تحریک جعفریہ پاکستان

ویکی‌وحدت سے
تحریک جعفریہ پاکستان
تحریک جعفریه 2.jpg
پارٹی کا نامتحریک جعفریہ پاکستان
قیام کی تاریخ1979 ء، 1357 ش، 1398 ق
بانی پارٹیمفتی جعفر حسین
پارٹی رہنماسید ساجد علی نقوی
مقاصد و مبانی
  • تشکیل نظام اسلامی
  • عادلانہ نظام کا قیام
  • عزاداری کا تحفظ
  • استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد، اتحاد بین المسلمین

تحریک جعفریہ پاکستان ایک سیاسی اور مذہبی تنظیم ہے جس کی بنیاد 12 اپریل سنہ 1979ء کو پاکستان کے شہر بھکر میں رکھی گئی۔ تحریک جعفریہ نے اتحاد بین المسلمین کے لیے پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔ تحریک جعفریہ نے مختلف سماجی کام انجام دیے ہیں جن میں مرکز مطالعات اسلامی پاکستان، جعفریہ ٹرسٹ اور جعفریہ ویلفئیر فنڈ کا قیام ہے۔ اس تنظم کا پہلا نام «تحریک نفاذ فقہ جعفریہ» تھا تنظیم کا کئی مرتبہ نام تبدیل کیا گیا۔ 1978ء کو شیعوں کے حقوق کی تحفظ کے غرض سے اس جماعت کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا سربراہ مفتی جعفر حسین تھے۔ مفتی کی وفات کے بعد سید حامد موسوی کی سربراہی میں ایک گروہ اس جماعت سے الگ ہوا۔ سید عارف حسین حسینی مفتی کے جانشین منتخب ہوئے. سید ساجد علی نقوی کی قیادت میں تحریک جعفریہ کا کئی بار نام تبدیل ہو گیا۔

تاریخی پس منظر

قیام امام حسین علیہ السلام سے لے کر عصر حاضر تک ظالم جابر حکومتوں کےخلاف جتنی بھی تحریکیں وجود میں آئیں ان میں سے اکثر نے امام حسین علیہ السلام ؑکی تحریک اور قیام سے الہام لیا ہے۔اور جہاں تک ہم نے مشاہدہ کیا کہ تحریک جعفریہ پاکستان علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں ۱۲ اپریل ۱۹۷۹ء کو وجود میں آئی ہے۔تحقیق اور باریک بینی سے پتا چلتا ہے کہ اس جماعت نے بھی امام عالی مقام کے قیام سے الہام لیا ہے۔تحریک جعفریہ شیعیان پاکستان کی ایک بہت بڑی جماعت ہےاس جماعت نے یوم تاسیس سے لے کر اب تک شیعیان پاکستان کے حقوق کےدفاع کے لئے بہت ساری خدمات انجام دی ہیں ۔ سیاسی ،اجتماعی،ثقافتی ،فلاحی ،علمی اور مکتبی میدانوں میں فعالیت کی ہے۔ سیاسی امور تو بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں پر ہم نے زیادہ فوکس انتخابات کو کیا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک جعفریہ بین ہونے کے بعد سے اسلامی تحریک ،شیعہ علماء کونسل اور دفترقائد ملت جعفریہ پاکستان کے عناوین سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔

تاسیس

تحریک جعفریہ پاکستان کی تاسیس سے پہلے پاکستانی شیعوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہوئیں اس سلسلے میں پہلی بار قیام پاکستان کے بعد سنہ 1948ء میں ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان وجود میں آیا جس کے سربراہ مفتی جعفر حسین منتخب ہوئے [1]۔ اس کے بعد جنوری 1965ء کو کراچی میں شیعہ مطالبات کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی [2]۔ اور سید محمد دہلوی کو اس کمیٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا [3]۔ لیکن رسمی شکل میں ایک تنظیم کی حیثیت سے شناخت 12 اور 13 اپریل سنہ 1978ء کو بھکر میں ایک ملک گیر کنونشن میں دی گئی جہاں قوم کے لیے ایک نظریاتی پلیٹ فارم، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی شکل میں وجود میں آیا [4]۔13 اپریل سنہ 1979ء کو بھکر کی اسی آل پاکستان شیعہ کنونشن کے دوران مفتی جعفر حسین کو قائد ملت جعفریہ پاکستان منتخب کیا گیا

مارشل لاء دور

مارشل لاء دور سے "ایم آر ڈی" کی تحریک میں شمولیت ہی تحریک جعفریہ کی سیاسی زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔ قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے محسوس کیا کہ جب تک جمہوریت کی بحالی نہیں ہو گی تب تک مذہبی حقوق کا تحفظ بھی ممکن نہیں۔ پھر انہوں نے اپنے آخری انٹرویو میں بحالیِ جمہوریت کی تحریک ایم ۔آر۔ ڈی کی حمایت کااعلان کیا۔ بستر علالت پر "روزنامہ جنگ "لاہور کو قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے ایک انٹرویو دیا۔ یہ انٹرویو مرحوم قائد کی دور رس سیاسی بصیرت کا ثبوت بھی ہے اور تحریک کے آئندہ اقدامات کیلئے ایک لائحہ عمل بھی تھا۔

روز نامہ جنگ نے لکھا:

" تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین نے کہا ہے کہ ایم۔ آر۔ ڈی پنجاب کے لیڈر راؤ عبدالرشید سے ان کی ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے جمہوریت کی بحالی کیلئے انہیں اپنے تعاون اور امداد کا یقین دلایا تھا۔"

" گجرانوالہ میں اپنے مکان پر "جنگ" سےایک خصوصی ملاقات میں انہوں نے کہا کہ مسٹر خاقان بابر نے اس ضمن میں جو بیان دیا ہے میں اس کی تردید کرتا ہوں ۔ انہوں نے بیان دے کر زیادتی کی ہے"۔

