منیر شاکر

    ویکی‌وحدت سے
    نظرثانی بتاریخ 23:05، 15 مارچ 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
    (فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
    منیر شاکر
    مفتی منیر شاکر.png
    دوسرے ناممفتی منیر شاکر
    ذاتی معلومات
    پیدائش کی جگہخیبر پختونخوا ضلع کرم ماخی زئی پاکستان
    یوم وفات15 مارچ
    وفات کی جگہپیشاور
    مذہباسلام، سنی
    مناصبلشکر اسلام کا بانی

    منیر شاکر مفتی منیر شاکر نے دین کی خدمت میں گراں قدر اور اہم خدمات انجام دیے ہیں۔ وہ معاصر علمائے کرام میں سے ہیں جنہوں نے اسلامی علوم کی اشاعت، مسلمانوں کی رہنمائی، اور دینی شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی خدمات مختلف شعبوں میں نمایاں ہیں، جن میں جہادی اور اسلامی جدوجہد بھی شامل ہے وہ ضلع خیبر میں 2001 سے لے کر 2011 تک شدت پسندی کے دوران ایک اہم کردار سمجھے جاتے تھے۔

    سوانح عمری

    مفتی منیر شاکر خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرم کے گاؤں ماخی زئی میں ایک قدامت پسند خاندان میں 1969 پیدا ہوئے تھے۔ مفتی منیر شاکر مذہبی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور جامعہ بنوریہ میں زیر تعلیم رہے۔ ارمڑ میں جامع مسجد ندائے قرآن کے نام سے ان کا مدرسہ تھا۔ مفتی منیر شاکر کالعدم لشکر اسلام کے بانیوں میں سے تھے۔ اورمنظر عام پر مشہور ہوئے۔ کالعدم لشکر اسلام کے بعد باڑہ سابقہ خیبر ایجنسی منتقل ہوئے تھے۔

    تعلیمی اور تدریسی سرگرمیاں

    مفتی منیر شاکر دینی علوم کی ترویج پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور تدریس کے میدان میں انہوں نے شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے مختلف مدارس میں تدریس کی اور بے شمار طلباء کو دینی تعلیم دی، جو آج دین کی خدمت میں مختلف میدانوں میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے فقہ، حدیث، اور قرآنی علوم میں گہری مطالعاتی اور تدریسی سرگرمیاں جاری رکھیں، اور ان کے اسباق صرف روایتی دینی علوم تک محدود نہیں تھے بلکہ انہوں نے عصرِ حاضر کے مسائل کے حل میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

    فتاویٰ کا شعبہ

    مفتی منیر شاکر فتویٰ دینے کے میدان میں ایک ماہر اور مجتہد عالم ہیں۔ وہ پیچیدہ اور معاصر فقہی مسائل میں تفصیل سے فتاویٰ دیتے ہیں اور شریعت کے اصولوں کے مطابق حل پیش کرتے ہیں۔ ان کے فتویٰ دینے کے ذریعے اسلامی معاشرے کی ضروریات شریعت کی روشنی میں پوری کی جاتی ہیں، اور اس طرح وہ مسلمانوں کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی رہنمائی کرتے ہیں۔

    تبلیغ اور دعوت کا شعبہ

    مفتی منیر شاکر کا ایک اور اہم خدمت دعوت اور تبلیغ کے میدان میں ہے۔ انہوں نے اسلامی اخلاق اور تعلیمات کی ترویج میں بڑی کوشش کی ہے۔ وہ مساجد، مدارس، اور دعوتی اجتماعات کے ذریعے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ ان کے خطبات اور تقاریر نے لوگوں کے دلوں میں دین سے محبت اور اخلاص پیدا کیا اور انہیں اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔

    اسلامی معاشرت کی تعمیر میں کردار

    اس نے نہ صرف علمی اور فقہی میدانوں میں خدمات انجام دی ہیں بلکہ اسلامی معاشرت کی تعمیر میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے مختلف سماجی اور تعلیمی منصوبوں میں حصہ لیا، جو مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی کے لیے مفید تھے۔ اسلامی معاشرت کی تعمیر علماء کا اہم مقصد ہوتا ہے، اور مفتی منیر شاکر نے اپنی کوششوں کے ذریعے بہت سے لوگوں کو حق کے راستے پر بلایا۔

