مندرجات کا رخ کریں

"حسین بخش جاڑا" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
م Saeedi نے صفحہ مسودہ:حسین بخش جاڑا کو حسین بخش جاڑا کی جانب منتقل کیا
 
(کوئی فرق نہیں)

حالیہ نسخہ بمطابق 15:07، 13 ستمبر 2025ء

حسین بخش جاڑا
دوسرے نامآیت اللہ حسین بخش جاڑا
ذاتی معلومات
پیدائش19420 ء، 18798 ش، 19370 ق
پیدائش کی جگہپاکستان قصبہ جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
یوم وفات4دسمبر
وفات کی جگہجامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ لاہور
اساتذہ
  • سید محمد باقر نقوی چکڑالوی
  • سید محمد یار شاہ نجفی
  • جعفر حسین
شاگرد
مذہباسلام، شیعہ
اثرات
  • تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف
  • اسلامی فکر
  • چور کی سزا
  • مناظرہ مصر
  • شیعہ مذہب حق ہے
مناصب
  • حوزہ کا استاد
  • مفسر قرآن
  • خطیب

حسین بخش جاڑا حضرت علامہ حسین بخش جاڑا نور اللہ مرقدہ جیسی بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت سے واقفیت ہر خاص و عام کو ہے اس لیے کہ وہ میدان علم و عمل کے ایسے نور افگن ستارے تھے جن کے فکر و دانش نے دنیا میں جگہ جگہ علم کو رائج کیا اور ایسی ہستیوں سے وابستگی اہل علم کا شیوہ ہے، آپ مہارت علمی میں یکتائے روزگار تھے جب تصانیف لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو قرآن کریم کی ایسی نایاب تفسیر کو تحریر کیا جو حکمت و دانش اور علم و آگہی میں اپنی مثال آپ ہے، جب آپ نے زیب منبر ہو کر تمام تشنگان علم کو اپنے مواعظ حسنہ سے نوازا تو ہر سامع پر روحانی اثرات مرتب ہوئے اور جب درس و تدریس کے سلسلہ کو شروع کیا تو طلبہ کو علم و عمل کا بے مثال درس دیا، آپ ان تمام کمالات کے ساتھ ساتھ روحانی علوم میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے اور ایسے عملیات کے عامل تھے جن کے کسب و ارتقا میں اپنی زندگی صرف کر دی۔

پیدائش

برصغیر پاک و ہند کے ممتاز شیعہ عالم دین و مفسر قرآن علامہ حسین بخش جاڑا طاب ثراہ 1920 کو پاکستان کے صوبہ سرحد "خیبر پختونخوا" کے قصبہ جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، قصبہ جاڑا چشمہ روڈ پر اُچ بلوٹ شریف سے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں واقع ہے۔

تعارف

حضرت علامہ حسین بخش جاڑا نور اللہ مرقدہ جیسی بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت سے واقفیت ہر خاص و عام کو ہے اس لیے کہ وہ میدان علم و عمل کے ایسے نور افگن ستارے تھے جن کے فکر و دانش نے دنیا میں جگہ جگہ علم کو رائج کیا اور ایسی ہستیوں سے وابستگی اہل علم کا شیوہ ہے، آپ مہارت علمی میں یکتائے روزگار تھے جب تصانیف لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو قرآن کریم کی ایسی نایاب تفسیر کو تحریر کیا جو حکمت و دانش اور علم و آگہی میں اپنی مثال آپ ہے، جب آپ نے زیب منبر ہو کر تمام تشنگان علم کو اپنے مواعظ حسنہ سے نوازا تو ہر سامع پر روحانی اثرات مرتب ہوئے۔

اور جب درس و تدریس کے سلسلہ کو شروع کیا تو طلبہ کو علم و عمل کا بے مثال درس دیا، آپ ان تمام کمالات کے ساتھ ساتھ روحانی علوم میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے اور ایسے عملیات کے عامل تھے جن کے کسب و ارتقا میں اپنی زندگی صرف کر دی۔

