مندرجات کا رخ کریں

زین ترابی

ویکی‌وحدت سے
زین ترابی
دوسرے ناممحمد مجتبیٰ
ذاتی معلومات
پیدائش1992 ء، 1370 ش، 1412 ق
پیدائش کی جگہکراچی پاکستان
یوم وفات14 فروری
وفات کی جگہسیہون شریف
مذہباسلام، شیعہ
مناصبنعت خوان اور سماجی ورکر

زین ترابی، شہید مجتبی زین ترابی پاکستان کے نوجوان مذہبی شخصیت تھے جو گلگت‑بلتستان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ علامہ حسن ترابی کے فرزند تھے اور اپنے علمی، مذہبی اور اخلاقی کردار کی وجہ سے علاقے میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ زین ترابی کی زندگی کا محور مذہبی خدمات، نعت و منقّب خوانی اور اسلامی تعلیمات کے فروغ پر مبنی تھا۔

ابتدائی زندگی اور خاندان

زین ترابی کا تعلق ایک دینی اور علمی خاندان سے تھا۔ ان کے والد علامہ حسن ترابی ایک معروف عالم دین اور علاقے کے مذہبی رہنما تھے۔ خاندان کی تربیت اور دینی ماحول نے زین ترابی کی شخصیت کو مثبت سمت دی۔ بچپن سے ہی وہ مذہبی تعلیمات، قرآن و حدیث کی تعلیم، اور دینی رسومات میں حصہ لینے کے لیے متوجہ تھے۔

تعلیمی سفر

زین ترابی نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی اور بعد ازاں دینی علوم میں دلچسپی کے پیش نظر دینی مدارس اور علمی حلقوں میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے نعت اور منقّب کی تعلیمات پر خصوصی توجہ دی اور نوجوانوں میں مذہبی شعور بیدار کرنے کے لیے سرگرم رہے۔

مذہبی خدمات

  • زین ترابی کی خدمات کا مرکزی پہلو مذہبی تعلیم اور نعت خوانی تھا۔
  • وہ مذہبی مجالس اور محافل میں نعت و منقّب پڑھتے تھے۔
  • نوجوانوں کو دینی سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لیے مختلف پروگراموں میں حصہ لیتے تھے۔
  • ان کا مقصد نوجوانوں میں اسلامی تعلیمات، اخلاقی تربیت اور روحانی شعور پیدا کرنا تھا۔
  • علاقے کے دیگر علماء اور نعت خوانوں کے ساتھ مل کر دینی پروگراموں کی تنظیم میں بھی کردار ادا کیا۔

معجزۂ حیات: زین ترابی کی داستانِ استقامت

یہ کہانی ہے ایک ایسے بچے کی جو معجزاتی طور پر موت کے منہ سے واپس آیا اور پھر اپنی زندگی خدمتِ خلق اور استقامت کے نام کر دی۔ یہ سنہ 2000 کی بات ہے جب محمد مجتبیٰ ترابی المعروف زین ترابی، محض سات یا آٹھ سال کا تھا، کہ اچانک ایک مہلک اور لاعلاج بیماری ٹیکنس میں مبتلا ہو گیا۔ بیماری نے اس کے جسم کو جکڑنا شروع کر دیا، اور جب حالت بگڑنے لگی تو اسے کراچی کے معروف نجی اسپتال، آغا خان میں داخل کروا دیا گیا۔ ابتدائی ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ 24 گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہ پائے گا، اور اس کے والد کو آخری دیدار کے لیے بلالیا گیا۔

زین ترابی کے والد، شہید راہِ خدا علامہ حسن ترابی، اس وقت سندھ کے ایک تبلیغی دورے پر تھے۔ جب انہیں پی ٹی سی ایل کے ذریعے یہ خبر ملی، تو ان کے قریبی ساتھی اور پولیس گارڈ "شاہ جی" نے اصرار کیا کہ وہ فوراً کراچی واپس لوٹیں۔ مگر شہید حسن ترابی ایک مقصد کے ساتھ نکلے تھے، اور وہ مقصد اہلِ بیتؑ کے مشن کو آگے بڑھانا تھا۔

واپسی کے دوران، سندھ کے ایک علاقے میں اہلِ تشیع کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ وہاں عزاداری پر پابندی تھی، مجالس برپا نہیں کرنے دی جا رہی تھیں، اور مقدس نشانات کی بے حرمتی ہو رہی تھی۔ جب شہید ترابی وہاں پہنچے، تو مظلوم عزاداروں نے ان کے آگے فریاد کی کہ اگر وہ بھی ان کی مدد نہ کریں، تو پھر ان کی آواز کون سنے گا؟

یہ سن کر شہید حسن ترابی نے ایک فیصلہ کیا جو تاریخ میں رقم ہو گیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: "میں نے اپنے بیٹے کو بابُ الحوائج حضرت عباسؑ کے سپرد کر دیا ہے، اب حضرت عباسؑ جانیں اور میرا بیٹا جانے۔ میرا فرض ہے کہ میں پہلے امام حسینؑ کے عزاداروں کا مسئلہ حل کروں، باقی معاملات اللہ اور اہلِ بیتؑ کے سپرد۔"

یہ کہہ کر وہ عزاداروں کی مدد کے لیے وہاں رک گئے۔ چند دن بعد جب وہ کراچی واپس پہنچے اور آغا خان اسپتال گئے، تو وہاں کا منظر حیران کن تھا۔ جس بچے کو ڈاکٹروں نے 24 گھنٹے کی مہلت دی تھی، وہ نہ صرف زندہ تھا بلکہ صحت یاب ہو چکا تھا! تمام ٹیسٹ کلیئر آ رہے تھے، اور ڈاکٹر حیرت میں تھے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟ شہید حسن ترابی نے مسکراتے ہوئے کہا: "یہ حضرت عباسؑ کا معجزہ ہے، میں نے اپنے بیٹے کو ان کے حوالے کیا تھا، اور انہوں نے اسے بچا لیا!"

