"سید ثاقب اکبر" کے نسخوں کے درمیان فرق
(ایک ہی صارف کا 30 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
سطر 2: | سطر 2: | ||
| title = سید ثاقب اکبر | | title = سید ثاقب اکبر | ||
| image = سید ثاقب اکبر.jpg | | image = سید ثاقب اکبر.jpg | ||
| name = | | name = نقی علی ثاقب نقوی | ||
| other names = | | other names = سید ثاقب اکبر | ||
| brith year = 1956 | | brith year = 1956 ء | ||
| brith date = | | brith date = | ||
| birth place = [[پاکستان]] | | birth place = [[پاکستان]] | ||
| death year = 2023 | | death year = 2023 ء | ||
| death date = | | death date = | ||
| death place = | | death place = | ||
سطر 18: | سطر 18: | ||
| website = | www.albasirah.com | | website = | www.albasirah.com | ||
}} | }} | ||
'''سید ثاقب اکبر''' ادب کے علما میں ایک معروف شخصیت اور پاکستان کے تعلیمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ وہ ترجمہ میں سرگرم تھے اور انہوں نے ایک سیریز کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مختلف تعلیمی مضامین پر تحقیق کرنا اور تعلیمی وسائل کا ترجمہ اور اشاعت کرنا تھا۔ اپنی تمام تر تحقیقی اور سماجی سرگرمیوں کے باوجود انہوں نے ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ وہ اتحاد اور جدید اسلامی تہذیب کے فروغ میں ایک فعال پاکستانی مفکر تھے۔ سید ثاقب اکبر نے جن موضوعات سے خطاب کیا ان میں مختلف قسم کے مذہبی، سماجی، ملکی اور بین الاقوامی مسائل اور تشریح، سوانح حیات، دینی تعلیمات، مسلم دنیا کے مسائل اور [[پاکستان]] کے مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے سائنسی حلقوں کے سامنے تقریبا 50 جلدوں کی تالیف اور ترجمہ پیش کیا ہے۔ | '''سید ثاقب اکبر''' ادب کے علما میں ایک معروف شخصیت اور [[پاکستان]] کے تعلیمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ وہ ترجمہ میں سرگرم تھے اور انہوں نے ایک سیریز کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مختلف تعلیمی مضامین پر تحقیق کرنا اور تعلیمی وسائل کا ترجمہ اور اشاعت کرنا تھا۔ اپنی تمام تر تحقیقی اور سماجی سرگرمیوں کے باوجود انہوں نے ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ وہ اتحاد اور جدید اسلامی تہذیب کے فروغ میں ایک فعال پاکستانی مفکر تھے۔ سید ثاقب اکبر نے جن موضوعات سے خطاب کیا ان میں مختلف قسم کے مذہبی، سماجی، ملکی اور بین الاقوامی مسائل اور تشریح، سوانح حیات، دینی تعلیمات، مسلم دنیا کے مسائل اور [[پاکستان]] کے مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے سائنسی حلقوں کے سامنے تقریبا 50 جلدوں کی تالیف اور ترجمہ پیش کیا ہے۔ | ||
== پیدائش | == پیدائش == | ||
وہ 1956 میں پاکستان میں پیدا ہوئے۔ | وہ 1956 میں پاکستان میں پیدا ہوئے۔ | ||
== خاندانی پس منظر و ابتدائی تعلیم == | == خاندانی پس منظر و ابتدائی تعلیم == | ||
سید ثاقب اکبر لاہور کے نواحی علاقے جھگیاں جودھا کے ایک نقوی البخاری خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے آباو اجداد اہل علم و عرفان ہیں۔ سید ثاقب اکبر کے دادا پیر سید امام علی شاہ قادری نوشاہی سلسلے میں بیعت ہوئے۔ سید امام علی شاہ کا مزار جگھیاں جودھا میں مرجع خلائق ہے آپ ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ سید ثاقب اکبر پیر سید امام علی شاہ کے فرزند سید اکبر علی شاہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ | سید ثاقب اکبر لاہور کے نواحی علاقے جھگیاں جودھا کے ایک نقوی البخاری خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے آباو اجداد اہل علم و عرفان ہیں۔ سید ثاقب اکبر کے دادا پیر سید امام علی شاہ قادری نوشاہی سلسلے میں بیعت ہوئے۔ سید امام علی شاہ کا مزار جگھیاں جودھا میں مرجع خلائق ہے آپ ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ سید ثاقب اکبر پیر سید امام علی شاہ کے فرزند سید اکبر علی شاہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ | ||
سید ثاقب نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول بیرون بھاٹی دروازہ لاہور سے حاصل کی، گریجویشن ایم اے او کالج لاہور سے کی۔ اس کے بعد یو ای ٹی لاہور سے سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ کے شعبے میں انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ جناب سید ثاقب اکبر 1989میں چند دیگر رفقا کے ہمراہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے قم المقدسہ ایران چلے گئے۔ جہاں سے فراغت کے بعد ان رفقا کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے اور یہاں ایک علمی و تحقیقی ادارے اخوت اکادمی کی بنیاد | سید ثاقب نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول بیرون بھاٹی دروازہ لاہور سے حاصل کی، گریجویشن ایم اے او کالج لاہور سے کی۔ اس کے بعد یو ای ٹی لاہور سے سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ کے شعبے میں انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ جناب سید ثاقب اکبر 1989میں چند دیگر رفقا کے ہمراہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے قم المقدسہ ایران چلے گئے۔ جہاں سے فراغت کے بعد ان رفقا کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے اور یہاں ایک علمی و تحقیقی ادارے اخوت اکادمی کی بنیاد رکھی <ref>عباس، اسد (2012). جلوہ جلی پیر سید امام علی. اسلام آباد: البصیرہ پبلیکیشنز. صفحات 27–28</ref>. | ||
انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز موجودہ دور کے اہم اور بااثر افکار و شخصیات جیسے [[امام خمینی]]، علامہ [[اقبال لاہوری]] اور شہید مرتضیٰ مطہری سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے مختلف تصانیف کا ترجمہ کرکے کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی تاکہ بین المسلمین اتحاد کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھنے والوں کی جانب سے تحقیقی سرگرمیوں کے آغاز کی راہ ہموار کی جا سکے۔ | انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز موجودہ دور کے اہم اور بااثر افکار و شخصیات جیسے [[امام خمینی]]، علامہ [[اقبال لاہوری]] اور شہید مرتضیٰ مطہری سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے مختلف تصانیف کا ترجمہ کرکے کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی تاکہ بین المسلمین اتحاد کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھنے والوں کی جانب سے تحقیقی سرگرمیوں کے آغاز کی راہ ہموار کی جا سکے۔ | ||
== اخوت ریسرچ اکادمی == | == اخوت ریسرچ اکادمی == | ||
اخوت اکادمی کی بنیاد 1995 میں رکھی گئی۔پاکستان میں موجود کئی اسکالرز اس علمی ادارے سے وابستہ رہے۔اس اکادمی میں تفسیر قرآن،علوم حدیث، کلام جدید، فقہ، اصول فقہ اور فلسفہ جیسے بنیادی اسلامی علوم کے حوالے سے مختلف کام کیے گئے۔اسی طرح قومی و بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والے سیمینارز کے لیے علمی، اخلاقی اور معلوماتی موضوعات پرتحقیقی مقالے لکھے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز استقامت سے جاری ہے۔ اس اکیڈمی کے تحت کئی ایک تحقیقی مجلات کا اجرا کیا گیا جن میں ماہنامہ پیام اور سہ ماہی المیزان قابل ذکر ہیں۔ سہ ماہی المیزان کئی برس تک جاری رہا البتہ پیام کی اشاعت کا سلسلہ قائم ہے۔اس کا مقصد تشنگان علم کی تحقیقی پیاس کو بجھانا،اور معاشرے میں حقیقی اسلامی اقدار کا فروغ ہے۔پاکستان میں موجود گوناگوں مسائل کے حل کے لیے ایک مخلصانہ اور ذمہ دارانہ موقف کا اظہار بھی اس مجلے کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔اسی طرح پاکستان میں محقیقن اور مترجمین کی تربیت کے لیے باقاعدہ اداروں کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے اخوت ریسرچ اکیڈمی میں باقاعدہ ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن سیکشن قائم کیا جہاں مترجمین اور محققین کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ذمہ دارانہ صحافت کے شعبے میں بھی جناب ثاقب اکبر کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔وہ نہ فقط خود مختلف ملکی،بین الاقوامی،سیاسی اور سماجی موضوعات پرلکھتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے تربیت کا ایک نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔ان کے تربیت یافتہ دسیوں صحافی اس وقت عملی صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ | اخوت اکادمی کی بنیاد 1995 میں رکھی گئی۔پاکستان میں موجود کئی اسکالرز اس علمی ادارے سے وابستہ رہے۔اس اکادمی میں تفسیر قرآن،علوم حدیث، کلام جدید، فقہ، اصول فقہ اور فلسفہ جیسے بنیادی اسلامی علوم کے حوالے سے مختلف کام کیے گئے۔اسی طرح قومی و بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والے سیمینارز کے لیے علمی، اخلاقی اور معلوماتی موضوعات پرتحقیقی مقالے لکھے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز استقامت سے جاری ہے۔ اس اکیڈمی کے تحت کئی ایک تحقیقی مجلات کا اجرا کیا گیا جن میں ماہنامہ پیام اور سہ ماہی المیزان قابل ذکر ہیں۔ سہ ماہی المیزان کئی برس تک جاری رہا البتہ پیام کی اشاعت کا سلسلہ قائم ہے۔اس کا مقصد تشنگان علم کی تحقیقی پیاس کو بجھانا،اور معاشرے میں حقیقی اسلامی اقدار کا فروغ ہے۔پاکستان میں موجود گوناگوں مسائل کے حل کے لیے ایک مخلصانہ اور ذمہ دارانہ موقف کا اظہار بھی اس مجلے کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔اسی طرح پاکستان میں محقیقن اور مترجمین کی تربیت کے لیے باقاعدہ اداروں کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے اخوت ریسرچ اکیڈمی میں باقاعدہ ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن سیکشن قائم کیا جہاں مترجمین اور محققین کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ذمہ دارانہ صحافت کے شعبے میں بھی جناب ثاقب اکبر کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔وہ نہ فقط خود مختلف ملکی،بین الاقوامی،سیاسی اور سماجی موضوعات پرلکھتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے تربیت کا ایک نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔ان کے تربیت یافتہ دسیوں صحافی اس وقت عملی صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ <ref>البصیرہ. 21 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2020</ref>. | ||
