احمدیہ

ویکی‌وحدت سے
احمدیہ
میرزا غلام احمد.jpg
تصویر کی وضاحتبانی مرزا غلام احمد
ناماحمدیہ
تشکیل کا سال1835 ء، 1213 ش، 1250 ق
بانیمرزاغلام احمد
نظریہاعلان نبوت دعوی

احمدیہ، تحریک احمدیہ کے بانی مرزاغلام احمد تھے۔ والد کا نام غلام مرتضی، دادا کا نام عطا محمد، پردادا کا نام گل محمد اور ان کی قوم مغل بر لاس تھی ۔ برلاس خاندان مشہور مغل بادشاہ امیر تیمور کے چابر لاس کی نسل سے ہے۔ لفظ مرزا امیر زادہ کا مخفف ہے اور عموما معزز لوگوں کے لئے بطور لقب استعمال ہواہے۔ خصوصاً قوم ترک اور مغل لوگوں کے نام کے ساتھ بولا اور لکھا جاتا ہے۔ آج کل احمدی جماعت کے سربراہ لندن میں رہتے ہیں اور وہاں پر ہر سال جولائی کے آخر میں جلسہ ہوتا ہے اور دُنیا بھر سے احمدی افراد شامل ہوتے ہیں۔ احمدی جماعت کا دعویٰ ہے کہ اب وہ 189 ملکوں میں پھیل چکے ہیں اور ان سارے ملکوں میں ان کا الگ الگ انتظام ہے تاہم عالمی مرکز ربوہ پاکستان ہے۔ اپنی تعداد کروڑوں میں بیان کرتے ہیں۔ 64 سے زیادہ زبانوں میں پورا یا جزوی طور پر قرآن کا ترجمہ کر چکے ہیں۔

مرزا غلام محمد

1835ءمیں مرزا غلام احمد ہندوستان کے شمالی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیاں این ۔ ڈبلیو۔ ریلوے اسٹیشن بٹالہ سے گیارہ میل شمال مشرق پر ایک چھوٹے سے قصبہ میں پیدا ہوئے۔ اس مناسبت سے مرزا غلام احمد کو مرزا غلام احمد قادیان بھی کہتے ہیں اور ان کے پیروکاروں کو لوگ قادیانی اور مرزائی کہتے ہیں۔ لیکن وہ خود کو احمدی کہتے اور لکھتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ حضور کے دو نام تھے ایک محمد دوسرا احمد ۔اس دوسرے نام پر مرزا صاحب نے اپنے فرقے کا نام احمدیہ رکھا۔ اور یہ پیشین گوئی کی گئی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور ہوگا اور ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات ظہور میں آئیں گی۔ مرزاغلام احمد نے اسلامی علوم کے سلسلہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی بعد از آں ذاتی مطالعہ سے علوم اسلامیہ سے آشنائی حاصل کی۔ احمدی فرقے کی ساری بنیاد الہامات، خوابوں ، پیشنگوئیوں اور مکاشفات پر مبنی ہے۔ وہ خود کو قرآن وحدیث اور سابقہ مصحف کا مصداق قرار دیتے ہیں [1]۔

نظریہ مجدد

حدیث سنن ابو داؤد کی ایک حدیث میں مجدد کا نظریہ یہ ہے کہ ہر سو سال بعد دنیا میں ایک مجدد آتا ہے جو دین اسلام کی شمع کو روشن اور زندہ کرتا ہے احمدی مزرا غلام احمد کو چودھویں صدی کا مجد د تصور کرتے ہیں۔ احمدی عقیدے کے مطابق جب تیرھویں صدی کا اختتام ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے مرزاغلام احمد کو الہام کے ذریعہ سے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔ اُن کو کہدے کہ میں مامور من اللہ اور اول المومنین ہوں اس کے بعد مرزا نے مسیح موعود کادعوی بھی کیا۔ فرقہ احمد یہ کے ماننے والے مرزاغلام احمد کی نبوت کو قرآن وحدیث کے مطابق قرار دیتے ہیں اسی طرح انہیں چودھویں صدی کا مجدد اور موعود اقوام عالم مانتے ہیں [2]۔