"اس سوال کے جواب میں کہ آیا راؤعبدالرشید سے آپکی گفتگو ایم ۔آر۔ڈی کے حوالے سے ہوئی تھی۔ مفتی جعفر حسین نے کہا کہ خاص تو کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن جمہوریت کی بحالی اور مارشل لاء کے خاتمہ کی بات ہوئی تھی اور میں نے کہا تھا کہ ہم ہر اس جماعت کی حمایت کریں گے جو ملک میں جمہوریت کیلئے کام کرے۔میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ شیعہ فرقہ کی طرف سے ۱۴ اگست کی تحریک میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی بحالی کیلئے کی جانے والی ہر جدوجہد کو ہماری حمایت حاصل ہے"۔

انقلاب اسلامی ایران

"ایرانی انقلاب ایران کے بارے میں مفتی صاحب نے کہا کہ یہ انقلاب اسلام کے نام پر آیا ہے۔اگرچہ عرب ریاستیں اسے شیعہ انقلاب کہتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ اسلامی انقلاب نہیں ہے ۔ انہوں نے اس الزام کو بھی غلط قرار دیا کہ ایران یا اس کے کسی اہلکار کی طرف سے پاکستان کی داخلی صورتحال میں کوئی مداخلت ہوئی ہے۔افغان مہاجرین کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہیں پناہ دینا تو ہمارا فرض تھا۔لیکن انہیں پاکستان کی سیاست امریکہ کی جانب نظر آتا ہے اور حکومت بھی اس سے انکار نہیں کرتی۔"

" ایک اور سوال کے جواب میں مفتی جعفر حسین نے کہا کہ اسلام میں مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں اور جو حکومت اسلامی نہیں اس کے اقدامات کس طرح اسلامی ہو سکتے ہیں۔"

ریفرنڈم کا بائیکاٹ

۱۴ اگست کوصدر ضیاءالحق کے مجوزہ اعلان کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ۱۹۷۳ء کے آئین کو قائم رہنا چاہیے اور کسی نئے ڈھانچے کی ضرورت نہیں۔جب ایک متفق علیہ دستور موجود ہے، جسے چاروں صوبو ں کے نمائندوں نے بنایا ہے تو اس کی موجودگی میں کسی اور ڈھانچے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نےکہا ۱۹۵۶ ءکے آئین میں فرقہ وارانہ جذبات کے احترام کا زیادہ اہتمام تھا لیکن ۱۹۷۳ء کے آئین کو قائم رکھنا چاہیے۔انہوں نے فقہی اختلاف کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کہا اتحادواتفاق قائم کرنا چاہیے۔ مذہبی اختلاف کو نفرت کی بنیاد نہیں بننا چاہیے۔یہ نہ دیکھا جائے کہ یہ شیعہ ہے یا سنی ہے بلکہ دوسرے کی فقہ کو برداشت کیا جائے۔ تعمیری باتوں کے علاوہ معاشی ومعاشرتی انصاف کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ معیشت کو سُود سے پاک نہیں کیا جاسکا۔نفع نقصان کی بنیاد پر جو کھاتے شروع کیے گئے ہیں یہ بھی کچھ نہیں ہیں ۔سودی کروبار چل رہا ہے۔اسلام نے عدل و احسان کا تصور دیا ہے ہمارے خیال میں اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔"

" مفتی صاحب نے کہا قیام پاکستان کے بعد جتنی شکایات ہمیں اس حکومت سے پیدا ہوئی ہیں اور کسی حکومت سے نہیں ہوئیں۔ اگرچہ یہ حکومت عادل ہوتی تو ہمیں شکایات پیدا نہ ہوتیں [5]۔

جنرل ضیاءالحق نے جب ریفرنڈم کی حتمی تاریخ ۱۹ دسمبر ۱۹۸۴ء کااعلان کیا تو تمام جماعتوں سے پہلے تحریک نفاذ فقہ جفریہ نے وزنی دلائل کے ساتھ ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور نشرواشاعت کے ذریعے ریفرنڈم کو رد کرنے کیلئے قوم سے اپیل کی [6]۔

بین الاقوامی سطح پر ضیاء الحق کے صدارتی ریفرنڈم کا پول بی بی سی نے یوں کھولا :

"پاکستان کی عوام نے صدارتی ریفرنڈم کا مکمل بائیکاٹ کردیا اور بمشکل پانچ فیصد عوام نے ووٹ ڈالے"[7] ۔

اگرچہ ایم۔آر۔ڈی کے اراکین نے بھی ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا مگر سب سے موثر اور توانا آواز علامہ شہید عارف حسین الحسینی کی تھی جس کااعتراف خود ایم ۔آر۔ڈی کے رہنماؤں نے کیا تھا۔

شہید قائد کا بیان

قائد شہید نے ایک کانفرنس میں واضح فرمایا کہ: "ہم نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو ملک کی دوسری جماعتوں سے رابطے کر کے آمریت کے خاتمے کیلئے لائحہ عمل تیار کرے گی"۔ اس سیاسی کمیٹی کے سیاسی امور میں مداخلت کے اعلان کے بعد سید عارف حسین الحسینی نے ملک گیر دورہ جات میں دین اور سیاست کے تعلق پرزور دیا اور اپنی قوم کو سیاست کی اہمیت کا احساس دلوایا۔آپ نے اس سلسلہ میں رینالہ خورد ضلع اوکاڑہ کے مقام پر ایک اجتماع سے یوں فرمایا کہ:

"ہمارے دو قسم کے مسائل ہیں ایک شیعہ اور دوسرا پاکستان ہونے کے حوالے سے۔ اگر ہم نے مذہبی مسائل کو سیاسی مسائل سے ہٹ کر حل کرنا چاہا تو نتائج قطعاً مثبت نہیں نکلیں گے، چاہے ہم کچھ بھی کرلیں۔ کیونکہ یہ مسائل ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔ اگر ہم مسلکی سیاست اور بین الاقوامی امور میں اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے الگ تھلگ کر لیں تو یہ نہ صرف شرعی ذمہ داری سے انحراف ہو گا بلکہ یہ اسلام اور قرآن سے روگردانی ہو گی۔ اگر ہم نے سیاسی مسائل کو مذہبی مسائل سے دور ہو کر سوچا تو اس کے نتائج بھی بھیانک ہوں گے۔لہذا دین اور سیاست کا ربط انتہائی گہرا ہے اور ہمیں ان دونوں کوساتھ لے کر چلنا ہو گا"[8]۔

