انقلاب اسلامی ایران
یومالله 12 بہمنماه سال 1357 ش، طاغوتی حکومت کے مقابلے میں اسلام اور اسلامی نظام کی طاقت اور عظمت کا آغاز ہے، جو 14 سال جلاوطنی کے بعد ایران میں انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی کی واپسی کے ساتھ ہوا۔ اس دن اسلامی جمہوریہ ایران کے تقویم میں فجر اور اسلامی انقلاب کی مبارک دہائی کا آغاز کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں ایران کی شاہی حکومت کی جگہ موجودہ اسلامی جمہوریہ ایران نے لے لی، کیونکہ محمد رضا پہلوی کی بادشاہت کو آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں ایک تھیوکریٹک حکومت نے تبدیل کر دیا، امام خمینی اس مبارک دن پر ، پہلوی حکومت کے آخری وزیر اعظم شاپور بختیار، فرنس حکومت کو امام خمینی کو ایران آنے سے روکنے، ہوائی اڈوں کو بند کرنا اور دیگر منصوبوں کے ناکام ہونے کے بعد امام خمینی ایران میں داخل ہوگئے۔ بہشت زہرا میں ایران میں داخل ہونے کے بعد ، اپنی تقریر میں امام نے کہا:"میں اس حکومت کے منہ پے ماروں گا! میں حکومت تشکیل دوں گا! میں اس قوم کی حمایت سے حکومت تشکیل دوں گا، نصرت الہی ، ملک میں امام خمینی کی موجودگی اور مختلف سیاسی گروہوں اور عوامی شرکت کے نتیجے میں 22 فروری 1977 کو اسلامی انقلاب کی فتح ہوئی۔
انقلاب اسلامی ایران | |
---|---|
![]() | |
واقعہ کی معلومات | |
واقعہ کا نام | 22 بہمن 1357ش |
واقعہ کی تاریخ | 1978ء |
واقعہ کا دن | 22 بہمن |
واقعہ کا مقام | |
عوامل | عوام، مختلف سیاسی گروہ |
اہمیت کی وجہ | آیت اللہ سید روح اللہ موسوی خمینی کی وطن واپسی |
نتائج |
|
شاہ کی حکومت کے خلاف عوام کی بغاوت کی وجہ کیا تھی؟
نوجوان نسل کے لیے ایک سوال یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کیوں آیا؟ شاہ کی حکومت کے خلاف عوام کی بغاوت کی وجہ کیا تھی؟ شاہ کی حکومت کے خلاف بغاوت اور انقلاب کے عوام کے فیصلے کا نقطہ آغاز کہاں سے تھا؟ یہ انقلاب کیسے آیا؟ کیا پہلوی خاندان کا زوال اور سامراجی نظام کی تبدیلی تمام سیاسی جماعتوں اور مختلف سماجی گروہوں کا مطالبہ تھا؟
سپریم لیڈر محض اس عوامی مطالبے کا ترجمان تھے ، یا وہ پہلوی حکومت کا تختہ الٹنے کے منصوبے کا آغاز کرنے والے تھے اور بادشاہت اور مختلف لوگوں اور جماعتوں کو تبدیل کرنےوالےتھے؟ کیا اس سے یہ مقصد حاصل ہوا؟ اور ...