پہلا نظریہ

مرزا غلام احمد کہتے ہیں خدا کی حمد ہو جس نے تجھ (مرزاغلام احمد ) کو مسیح ابن مریم بنایا تو وہ مسیح (عیسی) ہے۔ پھر مسیح (عیسی) ہونے کے دعوے سے خود مسیح کا آنا نہیں بلکہ مسیح کی روح میں آنے کا مدعی ثابت کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسیح (عیسی) صلیب پر نہیں مرے بلکہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ ایک مرہم لگانے سے حضرت میسح تندرست ہو گئے تھے اس مرہم کا نام مرہم عیسی ہے یہ مرہم اب بھی کشمیر میں ملتی ہے وہ کہتے ہیں کہ (انجیل مرقس ۲۳:۱۵) میں عود اور مرملے جس پری کا ذکر ہے وہی دراصل مرہم عیسی ہے۔ مرزا کا دعوی ہے کہ مسیح (عیسی) کشمیر گئے جہاں تبلیغ کرنے کے بعد کشمیر ہی میں مر گئے اور دفن ہوئے۔ اس سلسلہ میں مرزا صاحب کی تصانیف مسیح ہندوستان میں خاصی مشہور ہے۔

دوسرا نظریہ

مرزا غلام احمد کہتے ہیں ( کہ جو دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں ) کہ عیسی ابن مریم آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ زندہ ہیں مرزا لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز قرآن کریم میں ان کو متوفیوں کی جماعت میں داخل کر چکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی اُن کی خارق عادت زندگی اور اُن کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں کیا بلکہ اُن کو صرف فوت شدہ کہہ کر چُپ ہو گیا لہذا اُن کا زندہ ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رُو سے خلاف واقع سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیات مسیح کو قرآن کی رو سے لغو اور باطل جانتا ہو۔

تیسرا انظریہ

مرزا کہتے ہیں کہ سچے عیسی کو صلیبی موت سے بچالیا مگر یہودی اپنی حماقت سے سمجھتے رہے کہ مسیح صلیب پر مر گئے حالانکہ حضرت عیسی بخیر و عافیت اپنے حواریوں کے پاس آئے اور ان کو مبارک باد دی کہ میں خُدا کے فضل سے بدستور اب تک زندہ ہوں۔ حضرت عیسیٰ کو جو زخم آئے تھے۔ چالیس دن تک اُن کے زخموں کا اُس مرہم کے ساتھ علاج ہوتا رہا جس کو قرابا دنیوں میں مرہم عیسی یا مرہم مرسل یا مرہم حوار بین کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔

چوتھا نظریہ

حضرت عیسی افغانستان پہنچے اس کے بعد ہندوستان بنارس نیپال میں پہنچے چونکہ حضرت عیسی سرد ملک کے رہنے والے تھے ۔ اس لئے اُس ملک کی شدت گرمی تحمل نہیں کر سکے اس لئے کشمیر چلے گئے اور کوہ سلیمان پر ایک مدت تک عبادت کرتے رہے اور وہیں پر موت واقع ہوئی اُن کی یادگار کا کتبہ ابھی تک کوہ سلیمان پر موجود ہے۔ حضرت عیسی ایک سو پچیس برس کی عمر میں فوت ہوئے اور محلہ خان یار ( سری نگر ) میں دفن کئے گئے اور اب تک وہ قبر یوز آصف نبی کی قبر اور شہزادہ نبی کی قبر اور عیسی نبی کی قبر کہلاتی ہے اور اس مزار کا زمان تخمینا دو ہزار برس بتلاتے ہیں۔

مرزا کا انکشاف

مرزا غلام احمد کہتے ہیں کہ میں نے متعدد ثبوتوں کے ذریعہ سے حضرت عیسیٰ کی وفات کو ثابت کر دیا ہے اور ان کی جائے وفات اور قبر کا پتہ دے دیا ہے۔ میں اس لئے آیا ہوں کہ لوگوں کو دُنیا کے گندے حال میں جو مبتلا ہیں اُن پر صدق و راستی کے دروازے کھول دوں میں اس لئے آیا ہوں کہ موجودہ دنیا کے خط سے بھی کچھ کم کر کے خُدا تعالیٰ کی طرف کھینچوں ۔ مرزا نے البدر مورخہ 19 جولائی 1906ء میں شائع کرایا تھا کہ میرا کام یہی ہے کہ میں عیسی پرستی کے ستون کو توڑدوں اور بجائے تثلیث کے توحید کو پھیلا دوں۔