قرآن و سنت کانفرس لاہور

اسی ضرورت کے پیش نظر قائد شہید نے "قرآن وسنت کانفرنس "لاہورمیں برملااعلان کیاتھاکہ اب تحریک نفاذفقہ جعفریہ ملک کے مجبور ومحکوم مسلمانوں کے اجتماعی حقوق کی بحالی کے ساتھ ساتھ ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لئے جدوجہدکی راہ اختیار کرے گی" اس لئے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست میں رہنے کے ناطے سے ہمارا اولین فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو"قرآن وسنت "کی واضح ہدایات کے مطابق استوار کریں اورمملکت خدادادپاکستان کوباطل سامراجی نظریات سے نجات دلائیں آج ہمارے وطن عزیز میں امریکہ اورمغربی دنیا کا اثرورسوخ اتنا سنگین ہوچکاہے کہ ہمارے صاحبان اقتدارہرمعمولی سے معمولی مسئلے پربھی امریکی منشا کوملحوظ خاطررکھے بغیرقدم نہیں اٹھا سکتے،لہذا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تقدیرکے فیصلے وائٹ ہاؤس کے بجائے اسلام آباد میں ہی ہونے چاہئیں اسی طرح پاکستان کے ایوان (پارلیمنٹ) میں آج تک کوئی ایساشیعہ رکن نہیں پہنچاجوپارلیمنٹ کے اندرشیعہ مکتب کی ترجمانی کرسکے اور ملت جعفریہ کے حقوق کی نگہبانی کرتے ہوئے ملک کے تمام سیاسی ،اقتصادی ،معاشی اورمعاشرتی مسائل پرشیعہ نکتہ نظرکوپیش کرے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی

جہاں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے اپنے قومی حقوق کی محافظت کی وہاں قائدشہید کے عظیم اہداف اورتحریک کے منشور کی روشنی میں که اب ہمیں شہری حقوق اورمذہبی آزادی کے حصول کے لئے سیاست میں آنا پڑے گااوراس سیاسی آوازکی ترجمانی کے لئے ایوان بالا میں ہمارے ترجمان نمائندگان کاوجودتحریک جعفریہ کی اہم ضرورت ہے قائدشہید کے اس عظیم مقصداورہدف کو حاصل کرنے کے لئے وقت کی ضرورت ،سیاسی تقاضوں اورحالات کے مطابق مختلف اندازمیں کوششیں کیں اورآج تک اس راہ کے راہی ہیں ۔ ان حالات میں جب معاشرے کی عمومی سوچ یه ہوکہ سیاست میں حصہ لینا اورسیاسی امیدوار بننا فقط دنیوی لوگوں کوہی زیب دیتا ہے اس لئے کہ پاکستان کے اس ماحول میں دیندارتو جیت ہی نہیں سکتااوراگرجیت بھی جائے تواسے سیاست کرناہی نہیں آئے گی اسی طرح کچھ سیاسی امیدواربھی یہی سمجھتے ہوں کہ مذہبی امیدواربننے سے ہم نہ ادھرکے رہیں گے اورنہ ادھرکے بلکہ مولویوں کے بقول کہ دین بھی گیا توآخرت بھی گئی والی مثال بن جائے گی اوروقت کے سیاسی ڈکٹیٹربھی اطمینان سے کہیں کہ شیعوں کے ووٹ توہماری جیب میں ہیں تواس صورتحال میں سیاسی میدان اور الیکشن میں حصہ لینے کے لئے کربلاوالوں کی سیرت پرعمل کرتے ہوئے عزم راسخ اوربلندہمت کی ضرورت تھی۔

قائدملت جعفریہ پاکستان حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی جو کہ بہت ہی ذہین ،دوراندیش اور اجتماعی ذہنیت کے مالک ہیں تحریک جعفریہ کی قیادت سنبھا لتے ہی اپنے قائدین کی سیاسی پالیسیوں اوروقت کی اہم ضرورت کے مطابق ، قومی وملی خدمات کے اس سفر کے آغاز میں ہی ملکی سیاست میں عملی طورپر حصہ لینے کا اعلان کردیا ۔ جس کے نتیجہ میں نومبر ١٩٨٨ء کو جب عام انتخابات کااعلان ہوا تو آپ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنے قومی پلیٹ فارم سے انتخابات میں مشارکت کااعلان کیا جبکہ ایک طرف سے شریعت بل کامسئلہ بھی اپنی جگہ پرباقی تھاتودوسری طرف سے اتنے بڑے سیاسی قدم اٹھانے کے لئے مکمل طورپرقومی تیاری بھی نہ تھی ان تمام مسائل ومشکلات کے باوجود قائدشہید کے فرمان اورتحریک کے اعلان شدہ منشورپرعمل کرتے ہوئے حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی نے "تختی" کے انتخابی نشان پرتحریک جعفریہ کے اپنے ذاتی تشخص کے ساتھ شیعہ ووٹ کاسٹ کرانے کا اعلان کیا۔ اس موقع پرتحریک کے سرکردہ رہنماشہید ڈاکٹر محمدعلی نقوی نے فرمایا:

"انتخابات میں کامیابی اپنی جگہ مہم ہے لیکن اس سے بڑھ کر اہمیت کی بات یہ ہے کہ برصغیر کے کسی ملک میں پہلی بار شیعہ جماعت انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اوریہ سیاسی ا قدام ہماری آئندہ کی سیاست پراثراندازہوگا [9]۔

