عباس بن علی

ویکی‌وحدت سے
عباس بن علی
حرم حضرت عباس.jpg
تاریخ ولادت4 شعبان سن 26 ھ
جائے ولادتمدینہ
شهادت61 ہجری
القاب
  • قمر بنی
  • سقائے حرم
  • باب الحوائج
کنیتابو الفضل
والد ماجدامام علی علیہ السلام
والدہ ماجدہفاطمه کلابیه
اولاد
  • عبید اللہ
  • فضل
مدفنکربلا عراق

عباس بن علی ابن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) 4 شعبان سن 26 ھ کو عثمان بن عفان کے دور خلافت میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔آپ کی کنیت " ابوالفضل" ہے. آپ کی والدہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت حزام "ام البنین" کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت عباس(ع) کو علمدار بھی پکارا جاتا ہے۔ آپ(ع) اسلام میں اپنے بھائی حسین بن علی کے لیے وفادار رہنے، آل فاطمہ کا احترام کرنے اور جنگ کربلاء میں اپنے کردار کی وجہ سے ممتاز شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی یوم عاشوراء کربلا شہادت ہوئی۔ ابو الفضل العباس عرب میں بہادری و شجاعت کے لیے بھی مشہور تھے۔ ابن منظور لسان العرب میں لکھتے ہیں کہ عباس وہ شیر تھے جس سے دوسرے شیر ڈرتے تھے۔اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم ولادت علمدار کربلا حضرت عباس(ع) کو یوم جانباز یعنی جنگی مجروحین کا دن قرار دیا گیا ہے۔

ولادت

3 [[شعبان |شعبان المعظم] 26 ہجری قمری مدینہ منورہ میں آپ (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت ہوئی، حضرت عباس کی ولادت سے کائنات خوشیوں سے مملو ہو گئی۔ امام علی علیہ السلام نے آپ(ع) کے کانوں میں اذان و اقامت کہی۔ ولادت باسعادت کے ساتویں دن ایک دنبہ ذبح کروا کر عقیقہ کیا اور فقراء میں تقسیم کیا۔ امیر المؤمنین (علیہ السلام) حضرت عباس(ع) سے انتہائی محبت کرتے تھے، اپنی گود میں بٹھاتے تھے اور آستینوں کو الٹ کر بازوپر بوسہ دیتے تھے اور آنسو بہاتے تھے۔

ان کی ماں ام البنین(ع) اس ماجرا کو دیکھ رہی تھیں، انہوں نے گریہ کرنے کی وجہ دریافت کی تو امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا" یہ ہاتھ حسین (علیہ السلام) کی مدد اور نصرت میں کاٹے جائیں گے میں اس دن کو یاد کر کے رو رہا ہوں"۔

تربیت

وہی گھرانہ جس میں جوانان جنت کے سرداروں نے تربیت پائی اسی میں حضرت عباس (علیہ السلام) کی بھی تربیت ہوئی اور شروع سے ہی عترت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے درس انسانیت، شہامت، اخلاق، صداقت اور فداکاری سیکھا۔ آپ کی ذاتی استعداد اور خاندانی تربیت اس چیز کا باعث بنی کہ جسمانی رشد کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معنوی کمالات بھی حاصل کیے۔

حضرت عباس(ع) نہ صرف قد و قامت میں ممتاز اور منفرد تھے بلکہ خردمندی، دانائی اور انسانی کمالات میں بھی اپنی مثال آپ تھے وہ جانتے تھے کہ کس دن کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور انہیں حجت خدا کی نصرت ومدد کرنا ہے، وہ عاشورا ہی کے لیے پیدا ہوئے تھے تاریخ میں ملتا ہے کہ امام علی(ع) نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ (ع) کی تمام اولاد آپ (ع) کے اطراف میں نگران و پریشان اور گریہ کناں کھڑی تھی عباس(ع) کا ہاتھ حسین(ع) کے ہاتھ میں دیا اور یہ وصیت کی" کربلا میں حسین(ع) سے جدا نہ ہونا"۔

حضرت علی(ع) کو اپنی مستجاب تمنا کی آمد پر خوشی

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو جب حضرت عباس کی ولادت کی بشارت دی گئی تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، جلدی گھر آئے بچے کو آغوش میں لیا اور نومولود کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، حضرت علی کا یہ طرز عمل شاید عام لوگوں کو معمولی لگے لیکن حضرت علی اپنی مستجاب دعا کو شروع تولد میں ہی یکتا پرستی کا سبق پڑھا رہے تھے۔

