گلزار نعیمی
گلزار نعیمی | |
---|---|
دوسرے نام | مفتی گلزار احمد نعیمی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش کی جگہ | پاکستان |
مذہب | اسلام، سنی |
مناصب |
|
مفتی گلزار نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ آپ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگرد خاص ہیں۔ مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامعہ نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ آپ "اتحاد بین المسلین" کے حوالے سے اپنے نظریات کیلئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ وہ اہلسنت و الجماعت کی ملک گیر تنظیم کے مرکزی عہدیدار بھی ہیں۔
سوانح عمری
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگرد خاص ہیں۔ انہوں نے جامعہ نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامعہ نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔
مفتی صاحب اتحاد بین المسلین کے حوالے سے اپنے نظریات کیلئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ وہ اہلسنت و الجماعت کی ملک گیر تنظیم کے مرکزی عہدیدار بھی ہیں۔
تعلیم
انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ آپ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگرد خاص ہیں۔ انہوں نے جامعہ نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامعہ نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان سے ملاقات
قائد ملت جعفریہ پاکستان و بانی اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے مرکزی سینئر نائب صدر علامہ سید ساجد علی نقوی سے اسلامی تحریک پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل و مرکزی نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان، علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی اور جماعت اہل حرم پاکستان کے سربراہ و ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ مفتی گلزار نعیمی حفظہ اللہ نے ملاقات کی۔
ملاقات میں مفتی صاحب نے قائد محترم کو آٹھویں "خاتون جنت کانفرنس" میں شرکت کی دعوت دی۔ ملاقات میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کو مستقبل میں متحرک اور فعال بنانے کے لیے تجاویز پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور قائد محترم نے وطن عزیز پاکستان میں نفرتیں پھیلا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی سازشوں کے خاتمے کے لیے ملی یکجہتی کونسل کے کردار کو اہم قرار دیا اور عالمی صورتحال کے تناظر میں ملک میں بدامنی کے خاتمے اور اتحاو و وحدت کے ذریعہ امن و امان کے قیام کے لیے ملی کے حوالے سے رہنمائی فرمائی۔ ملاقات میں موجودہ ملکی صورتحال سے دینی حلقوں میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کرنے سمیت ملکی معیشت کی بہتری، مہنگائی کے خاتمے، سماجی و سیاسی رواداری کو بھی تمام اسٹیک ہولڈر کی جانب سے فروغ دینے پر زور دیا گیا۔
مسلم حکمران سامراج کے سامنے امام حسینؑ کے انکار کی طرح ڈٹ جائیں
انہوں نے کہا کہ محراب و منبر کو مرکز بنا کر قرآن و سنت کے پیغام کو عام کرکے معاشرے کو معاشرتی آلودگی، فرقہ واریت و انتہا پسندی سے نجات دلائی جا سکتی ہے تحریک اہل حرم کے سربراہ ،ممتاز مذہبی سکالر اور پرنسپل جامعہ نعیمہ اسلام آباد علامہ مفتی گلزار احمد نعیمی نے انجمن طلبہ اسلام کے زیراہتمام حی علی الفلاح مہم آن لائن لیکچرز سیریز کے تیسرے سیشن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر یزیدی قوت کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے، مسلم حکمران سامراج کے سامنے امام حسینؑ کے انکار کی طرح ڈٹ جائیں، سیاسی و مذہبی شدت پسندی ملک کیلئے زہر قاتل ہے، مذہب کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، اسلام ہی دنیا کو امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محراب