== البصیرہ انسٹی ٹیوٹ میں سرگرمیاں == | == البصیرہ انسٹی ٹیوٹ میں سرگرمیاں == | ||
قم میں المصطفیٰ سوسائٹی میں دینی علوم مکمل کرنے کے بعد العالمیہ پاکستان واپس آئے اور فوری طور پر غیر منافع بخش البصیرہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد البصیرہ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، اس کی سرگرمیوں کا دائرہ قرآن مجید کی تفسیر کے میدان سے لے کر علم حدیث، نئی الہیات، فقہ، اصولوں اور فلسفے اور دیگر اسلامی علوم تک پھیل چکا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ بین الاقوامی اور قومی سطح پر سیمیناروں کے لئے سائنسی اور تحقیقی مقالے تیار کرنے پر بھی کام کرتا ہے۔ | قم میں المصطفیٰ سوسائٹی میں دینی علوم مکمل کرنے کے بعد العالمیہ پاکستان واپس آئے اور فوری طور پر غیر منافع بخش البصیرہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد البصیرہ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، اس کی سرگرمیوں کا دائرہ قرآن مجید کی تفسیر کے میدان سے لے کر علم حدیث، نئی الہیات، فقہ، اصولوں اور فلسفے اور دیگر اسلامی علوم تک پھیل چکا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ بین الاقوامی اور قومی سطح پر سیمیناروں کے لئے سائنسی اور تحقیقی مقالے تیار کرنے پر بھی کام کرتا ہے۔ | ||
سطر 37: | سطر 36: | ||
ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکل۔۔۔اللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے۔ مذہبی۔۔۔فرقہ وارانہ۔۔۔ لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط باخدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ نبیا کے نام لیواؤں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔ | ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکل۔۔۔اللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے۔ مذہبی۔۔۔فرقہ وارانہ۔۔۔ لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط باخدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ نبیا کے نام لیواؤں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔ | ||
مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔ قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوںکو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔ ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکل۔۔۔اللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے. | مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔ قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوںکو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔ ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکل۔۔۔اللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ | ||
ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے.ذہبی۔ فرقہ وارانہ۔ لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط باخدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ انبیا کے نام لیوائوں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔ مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔ | |||
قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوںکو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ | |||
انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔ ہمارے مطالعے کے مطابق تمام ادیان کی بنیادی کتب میں بہت سے حقائق اور انبیا کی تعلیمات کابہت سا حصہ موجود ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے پاس موجود سرمایہ ان سب میں سے محفوظ تر ہے۔ خصوصاً قرآن حکیم کا کسی انسانی دست برد سے محفوظ رہ کر ہم تک پہنچ جانا انسانی تاریخ کا عظیم معجزہ ہے اور پروردگار کا اس زمین کے باسیوں پر خصوصی فضل و احسان ہے۔ مسلمانوں میں بہت سے فرق کے باوجود ایسے عقیدتی اور عملی مشترکات موجود ہیں جو انھیں ایک امت تشکیل دینے کے لیے کافی ہیں۔ شاید طاغوتی طاقتوں کو اسی امر کا ادراک ہے جس کے باعث آج اللہ کی اس زمین پر ان کی بیشتر ابلیسی سازشوں کا شکار یہی گئے گذرے مسلمان ہیں اور سب سے زیادہ ظلم کا شکار آج کے مسلمان ہی ہیں۔ | |||