اگرچہ معروضی حالات کے پیش نظرہمیں اس الیکشن میں بظاہروہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی مگراس وقت کے حالات کونظرمیں رکھا جائے توحقیقت میں تحریک جعفریہ اپنے ہدف میں کامیاب ٹھہری کیونکہ اس وقت قومی قیادت اورتحریک کااصلی ہدف فقط یہ تھاکہ حکمرانوں کے سامنے ثابت کیاجائے کہ مکتب اہل بیت کے ماننے والے بھی اس ملک کے باسی ہیں اوریہ کہ نہ فقط شیعیان حیدرکرار اقلیت میں ہیں بلکہ ایک مستقل قوم ہے جو ملک میں اپنا سیاسی ومذہبی کردار ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔ صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کی بنیادپراگست ١٩٩٠ء میں بینظیرحکومت کو ڈیزالو کرنے کے بعدجب تین ماہ کے اندر الیکشن کروانے کااعلان کیا تو (ppp)نے پیش آمدہ حالات کامقابلہ کرتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے بڑھائے اور بینظیر نے سب سے زیادہ اہمیت تحریک نفاذفقہ جعفریہ کودی یہاں تک کہ بینظیر نے کئی بارتحریک کے اکابرین کو (ppp) میں ضم ہونے کی دعوت دی ۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے حالات کاجائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنے رفقاء اورتحریک کے اکابرین کے ساتھ ضروری مشورہ کرنے کے بعد (ppp) کی سربراہی میں بننے والے(p.d.a) اتحادکے ساتھ شامل ہونے کااعلان کیاجس میں تحریک استقلال اور مسلم لیگ (قاسم گروپ) بھی شمولیت اختیارکرچکی تھی۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنے ایک انٹرویو میں اسی اتحاد کے بارے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا :

"ہم فرقہ کی سطح سے اٹھ کر سیاست کی وسیع سطح پر پہنچے ہیں اور ملک کے بڑے سیاسی اتحاد میں اپنا تشخص بطور سیاسی جماعت پیش کیا ہے"۔

[10]۔ اس سیاسی اتحادمیں شمولیت کے بعدقائدملت جعفریہ اورتحریک کے تمام کارکنان (p.d.a) کی ٹکٹ پرتمام امیدواروں کے لئے سرگرم عمل ہوگئے ۔ملکی پالیسی کے پیش نظر(p.d.a) کے مدمقابل "اسلامی جمہوری اتحاد"کوکامیاب قراردے دیاگیااوراس طرح سے نواز شریف ملک کے وزیراعظم بن کرسامنے آگئے [11]۔

۱۹۹۱ءمیں نواز حکومت نے مہتاب احمد خان کو کشمیر اور شمالی علاقہ جات کا وزیر مقرر کیا۔ اسی سال وہاں الیکشن کرانے کا علان بھی کر دیا ۔الیکشن کے ایام قریب ہی تھے کہ نواز حکومت کی طرف سے انتخاباتی حلقہ بندی میں بلاجواز تبدیلی کی گئی کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے امیدواروں کی کامیابی یقینی تھی تو تحریک جعفریہ شمالی علاقہ جات کے مسؤل علامہ مرحوم شیخ غلام محمد کے حکم پر عوام نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور نواز شریف حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر دیں [12]۔

دوسرے سیاسی جماعتوں سے اتحاد

دوسال کے بعد نوازحکومت کی بھی چھٹی کرادی گئی اورملک کی سربراہی نگران حکومت کے حوالے کر دی گئی ۔تحریک جعفریہ کی صاف وشفاف اورملک میں امن پالیسی کی وجہ سے منیرحسین گیلانی مسؤل سیاسی امور تحریک جعفریہ پنجاب کو وزارت تعلیم سونپی گئی۔ نومبر ۱۹۹۲ء میں تحریک جعفریہ پاکستان نے تاریخی لانگ مارچ کیا جس کے نتیجے میں انتخابات ۹۳ء کا انعقاد ممکن ہوا۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو کوآنے والے انتخابات میں کامیابی کی یقین دہانی کرائی گئی تومحترمہ نے (p.d.a) سے علیحدگی کا اعلان کردیا جس کی وجہ سے تحریک جعفریہ نے بھی ١٩٩٣ء کے قومی انتخابات میں لوکل ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے حمایت یافتہ امیدوارکامیاب کرانے کیلئے الیکشن پالیسی مرتب کی۔۱۹۹۳ کے انتخابات میں تحریک جعفریہ کے صوبہ سرحد کے سیاسی سیل کے ممبر مخدوم زادہ مرید کاظم صوبائی اسمبلی میں کامیاب ہوئے جو بعد میں صوبائی وزیر بنائے گئے۔ صوبہ پنجاب میں تین نشستوں پر پی پی پی کو شکست دی گئی اور تحریک کے حمایت یافتہ تین تین ممبران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں پہنچے اور وہاں تحریک کا مؤقف پہنچاتے تھے۔ صوبہ بلوچستان میں تحریک کے تعاون سے محمود اچکزئی جیت گئے [13]۔

لیہ میں تحریک کے امید وار اللہ بخش سامٹیا صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔﴿ انٹرویو علامہ غضنفر علی حیدری آف لیہ ﴾ ١٩٩٤ء میں سینٹ کے انتخابات میں حصہ لے کرصوبہ سرحد سے ایک سینیٹر منتخب کرایا اوراس طرح سے تحریک جعفریہ کے قومی پلیٹ فارم پر علامہ جواد ہادی صاحب پاکستان کی تاریخ میں پہلے شیعہ عالم دین جوعمامہ،عباوقباکے ساتھ روحانی وعالمانہ لباس میں ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے [14]۔

ایوان بالا میں فرقہ واریت کے خلاف سینٹ کے ۵۲ ویں اجلاس میں "تحریک التوا " پیش کی اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ تحریک کی جامع اور بھر پور لابنگ کی بدولت یہ "تحریک التواء" آؤٹ آف ٹرن ایوان میں زیر بحث لانے کیلئے منظور کی گئی [15]۔

