خواجہ علی کاظم
| خواجہ علی کاظم | |
|---|---|
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 2010 ء، 1388 ش، 1430 ق |
| پیدائش کی جگہ | سکردو بلتستان پاکستان |
| وفات کی جگہ | سندھ کراچی |
| اساتذہ | جاوید میر ، نذیر، فرمان انجم |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
خواجہ علی کاظم آج ہم ایک ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہے ہیں جو اپنی کمسنی میں اتنی شہرت حاصل کی کہ ” جسے حاصل کرنے میں لوگوں کی عمریں لگ جاتی ہیں ۔۔
نام و نسب
خواجہ کاظم کا پورا نام ” خواجہ علی کاظم ہے ” آپ کا خاندان خواجہ فیملی ہے تو اسی نسبت لوگ پیار سے آپ کو بھی خواجہ بلاتے تھے ۔۔ ” آپ کے والد محترم کا نام خوجہ نذیر صاحب ہے ، اور والدہ صاحبہ کا نام بتول ہے ۔۔ آپ کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں اور کل ملا کر آپ کے پانچ بہن بھائی ہیں اور غالباً آپ اپنے بہن بھائیوں میں سکینڈ لاسٹ میں آتا تھا ،اپ اپنے بھائی بہنوں میں سے زیادہ تر آپ کے اپنے مرحوم بھائی ندیم کے ساتھ زیادہ اُٹھانا بیٹھنا کرتا تھا اور آپ کا اپنے مرحوم بھائی سے ہمیشہ دوستانہ مراسم رہیں ۔
علاقہ
آپ کا تعلق بلتستان کے نواحی گاؤں شگری خود ” رگیایل ” یا ” رگیول” کے ایک چھوٹے سے گاؤں ” چھنی رگیول سے ہےاور وہی اپنی ساری زندگی مقیم رہے ”
ابتدائی تعلیم
آپ بچپن سے ہی ایک شاطر طالب علم ہوا کرتا تھا ، اردو تعلیم حاصل کرنے سے پہلے آپ نے قرآن ، تعلمیات اسلامی کو اہمیت دی اور صرف چار سال کی عمر میں چَھنی رگیول کی ایک مدرسے میں داخلہ لیا اور قرآن اور تعلیمات اسلامی کو باقاعدہ شروع کیا ۔۔۔ اور پانچ سال کی عمر میں آپ نے چھنی رگیول کی ایک کمیونٹی اسکول میں نرسری میں داخلہ لیا اور کلاس تھری تک اسی اسکول میں اپنی تعلیم جاری رکھا بعد از کلاس چہارم اور پنجم کے لیے چھنی رگیول کی گورنمنٹ مڈل اسکول میں داخلہ لیا اور اچھے نمبروں سے پاس کیں۔۔
اس کے بعد منقبت نعتیہ مقابلوں میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے بعد کلاس ہشتم میں اسکردو ایجوکیٹر اسکول کی طرف سے فل فنڈڈ اسکالرشپ کی آفر ہوئی اور جماعت ہشتم میں اپنی تعلیم جاری کیے اور اسی سال ( 2025) میں کلاس ششم ( 6th ) میں اچھی نمبروں سے پاس حاصل کرنے کے بعد کلاس ہشتم ( 7th ) میں پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔
مدح خوانی
آپ کو بچپن سے ہی قصیدے ، منقبت اور نعمت پڑھنے کا شوق تھا ۔ عموماً چھن رگیول کے مدرسوں کے نعتیہ اور منقبت مقابلوں میں ہمیشہ حصہ لیتا تھا ۔۔۔ اس کے علاؤہ اسکول کے بزم ادب پروگراموں میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ اہلیان رگیول عموماً اپنی تمام چھوٹے بڑے جشن ، بلخصوص عید مباہلہ میں آپ کو مولا کی مدح خوانی کرنے کا موقع دیتا تھا اور آپ کی دل سوز آواز ہمیشہ سے سننے والوں کے دل جیت لیتے تھے۔
آپ نے اپنا پہلا قصیدہ بلتی میں کھرمنگ کے ایک محفل میں پڑھا اور بہت مقبول ہوئے، عمائدین کھرمنگ نے کافی حوصلہ افزائی کیں، اور یوں دھیرے دھیرے آپ کی آواز پورے بلتستان میں گھونجنے لگی۔ اس کے بعد سن 2020 میں پاکستان ٹیلی ویژن ( PTV ) کی طرف سے آپ کو خاص آفر آئی اور آپ نے پہلی دفعہ عالمی سطح پر منقبت پڑھنا شروع کیا ۔۔۔