برصغیر کی تقسیم کے بارے میں درستی و نادرستی کی بحث سے قطع نظر معروضی عالمی حالات کے تناظر میں ہم پاکستان کے وجود اور استحکام کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔نظریات اور عقائد تو آفاقی ہی ہونے چاہئیں لیکن اس امر سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ہر انسان اس دنیا میں زمان و مکان کی قید میں ہے۔ تاریخ کے ایک خاص دور اور اس زمین کے ایک خاص علاقے۔۔۔ اسی طرح خاص رنگ، نسل اور زبان سے۔۔۔ نیز خاص حالات سے اس کا تعلق جبری ہوتا ہے لیکن انسان کے ارادے کی قوت اسے فطری طور پر دعوت دیتی ہے کہ تاریخ کا رخ اپنی مرضی کی سمت میں موڑنے کی جدوجہد کرے۔ معروضی حالات جہاں قوموں میں فرق رکھتے ہیں وہاں ایک ہی دور کے افراد کے لیے بسا بلکہ شاید ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باعث حکمت عملی کے تقاضے بھی مختلف ہوجاتے ہیں <ref>تعارف البصیرہ ٹرسٹ 20 اکتوبر 2020 میں</ref>۔ | |||
=== البصیرہ کے قیام کے مقاصد === | |||
* [[اسلام]] کی آفاقی تعلیمات کا فروغ اور اشاعت۔ | |||
* ہر قسم کے تعصب، فرقہ واریت، کم نظری، شخصیت پرستی، جمود اور منفی مرعوبیت کا مقابلہ۔ | |||
* انسانوں کے لیے سعادت بخش دین کے انسانی پیغام کا احیا۔ | |||
* دور حاضر میں نوع انسانی کو درپیش بنیادی مسائل اور چیلنجوں کا ادراک اور ان کے حل کے مطالعاتی اور فکری روش کا فروغ۔ | |||
* پاکستان کی مشکلات و مسائل کا مطالعہ اور ان کے علمی و تحقیقی حل کی جدوجہد۔ | |||
* ہر قسم کے فلاحی کاموں کی انجام دہی اور جو افراد یا ادارے یہ کام انجم دے رہے ہوں ان کے ساتھ دست تعاون بڑھانا۔ | |||
اس ادارے کے پروگرام میں شامل ہے کہ: | |||
* اسلامی وطن پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے درکار لٹریچر فراہم کیا جائے۔ | |||
* اسلام کے آسمانی و الٰہی پیغام و نظام کے ماننے والوں کے مابین ٹھوس، آگاہانہ اور باغور ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کیا جائے۔ | |||
* اہل تحقیق و جستجو کی علمی و تحقیقی امداد کی جائے۔ | |||
* جدید و قدیم علوم اور ان کے ماہرین کے مابین ہم آہنگی اور مطالعات و تحقیقات کا تبادلہ کیا جائے۔ | |||
* اہل علم و دانش کے درمیان ایک علمی ارتباط پیدا کیا جائے. | |||
== آراء اور آراء کا ایک حصہ == | |||
آج پاکستان میں یہ مسئلہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ایک بار پھر امریکہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے واضح طور پر کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم پر عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ وہ حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنے وسائل اور رابطے استعمال کرتا ہے۔ اس کی جو وجوہات دی گئی ہیں وہ درست ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ پہلے ہی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ امریکی سیاستدانوں اور وزرائے خارجہ کی کتابوں میں ایسے شواہد اور وجوہات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی ہے۔ | |||
موجودہ حالات میں جو منظر نامہ ابھر رہا ہے اس سے اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ اس سب کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے 2018 میں پاکستان کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کو اپنایا ہے۔ | |||
14 مارچ 2022 کو گفتگو کی ویب سائٹ کے ساتھ ان کے انٹرویو کے ایک حصے میں، انہوں نے کچھ اہم بین الاقوامی معاملات پر کچھ یوں تبصرہ کیا: ماضی میں، پاکستان نے امریکہ کی ایک فون کال میں اپنی خارجہ پالیسی اور پوزیشن تبدیل کی ہے۔ روس اور یوکرین کے معاملے میں بھی پاکستان سے غیر جانبدار رہنے کی امید تھی۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ کال روس کے دورے سے پہلے ہی امریکہ سے کی گئی تھی۔ | |||
وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان روس کے قریب آئے۔ جب پاکستانی وزیر اعظم واپس آئے تو روس یوکرین پر حملہ کر چکا تھا۔ ادھر پاکستان میں مقیم یورپی سفیروں نے روس کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کی حمایت کے لیے پاکستانی حکومت کو خط لکھ دیا۔ جو پاکستان میں خوشگوار نہیں تھا۔ 6 مارچ کو ایک ملاقات میں پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ یورپ نے غلطی کی ہے اور یورپی سفیروں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے ہندوستان کو بھی ایسا ہی خط لکھا ہے | |||
== سید ثاقب اکبر کے نظریات کا خلاصہ == | |||