خاندان

آپ "جاڑا" خاندان کے وہ بدر منیر تھے جن کی علمی و عملی سربلندی کی بدولت یہ خاندان شہرت کے اعلیٰ زینے تک پہنچا۔ آپ کے والد کا نام ملک اللہ بخش جاڑا تھا جو علاقہ کے معروف زمیندار تھے اور ذاکر آل محمدؑ تھے

تعلیم

بستی جاڑا سے ایک کلومیٹر پر کوٹ جائی کے مقام پر لوئر مڈل اسکول جس میں کلاس ششم تک تعلیم دی جاتی تھی وہاں آپ 6 سال کی عمر میں داخل ہوئے اور آپ کے پہلے استاد جن سے دنیاوی تعلیم حاصل کی سید غلام جعفر شاہ صاحب تھے جو کاٹھگڑھ کے رہنے والے تھے، [1] ۔ 1935 میں آپ نے مڈل کا امتحان فسٹ ڈویژن میں پاس کیا [2]۔ آپ نے ناظرہ قرآن سیدعلیاں میں مولانا سید محمد شاہ مرحوم سے پڑھا۔ پس آپ اپنے والد بزرگوار کے مذہبی رجحان اور اپنے دینی میلان کی وجہ سے 1935 میں دینی تعلیم کا آغاز کیا اور چک 38 میں سید محمد باقر شاہ چکڑالوی اعلیٰ اللہ مقامہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔

دینی سطحیات کی تعلیم

1938 میں آپ موضع عونث پور تھہیم تحصیل کبیر والا میں اہلسنت کے مدرسہ میں داخل ہوئے جہاں آپ نے مولانا غلام رسول سے نحو، شرح جامی، منطق، قطبی، مختصر المعانی کی تعلیم حاصل کی۔

اساتذہ

سرزمین پاکستان میں دینی تعلیم کے حصول میں جن جن اساتذہ کرام کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ کیا ان کے نام یہ ہیں:

دینی علوم کے حصول کے لیے چک نمبر 38 تحصیل خانیوال ضلع ملتان میں حضرت مولانا سید محمد باقر نقوی رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، وہاں آپ نے صرف و نحو اور ادب و فقہ جیسے علوم کی تحصیل کی، بعد ازاں آپ نے حضرت مولانا سید محمد یار شاہ نجفی اور حضرت مولانا مفتی جعفر حسین کی خدمت میں کئی سال گزارے اور اخذ فیض کرتے رہے [3]۔ جب 1941 میں دوبارہ قبلہ سید محمد باقر شاہ چکڑالوی اعلی اللہ مقامہ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے وہاں قبلہ سید محمد یار شاہ صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کے ہمراہ درس و تدریس کا کام شروع کیا، وہاں اس وقت مولانا اختر عباس قبلہ اور مولانا نصیر حسین قبلہ بطور طالب علم داخل تھے [4]۔ 1943 میں علامہ مفتی جعفر حسین صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دو سال تک علم حاصل کرتے رہے۔

معقولات کی تعلیم

1946 میں موضع انہی ضلع گجرات ایک اہل سنت کے مدرسہ میں داخلہ لیا اور وہاں معقولات کی تعلیم حاصل کی

فاضل عربی

1945 میں پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان فسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اعلیٰ تعلیم اور اساتذہ حصول تعلیم کے لیے نجف اشرف کا سفر وطن عزیز میں کچھ عرصہ درس و تدریس کے بعد آپ اپنی تعلیمی تشنگی کو بجھانے کے لیے 1951 کو بابِ مدینۃ العلم کے شہر نجف اشرف "عراق" چلے گئے، وہاں آپ نے چار سال قیام کیا اور وہاں کے مشاہیر اساتذہ سے کسب فیض کیا۔

قبلہ مرحوم مختلف مقامات پر مجالس عزاء میں خطاب کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ اخباروں میں نشر ہونے والی تصاویر نجف اشرف میں آپ کے اساتذہ کرام سطحیات کی تعلیم حسب ذیل اساتذہ سے حاصل کی:

  • آیت اللہ العظمی سید محمود مرعشی رح
  • آیت اللہ العظمی سید محمد تقی عرب رح

اور درس خارج میں آپ نے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا وہ یہ ہیں:

  • آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی قدس سرہ
  • آیت اللہ العظمی سید عبد اللہ شیرازی مدظہ العالی
  • آیت اللہ العظمی مرزا حسن یزدی رضوان اللہ علیہ
  • آیت اللہ العظمی مرزا حسن بجنوردی اعلیٰ اللہ مقامہ
  • آیت اللہ العظمی مرزا محمد باقر زنجانی طاب ثراہ

اجتہاد

نجف اشرف جا کر آپ نے دینی تعلیم میں بلند مراتب حاصل کرتے ہوئے فقہ و اصول میں مدارج علمی طے کیے اور منزل اجتہاد پر فائز ہوئے، پس جن جن آیات عظام و مجتہدین کرام سے آپ نے اجازہ اجتہاد "جو آپ کے مجتہد ہونے کی سند ہے" و اجازہ روایت حاصل کیا ان کے اسماء یہ ہیں:

  • آیت اللہ العظمی آقا المرزا محمد حسن البزوی رضوان اللہ علیہ
  • آیت اللہ العظمی آقا سید محسن الحکیم الطباطبائی قدس سرہ
  • آیت اللہ العظمی آقا محمد باقر الزنجانی طاب ثراہ
  • آیت اللہ العظمی محمد محسن طہرانی قدس سرہ
  • آیت اللہ العظمی آقا سید حسین الموسوی الحمامی قدس سرہ
  • آیت اللہ العظمی آقا سید حسن الموسوی البجنوردی اعلیٰ اللہ مقامہ
  • آیت اللہ العظمی سید محمد جواد الطباطبائی اعلیٰ اللہ مقامہ
  • آیت اللہ العظمی آقا سید محمود الحسینی شاھرودی قدس سرہ
  • آیت اللہ العظمی سید عبد اللہ موسوی الشیرازی مدظلہ العالی
  • آیت اللہ العظمی آقا سید احمد الموسوی المستنبط قدس سرہ
  • آیت اللہ العظمی محمد رضا الطیسی النجفی قدس سرہ
  • آیت اللہ العظمی شیخ محمد تقی الراضی طاب ثراہ [5]۔


نجف اشرف میں رفاقت علمی

آپ کبھی کبھی فرماتے تھے کہ اس وقت اگر سرزمین پاکستان میں میرے کوئی علمی دوست اور کلاس فیلو ہیں تو فقط شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی اعلیٰ اللہ مقامہ ہیں جن کے ساتھ نجف اشرف میں میرا علمی بحث و مباحثہ ہوتا اور ہمارا رہن سہن بھی مشترکہ تھا۔"علی ما حکی" وطن واپسی اور مدرسہ کا قیام

1956 میں آپ نجف اشرف سے واپس پاکستان آئے اور اپنے آبائی گاوں جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مدرسہ بنام جامعہ علمیہ باب النجف قائم کیا،[9] جس کی پہلی تحریک 4 شوال المکرم 1374 ہجری بروز جمعہ کو ہوئی اور اس ماہ کے آخر میں اس مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا [6]۔ جہاں آج کل مولانا غلام حسن نجفی صاحب طلبہ کو درس دے رہے ہیں [7]۔ مدرسہ باب النجف کی تعمیر میں حصہ لینے والے طلاب کرام یہ ہیں:

  • شہید ملت جعفریہ علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی دریاخان
  • حجۃ الاسلام علامہ محمد ہاشم صاحب پرنسپل مدرسہ خاتم الانبیاء چکوال
  • حجۃ الاسلام علامہ سید کرامت علی شاہ صاحب پرنسپل جامعہ المصطفی لاہور
  • حجۃ الاسلام علامہ سید امداد حسین شاہ آف کارلووالہ تھل ضلع بھکر
  • حجۃ الاسلام مولانا سید ضمیر باقر شاہ نجفی آف کلورکوٹ ضلع بھکر
  • حجۃ الاسلام مولانا محمد اعجاز ٹاٹے پوری آف ڈیرہ اسماعیل خان
  • حجۃ الاسلام مولانا سید نیاز حسین شاہ آف کاٹھگڑھ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
  • شہید ملت جعفریہ مولانا سید فیروز حسین شاہ آف گرہ بلوچ ضلع ٹانک
  • حجۃ الاسلام مولانا مشتاق حسین جاڑا "برادر علامہ حسین بخش جاڑا" آف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
  • حجۃ الاسلام مولانا سید ضیا حسین شاہ آف گرہ بلوچ ضلع ٹانک
  • حجۃ الاسلام مولانا غلام باقر صاحب آف نورنگ ضلع ٹانک
  • مولانا رب نواز آف جھوک قریشی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان [8]۔

باب النجف کے علاوہ تدریس

جامعہ المنتظر لاہور

1963 میں اہل لاہور کے اصرار پر آپ جامعہ المنتظر لاہور آئے اور باب النجف جاڑا میں مولانا غلام حسن نجفی صاحب کو تعیینات کیا۔

دار العلوم جعفریہ خوشاب

1966 میں دار العلوم جعفریہ خوشاب آئے اور چار سال تک تعلیم دیتے رہے۔

دار العلوم محمدیہ سرگودھا

1970 میں سرگودھا کے معززین کی فرمائش پر دوبارہ دار العلوم محمدیہ میں تشنگان علم کو علوم آل محمد ع سے سیراب کرتے رہے۔

جامعہ حسینیہ جھنگ صدر

آپ 1974 میں جھنگ چلے گئے اور دو سال تک تدریس کرتے رہے۔

جامعہ جعفریہ گوجرانوالہ

قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر صاحب کے حکم پر جامعہ جعفریہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ میں بھی کچھ عرصہ تک مدرس رہے۔

جامعہ امامیہ لاہور

آخری مدرسہ جس میں طلبہ کو علوم آل محمد ع سے سیراب کرتے رہے وہ جامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ لاہور ہے، اسی مدرسہ میں آپ نے وفات پائی۔

خطابت

شیخ جعفر شوشتری رح جو تاریخ کربلا کے خطیب، قابل اعتماد عالم اور ذاکر آل محمد ہیں آپ کے استاذ الاستاذ ہیں اس وجہ سے آپ نے زیب منبر ہو کر اپنے سخن دلنواز اور خطابت کے تاریخی و مذہبی جواہر سے تشنگان علوم آل محمد کو سیراب کیا۔

آثار

  • تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف جس طرح آپ فن تدریس کے ماہر تھے اسی طرح اللہ پاک نے آپ کو فن تصنیف سے بھی نوازا تھا، آپ کی تصانیف انتہائی سادہ، عام فہم اور پر اثر ہیں، آپ نے مولا علیؑ کے مزار اقدس پر دعا مانگی کہ میرے اللہ مجھے قرآن کی تفسیر لکھنے کی ہمت عطا فرما، قبولیت کے لمحات میں مانگی جانے والی دعا قبول ہوئی اور پاکستان آتے ہی آپ نے تصنیف کا کام شروع کیا اور نجف اشرف کی مناسبت سے تفسیر کا نام تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف رکھا، آپ 1958 سے 1976 تک تفسیر لکھتے رہے اور بالآخر 15 جلدوں میں فقہ جعفریہ مسلک کی لکھی جانے والی پاکستان میں اردو کی پہلی تفسیر لکھنے کا اعزاز حاصل کیا۔

یہ تفسیر بلند پایہ تفاسیر میں ایک منفرد مقام کی حیثیت رکھتی ہے اور بہت اہمیت کی حامل ہے، یہ تفسیرِ ہمیشہ علامہ کے افکار اور ان کے عقاید کو زندہ رکھے گی۔ جو پندرہ جلدوں پر مشتمل ہے پہلی جلد مقدمہ اور پندرھویں جلد خاتمہ ہے، قرآن کی تفسیر دوسری جلد سے شروع ہو کر چودھویں جلد تک تکمیل کو پہنچتی ہے۔

  • تفسیر کے علاوہ مجالس پر مشتمل ایک کتاب "مجالس الفاخرۃ فی اذکار العترۃ الطاھرۃ" کے نام سے صاحبان ذکر و فکر کے لیے مصائب و ذکر آل محمد سے سیرابی کا سامان مہیا کرتی ہے۔
  • ایک اور کتاب جو شہدائے کربلا کی زندگی کے بارے میں تحریر ہوئی اور معروف و زیادہ اہمیت کی حامل ہے، "اصحاب الیمین" کے نام سے شہرت رکھتی ہے۔
  • ان کے علاوہ اہم تصنیف "امامت و ملوکیت" کے نام سے صاحبان شعور کے لیے سرچشمہ بصیرت اور اسلام میں شخصی مطلق العنانیت کے خلاف جہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
  • دیگر تصانیف میں "لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار" ہے جو مذہب شیعہ کے عقائد پر لکھی گئی ہے۔
  • "انوار شرعیہ در فقہ جعفریہ" یہ کتاب شرعی مسائل پر مبنی ہے۔
  • علامہ مرحوم نے اپنے استاد بزرگوار علامہ سید محمد باقر نقوی مرحوم کی مجالس کی کتاب بھی شایع کرائی جو "مجالس المرضیہ فی اذکار العترۃ النبویہ" کے نام سے مشہور ہے۔
  • ایک کتاب "معیار شرافت" ہے جو اخلاقیات پر لکھی گئی ہے۔
  • علامہ مرحوم نے آیت اللہ کاشف الغطاء کی کتاب "دین و اسلام" کا ترجمہ بھی کیا۔
  • علامہ کی تصانیف میں "نماز امامیہ"،
  • "اسلامی فکر"،
  • "چور کی سزا"،
  • "مناظرہ مصر"،
  • "شیعہ مذہب حق ہے"،
  • "احباب رسول" وغیرہ بھی شامل ہیں۔

شاگرد

آپ کے مشاہیر تلامذہ علامہ مرحوم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والے علمائے اعلام کا ایک مجموعہ ہے جن میں سے چند ایک کے نام مذکور ہیں:

  • علامہ صفدر حسین نجفی(مرحوم) لاہور
  • آیت اللہ الشیخ محمد حسین نجفی سرگودھا
  • غلام حسین نجفی لاہور
  • ملک محمد اعجاز حسین خوشاب
  • غلام حسن نجفی جاڑا
  • سید کرامت حسین نجفی لاہور
  • سید نسیم عباس رضوی لاہور (علم ہیئت میں شاگرد)
  • محمد ہاشم چکوال
  • کاظم حسین اثیر جاڑوی دریاخان
  • سید اقرار حسین شاہ خطیب مچھر کھادی ضلع سرگودھا
  • وزیر حیدر آف کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان
  • حافظ سید کاظم رضا نقوی آف ملہووالی ضلع اٹک
  • عطا محمد خان جتوئی آف ڈیرہ غازی خان
  • غلام جعفر جتوئی مظفر گڑھ

ذاکرین

ذاکرین عظام جنہوں نے آپ سے علوم آل محمدؑ حاصل کیے ان میں سے مشاہیر کے نام یہ ہیں:

  • حافظ محمد علی بلوچ آف سامٹیہ ضلع لیہ
  • سید صابر حسین شاہ آف بہل ضلع بھکر
  • حاجی مداح حسین آف بونگہ بلوچاں ضلع سرگودھا
  • سید امتیاز حسین شاہ کاظمی آف پہاڑپور ضلع لیہ
  • مولانا مقبول حسین ڈھکو آف شاہ جیونہ ضلع جھنگ
  • سید اعجاز حسین شاہ آف سیدعلیاں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان۔

علامہ حسین بخش جاڑا۔آسمان علم کا درخشاں ستارہ

پاکستان کے پسماندہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ جاڑا میں ۱۹۲۰ء کے سال آنکھ کھولنے والے حسین بخش کے بارے میں کسی معلوم تھا کہ وہ میدان ِ علم و فن میں ایسا مقام پائے گا کہ زمانہ اس پر رشک کرے گا۔ اور اللہ کے پاک و لاریب کلام کی تفسیر اس کے حصے میں آئے گی۔ وہ اپنی شیریں خطابت سے ہزاروں دلوں پر راج کرے گا اور مر جانے کے باوجود زندہ رہے گا؟ جی ہاں حسین بخش جاڑا کچھ ایسے ہی نصیب کے حامل انسان تھے [9]۔

کاٹھ گڑھ سادات میں سید غلام جعفر شاہ نقوی مرحوم سے پہلی شاگردی سے لے کر دیار ِ امیرالمومنین ؑ ، نجف اشرف میں فقہائے وقت اور مراجع عظیم الشان سے کسب ِ فیض کرنے تک ایک طویل سلسلہ ہے جس میں وہ حسین بخش سے علامہ حسین بخش بننے کا سفر طے کرتے رہے۔ آیت اللہ سید محمود مرعشی ‘ آیت اللہ سید محمد تقی عرب ‘ آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم الخوئی اور آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی جیسے عظیم اساتذہ کے سامنے زانوئے علم و ادب تہہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ حسین بخش جاڑا نہ صرف علامہ بنے بلکہ عظیم مفسر اور لاجواب مقرر کی صورت میں سامنے آئے۔

اگرچہ نجف اشرف سے علمی تشنگی بجھانے کے بعد اٹھارہ سالہ تک مختلف مدارس میں تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے اور بعض مدارس کی بنیاد بھی ڈالتے رہے۔ لیکن تحریری اور تقریری میدان کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ زمانہ تدریس میں انہوں نے دارالعلوم محمدیہ سرگودھا ‘ جامعہ امامیہ لاہور ‘ مدرسہ محمدیہ جلالپور ننگیانہ (جدید) سرگودھا اور جامعہ باب النجف جاڑا میں تشنگان ِ علوم آل محمدؐ کو سیراب کیا۔ جاڑا میں مدرسے کی تعمیر خود اپنے ہاتھوں سے کی اپنے شاگردان کو تعمیراتی خدمات میں مزدوروں کی طرح کام پر لگایا۔ دیواریں اور چھتیں بھی خود ڈالتے تھے اور ساتھ ساتھ طلباء کو درس بھی دیتے تھے۔

خطابت کی ابتداء

علمی میدان میں ان کا بہت بڑامقام ہے ان کے ہم عصر علماء ان کے اعلیٰ مقام کے معترف رہے ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تقریر کے میدان میں علامہ مرحوم بہت تاخیر سے وارد ہوئے۔ حتیٰ کہ نجف ِ اشرف سے حصول ِ علم کے بعد واپس آچکے تھے مگر ابھی تک تقریری میدان میں وارد نہیں ہوئے کیونکہ وہ خود کو تقریر میں کمزور سمجھتے تھے ۔ مگر ان کے والدِ گرامی ( جنہیں ہم پیار سے دادا دادا کہہ کر پکارتے تھے اور وہ بھی طلباء سے بہت پیار کرتے تھے) کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا ایک بڑا مقرر بنے۔

اس کے لیے انہوں نے گھر سے شروعات کیں۔ کچھ سختی بھی کی اور طعنے بھی دئیے کہ حوزہ علمیہ نجف اشرف سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود تم منبر پر نہیں آتے؟۔ اس طرح انہوں نے اپنے بیٹے حسین بخش جاڑا کوگھر میں کرسی میز رکھ کر تقریر کرنے کا آغاز کرایا ۔ تقریر کی کمزوری پر ان کے والد ِ گرامی نے ان کی بہت سخت سرزنش بھی کی جو ناقابل بیان ہے۔ لیکن والدین کی سختی میں بھی انسان کی بھلائی اور اعلیٰ مستقبل کی نوید ہوتی ہے اس لئے علامہ مرحوم کے والد کی سختی اور سرزنش نے کام دکھایا ۔ جاڑا صاحب خطابت میں ایسے انداز میں سامنے آئے کہ اس فن میں عروج حاصل کیااور ملت جعفریہ کو ایک اعلیٰ پایہ کا مصنف اور مقرر دستیاب ہوا۔

سرائیکی زبان میں خطابت

سرائیکی زبان میں خطابت کے بادشاہ قرار پائے بالخصوص سرائیکی زبا ن میں مصائب آل محمد ؐ کے بیان میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ میں ان کی اس صلاحیت کا عینی شاہد ہوں۔ ایک سال انہوں نے امام بارگاہ شاہ گردیز ملتان میں عشرہ محرم سے خطاب کیا میں بطور طالب علم اور شاگرد پورے عشرے میںان کے ساتھ رہا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ روز عاشور جب انہوں نے شہادت امام حسین ؑ پڑھی تو لوگوں پر نہ صرف رقت طاری تھی بلکہ بیسیوں لوگوں نے دیواروں سے ٹکریں ماریں۔ یہ کرائے کے پیٹوں کا زمانہ نہیں تھا بلکہ خلوص نیت اور درد ِ دل سے پڑھی جانے والی مجالس کا اثر تھا۔

علامہ مرحوم کا یہ خاصہ بھی تھا کہ وہ مجالس کے دوران معقولات کا استعمال بہت زیادہ کرتے تھے جس کے سبب سامعین کی دلچسپی برقرار رہتی تھی اور لوگوں تک بات بھی بڑے خوبصورت انداز میں پہنچتی تھی۔ دورانِ مصائب بھی دنیا کے حالات کی مثالیں دیتے تو لوگوں کے دلوں پر چوٹ پڑتی تھی اور انہیں کربلا کے مظلومین کے درد کا احساس ہوتا تھا۔ ذاتی طور پر بہت اچھی خصلت کے انسان تھے۔ کوئی علمی تکبر یا طبقاتی غرور نہیں تھا بلکہ محبت کرنے والے آدمی تھے۔ شفیق استاد تھے۔

طالب علموں کے ساتھ محبت

طالب علموں کے ساتھ بہت قریبی اور محبت آمیز تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ میں براہ ِ راست ان کا شاگرد نہیں رہا مگر اس کے باوجود وہ میرے ساتھ ہمیشہ محبت اور عزت سے پیش آتے رہے۔ عزیزوں اور بیٹوں کی طرح احترام دیتے رہے۔ ہمارے والد گرامی کے ساتھ علامہ مرحوم کی محبت اور ہمارے گائوں میں مسلسل آمد رفت بھی اس احترام اور عزت کا خاص سبب تھا۔ مجھے ذاتی طور پر دینی علوم کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے فرزند حکیم محمد باقر جاڑا ہمارے صمیمی دوست تھے ۔

اس گہرے تعلق کے سبب ان کی خواہش تھی کہ میں دریا خان میں قائم شدہ ان کے مدرسے میں بطور مدرس خدمات انجام دوں ۔ لیکن ہمارے داخلی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ میں دریا خان میں ان کی پیشکش قبول کروں۔ ستر سال کی مختصر زندگی میں مرحوم نے مکتب تشیع کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔مقامی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کے لیے انہوں نے تبلیغی و علمی میدان اور سماجی و فلاحی میدان میں بہت لازوال خدمات انجام دیں۔ جن کے آثار آج تک موجود اور باقی ہیں۔

حسن اتفاق ہے کہ آج جن لمحات میں ہم علامہ مرحوم کو خراج ِ عقیدت پیش کرنے کے لیے الفاظ جوڑ رہے ہیں آج کا دن یعنی پانچ دسمبر ان کی وفات کا دن ہے۔ آج سے اکتیس سال قبل انہوں نے داعی اجل کی صدا پر لبیک کہا تھا لیکن وہ اپنی تحریروں ‘تقریروں اور بالخصوص تفسیروں کے ذریعے زندہ و تابندہ ہیں۔ اور ہم سب ان کی افادات سے مستفید ہورہے ہیں۔ وہ یقینا مرحوم بھی ہیں اور مغفور بھی۔ ہماری فقط اتنی دعا ہے کہ اللہ تعالے ان کے درجات کو عالی و متعالی فرمائے اور ہمیں ان کے علمی و قلمی مشن کو زندہ رکھنے کی توفیق بخشے۔ خدا رحمت کند آں عاشقان ِ پاک طینت را[10]۔

وفات

آپ جامعہ امامیہ کربلا گامے شاہ لاہور میں 4 دسمبر 1990 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے، آپ کی تجہیز و تکفین جامعہ امامیہ کے سٹاف اور طلبۂ کرام نے کی اور رات دس بجے کربلا گامے شاہ کے گراونڈ میں علامہ حافظ ریاض حسین نجفی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی، مولانا سید بشیر عباس نقوی، مولانا سید کرامت علی نجفی، مولانا آغا سید محمد عباس نقوی، مولانا سید ابوالحسن نقوی، مولانا سید امیر حسین نجفی، مولانا محمد حسین اکبر، مولانا صفدر عباس طاہری، مولانا سید خادم حسین، مولانا حافظ تصدق حسین، مولانا منظور حسین عابدی، مولانا سید حسن علی نقوی، مولانا سید اصغر علی شاہ، مولانا سید نیاز حسین نقوی، مولانا سید فیاض حسین نقوی، آقائے علی قمی قونصلر ایرانی جمہوری ایران، سید جعفر حسین آنریزی منیجر جامعہ امامیہ، جعفر علی ایڈیٹر ندائے شیعہ، خواجہ علی محمد، احمد حسن خان آئی ایس او کے اراکین اور دیگر سینکڑوں افراد نے مشایعت جنازہ کی اور رات سوا گیارہ بجے علامہ مرحوم کی میت اساتذہ و طلبۂ جامعہ امامیہ کی معیت میں دریاخان روانہ کی۔

مدفن

5 دسمبر 1990 کو دریاخان میں علامہ مرحوم کا جنازہ جاڑا ہاوس میں علامہ غلام حسن نجفی نے پڑھائی اور علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی، مولانا محمد ہاشم جاڑوی، مولانا ضمیر باقر نجفی، جناب غضنفر علی کہاوڑ، مولانا محمد افضل رکنوی، مولانا غضنفر ثقلین، ذاکر سید صابر حسین بہل، مولانا ملازم حسین کوٹلہ جام، مولانا سید فیروز حسین شاہ ٹانک، مولانا سید امداد حسین شیرازی ملتان، مولانا ناصر حسین حاجی مورا، ذاکر مداح شاہ، ذاکر گلزار حسین شاہ وغیرہ علاقہ بھر کی مذہبی، سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ علامہ مرحوم کو بوقت عصر مسجد امامیہ ڈیرہ روڈ دریاخان ضلع بھکر کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔

آپ کی اولاد

اللہ تعالی نے آپ کو دو فرزند عطا فرمائے بڑے کا نام محمد باقر اور چھوٹے کا نام محسن تھا، یہ دونوں اب دنیا میں نہیں ہیں، محمد باقر جاڑا مرحوم کے پانچ بیٹے ہیں جن میں سے علامہ مرحوم کی علمی دستار کے وارث مولانا نسیم عباس جاڑا ہیں۔ جو تقریباً 10 سال حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں تحصیل علوم آل محمدؑ کرتے رہے ہیں [11]۔

حوالہ جات

  1. جعفریہ جنتری 1997 مکتبہ انوار النجف دریاخان
  2. تذکرہ علما امامیہ پاکستان ص85
  3. لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار ص42
  4. مشاہیر میانوالی و بھکر ص45
  5. لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار ص 422
  6. تذکرہ علما امامیہ پاکستان ص86
  7. تفسیر انوار النجف فی اسرار المصحف ج1 ص4 اشاعت 2004
  8. مشاہیر میانوالی و بھکر ص46
  9. تحریر ۔ علامہ محمد رمضان توقیر، مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان
  10. علامہ حسین بخش جاڑا ۔آسمان ِ علم کا درخشاں ستارہ-تحریر ۔ علامہ محمد رمضان توقیر، مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان]- شائع شدہ از: 6 دسمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 ستمبر 2025ء
  11. مشاہیر میانوالی و بھکر ص46