رضی الدین صدیقی
| رضی الدین صدیقی | |
|---|---|
| دوسرے نام | علامہ ڈاکٹر محمد رضي الدین صدیقی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1905 ء، 1283 ش، 1322 ق |
| پیدائش کی جگہ | حیدرآباد دکن |
| وفات | 1998 ء، 1376 ش، 1418 ق |
| یوم وفات | 2 جنوری |
| وفات کی جگہ | لاہور |
| مذہب | اسلام، سنی |
| اثرات |
|
| مناصب |
|
رضی الدین صدیقی ڈاکٹر محمد رضی الدین صدیقی پاکستانی ماہر تعلیم، ریاضی دان، سائنس دان، عثمانیہ، کیمبرج، گوٹنجن، لائپزگ تے پرس دی یونیورسٹیاں وچ تعلیم حاصل کيتی۔ ۱۹۳۱ء توں ۱۹۵۰ء عثمانیہ یونیورسٹی وچ پروفیسر ریاضی، ڈائریکٹر آف ریسرچ تے وائس چانسلر رہے۔۱۹۵۰ء وچ پشاور یونیورسٹی تے ۱۹۵۹ء وچ سندھ یونیورسٹی دے وائس چانسلر مقرر ہوئے تھے۔ ۱۹۶۱ء مسے ۱۹۷۳ء تک پاکستانی اکیڈمی آف سائنسز دے صدر تے ۱۹۶۵ء توں ۱۹۷۳ء اسلام آباد یونیورستی دے وائس چانسلر رہے۔ بعد وچ صدر دے سیکریٹریٹ دے سائنسی تے تکنیکی تحقیقاتی شعبے دے جائنٹ سیکرٹری انچار مقرر ہوئے اور زمانہ طالب علمی ہی وچ دنیا دے سائنسی حلفےآں وچ متعارف ہوئے گئے سن ۔ انگلستان تے بعد وچ جرمنی تے فرانس وچ ایٹمی توانائی تے نظریہ اضافت اُتے تحقیقاتی کم کیااور نظریہ اضافت اُتے مقالہ لکھ کے پی ایچ ڈی دی ڈگری لئی۔ ریاضی تے سائنس دے علاوہ ادب توں وی شغف رکھدے نيں۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی زندگی پر ایک نگاہ دوڑائی جائے تو ان پر تاریخ کے اُن علمائے سائنس کا گمان ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں کئی علوم کے درجہ کمال پر فائز تھے۔ وہ ممتاز ریاضی دان، فلسفی، ادبی شخصیت، ماہرِ تعلیم، اسلامی تمدن کے اسکالر اور کئی زبانوں کے ماہر تھے۔
سوانح عمری
محمد رضی الدین صدیقی 7 اپریل 1905 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ ان کا گھرانہ قاضیوں اور منصفوں کا سے تعلق رکھتا تھا ۔
تعلیم
عربی ، فارسی اور دیگر مشرقی علوم پہلے گھر پر، پھر دارالعلوم میں پڑھے۔ پھر انہوں نے حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اس زمانے میں اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں ہی دی جاتی تھی اور اس کے لئے خاص طور پر اردو میں کتابیں او ر درسی لٹریچر تیار کیا جاتا تھا[1]۔
کالج کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اساتذہ کے درمیان یہ تنازعہ پیدا ہوگیا کہ رضی الدین کس مضمون میں بہتر ہیں۔ سائنس کے اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ فزکس اور میتھمیٹکس میں بہتر ہے اور اسی لئے ان مضامین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ ادب اور لسانیات کے ٹیچرز کا اصرار تھا کہ وہ عربی اور فارسی میں بھی یکساں قابل ہیں اس لئے ان پر توجہ دی جائے۔ آخر یہ طے ہوا کہ سائنسی علوم کیلئے چونکہ لیبارٹریز کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ کالج میں جاری رکھے جائیں گے ۔
اسطرح کالج ختم ہونے کے بعد بھی ادب کے اساتذہ انہیں پڑھانے کیلئے موجود رہتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کے اساتذہ اپنے قابل طلبا کے لئے کتنے فکر مند رہتے تھے ۔ ایک استاد نے انہیں ایک پیپر میں سو میں سے ایک سو پانچ نمبر دئیے تھے۔
رضی الدین انیس سو پچیس میں عثمانیہ سے فارغ ہونے والے پہلے بیچ میں شامل تھے۔ خالص اردو میں تعلیمی پس منظر کے باوجود انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ کیمبرج میں وہ داخلے کے امتحان میں اول آئے اور انہیں براہِ راست سیکنڈ ائیر میں پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ کیمبر ج میں وہ فزکس کے مایہ ناز ماہر اور نوبیل انعام یافتہ پال ڈیراک کے اولین شاگردوں میں شامل رہے۔ ڈیراک کوانٹم مکینکس کے بانیوں میں شامل ہیں جنہیں 1933 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔
کیمبرج کے دنوں میں وہ فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کی نظروں میں آگئے اور ان کے قریبی شاگردوں میں شامل ہوئے ۔ ایڈنگٹن وہی سائنسدان ہیں جنہوں نے 1919 کے سورج گرہن کی مدد سے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو ثابت کر دکھایا تھا۔ انہوں نے ایڈنگٹن کی رہنمائی میں علم کے سفر طے کئے۔ اس وقت فزکس بدل رہی تھی ایک طرف کوانٹم مکینکس تھی تو دوسری جانب نظریہ اضافیت نے زمان و مکان کے تصورات بدل کر رکھ دیے تھے ۔
کیمبرج سے ماسٹرز کے بعد وہ ڈاکٹریٹ کیلئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں وہ آئن سٹائن ، میکس پلانک یا ورنر ہائزن برگ کے شاگرد بننے کے خواہشمند تھے ۔ آئن سٹائن تو نہیں لیکن ورنر ہائزن برگ ان کے استاد مقرر ہوئے ۔ رضی الدین اس لحاظ سے خوش نصیب رہے کہ انہوں نے فزکس کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا اور ان لوگوں سے علم حاصل کیا جنہوں نے اس علم کو گویا بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت کوانٹم مکینکس اور نظریہ اضافیت کے تصورات نے تہلکہ مچا رکھا تھا۔ رضی الدین نے اس دوران آئن سٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔
ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ نے نہ صرف ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو تعلیم دی بلکہ ان کی زندگی پر بھی گہرا اثر ڈالا ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک میں تعلیم کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے. صدیقی نے 1930 میں تھیوری آف نان لینیئر پارشل ڈیفرینشیل اکیویشن کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا ۔ انہوں نے ریاضی میں تھیوری آف آپریٹرز کو ترقی دی جو آج کوانٹم مکینکس میں استعمال کی جاتی ہے ۔
تعلیمی سرگرمیاں
پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے ہی مشورے پر رضی الدین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں فرانس میں انہوں نے نہ صرف تحقیقی مقالے لکھے بلکہ فرانس کے ممتاز جرنلز میں ان کے مضامین شائع ہوئے ۔ 1931 میں وہ حیدرآباد دکن آگئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔
1937 میں انہوں نے کوانٹم مکینکس کے اپنے لیکچرز مرتب کرکے انہیں کتابی صورت دی۔ اس کتاب میں نظریہ اضافیت خصوصی اور جنرل تھیوری آف ہیملٹن ڈائنامکس پر بھی مضامین شامل تھے ۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے محترم استاد ، ورنر ہائزن بر گ کے نام معنون کی تھی۔ اس کوشش کو نہ صرف ہائزن برگ نے بہت سراہا بلکہ اسے طالبعلموں کیلئے ایک مفید کتاب قرار دیا۔ ڈاکٹر پی اے ایم ڈیراک کو جب یہ کتاب بھجوائی گئی تو انہوں نے اسے بہت اچھی کوشش قرار دیا۔
1938 میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیقی پر گولڈ میڈل دیا گیااور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔ 1940 نے انجمن ترقی اردو ، حیدرآباد نے ان کی اہم کتاب ،نظریہ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹویٹی) شائع کی۔ یہ کتاب انہوں نے علامہ اقبال کی فرمائش پر تحریر کی تھی جو آئن سٹائن کے کام کو اردومیں پیش کرنے کے خواہشمند تھے لیکن افسوس کہ کتاب منظرِ عام پر آنے سے قبل ہی علامہ اقبال وفات پاگئے تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں انہوں نے ' اقبال کے تصورِ زمان و مکان' ایک کتاب مرتب کی جسے بزمِ اقبال نے شائع کیا۔ ایک عظیم سائنسدان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی ، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ تھا۔ ساتھ ہی وہ غالب، اقبال ، حافظ اور شیرازی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیقی پر گولڈ میڈل دیا گیااور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔ 1950 میں وہ حکومتِ ہند کی جانب سے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کی ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئے۔ اس موقع پر انہیں پاکستان کی تین مختلف یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر شپ کی آفر ہوئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے انہیں آزاد کشمیر یونیورسٹی کی صدارت سنبھالنے کو کہا، وزیرِ تعلیم فضل الرحمان نے کہا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن جائیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ صرف کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئے ہیں اور واپس ہندوستان جاکر علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات جاری رکھنا چاہیں گے۔ اس موقع پر اس وقت صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے، جو اس وقت کراچی میں تھے، انہیں خیبر پاس کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ جب رضی الدین صدیقی پشاور پہنچے تو انہیں دو کاغذات موصول ہوئے ۔ ایک اس ٹیلی گرام کی نقل تھی جس سردار
قیوم نے ہندوستانی وزیرِ اعظم کو کہا تھا کہ اب ڈاکٹر رضی الدین پاکستان میں رہیں گے اور ان کے اہلِ خانہ کو پاکستان بھجوادیا جائے۔ دوسرے خط میں انہیں نئی قائم شدہ پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کا سربراہ بنانے کے احکامات تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی سے مشورہ کئے بغیر خان عبدالقیوم خان کی اس جلد بازی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہندوستان میں اُن کی جائیداد اور سب سے بڑھ کر ان کا قیمتی کتب خانہ ضبط کرلیا گیا ۔ اس لائبریری کے جانے کا انہیں ہمیشہ افسوس رہا۔
1960 میں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا گیا اور انہوں نے اس کا معیار بلند کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ 1964 میں صدر ایوب خان نے انہیں اسلام آباد میں مجوزہ ایک نئی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا جو آج قائدِ اعظم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی کے لئے وہ فرانس ، امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی گئے ، وہاں کی جامعات کو قریب سے دیکھا، اہلِ علم سے گفتگو کی تاکہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی ایک شاندار یونیورسٹی تعمیر کی جاسکے۔ انہوں نے اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رالف ٹیلر اور ورنر ہائزن برگ سے بھی تبادلہ خیال کیا اور یونیورسٹی کیلئے ایک روڈ میپ تشکیل دیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایم آئی ٹی ، کیلٹیک اور رائل سوسائٹی سے بھی رابطے برقرار رکھے۔ انہوں نے اپنے تعلقات اور بین الاقوامی نیٹ ورک کی مدد سے قائدِ اعظم یونیورسٹی میں اعلیٰ پائے کی فیکلٹیز تعمیر کیں۔ ساتھ ہیں انہوں نے اپنی شخصیت کے بل بوتے پر بیرونِ ملک مقیم مشہور پاکستانی سائنسدانوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آئیں اور اپنے علم سے اسے منور کریں۔
افسوس کہ 1971 میں جہاں ملکی یونیورسٹیز میں تبدیلیاں ہوئیں وہیں، قائدِ اعظم یونیورسٹی میں بھی سیاسی دخل اندازی بڑھی۔ یونیورسٹی میں استاد کیلئے پی ایچ ڈی کی بجائے صرف ماسٹرز کی حد رکھی گئی جس سے اس کے معیار کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس سے یونیورسٹی کا معیار بہت تیزی سے گرنے لگا۔
ڈاکٹر صدیقی یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے اور ان کا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ وہ غربت ، بیماری اور جہالت کا صرف ایک ہی علاج جانتے تھے اور وہ ہے تعلیم۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک میں تعلیم کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے.