مرزا غلام احمد کی وفات

1980ء میں مرزا غلام احمد کا لاہور میں انتقال ہو گیا اور اپنے گاؤں قادیاں میں دفن ہوئے انتقال کے بعد احمدی جماعت نے بالاتفاق حکیم نورالدین کو پہلا خلیفہ منتخب کیا۔

احمدیوں کے دو فرقے

لیکن بعد میں جماعت کے کئی سرکردہ لوگوں نے خلافت پر اختلاف کیا جماعت کا انتظام صدرانجمن احمدیہ کے ہاتھ میں رہا اس اختلاف کا آغاز ۱۹۱۴ء میں ہوا کچھ لوگ مرزا بشیر الدین محمود یعنی دوسرے خلیفہ مرزا بشر الدین محمود احمد کے ساتھ تھے اور جماعت کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے تھے۔ حکیم نورالدین کے بعد ایک جماعت نے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ حکیم صاحب کے بعد کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں صدرانجمن احمدیہ ہی احمدی جماعت کا انتظام چلا سکتی ہے۔ جب مرزا بشیر الدین محمود نے اور ان کے ساتھیوں نے یہ اصرار کرنا شروع کیا کہ بانی جماعت مرزا غلام احمد کو نبی مانا جائے تو اس بات سے ان کی جماعت دو حصوں میں بٹ گئی اور اختلاف نمایاں ہو گیا۔ ایک گروہ جن کا سر براہ خواجہ کمال الدین اور مولوی محمدعلی جیسے تعلیم یافتہ لوگ تھے انہوں نے اس بات کی مخالفت کی اور صدائے احتجاج بلند کی اور انہوں نے اس بات کو نہ مانا خواجہ کمال الدین نے اس بات کو مانا کہ مرزا غلام احمد صرف اپنے زمانہ کا مجدد تھا اس طرح احمدیوں کے دو فرقے ہو گئے۔

لاہوری احمدی

اس فرقے کے بانی امیر مولوی محمد علی اور دوسرے کرتا دھرتا خواجہ کمال الدین ہیں اور اس جماعت کا صدر مقام لاہور میں ہے لاہوری احمدی اپنے آپ کو احمدی یا اراکین احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کہلاتے ہیں۔ لاہوری جماعت حضور کے کم مشہور نام احمد پر اپنے آپ کو احمدیہ کہلاتے ہیں اور یہ لوگ ربوہ کے احمدیوں سے تعداد میں بہت کم ہیں۔ لاہوری احمدی جماعت حضرت محمد کو آخری نبی مانتے ہیں لاہوری احمدیوں کا نظریہ ہے کہ حضور کے بعد اور کوئی دوسرا نہیں آئے گا۔ لاہوری احمدی مرزا غلام احمد کی اُمتی نبوت کے قائل نہیں اختلاف دوسری جماعت سے نبوت کا ہے وہ انہیں مجدد ، امام مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں لاہوری جماعت کا نظم ونسق احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ہاتھ میں ہے۔ اور امیر جماعت احمدیہ نے قرآن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا اس کے علاوہ جماعت احمدیہ نے جرمن اور ڈچ دونوں زبانوں میں بھی قرآن کا ترجمہ کیا۔ جرمن، ڈچ، انگریزی اور اردو زبان میں لاہوری احمدیوں نے رسالے بھی جاری کئے ہیں بیرونی ملکوں میں اشاعت اسلام کا کام بھی لاہوری جماعت احمدیہ نے سرانجام دیا ہے۔ خواجہ صاحب نے دو کنگ میں ایک مسجد کو آباد کیا جو اس جماعت کے مشن کا ہیڈ کوانٹر بنی یہ مسجد ڈاکٹر لاسٹز نے بنوائی تھی احمدیہ جماعت نے تبلیغی کوشش صرف انگلستان تک محدود نہیں کی بلکہ انہوں نے کئی دوسرے ممالک میں بھی اپنے تبلیغی مرکز کھولے ہوئے ہیں۔