۶ مئی ۱۹۹۴ ء کو صوبہ سرحد میں ایک صوبائی نشست پی ایف ۲۹ پر ضمنی الیکشن کاجب اعلان ہوا تو ٹی جے پی کی مخالفت کی وجہ سے پی پی پی یہ ضمنی الیکشن ہار گئی او ر ٹی جے پی کے خلاف زبردست غم و غصے کا اظہار کیا۔ ﴿ علامہ سید جواد ہادی سابق سنیٹر ، مقالہ ،پی پی پی اور ٹی جے پی کے تعلقات کا اجمالی جائزہ م[16]۔

شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) کی سیاست میں شرکت

تحریک جعفریہ پاکستان نے شمالی علاقہ جات میں آئینی حقوق کی بحالی اور خطے کے عوام کے احساس محرومی کے خاتمے کیلئے طویل جدوجہد کی چنانچہ انہی کوششوں کے نتیجے میں نگران وزیر اعظم معین قریشی کی جانب سے ان علاقوں میں آئینی اصلاحات کا ایک سیاسی پیکیج سامنے آیا۔

جب پی پی پی کی حکومت بر سر اقتدار آئی تو معمولی سے ردوبدل کے ساتھ اس پیکیج کے تحت شمالی علاقہ جات میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا اعلان کیاجس کے تحت ۲۵ اکتوبر ۱۹۹۴ ء کو ۲۴ نشستوں کیلئے عام انتخابات کا فیصلہ ہوا[17]۔

قائدملت جعفریہ کے حکم پر تحریک جعفریہ نے انتخابات میں بھرپورحصہ لینے کااعلان کردیا اوراپنا انتخابی نشان پھول متعارف کرایا ۔اس طرح شمالی علاقہ جات میں پہلی بارپی پی پی،مسلم لیگ اورتحریک جعفریہ کا سخت سیاسی مقابلہ دکھائی دینے لگاجب شمالی علاقہ جات میں الیکشن ورک کے لئے خودقائدملت جعفریہ پہنچے توتحریک جعفریہ کے لئے وہ لحظات تاریخی لحظات تھے قائدملت کے اس طوفانی دورہ کے نتیجہ میں اکتوبر۱۹۹۴ء کے شمالی علاقہ جات کے انتخابات میں تحریک جعفریہ کی بھاری کامیابی نے تمام سیاسی پارٹیوں کوحیران کردیاکیونکہ رزلٹ کے مطابق ٢٤سیٹوں میں سے تحریک جعفریہ نے ٨سیٹیں حاصل کیں جبکہ پپلزپارٹی ٧، مسلم لیگ ١ اورمختلف آزادامیدواروں نے ٨ سیٹیں حاصل کیں ۔ تحریک جعفریہ کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے والے امیدواروں کے نام اس طرح سے ہیں:

  • سیدرضی الدین رضوی، حلقہ نمبر١ ، گلگت
  • ڈاکٹرمحمداقبال، حلقہ نمبر٣، گلگت
  • شیخ غلام حیدر ، حلقہ نمبر٤، نگر
  • میرشوکت علی خان ، حلقہ نمبر٥ ، گلگت
  • پروفیسرغلام حسین سلیم، حلقہ نمبر٧ ، سکردو بلتستان
  • سیدمحمدعباس رضوی، حلقہ نمبر٨ ، سکردو
  • صادق علی، حلقہ نمبر١٠ ، روندو
  • حاج محمدحسین، حلقہ نمبر١٢، شگر۔

اس بڑی کامیابی کی وجہ سے ہمارے دوکامیاب امیدواروں جناب پروفیسرغلام حسین سلیم اورسیدرضی الدین رضوی کو کابینہ میں وزراء کا مشیر قراردیاگیا [18]۔

عظمت اسلام کانفرنس

تحریک نے ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ ء میں "عظمت اسلام کانفرنس " کا انعقاد مینار پاکستان لاہور پر کیا۔ میں نے علامہ سید افتخار حسین نقوی سابق مرکزی سیکرٹری جنرل تحریک جعفریہ پاکستان کا ایک خصوصی انٹرویو تحریک جعفریہ کے موضوع پر کیا ہے۔ میں نے ان سے ایک سوال کیا کہ تحریک کو " عظمت اسلام کانفرنس" کے انعقاد کی کیوں ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اپنے جواب میں کہا :

"دہشت گردی اور شیعہ مکتب فکر کو کافر قرار دینے کی بھونڈی سازشوں کا قلع قمع کرنے کیلئے ہم نے اس کانفرنس کا انعقاد کیا ۔اس کے علاوہ اپنی ملت کو متحرک کرنا ،اپنا وجود منوانا،تحریک کی سیاسی قوت کا اظہار ،اپنی موجودہ قیادت کا استحکام و تائید اور تحریک کے سیاسی افکار و نظریات کو بیان کرنا جیسے امور ہمارے اہداف کا حصہ تھے"۔

میں نے ان سے ایک اور سوال کیا کہ تحریک جعفریہ کی تاسیس سے لیکر اب تک تحریک کے جتنے بھی اجتماعات ہوئے ہیں ان میں سے سب سے بڑا اجتماع کونسا تھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا : "عظمت اسلام کانفرنس" [19]۔ ١٩٩٧ ء کے عام انتخابات میں تنظیم کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی الحاق کرکے انتخابی نشان شیر کے تحت انتخابات میں حصہ لیا۔اس انتخابات میں دیگرفتوحات کے علاوہ عظیم کامیابی یہ تھی کہ جھنگ کے حلقہ سے فرقہ پرستوں کے سرغنہ اعظم طارق کوبری شکست دے کراپنے امیدوار جناب امان اللہ سیال کو کامیاب کرایااس الیکشن میں تحریک جعفریہ کے الحاق واشتراک کی وجہ سے مسلم لیگ کو بھی تاریخی اوربھاری مینڈیٹ ملی۔۱۹۹۸ء میں ایک بارپھرفاٹاسے ایک اورعالم دین علامہ عابدحسین الحسینی کواسی روحانی وعالمانہ لباس میں سینٹ کا رکن منتخب کرایا جس کے نتیجہ میں تحریک جعفریہ کی نمائندگی میں دوشیعہ عالم ایوان بالا کے رکن بنے [20]۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں "مسلم کانفرنس" سے اتحاد کر کے سیاسی میدان میں بھر پور کردار ادا کیا [21]۔