    تصنیف و تالیف کا شعبہ

    اس نے دینی مسائل پر اہم کتابیں اور تحریریں بھی لکھی ہیں، جو مسلمانوں کے لیے رہنمائی اور سیکھنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ ان کی تحریریں خاص طور پر معاصر فقہی اور عقیدتی موضوعات پر مرکوز ہیں اور وہ ان کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ان کتابوں اور تحریروں کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کے دینی شعور میں اضافہ کیا ہے۔

    جہادی جدوجہد میں کردار

    مفتی منیر شاکر دینی علوم کی تدریس اور فتویٰ دینے کے علاوہ جہادی میدان میں بھی ایک اہم اور فعال شخصیت ہیں۔ ان کی جہادی جدوجہد اسلام کے اصولوں اور تعلیمات کی روشنی میں تھی، اور ان کی یہ جدوجہد دینی اور ملی اقدار کی حفاظت کے لیے تھی۔

    جہاد کا نظریہ اور فلسفہ

    مفتی منیر شاکر نے اسلام میں جہاد کے نظریے کو قرآنی اور سنت کی روشنی میں پیش کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ جہاد صرف جنگ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع جدوجہد ہے جس میں ظلم و فساد کے خلاف حق کی جنگ شامل ہے۔ مفتی منیر شاکر جہاد کو ایک دفاعی عمل کے طور پر دیکھتے تھے، جو اس وقت ہوتا ہے جب مسلمانوں کے دین، عزت، اور ملک کو خطرہ لاحق ہو۔

    امن و انصاف کے لیے جدوجہد

    اگرچہ مفتی منیر شاکر جہادی جدوجہد میں مضبوط موقف رکھتے تھے، لیکن وہ ہمیشہ امن و انصاف کے لیے بھی آواز بلند کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاد کا اصل مقصد ظلم کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔ مفتی منیر شاکر ان جہادی گروہوں کی حمایت نہیں کرتے تھے جو مسلمانوں کے درمیان لڑائی اور اندرونی جنگیں شروع کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ اتحاد اور اتفاق کا راستہ اختیار کریں اور شریعت کی روشنی میں اپنے اختلافات حل کریں۔

    اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد

    مفتی منیر شاکر کا ایمان تھا کہ مسلمانوں کا معاشرہ اسلامی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے۔ وہ اس کے لیے جہادی جدوجہد کو اہم سمجھتے تھے کہ ایک اسلامی حکومت قائم ہو، ایک ایسا نظام جس میں انصاف، شریعت، اور دینی اقدار کا نفاذ بنیادی ہو۔ وہ اسلامی نظام کے لیے مسلح جہاد کی حمایت کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس جدوجہد کی اہمیت سے آگاہ کرتے تھے۔ ان کے نزدیک اسلامی حکومت ظلم اور فساد کی روک تھام کا واحد راستہ ہے اور اس راہ میں جدوجہد مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

    عالمی سازشوں کے خلاف جدوجہد

    مفتی منیر شاکر ہمیشہ ان عالمی طاقتوں اور سازشوں کے خلاف مضبوط موقف رکھتے تھے جو اسلامی دنیا کو دبانے کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اسلامی ممالک کے قبضے اور کمزوری کے پیچھے بڑی عالمی طاقتوں کی سازشیں ہیں، اور جہاد ان سازشوں کو ناکام بنانے کا واحد راستہ ہے۔ ان کی تقاریر اور تبلیغات اس حوالے سے بہت مؤثر تھیں اور انہوں نے مسلمانوں کو اس جدوجہد کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کیا[1]۔

    تبلیغی سرگرمیاں

    سینٹر ایشیا نامی جریدے میں شائع ڈاکٹر یوسف علی اور اعجاز خان کے تحقیقی مقالے کے مطابق مفتی منیر شاکر کو ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں 2003 میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سربراہ حاجی نامدار نے متعارف کروایا۔ باڑہ میں وہ حاجی نامدار کے نجی ریڈیو سٹیشن سے خطبے دیتے تھے اور اس کے بعد انہوں نے ضلع خیبر میں حرکت الاسلام نامی تنظیم کی بنیاد رکھی اور بعدازاں لشکر اسلام کی بنیاد رکھی۔