اعلان نبوت

1882ء میں مرزا غلام احمد نے مامور من اللہ ہونے کا اعلان کیا کہ اللہ کی وحی اُن پر اتری ہے 1889ء میں جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔ 1991ء میں فتح اسلام اور توضیح مرام کے عنوان سے دو رسالے شائع ہوئے ان میں مرزا غلام احمد نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا اور اپنے ایک الہام میں لکھا مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں وعدہ کے موافق تو میں آیا ہے مرزا نے مسیح موعود اور امام مہدی لامہدی الا عیسی ہونے دعوی بھی کیا اور الہام میں اپنا نام عیسی اور مسیح موعود رکھا۔ عبارت الہام یہ ہے کہ ہم نے تجھے مسیح بن مریم بنایا اس اعلان نبوت کرنے کی وجہ سے دوسرے اسلامی فرقوں نے ان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا اور جھگڑے شروع ہو گئے۔ اسلام کے دوسرے فرقے کہتے ہیں کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں اور ان پر آ کر اللہ تعالٰی کی نبوت ختم ہو جاتی ہے لیکن احمدی فرقے کے لوگوں کا نظریہ ہے کہ نہیں نبوت مرزاغلام احمد پر آکر ختم ہوئی۔ پاکستان میں دوسرے مسلمان فرقوں کا احمدی فرقے کے لوگوں سے ختم نبوت کا جھگڑا رہتا ہے۔ احمدی فرقہ کے لوگ مرزا غلام احمد کے نام کے ساتھ علیہ السلام یعنی مرزا غلام احمد علیہ السلام لکھتے ہیں۔ مرزا غلام احمد کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس دعوے کی بنیاد حدیث نہیں بلکہ قرآن اور وحی ہے۔

مرزاغلام احمد کا نبوت دعوی

میں نے اپنے کشف میں دیکھا کہ میں خود خُدا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے میرے جسم میں حلول کیا اور پھر میں نے نیا نظام، نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہا انت منی وانا منک ( تو مجھ سے میں تجھ سے ) وغیرہ وغیرہ۔ احمدی کہتے ہیں قرآن میں 100 سے زائد آیتیں مرزا غلام احمد پر نازل ہوئیں اور یہ بھی عقیدہ ہے کہ احادیث کے بہت سے حصے مرزا کے لیئے لکھے گئے ہیں۔ سرا سر وحی والہام پر بنیاد رکھنے کے باوجود احمدی جماعت کا مسلک اہل سنت و جماعت پر استوار کیا گیا ہے مرزا نے کہا ہے میں مسلمان ہوں اور اسلامی سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت و جماعت مانتے ہیں جو کہ ایک مسلمان کے عقائد ہیں وہ سارے عقائد 100 فیصد ہمارے ہیں۔

ظہور امام مهدی

امام مہدی علیہ اسلام ( جو مسیح موعود بھی ہیں ) کے ظہور کا وقت و زمانہ تیرھویں صدی ہجری کا آخری حصہ یا چودھویں صدی ھے کا ابتدائی حصہ ہے۔ اور وہ موعود امام مہدی قادیاں ضلع گورداسپور میں 1350ھ میں مہدی آخر الزمان پیدا ہوا ۔ اور زبان اُس کی پنجابی ہے۔ 1368 ھ میں جوان ہوئے 1290ھ میں چالیس سال کی عمر میں وحی و الہام سے مشرف ہوئے 1311 ھ کے آغاز پر امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا بموجب حکم الہی دعوئی کیا [3]۔

جانشین

احمدی جماعت کے خلیفہ اول حکیم نور الدین کے بعد مرزا اعلام احمد صاحب کے فرزند مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ دوم منتخب ہوئے اُن کی وفات کے بعد مرزا ناصر احمد خلیفہ سوئم منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے برادر مرزا طاہر احمد جانشین ہوئے پہلی چھ سالہ خلافت کے سوا اب تک انہی کا خاندان خلافت پر فائز ہے ۔ احمدی جماعت میں غالب اکثریت پنجابی پس منظر کے لوگوں کی ہے۔