ان سوالات کے جوابات دینے کے لیے ، اور اس عظیم واقعہ کا سراغ لگانے اور تحلیل کرنے کے لیے ، محققین اور تاریخ دانوں نے ملک کے اندر اور باہر بہت سے کام شائع کیے ہیں ، اور ان کے مطابق ، انھوں نے مختلف افراد ، جماعتوں ، طبقات کے کردار اور اثر و رسوخ کا مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے پہلوی حکومت کے زوال اور اسلامی انقلاب کی فتح کاتجزیہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں، ایک کتاب کے جس کا عنوان "1978ء کے ایرانی انقلاب کا پس منظر اور اسباب، سیاسی سماجیات کے ماہرین کے نقطہ نظر سے عوامی عدم اطمینان کے اسباب" حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے مصنف حسین غیوری کا خیال ہے کہ نیشنل فرنٹ، فریڈم موومنٹ، رائٹرز ایسوسی ایشن، مارکسی دھارے وغیرہ جیسے گروہوں میں سے ہر ایک کا انقلاب کے بارے میں دعویٰ ہے۔
ان میں سے ہر ایک نے پہلوی حکومت کے خلاف کارروائیاں کیں، لیکن ان میں سے کسی تحریک نے بھی عوام کو متحرک نہیں کیا۔ کیونکہ ان میں سے کچھ نے اپنی جدوجہد کو شاہ کی طرف سے ملکی آئین کی پاسداری تک محدود رکھا ، اور آئین پرستی کے اصولوں اور انسانی حقوق کے عالمی ایجنڈے کی اطاعت کی، اور پریس اور ایسوسی ایشن کی آزادی پر سکون کا سانس لیا ، کچھ بادشاہت کے رہنے کی ضرورت پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے ملک پر حکومت کی اور کہا کہ بادشاہ کو حکومت کرنی چاہیے ،۔اور انہوں نے ان سے حکم لیا۔
ان گروہوں میں سے ہر ایک کا اپنا طریقہ کار تھا، لیکن ان کی کارکردگی بے نتیجہ تھی اور عوامی انقلاب کا باعث نہیں بنی۔ قدرتی طور پر ، ان کے اعمال اور خیالات اس وقت کے سیاسی ، سماجی اور معاشی حالات کے پیش نظر لوگوں کے لیے ناقابل فہم تھے۔ ان میں سے بہت سے گروہوں کے پاس اپنے منصوبوں میں ایران کے مستقبل کا کوئی منصوبہ بھی نہیں تھا۔ لیکن امام خمینی کے پاس ایک معقول بنیاد تھی۔
وہ شاہ کی حکومت پر اختیارات چاہتے تھے، ایک واضح ماضی تھا ، غیر ملکیوں پر انحصار نہیں کرتے تھے ، ملک کے مستقبل کے لیے ایک منصوبہ رکھتے تھے ، اور انقلاب کے مقصد کو مذہب کی حفاظت اور انسان کا دفاع سمجھتے تھے. لہٰذا ، ان کا پیغام لاکھوں ایرانیوں کے دلوں اور روحوں میں اتر گیا ، اور لوگوں نے انقلاب کے لیے ان کی پکار پر لبیک کہا۔ کتاب "1979 کے ایرانی انقلاب کے پس منظر اور وجوہات" کے مصنف کا خیال ہے کہ ظلم ، آمریت ، بدعنوانی ، دین مخالف ، بنیاد کی کمی ، زینو فوبیا ، پہلوی حکومت کی ناکافی جیسے عوامل عوام کے مقاصد اور قیادت میں شامل تھے[1]۔
انقلاب اسلامی ایران، کیوں اور کیسے؟
سید روح اللہ خمینی ، مرد توحیدی نے عوام کی فکر میں نئی روح پھونکےگا۔ گزشتہ صدی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس عرصہ میں انقلابی فکر اور قیادت نے مسلمانوں کو خصوصاً ایک نئی کیفیت سے آگاہ کیا اور ایک اہم اسلامی ملک کی حکومت ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والوں کےلئے راہ ہموار کر رہی تھی؛ بیسویں صدی میں کسے خبر تھی کہ ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جو عوام کی فکر میں ایک نئی روح پھونکےگا اور "مرد خدا، مرد انقلاب" کہلائےگا۔
سامراج مغربی حکومتوں نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے دنیائے اسلام کے وسیع علاقوں پر جبری اور آپسی تفرقہ اندازی سے قبضہ کیا اور وہاں تشدد، مال و طاقت کی بدولت استعماری طاقتوں کی خفیہ اور علانیہ، مداخلت کا سلسلہ شروع کردیا۔ ایران میں بھی 2500 سالہ سلاطین برسر اقتدار آئے اور عوام پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے مگر ایران کے دیندار عوام نے اس نو آبادیاتی نظام کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس ناکامی پر دشمن اور امریکہ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی اور یہاں کے وسائل حضوصاً تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کی ٹھانی اور ایران کی شاہی حکومت کے ذریعے مغربی طرز حکومت کی بنیاد رکھنے کا منصوبہ بنایا۔