    تنظیمی سرگرمیاں

    تحقیقی مقالے کے مطابق حاجی نامدار اور مفتی منیر شاکر کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے اور 2004 میں انہیں ضلع بدر کرنے کا کہا گیا۔ اس کے بعد باڑہ سے وہ ملک دین خیل کے علاقے میں منتقل ہو گئے۔ وہاں پر منگل باغ ان کے حمایتیوں میں شامل ہو گئے اور ایک نئے ریڈیو سٹیشن کی بنیاد رکھی اور بعد میں لشکر اسلام تنظیم کی بنیاد رکھی اور ان کے سربراہ بن گئے۔

    منگل باغ 2021 میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں اس وقت کے افغان حکام کے مطابق بارودی سرنگ کے دھماکے میں دو ساتھیوں سمیت مارے گئے تھے۔ شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے ’دی لانگ وار‘ نامی جریدے کے مقالے میں کہا گیا ہے کہ لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ کی سوچ بدلتی رہی کیونکہ ایک طرف وہ ’افغان جہاد‘ میں سوویت یونین کے خلاف لڑے تھے جبکہ دوسری جانب اسی جنگ سے واپسی کے بعد وہ عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ بن گئے اور اسی پارٹی کا اثر و رسوخ استعمال کرکے 2001 میں وہ باڑہ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوگئے تھے۔

    ’منگل باغ کے مذہبی خیالات پہلی بار اس وقت شدت سے سامنے آئے جب انہوں نے تبلیغی جماعت کے اجلاسوں میں شرکت اور تبلیغ پر جانا شروع کیا۔‘ مفتی شاکر ضلع خیبر میں ایف ایم ریڈیو پر اسی علاقے میں رہنے والے ایک اور شخص پیر سیف الرحمان، جو بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے، کی کھلے عام مخالفت کرتے تھے۔

    سیف الرحمان علاقے میں انصار الاسلام کی قیادت بھی کر چکے تھے۔ مفتی شاکر سیف الرحمان سے بہت بعد میں ضلع خیبر آئے تھے لیکن وہاں پر اپنا اثر و رسوخ بہت جلد قائم کیا اور حاجی نامدار کی سربراہی میں ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی جو لوگوں کو ریاستی پالیسیوں کے خلاف اکساتی تھی۔

    مقالے میں تفصیل سے درج ہے کہ کس طرح مفتی شاکر اور سیف الرحمان کے مابین اختلاف شروع ہو گیا کیونکہ دونوں مختلف مکاتیب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ 2005 میں علاقے کے لوگوں کی جانب سے مفتی شاکر اور سیف الرحمان کو علاقہ بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تب ہی ان دونوں کے چاہنے والوں کے مابین جنگ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ یوں دونوں تنظیموں کے مابین جھڑپ ہوئی جس میں کم از کم 21 افراد جان سے گئے اور مفتی شاکر اور سیف دونوں روپوش ہوگئے۔

    گرفتاری

    مفتی منیر شاکر اور سیف الرحمان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 2007 میں گرفتار کیا۔ گذشتہ کچھ عرصے سے مفتی منیر شاکر دوبارہ منظر عام پر آئے تھے اور مختلف مسائل پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے مذہبی پرچار، بیانات اور تقاریر جاری کرتے تھے۔ مفتی شاکر کے بعد منگل باغ کو لشکر اسلام کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ لشکر اسلام اور ان کی مخالف تنظیم انصار اسلام کے مابین بعد میں شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں مقالے کے مطابق 500 کے قریب لوگ جان سے گئے، جس کے نتیجے میں حکومت نے 2006 میں خیبر میں فوجی بھیجے۔

    مفتی منیر شاکر نے 2007 میں گرفتاری اور بعد میں رہائی کے بعد پشاور کے شیخ محمدی علاقے میں نیا ریڈیو سٹیشن بنایا لیکن تحقیقی مقالے کے مطابق اس کا اثر و رسوخ اتنا پھر نہیں رہا۔ گذشتہ کچھ عرصے سے مفتی منیر شاکر دوبارہ منظر عام پر آئے تھے اور مختلف مسائل پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے مذہبی پرچار، بیانات اور تقاریر جاری کرتے تھے۔

    ان تقاریر کو بعض لوگ متنازع سمجھتے تھے کیونکہ زیادہ تر وہ مختلف مکاتیب فکر میں شرعی مسائل میں اختلافی سوچ رکھتے تھے۔ منگل باغ کے دور میں کیے گئے آپریشن کی کوریج کرنے والے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافی اسلام گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مفتی منیر شاکر، منگل باغ اور انصار الاسلام کی جنگ فرقہ وارانہ باتوں پر مشتمل تھی اور وہ اپنے بنائے ہوئے ریڈیو سٹیشن سے احکامات اور پیغامات نشر کرتے تھے۔

    اسلام گل کے مطابق منگل باغ کے ریڈیو سٹیشن کو عوام میں بھی اہم سمجھا جاتا تھا، ہر کوئی اس کو سنتا تھا کہ کہیں ان کے خلاف کوئی حکم تو نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ منگل باغ کے حکم ناموں سے باخبر رہنے کے لیے بھی لوگ ان کے سٹیشن کو سنتے تھے تاکہ بعد میں سزا نہ سہنی پڑے۔ اسلام گل نے بتایا کہ مفتی منیر شاکر نے لشکر اسلام کی بنیاد تو رکھی تھی لیکن اس وقت مختلف سزائیں وغیرہ مقرر تھیں لیکن تشدد کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا اور وہ علاقے سے نکل گئے۔

    انہوں نے بتایا کہ مفتی شاکر اس وقت پر تشدد کارروائیوں سے خود کو علیحدہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کا تشدد میں کوئی کردار نہیں ہے۔ اسلام گل کے مطابق: ’2009 میں خیبر میں حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے اور اسی وجہ سے پاکستان فوج نے ’آپریشن تھنڈر سٹورم‘ کے نام سے آپریشن کا آغاز کردیا اور علاقے میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔‘ فوجی آپریشن کے بعد منگل باغ افغانستان فرار ہوگئے، جہاں سے 2016 میں ان کی مارے جانے کی اطلاع آئی تھی لیکن 2021 میں بارودی سرنگ دھماکے میں ان کی موت کی تصدیق ہوئی[2]۔

    لشکر اسلام کی بنیاد

    دہشتگردی اور مسلح گروپوں پر گہری نظر رکھنے والے قبائلی ضلع خیبر سے تعلق سینیئر صحافی ابراہیم شنواری کے مطابق مفتی منیر شاکر 2004 میں باڑہ منتقل ہوئے تھے۔ جو اس سے پہلے ضلع کرم میں سرگرم تھے۔ اور کرم میں فرقہ وارانہ لڑائیوں میں مبینہ ملوث ہونے کے الزامات پر انھیں ضلع بدر کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ باڑہ آنے کے بعد منیر شاکر بہت زیادہ مقبول ہوئے اور مقامی مذہبی شخصیت پیر سیف الرحمان کے خلاف کھڑے ہوئے۔ ان کے غیر قانونی ریڈیو کے مقابلے میں ایف ایم ریڈیو شروع کیا۔ مفتی شاکر اور پیر سیف کھلم کھلا اپنے اپنے ریڈیوز میں ایک دوسرے کے خلاف فتوی تک جاری کرنا شروع کیا۔

    ابراہیم نے بتایا کہ دونوں کی جاری جنگ سے علاقے میں امن کو بھی سخت نقصان پہنچا اور 2004 کے آخر میں مفتی منیر شاکر نے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کیا اور پیر سیف کے خلاف لشکر اسلام نامی لشکر کی بنیاد رکھ دیا۔ اور مسلح جہدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے بتایا کہ دونون نے ایک دوسرے پر حملہ کرنا شروع کیا اور ایک دن مفتی شاکر نے پیر سیف پر حملہ کیا جس میں 25 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ امن و امان کی خراب صورت حال کے بعد باڑہ کے مقامی افراد وانی انتظامیہ کی مدد سے پیر سیف اور مفتی شاکر کو باڑہ سے نکال دیا۔ جس کے بعد وہ ایک عرصے تک روپوش رہے۔