ختم نبوت اور اسلام

ختم نبوت در حقیقت نوع انسانی کے لئے اس بیش بہا شرف و امتیاز کا اعلان ہے جو نوع انسانی خُدا کے آخری پیغمبر کی مخاطب بنائی جائے جس کے بعد اسے کسی نئی وحی و کسی نئی آسمانی ہدایت، راہنمائی کی ضرورت نہیں رہی اسلام لازما ایک دینی جماعت ہے جس کی حدود مقرر ہیں یعنی وحدت، الوہیت پر ایمان انبیاء پر ایمان اور رسول کریم کی ختم رسالت پر ایمان در اصل یہ آخری یقین یہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیر مسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے [4]۔

پاکستان میں احمدیوں کو اقلیت قرار دینا

1953ء میں قادیانیوں کے خلاف بڑے مظاہرے ہوئے کئی لوگ مارے گئے اور بہت سارے زخمی ہوئے یہ سلسلہ 1970ء تک جاری رہا پاک بھارت جنگ کے بعد اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک بار پھر مذہبی اختلافات نے سر اٹھایا اور ذوالقار علی بھٹو دور میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور ان کو آئین اور قانون کے لحاظ سے دائرہ اسلام ہی سے خارج قرار دیا 1983ء میں جنرل ضیا الحق کے آرڈنینس میں ان پر پابندیاں لگا دی گئیں اور پہلی دفعہ ان کے کھلے عام اذان دینے اور نماز پڑھنے پر بھی پابندی لگا دی گئی اور ان کی مسجدوں پر کلمہ لکھنے کی بھی پابندی لگائی اور ان لوگوں کو حج پر بھی جانے کی اجازت نہیں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ فارم پر ان کے لئے الگ کالم بنادیا گیا ہے جس میں وضاحت کی گئی کہ آپ کلمہ کے منکر تو نہیں ہیں احمدی تو نہیں ہیں اور حضور کو خاتم الانبیاء مانتے ہیں یا نہیں ۔ مذکورہ بالا آرڈنینس کے ذریعہ احمدیوں کو اپنے تئیں مسلمان کہنے سے روکا اور ایسا کرنے والوں کے لئے قید و جرمانے کی سزاؤں کا اعلان ہوا [5]۔

ارکان اسلام

ارکان اسلام میں سے پہلا کن کلمہ شہادت ہے یعنی یہ اعتراف کرتا اور گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالی کے رسول ہیں وہی اللہ کا پیغام لائے ہیں اور اسلام کے سارے احکام انہوں نے آکر بتائے ہیں ان ارکان میں دوسرا رکن نماز پڑھنا، تیسر از کوۃ دینا، چوتھا رمضان کے روزے رکھنا اور پانچواں خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مکہ جانا اور حج کرنا ہے سرکاری فیصلوں اور عالموں کے فتوؤں کے لحاظ سے احمدی ان پانچ ارکان اسلام کے علاوہ جہاد کو نہیں مانتے حالانکہ مرزا نے جہاد کو ملتوی کیا ہے حرام قرار نہیں دیا ۔ قربانی کی عید پر قربانیاں دیتے ہیں احمدی کلمہ طیبہ کے قائل ہیں قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں ۔ نماز ، روزہ ، عبادات و رسومات سب کی سب اہل سنت و جماعت فقہ حنفی سے نقل کی گئی ہیں۔ تصوف کے قائل نہیں عبادات فقہ احمدیہ کے مطابق ادا کرتے ہیں جس کو فقہ کمیٹی سلسلہ احمدیہ نے مرتب کیا ہوا ہے۔

دہ یکی

ہر احمدی اپنے مال کوخد اتعالیٰ کی امانت خیال کرتا ہے جو لوگ سلسلہ تربیت کے نیچے آچکے ہیں وہ ماہوار سولہواں حصہ دینی کاموں کے لئے بطور لازمی چندہ دیتے ہیں۔ اس چندہ کے علاوہ اور بہت سے چندوں میں بھی ان کو حصہ لینا پڑتا ہے اس کے علاوہ ایک راسخ العقیدہ معیاری احمدی جو سلسلہ تربیت کے نیچے آچکا ہے اپنے اپنے اخلاص کے مطابق اپنی آمدنی اور جائیداد سے دسویں حصہ سے تیسرے حصہ تک حسب حالات وصیت کرتا ہے۔