عالمی شہرت
آپ چونکہ آہستہ آہستہ سب سننے والوں کے دل جیتنے لگے تھے تو دستہ حسینہ رگیول کے عمائدین، علماء کرام اور نواحہ خوانوں نے آپ کو مجلس عزا میں نوحہ پڑھنے کی لئے دعوت دی ۔۔۔ اور یہ ایک سعادت تھی تو آپ نے سر آنکھوں سے تسلیم کیا اور 2021 میں دستہ حسینہ رگیول کے نوحہ خوانوں میں باقاعدہ شامل ہوئے ۔۔۔ اور دستہ حسینہ رگیول کے مقبول نوحہ
” سر جھکاتے بین کرتی ، قیدیوں میں بے ردا سہمی کھڑی ،
کیا یہی وہ قافلہ ، سالار زینب س ع تو نہیں ”
نے اتنی مقبول حاصل کی کہ ” راتوں رات آپ کا نام اور نوحہ پورے بلتستان کے بچے ، بوڑھے اور نوجوانوں کی زبانوں کی زینت بنی اور سوشل میڈیا پر آپ کے نوحے کے کلپ ہر کوئی پسند کرنے لگے ۔ پھر اہلیان بلتستان کی محبت اور آپ کی ترنم آواز کی وجہ سے آپ کو وادی اسکردو کے لوگ اپنے تمام محفلوں میں مدعو کرنے لگے۔
استاد اور تربیت`
آپ کی تربیت اور آواز کی اتار چڑھاؤ کو نکھارنے میں آپ کا پسندیدہ استاد ” مشہور و معروف ذاکر اہلبیت استاد *”جاوید میر صاحب “* نزیر ناز صاحب اور دستہ حسینہ کے سپہ سالار چیرمین استاد فرمان انجم صاحب نے خاص توجہ دی ” جو ہر جمعرات کے دن آپ کو منقبت ، نعت ، نوحہ اور قصیدے کی مشق کرواتے اور آواز کی اتار چڑھاؤ اور آواز کی لہروں میں رد و بدل کا خاص خیال رکھتے اور تقریباً تین سال تک آپ کو اپنے ہمراہ رکھ کر محفلوں میں پڑھواتے اور جہاں غلطی ہو جاتی محفلوں کے بعد اس کی خاص کر اصلاح کرتے۔
ضلعی سطح پر شہرت`
آپ نے اسکردو کے تمام نواحی علاقوں کے علاؤہ ، ضلع کھرمنگ ، گانچھے ، شگر ، ، گلگت ، استور ، اور نگر کے محفلوں میں شرکت کرتے تھے اور مومنوں کے دل جیت لیتے تھے۔
ملکی محفلوں میں شرکت
2020 میں جب پہلی دفعہ آپ پاکستان ٹیلی ویژن میں نعت پڑھنے کے بعد آپ ملتان منقبت پڑھنے کے لیے بلایا اور اس کے علاؤہ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آپ منقبت پرھنے گئے جس میں خاص کر اسلام آباد ، ملتان ، روالپنڈی ، کراچی ( سندھ ) اور دیگر چھوٹے بڑے اضلاع شامل ہیں۔۔۔۔۔۔
بین الاقوامی سطح پر منقبت خوانی`
آپ پاکستان کے علاؤہ اپنی قلیل عمر میں ملک تنزانیہ ، عراق ، ایران ، شام ، کوفہ، کربلا اور نجف تشریف لے گئے اور وہاں مولا کی ثنا خوانی کرتے رہے اور ساتھ میں مقدس مقامات کی زیارت کر کے شعبان المعظم کو پاکستان دوبارہ تشریف لے آئے ۔
شہدائے جامشورو اور بلتستان کا مستقبل
ارضِ بلتستان کو اہلبیت کی سرزمین کے نام پر جانا جاتا ہے، یہاں کی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور رہن سہن سے اسلام کا نور دمکتا ہے۔ یہاں زندگی کی تمام تر بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار نظر آتی ہیں۔ یہ بنیادیں فرد سے لیکر اجتماع تک کی زندگیوں کی بناوٹ کو تعین کرتی ہیں۔ ارضِ بلتستان کو اہلبیت علیہم السلام کی سرزمین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کی تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور رہن سہن سے اسلام کا نور جھلکتا ہے۔