ایک واقعہ گزشتہ صدی کے دوران، ایران میں رونما ہوا جس نے انقلاب اسلامی کی راہ ہموار کی اور ایرانی عوام باشعور علماء کی قیادت میں اپنی منزل (اسلامی جمہوریت) کیطرف رواں دواں تھی۔ ان صف اول کے رہنمائوں میں سے ایک شخصیت نے خود کو دوسروں سے الگ کردیا؛ ممتاز مجاہد، عالم دین آیت اللہ، "روح اللہ موسوی خمینی" وہ تاریخ ساز نام ہے جس نے انقلاب کی جنگ، استقامت کے ساتھ لڑی۔
امام خمینی نے نور توحید کی شمع باقی رہنے کا سامان پیدا کیا تو باطل کی تاریکی خود بخود روشنی میں تبدیل ہوگئی؛ بھلا اس حقیقت کو کون جُھٹلا سکتا ہےکہ ہر اندھیری رات ایک روشن دن پر ختم ہوتی ہے۔ 11 فروری 1979ء کی صبح کو ایران میں امام خمینی کی تحریک اور اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوا اور ظالم بادشاہوں کا طویل سلسلہ بادشاہت بھی ختم ہوگیا[2]۔ جلاوطنی کے بعد امام خمینی (رح) کی وطن واپسی درحقیقت ایران ہی نہیں بلکہ دنیا میں ایک نئی تاریخ کا نقطۂ آغاز تھا۔ آج سے تینتالیس سال قبل یکم فروری سنہ ۱1979ء کو جب 15 سال کی جلاوطنی کے بعد بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ اپنے وطن ایران واپس آئے تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ موقع وہ ہے جب ایک نئی تاریخ کا آغاز ہو رہا ہے۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ایران پہنچنے کے ٹھیک دس دن بعد یعنی ۱۱ فروری کو ایران کی ڈھائی ہزار سالہ شاہی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پورے ملک میں پرچم اسلام لہرانے لگا۔ ایک ایسے انقلاب نے اپنی حرکت کا آغاز کیا جس کی بنیاد حقیقی محمدی اسلام پر تھی اور جسکی عظمت سے جہاں ایک طرف دنیا کے ستمدیدہ، دبے، کچلے اور مظلوم طبقے کو ڈھارس اور قوت قلب ملی وہیں دوسری طرف اسکی ہیبت سے دنیا کی تمام طاغوتی، شیطانی اور ستمگر طاقتوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔
عالمی سامراج کے شیطانی منصوبوں کو یکے بعد دیگرے خاک میں ملاتا ہوا ایران کا اسلامی انقلاب آج بھی اسکے بالمقابل ایک آہنی دیوار بن کر تمام تر قوت و عظمت کے ساتھ میدان کارزار میں ڈٹا ہوا ہے اور دنیا بھر میں تشنگان علم و معرفت اور بصیرت و حریت کے پیاسوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ امت اسلامیہ کے لئے ایک مایۂ ناز مکتب بنا ہوا ہے[3]۔
تاریخی پس منظر
ایران کا اسلامی انقلاب بیسویں صدی کے آخر میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اور عظیم اندرونی اور بیرونی پہلوؤں کا حامل یہ واقعہ علاقائی اور عالمی سطح پر عظیم تبدیلیوں کی بنیاد بن گیا۔ امام خمینی رح نے جو فرانس کے ایک گاؤں نوفل لوشاتو میں جلاوطنی کے دوران انقلابی تحریک کی قیادت کر رہے تھے اور جنھوں نے اپنی ایران آمد کو شاہ کی بے دخلی سے مشروط کر دیا تھا، سولہ جنوری انیس سو اناسی کو شاہ ایران کے ملک سے فرار ہو جانے کے بعد، اپنی ایران واپسی کا فیصلہ کیا۔
ایران کے عوام کی تحریک میں شدت اور شاہ کے ایران سے بھاگ جانے کے بعد پہلوی حکومت کے آخری وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے امام خمینی کے ہوائی جہاز کو تباہ کرنے، جہاز کا راستہ تبدیل کرنے اور اس کے بعد امام خمینی کی گرفتاری سمیت متعدد سازشیں تیار کر رکھیں تھیں لیکن ان میں ایک بھی کامیاب نہ ہوئی اور آخر کار اس نے ملک بھر کے ہوائی اڈوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔
بختیار حکومت کی جانب سے ہوائی اڈوں کی بندش اور امام خمینی کی ایران آمد روکنے کی خبر پھیلتے ہی، لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے۔ تہران، اصفہان، کرمانشاہ، دزفول، ہمدان، بوشہر وغیر میں قائم تینوں مسلح افواج کی مختلف چھاؤنیوں میں مقیم افسران نے بغاوت کر دی اور پھر وہ مظاہرین کی صفوں میں شامل ہو گئے۔