بہشتی مقبرہ

سب سے پہلا بہشتی مقبرہ قادیاں گاؤں میں تعمیر ہوا مرزا نے سب سے پہلے قادیاں گاؤں میں آباد ہونے والوں کو بہشت میں داخل ہونے کی بشارت دی۔ کوئی بھی احمدی چاہے عرب، ترکستان، ایران یا دنیا کے کسی بھی گوشہ میں بیٹھا ہو۔ وہ روحانی شکتی کے لئے قادیاں کی طرف رخ کرتا ہے مرزا کے پیروکاروں نے ربوہ میں بھی بہشتی مقبرہ بنایا۔ لاہوری گروپ نے قادیان کی بجائے اپنا مرکز لاہور میں قائم کیا ہے۔ احمدی جماعت کے زیادہ تر مکالمات اور مخاطبات ایسے ہیں جو احمدیوں کو بہشتی مقبرہ اور دیگر مختلف مقاصد کے لئے دل کھول کر رقومات جمع کرانے کا پابند بناتے ہیں اورجائیداد کو جماعت احمدیہ کے نام وصیت کرنے پر راغب کرتے ہیں [6]۔

روح کا مخلوق ہونا

مرزا غلام احمد کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا سارا مضمون مرزا نے خاص الہی تائید سے لکھا باون (۵۲) بڑی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم اور ان کی طباعت و اشاعت کا کام ہو چکا ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ خود بخود کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی چلی جائے گی۔ اس کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کے حوالے سے ہر سال ۲۶ تا ۲۹ دسمبر کو قادیاں (انڈیا) میں بہت بڑا روحانی اجتماع ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے احمدی روحانی شکتی حاصل کرنے کے لئے وہاں جاتے ہیں اس کتاب کے صفحہ نمبر ہ ا پر یوں لکھا ہے ۔ یہ بات نہایت درست اور صحیح ہے کہ روح ایک لطیف نور ہے جو رحم مادر کے اندر ہی سے پیدا ہو جاتا ہے بلکہ رحم مادر میں جسم انسانی کی پرورش کے ساتھ ساتھ یہ بھی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ خُدا کی کتاب کا یہ منشا نہیں ہے کہ روح الگ طور پر آسمان سے نازل ہوتی ہے یا فضا سے زمین پر گرتی ہے اور پھر کسی اتفاق سے نطفہ کے ساتھ مل کر رحم کے اندر چلی جاتی ہے بلکہ یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں۔ احمدیت کے نزد یک روح ایک مخلوق ہے جس وقت بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے روح اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم رحم مادری میں کچھ ایسی کیفیات سے گزرتا ہے کہ اس میں سے ایک لطیف جوہر نکل آتا ہے جسے روح کہتے ہیں جب یہ جوہر جسم میں اپنا تعلق کامل کر لیتا ہے تو اُسی وقت انسانی قلب حرکت کرنے لگتا ہے اور انسان زندہ ہو جاتا ہے روح اپنی طاقتوں کے اظہار کے لئے ہمیشہ جسم کی محتاج ہے اور جب جسم اس کی طاقتوں کے اظہار کے ناقابل ہو جاتا ہے وہ اسے چھوڑ دیتی ہے جس وقت جسم روح کو چھوڑتا ہے اس کا نام موت ہے۔ روح کی دوسری پیدائش، جس قادر مطلق نے روح کو قدرت کاملہ کے ساتھ جسم میں سے ہی نکالا ہے ۔ اس کا یہی ارادہ معلوم ہوتا ہے کہ روح کی دوسری پیدائش کو بھی جسم کے ذریعہ سے ہی ظہور میں ہوگا روح کی حرکتیں ہمارے جسم کی حرکتوں پر موقوف ہیں۔