یہ وہی زین ترابی تھا جو بعد میں کراچی کے مظلوموں، بیواؤں، یتیموں اور قیدیوں کا سہارا بنا۔ اپنی زندگی کے کئی سالوں تک وہ تکفیری دہشت گردوں کی سازشوں کا نشانہ بنتا رہا، جھوٹے مقدمات میں پھنستے رہا، مختلف مقامات پر مفروری کاٹی، حتیٰ کہ کئی سال کراچی کی جیل میں بھی قید رہا۔ لیکن اس سب کے باوجود، وہ استقامت اور بہادری کی مثال بنا رہا، جیسے یہ صفات اسے اپنے شہید والد سے وراثت میں ملی ہوں۔

یہ نوجوان اپنی قوم و ملت کے لیے سرگرم عمل رہا، حتیٰ کہ 15 شعبان کو ایک روڈ حادثے میں شہید ہو گیا۔ یوں وہی بچہ، جسے حضرت عباسؑ کے معجزے نے بچایا تھا، بالآخر اپنے رب کے حضور پہنچ گیا۔ ہم پروردگارِ عالم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ شہید زین ترابی کے درجات بلند فرمائے اور ملت کے نوجوانوں کو ان کی زندگی سے سبق لینے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین [1]۔

کردار اور اثرات

زین ترابی کا کردار سادہ، بااخلاق اور پرعزم تھا۔ وہ نہ صرف نعت خوانی میں مہارت رکھتے تھے بلکہ لوگوں میں اخلاقی و مذہبی شعور پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ ان کی شخصیت نوجوانوں کے لیے ایک مشعل راہ تھی۔ ان کی نیک نیتی اور دین کی خدمت کے جذبے نے علاقے کے نوجوانوں پر مثبت اثر ڈالا۔

شہادت

جاں بحق ہونے والے تمام افراد گزشتہ شب خیرپور میں جشنِ ولادتِ امام مہدی علیہ السلام کی خوشی میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کے بعد کراچی واپس آرہے تھے کہ راستے میں یہ المناک حادثہ پیش آیا۔ سیہون شریف میں روڈ حادثے میں معروف منقبت خواں خواجہ علی کاظم، سید علی جان رضوی اور زین ترابی جاں بحق ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق آج صبح سیہون شریف روڈ پر ایک افسوسناک ٹریفک حادثے میں گلگت بلتستان کے معروف منقبت خواں خواجہ علی کاظم، زین ترابی (فرزندِ شہید علامہ حسن ترابی) اور سید علی جان رضوی جاں بحق ہوگئے۔

یہ تمام افراد گزشتہ شب خیرپور میں جشنِ ولادتِ امام مہدی علیہ السلام کی خوشی میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کے بعد کراچی واپس آرہے تھے کہ راستے میں یہ المناک حادثہ پیش آیا۔ حادثے کی اطلاع ملتے ہی شیعہ علماء کونسل سندھ کے صوبائی صدر علامہ سید اسد اقبال زیدی کی ہدایت پر ڈویژنل سیکریٹری حیدرآباد علی محمد شاکر اور ان کی کابینہ فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچے اور ابتدائی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے۔ شیعہ علماء کونسل نے اس سانحے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کی اور اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا ہے[2]۔

شہادت کے اثرات

زین ترابی کی شہادت نے علاقے میں گہرا اثر چھوڑا:

  • نوجوانوں میں مذہبی خدمات کے لیے جذبہ بڑھا۔
  • دینی حلقوں نے ان کی یاد میں مجالس اور تقریبات کا انعقاد کیا۔
  • شہید کی خدمات اور قربانی کو یادگار بنانے کے لیے مختلف اداروں اور علماء نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

یادگار اور میراث

زین ترابی کی زندگی اور خدمات آج بھی لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی قربانی نے ثابت کیا کہ دین اور ایمان کی خدمت کے راستے پر چلنے والے افراد کی یاد ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ نوجوان ان کے نقش قدم پر چل کر دینی اور اخلاقی ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔ ذیل میں آپ کے لیے زین ترابی کے حوالے سے کچھ مستند ماخذ درج کیے گئے ہیں۔ ان ماخذوں کا استعمال آپ کے مضمون کے حوالہ جات (ریفرنسز) کے لحاظ سے کیا جا سکتا ہے:

متعلقہ تلاشیں

حوالہ جات

  1. تحریر: ایڈوکیث احمد ترابی
  2. سیہون میں حادثہ، منقبت خواں خواجہ علی کاظم، زین ترابی اور علی جان رضوی جاں بحق- شائع شدہ از: 14 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 نومبر 2025ء