چونکہ حضرت علی اپنی دور رس معصوم نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کا بیٹا عباس گوش شنوا اور چشم بینا رکھتے ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عباس نے اپنی پوری بابرکت زندگی میں ایک لحظہ کے لیے بھی حق کے راستے میں شک کا شکار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنے امام وقت کی اطاعت اور پیروی میں زندگی گزاری۔ امام علی نے اپنے نو مولود کا نام عباس (یعنی بپھرا ہوا شیر) رکھا۔

حضرت عباس(ع) کا بچپن، لڑکپن اور جوانی عصمت و طہارت کے سایہ تلے گذری۔ انہوں نے اس موقع سے اپنے لیے پورا فائدہ اٹھایا۔ باپ نے جس غرض کے لیے آپ کو مانگا تھا اس پر پورے اترے اور کربلا میں آپ نے وہ کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لیے نمونہ عمل کے طور پر باقی رہے گا۔

امام علی نے کان میں اذان و اقامت اور نامگذاری کے مراسم انجام دینے کے بعد حضرت عباس کو فرزند رسول ، لخت جگر بتول حضرت امام حسین کی آغوش میں دیا۔ آقا حسین نے اپنے قوت بازو کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا، مولا حسین کی خوشبو محسوس کر کے حضرت عباس نے ولادت کے بعد پہلی بار آنکھیں کھولیں اور اپنے بھائی کے مبارک چہرے کی زیارت کی اس منظر کی شاعر نے یوں نقشہ کشی کی ہے:

ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی

اک آنکھ ہے مسرور تو اک آنکھ ہے باکی

شاید حضرت عباس مولا حسین کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھول کر اپنے مولا و آقا حسینؑ کے چہرے کی زیارت کے ساتھ، اپنے باپ کی تمنا اور آرزو پر پورا اترنے کا عہد و پیمان کر رہے تھے۔

آپ(ع) کی ازدواجی زندگی

عباس علیہ السلام نے اٹھارہ سال کی عمر میں امام حسن علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دور میں عبد اللہ بن عباس کی بیٹی حضرت لبابہ کے ساتھ شادی کی۔ عبد اللہ بن عباس راوی حدیث، مفسر قرآن، اور امام علی(ع) کے بہترین شاگرد تھے۔ اس خاتون کی شخصیت بھی ایک علمی گھرانے میں پروان چڑھی تھی اور بہترین علم و ادب کے زیور سے آراستہ تھیں جناب عباس(ع) کے ہاں دو بیٹے پیداہوئے حضرت عبید اللہ اور حضرت فضل جو بعد میں بزرگ علماء اور فضلا میں سے شمار ہوئے حضرت عباس(ع) کے پوتوں میں سے کچھ افراد راویان حدیث اور اپنے زمانے کے برجستہ علماء میں شمار ہوتے ہیں یہ نور علوی جو عباس(ع) کی صلب میں تھا نسل در نسل تجلی کرتا رہا اور ہمیشہ کے لیے زندہ و جاویداں بن گیا۔

حضرت عباس ،امام حسن(ع) کی خدمت میں

سن 40 ہجری 21 رمضان المبارک آل علی کے لیے نہایت ہی غمگین گھڑی تھی، چونکہ ابن ملجم کی زہر آلود تلوار کا وار کاری ثابت ہوا اور یوں خورشید عدالت نے غروب کیا۔ اور لوگوں نے امام حسن کے ہاتھ پر بیعت کی، عین اسی وقت معاویہ اور اس کے کارندے سیم و رز کے ذریعے رؤسا قبائل کو خریدنے میں سرگرم عمل ہوئے اور امام حسن کی بیعت کو کمزور اور لوگوں کی عقیدت کو امام حسن کے لیے سست کرنے لگے اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ کوفہ اور اس کے اطراف سے امام علی کی شہادت سے پہلے ایک لاکھ بیس ہزار لوگ معاویہ سے جنگ کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی لیکن آج ان میں سے صرف بارہ ہزار افراد کو (وہ بھی بڑی زحمت اور تگ و دو سے) جمع کیا۔[1]۔