# آپ کے نظریات کے حوالے سے چند باتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں: | |||
# آپ کائنات کی مادی تعبیر کو اس کا ناقص تصور قرار دیتے ہیں اور اس کی روحانی تعبیر کے قائل ہیں۔ | |||
# آپ انسانی مساوات اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں۔آپ دین کی آفاقی اور انسانی تعلیمات پر زور دیتے ہیں اور اس کی محدود شناخت کو جمود اور تعصب کا سرچشمہ گردانتے ہیں۔ | |||
# آپ نظریہ اجتہاد کے علمبردار ہیں اور زمان و مکان کی تبدیلی سے حکم کی تبدیلی کے امکان پر مسلسل نظر رکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ | |||
# آپ انسانی وحدت،انسانی احترام اور قانونی مساوات کو توحید پرستی کے معاشرتی مظاہر میں سے قرار دیتے ہیں۔توحید پرستی ہی کو آپ شخصیت پرستی اور ہر نوع کی غلامی سے نجات کے لیے ناگزیر عقیدہ قرار دیتے ہیں۔ | |||
# آپ آزادی فکر اور حریت عقیدہ کے پرچم بردار ہیں، اس طرح سے کہ ہر کوئی دوسرے کے لیے اس آزادی و حریت کا عملی طور پر قائل ہو۔ | |||
# آپ استعمار اور استثمار کی ہر شکل کے مخالف ہیں اور استعماری قوتوں اور عناصر کے خلاف قوموں اور ملتوں کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں <ref>[https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D8%AB%D8%A7%D9%82%D8%A8_%D8%A7%DA%A9%D8%A8%D8%B1 اردو ویکیپیڈیا سے ماخوذ]</ref>۔ | |||
== پاکستان کے استحکام میں اہل تشیع کے کردار کے موضوع پر ورچوئل سیمینار میں خطاب == | |||
اس سیمینار میں اپنے خطاب میں انہوں نے شہید حجۃ الاسلام و المسلمین شہید [[سید عارف الحسینی]] کے افکار کو واضح کرنے اور شیعہ اور سنی کے درمیان اخوت و اتحاد پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا: اگست ہمارے لیے ایک اہم موقع ہے۔ جس سے ہم پاکستان کے لیے بین الاقوامی استعمار سے آزادی چاہتے ہیں۔ محمد علی جناح کی قیادت میں شیعہ اور سنی نے پاکستان کی آزادی اور آزادی کے لیے سخت محنت کی اور اگر ہم مل کر کوشر کی تعمیر و ترقی کے لیے تعاون کریں گے تو ہم اپنے مقاصد اور مقاصد حاصل کر لیں گے۔ | |||
== وفات == | |||
ان کا انتقال 21 فروری 2023 بروز منگل طویل علالت کے باعث ہوا اور ان کی نماز جنازہ اور تدفین 22 فروری 2023 بروز بدھ امام صادق مسجد اسلام آباد میں بعد نماز ظہر منعقد ہوئی اور اس کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ شاہ اللہ دتہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ | |||
== حواله جات == | |||
{{حوالہ جات}} | |||
{{پاکستان}} | |||
[[زمرہ:شخصیات]] | |||
[[زمرہ:پاکستان]] |
حالیہ نسخہ بمطابق 15:37، 5 فروری 2024ء
سید ثاقب اکبر | |
---|---|
پورا نام | نقی علی ثاقب نقوی |
دوسرے نام | سید ثاقب اکبر |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1956 ء، 1334 ش، 1375 ق |
پیدائش کی جگہ | پاکستان |
وفات | 2023 ء، 1401 ش، 1444 ق |
مذہب | اسلام |
اثرات | محقق، دانشور، شاعر، سماجی رہنما |
سید ثاقب اکبر ادب کے علما میں ایک معروف شخصیت اور پاکستان کے تعلیمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ وہ ترجمہ میں سرگرم تھے اور انہوں نے ایک سیریز کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مختلف تعلیمی مضامین پر تحقیق کرنا اور تعلیمی وسائل کا ترجمہ اور اشاعت کرنا تھا۔ اپنی تمام تر تحقیقی اور سماجی سرگرمیوں کے باوجود انہوں نے ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ وہ اتحاد اور جدید اسلامی تہذیب کے فروغ میں ایک فعال پاکستانی مفکر تھے۔ سید ثاقب اکبر نے جن موضوعات سے خطاب کیا ان میں مختلف قسم کے مذہبی، سماجی، ملکی اور بین الاقوامی مسائل اور تشریح، سوانح حیات، دینی تعلیمات، مسلم دنیا کے مسائل اور پاکستان کے مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے سائنسی حلقوں کے سامنے تقریبا 50 جلدوں کی تالیف اور ترجمہ پیش کیا ہے۔
پیدائش
وہ 1956 میں پاکستان میں پیدا ہوئے۔
خاندانی پس منظر و ابتدائی تعلیم
سید ثاقب اکبر لاہور کے نواحی علاقے جھگیاں جودھا کے ایک نقوی البخاری خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے آباو اجداد اہل علم و عرفان ہیں۔ سید ثاقب اکبر کے دادا پیر سید امام علی شاہ قادری نوشاہی سلسلے میں بیعت ہوئے۔ سید امام علی شاہ کا مزار جگھیاں جودھا میں مرجع خلائق ہے آپ ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ سید ثاقب اکبر پیر سید امام علی شاہ کے فرزند سید اکبر علی شاہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔
سید ثاقب نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول بیرون بھاٹی دروازہ لاہور سے حاصل کی، گریجویشن ایم اے او کالج لاہور سے کی۔ اس کے بعد یو ای ٹی لاہور سے سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ کے شعبے میں انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ جناب سید ثاقب اکبر 1989میں چند دیگر رفقا کے ہمراہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے قم المقدسہ ایران چلے گئے۔ جہاں سے فراغت کے بعد ان رفقا کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے اور یہاں ایک علمی و تحقیقی ادارے اخوت اکادمی کی بنیاد رکھی [1].
انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز موجودہ دور کے اہم اور بااثر افکار و شخصیات جیسے امام خمینی، علامہ اقبال لاہوری اور شہید مرتضیٰ مطہری سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے مختلف تصانیف کا ترجمہ کرکے کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی تاکہ بین المسلمین اتحاد کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھنے والوں کی جانب سے تحقیقی سرگرمیوں کے آغاز کی راہ ہموار کی جا سکے۔
اخوت ریسرچ اکادمی
اخوت اکادمی کی بنیاد 1995 میں رکھی گئی۔پاکستان میں موجود کئی اسکالرز اس علمی ادارے سے وابستہ رہے۔اس اکادمی میں تفسیر قرآن،علوم حدیث، کلام جدید، فقہ، اصول فقہ اور فلسفہ جیسے بنیادی اسلامی علوم کے حوالے سے مختلف کام کیے گئے۔اسی طرح قومی و بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والے سیمینارز کے لیے علمی، اخلاقی اور معلوماتی موضوعات پرتحقیقی مقالے لکھے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز استقامت سے جاری ہے۔ اس اکیڈمی کے تحت کئی ایک تحقیقی مجلات کا اجرا کیا گیا جن میں ماہنامہ پیام اور سہ ماہی المیزان قابل ذکر ہیں۔ سہ ماہی المیزان کئی برس تک جاری رہا البتہ پیام کی اشاعت کا سلسلہ قائم ہے۔اس کا مقصد تشنگان علم کی تحقیقی پیاس کو بجھانا،اور معاشرے میں حقیقی اسلامی اقدار کا فروغ ہے۔پاکستان میں موجود گوناگوں مسائل کے حل کے لیے ایک مخلصانہ اور ذمہ دارانہ موقف کا اظہار بھی اس مجلے کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔اسی طرح پاکستان میں محقیقن اور مترجمین کی تربیت کے لیے باقاعدہ اداروں کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے اخوت ریسرچ اکیڈمی میں باقاعدہ ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن سیکشن قائم کیا جہاں مترجمین اور محققین کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ذمہ دارانہ صحافت کے شعبے میں بھی جناب ثاقب اکبر کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔وہ نہ فقط خود مختلف ملکی،بین الاقوامی،سیاسی اور سماجی موضوعات پرلکھتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے تربیت کا ایک نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔ان کے تربیت یافتہ دسیوں صحافی اس وقت عملی صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ [2].
البصیرہ انسٹی ٹیوٹ میں سرگرمیاں
قم میں المصطفیٰ سوسائٹی میں دینی علوم مکمل کرنے کے بعد العالمیہ پاکستان واپس آئے اور فوری طور پر غیر منافع بخش البصیرہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد البصیرہ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، اس کی سرگرمیوں کا دائرہ قرآن مجید کی تفسیر کے میدان سے لے کر علم حدیث، نئی الہیات، فقہ، اصولوں اور فلسفے اور دیگر اسلامی علوم تک پھیل چکا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ بین الاقوامی اور قومی سطح پر سیمیناروں کے لئے سائنسی اور تحقیقی مقالے تیار کرنے پر بھی کام کرتا ہے۔
ماہنامہ پیام اور المیزان سہ ماہی میگزین البصیرہ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے جس کا مقصد معاشرے میں اسلامی اقدار کو فروغ دینا اور سائنس اور علم کے پیاسے لوگوں کی پیاس بجھانا ہے۔ ذمہ دارانہ موقف اور ارادوں کی پاکیزگی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں مختلف مسائل اور چیلنجوں کو حل کرنا ان جرائد کی اشاعت کا ایک اور مقصد ہے۔
غرض و غایت البصیرہ کو بیان کرتے ہوئے سید ثاقب اکبر لکھتے ہیں
ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکل۔۔۔اللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے۔ مذہبی۔۔۔فرقہ وارانہ۔۔۔ لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط باخدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ نبیا کے نام لیواؤں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔
مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔ قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوںکو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔ ہماری رائے میں آج کے انسان کی بنیادی مشکل۔۔۔اللہ تعالیٰ اور جہان ماورائے مادہ سے اس کا عدم تعلق یا تعلق کی کمزوری ہے۔
