مندرجات کا رخ کریں

"ملی یکجہتی کونسل پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 23: سطر 23:


عالمی پریس کے ذریعے سامنے آنے والی بعض خبروں کے مطابق اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر انسانی حقوق کے چارٹر کے پرچم تلے اس وقت جو شعبے سب سے زیادہ توجہات اور سرگرمیوں کا مرکز ہیں وہ پرائمری تعلیم، خاندانی زندگی، خاندانی منصوبہ بندی، اور آزادیٔ رائے کے مغربی تصور کی بالادستی کے شعبے ہیں۔ اس سلسلہ میں مسلم ممالک پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
عالمی پریس کے ذریعے سامنے آنے والی بعض خبروں کے مطابق اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر انسانی حقوق کے چارٹر کے پرچم تلے اس وقت جو شعبے سب سے زیادہ توجہات اور سرگرمیوں کا مرکز ہیں وہ پرائمری تعلیم، خاندانی زندگی، خاندانی منصوبہ بندی، اور آزادیٔ رائے کے مغربی تصور کی بالادستی کے شعبے ہیں۔ اس سلسلہ میں مسلم ممالک پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
== ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کی بنیاد ==
[[قاضی حسین احمد]] نے [[سید ثاقب اکبر]] کی کتاب امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی تقریظ لکھتے ہوئے بیان کیا کہ "ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم اسی لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ اس کونسل کا احیاء کرنے میں برادرم ثاقب اکبر صاحب کا اہم رول ہے۔ اسوقت وہ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں اور امت کے اتحاد کیلئے ہمہ تن کوشاں ہیں۔" قاضی حسین احمد (رح) اور علامہ سید ثاقب اکبر (رح) دونوں ہمیشہ امت کے اتحاد کے علمبردار رہے اور دونوں شخصیات کی فکر اور عمل کا مرکز بھی یہی رہا ہے کہ وطن عزیز میں مذہبی جماعتوں اور اداروں سے وابستہ افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے وحدت کی لڑی میں ہمیشہ کیلئے پرویا جاسکے۔
مارچ تا مئی 2012ء کچھ اہم ملاقاتیں اور ایک کانفرنس پاکستان کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ ان ملاقاتوں اور کانفرنس کے نتیجے میں تیس مذہبی جماعتوں اور اداروں کا اتحاد ملی یکجہتی کونسل دوبارہ سے فعال ہوا۔ انہی ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات کا احوال حسب ذیل ہے: "ملاقات میں بانی البصیرہ سید ثاقب اکبر، البصیرہ خیبر پختونخوا کے مسئول سید محمد قاسم، جماعت اسلامی کے رہنماء صابر حسین اعوان اور راقم موجود تھے۔
ہم پشاور میں سابق امیر جماعت اسلامی، داعی اتحاد امت، قاضی حسین احمد کے گھر پر ناشتے پر مدعو تھے۔ سید ثاقب اکبر کا کچھ قدیمی تعارف قاضی صاحب مرحوم کو تھا، باقی صابر بھائی اور قاسم بھائی نے کروا دیا۔
باتوں کا سلسلہ شروع ہوا، دونوں شخصیات کے دل میں امت کا درد مشترکہ طور پر موجود تھا۔ سید ثاقب اکبر مرحوم نے محترم قاضی حسین احمد  سے کہا کہ قبلہ محترم آپ جماعت کی امارت سے کئی سال کے بعد فراغت میں ہیں آج کل تو آئیں مل کر اب بڑا کام کرتے ہیں۔
قاضی صاحب نے یہ سنا تو ایک مرتبہ ثاقب صاحب کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور مسکرائے۔ انھوں نے آپ کے جذبہ اور نظریات کی داد دی اور اس طرح قرار پایا کہ اس کام کے لیے مزید ملاقاتیں کریں گے اور امت کے اتحاد اور وسیع تر مفاد کے لیے کام کریں گے۔
== بین الاقوامی کانفرنس "عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید" ==
ملاقات میں پشاور کے نشتر ہال میں 27 مئی 2012ء کو طے پانے والی بین الاقوامی کانفرنس "عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید" کی دعوت بھی دی گئی اور خطاب کے لیے شخصیات پر مشورہ بھی ہوا، جو بعد میں البصیرہ کی میزبانی میں منعقد ہوئی۔ یہاں پر کانفرنس کا کچھ احوال بیان کرنا ضروری ہے: "پشاور میں منعقدہ ''عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید'' کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمہ کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صوتحال میں اتحاد و وحدت ہی مسلمانوں کو مسائل و بحرانوں سے نجات دلانے کا واحد ذریعہ ہے۔
پشاور کے نشتر ہال میں منعقدہ اس بین الاقوامی کانفرنس سے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد (جنھوں نے کانفرنس کی صدارت فرمائی)، [[تحریک جعفریہ پاکستان|شیعہ علماء کونسل پاکستان]] کے قائد و سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی، [[مجلس وحدت المسلمین پاکستان|مجلس وحدت مسلمین]] کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل [[محمد امین شہیدی|علامہ محمد امین شہیدی]]، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل، [[جمعیت علماء اسلام پاکستان|جمعیت علماء پاکستان]] کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر (موجودہ صدر ملی یکجہتی کونسل)، شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے سربراہ علامہ رمضان توقیر، حزب اسلامی افغانستان کے ترجمان ڈاکٹر غیرت بحیر، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ نے خطاب کیا۔