یوں لوگ انتظار سے پہلے ہی اپنے امام کو تنہا چھوڑ کر ان کے پاس سے ہٹ گئے، یہاں تک کہ ان کے چچا کے بیٹے عبید اللہ بن عباس (جو سپاہ امام کے کمانڈر تھے ) کو بھی بھاری رقم رشوت دیکر خرید لیا۔ عبید اللہ بن عباس کی خیانت سے سپاہ امام کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی ،دیکھتے ہی دیکھتے امام کے ایک اور کمانڈر بنام کندی 4 ہزار سپاہیوں کے ساتھ (جو شہر انبار میں مستقر تھے) معاویہ سے جا ملے ،اس سے بڑھ کر ان بے۔

ایمان لوگوں نے مدائن کے نزدیک (ساباط) نامی گاؤں میں امام حسن کے خیمے پر حملہ کر کے آپ کے سجادہ کو پاؤں تلے سے باہر کھینچ نکالا اور آپ کو زمین پر گرا دیا اور خنجر سے آپ کی ران پر زخم لگا دیا، لوگوں کی بے وفائی ، معاویہ کے سیم و زر کے سامنے بک کر امام سے خیانت اور حتی آپ کے قتل کے درپے ہونا۔۔۔ ایسے عوامل تھے کہ امام حسن ؑ نے 25 ربیع الاول 41 ہجری کو معاویہ کے ساتھ صلح کی۔

اسی طرح حکومت عدل کہ جس کی امام علی نے بنیاد ڈالی تھی جو غریب اور بینوا لوگوں کی خوشبختی کی نوید تھی آج اختتام کو پہنچی ،پھر کیا تھا معاشرہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے ظلم و ستم کا شکار ہوا۔ ان تمام حالات اور مشکلات میں حضرت عباس اپنے بھائی امام حسن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لوگوں کو اصل حقیقت کی شناخت کی طرف دعوت دے رہے تھے،پکار پکار کر لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جہالت اور خوف کی قبر میں سوئے لوگ جاگ نہ سکے۔ لیکن جب معاویہ کے کارندے جیسے سمرۃ بن جندب،بسر بن ارطاۃ اور زیاد بن ابیہ کے تیغ تلے قتل عام ہوئے تو حکومت عدل علوی یاد آئی۔[2]۔

امام حسین(ع) سے بیعت طلبی کے وقت حضرت عباس ؑ کا کردار

جب معاویہ اس دنیا سے مر گیا اور یزید لعین مسند خلافت پر بیٹھ گیا اور عالم اسلام کی بڑی بڑی شخصیات سے بیعت کے درپے ہوا ، حاکم مدینہ ولید بن عقبہ نے امام حسین کو رات کے وقت، دار الامارۃ میں طلب کیا ، امام ان کی نیت سے واقف تھے لہذا آپ اپنے قوت بازو عباس اور دوسرے جوانان بنی ہاشم کے ہمراہ دار الامارۃ پہنچے اور انہیں ولید کے گھر کے باہر مامور کیا اور کہا کہ جب میری آواز اونچی ہو جائے تو گھر میں داخل ہونا ، اور خود ولید کے گھر میں داخل ہوئے ۔ ولید نے امام حسین کا استقبال کیا اور معاویہ کی موت کی خبر سنائی ، ساتھ ہی امام کو یزید کا حکم سنایا جس میں اہل مدینہ سے بالعموم اور امام حسین سے بالخصوص بیعت لینے کا کہا گیا تھا ۔ امام نے ولید کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :

ہم اہل بیت نبوت ہیں صبح ہو جائے اور سب لوگوں کے سامنے اپنے موقف کا اظہار کریں گے ۔ مروان بن حکم جو ولید کے پاس موجود تھا کہنے لگا :یا امیر انہیں جانے نہ دیجئے ، اگر یہاں سے باہر چلے گئے تو پھر آپ کے ہاتھ آنا مشکل ہے ، یہیں ان سے بیعت طلب کرو، نہ ماننے کی صورت میں ان کی گردن اڑاؤ ! امام حسین نے مروان پر ایک تحقیر آمیز نگاہ ڈالی اور فرمایا :