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج اسلام آباد میں شارعِ دستور پر واقع پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے قیام میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ 1961 سے 1972 تک اس کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ انڈین اکیڈمی آف سائنسز کے نائب صدر بھی رہے جبکہ سر سی وی رامن اس کے صدر تھے۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں انہوں نے ' اقبال کے تصورِ زمان و مکان' ایک کتاب مرتب کی جسے بزمِ اقبال نے شائع کیا۔
1947 سے 1949 تک و ہ انڈین میتھیمیٹکل سوسائٹی کے صدر رہے اور یونیسکو کی جانب سے سائنس کے کنسلٹنٹ بھی مقرر ہوئے۔ انیس سو پچھتر میں انہیں انٹرنیشنل کانگریس آف میتھمیٹکل سوسائٹی کا جنرل پریذیڈنٹ منتخب کیا گیاجو ایک قابلِ فخر اعزاز ہے۔ 1952 میں ڈاکٹر صدیقی کوانٹرنیشنل میتھمیٹکل یونین کی نیشنل کمیٹی کا صدر بنایا گیا اور مسلسل بیس سال تک یہ اعزاز ان کے پاس رہا۔ 1960 میں انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا اور 1981 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ انیس سو باسٹھ میں جرمنی میں انہیں گرانڈ کراس آف دی آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا۔
علامہ رضاء الدین صدیقی کی یادیں وہ دن بھی ہیں یاد مجھ کو
امریکہ سے میرے نام سپانسر لیٹر آیا کہ مجھے ضیاء الامت کانفرنس نیو یارک میں شرکت کرنی ہے اس کانفرنس کے منتظمین پیرسید میر حسین شاہ صاحب اور چوہدری نادرخاں صاحب تھے حضور غریب نواز قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ کی منظوری کے بعد ان کی موجودگی میں یہ رائے دی گئی کہ اگر شہباز کا ویزہ نہ لگے تو بیک اپ کے لئے کسی اور کا سپانسر لیٹر بھی منگوانا چاہیے تو میں نے علامہ رضاء الدین صدیقی کا نام پیش کیا تھا کیونکہ ان دنوں لاہور اور دیگر مقامات پر میری صدیقی صاحب سے مسلسل ملاقاتیں رہتی تھیں ھمارے ممکنہ میزبان شاہ صاحب اور چوہدری صاحب اس وقت تک علامہ صدیقی صاحب کے نام اور شخصیت سے آگاہ نہیں تھے
لیکن میری رائے اور پیر صاحب کی توثیق کے بعد علامہ صدیقی صاحب کا دعوت نامہ امریکہ سے منگوایا گیا علامہ صدیقی صاحب اکثر مجالس میں اس بات کا برملا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ امریکہ جانے لے لئے میرا نام شہباز احمد چشتی نے پیش کیا تھا اور یہ کہ میں ان کا کورنگ امیدوار تھا اور انہی کی بدولت میں شاہ صاحب اور چوہدری صاحب سے شناسا ہوا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ علامہ صدیقی صاحب کا امریکہ کا ویزہ مجھ سے پہلے لگ گیا اور انہوں نے نیو یارک امریکہ تشریف لاکر ضیائ الامت کانفرنس میں شرکت کی اور خطاب فرمایا۔
میرا امریکہ کا ویزہ کئی ماہ کے بعد ایشو کیا گیا اس دوران صدیقی صاحب مزاقاً فرمایا کرتے تھے کہ "تمہارے ذیادہ جوان ہونے کی وجہ سے امریکن ایمبیسی نے تمھارا ویزہ لیٹ کر دیا ھے" علامہ رضی الدین صدیقی نے امریکہ میں اپنے خطابات کی وجہ سے بہت جلد اپنی دینی، علمی اورصوفیانہ پہچان بنا لی تھی ان کی شخصیت میں ایک خاص معنی خیز خاموشی بھی رہتی تھی مگر جب تبصرہ فرماتے تو سننے والے دنگ رہ جاتے۔