    جہاز سے آف لوڈ

    باڑہ سے نکلنے کے بعد مفتی شاکر زیادہ تر رپوش رہے۔ اور لشکر اسلام سے بھی ان کا رابطہ ختم ہوا۔ اور منگل باغ کالعدم لشکر کے سربراہ بن گئے۔ انہوں نے بتایا کہ مفتی منیر شاکر باڑہ سے نکلنے کے بعد مختلف شہروں میں رہے ۔ اور کراچی میں رہے۔ جبکہ ایک دفعہ کراچی ائیرپورٹ پر ملک سے باہر جانے کی کوشش کے دوران انہیں جہاز سے بھی آف لوڈ کیا گیا تھا۔

    یوٹیوب پر بھی سرگرم تھے

    مفتی شاکر کا پشاور میں ایک مدرسہ بھی ہے جہاں ایک انہیں نشانہ بنایا گی۔ جبکہ وہ کافی عرصے سے یوٹیوب پر بھی سرگرم تھے اور اپنے یوٹیوب چینل پر مذہبی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے تھے۔ مفتی شاکر ایک متنازع مذہبی شخصیت تھے تاہم ابھی تک ان پر حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے[3]۔

    پشاور میں مسجدکے باہر دھماکا، مفتی منیر شاکر جاں بحق

    پشاور میں مسجد کے باہر ہونے والے دھماکے میں زخمی ہونے والے عالم دین مفتی منیر شاکر جاں بحق ہوگئے۔ پولیس کے مطابق افطار سے قبل پشاور کے علاقے ارمڑ میں مسجد کے باہر آئی ای ڈی دھماکا ہوا جس میں مفتی منیر شاکر سمیت 4 افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق دھماکے سے مسجد کی دیوار کو جزوی نقصان پہنچا، زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور منتقل کیا گیا۔

    ترجمان لیڈی ریڈنگ اسپتال کے مطابق مفتی منیرشاکر کو تشویشناک حالت میں اسپتال لایا گیا تھا، مفتی منیر شاکر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے،مفتی منیر شاکر کا جسد خاکی اسپتال سے گھر منتقل کیا جا رہا ہے۔ پولیس کے مطابق دھماکے کے تین زخمی اسپتال میں زیر علاج ہیں، بی ڈی یو جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹے کر رہی ہے۔

    وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے پشاور میں مسجد کے باہر دھماکےکی مذمت کرتے ہوئے پولیس حکام سے واقعےکی رپورٹ طلب کرلی۔ وزیراعلیٰ نے دھماکے میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت کی ہے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔

    مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹرمحمدعلی سیف نے بم دھماکے میں مفتی منیرشاکرکی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہےکہ علماء کرام پر حملے انتہائی تشویشناک اور قابل مذمت ہیں، معصوم جانوں کے قاتل انسانیت کے دشمن ہیں۔ صوبائی مشیرصحت احتشام علی نے بھی مفتی منیر شاکرکی وفات پر اظہار افسوس کیا ہے[4]۔

    حوالہ جات

    1. مفتی منیر شاکر کی دین کی خدمت اور جہادی جدوجہد- شائع شدہ از: 10 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15مارچ 2025ء۔
    2. اظہار اللہ، پشاور بم دھماکے میں نشانہ بننے والے مفتی منیر شاکر کون تھے؟- شائع شدہ از: 15 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 مارچ 2025ء۔
    3. سراج الدیں، پشاور دھماکے میں جاں بحق ہونے والے کالعدم لشکر اسلام کے بانی، مفتی منیر شاکر کون تھے؟- شائع شدہ از:15 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 مارچ 2025ء۔
    4. پشاور میں مسجدکے باہر دھماکا، مفتی منیر شاکر جاں بحق- شائع شدہ از: 15 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 مارچ 2025ء۔