ضرورت ہے کہ اس تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کی تقویت کی جائے۔ وہ عناصر جو اس تعلق میں حائل ہیں وہ اسے کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے خلاف جہاد آج کا کارپیغمبری ہے.ذہبی۔ فرقہ وارانہ۔ لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب ہماری رائے میں ارتباط باخدا میں حائل عناصر میں سے ہیں۔ انبیا کے نام لیوائوں نے ان کی تعلیمات کی بنیادوں اور مقاصد کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان توحید کے عظیم علمبرداروں کو بت بنا لیا ہے۔ مذہب زیادہ تر ذاتی، شخصی اور انفرادی مسئلہ بن گیا ہے اور اجتماعی زندگی سے نکل گیا ہے۔ اس امر کا حقیقی شعور مذہب کے علمبرداروں کو بھی کم ہے۔ دین کی آفاقی قدروں کو اجتماع پر شعوری طریقے سے حاکم کرنے کی اجتماعی جدوجہد کی شدت سے ضرورت ہے۔
قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔قومی ریاستوں کا موجودہ عالمی نظام مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے شیطانی مفادات کے لیے قائم کیا ہے۔ اس طرح سے انھوں نے اللہ کے بندوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کی سرزمینوںکو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔
انھوں نے ان پر اپنے مفادات کے محافظ حکمران مسلط کیے ہیں اورخود پھر اجتماعی تشکل اختیار کرنے کی طرف گامزن ہیں تاکہ اپنی اجتماعی قوت سے چھوٹی اور کمزور قومی ریاستوں کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ ہندوستان کی تقسیم انگریزوں نے اس طرح سے کی ہے کہ اس خطے کے انسان مسلسل اس کے منفی اثرات کا شکارہیں۔ ہمارے مطالعے کے مطابق تمام ادیان کی بنیادی کتب میں بہت سے حقائق اور انبیا کی تعلیمات کابہت سا حصہ موجود ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے پاس موجود سرمایہ ان سب میں سے محفوظ تر ہے۔ خصوصاً قرآن حکیم کا کسی انسانی دست برد سے محفوظ رہ کر ہم تک پہنچ جانا انسانی تاریخ کا عظیم معجزہ ہے اور پروردگار کا اس زمین کے باسیوں پر خصوصی فضل و احسان ہے۔ مسلمانوں میں بہت سے فرق کے باوجود ایسے عقیدتی اور عملی مشترکات موجود ہیں جو انھیں ایک امت تشکیل دینے کے لیے کافی ہیں۔ شاید طاغوتی طاقتوں کو اسی امر کا ادراک ہے جس کے باعث آج اللہ کی اس زمین پر ان کی بیشتر ابلیسی سازشوں کا شکار یہی گئے گذرے مسلمان ہیں اور سب سے زیادہ ظلم کا شکار آج کے مسلمان ہی ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے بارے میں درستی و نادرستی کی بحث سے قطع نظر معروضی عالمی حالات کے تناظر میں ہم پاکستان کے وجود اور استحکام کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔نظریات اور عقائد تو آفاقی ہی ہونے چاہئیں لیکن اس امر سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ہر انسان اس دنیا میں زمان و مکان کی قید میں ہے۔ تاریخ کے ایک خاص دور اور اس زمین کے ایک خاص علاقے۔۔۔ اسی طرح خاص رنگ، نسل اور زبان سے۔۔۔ نیز خاص حالات سے اس کا تعلق جبری ہوتا ہے لیکن انسان کے ارادے کی قوت اسے فطری طور پر دعوت دیتی ہے کہ تاریخ کا رخ اپنی مرضی کی سمت میں موڑنے کی جدوجہد کرے۔ معروضی حالات جہاں قوموں میں فرق رکھتے ہیں وہاں ایک ہی دور کے افراد کے لیے بسا بلکہ شاید ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باعث حکمت عملی کے تقاضے بھی مختلف ہوجاتے ہیں [3]۔
البصیرہ کے قیام کے مقاصد
- اسلام کی آفاقی تعلیمات کا فروغ اور اشاعت۔
- ہر قسم کے تعصب، فرقہ واریت، کم نظری، شخصیت پرستی، جمود اور منفی مرعوبیت کا مقابلہ۔
- انسانوں کے لیے سعادت بخش دین کے انسانی پیغام کا احیا۔
- دور حاضر میں نوع انسانی کو درپیش بنیادی مسائل اور چیلنجوں کا ادراک اور ان کے حل کے مطالعاتی اور فکری روش کا فروغ۔
- پاکستان کی مشکلات و مسائل کا مطالعہ اور ان کے علمی و تحقیقی حل کی جدوجہد۔
- ہر قسم کے فلاحی کاموں کی انجام دہی اور جو افراد یا ادارے یہ کام انجم دے رہے ہوں ان کے ساتھ دست تعاون بڑھانا۔
اس ادارے کے پروگرام میں شامل ہے کہ:
- اسلامی وطن پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے درکار لٹریچر فراہم کیا جائے۔
- اسلام کے آسمانی و الٰہی پیغام و نظام کے ماننے والوں کے مابین ٹھوس، آگاہانہ اور باغور ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کیا جائے۔
- اہل تحقیق و جستجو کی علمی و تحقیقی امداد کی جائے۔
- جدید و قدیم علوم اور ان کے ماہرین کے مابین ہم آہنگی اور مطالعات و تحقیقات کا تبادلہ کیا جائے۔
- اہل علم و دانش کے درمیان ایک علمی ارتباط پیدا کیا جائے.