و منبر کو مرکز بنا کر قرآن و سنت کے پیغام کو عام کرکے معاشرے کو معاشرتی آلودگی، فرقہ واریت و انتہا پسندی سے نجات دلائی جا سکتی ہے فرقہ واریت اور انتہا پسندی سمیت مسلم کش اقدامات کیخلاف عالمی سطح پر قرآن و سنت کے پیغام رحمت کو فروغ دینے اور اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کرنے ضرورت ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں اسلام کے عائلی نظام، حسن معاشرت، سے لے کر اسلام کے پیش کردہ نظام حکومت تک کے تمام معاملات علمی و روحانی اور فکری بنیادوں پر تحریروں اور تقریروں کے ذریعے عام کیے جانے چاہیں۔
ٹرمپ ازم دنیا میں فساد کی جڑ ہے
مفتی گلزار احمد نعیمی نے مزید کہا ٹرمپ ازم دنیا میں فساد کی جڑ ہے، مسلمانوں کیخلاف ہر سازش کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ ہے، اہل حق امریکہ کی استعماریت اور سامراجیت کی مزاحمت کریں گے، دینی طبقے کی قوت مزاحمت ختم کرنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں، دینی طبقہ وقتی مفادات کو چھوڑ کر حفاظت دین کیلئے حکمت و تدبر کیساتھ موثر حکمت عملی تیار کرے۔ اقوام متحدہ میں طاقتور ممالک کی ویٹو پاور مسلمانوں کے مسائل کے حل میں بڑی رکاوٹ ہے، مسلم ممالک اپنی اسلامی اقوام متحدہ بنائیں، پوری دنیا میں مسلمانوں کا لہو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، مسلم ممالک کے باہمی جھگڑوں کی وجہ سے مسئلہ فلسطین و کشمیر حل نہیں ہو رہا، قبلہ اوّل کی آزادی کیلئے اسلامی ممالک کا اتحاد ضروری ہے[1]۔
شام کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
اپنے خصوصی انٹرویو میں جماعت اہل حرم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شام میں سنیوں نے نہیں انتہاء پسندوں نے قبضہ کیا ہے، جن کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اہل سنت کو بھی اس پر خوش نہیں ہونا چاہیئے، شام، اسرائیل کی کالونی بن گیا ہے، جس میں ترک سمیت عرب ممالک کا خیانت پر مبنی کردار واضح ہے[2]۔
اہل سنت اور تحفظ بنیاد اسلام بل
آجکل پنجاب اسمبلی کے سپیکر جناب چوہدری پرویز الہی اسلام کو تحفظ دینے کے لیے بہت ہی متحرک ہیں۔اس سے قبل انہوں نے مندر کے حوالہ سےاپنی ہی حکومت کو ” بچانے” میں بھر پور کردار ادا کیا۔اس میں کوئی شک نہیں چوہدری برادران کا ملکی سیاست میں اہم کردار ہے اور انکے بزرگ چوہدری ظہور الہی مرحوم نے ملک میں مثبت سیاست کے فروغ اور تحفظ ختم نبوت کےلیے تاریخی کردار ادا کیا۔یہ دور تھا مجاہد ملت مولنا عبدالستار خان نیازی ،علامہ شاہ احمد نورانی ، مفتی محمود اور چوہدری ظہور الہی ودیگر اکابرین پاکستان کا۔
جب ان معتبر سیاست دانوں کا دور ختم ہوا تو انکی جگہ ان لوگوں نے لی جو اپنے بزرگوں کے ساتھ کسی قسم کی بھی مماثلت نہیں رکھتے۔ نتیجتا ظلم ہوتا رہا اور ظلم ہورہا ہےاور یہ لوگ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کہ بجائے ہمیشہ ظالم کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔موجودہ صورت حال میں پنجاب اسمبلی نے جو تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ منظور کیا ہے اسکی اتنی عجلت میں منظوری سمجھ سے بالا تر ہے۔
جب آئین پاکستان میں اسلام کی بنیادوں کا تحفظ موجود ہے اور بڑی شرح وبسط کے ساتھ موجود ہےتو پھر کون سی بنیادیں غیر محفوظ تھیں جو پنجاب اسمبلی کو تو نظر آئیں لیکن پورے ملک کی نمائندہ قومی اسمبلی انکا ادراک کرنے سے قاصر رہی۔میرا خیال ہے یہ صرف اور صرف مذہبی ووٹ کو قابو کرنے کی ایک سعی ہے۔ پاکستان میں مذہب کو سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی بہت طویل تاریخ ہے۔جب اسمبلیوں میں شدت پسندوں کے نمائندوں کا کردار محدود ہوگیا توپنجاب اسمبلی کے چند انتہاء پسندوں نے اس کام کو سنبھال لیا۔ان لوگوں کی پشت بانی وہی لوگ کررہے ہیں جنکا ملک میں اپنا ووٹ بنک نہیں اور وہ مذہبی ووٹ کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ اس کی اور کوئی توجیح نہیں ہوسکتی۔