شمالی علاقہ جات انتخابات

1999 ء کوشمالی علاقہ جات میں انتخابات کااعلان ہواتوتحریک جعفریہ نے ایک بارپھر بھرپور اندازسے انتخابات میں حصہ لینے کااعلان کردیا جس کے نتیجہ میں تحریک جعفریہ کے مندرجہ ذیل امیدوارکامیاب ہوئے: ١۔سیدمحمدعباس رضوی سکردو ٢۔عمران ندیم شگر ٣۔سید محمد علی شاہ کھرمنگ ٤۔دیدار علی گلگت ٥۔غلام رضا گلگت [22]۔ ٢٠٠٠ء میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹو کی سیٹ کے لئے تحریک جعفریہ کے بلامقابلہ امیدوارحاج فدامحمدناشادجیت کرءشمالی علاقہ جات کےڈپٹی چیف ایگزیکٹو منتخب ہوئے۔

٢٠٠١ ء میں شمالی علاقہ جات کی صوبائی کابینہ کے لئے تحریک جعفریہ کے پلیٹ فارم سے جناب علامہ شیخ غلام حیدراورعمران ندیم کوکابینہ میں بعنوان مشیر وزیرانتخاب کیاگیا۔

اس طرح سے مختلف انتخابات کے مواقع پر قائدشہیدکے خوابوں کوشرمندہ تعبیرکرتے ہوئے قائدملت کی طرف سے ٹکٹ حاصل کرنے والے نمائندگان ایوان بالا تک پہنچے یہاں تک کہ قائدملت جعفریہ کی تدبیر کے نتیجہ میں شمالی علاقہ جات میں تحریک جعفریہ کے منتخب نمائندگان کوحکومتی اختیارات بھی ملے۔

متحدہ مجلس عمل

٢٠٠٢ ء کے انتخابات میں دینی ومذہبی جماعتوں سے (اسلامی تحریک کے عنوان سے) اتحاد کے نتیجہ میں "متحدہ مجلس عمل" کوبھاری اکثریت سے ووٹ ملے جس کے نتیجہ میں مکمل طورپرسرحدصوبے میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی تو تحریک کے تین صوبائی امیدوار کامیاب ہوئے اور ایک خاتون کو قومی اسمبلی میں نشست ملی علامہ رمضان توقیرصاحب سرحدحکومت میں مشیروزیراعلیٰ کی ذمہ داری انجام دیتے رہے صوبہ سرحد کے علاوہ بقیہ صوبائی حکومتوں میں بھی متحدہ مجلس عمل کی بڑی حیثیت تھی اوراس طرح سے متحدہ کی کامیابی میں اسلامی تحریک کابہت بڑاعمل دخل تھا[23]۔

سیاسی مسلسل جد و جہد

۲۰۰۷ ء میں متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام﴿ ف﴾ کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ۔اور اسی سال محترمہ بینظیر بھٹو کا بھی قتل ہوا چند ماہ بعد الیکشن کا اعلان ہوا تو جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جبکہ ایم ایم اے میں شریک باقی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا ۔ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے امیدواروں کو دستخطوں کی ضرورت پڑی تو قائد ملت جعفریہ نے قائم مقام صدر ہونے کی حیثیت سے ان کے الیکشن فارمز پر دستخط کئے۔ اس الیکشن میں ایم ایم اے پہلے کی طرح تو کامیاب نہ ہوسکی لیکن پھر بھی کسی حد کامیاب ہوئی اور سرحد صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے ایک نشست تحریک کے حصے میں بھی آئی [24]۔

پی پی پی حکومت نے شمالی علاقہ جات کو گلگت و بلتستان کے نام سے صوبہ نما بنانے کے بعد ۱۲ نومبر ۲۰۰۹ ء کو وہاں پر انتخابات کرانے کا علان کر دیا ۔اس موقع پر تحریک پر پابندی تھی جس کے نتیجے میں تحریک ایک جماعت کے طور پر الیکشن میں حصہ نہ لے سکی لیکن تحریک کے تین رہنماؤں نے آزاد امید وار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا ۔الیکشن سے چند روز قبل علامہ شیخ غلام حیدر کہ جن کی کامیابی حتمی تھی کا دار فانی سے دار بقا کی طرف انتقال ہو گیا۔ اور باقی دو امیدوار سید رضی الدین رضوی اور جناب دیدار علی صاحب کامیاب ہوئے۔

انتخابات میں شرکت کےساتھ تنظیمی طور پر اور عوامی سطح پر تحریک نے سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لیا۔دعوی سے کہا جا سکتا ہے کہ سامراج کے اثر و رسوخ کو روکنے میں تحریک جعفریہ نےاہم کردار ادا کیا اور اسلحہ کے استعمال کے بغیر عوامی طاقت سے اپنے مقاصد حاصل کئے اور سامراجی قوتوں کے ناجائز کاموں کو روکا ہے۔اسرائیل جیسی غاصب حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف،گوادربندرگاہ کا مسئلہ،سیسمک سینٹر،امریکیوں کو برتھیں دینے کا معاملہ،ایمل کانسی اور ایاز بلوچ کی گرفتاری،اغیار کی ثقافتی یلغار،دہشت گردی کے خلاف جہاد، نیشنل اور انٹر نیشنل آل پارٹیز کانفرنسز میں موجودگی،ملک میں امن وامان کے قیام اور وحدت و اخوت کا قیام کے سمیت تحریک جعفریہ نے کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر اپنا بھر پور کردار ادا کیا ۔یہ تمام جمہوری اور عوامی انداز میں کیا۔مذکورہ معاملات اور ان جیسے دیگر تمام مسائل میں عوامی آواز نے تحریک کا بھر پور ساتھ دیا۔