یہاں زندگی کی تمام بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار نظر آتی ہیں۔ یہ بنیادیں فرد سے لے کر اجتماع تک کی زندگیوں کی تشکیل کرتی ہیں۔ مجالس و محافل، قرآن خوانی، آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولادت و شہادت، محرم، صفر، شعبان، رجب، رمضان اور ایام فاطمیہ جیسی مناسبتوں کو اسلامی شعائر کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اجتماعی تربیت، انسانوں کی روحانی تازگی اور جوانوں کی رہنمائی کے لیے بہترین مشعلِ راہ سمجھا جاتا ہے۔
بلتستان کی اسلامی تربیت کی ایک اعلیٰ مثال مرحوم آیت اللہ تقی بہجت کی زندگی میں ملتی ہے، جنہوں نے اکیس کرامات کی دولت حاصل کی۔ آپ کی عرفانی بلندیوں کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جب آپ کا مبارک قدم غلطی سے تربتِ کربلا پر پڑتا، تو آپ فوراً استغفار کرتے اور خالق سے بخشش کی دعا مانگتے۔ اسی روحانی ورثے کو اپناتے ہوئے بلتستان کی سرزمین پر ہر عمر کے افراد، چاہے وہ نومولود بچے ہوں یا بزرگ، مرحوم آیت اللہ بہجت کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے "سجدہ گاہِ تربتِ کربلا" کو چوم کر خدا سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ یہ عمل ان کی تربیت کی آئینی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ دین اور مذہب سے متعلق ہر شے کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے احترام کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
لیکن آج انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ استعماری دنیا کی نگاہیں بلتستان پر مرکوز ہیں۔ سازشیں، ثقافتی یلغار، دوغلا پن اور استعماری عناصر ارضِ بلتستان کو مجروح کر رہے ہیں۔ اس نازک صورت حال میں، اہلبیت سے متعلق چیزوں کا احترام اور ان سے عقیدت دیکھنی ہو تو خواجہ علی کاظم اور سید جان رضوی کے جنازے دیکھیں۔ ایک ناتوان ماں کا اپنا ننھا پھول خواجہ کاظم اور ضعیف باپ کا جوان بیٹا جان علی شاہ جیسے گلستان کے کھلتے پھولوں کی قربانیاں ہمیں امید کا درس دیتی ہیں کہ مایوس نہ ہوں، اہلبیت سے جڑے رہیں اور اپنے بچوں کی پاکیزہ تربیت کریں۔ تو دنیا کی کوئی بھی شیطانی طاقت آپ کے بلتستان کو زخم نہیں پہنچا سکے گی۔
سلام ہو ان والدین پر جن کی تربیت بلتستان کی ہر ماں کے لیے نمونہ بنی، جن کے حوصلے آج بلتستان کی تاریخ کا حصہ ہیں، جن کی بصیرت دنیائے استکبار کے لیے تیر و تبر بن گئی، اور جن کی قربانیاں دنیا بھر میں بے مثال ہیں۔
ایک نونہال کھلتا پھول شہید خواجہ کاظم کا جنازہ آج یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر تربیت کرنے والی شہید خواجہ کی ماں جیسی ہو اور خلوص میں خواجہ کے پیروکار بنے ہوں، تو عمر کی قید نہیں۔ دنیائے استکبار کے استعماری سازشوں کو خاک میں ملانے کے لیے ایک جنازہ ہی کافی ہے۔ یہ حقیقت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بلتستان کا مستقبل اسی اسلامی تربیت اور قربانیوں کی روشنی میں روشن رہ سکتا ہے[1]۔