مجھے ابھی تک اس ایکٹ کامکمل مسودہ دستیاب نہیں ہوسکا۔ جو ملا اس میں کوئی ایسی نئی بات نہیں ہے جس سے اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوں بلکہ اس ایکٹ سے میری دانست میں بین المسالک ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچے گا۔کیا یہ کسی ایکٹ کے ذریعے دوبارہ متعین کیا جائے گا کہ کس ہستی کو علیہ السلام کہنا ہے کسے رضی اللہ عنہ یا رحمتہ اللہ علیہ کہنا ہے۔ ہم اہل سنت تو فرط عقیدت میں حضور غوث اعظم کو بھی رضی اللہ تعالی عنہ کہہ دیتے۔
کیا تمام اہل سنت اس "جرم” کی سزا بھگتیں گے؟ یعنی جو حضرت شہنشاہ جیلانی کو رضی اللہ تعالی عنہ کہے گا اس کو پانچ سال قید یا پانچ لاکھ روپئے جرمانہ یا دونوں سزائیں ملیں گی۔اسی طرح سرزمین پاکستان میں حضور داتا گنج بخش اور حضرت اعلی پیر سید مہرعلی شاہ رحمھما اللہ تعالی کو بھی رضی اللہ عنہ کہہ دیا جاتا ہے۔تو کیا یہ سب عقیدت مند مجر م ٹھریں گے؟۔
اہل بیت اطہار علیھم السلام کی وہ پاک ہستیاں جن پر تمام مسلمانوں کو بشمول اس ایکٹ کے محرکین کے عین حالت نماز میں درود وسلام بھیجنے کا حکم ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل ہے۔توکیا خارج از نمازان ہستیوں کو علیہ السلام کہنا قابل تعزیر جرم بن جائے گا۔ عجیب منافقانہ تضاد ہے کہ جو عمل نماز کی حالت میں عبادت کا درجہ رکھتا ہے وہی عمل نماز کے بغیر جرم بن جاتا ہے۔
چلیں مجھ جیسے کو تو آپ مجرم بنا کرسزا دے دیں گے لیکن یہ فرمائیں کہ امام مالک،امام احمد بن حنبل امام بخاری ونسائی کے مزارات پر بھی کوڑے برسائیں گے؟۔امام شافعی کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کریں گے۔؟؟ سنو اور غور سے سنو !تمہارے اس ایکٹ کی حیثیت اتنی بھی نہیں ہے جتنی کسی پرندے کے پر کی ہوتی ہے جسے ہوائیں الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں۔جس فاطمہ ؑ کو رحمت للعالمین ارشاد فرمائیں "فاطمہ ؑمیرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں”اور جس آل نبی پر فرشتے درود سلام بھیجتے ہوں تم کون ہوتے ہو ان پر درود سلام کے راستے بند کرنے والے۔ غارت ہوں وہ لوگ جو رسول اور آل رسول پر درود وسلام بھیجنے کو قانونا جرم قرار دیں اور غارت ہوں وہ بد بخت جن کے اصحاب رسول پر سب و شتم کی بنا پر آل رسول پر درود وسلام بھیجنے پر پابندی کی راہ ہموار ہو[3]۔
فلسطینی رہنماؤں کی جامعہ نعیمیہ میں مفتی گلزار نعیمی سے ملاقات
[[فائل:
|تصغیر|بائیں|]]
پاکستان کا ہر شہری فلسطین کے ساتھ ہے، ہم نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے اور کرتے رہیں گے۔ (روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسلام آباد (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن)فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی دعوت پر پاکستان کے دورے پر فلسطینی وفد نے اسلام آبا دمیں جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کا دورہ کیا۔
اس دوران ان کا استقبال جماعت اہل حرم کے سربراہ مفتی گلزار نعیمی نے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ علمائے کرام اور مفتیان کرام بھی موجو دتھے۔ فلسطینی وفد کی قیادت مجلس علمائے فلسطین کے صدر شیخ ادیب یاسر جی کر رہے تھے جبکہ ان کے ہمراہ عالمی مہم برائے حق واپسی فلسطین کے سیکرٹری جنرل شیخ یوسف عباس اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم موجود تھے۔