ملک بھر کے مجاہد علمائے کرام جو امام خمینی کے استقبال کے لیے تہران آئے تھے، تہران یونیورسٹی میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور امام خمینی کی وطن واپسی تک ان کا دھرنا جاری رہا۔ عوام اور طلبہ بھی علما کے ساتھ اس دھرنے میں شامل ہوتے رہے۔ تہران کے بہت سے نواحی علاقوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور فائرنگ کی آوازیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
فرانس پریس نے خبر دی کہ تہران کا ایک چوراہا میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس پریس نے دارالحکومت میں مرنے والوں کی تعداد تین ہزار تک بتائی۔ روزنامہ اطلاعات نے لکھا کہ مغربی اور جنوب مغربی تہران آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ ہوائی اڈوں کی بندش کے خلاف عوام کے دھرنوں اور پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں، بختیار حکومت کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اس نے ہوائی اڈے دوبارہ کھولنے کا اعلان کر دیا۔
امام خمینی کی وطن واپسی
اکتیس جنوری انیس سو اناسی کی شام، امام خمینی رح کا طیارہ فرانس کے چارلز ڈوگلر ایئر پورٹ سے تہران کے لیے روانہ ہوا اور صبح نو بجکر تینتس منٹ پر تہران کے مہرآباد ایئر پورٹ پر اتر گیا۔ طیارے میں متعدد انقلابی سیاستدان، محافظین، امام خمینی کے اہل خانہ کے علاوہ ڈیڑھ سو کے قریب صحافی بھی سوار تھے۔ یکم فروری انیس سو اناسی کو تاریخ انسانی کا سب نہایت پرشکوہ استقبال جلوہ گر ہوا۔ لاکھوں لوگ تہران میں جمع تھے تاکہ امام خمینی کے استقبال میں شرکت کر سکیں۔
طیارہ میں نماز شب کی آدائیگی
امام رحمہ اللہ نے طیارہ میں نماز شب ادا کرنے کے بعد آرام فرمایا، طیارہ کی انتظامیہ امام خمینی رحمہ اللہ کو پرسکون حالت میں دیکھ کر تعجب میں پڑ گئی، طلوع فجر کے وقت امام خمینی رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں نے نماز باجماعت صبح ادا کی جب طیارہ ایرانی فضا میں داخل ہوا تو ایک رپورٹر نے امام خمینی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں تو امام رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: کچھ نہیں۔
امام رحمہ اللہ کی جانب سے پرسکون جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف اپنی شرعی ذمی داری کے مطابق عمل کر رہے تھے۔ شکست اور کامیابی دونوں ان کی نظر میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں جس طرح شکست سے دو ناامید نہیں ہوتے تھے اسی طرح وہ کامیابی سے بھی زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ماہ بہمن کی ۱۲ویں تاریخ کا سب سے پرجوش استقبال ظاہر ہوا یہ دن ایران کی عصری تاریخ کا ایک نہایت مستقل اور اہم دن تھا اور اس دن لوگوں کا جوش ناقابل بیان تھا۔ بہت سے لوگ امام رحمہ اللہ کی استقبالیہ تقریب میں شرکت کے لئے تہران آئے تھے۔
صبح تقریباً چھ بجے سڑکوں پر ہجوم تھا صبح سویرے لاکھوں افراد امام خمینی رحمہ اللہ کے راستے پر سڑکوں کے دونوں اطراف پر کھڑے ہوگئے اور لوگوں کو منظم کرنے کے لئے تقریباً پچاس ہزار پولیس انتظامیہ سڑکوں پر نظر آ رہی تھی۔ ساڑھے نو بجے صبح امام رحمہ اللہ طیارہ سے نیچے اترے اور لوگوں نے دیکھتے ہیں اللہ اکبر کی فریادیں بلند شروع کر دیں امام خمینی رحمہ اللہ نے لوگوں کا پیغام سننے کے بعد خطاب فرمایا:
انہوں نے سب سے پہلے قوم کے تمام طبقوں، نوجوان اور بوڑھے، علماء اور تاجروں، ججوں اور وکلاء، ملازمین اور کارکنوں اور کسانوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مشکلات برداشت کی اور کامیابی کے راستے پر ثابت قدم رہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں محمد رضا کی ایران واپس آنے اور بادشاہت کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو ایک ناکامی قرار دیا۔ اس کے بعد امام رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کامیابی صرف اتحاد میں ہے اور اس اتحاد کو برقرار رکھنا ہمارا فریضہ ہے [4]۔