ان حالات میں ہمیں اپنی قیادت اور پلیٹ فارم کو مضبوط کر کے ،نوجوانوں کو علماء کے قریب لا کر ،قیادت اور پلیٹ فارم کے خلاف اٹھنے والی ہر منفی آواز کا جواب دے کر،ملی وحدت کو زیادہ مضبوط کر کے،نظریہ ولایت فقیہ پر کامل ایمان رکھ کر،علماۓ کرام کے وقار میں اضافہ کر کے،آپس میں غلط فہمیوں کو دور کر کے،دشمن کی سازشوں کا ادراک کر کے،ایک با بصیرت مومن کی مانند،با وقار طریقے سے صبر و حکمت کا ہتھیار لے کر حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔اور اپنے دشمن کو ناکام بنانا ہو گا۔

اس وقت پابندی کے باوجودپاکستان کی تمام مقتدرسیاسی مذہبی قوتوں سے قائدملت جعفریہ کے تعلقات اورروابط موجودہیں اور قائدملت جعفریہ پاکستان حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی کی ملک وملت کے مفادمیں مثبت ،صاف وشفاف سیاست کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں شیعہ علماء کونسل کو پاک وپاکیزہ جماعت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اس طرح سے برابری کی سطح پرمذاکرات اورقومی وبین الاقوامی مسائل پر گفت وشنید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان قومی و ملی پلیٹ فارم ہے اس کی مضبوطی خود ہماری اپنی مضبوطی ہے ۔اس پلیٹ فارم کو کمزور کرنا خود اپنے آپ کو کمزور کرنا ہے ۔لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ولی امر مسلمین ،ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہٰ ای مدظلہ اور پاکستان میں ان کے نمائندہ قائد ملت جعفریہ،شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی سے اپنے آپ کو مربوط رکھتے ہوئے مکمل ہم آہنگی،اخوت و وحدت،محبت ،حوصلے اور اسلامی جذبے کے تحت اس پلیٹ فارم پر ملت کے مسائل کے حل،مکتب تشیع اور عزاداری سیدالشہداؑ کے تحفظ اور پاکستان میں ملت جعفریہ کے حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھیں ۔ یقیناً خداوند تعالیٰ ہمارے ساتھ اور امام زمانہ ؑہمارے حامی و ناصر ہوں گے [25]۔

پاکستان ایجوکیشنل کونسل

اسی چیز کے پیش نظرتحریک نے محسوس کیا تھا کہ قوم کا تعلیمی معیار حوصلہ افزاء نہیں ہے کیونکہ مقابلے کے امتحانات اور غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کے امیدوار بہت کم منظر عام پر آتے تھے۔ تحریک اس نتیجہ پر پہنچی کہ قوم کے بچوں کی بنیادی تعلیمی سطح کمزور ہے۔ چنانچہ تحریک نے اس اساس کو مستحکم کرنے کیلئے "اسلامک ایجوکیشنل کونسل" کے تحت اکثریتی شیعہ آبادی والے علاقوں میں مقامی افراد سے رہنمائی لے کر ملت جعفریہ کو باعزت بنانے کیلئے ،قوم کو جہالت سے نکالنے کیلئے اور تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے۱۹۹۰ ء میں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کی ہدایت پر اسکولز قائم کئے [26]۔

اسی ایجوکیشنل ادارے کا نام پہلے "اسلامک ایجوکیشنل کونسل" تھا جسے بعد میں قائد محترم کی ہدایت پر ایک آزاد اور غیر سیاسی ادارہ "پاکستان ایجوکیشنل کونسل "کا نام دے دیا گیا [27]۔

یہی کونسل ملک کے دیگر شہروں کے علاوہ شمالی علاقہ جات میں بھی محروم اور پسماندہ عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصرو ف عمل ہے اس کونسل کے زیر انتظام مختلف تعلیمی اداروں کا قیام ،تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وظائف کا اجراء قومی زندگی کیلئے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسکولز کے قیام کے وقت تحریک کا بنیادی نظریہ تھا کہ اپنا پیغام پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ قوم تعلیم یافتہ ہو تاکہ وہ عہد حاضر کے تقاضوں کا صحیح ادراک کر سکے۔ اس کونسل کے جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں ان سب میں قرآن اور اسلامی کتب کی بھی تعلیم دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب یہاں کا اسٹوڈنٹ میٹرک پاس کرتا ہے اور معاشرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ احکام شرعی سے بھی کافی حد تک آگاہ ہو چکا ہوتا ہے۔ تحریک چاہتی تھی کہ تعلیم دینی ہو یا دنیوی ملت کو ہر صورت میں اس طرح تعلیم یافتہ ہونا چاہیے کہ اس کی پہچان علم کے ساتھ ہو کیونکہ ملت جعفریہ "باب العلم"کی پیرو ہے۔

پاکستان ایجوکیشنل کونسل کے زیر انتطام چلنے والے چندا سکولز کے نام درج ذیل ہیں:

  • انڈس ماڈل سکول، میانوالی
  • جناح پبلک سکول، اٹک
  • المصطفی ماڈل سکول، فیصل آباد
  • المصطفی ماڈل سکول، چنیوٹ
  • المصطفی ماڈل سکول شیعہ میانی ملتان
  • المصطفی گرلز سکول گون بلتستان
  • المصطفی ہائر سیکنڈری سکول، سکردو
  • الزہرا ماڈل سکول، غواری بلتستان
  • الزہرا ماڈل سکول، کندس کرمنی بلتستان
  • الزہرا ماڈل سکول، کوینس بلتستان
  • المصطفی پبلک سکول کندس بلتستان
  • المصطفی پبلک سکول، بغاردو بلتستان
  • المصطفی پبلک سکول، قمراہ بلتستان
  • المصطفی پبلک سکول، مہدی آباد بلتستان
  • الزہرا ماڈل سکول، بغاردو بلتستان
  • المصطفی پبلک سکول، سینو بلتستان
  • المصطفی پبلک سکول، کورو بلتستان
  • المصطفی پبلک سکول، طورمک بلتستان
  • المصطفی پبلک سکول، شوت بلتستان
  • العصر پبلک سکول، قاسم آباد گلگت
  • ٹیکنیکل سکول بھکر۔ [28]
  • المصطفی کالج لاہور [29]۔

