مندرجات کا رخ کریں

"حامد الحق" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م Saeedi نے صفحہ مسودہ:حامد الحق کو حامد الحق کی جانب منتقل کیا
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 15:45، 28 فروری 2025ء

حامد الحق
دوسرے ناممولانا حامد الحق حقانی
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہخیبر پختونخوا ضلع نوشہرہ پاکستان
یوم وفات28فروری
وفات کی جگہاکوڑہ خٹک
مذہباسلام، سنی
مناصبجمعیت علمائے اسلام کا سربراہ

حامد الحق مولانا حامد الحق حقانی ایک پاکستانی سیاست دان اور اسلامی اسکالر ہیں جہنوں نے 2002سے 2007 تک پاکستان کی 12 ویں قومی اسمبلی کے ارکان کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ اپنے والد سمیع الحق کے قتل کے بعد جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ بن گئے تھے۔ انہیں جمعہ 28 فروری 2025ء کو جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کی مسجد میں ایک خودکش دھماکے میں نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں وہ شہید ہو گئے۔

سوانح عمری

وہ 26 مئی 1968ء کو اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور انہوں نے دینی تعلیم دارالعلوم حقانیہ ہی سے حاصل کی۔ اکوڑہ خٹک خودکش دھماکے میں شہید نائب مہتمم دارالعلوم حقانیہ مولانا حامد الحق حقانی، مولانا سمیع الحق شہید کے بڑے صاحبزادے تھے۔ وہ 26 مئی 1968ء کو اکوڑہ خٹک میں پیداہوئے اور انہوں نے دینی تعلیم دارالعلوم حقانیہ ہی سے حاصل کی۔

تعلیمی سرگرمیاں

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کی جہانگیرہ تحصیل کے قصبے میں واقع مشہور دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم اور جمیعت علما اسلام س کے سربراہ مولانا حامدالحق حقانی جمعہ کی نماز کے بعد مدرسے کی مرکزی مسجد میں ہونیوالے خودکش دھماکے میں شہید ہوگئے ہیں۔ نومبر 2018 میں اپنے والد اور دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد مولانا حامد الحق حقانی نے جمعیت علما اسلام (س) کی باگ ڈور سنبھالی تھی، مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ پر متعدد بار چاقو کے وار کرکے قتل کیا گیا تھا۔

نوشہرہ کے قریب واقع اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ کو مولانا عبدالحق حقانی نے ستمبر 1947 میں قائم کیا تھا، جس کی سربراہی بعد میں مولانا سمیع الحق کے ذمہ آئی، افغان جنگ کے دوران بیشتر افغان طلبا نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھی۔ ذرائع کے مطابق مقتول مولانا حامد الحق حقانی اس پاکستانی وفد کا حصہ تھے، جنہیں عنقریب افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے افغانستان جانا تھا۔

مولانا کا دورۂِ افغانستان اور پختونخوا کے حالات

دارالعلوم حقانیہ گزشتہ کئی برسوں سے تنازعات میں گھرا رہا ہے، خاص طور پر ان الزامات کی وجہ سے کہ اس کے کچھ طلبا سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل سے منسلک تھے، لیکن مدرسے نے اس مقدمے میں ملزمان کے ساتھ کسی قسم کے تعلق سے انکار کیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق، دارالعلوم حقانیہ کے قابل ذکر سابق طلبا میں امیر خان متقی، عبداللطیف منصور، مولوی احمد جان، ملا جلال الدین حقانی، مولوی قلم الدین، عارف اللہ عارف، اور ملا خیر اللہ خیرخواہ جیسی نمایاں طالبان شخصیات شامل ہیں[1]۔

سیاسی سرگرمیاں

مولانا حامد الحق حقانی ایم ایم اے کے ٹکٹ پر 2002ء سے 2007ء تک قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ مولانا سمیع الحق کی 2018ء میں شہادت کے بعد وہ جمعیت علما اسلام (س) کے سربراہ اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم منتخب ہوئے، ان کے چچا مولانا انوار الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم ہیں۔

مولانا حامد الحق حقانی کے دادا مولانا عبدالحق حقانی قومی اسمبلی کے رکن رہے اور وہ عملی سیاست میں سرگرم تھے جبکہ ان کے والد مولانا سمیع الحق ایوان بالا کے رکن رہے اور نئے مذہبی اتحادوں کے قیام کے حوالے سے انھیں ملکہ حاصل تھا.

دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے قیام میں بھی ان کا بڑا کردار تھا جنہوں نے اس سے قبل 2001ء میں امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد کے حالات میں دفاع افغانستان کونسل قائم کی تھی جس کے بعد کی شکل ایم ایم اے کی صورت میں دینی جماعتوں کے انتخابی کے طور پر سامنے آئی۔ مولانا حامد الحق حقانی نوشہرہ ہی سے 2002ء میں ایم این اے منتخب ہوئے اور 2007ء تک انہوں نے اس نشست سے اپنے حلقہ کی عوام کی نمائندگی کی[2]۔

مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے جے یو آئی (س) کے قائم مقام امیر مقرر

مولانا سمیع الحق کے بغیر ہم یتیم ہوگئے ہیں، سب عہدیداران پرانے عہدوں پر بحال رہیں گے، مولانا حامد الحق۔ فوٹو: جیو نیوز اسکرین گریب نوشہرہ: جمعیت علماء اسلام (س) کی مرکزی شوریٰ نے مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کو پارٹی کا قائم مقام امیر نامزد کردیا۔ جے یو آئی (س) کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس اکوڑہ خٹک میں ہوا جس میں مولانا سمیع الحق کے سیاسی جانشین کے ناموں پر مشاورت کی گئی۔