امام خمینی کا عوامی استقبال
لوگوں نے سڑکوں اور راستوں کو پھولوں اور جھنڈیوں سے سجایا تھا اور استقبال کرنے والوں کے دلوں میں خوشی اور غم دونوں کا سمندر موجیں مار رہا تھا۔ صبح نو بجکر تینتس منٹ پر، امام خمینی رح ، جن کا ہاتھ فرانسیسی اسٹیورڈ نے تھام رکھا تھا، لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ظاہر ہوئے، لوگوں کی نگاہیں نم ہوگئیں اور فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونجنے لگی۔
امام خمینی رح نے مہر آباد ایئر پورٹ پر اپنے مختصر خطاب میں شاہی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا اور فرمایا، محمد رضا شاہ کی واپسی اور بادشاہت کو باقی رکھنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور ہم عوامی حکومت قائم کریں گے۔ تقریبا پچاس لاکھ لوگوں نے اپنے محبوب قائد کا استقبال کیا اور مہرآباد ایئر پورٹ سے شہیدوں کے قبرستان بہشت زھرا تک کے پینتیس کلومیٹر کا راستہ آپ کے ساتھ ساتھ طے کیا، اس دن تہران میں عوام کا مجمع چار کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔
امام خمینی رح نے بہشت زھرا میں ایران کی شہید پرور قوم سے ہمدردی کا اظہار کیا، دینی حکومت کی تشکیل کی بات کی اور شاہی حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فرمایا، میں حکومت قائم کروں گا اور میں عوام کی حمایت سے حکومت قائم کروں گا۔ نیویارک یونیورسٹی کے اس وقت کے پروفیسر گراہم فولر انقلاب اسلامی اور امریکہ پر اس کے اثرات کے بارے میں کہتے ہیں: انقلاب ایران نے امریکی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی، سیاسی اسلام سے خوفزدہ ہیں، اور ان کی کوشش ہے کہ سیاسی اسلام طاقتور نہ ہونے پائے۔ روزنامہ یروشلم پوسٹ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے موقع پر لکھا کہ : شاہ ایران کا سقوط، نہ صرف خلیج فارس کے سیاسی جغرافیہ پر اثرانداز ہو گا بلکہ طاقت کے توازن کو بھی بدل کر رکھ دے گا[5]۔
اسلامی جمہوریہ حکومت کا قیام
30 اور 31 مارچ (10، 11 فروردین) کو ایک استصواب منعقد ہوا جس میں بادشاہت کو "اسلامی جمہوریہ" سے تبدیل کرنے کے بارے میں رائے لی گئی۔ خمینی نے بڑے پیمانے پر شرکت کی اپیل کی اور صرف نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ، فدائیان اور چند کرد جماعتوں نے ووٹ کی مخالفت کی۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ ٩٨.٢٪ نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا۔
ایران کی تاریخ میں حکومت میں سب سے ڈرامائی تبدیلیوں میں سے ایک 1979ء کے ایرانی انقلاب کے ساتھ دیکھی گئی، جہاں شاہ محمد رضا پہلوی کو معزول کر کے روح اللہ خمینی کو ان کی جگہ لایا گیا۔ آمرانہ بادشاہت کو شیعہ اسلامی جمہوریہ سے تبدیل کر دیا گیا جو اسلامی فقہا کی سرپرستی کے اصول (ولایت فقیہ) پر مبنی ہے۔
اس نظام میں شیعہ فقہا ریاست کے سربراہ اور کئی طاقتور حکومتی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ مغرب نواز، امریکا نواز خارجہ پالیسی کو “نہ مشرق نہ مغرب” کی پالیسی سے تبدیل کر دیا گیا۔
ایران میں سیاست اور حکومت
سیاست اور حکومت اسلامی جمہوریہ ایران ایک اسلامی تھیوکریسی ہے جس کی سربراہی ایک رہبرِ معظم کرتے ہیں۔ اس کا آئین 1979ء میں منظور ہوا اور 1989ء میں اس میں ترمیم کی گئی۔ جعفری (اصولی) مکتب فکر سرکاری مذہب ہے۔ تھیوکریٹک ادارے حکومت کی نگرانی کرتے ہیں جس میں ایک منتخب صدر اور قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر منتخب حکومتی ادارے شامل ہیں۔
18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے تمام مرد اور خواتین شہری ان امیدواروں کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں جنہیں گارڈین کونسل نے منظور کیا ہو، جو پارلیمنٹ (اسلامی مشاورتی اسمبلی) کے لیے امیدواروں کی منظوری اور اس کے بلوں کے قانون بننے پر ویٹو کا اختیار رکھتی ہے.