یہ تمام ادارے تا حال موجود ہیں اور قائد ملت جعفریہ کی رہنمائی میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اس وقت "پاکستان ایجوکیشنل کونسل" کی مسؤلیت جعفری صاحب کے پاس ہے۔ قائد ملت جعفریہ کی سرپرستی میں قائم انڈس ماڈل سکول ماڑی انڈس میں ضلع میانوالی کیلئے30 کنال اراضی خرید ی جا چکی ہے۔ واضح رہے کہ میں نے یہاں پہ 22 اسکولز کے نام دئےہیں لیکن قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب کا ایک انٹرویو میرے پاس ہے اس میں انہوں نے ٹوٹل تعداد 30 بتائی ہے لیکن میں مذکورہ اسکولز تک ہی اطلاعات حاصل کر سکا [30]۔

ڈاکٹر شبیر حسن میثمی سے صدر تحریک منہاج القرآن کی وفد کے ہمراہ ملاقات

علامہ شبیر حسن میثمی سے زہرا (س) اکیڈمی کراچی میں صدر تحریک منہاج القرآن نے میں وفد کے ہمراہ ملاقات کی ہے۔‎

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، چیئرمین زہرا (س) اکیڈمی پاکستان و مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ شبیر حسن میثمی سے زہرا (س) اکیڈمی کراچی میں صدر تحریک منہاج القرآن مسعود احمد عثمانی نے میں وفد کے ہمراہ ملاقات کی۔‎

رپورٹ کے مطابق چیئرمین زہرا(س) اکیڈمی پاکستان کے ساتھ ملاقات میں صدر تحریک منہاج القرآن مسعود احمد عثمانی، ڈپٹی سیکرٹری تحریک منہاج القرآن زاہد علی راجپوت اور عبدالصمد قاری شامل تھے۔ قابل ذکر ہے کہ اس ملاقات میں دونوں فریقوں کے درمیان مختلف اہم امور پر مفصل گفتگو ہوئی [31]۔

حوالہ جات

  1. سید سعید رضوی، خورشید خاور، ص 115۔
  2. سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
  3. سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
  4. تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص71
  5. روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۰ جولائی ۱۹۸۳ ء و غضنفر علی کاظمی ،مفتی جعفر حسین مرحوم ص ۵
  6. سفیر نور، ص ۱۲۱
  7. ایضاً،ص۱۲۲
  8. ایضاً ص۱۲۶
  9. تسلیم رضا خان ، سفیر انقلاب ص۱۴۴ ،اشاعت اول ۱۹۹۶
  10. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، اشاعت اول ۱۹۹۶ء،ص128
  11. تسلیم رضا خان ،سفیر انقلاب ص۱۴۹
  12. محمد یوسف حسین آبادی،تاریخ بلتستان ص۳۰۵،تحریک جعفریہ پاکستان ۱۹۹۲ تا ۱۹۹۴ کارکردگی رپورٹ ص۷۹
  13. تحریک جعفریہ پاکستان،۱۹۹۲ تا ۱۹۹۴ کارکردگی رپورٹ ص ۲۵﴾
  14. ایضاً کارکردگی رپورٹ ص ۲۷
  15. ایضاً ص ۳۳
  16. جلہ تحریک ، دسمبر ۱۹۹۵ ء ص ۲۳
  17. تحریک جعفریہ پاکستان ۱۹۹۲ تا ۱۹۹۴ کارکردگی رپورٹ ص۱۷ و ۷۹
  18. انٹرویو پروفیسر غلام حسین سلیم سابق مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل تحریک جعفریہ پاکستان
  19. انٹر ویو علامہ سید افتخار حسین نقوی ۲۰۱۰ء
  20. دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان ، رپورٹ ، نگاہی گزرا بر شخصیت نمائندہ ولی فقیہ و رہبر شیعیان پاکستان حضرت علامہ سید ساجد علی نقوی، مشاہدات
  21. شعبہ نشرواشاعت ،تحریک جعفریہ پاکستان ، تعارف، کارکردگی ،وضاحت ص10
  22. انٹرویو پروفیسر غلام حسین سلیم ، تاریخ بلتستان ص۳۸۸
  23. علامہ سید ساجد علی نقوی ، شیعیان و چالش ھای پیش رو در پاکستان ،فصل نامہ شیعہ شناسی،سال سوم شمارہ ۱۰ ،تابستان ۱۳۸۴ ص۲۱۸۔۲۱۹
  24. انٹر ویوز علامہ سید عبدالجلیل نقوی، علامہ سید سجاد حسین کاظمی
  25. امداد علی گھلو، شیعہ قومی پلیٹ فارم کی سیاسی فعالیت پر اجمالی نظر، blogfa.com
  26. تحریک جعفریہ پاکستان، ۱۹۹۲ تا ۱۹۹۴ کارکردگی رپورٹ ص ۳
  27. انور علی آخونزادہ، تحریک جعفریہ پاکستان۔ تعارف ، کارکردگی اور وضاحت ص۱۰۔۱۱
  28. پاکستان ایجوکیشنل کونسل ایک نظر میں ص ۲۔۳
  29. تحریک جعفریہ پاکستان ، ۱۹۹۲ تا ۱۹۹۴ کارکردگی رپورٹ ص ۳
  30. امداد علی گھلو، پاکستان ایجوکیشنل کونسل، blogfa.com
  31. hawzahnews.com