مفتی گلزار نعیمی نے فلسطینی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ پاکستان کا ہر شہری فلسطین کے ساتھ ہے۔ ہم ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ فلسطینی رہنماؤں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے پاکستان میں ہیں اور پاکستان کے عوام کے فلسطین کے ساتھ لگاؤ اور عقیدت قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ جد وجہد اور تعاون سے جلد ہی فلسطین آزاد ہو گا اور ہم سب فلسطین میں القدس شریف میں نماز ادا کریں گے۔ تقریب کے اختتام پر فلسطینی وفد نے تمام مہمانوں کو فلسطینی اسکارف کا تحفہ بھی پیش کیا[4]۔
پاکستان کو اچھی قیادت مل گئی تو یہ دنیا کا بہترین ملک بن جائیگا
اہل سنت کی آبادی 10 کروڑ ہے، لیکن دوسرے مسالک کیطرح سیاسی تشخص نہیں رکھتے۔ جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے سربراہ اور پاکستان میں بین المسالک ہم آہنگی کیلئے کوششوں میں مصروف علامہ مفتی گلزار احمد نعیمی کا اسلام ٹائمز کیساتھ گفتگو میں کہنا تھا کہ اصل المیہ یہ ہے کہ "داعش" استعمار کے پروردہ ہیں، انکا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں عالم عرب میں۔ وہ من گھڑت نظریات کے حامل ہیں، مسلمانوں کیخلاف لڑ رہے ہیں، پاکستان میں طالبان کی طرح عرب ممالک میں بھی شیعہ سنی تفریق کو ہوا دینے کیلئے داعش اہل تشیع اور اسلامی مقدسات کیخلاف جنگ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں یہ کیا گیا کہ مسالک کے درمیان مسلح حملے کروائے گئے، تاکہ دنیا کو یہ محسوس ہو کہ پاکستان مسلکی فسادات کا گڑھ ہے، استعماری قوتیں یہی کھیل عراق اور شام میں جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ مفتی گلزار احمد نعیمی، جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے موسس اور مہتمم ہیں۔ پاکستان میں مسالک اور اسلامی فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے ہونے والی کوششوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔
موجودہ ملکی صورتحال میں ہماری قومی ترجیحات کیا ہونی چاہیں۔؟
مفتی گلزار احمد نعیمی: سب سے پہلے آپ کا شکریہ۔ سوال اہم ہے۔ ہماری سب سے بڑی ترجیح دین ہونا چاہیے اور ہمارا وطن۔ اور اس پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان میں امن، سکون اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ یہ ہمارا اسلامی فریضہ ہے کہ ہم اپنے وطن کی حفاظت کریں۔
پاکستان مذہب کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا
مفتی گلزار احمد نعیمی: المیہ یہ ہے کہ پاکستان کسی معاشی نعرے کی بنیاد پہ نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد پہ معرض وجود میں آیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اسلام اور پاکستان الگ الگ نظر آتے ہیں، ایسا ملک جس کی بنیاد میں لا الہ الا اللہ ہے، وہاں اسلام کا نظام نہیں ہے، اسلام کا سماجی انصاف کا عادلانہ سسٹم رائج نہیں ہے۔ اسی طرح معاشی اور سیاسی انصاف بھی میسر نہیں، جسکی وجہ سے ہر ملکی ادارہ ناگفتہ بہ صورتحال کا شکار ہے۔
ملکی مسائل کی بڑی وجہ یہ کہ ہمارے حکمران دینی پس منظر کے حامل نہیں اور نہ ہی عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمارے ملک میں صاف ستھری اور اہل قیادت کو سامنے ہی نہیں آنے دیا جاتا، جسکی وجہ سے ملکی مشکلات گھمبیر تر ہوتی جاتی ہیں۔ جب بھی پاکستان کو اچھی قیادت مل گئی ہمارا ملک دنیا کا بہترین ملک بن جائے گا، بالخصوص عالم اسلام میں ایک نمایاں مقام کا حامل ملک ٹھہرے گا۔ سب سے بڑی مشکل اچھی قیادت کا فقدان ہے، حقیقی قیادت کی بجائے، لٹیرے، چور، ڈاکو اور مفاد پرست لوگ اقتدار پر قابض ہیں۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ باریاں بدل بدل کر حکمران بن جاتے ہیں، انہیں نہ عوام کا خیال ہے نہ ملک کا اور نہ ہی دین متین کا۔
ملکی سیاست میں علماء اور مشائخ کا کردار
تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو قیام پاکستان میں صرف اور صرف اہلسنت علماء اور مشائخ، پیر جماعت علی شاہ، پیر آف مانکی شریف، پیر علامہ عبدالعلی میرٹھی جیسے بزرگوں کو قائد اعظم محمد علی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، لیکن قیام پاکستان کے بعد علماء اور مشائخ ملکی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے، اور وہ لوگ جو قیام پاکستان کے مخالف تھے، ملکی سیاست کی باگ ڈور انہوں نے سنبھال لی۔
