے زریعے فرقہ واریت جیسی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ کر ریاست پاکستان سے اپنے اور اپنی قوم کی حبُ الوطنی کا ثبوت دیا۔

علامہ حسن ترابی ایک کامل اور جامع شخصیت کے حامل تھے، حسن ترابی ایک زندہ اور جاوید حقیقت کا نام ہے، حسن ترابی عظیم پیشوا اور رہنما تھے، حسن ترابی نے ہمیشہ ہر مظلوم کی حمایت کی اور ہر ظالم و جابر کے خلاف قیام کیا۔

شہید حسن ترابی کی عظیم جدوجہد نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ اگر دنیا بھر کے مظلوم اکھٹے ہوجائیں تو ظالم اور ظلم کا خاتمہ ہوجائے گا، حسن ترابی نے اسلام کی سربلندی کی خاطر ہر قسم کی قربانی دی اور ملت کے عظیم مفاد کیلئے اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا[5]

حوالہ جات

  1. حسن مرتضي، شہید راہ وحدت علامہ حسن ترابی شہید، ادارہ تحفظ آثار شہداء اسلام پاکستان، 2007ءص49
  2. شہید علامہ حسن ترابی نے صوبہ سندھ میں بے پناہ خدمات انجام دیں، علامہ سید ساجد علی نقوی- شائع شدہ از: 14 جولائی 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جولائی 2025ء
  3. شہید علامہ حسن ترابی نے بے پناہ ملی و قومی خدمات انجام دیں- شائع شدہ از: 15 جولائی 2020ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جولائی 2025ء
  4. شہید حسن ترابی ؒ ایک عہد ساز شخصیت- شائع شدہ از: 14 جولائی 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جولائی 2025ء
  5. شہید علامہ حسن ترابی ملت تشیع اور ریاست پاکستان کے محسن تھے- شائع شدہ از: 18 جولائی 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جولائی 2025ء