اس موقع پر شوریٰ نے مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے حامد الحق کو قائم مقام امیر بنانے کی منظوری دی۔ مولانا حامد الحق کا کہنا تھا کہ مولانا سمیع الحق کے بغیر ہم یتیم ہوگئے ہیں، سب عہدیداران پرانے عہدوں پر بحال رہیں گے۔ مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں شہید ہوگئے

مولانا حامد الحق نے اپیل کی کہ مولانا سمیع الحق کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ جامعہ دارالعلوم حقانیہ، جے یو آئی (س) کی مجلس شوریٰ اور حقانی خاندان کا پالیسی بیان میں کہنا تھا کہ مولانا سمیع الحق بین الاقوامی اور عالمگیر شخصیت تھے اور انہوں نے افغان جہاد کے تمام ادوار میں نمایاں کردار ادا کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ مغربی دنیا اور افغان حکومت نے مولانا سمیع الحق کو ”فادر آف طالبان“ کا لقب دیا تھا۔ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے پالیسی بیان کے مطابق عظیم سانحہ کے بعد عالم اسلام میں دکھ اور غم کی لہر دوڑ گئی ہے، افغان چینلز، خصوصاً سوشل میڈیا پر مولانا سمیع الحق کیخلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ بیان میں کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق شہید کی کسی سے ذاتی دشمنی اور عناد نہیں تھا اور ان کی شہادت اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ افغانستان، بھارت ارو بیرونی عناصر کی سازشیں بہت حد تک شامل ہیں۔

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے اعلامیے کے مطابق مولانا کی شہادت کو گروہی یا ذاتی تنازع کا نام دینا انتہائی بے بنیاد ہے، کچھ عناصر اور حلقے نااہلی چھپانے کیلئے حقائق کے منافی، بے بنیاد اور متضاد بیانات جاری کررہے ہیں لہٰذا مکمل تحقیقات کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے تک ایسے بیانات سے گریز کیا جائے اور مولانا شہید کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یاد رہے کہ جمعیت علما اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق کو 2 اکتوبر کو اسلام آباد میں ان کی اپنی رہائش گاہ میں چھریوں کے وار کر کے قتل کردیا گیا تھا[3]۔

اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکا، 4 افراد جاں بحق

اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکا، 4 افراد جاں بحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکے سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ڈی پی او نوشہرہ عبدالرشید کا کہنا ہے کہ امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئی ہیں، دھماکے میں جے یو آئی س کے سربراہ مولانا حامدالحق بھی زخمی ہوئے۔

مولانا حامد الحق کے بیٹے ثانی حقانی نے تصدیق کی ہے کہ دھماکے کے وقت سیکڑوں افراد مسجد میں موجود تھے اور دھماکے میں 4 سے 5 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ملی ہیں جبکہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سینٹرل پولیس آفس پشاور کے مطابق مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں دھماکا نماز جمعہ کے بعد ہوا، مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں دھماکے کی نوعیت کا پتہ لگایا جا رہا ہے[4]۔

پاکستان ہرطرف سے دشمنوں کے نشانے پر ہے

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین و نائب مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ مولانا حامدالحق حقانی نے کہا ہے کہ قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں مولانا عبدالحق اور مولانا سمیع الحق کا کردار قابل تحسین اور قابل تقلید ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے خوشحال خان لائبریری اکوڑہ خٹک میں مولانا عبدالحق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس کا اہتمام جمعیت طلبہ اسلام پاکستان کے نوجوانوں نے مولانا سمیع کی سربراہی میں کیا تھا۔ کانفرنس کی صدارت جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی نائب صدر مولانا انوار الحق حقانی نے کی۔ جبکہ مولانا حامد الحق حقانی‘ مسلم لیگ (ض) کے سربراہ اعجاز الحق اور مولانا سید محمد یوسف شاہ مہمان خصوصی تھے۔ مولانا حامد الحق حقانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان ہرطرف سے دشمنوں کے نشانے پر ہے[5]۔

وفات

خود کش حملہ آور دوڑتا ہوا مولانا حامد الحق کی طرف آیا،عینی شاہدین آج بعد نماز جمعہ اکوڑہ خٹک میں معروف عالم دین مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت کے حوالے سے عینی شاہد کا بیان سامنے آگیا۔ دھماکے کے وقت جائے حادثہ پر موجود عینی شاہد اسد اللہ نے وی نیوز کو بتایا کہ دھماکہ نماز کی فوراً مسجد کے ایک کونے میں گیٹ کے قریب ہوا۔

عینی شاہد کے مطابق اس وقت مولانا حامد الحق نماز کے بعد باہر نکل رہے تھے کہ اساتذہ کے لیے مختص گیٹ سے ایک بندہ دوڑ کر آیا اور جوں ہی حامد الحق سے ملنے لگا ایک زور دار دھماکہ ہوا۔

حوالہ جات

  1. خود کش حملہ آور دوڑتا ہوا مولانا حامد الحق کی طرف آیا،عینی شاہدین- شائع شدہ از: 28 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 فروری 2025ء۔
  2. شہید مولانا حامد الحق حقانی کی زندگی پر ایک نظر- شائع شدہ از: 28 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 فروری 2025ء۔
  3. مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے جے یو آئی (س) کے قائم مقام امیر مقرر- 4 نومبر 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 فروری 2025ء-
  4. اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکا، 4 افراد جاں بحق- شائع شدہ از: 28 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 فروری 2025ء۔
  5. پاکستان ہرطرف سے دشمنوں کے نشانے پر ہے‘ مولانا حامد الحق- 8 ستمبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 فروری 2025ء۔