اس کے علاوہ جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلٰی ابتسام الہٰی ظہیر، آل پارٹیز حریت کانفرنس کشمیر کے کنوینئر غلام محمد فصیح، [[تحریک منہاج القرآن]] کے مرکزی رہنماء مسکین قادری، جامعہ نعیمیہ کے مہتمم راغب حسین نعیمی، وائس چانسلر جامعہ پشاور ڈاکٹر قبلہ ایاز، مرکزی متحدہ علماء محاذ کے صدر علامہ مرزا یوسف حسین، پاکستان مسلم لیگ کے رہنماء فقیر حسین بخاری، صدر رابطۃ الامہ حمید اختر نیازی، فلسطین فاؤنڈیشن کے سرپرست قاضی احمد نورانی اور مولانا محمد اصغر درس نے بھی انٹرنیشنل کانفرنس سے خطاب کیا۔
اس موقع پر نشتر ہال شرکاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، تمام مقررین نے اپنے خطاب میں امت مسلمہ کے اتحاد کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمہ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ کانفرنس بھی ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا باعث بنی۔
قارئین کو تاریخ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ 1995ء میں جب شیعہ و سنی فسادات اپنی انتہاء تک پہنچے تھے تو اس وقت بھی علماء کے مختلف  طبقات نے مل جل کر مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت میں بھی ”ملی یکجہتی کونسل“ کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا تھا۔ اس اتحاد نے اپنے اختلافی مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک سترہ نکاتی "ضابطہٴ اخلاق" پر اتفاق کیا تھا۔
یہ اتحاد مختلف وجوہات کی بنا پر غیر فعال ہوگیا اور پھر 2012ء میں فرقہ وارانہ تنازعات کی وجہ سے وطن عزیز کی فضا ایک مرتبہ پھر خراب ہونا شروع ہوئی اور مذہبی اور دیگر گروہوں نے ایک دوسرے کی سرے عام جلسوں میں تکفیر کرنا شروع کر دی تو ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماء اور مشائخ نئے سرے سے داعی وحدت، امت قاضی حسین احمد اور ان کے ساتھ مخلص افراد کی دعوت پر اکٹھے ہوئے اور ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا اعلان کیا گیا۔
25 جماعتوں کے سربراہان اور نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی (جن کی موجودہ تعداد اب 30 تک جا پہنچی ہے) اور متفقہ طور پرانھوں نے اس تنظیم یا پلیٹ فارم ”ملی یکجہتی کونسل“ کے احیاء کا اعلان کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کے وقت یہ سوچا گیا تھا کہ اتحاد کے اس کام کو مضبوط بنیادوں پر کرنے کے لیے ایک ”مرکز اسلامی“ قائم کیا جائے گا اور اس میں کام کرنے والوں کی اولین ترجیح خود ملی یکجہتی کے مقصد کا حصول ہوگا۔
اس میں کام کرنے والے افراد اپنے آپ کو سب سے پہلے مسلمان سمجھیں گے، اسی کو اپنا بنیادی تشخص قرار دیں گے اور اپنی مسلکی پہچان کو ثانوی درجے پر رکھیں گے۔ داعی اتحاد امت بانی البصیرہ علامہ سید ثاقب اکبر کا کہنا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل تفرقہ اور تکفیر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہی ہے اور آخرکار اس نے پاکستان میں تکفیریت کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے<ref>[https://www.islamtimes.com/ur/article/1142983/%D9%85%D9%84%DB%8C-%DB%8C%DA%A9%D8%AC%DB%81%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AD%DB%8C%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D9%86%DB%8C%D8%A7%D8%AF مرتضی عباس، ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کی بنیاد]- شائع شدہ از: 21 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 مئی 2025ء</ref>۔
== دشمنوں کی طرف سے عالم اسلام کے لیے مشکلات ==
== دشمنوں کی طرف سے عالم اسلام کے لیے مشکلات ==
پرائمری سطح تک کی تعلیم کے لیے وہ نصاب قبو ل کریں جو اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے لیے یکساں نصاب تعلیم کے طور پر تیار کیا ہے۔نکاح، طلاق اور وراثت کے متعلق معاملات میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قراردادوں کو معیار تسلیم کر کے خاندانی زندگی سے متعلقہ قوانین میں ترامیم کریں۔
پرائمری سطح تک کی تعلیم کے لیے وہ نصاب قبو ل کریں جو اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے لیے یکساں نصاب تعلیم کے طور پر تیار کیا ہے۔نکاح، طلاق اور وراثت کے متعلق معاملات میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قراردادوں کو معیار تسلیم کر کے خاندانی زندگی سے متعلقہ قوانین میں ترامیم کریں۔

نسخہ بمطابق 14:58، 20 مئی 2025ء

ملی یکجہتی کونسل پاکستان
پارٹی کا نامملی یکجہتی کونسل پاکستان
بانی پارٹیمولانا سمیع الحق
پارٹی رہنماابوالخیر محمد زبیر
مقاصد و مبانیپاکستان میں اسلامی نظام کا قیام

ملی یکجہتی کونسل پاکستان

تاسیس

جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما سینیٹر مولانا سمیع الحق کی دعوت پر گزشتہ روز اسلام آباد میں ملک کی بڑی دینی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا جس میں فرقہ وارانہ کشیدگی پر قابو پانے کے لیے "ملی یکجہتی کونسل" کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کونسل میں تمام شریک پارٹیوں کے سربراہ شامل ہیں جبکہ مولانا شاہ احمد نورانی کو کونسل کا سربراہ اور مولانا سمیع الحق کو سیکرٹری جنرل چنا گیا ہے۔

دینی جماعتوں کا کسی ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہونا اور ملکی و قومی امور میں مشترکہ موقف اور پالیسی اختیار کرنا اس ملک کے باشعور شہریوں کی دیرینہ آرزو ہے۔ اس آرزو کے پیچھے جہاں دین کے ساتھ لوگوں کی محبت اور اسلام کے غلبہ و بالادستی کی خواہش کارفرما ہے وہاں معروضی حالات میں اسلام، پاکستان اور پاکستانی قوم کو درپیش خطرات و مشکلات کے حوالہ سے دینی قوتوں کے کردار کا واضح طور پر نظر آنے والا خلاء بھی اس کا محرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اتحاد کا ہر سطح پر خیرمقدم کیا گیا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

تاسیس کی ضرورت

اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بین الاقوامی اور ملکی سطح پر جس صورتحال کا سامنا ہے وہ انتہائی گھمبیر ہے۔ پاکستان کا اسلامی تشخص اور اس کے دستور کی نظریاتی بنیادیں ان عالمی قوتوں کو مسلسل کھٹک رہی ہیں جو کمیونزم کے خاتمہ کے بعد اسلام کو ویسٹرن سولائزیشن اور مغرب کی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں اور اسلامی قوتوں کو بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کی تیاریاں کر رہی ہیں۔

ان قوتوں کی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ عالم اسلام بھی کھلے دل کے ساتھ مغرب کے مادہ پرستانہ فلسفہ، اجتماعیات سے مذہب کی لاتعلقی، اباحت مطلقہ پر مبنی فری سوسائٹی اور بے قید معاشرت کو قبول کر لے اور اسلام کی ان تعلیمات و احکامات سے آنکھیں بند کر لے جو ویسٹرن سولائزیشن کو قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اس کی تشریح میں جنیوا کے ہیومن رائٹس کمیشن کے فیصلے اور قراردادیں مغرب کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔

اسلام کا جو حکم اور ضابطہ ان کی زد میں آتا ہے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر اس کے خاتمہ کے لیے پورے وسائل استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ اسلامی حدود و تعزیرات کو وحشیانہ قرار دینے، توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کو انسانی حقوق کے منافی گرداننے اور خاندانی زندگی کے بارے میں اسلامی احکام و قوانین کو بین الاقوامی معیار کے منافی قرار دے کر مسلم حکومتوں پر ان میں رد و بدل کے لیے زور دینے کی حالیہ کاروائیوں کا پس منظر یہی ہے اور ان کاروائیوں کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

عالمی پریس کے ذریعے سامنے آنے والی بعض خبروں کے مطابق اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر انسانی حقوق کے چارٹر کے پرچم تلے اس وقت جو شعبے سب سے زیادہ توجہات اور سرگرمیوں کا مرکز ہیں وہ پرائمری تعلیم، خاندانی زندگی، خاندانی منصوبہ بندی، اور آزادیٔ رائے کے مغربی تصور کی بالادستی کے شعبے ہیں۔ اس سلسلہ میں مسلم ممالک پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کی بنیاد

قاضی حسین احمد نے سید ثاقب اکبر کی کتاب امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی تقریظ لکھتے ہوئے بیان کیا کہ "ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم اسی لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ اس کونسل کا احیاء کرنے میں برادرم ثاقب اکبر صاحب کا اہم رول ہے۔ اسوقت وہ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں اور امت کے اتحاد کیلئے ہمہ تن کوشاں ہیں۔" قاضی حسین احمد (رح) اور علامہ سید ثاقب اکبر (رح) دونوں ہمیشہ امت کے اتحاد کے علمبردار رہے اور دونوں شخصیات کی فکر اور عمل کا مرکز بھی یہی رہا ہے کہ وطن عزیز میں مذہبی جماعتوں اور اداروں سے وابستہ افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے وحدت کی لڑی میں ہمیشہ کیلئے پرویا جاسکے۔

مارچ تا مئی 2012ء کچھ اہم ملاقاتیں اور ایک کانفرنس پاکستان کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ ان ملاقاتوں اور کانفرنس کے نتیجے میں تیس مذہبی جماعتوں اور اداروں کا اتحاد ملی یکجہتی کونسل دوبارہ سے فعال ہوا۔ انہی ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات کا احوال حسب ذیل ہے: "ملاقات میں بانی البصیرہ سید ثاقب اکبر، البصیرہ خیبر پختونخوا کے مسئول سید محمد قاسم، جماعت اسلامی کے رہنماء صابر حسین اعوان اور راقم موجود تھے۔

ہم پشاور میں سابق امیر جماعت اسلامی، داعی اتحاد امت، قاضی حسین احمد کے گھر پر ناشتے پر مدعو تھے۔ سید ثاقب اکبر کا کچھ قدیمی تعارف قاضی صاحب مرحوم کو تھا، باقی صابر بھائی اور قاسم بھائی نے کروا دیا۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا، دونوں شخصیات کے دل میں امت کا درد مشترکہ طور پر موجود تھا۔ سید ثاقب اکبر مرحوم نے محترم قاضی حسین احمد سے کہا کہ قبلہ محترم آپ جماعت کی امارت سے کئی سال کے بعد فراغت میں ہیں آج کل تو آئیں مل کر اب بڑا کام کرتے ہیں۔

قاضی صاحب نے یہ سنا تو ایک مرتبہ ثاقب صاحب کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور مسکرائے۔ انھوں نے آپ کے جذبہ اور نظریات کی داد دی اور اس طرح قرار پایا کہ اس کام کے لیے مزید ملاقاتیں کریں گے اور امت کے اتحاد اور وسیع تر مفاد کے لیے کام کریں گے۔

بین الاقوامی کانفرنس "عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید"

ملاقات میں پشاور کے نشتر ہال میں 27 مئی 2012ء کو طے پانے والی بین الاقوامی کانفرنس "عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید" کی دعوت بھی دی گئی اور خطاب کے لیے شخصیات پر مشورہ بھی ہوا، جو بعد میں البصیرہ کی میزبانی میں منعقد ہوئی۔ یہاں پر کانفرنس کا کچھ احوال بیان کرنا ضروری ہے: "پشاور میں منعقدہ عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمہ کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صوتحال میں اتحاد و وحدت ہی مسلمانوں کو مسائل و بحرانوں سے نجات دلانے کا واحد ذریعہ ہے۔

پشاور کے نشتر ہال میں منعقدہ اس بین الاقوامی کانفرنس سے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد (جنھوں نے کانفرنس کی صدارت فرمائی)، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے قائد و سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل، جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر (موجودہ صدر ملی یکجہتی کونسل)، شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے سربراہ علامہ رمضان توقیر، حزب اسلامی افغانستان کے ترجمان ڈاکٹر غیرت بحیر، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ نے خطاب کیا۔

اس کے علاوہ جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلٰی ابتسام الہٰی ظہیر، آل پارٹیز حریت کانفرنس کشمیر کے کنوینئر غلام محمد فصیح، تحریک منہاج القرآن کے مرکزی رہنماء مسکین قادری، جامعہ نعیمیہ کے مہتمم راغب حسین نعیمی، وائس چانسلر جامعہ پشاور ڈاکٹر قبلہ ایاز، مرکزی متحدہ علماء محاذ کے صدر علامہ مرزا یوسف حسین، پاکستان مسلم لیگ کے رہنماء فقیر حسین بخاری، صدر رابطۃ الامہ حمید اختر نیازی، فلسطین فاؤنڈیشن کے سرپرست قاضی احمد نورانی اور مولانا محمد اصغر درس نے بھی انٹرنیشنل کانفرنس سے خطاب کیا۔

اس موقع پر نشتر ہال شرکاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، تمام مقررین نے اپنے خطاب میں امت مسلمہ کے اتحاد کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمہ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ کانفرنس بھی ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا باعث بنی۔

قارئین کو تاریخ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ 1995ء میں جب شیعہ و سنی فسادات اپنی انتہاء تک پہنچے تھے تو اس وقت بھی علماء کے مختلف طبقات نے مل جل کر مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت میں بھی ”ملی یکجہتی کونسل“ کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا تھا۔ اس اتحاد نے اپنے اختلافی مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک سترہ نکاتی "ضابطہٴ اخلاق" پر اتفاق کیا تھا۔

یہ اتحاد مختلف وجوہات کی بنا پر غیر فعال ہوگیا اور پھر 2012ء میں فرقہ وارانہ تنازعات کی وجہ سے وطن عزیز کی فضا ایک مرتبہ پھر خراب ہونا شروع ہوئی اور مذہبی اور دیگر گروہوں نے ایک دوسرے کی سرے عام جلسوں میں تکفیر کرنا شروع کر دی تو ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماء اور مشائخ نئے سرے سے داعی وحدت، امت قاضی حسین احمد اور ان کے ساتھ مخلص افراد کی دعوت پر اکٹھے ہوئے اور ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا اعلان کیا گیا۔

25 جماعتوں کے سربراہان اور نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی (جن کی موجودہ تعداد اب 30 تک جا پہنچی ہے) اور متفقہ طور پرانھوں نے اس تنظیم یا پلیٹ فارم ”ملی یکجہتی کونسل“ کے احیاء کا اعلان کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کے وقت یہ سوچا گیا تھا کہ اتحاد کے اس کام کو مضبوط بنیادوں پر کرنے کے لیے ایک ”مرکز اسلامی“ قائم کیا جائے گا اور اس میں کام کرنے والوں کی اولین ترجیح خود ملی یکجہتی کے مقصد کا حصول ہوگا۔

اس میں کام کرنے والے افراد اپنے آپ کو سب سے پہلے مسلمان سمجھیں گے، اسی کو اپنا بنیادی تشخص قرار دیں گے اور اپنی مسلکی پہچان کو ثانوی درجے پر رکھیں گے۔ داعی اتحاد امت بانی البصیرہ علامہ سید ثاقب اکبر کا کہنا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل تفرقہ اور تکفیر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہی ہے اور آخرکار اس نے پاکستان میں تکفیریت کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے[1]۔

دشمنوں کی طرف سے عالم اسلام کے لیے مشکلات

پرائمری سطح تک کی تعلیم کے لیے وہ نصاب قبو ل کریں جو اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے لیے یکساں نصاب تعلیم کے طور پر تیار کیا ہے۔نکاح، طلاق اور وراثت کے متعلق معاملات میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کی قراردادوں کو معیار تسلیم کر کے خاندانی زندگی سے متعلقہ قوانین میں ترامیم کریں۔

آبادی میں اضافہ کی روک تھام کے نام پر جنسی تعلقات کی آزادی بلکہ جنسی انارکی کے قانونی تحفظ کا نظام قائم کریں۔ رائے، تنقید، اختلاف اور اس کے اظہار کی مطلق آزادی کے تصور کو قبول کریں۔ خدا، رسول اور مذہب سمیت کسی بھی استثناء کو مسترد کرتے ہوئے اپنے قوانین کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ دنیا بھر کے دیگر مسلم و غیر مسلم ممالک کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ان امور کے حوالہ سے اقوام متحدہ، امریکہ اور مغربی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی زد میں ہے اور اس دباؤ کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف قومی معاملات کے ضمن میں پاکستان کے گرد سازشوں کا حصار جس طرح دن بدن تنگ ہوتا جا رہا ہے وہ بھی کسی باشعور شہری سے مخفی نہیں ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ مسائل

کراچی بین الاقوامی سازشوں میں گھر کر رہ گیا ہے اور اسے ملک سے الگ کرنے کی باتیں کھلم کھلا ہو رہی ہیں، گوادر میں اومان کی وساطت سے امریکہ کے فوجی اڈے کے قیام کا معاملہ ابھی تک شکوک و شبہات کا شکا رہے، کشمیر کو خودمختار بنانے اور چین کے خلاف امریکی فوجی اڈے کے طور پر اس کے متوقع کردار کے خدشات اب کھل کر سامنے آگئے ہیں،

پاکستان کا ایٹمی پروگرام منجمد ہونے کے بعد اب رول بیک کے خطرہ سے دوچار ہے، پاکستان کی مسلح افواج میں کمی کی باتیں ہو رہی ہیں، امریکہ پیشگی قیمت وصول کرنے کے باوجود پاکستان کو ایف سولہ طیارے اور دیگر متعلقہ فوجی ساز و سامان دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے زیر کنٹرول پاکستان کا معاشی ڈھانچہ بے بسی اور لاچاری کی مجسم تصویر بنا ہوا ہے۔

اس صورتحال میں جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی خودمختاری خطرے میں ہے، ملکی سالمیت پر سازشوں کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں، ملک کی نظریاتی اور اسلامی حیثیت کو ختم کرنے کے درپے قوتیں بتدریج آگے بڑھ رہی ہیں، اور اسلام اور عالم اسلام کے لیے پاکستان کے متوقع کردار سے اسے مکمل طور پر محروم کر دینے کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

ملک کے عام شہری کا اضطراب اور بے چینی نہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ بالخصوص اس پس منظر میں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی قوتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے کوئی بھی خود کو اس چیلنج کا سامنا کرنے کا اہل ثابت نہیں کر سکی اور اقتدار کے منصب پر فائز ہونے کے بعد دونوں کی قیادت اور ارکان نے انتقام، لوٹ کھسوٹ اور نا اہلیت کے اظہار کے سوا کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔

ان حالات میں ملک کے باشعور شہریوں اور بہی خواہوں کی نگاہیں فطری طور پر دینی قوتوں کی طرف اٹھتی ہیں کہ شاید یہاں سے قوم کو کوئی ایسی قیادت میسر آجائے جو ملک و قوم کی کشتی کو چاروں طرف سے بپھرے ہوئے طوفان سے سلامتی کے ساتھ نکال کر کامیابی کی منزل کی طرف گامزن کر سکے۔ لیکن دینی قوتوں کا خلفشار، ملک و قوم کے حقیقی مسائل کا عدم ادراک، اور قومی معاملات میں سنجیدہ دلچسپی کے فقدان ایسے موذی امراض ہیں جنہوں نے ملک کی دینی قیادت کو قومی سیاست کا عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ قوم کی مایوسیوں میں اضافہ کرنے کی دوڑ میں ہماری دینی قیادت بھی سیاسی لیڈرشپ سےکسی طرح پیچھے نہیں ہے۔

ملی یکجہتی کونسل کا قیام خوش آیند

اس پس منظر میں دینی جماعتوں کے سربراہوں کا مل بیٹھنا اور ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم قائم کرنا یقیناً امید کی ایک کرن ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ یہ کونسل ماضی کے کئی مذہبی اتحادوں کی طرح محدود اور وقتی مقاصد کی اسیر ہو کر نہ رہ جائے اور اس کا دائرہ عمل دفتر، فائل، اخباری بیانات، اور وقتاً فوقتاً مل بیٹھنے کی رسمی کاروائیوں کا حصار توڑ کر عملی جدوجہد اور مسلسل ورک کے تقاضے پورے کر سکے۔

"الشریعہ" کے قارئین گواہ ہیں کہ ہم نے ان صفحات میں ہمیشہ اسی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ دینی جماعتوں کے قائدین مل بیٹھیں، وقت کے مسائل اور تقاضوں کو سمجھیں، اقتدار کی سیاست اور گروہی سیاسی کشمکش سے بالاتر ہو جائیں، اسلام اور پاکستان کو مغرب کی طرف سے درپیش چیلنجز کا ادراک حاصل کریں، اور قیادت کی ترجیحات سے بے نیاز ہو کر ’’ٹیم ورک‘‘ کے ساتھ قوم کو متبادل اور متوازن نظریاتی قیادت فراہم کریں۔

اس لیے آج جب اس سمت سفر کا آغاز ہوا ہے تو ہمبہت دیر کی مہرباں آتے آتے کے شکوہ کے ساتھ ’’ملی یکجہتی کونسل پاکستان‘‘ کا خیرمقدم کرتے ہیں اور مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے یہ گزارش ضروری سمجھتے ہیں کہ اگرچہ کونسل کے قیام کا وقتی محرک شیعہ سنی کشیدگی کا مسلح تصادم کی شکل اختیار کر جانا ہے کیونکہ اسی نے قائدین کو بالآخر مل بیٹھنے پر مجبور کیا ہے لیکن خدا کے لیے کونسل کے دائرہ عمل کو صرف اس حد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ عالم اسلام اور پاکستان کے مجموعی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی قیادت کی ذمہ داریوں کا جائزہ لیا جائے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے عملی پیش رفت کا اہتمام کیا جائے تاکہ دینی جماعتیں معروضی حالات میں اسلام اور پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حوالہ سے اپنا کردار صحیح طور پر ادا کر سکیں[2]۔

ملی یکجہتی کونسل کی کابینہ تشکیل‘ ابوالخیر محمد زبیر صدر‘لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل منتخب

ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے ملی یکجہتی کونسل کے آئندہ تین سال کیلئے مرکزی سطحی عہدیداروں کی تفصیلات جاری کی ہیں ۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی مجلسِ قائدین نے ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کو صدر اور لیاقت بلوچ کو سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا اور علامہ سید ساجد علی نقوی سینئر نائب صدر جبکہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی ممبر جماعتوں کے سربراہ مرکزی نائب صدر ہونگے۔

حافظ نعیم الرحمن، علامہ ناصر عباس جعفری، پیرہارون علی گیلانی، مولانا اللہ وسایا، عبدالغفار روپڑی، عبدالرحمن مکی،ضیا اللہ شاہ بخاری، شجاع الدین شیخ، پیر عبدالرحیم نقشبندی، خرم نواز گنڈاپور، مفتی گلزار نعیمی، محمد عبداللہ حمیدگل، قاضی ظفر الحق،ڈاکٹر علی عباس نقوی، علامہ محمد افضل حیدری، پیر خواجہ معین الدین ، پیر غلام رسول اویسی،پاکستان ڈاکٹر حضور مہدی، مولانا عبدالمالک، پیر سلطان احمد علی، مرکزی علما کونسل پاکستان صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، مولانا محمد طیب طاہری، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان ڈاکٹر صابر ابومریم، اسلامی جمہوری اتحاد علامہ زبیر احمد ظہیر، متحدہ علماء کونسل مولانا عبدالرؤف ملک، دیوان عظمت مودود چشتی،پیر خالد سلطان قادری نائب صدور ہوں گے۔

ممبر جماعتوں کے قائدین قاری محمد یعقوب شیخ، عارف حسین واحدی، پیر صفدر گیلانی، ناصر عباس شیرازی، ڈاکٹر عطا الرحمن، مخدوم ندیم ہاشمی، ڈاکٹر ضمیر اختر خان کو نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کیلئے علامہ شبیر میثمی، نذیر احمد جنجوعہ ، علامہ عقیل انجم قادری، سید اسد عباس نقوی، علامہ عبدالوحید شاہد روپڑی، صاحبزادہ ولی اللہ نقشبندی ، ڈاکٹر اسامہ بخاری، ڈاکٹر عبدالرحمن، سید عبدالوحید شاہ، ڈاکٹر میر آصف اکبر کو منتخب کیا گیا ہے۔

ملی یکجہتی کونسل کیلئے سیکرٹری مالیات طاہر رشید تنولی، رابطہ سیکرٹری سید لطیف الرحمن شاہ، سید مرتضیٰ ثاقب، محمد علی کاظمی اور میڈیا کوآرڈی نیٹر پشاور زاہد علی اخونزادہ، لاہور فرحان شوکت ہنجرا، عبدالحنان، اسلام آباد شاہد شمسی، ملتان اعجاز الحق، کراچی مجاہد چنا، حیدرآباد یونس دانش، کوئٹہ ولی اللہ شاکر کو مقرر کیا گیا ہے[3]۔

ایک تھی ملی یکجہتی کونسل

محرم الحرام کے دوران ایک تصویر نے کیا کیا یادیں تازہ کر دیں، ایک کارکن صحافی کی یادیں،جس کی بیٹ سیاسی اور دینی جماعتیں ہوا کرتی تھیں، نوے کی دہائی تھی جو تیزی سے گزر رہی تھی، سیاسی عدم استحکام تو اپنی جگہ تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی بھی عروج پر تھی، شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا جاتا تھا کہ ملک کے طول وعرض میں کوئی چھوٹا یا کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہوتا ہو۔

ہاں، ذکر اس تصویر کا تھا جو قاضی حسین احمد مرحوم کے نام سے بنائے گئے سوشل میڈیا کے ایک پیج پر دیکھی، علامہ شاہ احمد نورانی امامت کروا رہے ہیں اور ان کے پیچھے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نماز ادا کر رہے ہیں۔ اس دور میں ایک طرف قتل و غارت اپنے عروج پر تھی، سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کے نام سے تنظیموں کے اپنے اپنے مضبوط گڑھ تھے تو دوسری طرف ہمارے دینی سیاسی رہنماوں نے کمال متانت، فطانت، ذہانت اور سیاست کا مظاہرہ کیا تھا کہ ایک تنظیم میں پروئے گئے تھے۔

اس غیر سیاسی تنظیم کے قیام میں محترم قاضی حسین احمد نے اہم کردارادا کیا تھا۔ اس وقت اہل حدیث، اہل سنت و الجماعت میں سے دیوبند اور بریلوی دونوں مکاتب فکر اور اہل تشیع سب اکٹھے ہو گئے تھے۔اہل تشیع میں علامہ ساجد نقوی بہت زیادہ متحرک ہوا کرتے تھے اور سیاسی و مذہبی حلقوں میں بہت ہی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔

سپا ہ محمد اور سپاہ صحابہ دونوں ہی میدان عمل میں موجود تھیں اور یہ میدان واقعی عمل کا تھا، کوئی نہ کوئی ایسا عمل کر دیا جاتا تھا جو اخبارات میں سیاہ حاشیوں والی شہ سرخیوں میں شائع ہو جاتا تھا۔ یادش بخیر، ایک مرتبہ ایک تنظیم کے رہنما کا قتل ہو ا، اعلان ہوا کہ میت ٹھوکر نیاز بیگ سے لا ئی جائے گی اور نماز جنازہ گورنمنٹ کالج کے سامنے ناصر باغ میں ادا کی جائے گی ۔ ایک کارکن صحافی کے طور پر وہاں کوریج کے لئے پہنچا اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے دفتر کے سامنے ناصر باغ کے گیٹ پر اپنی موٹرسائیکل کھڑی کر دی۔

ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ دونوں طرف سے گولیاں برس رہی تھیں اور میں ایک احمق نوجوان کی طرح ان برستی گولیوں کے درمیان اپنی موٹرسائیکل لینے کے لئے گیٹ کی طرف بھاگا چلا جا رہا تھا، مجھے محسوس ہوا کہ گولیاں میرے بہت قریب سے بھی گزریں، بس، وہ ایسے ہی دن تھے، ایسی ہی سیاست تھی اور ایسی ہی صحافت تھی۔

ملی یکجہتی کونسل کے ثمرات

جب ملی یکجہتی کونسل بنی تو میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ شیعوں، دیوبندیوں، بریلویوں اور اہل حدیثوں کو ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا حالانکہ اس وقت بھی یہ فتاویٰ جات کثرت سے دئیے جاتے تھے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز ہی جائز نہیں یعنی ہر کسی کی نظر میں اکٹھے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا مگر مسئلہ امامت کا تھا اور میں نے اہل تشیع علمائے کرام کو بہت دفعہ علامہ شاہ احمد نورانی کے پیچھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا۔

ایک ،دو برس پہلے پنجاب یونیورسٹی میں اتحاد امت کے لئے بھی ضلعی حکومت، لاہور سٹی پولیس اور سٹی فارٹی ٹو کی طرف سے مشترکہ نماز ظہر کا اہتمام کیا گیا تو وہاں بھی اہل تشیع علماء تشریف لائے اور انہوں نے وہاں بھی جامعہ اشرفیہ کے مہتمم علامہ فضل الرحیم اشرفی کے پیچھے نمازادا کی، اہل تشیع علمائے کرام کاممتا ز دیوبندی عالم دین کے پیچھے نمازادا کرنا ایک بڑا، مستحسن اور قابل تعریف فعل تھا ، ثابت ہوا جو کام ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ہو رہا تھا وہ اب بھی ہو سکتا ہے، ہو رہا ہے اور انشاء اللہ ہوتا رہے گا۔

ملی یکجہتی کونسل کی مقامی تنظیم کے بہت سارے اجلاس لٹن روڈ پر جماعت اسلامی لاہور کے دفتر میں ہوا کرتے تھے، سیاسی وژن اور رابطے رکھنے والے لیاقت بلوچ لاہور کے امیراور میزبان ہوا کرتے تھے، جاوید شیخ میڈیا مینجمنٹ کرتے تھے، صحن میں بالعموم میڈیا بریفنگ اور دوسری منزل پر کھانے اور نماز کا اہتمام ہوا کرتا تھا،یہی وہ دور تھا جب پیر اعجاز ہاشمی، قاری زوار بہادر سمیت بہت سارے امت کے اتحاد کی خاطر بہت متحرک ہوا کرتے تھے۔ جب پریس کانفرنسیں ہوتی تھیں تویہ سب مشترکات تلاش کرتے تھے، اختلافات کی نفی کرتے تھے۔

اس تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا گیا، کاش وہ دن واپس آجائیں، میں ڈر گیا اور کہا، نہیں نہیں، اللہ نہ کرے وہ دن واپس آئیں، وہ تو بہت ہی خوفناک دن تھے، ملی یکجہتی کونسل کے قیام کو اک استثنیٰ دیجئے اور سوچئے کہ کس طرح ہمارے تمام فرقے ایک دوسرے کے درپے ہو رہے تھے۔ ملی یکجہتی کونسل تو آپس میں نفرت اور تقسیم کے بہت ہی بڑی سازش کا ایک اتنا ہی بڑا مگر مثبت ردعمل تھا۔

نوے کی دہائی کے وسط میں یہ ردعمل سامنے آیا اوراس نے عمل کی سنگینی کو کم کرنے میں اہم کردارادا کیا، ہاں ، یہ بات درست ہے کہ ملی یکجہتی کونسل نے دینی رہنماؤں کو سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھے کرنے میں بھی اہم کردارادا کیا۔ دہشت گردی کی لہر کم ہوئی تو ملی یک جہتی کونسل کی فعالیت بھی کم ہو گئی مگر جب امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تو ملی یک جہتی کونسل نے دفاع افغانستان کونسل اور متحدہ مجلس عمل کی شکل اختیار کر لی۔ علمائے کرام کی متحدہ کو ایک صوبے کی حکومت اور مرکزمیں اپوزیشن لیڈری ملی۔

صحافت اور سیاست کے طالب علم کے طور پر ایک احساس بھی میرے ساتھ رہا کہ ہمارے بہت سارے دینی سیاسی رہنما اپنے مخالف رہنما کے ساتھ تو بیٹھ جاتے ہیں مگراپنے ہی مکتبہ فکر والوں کے ساتھ نہیں۔ میں نے مولانا عبدالستار نیازی مرحوم اور علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کے دفاتر ایک ہی سڑک پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہونے کے باجوود ان کے درمیان بہت بڑے فاصلے دیکھے۔

جب مولانا عبدالستار خان نیازی شہباز شریف کی حکومت سے ناراض ہوئے تو اپنے وزیرصاحبزادہ فضل کریم کو حکم دیا کہ دینی امور کی وزارت چھوڑ دو مگر صاحبزادہ صاحب نے وزارت کی بجائے نیازی صاحب کا دامن چھوڑ دیا اور پارلیمانی رپورٹر کے طور پر میں پنجاب اسمبلی کے ایوانوں میں ہونے والی افسوسناک سیاست دیکھتا رہا۔ اللہ نیازی صاحب اور صاحبزادہ صاحب دونوں کو غریق جنت کرے ۔علامہ ساجد نقوی کو خود ان کے مکتبہ فکر نے مائنس کر دیا اور ان کا حلقہ اثر محدود ہو گیا۔

متحدہ مجلس عمل ٹوٹنے کی اصل وجہ جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام (فضل الرحمان) کے درمیان فاصلے بنے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ دونوں مذہبی سیاسی جماعتیں ایک ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمارے معروف ٹی وی اینکر صحافی اپنے پروگرام کے پرومو میں محترم سراج الحق سے پوچھتے ہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق میں کسے اپنے قریب پاتے ہیں اور جواب میں صرف ایک چھوٹی سی ، عجیب سی مسکراہٹ ملتی ہے۔

دہشتگردی کو کم کرنے میں اس تنظیم کا کردار

میں اس دور میں رہتا ہوں جب سیاستدانوں کو گالی دینے والے بھی سیاستدان ہی ہیں، سیاست کے اس درخت کو اسٹیبلشمنٹ کا لوہا ہتھوڑے کی شکل میں اس وقت تک نہیں کاٹ سکتا جب تک اس میں خود سیاست کی صورت لکڑی کا دستہ نہ لگا ہو۔ ملی یک جہتی کونسل کا قیام نوے کی دہائی میں میرے دینی سیاسی رہنماؤں کا وہ کارنامہ ہے جسے میں آج فخر سے بیان کر سکتا ہوں۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی اس لہر کو روکنے میں ہمارے دینی سیاسی رہنماوں نے اہم کردارادا کیا

مگر جب پرویز مشرف کی آمریت قائم ہوئی تو اس کے بعد دہشت گردی نے ایک نئی اور خوف ناک شکل اختیار کر لی بہرحال ایک جمہوری دور میں اس دور کی خامیوں اور خرابیوں پر بھی قابو پایا جا رہا ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی مثبت قوتوں اور صلاحیتوں پر بہت زیادہ اعتماد نہیں رکھتے حالانکہ یہی وہ عناصر ہیں جن سے وہ ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کوبھی اپنے سیاستدانوں کے جذبے اور کارکردگی پر یقین نہ ہو تو ایک مرتبہ ملی یکجہتی کونسل کے قیام اور معاشرے پر اثرات بارے مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے۔ اس حد تک ان دنوں کی واپسی کا خواب دیکھا جاسکتا ہے ،اپنے بہت ہی کائیاں، عقل مند اور معاملہ فہم دینی سیاسی رہنماؤں سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر نوے کی دہائی میں ایک ملی یک جہتی کونسل معاشرے کو جہنم بنانے سے روک سکتی ہے تو آج بھی اس کا قیام اسی معاشرے کو گل و گلزار کر سکتا ہے۔

ان کی عزت، مقام اور رتبے میں ہزاروں گنا اضافہ بھی کر سکتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر کام سیاسی اور گروہی مقاصد کے لئے ہی ہو، کچھ کام قومی اورملی مقاصد کے تحت بھی کئے جا سکتے ہیں[4]۔

حوالہ جات

  1. مرتضی عباس، ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کی بنیاد- شائع شدہ از: 21 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 مئی 2025ء
  2. ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا قیام- شائع شدہ از: 1 اپریل 1995ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 مئی 2025ء
  3. ملی یکجہتی کونسل کی کابینہ تشکیل‘ ابوالخیر محمد زبیر صدر‘لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل منتخب- شائع شدہ از: 13 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 مئی 2025ء
  4. نجم ولی خان’’ ایک تھی ملی یکجہتی کونسل ۔‘‘- شائع شدہ از: 12 اکتوبر 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 مئی 2025ء