شہادت
آپ ننھا عاشق اہل بیت صرف پندرہ سال کی عمر میں پندرہ شعبان المعظم صوبہ سندھ کو شبِ برات کی محفل سے واپس آتے ہوئے ضلع جامشورو کے مقام پر 14 فروری 2025 کو آپ کے ہر دل عزیز سگا بھائی، خواجہ ندیم مرحوم اور مشہور معروف منقبت خواں سید آغا جان رضوی اور مرحوم زین ترابی سمیت ایک خوفناک کار ایکسڈنٹ میں شہید ہوگئے اور پورے بلتستان کے ذہنوں سے ایک نا مٹنے والی نشانیاں چھوڑ کر اس فانی دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیئے۔
بلتستان کی تاریخ میں ایسا جنازہ آج تک نہیں دیکھا گیا جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور آپ مرحوم کو اپنی نواحی گاؤں چھن رگیول امام بارگاہ کے سامنے اپنے سگا بھائی خواجہ ندیم کے ہمراہ دفن کر دیے گئے اور دنیا کو ایک پیغام دے کر چلے گئے کہ ” اہلبیت سے محبت کرنے والے کبھی نہیں مرتے ” آج لاکھوں لوگ آپ کو شدت سے یاد کرتے ہیں اور اپنی دلوں ہمیشہ آپ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں[2]۔
سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا سیہون کار حادثہ پر افسوس کا اظہار
ایک بیان میں چیئرمین ایم ڈبلیو ایم کا کہنا ہے کہ خواجہ علی کاظم اور سید علی آغا جان نے اپنی خوبصورت آواز اور عقیدت بھرے کلام سے اہلِ بیتؑ کی محبت کو عام کیا، ان کی منقبت خوانی ہمیشہ سننے والوں کے دلوں میں ایمان و عشق کی روشنی بکھیرتی رہے گی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چیئرمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کار حادثے میں گلگت بلتستان کے معروف منقبت خواں خواجہ علی کاظم، زین ترابی (فرزندِ شہید علامہ حسن ترابی) اور سید علی جان رضوی کی جاں بحق ہوجانے پر کہا کہ یہ سانحہ نہ صرف منقبت خوانی کے شعبے کے لیے ایک بڑا نقصان ہے بلکہ اہلِ محبت کے دلوں پر بھی گہرا اثر چھوڑ گیا ہے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ خواجہ علی کاظم اور سید علی آغا جان نے اپنی خوبصورت آواز اور عقیدت بھرے کلام سے اہلِ بیتؑ کی محبت کو عام کیا، ان کی منقبت خوانی ہمیشہ سننے والوں کے دلوں میں ایمان و عشق کی روشنی بکھیرتی رہے گی، ہم بارگاہِ الہیٰ میں دعاگو ہیں کہ ربِ کریم مرحومین کو جوارِ اہلِ بیتؑ میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہلِ خانہ، عزیز و اقارب اور چاہنے والوں کو صبرِ جمیل عطا کرے، آمین[3]۔خطا در حوالہ: نادرست <ref> ٹیگ;
بے نام حوالہ جات کا مواد ہونا چاہیے
حوالہ جات
- ↑ عارف ارمان، شہدائے جامشورو اور بلتستان کا مستقبل- شائع شدہ از: 22 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 فروری 2025ء۔
- ↑ مرحوم خواجہ علی کاظم کون تھا ؟, اتنی مختصر زندگی میں اتنی شہرت کیسے حاصل کی، طہ علی تابش بلتستانی-شائع شدہ از: 23 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 فروری 2025ء۔
- ↑ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا سیہون کار حادثہ پر افسوس کا اظہار -شائع شدہ از: 15 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 فروری 2025ء۔