ایک دفعہ حضور غریب نواز قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب نے بھیرہ شریف میں ان علماء اور اسکالرز کا اجلاس ب?لایا جو دارالعلوم سے فراغت کے بعد معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہے تھے میں اس اجلاس میں شریک تھا اہل سنت کے اتحاد اور قبلہ پیر صاحب کی سربراہی پر مشاورت جاری تھی سب علماء اس اتحاد کی ضرورت و اہمیت اور حضور پیر صاحب کی قیادت پر دلائل دے رہے تھے تو صدیقی صاحب نے کہا کہ میرے خیال میں یہ رومانس ذیادہ دیر نہیں چل سکے گا لھذا بھیرہ شریف کو اپنے علمی، تدریسی اور خانقاہی نظام پر ہی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ان کا یہ ایک جملہ اپنی معنویت کے اعتبار سے اکثر علمائ کی آرائ پر بھاری تھا۔
امریکہ میں ابتدائی دنوں میں میری صدیقی صاحب کے ساتھ مختلف موضوعات پر کافی گفتگو رہتی تھی میں ایک شخص کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے بہت تنگ تھا تو فرمانے لگے آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں یہ شخص تو "مرفوع القلم "ھے اس اصلاح کو صاحبان علم ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں پھر کچھ لوگوں نے ھمارے درمیان غلط فہمیاں ڈالنے کی کو ششیں بھی کیں جس وجہ سے کچھ عرصہ ھمارے تعلقات میں نشیب فراز بھی رہے لیکن کبھی بھی باہمی ادب و احترام میں فرق نہیں آیا وہ مجھ سے علمی، فکری اور روحانی اعتبار سے بڑے تھے ہمیشہ اچھی اور مخلصانہ رائے دیتے تھے وہ شریف النفس اور صاحب فراست تھے لھذا کچھ افراد کے شرّ سے بچنے کے لئے ھمارے ادارے میں تشریف نہیں لاتے تھے جس کا انہوں نے مجھ سے دبے لفظوں میں اظہار بھی فرمایا تھا۔
حضور قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ جب امریکہ تشریف لاتے تو آپ کی موجودگی میں صدیقی صاحب کے اور میرے خطابات ہوتے رہے ھمارے پیر بھائیوں کو ایک شخص سے بہت شکایات تھیں اور سب کو حیرانگی اس بات کی تھی کہ وہ کردار قبلہ پیر صاحب کے بہت قریب تھا لوگ ہم سے پوچھتے کہ پیر صاحب اسے کچھ کہتے کیوں نہیں تو صدیقی صاحب کا تبصرہ بہت شاندار تھا کہ پیر چونکہ اللہ تعالی کی شان ستاری کا مظہر ہوتا ھے۔ لھذا وہ مجرم کی ذیادہ پشت پناہی کرتا ھے۔ پیر صاحب قبلہ بھی اس جملے سے بہت محظوظ ہوئے۔
ایک دفعہ مجھے یہ بات سنانے لگے کہ حضور پیر صاحب نیویارک میں مجھے اپنے ساتھ واک پر لے گئے اور پوچھنے لگے صدیقی صاحب پاکستانی معاشرے کے برعکس امریکہ میں زندگی گذارنا کیسا ھے تو کہنے لگے کہ میں نے عرض کی حضور " ابھی تک تو یہاں زندگی سرکس کے رسّے پر چلنے کے مترادف ھے" پیر صاحب سن کر بہت مسکرائے۔ صدیقی صاحب چونکہ عالم، شاعر، ادیب اور خطیب بھی تھے لہذا لفاظی، جملے بندی ، فقرے بازی اور اچھے شعر کے انتخاب کے ساتھ ساتھ حسن ادائیگی میں وہ ید طولیٰ رکھتے تھے اہل سنت کی روایات کے سخت پابند اور صوفیانہ مزاج کے شناسا تھے۔