انقلابی اسلامی کا نظریہ
اس "بے چین سکون" کے عبوری دور میں، ابھرتی ہوئی ایرانی بیداری نے شاہ کی سیکولر حکمرانی کی بنیاد کے طور پر مغربی تہذیب کو ترقی کے طور پر پیش کرنے کے خیال کو کمزور کرنا شروع کیا اور 1979ء کے انقلاب کی نظریاتی تشکیل کی: جلال آل احمد کا نظریہ غرب زدگی—کہ مغربی ثقافت ایک وبا یا نشہ ہے جسے ختم کرنا چاہیے؛ علی شریعتی کا تصور کہ اسلام تیسری دنیا کو استعماری، نوآبادیاتی اور سرمایہ دارانہ جبر سے آزاد کرنے والا واحد سچا نجات دہندہ ہے؛ اور مرتضیٰ مطہری کی شیعہ عقیدے کی مقبول کہانیاں سب پھیل گئیں اور سامعین، قارئین اور حامیوں کو حاصل کیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ خمینی نے تبلیغ کی کہ ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت اور خاص طور پر شہادت، شیعہ اسلام کا حصہ ہے اور مسلمانوں کو لبرل سرمایہ داری اور کمیونزم دونوں کے اثرات کو مسترد کرنا چاہیے، وہ خیالات جنھوں نے انقلابی نعرے “نہ مشرق، نہ مغرب – اسلامی جمہوریہ!” کو تحریک دی.
عوام کی نظروں سے دور، خمینی نے حکومت کے طور پر ولایت فقیہ (فقیہ کی سرپرستی) کے نظریے کو فروغ دیا کہ مسلمانوں—بلکہ ہر کسی—کو “سرپرستی” کی ضرورت ہے، جو اسلامی فقہا کی حکمرانی یا نگرانی کی صورت میں ہو. ایسی حکمرانی اسلام میں “نماز اور روزے سے بھی زیادہ ضروری” تھی، کیونکہ یہ اسلام کو روایتی شریعت سے انحراف سے بچائے گی اور اس طرح غربت، ناانصافی اور غیر ملکی غیر مسلموں کے ذریعہ مسلم زمین کی “لوٹ مار” کو ختم کرے گی.