قیام پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے علماء اور مشائخ اپنے حجروں، مدرسوں اور خانقاہوں میں جا کر نہ بیٹھتے تو یہ سیاسی خلا پیدا نہ ہوتا، پاکستان کی غالب اکثرت اہلسنت کی جگہ جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق اور متشدد گروہوں پر مشتمل اقلیت ایک طاقت بن نہ ابھر سکتی۔ اسوقت پاکستانی سیاست کی باگ ڈور جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ میں ہے اور مذہبی سیاست کی نمائندگی وہ لوگ کر رہے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی شدید ترین مخالفت کی تھی۔
غلطی اہلسنت علماء اور مشائخ کی ہے کہ انہوں نے دوسروں کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیا اور خود سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ ہمیں اس کمی کا شدت سے احساس ہے کہ پاکستان کو حقیقی اسلامی اور روحانی قیادت ملے، ہم اسکے لیے پوری جدوجہد کر رہے ہیں کہ پاکستان کی باگ ڈور پاکستان کے اصلی وارثوں کے ہاتھ میں آجائے۔ تحریک پاکستان میں اپنے کردار اور اسلام کی حقیقی روحانی تعلیمات کے وارث ہونے کے ناطے قیادت اہلسنت کو کرنی چاہیئے۔
اہلسنت کی آبادی دس کروڑ ہے، مسلک کے اعتبار سے ہم اکثریت ہیں، دیوبندی اور اہل تشیع آبادی میں کم ہیں۔ دوسرے مسالک اہل سنت کیساتھ شدت کا رویہ اختیار کرتے ہیں، لیکن اہلسنت کو چاہیئے کہ وہ اپنا قائدانہ کردار ادا کریں اور چھوٹے بھائیوں، شیعہ اور دیوبندیوں کیساتھ شدت کا رویہ اختیار نہ کریں۔
غزہ میں اسرائیل کی بربریت اور داعش کی خاموشی
اسرائیل نے غزہ میں بربریت جاری رکھی ہوئی ہے اور داعش نے انبیاء کرام کے مزارات گرائے ہیں، پاکستان میں اس کا ردعمل خاطر خواہ نہیں تھا، اسکی کیا وجہ ہے۔؟ پاکستان میں فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے ردعمل کا اظہار تو ہوا ہے۔ ہمارے مدرسے سے باقاعدہ یوم القدس کا جلوس نکلا ہے، ایک بڑا سیمینار کروایا گیا ہے، عوام الناس کی بڑی تعداد شریک رہی ہے۔
لیکن اصل المیہ یہ ہے کہ داعش استعمار کی پروردہ ہے، انکا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں عالم عرب میں۔ وہ من گھڑت نظریات کے حامل ہیں، مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، پاکستان میں طالبان کی طرح عرب ممالک میں بھی شیعہ سنی تفریق کو ہوا دینے کے لیے داعش اہل تشیع اور اسلامی مقدسات کیخلاف جنگ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ کیا گیا کہ مسالک کے درمیان مسلح حملے کروائے گئے، تاکہ دنیا کو یہ محسوس ہو کہ پاکستان مسلکی فسادات کا گڑھ ہے، استعماری قوتیں یہی کھیل عراق اور شام میں جاری رکھنا چاہتی ہیں[5]۔
حوالہ جات
- ↑ مسلم حکمران سامراج کے سامنے امام حسینؑ کے انکار کی طرح ڈٹ جائیں، مفتی گلزار احمد نعیمی-شائع شدہ از: 5 مارچ 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء
- ↑ سربراہ جماعت اہل حرم مفتی گلزار احمد نعیمی کا شام کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو-شائع شدہ از: 11دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔
- ↑ اہل سنت اور تحفظ بنیاد اسلام بل - شائع شدہ از: 27 جولائی 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء
- ↑ فلسطینی رہنماؤں کی جامعہ نعیمیہ میں مفتی گلزار نعیمی سے ملاقات-شائع شدہ از: 22 جولائی 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔
- ↑ اہلسنت کی آبادی 10 کروڑ ہے، لیکن دوسرے مسالک کیطرح سیاسی تشخص نہیں رکھتے، مفتی گلزار احمد نعیمی- شائع شدہ از: 24 اگست 2014ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء