"سمیع الحق" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 22: | سطر 22: | ||
جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق) کے سربراہ مولانا سمیع الحق 1937 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی جس کی بنیاد ان کے والد مولانا عبدالحق نے رکھی تھی۔ | جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق) کے سربراہ مولانا سمیع الحق 1937 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی جس کی بنیاد ان کے والد مولانا عبدالحق نے رکھی تھی۔ | ||
== تعلیم == | == تعلیم == | ||
ان کے والد محترم شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کا شمار برصغیر کے جید علمائے دین میں ہوتا تھا اور دنیا بھر میں مقیم ہزاروں علمائے کرام نے ان سے تعلیم حاصل کی تھی جبکہ جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ [[ فضل الرحمان|مولانا فضل الرحمان]] سمیت دیگر جید عالم بھی جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں، ان کا مدرسہ حقانیہ دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتب فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانہ جاتا ہے۔ | |||
مولانا سمیع الحق نے 1946 میں دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں تعلیم شروع کی جس کی بنیاد ان کے والد محترم نے رکھی تھی۔ وہاں انہوں نے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا،ان کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو اور علاقائی زبان پشتو پر بھی عبور حاصل تھا۔مولانا سمیع الحق کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (س)حکمران جماعت پاکستان [[پاکستان تحریک انصاف|تحریک انصاف]] کی اتحادی تھی اور کے پی کے حکومت نے ان کے مدرسے میں جدید نصاب کے لیےبھاری فنڈنگ بھی کی تھی جس پر مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر مخالف سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید بھی کی تھی ۔ | |||
دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی، اردو، عربی، پشتو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ | دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی، اردو، عربی، پشتو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ | ||
انہوں نے مدرسہ حقانیہ سے [[فقہ]]، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، عربی گرامر، تفسیر اور [[حدیث]] کا علم سیکھا۔ انہیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور پشتو سمیت دیگر علاقائی زبانوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ | انہوں نے مدرسہ حقانیہ سے [[فقہ]]، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، عربی گرامر، تفسیر اور [[حدیث]] کا علم سیکھا۔ انہیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور پشتو سمیت دیگر علاقائی زبانوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ | ||
| سطر 27: | سطر 31: | ||
سند فضیلت و فراغت اور سند دورہ تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث بھی تھے اور علما میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ | سند فضیلت و فراغت اور سند دورہ تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث بھی تھے اور علما میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ | ||
1988ء میں مولانا عبدالحق کی وفات کے بعد مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بن گئے تھے، یہ بھی مانا جاتا ہے کہ طالبان کے متعدد سرکردہ رہنماؤں نے ان کے مدرسے سے تعلیم حاصل کی، جس کی وجہ سے انہیں ’فادر آف طالبان‘ بھی کہا جاتا تھا۔ | 1988ء میں مولانا عبدالحق کی وفات کے بعد مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بن گئے تھے، یہ بھی مانا جاتا ہے کہ طالبان کے متعدد سرکردہ رہنماؤں نے ان کے مدرسے سے تعلیم حاصل کی، جس کی وجہ سے انہیں ’فادر آف طالبان‘ بھی کہا جاتا تھا۔ | ||
== سیاسی سرگرمیاں == | == سیاسی سرگرمیاں == | ||
سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مولانا سمیع الحق [[جمعیت علماء اسلام پاکستان|جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)]] کا اہم حصہ تھے اور اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے سے قبل 1970، 1977 اور 1985 کے انتخابات کی کامیابی سے مہم چلائی اور رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ | سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مولانا سمیع الحق [[جمعیت علماء اسلام پاکستان|جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)]] کا اہم حصہ تھے اور اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے سے قبل 1970، 1977 اور 1985 کے انتخابات کی کامیابی سے مہم چلائی اور رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ | ||
نسخہ بمطابق 04:41، 5 مارچ 2025ء
| سمیع الحق | |
|---|---|
| دوسرے نام | فادر آف طالبان |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش کی جگہ | خیبر پختونخوا ضلع نوشہرہ پاکستان |
| یوم وفات | 2 نومبر |
| وفات کی جگہ | راولپنڈی |
| مذہب | اسلام، سنی |
| مناصب | جمعیت علمائے اسلام کا سربراہ |
سمیع الحق
سوانح عمری
جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق) کے سربراہ مولانا سمیع الحق 1937 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی جس کی بنیاد ان کے والد مولانا عبدالحق نے رکھی تھی۔
تعلیم
ان کے والد محترم شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کا شمار برصغیر کے جید علمائے دین میں ہوتا تھا اور دنیا بھر میں مقیم ہزاروں علمائے کرام نے ان سے تعلیم حاصل کی تھی جبکہ جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر جید عالم بھی جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں، ان کا مدرسہ حقانیہ دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتب فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانہ جاتا ہے۔
مولانا سمیع الحق نے 1946 میں دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں تعلیم شروع کی جس کی بنیاد ان کے والد محترم نے رکھی تھی۔ وہاں انہوں نے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا،ان کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو اور علاقائی زبان پشتو پر بھی عبور حاصل تھا۔مولانا سمیع الحق کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (س)حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی تھی اور کے پی کے حکومت نے ان کے مدرسے میں جدید نصاب کے لیےبھاری فنڈنگ بھی کی تھی جس پر مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر مخالف سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید بھی کی تھی ۔
دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی، اردو، عربی، پشتو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے مدرسہ حقانیہ سے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، عربی گرامر، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔ انہیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور پشتو سمیت دیگر علاقائی زبانوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔
سند فضیلت و فراغت اور سند دورہ تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث بھی تھے اور علما میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ 1988ء میں مولانا عبدالحق کی وفات کے بعد مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بن گئے تھے، یہ بھی مانا جاتا ہے کہ طالبان کے متعدد سرکردہ رہنماؤں نے ان کے مدرسے سے تعلیم حاصل کی، جس کی وجہ سے انہیں ’فادر آف طالبان‘ بھی کہا جاتا تھا۔
سیاسی سرگرمیاں
سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مولانا سمیع الحق جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کا اہم حصہ تھے اور اس جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے سے قبل 1970، 1977 اور 1985 کے انتخابات کی کامیابی سے مہم چلائی اور رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ لیکن سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمعیت علمائے اسلام میں اختلافات پیدا ہوئے، ان کے نتیجے میں مولانا سمیع الحق نے اپنی سابقہ جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق گروپ) کی بنیاد رکھی۔
آپ 1974 کی تحریک ختم نبوت اور 1977 کی تحریک نظام مصطفیٰ کا بھی اہم حصہ تھے۔ وہ 83-1985 تک جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی امور کی صدارتی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ آپ 1985 میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور سینیٹ میں تاریخی شریعت بل پیش کیا۔ 1991 میں وہ ایک مرتبہ پھر اگلے 6سال کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے اور کئی اہم کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔
مولانا سمیع الحق کا سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں بھی اہم کردار رہا اور وہ طالبان کے تمام دھڑوں میں یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کے مدرسہ حقانیہ سے افغان طالبان کے امیر ملا عمر نے بھی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کے ملا عمر سے انتہائی قریبی مراسم تھے۔ آپ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے بانی اراکین میں شامل تھے جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔
مولانا سمیع الحق نے پولیو کے خلاف حکومتی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جب 2013 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پولیو کے حفاظتی قطروں کی مہم کو غیراسلامی قرار دیا تھا, تو اس وقت مولانا سمیع الحق نے اس مہم کے حق میں فتویٰ جاری کیا تھا۔ دسمبر 2013 میں سمیع الحق کی جانب سے دیئے گئے فتوے میں کہا گیا تھا کہ مہلک بیماریوں کے خلاف حفاظتی قطرے پولیو کے خلاف بچاؤ میں مددگار ہوتے ہیں اور طبی ماہرین کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤکے قطرے کسی بھی طرح سے مضر نہیں ہیں۔
طالبان پر اثرورسوخ کے سبب افغانستان کی جانب سے مولانا سمیع الحق سے مستقل مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ افغانستان میں امن اور سیاسی حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ وزیر اعظم عمران خان کا بھی مولانا سمیع الحق سے قریبی تعلق رہا جس کی وجہ سےموجودہ وزیر اعظم کو کئی مرتبہ ’طالبان خان‘ کا لقب دیا گیا۔ رواں سال سینیٹ الیکشن میں عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود مولانا سمیع الحق کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا سمیع الحق کی عمر 80سال سے زائد تھی اور آج راولپنڈی کی نجی سوسائٹی میں واقع گھر میں انہیں چھریوں کے وار کر کے ہلاک کردیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے[1]۔
لاہور(خالد شہزاد فاروقی)راولپنڈی کی مشہور ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنے گھر پر شہید ہونے والے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق پاکستانی سیاست میں کئی دہائیوں سے نمایاں مقام رکھتے تھے ،ان کا شمار پاکستان کے جید علمائے کرام میں سر فہرست تھا جبکہ ملکی سیاست میں بھی انہوں نے انمٹ نقوش چھوڑے ،وہ ملکی سیاست میں قائم ہونے والے کئی اتحادوں میں اہم حیثیت رکھتے تھے، جہاد افغانستان میں بھی ان کے مدرسے نے اہم کردار ادا کیا جبکہ افغان طالبان میں بھی وہ ’’باپ ‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے ،مولانا سمیع الحق پر اس سے قبل بھی کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں لیکن ان حملوں میں وہ ہمیشہ محفوظ رہے۔
وفات
تفصیلات کے مطابق ملک کے بڑے اور قدیم دینی ادارے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتم ،جمعیت علمائے اسلام (س) اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق راولپنڈی کی مشہور ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے سفاری ولاز میں رہائش پذیر تھے کہ نامعلوم افراد نے انہیں گھر میں گھس کر چاقوؤں کے بے رحمانہ وار کرتے ہوئے شہید کر دیا ،حملہ آوروں نے جس وقت یہ سفاکانہ کام کیا اس وقت مولانا سمیع الحق اپنے گھر میں اکیلے تھے ،ان کے داماد اور گن مین قریبی مارکیٹ میں گئے ہوئے تھے ،کچھ دیر بعد جب وہ گھر واپس آئے تو بیڈ روم میں ان کی خون میں لت پت لاش پڑی ہوئی تھی ۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج ( منگل) کا دن کیسا رہے گا ؟
مولانا سمیع الحق نے ملک کی دینی و مذہبی سیاست میں انتہائی متحرک کردار ادا کیا ،وہ دو بار سینیٹ کے رکن بھی رہے ہیں،وہ 1985ء سے 1991ء اور 1991ء سے 1997ء تک سینیٹر رہے جبکہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا تھا تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے ،وہ متحدہ دینی محاذ کے بھی بانی تھے جو پاکستان کے چھوٹے مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے بھی وہ سربراہ تھے جس میں پاکستان کی بڑی مذہبی و سیاسی جماعتیں جن میں جماعت الدعوۃ ، اہلسنت والجماعت ،عوامی مسلم لیگ سمیت دیگر بھی شامل تھیں ۔مولانا سمیع الحق نےمختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کر ’’ملی یکجہتی کونسل ‘‘اور دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تاہم وہ بعض اختلافات کے باعث ایم ایم اے سے علیحدہ ہو گئے تھے ۔افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے مذہبی تنظیموں کا ایک اتحاد’’دفاع پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ بھی بنایا تھا جس نے امریکی حملوں کے خلاف پورے ملک میں بڑے بڑے مظاہرے کیے ،اس اتحاد میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر)حمید گل اور شیخ رشید احمد بھی شامل تھے ۔مولانا سمیع الحق افغان طالبان پر کافی اثرو رسوخ رکھتے تھے اور ملا عمر جو طالبان کے بانی اور امیر تھے کہ بارے میں کہا جا تا تھا کہ وہ مولانا سمیع الحق کے شاگرد ہیں،وہ جہادی رہنماؤں کے لیے ’’روحانی باپ‘‘ کی سی حیثیت رکھتے تھے،مولانا جلال الدین حقانی کے علاوہ کالعدم تحریکِ طالبان کے بھی کئی رہنما ان کے شاگرد رہے اور پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کا بھی وہ حصہ تھے،افغانستان میں دیر پا امن اور استحکام کے سلسلے میں اکثر پاکستانی اور افغان اعلیٰ حکام ان سے ملاقاتیں کرتے تھے جبکہ حال ہی میں افغان حکومت کے ایک وفد نے دالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے افغان امن عمل کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی ۔افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے مذہبی تنظیموں کا ایک اتحاد بھی بنایا تھا، جس نے امریکی حملوں کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے کیے۔
صرف 100 ڈالر سے 2 ارب ڈالر کی سلطنت کھڑی کرنے والا شخص
مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت کیا تھا کہ وہ ایک محب وطن اور پر امن پاکستانی ہیں ،انہوں نے کبھی بھی ملک میں پر تشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس کی مذمت کی ،مولانا سمیع الحق نے ایک ایسے وقت میں پولیو سے بچاؤ کی سرکاری مہم کی حمایت کی تھی جب طالبان اس کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔مولانا سمیع الحق کے افسوسناک قتل کے تانے بانے افغان انٹیلی جنس سے ملتے نظر آتے ہیں، بظاہر پاکستان میں کسی گروہ سے مولانا سمیع الحق کی ایسی دشمنی نہ تھی کہ ان کو یوں قتل کیا جاتا، پاکستانی حساس اداروں سے انکے اچھے مراسم رہے ہیں جبکہ ہر مشکل مرحلہ میں انہوں نے پاکستانی اداروں کی مدد کی تھی جبکہ ’’پاک افغان طالبان‘‘ بھی انہیں عزت دیتے تھے مگر حتمی بات پھر بھی تحقیقات کے بعد ہی پتہ چل سکے گی کہ مولانا سمیع الحق کے اصل قاتل کون تھے اور اس قتل کی اصل وجہ کیا تھی ؟۔
حوالہ جات
- ↑ مولانا سمیع الحق کون تھے؟- شائع شدہ از: 2 نومبر 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 مارچ 2025ء۔