اسلامی فقہا کی حکمرانی کے اس خیال کو خمینی نے اپنی کتاب “اسلامی حکومت”، مسجد کے خطبات اور اپنے مخالف نیٹ ورک کے طلبہ (طلبہ)، سابق طلبہ (قابل علما جیسے مرتضیٰ مطہری، محمد بہشتی، محمد جواد باہنر، اکبر ہاشمی رفسنجانی اور محمد مفتح) اور ایران کے اندر روایتی تاجروں (بازاری) کے درمیان اسمگل شدہ کیسٹ تقاریر کے ذریعے پھیلایا۔
1979 کے ایرانی انقلاب کا پس منظر اور اسباب
ایران کے اسلامی انقلاب کو ایجاد کرنے والے عناصر میں سے کوئی بھی عنصر "عوامی ارادے" سے زیادہ موثر اور فیصلہ کن نہیں ہے۔ انقلاب کی قیادت میں لوگ روانہ ہوئے اور وہ بادشاہت کی جگہ اسلامی احکامات پر مبنی حکومت لانا چاہتے تھے۔ اسی لیے اکثر معاصر مورخین 6 جون 1963ء کی تحریک کو اسلامی انقلاب کا نقطہ آغاز سمجھتے ہیں۔ پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کے تناظر میں عوام کی موجودگی اسلامی انقلاب کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔ اسی لیے ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کو لاکھوں لوگوں کی موجودگی اور امام خمینی کی رہنمائی اور قیادت کا نتیجہ سمجھا جانا چاہیے۔ اس لیے اس انقلاب کا دنیا میں گزشتہ دو سو سال کی تاریخ کے کسی بھی انقلاب سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔
ہندوستان کی ایران کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ پر مبارکباد
ہندوستانی وزیر خارجہ نے ایران کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔ مہر نیوز کے مطابق، ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ایران کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔
جے شنکر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا: میں اپنے ایرانی ہم منصب عراقچی، اس ملک کی حکومت اور عوام کو اسلامی انقللاب کی سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہندوستانی وزیر خارجہ کا تہنیتی پیغام اس ملک کی خارجہ پالیسی میں ایران کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے[6]۔
اسلامی انقلاب کے اثرات افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پھیل گئے ہیں
حزب اللہ لبنان کی مرکزی کونسل کے رکن نے کہا ہے کہ دشمن ایرانی عوام کی بیداری کو روکنے میں ناکام رہے اور اب اس بیداری اور انقلاب اسلامی کے اثرات لاطینی امریکہ اور افریقہ تک واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ امام خمینیؒ 14 سال تک ترکی، کویت، عراق اور پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد یکم فروری 1979 کو ایران واپس آئے۔ یرانی عوام نے تاریخ کا سب سے بڑا استقبال کیا۔ لاکھوں ایرانی عوام نے تہران ایئرپورٹ سے بہشت زہرا تک صف بندی کرکے اپنے رہبر سے بے مثال محبت کا اظہار کیا۔
اسی مناسبت سے حزب اللہ لبنان کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ حسین غبریس نے مہر نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر میں ایرانی عوام اور قیادت کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 1 فروری 1979 کو امام خمینیؒ کی ایران واپسی بلاشبہ ایران، خطے اور پوری دنیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ ان کے فکری، ثقافتی اور جہادی اثرات نے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جس کے نتیجے میں خطے میں استعماری طاقتوں کے سب سے اہم ایجنٹ شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
ایران کا اسلامی انقلاب حیران کن تیز رفتاری کے ساتھ کامیابی ہوا جس نے دنیا کو چونکا دیا۔ نہ تو دوستوں اور نہ ہی دشمنوں کو یہ توقع تھی کہ ایک مستحکم اور جڑیں پکڑے ہوئے ظالمانہ شاہی نظام کا اس قدر تیزی سے خاتمہ ممکن ہوگا۔ شاہی حکومت نے طویل عرصے تک ایران پر حکومت کی؛ ارد گرد کے ممالک پر بھی اثر و رسوخ قائم رکھا، اور عالمی سطح پر اس کے حامی موجود تھے۔