آراء اور آراء کا ایک حصہ
آج پاکستان میں یہ مسئلہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ایک بار پھر امریکہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے واضح طور پر کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم پر عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ وہ حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنے وسائل اور رابطے استعمال کرتا ہے۔ اس کی جو وجوہات دی گئی ہیں وہ درست ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ پہلے ہی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ امریکی سیاستدانوں اور وزرائے خارجہ کی کتابوں میں ایسے شواہد اور وجوہات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی ہے۔
موجودہ حالات میں جو منظر نامہ ابھر رہا ہے اس سے اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ اس سب کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے 2018 میں پاکستان کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کو اپنایا ہے۔
14 مارچ 2022 کو گفتگو کی ویب سائٹ کے ساتھ ان کے انٹرویو کے ایک حصے میں، انہوں نے کچھ اہم بین الاقوامی معاملات پر کچھ یوں تبصرہ کیا: ماضی میں، پاکستان نے امریکہ کی ایک فون کال میں اپنی خارجہ پالیسی اور پوزیشن تبدیل کی ہے۔ روس اور یوکرین کے معاملے میں بھی پاکستان سے غیر جانبدار رہنے کی امید تھی۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ کال روس کے دورے سے پہلے ہی امریکہ سے کی گئی تھی۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان روس کے قریب آئے۔ جب پاکستانی وزیر اعظم واپس آئے تو روس یوکرین پر حملہ کر چکا تھا۔ ادھر پاکستان میں مقیم یورپی سفیروں نے روس کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کی حمایت کے لیے پاکستانی حکومت کو خط لکھ دیا۔ جو پاکستان میں خوشگوار نہیں تھا۔ 6 مارچ کو ایک ملاقات میں پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ یورپ نے غلطی کی ہے اور یورپی سفیروں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے ہندوستان کو بھی ایسا ہی خط لکھا ہے
سید ثاقب اکبر کے نظریات کا خلاصہ
- آپ کے نظریات کے حوالے سے چند باتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں:
- آپ کائنات کی مادی تعبیر کو اس کا ناقص تصور قرار دیتے ہیں اور اس کی روحانی تعبیر کے قائل ہیں۔
- آپ انسانی مساوات اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں۔آپ دین کی آفاقی اور انسانی تعلیمات پر زور دیتے ہیں اور اس کی محدود شناخت کو جمود اور تعصب کا سرچشمہ گردانتے ہیں۔
- آپ نظریہ اجتہاد کے علمبردار ہیں اور زمان و مکان کی تبدیلی سے حکم کی تبدیلی کے امکان پر مسلسل نظر رکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔
- آپ انسانی وحدت،انسانی احترام اور قانونی مساوات کو توحید پرستی کے معاشرتی مظاہر میں سے قرار دیتے ہیں۔توحید پرستی ہی کو آپ شخصیت پرستی اور ہر نوع کی غلامی سے نجات کے لیے ناگزیر عقیدہ قرار دیتے ہیں۔
- آپ آزادی فکر اور حریت عقیدہ کے پرچم بردار ہیں، اس طرح سے کہ ہر کوئی دوسرے کے لیے اس آزادی و حریت کا عملی طور پر قائل ہو۔
- آپ استعمار اور استثمار کی ہر شکل کے مخالف ہیں اور استعماری قوتوں اور عناصر کے خلاف قوموں اور ملتوں کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں [4]۔
پاکستان کے استحکام میں اہل تشیع کے کردار کے موضوع پر ورچوئل سیمینار میں خطاب
اس سیمینار میں اپنے خطاب میں انہوں نے شہید حجۃ الاسلام و المسلمین شہید سید عارف الحسینی کے افکار کو واضح کرنے اور شیعہ اور سنی کے درمیان اخوت و اتحاد پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا: اگست ہمارے لیے ایک اہم موقع ہے۔ جس سے ہم پاکستان کے لیے بین الاقوامی استعمار سے آزادی چاہتے ہیں۔ محمد علی جناح کی قیادت میں شیعہ اور سنی نے پاکستان کی آزادی اور آزادی کے لیے سخت محنت کی اور اگر ہم مل کر کوشر کی تعمیر و ترقی کے لیے تعاون کریں گے تو ہم اپنے مقاصد اور مقاصد حاصل کر لیں گے۔
وفات
ان کا انتقال 21 فروری 2023 بروز منگل طویل علالت کے باعث ہوا اور ان کی نماز جنازہ اور تدفین 22 فروری 2023 بروز بدھ امام صادق مسجد اسلام آباد میں بعد نماز ظہر منعقد ہوئی اور اس کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ شاہ اللہ دتہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
حواله جات
- ↑ عباس، اسد (2012). جلوہ جلی پیر سید امام علی. اسلام آباد: البصیرہ پبلیکیشنز. صفحات 27–28
- ↑ البصیرہ. 21 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2020
- ↑ تعارف البصیرہ ٹرسٹ 20 اکتوبر 2020 میں
- ↑ اردو ویکیپیڈیا سے ماخوذ