اے زرقا کے بیٹے (نیلی آنکھیں والی ماں کے بیٹا)! آیا تو مجھے قتل کرے گا یا یہ ؟ ( پاس بیٹھے ہوئے ولید کی طرف اشارہ کیا ) پھر امام نے ولید سے کہا " اے امیر ہم اہلبیت نبوت ، معدن رسالت ، محل رفت و آمد ملائکہ ہیں ۔۔۔ اور یزید ایک فاسق و فاجر ، شرابخوار ، ناحق قاتل نفس ۔۔۔ ہے کبھی بھی مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ۔۔۔" یوں امام نے صراحتا اپنی عدم بیعت کا اعلان کر دیا ۔ مروان اور ولید نے حضرت عباس کی قیادت میں جوانان بنی ہاشم کی تلواروں کی چھنکار سنی تو امام سے متعرض ہونے کی ہمت نہیں کی ، حضرت امام حسین جوانان بنی ہاشم ( جن کی سربراہی حضرت عباس ؑ فرما رہے تھے ) کے جھرمٹ میں محلہ بنی ہاشم پہنچے ۔

امام علیہ السلام نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اور مکہ ،حرم امن الہی کی طرف کوچ کا حکم دیا ، بہت سی بزرگ شخصیات اس سفر میں امام حسین کی ہمراہی سے محروم رہیں لیکن حضرت عباس نہ فقط ان مشکل حالات میں امام کے ساتھ رہے بلکہ انہوں نے امام کے تمام امور اور اہل خانہ کی سرپرستی اپنے ذمے لی اور اس کاروان کی علمداری کا حق نبھایا تمام ممکنہ خطرات کے سامنے سینہ سپر ہو کر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچے۔[3]۔

شجاعت حضرت عباس(ع)

حضرت عباس(ع) نے اپنی گرانقدر زندگی کے چودہ سال امیر المؤمنین(ع) کے ساتھ گزارے اس کے علاوہ آپ(ع) کے ننہال( قبیلہ بنی کلاب) جو شجاعت، بہادری اور شمشیر زنی میں معروف تھے آپ کی شجاعت ان دو خاندانوں کی تاثیر تھی گویا عباس(ع) شجاعت کے دو سمندروں کا آپس میں ملنے کا نام ہے تاریخ نے اس ہاشمی نوجوان کے جنگ صفین کے بعض کرشموں کو قلمبند کیا ہےملتا ہے کہ:

صفین کی جنگ کے دوران ایک نقاب پوش نوجوان امیر المؤمنین کے لشکر سے نکلا جس کی ہیبت سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور دور سے خاموش تماشائی بن گئے معاویہ کو اس بات پر غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی" ابن شعثاء" کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کر سکتا تھا اس نے کہا" اے امیر مجھے لوگ دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ مجھے ایک نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں معاویہ نے کہا پس کیا کروں ابن شعثا نے کہا میرے سات بیٹے ہیں میں ان میں سے کسی ایک کو بھیجتا ہوں تا کہ اس کا کام تمام کر دے معاویہ نے کہا بھیج دو اس نے ایک کو بھیجا اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔

دوسرے کو بھیجا اس کا بھی وہی حال ہوا اسی طر ح تیسرے چوتھے اور ساتویں تک سارے کے سارے واصل جہنم ہوگئے معاویہ کی فوج میں زلزلہ آ گیا آخر کار خود " ابن شعثا" میدان میں یہ رجز پڑھتا ہوا آیا اے جوان تو نے میرے سات بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تیری عزا میں بٹھاؤں گا اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں چمکنے لگیں آخر اس نوجوان نے ایک کاری ضرب سے " ابن شعثاء" کو زمین بوس کر دیا سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المؤمنین نے وا پس بلا لیا نقاب ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا یہ نو جوان کون تھا یہ قمر بنی ہاشم یہ بار ہ سالہ نوجوان شیر خدا کا شیر تھا۔

وفاداری

حضرت عباس(ع) نے جب سے آنکھ کھولی تھی آپ(ع) مدینہ میں قبیلہ بنی ہاشم ہی میں رہتے تھے اور امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو اپنے ارد گرد دیکھا اور ان کی مہر ومحبت کے سائے میں پروان چڑھے اور امامت کے چشمہ علم ومعرفت سے سیراب ہوتے رہے، آپ(ع) ہمیشہ امام حسین(ع) کے شانہ بشانہ رہتے تھے جوانی کو امام (علیہ السلام) کی خدمات میں گزار دیا بنی ہاشم کے درمیان آپ (علیہ السلام) کا خاص رعب و دبدبہ تھا حضرت عباس(ع) بنی ہاشم کے تین جوانو ں کو حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔

جو ہمیشہ امام حسین(ع) کے ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرتے اور اس رات بھی جب معاویہ کے مرنے کے بعد ولید یزید کی بیعت کے لیے امام حسین (ع) کو دارالخلافہ بلایا تینوں جوان جناب عباس (ع) کی نظارت میں دارالخلافہ گئے اور امام(ع) کے حکم کے مطابق باہرکھڑے رہتے تھے اور امام (علیہ السلام) کے حکم کا انتظار کرتے تھے۔ یزید کی بیعت کا انکار کرنے پر امام (علیہ السلام) کو یزید کے مقابلے میں قیام کرنا پڑا اس سفر میں بھی جناب عباس امام(ع) کے شانہ بشانہ تھے اور پروانے کی طرح امام(ع) کے گرد چکر لگا رہے تھے کہ کہیں میرے مولا کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔

کربلا میں

کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) نے حضرت عباس(ع) کو اپنی فوج کا سپہ سالار مقرر کیا، خیام حسینی (علیہ السلام) کی حفاظت و نگہبانی آپ کے ذمہ تھی۔ عصر تاسوعا جب لشکر عمر ابن سعد نے خیام حسینی(ع) کو گھیر ے میں لینے کی کوشش کی تو امام حسین (علیہ السلام) نے جناب عباس (علیہ السلام) کو دشمن کی طرف بھیجا تا کہ معلوم کر سکیں کہ دشمن کا کیا ارادہ ہے ؟ جب چند ساتھیوں کے ساتھ حضرت عباس (علیہ السلام) قوم اشقیاء کے پاس جاتے ہیں اور وہ جنگ کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں۔

جب آپ(ع) آکر امام حسین (علیہ السلام) کو دشمن کے ارادے سے آگاہ کرتے ہیں تو امام (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ بنفسی یا اخی اے میرے بھائی تجھ پر میری جان قربان ہو جائے تو جانتا ہے کہ مجھے عبادت خدا سے عشق ہے جاؤ دشمن سے کہو کہ ہمیں آج کی رات مہلت دے دے۔ بنی ہاشم اور اصحاب کے شہید ہو جانے کے بعد حضرت عباس (علیہ السلام) نے امام (علیہ السلام) سے جنگ کی اجازت طلب کی۔

تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا عباس (علیہ السلام) تم میری فوج کے سپہ سالار ہو الغرض امام (علیہ السلام) نے کہا عباس (علیہ السلام) اگر جاتے ہی ہو تو جانے سے پہلے ایک دفعہ بچوں کے لیے پانی لاؤ جناب عباس (علیہ السلام) ہمیشہ کی طرح اطاعت کرتے ہوئے مشکیزہ اٹھایا اور ہلکے سے اسلحہ کے ساتھ دریائے فرات کی طرف چل پڑے جب علی (علیہ السلام) کے اس شیر بیٹے نے میدان کی طرف رخ کیا توفوج اشقیاء بھیڑوں کیطرح بھا گ رہی تھی۔

دریا میں داخل ہو گئے اور مشکیزے کو پانی سے بھرنے کے بعد پانی کو چلو میں لیا اور پھینک دیا یہ عباس (علیہ السلام) کی وفا کی معراج ہے کہ انہوں نے امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے اہل بیت (علیہ السلام) کی پیاس کی یاد میں خود بھی پانی نہ پیا ۔ واپسی کا ارادہ تھا عمر ابن سعد نے اعلان کیا کہ ساری فوج کو جمع کیا جائے اور عباس (علیہ السلام) پر حملہ کیا جائے کہیں پانی خیام حسینی (علیہ السلام) تک نہ پہنچ جائے۔

چاروں طرف سے لشکر یزید نے عباس ابن علی (علیہ السلام) پر حملہ کیا آپ (علیہ السلام) کی یہی کوشش تھی کہ پانی کا مشکیزہ محفوظ رہے اور پانی خیام حسینی (علیہ السلام) تک پہنچ جائے پانی کے مقابلے میں اپنے جسم کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے دشمن نے آپ (علیہ السلام) کے دونوں بازو قلم کر دیے اور یوں یہ مطیع امام (علیہ السلام) اور سقائے اہل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) شہادت کے رفیع درجے پر فائز ہو گیا۔