شاہی دور میں ایران کی داخلی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم تھے اور حکومت مغرب، سامراجی طاقتوں اور استکباری قوتوں کی خدمت میں مصروف تھی۔ ملک میں ظلم و ستم کا یہ عالم تھا کہ فاسد اور بدعنوان عناصر شاہی حکومت کے قریب ہونے کی کوشش کرتے جبکہ عوام کو ان کے جائز حقوق حاصل نہیں تھے۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے ایک ایسا نظام وجود میں آیا جو اسلام اور قرآن کی تعلیمات پر استوار تھا۔ اس انقلاب نے ایک ظالم حکومت کا خاتمہ کرکے نئے اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی جس نے عوام کو ان کے حقوق دیے اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ایجنٹوں کو بے دخل کردیا۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ایران واپسی کے لیے مکمل طور پر تیار تھے۔ ان کا یہ اقدام نہ صرف ایرانی عوام بلکہ دنیا بھر کے لیے حیران کن تھا۔ بہت سے لوگوں نے انہیں اس سفر سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اسے ایک غیر محتاط اور خطرناک فیصلہ قرار دیا، لیکن امام خمینیؒ نے اپنی گہری بصیرت، ایمانی جذبے اور انقلابی اصولوں کی بنیاد پر اس فیصلے پر اصرار کیا۔
شیخ حسین غبریس نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے نہ صرف ایران بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی چونکا دیا۔ امام خمینی کی واپسی کے بعد انقلاب کی تیز رفتار کامیابی اور عوامی پذیرائی نے امریکہ اور اسرائیل سمیت تمام عالمی طاقتوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ایران اس وقت عالمی طاقتوں کی نظر میں ایک معمولی ملک نہیں تھا؛ بلکہ وہ ان کی پالیسیوں اور مفادات کا ایک اہم حصہ تھا۔ ان طاقتوں کا خیال تھا کہ ایرانی عوام شاہ کی مضبوط حکومت کو نہیں گرا پائیں گے لیکن ایرانی عوام نے اپنی ایمانی قوت اور عزائم سے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔
امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے ایران میں ہونے والی تبدیلیاں ایک دھچکے سے کم نہیں تھیں۔ یہ انقلاب بڑی تیزی سے کامیاب ہوگیا اور دشمن قوتیں اس کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہ گئیں۔ ایران میں عوام کی بھرپور شرکت نے ان طاقتوں کی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کردیا اور ان کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا۔ ان کے لیے یہ ایک ایسا سیاسی زلزلہ تھا جس نے ان کے تمام اندازے اور منصوبے تباہ کردیے۔
امریکہ نے بعد از انقلاب اپنے حامیوں کو منظم کیا اور اس کے بعد کے فیصلوں کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ کسی دوسرے ملک میں انقلاب اسلامی کا اثر نہ پڑے۔ تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود ایرانی انقلاب کا اثر صرف ایران تک محدود نہیں رہا؛ اس نے پورے عالم اسلام میں بیداری کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔ لبنان، فلسطین، یمن، عراق اور دیگر مسلم ممالک میں لوگوں نے اسلامی تحریکوں کی حمایت کی اور اپنے حقوق کی جدوجہد کو فروغ دیا۔
یہ بیداری نہ صرف اسلامی دنیا تک محدود رہی، بلکہ افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے دیگر حصوں میں بھی لوگوں نے ایران کے انقلاب کو اپنے حقوق کے مطالبات کے لیے ایک ماڈل کے طور پر اپنایا۔ امام خمینی کے پیغام نے دنیا بھر میں لوگوں کو یہ سکھایا کہ کسی بھی قوم کے لیے اپنے حقوق کی جدوجہد ممکن ہے۔ اس راستے میں اخلاص سب سے اہم عامل ہے۔ ایرانی عوام اور ان کے رہبر امام خمینی نے اس انقلاب کے لیے اپنی جان، مال اور وقت کی قربانی دی۔ ان کی اس جدوجہد نے عالمی سطح پر ایک نئی بیداری کی لہر کو جنم دیا[7]۔
حوالہ جات
- ↑ 1979 کے ایرانی انقلاب کا پس منظر اور اسباب- شائع شدہ از: 31 اگست 2021ء - اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 فروری 2025ء۔
- ↑ انقلاب اسلامی ایران، کیوں اور کیسے؟- شائع شدہ از: 12 فروری 20218ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 فروری 2025ء۔
- ↑ یوں آغاز ہوا ایک نئی تاریخ کا (اسلامی انقلاب کی تینتالیسویں سالگرہ) - اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 فروری 2025ء۔
- ↑ ایران کی تاریخ میں امام خمینی رحمہ اللہ کی اپنے وطن واپسی ایک اہم واقعہ ہے-شائع شدہ از: 1 فروری 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 فروری 2025ء
- ↑ بانی انقلاب امام خمینی کی ایران آمد، اہم تاریخی واقعہ- شائع شدہ از: 1 فروری 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 فروری 2025ء۔
- ↑ ہندوستان کی ایران کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ پر مبارکباد- شائع شدہ از: 10فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 فروری 2025ء۔
- ↑ اسلامی انقلاب کے اثرات افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پھیل گئے ہیں- شائع شدہ از: 10 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 فروری 2025ء۔