ثواب و عذاب اخروی جسمانی ہیں یا روحانی

اگلے جہان کی کیفیات جسمانی بھی ہیں اور روحانی بھی جسمانی تو وہ ان معنوں میں ہیں کہ روح انسانی معا ترقی کر کے اپنے لئے ایک جسم تیار کرے گی جس طرح کہ اس دنیا میں ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں اور روحانی ان معنوں میں کہ وہ اس مادہ کی نہیں ہوں گی جس مادہ کی اس دنیا کی چیزیں ہیں اور یہ ہو بھی کب سکتا ہے۔ کیونکہ دنیا سے روح کو دوسرے جہان میں منتقل تو اسی وجہ سے کیا گیا ہے اب اگر وہاں اسی قسم کے میوے اور اسی قسم کے دودھ اور اسی قسم کے شہر ہوتے ہیں اور اسی قسم کی آگ اور اسی قسم کا دھواں ہوتا ہے جیسے کہ اس دنیا میں ہوتا ہے تو روح کو جسم سے خدا کرنے کی کیا ضرورت تھی روح کو جسم ہی کے ساتھ اٹھالیا جاتا۔

لیکن یہ ضرور ہے کہ وہاں لطیف روحانی اجسام ہوں گے وہاں کی جسمانی حالت یہاں کی روحانی حالت کے مشابہ ہوگی وہاں اس دنیا کی نعمتیں بالکل ہی اور قسم کی ہیں یعنی وہ چیزیں دنیا کی چیزیں نہیں ہونگی مگر اپنی ظاہری شکلوں میں ان سے مشابہ ہوں گی جنت ایک غیر محدود سیر گاہ ہے دوزخ ایک قید خانہ ہے دوزخ ایک محدود مقام کا نام ہے دوزخی اپنے علاقہ سے نہیں نکل سکتا دوزخی تکلیف میں ہوں گے لیکن جنتی جہاں چاہے جائے اس کے لئے ہر مقام جنت ہے ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جنت صحیح علم کے حصول اور پھر اس کے مطابق صحیح عمل کرنے اور ان دونوں کے ذریعہ سے خُدا تعالیٰ کا قرب اور اتصال حاصل کرنے کا نام ہے۔ بہشت کے پھل جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ کئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت کو بنایا ہے جس کے درخت ایمان اور جس کی نہریں اعمال صالحہ ہیں۔ اسی بہشت کا وہ آئندہ بھی پھل کھائیں گے اور وہ پھل زیادہ نمایاں اور شیریں ہو گا چونکہ وہ روحانی طور پر اس پھل کو دنیا میں کھا چکے ہونگے اس لئے دوسری دنیا میں اس پھل کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں جو پہلے ہمارے کھانے میں آچکے ہیں۔ دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے۔ مگر وہ روحانی حالتوں کے اخلال و آثارہوں گے ہم لوگ ایسے بہشت کے قائل نہیں ہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین میں درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں در حقیقت گندھک کے پتھر ہیں۔ بلکہ عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہیں اعمال کے انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے [7]۔

طباعت اشاعت قادیانی فرقے

مرزا کا حکم ہے کہ گانا بجانا نہ سنیں سچے خواب دیکھنے کے لئے وظیفوں اور استخارہ پر بہت زور دیا گیا ہے۔ طباعت اشاعت قادیانی فرقے کے لوگ بڑی تیزی کے ساتھ طباعت و اشاعت کے کام میں مصروف ہیں انگریزی اور اردور سالوں کے ذریعے سے تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور اپنے مذہبی نظریات کو بڑی وسعت کے ساتھ ہر طرف پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں [8]۔

کتب

قرآن وحدیث کے بعد احمدی فرقے کے بانی کی تقریبا 80 کتا بیں ہیں جوان کے نزدیک مقدم ہیں ۔ اُن میں مشہور کتب (1) کشتی نوح (۲) براہین احمدیہ سرفہرست ہیں اُردو لغت میں براہین کا مطلب برہان کی جمع یعنی دلائل، دلیلیں۔ براہین احمدیہ کی کتاب ۱۸۸۰ سے ۱۸۸۴ تک اس کی چار جلد میں تھیں اب ان جلدوں کی تعداد (۵) ہے براہین احمدیہ کے موضوع الہام، قرآن اور خدا تعالی کی قدرت اور اس کے علم کی وسعت خُدا کی خالقیت اور اس کی ملکیت براہین احمد یہ میں الہامی بشارتیں بھی تحریر ہیں۔ براہین احمدیہ میں لکھتے ہیں کہ خدا نے فرمایا ہے۔ میں ( مرز اعلام احمد ) آدم ہوں میں نوح ہوں، ہمیں ابراہیم ہوں، ہمیں اسحاق ہوں، ہمیں یعقوب ہوں نہیں اسماعیل ہوں ہمیں موسیٰ ہوں ہمیں داؤد ہوں ہمیں عیسیٰ ابن مریم ہوں [9]۔

سابقہ کتب میں تحریف

مرزا غلام احمد پہلی آسمانی کتابوں توریت، زبور، انجیل کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ کتابیں آنحضرت کے زمانہ تک ردی کی طرح ہو چکی تھیں اور بہت جھوٹ ان میں ملائے گئے قرآن میں کہا گیا ہے کہ یہ کتابیں محترف و مبدل ہیں۔

تحریک جدید

آج کل احمدی جماعت کے سربراہ لندن میں رہتے ہیں اور وہاں پر ہر سال جولائی کے آخر میں جلسہ ہوتا ہے اور دُنیا بھر سے احمدی حضرات شامل ہوتے ہیں ۔ احمدی جماعت کا دعویٰ ہے کہ اب وہ 189 ملکوں میں پھیل چکے ہیں اور ان سارے ملکوں کا الگ الگ انتظام ہے تاہم عالمی مرکز ربوہ ( پاکستان ) ہے۔ اپنی تعداد کروڑوں میں بیان کرتے ہیں 63 سے زیادہ زبانوں میں پورا یا جزوی طور پر قرآن کا ترجمہ کر چکے ہیں۔ 299 بیوت الذکر 186 مشن ہاوسز اور 631 نئے مقامات پر احمدیت کا نعوذ ہے ان کا بڑا پرلیس لندن میں ہے ہر سال خلیفہ اصبح الخاص لندن کے سالانہ جلسے کے دوسرے دن اپنی ترقیات کا ذکر اپنی تقریر میں کرتے ہیں۔ اس وقت مختلف ممالک میں احمدی جماعت کی 380 سے زیادہ مساجد ہیں اور ان لئے مساجد کا یورپین ممالک پر خاص طور پر بڑا اثر ہے ربوہ میں مختلف ممالک کے مبلغین تیار کرنے کے لئے جامعہ احمدیہ کانسٹی ٹیوشن موجود ہے اور صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر کی نہایت شاندار عمارتیں ربوہ میں موجود ہیں اس سرزمین میں احمدیت کا وجود جنگل میں منگل کا نظارہ پیش کر رہا ہے [10]۔

حوالہ جات

  1. اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے (حضرت مسیح موعودؑ)، alfazlonline.org
  2. جماعت احمدیہ کا نام رکھنے کی وجہ تسمیہ اور قیام کا مقصد alfazlonline.org
  3. مولوی نجم الغنی خان رامپوری ،مذہب اسلام، ضیا القرآن پبلیکیشنز لاہور
  4. سید محمدعلی شاہ، دین بہائی اور احمدیت، ، یہ آئی پبلشنگ ٹرسٹ ، کراچی
  5. ختم نبوت تحریک احمدیت، پرویز طلوع اسلام ٹرسٹ لاہور
  6. مولانا محمداحمد عثمانی، ہماری مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ، ادارہ فکر اسلامی ۲۴۰ گارڈن ایبٹ کراچی نمبر ۳
  7. زاہد حسین مرزا، اہل حرم کے سومنات ، مجلس صوت الاسلام میر پور
  8. سید محمد قاسم محمود اسلامی انسائیکلو پیڈیا، الفصل اردو بازارلاہور
  9. مرزا غلام احمد قادی، اسلامی اصول کی فلاسفی تصنیف
  10. فقه احمدیہ عبادات، پیشکش تدوین فقہ کمیٹی سلسلہ عالیہ احمد یہی