یہ وہ عظیم ہستی ہے کہ جس کے بارے میں حجت خدا امام وقت، امام سجاد (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں کہ " خدا وند متعال کے ہاں چچا عباس (علیہ السلام) کا ایسا عظیم مقام ہے جس پر تمام شہداء روز قیامت رشک کریں گے " اسی طرح صادق آل محمد (علیہ السلام) جناب عباس (علیہ السلام) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ" کان عمنا العباس نافذ البصیرۃ، صلب الایمان جاہد مع ابی عبد اللہ (علیہ السلام) و ابلی بلاء حسنا و مضی شہیدا "(ہمارے چچا عباس (علیہ السلام) عمیق بصیرت اور مستحکم ایمان کے مالک تھے، امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کیا، بہترین امتحان دے کر مقام شہادت پر فائز ہو گئے"۔ [4]۔

9محرم کی سہ پہر

9 محرم سن 61 ہجری سہ پہر کا وقت ہے فوج اشقیاء ریحانہ رسول کی جانب پیکار کی غرض سے بڑھنے لگتی ہیں ۔ حضرت عباس فورا امام حسین کی خدمت میں پہنچتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ آقا دشمن آپ کی طرف آ رہے ہیں ، امام حسین نے فرمایا : قربان جاؤں جاؤ اور پتا کرو وہ کیا چاہتے ہیں ؟ امام کا یہ طرز تکلم حضرت عباس کی قدر اور منزلت کو بخوبی روشن کر دیتا ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالیترین مرتبہ پر فائز ہیں۔

حضرت ابو الفضل تیس صحابی جن میں زہیر بن قین، حبیب بن مظاہر شامل تھے ، یزیدی فوج کے پاس پہنچے اور اس سے اس کا مقصد دریافت کیا کہ یہ فوجی تحرکات کس لیے انجام دیئے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے بے شرمانہ جواب دیا : عبید اللہ ابن زیاد کا حکم آیا ہے یا تم لوگ یزید کی بیعت کرو ورنہ جنگ کے لیے آمادہ ہو جاؤ ، حضرت عباس نے ان کے ارادوں سے امام کو آگاہ کیا ، آپ نے فرمایا : دیکھو بھائی ان کے پاس جاؤ اور آج رات کے لیے جنگ ٹالنے کی مہلت مانگو تا کہ یہ رات میں قرآن کی تلاوت اور نماز پڑھ کر گزاروں ۔ جب امام کا یہ پیغام عمر سعد تک پہنچایا گیا تو کافی چون و چرا کے بعد ایک رات کی مہلت مل گئی [5]۔

شب عاشورا امام حسین کے دل ہلا دینے والے کلمات

محرم کی دسویں رات امام حسین ، ان کے خاندان اور اصحاب کے لیے بڑی سخت رات تھی امام حسین نے اس رات اپنے تمام اعوان و انصار کو یکجا کیا اور اس حساس موقع پر فرمایا : (میں اپنے اصحاب اور خاندان سے بڑھکر وفادار اور بہتر کسی کے خاندان اور اصحاب کو نہیں سمجھتا ، اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے لیکن آگاہ رہو میں گمان نہیں کرتا کہ آج ان دشمنوں کی طرف سے ہمارے لیے کوئی کل نصیب ہو جائے ، میں نے آپ سب کو اجازت دی اور اپنی بیعت کو آپ سے اٹھایا تا کہ آسودگی اور بغیر ملامت کے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ اختیار کرو اور چلے جاؤ [6]۔

لیکن ابھی امام کا خطبہ آخر کو نہیں پہنچا تھا ایک جوش و جذبہ اہلبیت و اصحاب امام کے اندر وجود میں آیا ، حضرت ابو الفضل نے سب سے پہلے سکوت کو توڑا اور اہلبیت کی نمائندگی میں بولے : آقا کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، خدا ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ آپ کے بعد ہم زندہ رہیں [7]۔ اور اصحاب کی طرف سے سب سے پہلے مسلم ابن عوسجہ نے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔

حضرت عباس کی آخری آس جو پوری نہ ہو سکی

عصر عاشور امام حسین کے تمام یار و انصار شہادت کے رفیع درجے پر فائز ہوئے ۔ صبح سے سہ پہر تک حضرت عباس ، امام حسین کے ساتھ جوانان بنی ہاشم اور اصحاب با وفاء کی لاشیں اٹھا اٹھا کر نڈھال ہو گئے تھے اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھ چکے تھے ۔ مرحوم حبیب اللہ شریف کاشانی ، کتاب تذکرۃ الشہداء میں لکھتے ہیں کہ:

عباس (ع) کے دو صاحبزادے محمد و قاسم بھی کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔ لیکن ان سب سے بڑھکر انہیں بھائی کی تنہائی اور چھوٹے بچوں کی شدت پیاس سے العطش کی صدائیں برداشت نہیں ہو پا رہی تھیں ۔ حضرت عباس نے میدان میں جانے کی اجازت چاہی لیکن امام والا مقام نے یہ کہہ کر ٹالا کہ آپ میرے لشکر کے سپہ سالار اور علمدار ہیں ۔ امام، حضرت عباس کی موجودگی سے احساس توانمندی کرتے تھے اور دشمن بھی عباس کی موجودگی میں خیام حسینی پر حملہ کی جرأت نہیں کر سکتے تھے

عباس(ع) کے اصرار پر آپ کو فقط بچوں کی پیاس بجھانے کے لیے پانی فراہم کرنے کی اجازت ملی ۔ آپ مشکیزہ ساتھ لیے نہر فرات کی طرف بڑھے ، دشمن کا محاصرہ توڑ کر نہر فرات پہنچے ، ایک چلو پانی لیا پیاس کی شدت بڑھ رہی تھی ۔ لیکن آپ نے پانی نہر فرات پر پھینکا اور اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: اے عباس یہ تیرے آئین (وفاء) کے خلاف ہے کہ تو اپنے مولا حسین اور ان کے ننھے بچوں اور مخدرات سے پہلے اپنی پیاس بجھائے ۔ مشکیزہ پانی سے بھر کر خیام حسینی کی طرف چل دیئے ، فوج اشقیاء مانع بنی لیکن ثانی حیدر ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔

حضرت عباس کی ایک آس تھی کہ کسی طرح پانی کا مشکیزہ خیام حسینی تک پہنچا دیں لیکن ایک بزدل نے پیچھے سے گھات میں لگا کر آپ کا دایاں بازو جدا کیا لیکن آپ نے مشکیزہ کو بائیں ہاتھ سے پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ایک بد ذات شقی نے چھپ کر پیچھے سے بائیں بازو کو بھی شہید کر ڈالا لیکن شجاعت کے پیکر عباس نے اس حالت میں بھی ہمت نہیں ہاری ،مشکیزہ کو دانتوں سے پکڑ کر پاؤں سے دفاع کرتے ہوئے آگے بڑھے، لیکن دشمنوں نے ایک دفعہ مشکیزے پر تیروں کی بارش کی اور پانی زمین کربلا میں گرا ، یوں عباس کی آس ٹوٹ گئی ۔ ایک ظالم نے گرز جفا کو آنحضرت کے سر اقدس پر مارا اور آپ اسی حالت میں زمین کربلا پر گرے در حالیکہ دونوں بازو جدا ہو چکے تھے، مولا حسین کو آخری سلام دیا ۔ امام حسین، آپ کی شہادت پر بہت روئے[8]۔

حواله جات

  1. ماہ بی غروب ، عباس علی محمودی ، ص73
  2. قہرمان علقمہ ، آیت اللہ دکتر احمد بہشتی ، ص 189
  3. زندگانی حضرت ابو الفضل ، شریف قریشی ، ص 119
  4. الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد،محمد بن علی، شیخ مفید، ترجمہ حسن موسوی‌ مجاب، ‏قم، انتشارات سرور‏‫، ۱۳۸۸ھ۔ش،ص230
  5. زندگانی حضرت ابو الفضل العباس، شریف قریشی ، ص 170
  6. تاریخ ابن اثیر ، ج3 ، ص 285
  7. تاریخ طبری ، ج6 ، ص 238
  8. حبیب اللہ شریف کاشانی ، کتاب تذکرۃ الشہداء