اللہ تعالیٰ نے صدیقی صاحب کو بہت ذیادہ صلاحیتیں عطا فرما رکھی تھیں وہ شاعرانہ مزاج اور سیلانی طبیعت کی وجہ سے ایک جگہ ٹِک کر کام نہیں کر سکے ورنہ وہ علمی رسوخ اور فکری پختگی کی وجہ سے کئی علماء پر بھاری تھے ان کا وجود اپنی ذات میں ایک انجمن اور تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتا تھا صدیقی صاحب عمر کے آخری حصّے میں تحریری کام کرنا چاہتے تھے وہ نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کے محسن ڈاکٹر عبد الواحد کے ادارے گلاب بانو اسلامک سینٹر میں خدمات سر انجام دے رہے تھے
ڈاکٹر صاحب نے ان کو کافی سہولیات دے رکھی تھیں ان کی تجہیز و تکفین سے لے کر ان کی میت پاکستان تک پہچانے کے تمام اخراجات ڈاکٹر صاحب نے اپنی ذاتی جیب سے ادا کئے ہیں۔سید ہارون انس شاہ سے ان کے خاندانی مراسم تھے لھذا شاہ صاحب ان کی بیماری کے ایّام میں ان سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اور پاکستان میں تدفین کے لئے بھی ساتھ گئے ہیں نوجوان عالم دین علامہ سجاد رضا مدنی صاحب بھی صدیقی صاحب کے ہمراز اور فکری طور پر ان سے بہت قریب تھے وہ روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر صدیقی صاحب کی عیادت کے لئے ھسپتال تشریف لے جاتے اور واپسی پر مجھے ضیای الکرم اسلامک سینٹر میں ان کی صحت کے بارے میں آگاہی بخشتے۔
ضیائ الکرم اسلامک سینٹر میں افطار سے پہلے اور نماز تراویح کے بعد صدیقی صاحب کی صحت یابی کے لئے خصوصی دعائیں کی جاتیں۔ ان کے وصال کے ایک ہفتہ پہلے میں نے نیویارک کے ہسپتال میں جا کر ان کی عیادت کی تو انہوں نے اشارے سے فرمایا یہ دیکھو میرا کیا حال ہو چکا ھے میں نے کہا ہر جگہ آپ کے لئے دعائیں ہو رہی ہیں اور میں خود ضیاء الکرم سینٹر میں آپ کے لئے دعا کرواتا رہا ہوں تو انہوں نے اشارے سے ماتھے پر ہاتھ رکھ شکریہ ادا کیا۔
میں وہاں کچھ دیر بیٹھ کر ان کی اہلیہ محترمہ سے ان کی صحت اور میڈیکل رپورٹس پر گفتگو کرتا رہا اور بعد ازاں ان سے اجازت مانگی تو انہوں نے غنودگی کے باوجود مسکرا کر اجازت دی ان کی حالت سے محسوس ہوتا تھا وہ جلد صحت یاب ہو جائیں گے مگر پاس تقدیر مسکرا کر فرشتہ ء اجل کو آوازیں دے رہی تھی بالآخر یہ درویش صفت زاویہ نشین ہمیشہ کے لئے جنت نشین ہو گیا۔ نیویارک کی سب سے بڑی مکی مسجد میں ان کا سب سے بڑا جنازہ ہوا اور جنازہ کے بعد میں نے جب ان کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھا تو مجھے علامہ اقبال یاد آگئے۔ جنہوں نے فرمایا تھا وقت وصال مرد مومن کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نہیں بلکہ مسکراہٹ کے نشان رقص کناں ہوتے ہیں کیونکہ وہ لذّت دیدار سے شاد کام ہوتا ھے۔
نشانِ مردِ مومن باتو گویم چوں مرگ آید تبسم بر لبِ اوست
اللہ کریم علامہ صدیقی کو اپنے مرشدِ کریم حضور ضیاء کے شہر بھیرہ میں جنت کا سہرا عطا فرمائے۔( صاحب مضمون ڈائریکٹر ضیا ی الکرم اسلامک سینٹر نیویارک امریکہ)[2]۔
وفات
دو جنوری ، 1998 کی صبح ان کا انتقال ہوگیا۔
حوالہ جات
- ↑ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ایک جینیئس- شائع شدہ از: 8 جنوری 2013ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 نومبر 2025ء
- ↑ ڈاکٹر ضياء احمد چشتیعلامہ رضاء الدین صدیقی کی یادیں وہ دن بھی ہیں یاد مجھ کو-شائع شدہ از: 16 مئی 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:25نومبر 2025ء