"گلگت بلتستان" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| (ایک ہی صارف کا 14 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
| سطر 1: | سطر 1: | ||
'''گلگت''' شمالی علاقہ جات دور دارز اور دنیا کے بلندترین علاقوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے زمانہ قدیم میں دنیا سے اوجھل رہے۔ یہ خطہ اپنے جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے ایسے حصے میں واقع ہے، جو انتہائی اہم ہے۔ زمانہ عتیق میں وسط ایشیاء اور چین کو دنیا سے ملانے والا یہ واحد راستہ تھا۔ آزادی سے پہلے یہ علاقے دنیا کی تین بڑی سلطنتوں، چین، روس، اور ہندوستان کے مابین بحیثیت بفر سٹیٹ (Buffer State) واقع تھے۔ انگریزوں کی جب کشمیر کے بارے میں ڈوگروں سے سودے بازے ہو گئی تو گلگت بلتستان کے علاقے ڈوگروں کی تحویل میں چلے گئے، لیکن یہاں کی ریاستیں بدستور یہاں کے میروں اور راجوں کے قبضے میں رہیں۔ 1935ء میں ان علاقوں کی سرحدوں کی حفاظت کے تناظر میں انگزیوں ںے گلگت بلتستان کو 60 سالہ لیز پر ڈوگروں سے حاصل کر لیا اور یہاں پر مقامی جوانوں پر مشتمل ایک ملیشیا فوج '''گلگت سکاؤٹس'''کے نام سے بنا ڈالی، جس نے یکم نومبر 1947ء کو یہاں علم بغاوت بغاوت بلند کرتے ہوئے ڈوگروں کی غلامی کا طوق اتار پھینکا <ref>میجر ولیم الیگزنڈر براؤن، بغاوت گلگت، مترجم، ظفر حیات پال، 2009ء،ص29</ref>۔ مہاراجہ کی فوج متعین بونجی کے سکستھ کشمیر انفنٹری کے کیپٹن حسن خان (بعد میں ریٹائرڈ کرنل) نے گلگت کی آزادی کے بعد [[پاکستان]] سے الحاق کرنے بجائے گلگت بلتستان کو ایک الگ [[شیعہ]] ریاست بنانے کی کوشش کی تھی، جس کے لیے اس نے باقاعدہ ایک عبوری کیبنٹ بھی تشکیل دی تھی۔ | [[فائل: گلگت2025.jpg|تصغیر|بائیں|]] | ||
'''گلگت بلتستان''' (انگریزی: Gilgit Baltistan شینا زبان (گِلِیٗتْ پَلوٗلْ) [[پاکستان]] کا پانچوان صوبہ ہے۔ 1840سے پہلے یہ علاقے مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن میں بلتستان، گلگت شامل ہیں اس کے علاؤہ ہنزہ، نگر الگ خود مختار علاقے تھے۔ ان علاقوں میں گلگت اور بلتستان کو جنرل زور اور سنگھ نے فتح کر لیا اور ریاست جموں کشمیر میں شامل کر دیا۔ تقسیم ہند کے وقت ریاست کشمیر کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا معاملہ اٹھا، ریاست کے اکثریتی باشندوں کی خواہش کے برخلاف مہارجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اس وقت گلگت سکاوٹس کے مقامی افسران کی رہنمائی میں مقامی لوگوں مہاراجا کشمیر کی افواج کے خلاف بغاوت کی اور انھیں شکست دیکر گلگت سمیت، دیامر، استور اور بلتستان کے اکثریتی علاقے آزاد کرا لیے۔ کچھ دن گلگت میں مقامی لوگوں کی حکومت رہی اس کے بعد پاکستان کی طرف سے پولیٹکل ایجنٹ بھیج کر اپنے زیر انتظام کیا گیا۔ ریاست کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں گیا، لیکن تاحال اقوام عالم ہندوستان اور پاکستان کو اس مسئلے کے حل پر متفق نہیں کر سکی ہیں۔ | |||
== آبادی == | |||
گلگت بلتستان کی آبادی تقریباً 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے ۔ شینا، بلتی ،بروشسکی، کھوار اور وخی یہاں کی مشہور زبانیں ہیں، جبکہ سب سے بڑی زبان شینا ہے جو 65 فیصد لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے تین ڈویژن ہیں؛ بلتستان ، دیامیراور گلگت۔ بلتستان ڈویژن سکردو،شگر،کھرمنگ اور گانچھے کے اضلاع پر مشتمل ہے ۔ گلگت ڈویژن گلگت،غذر، ہنزہ اورنگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ جب کہ دیا میر ڈویژن داریل،تانگیر،استوراور دیامرکے اضلاع پر مشتمل ہے ۔ | |||
== جغرافیا == | |||
گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں [[افغانستان]] کی واخان کی پٹی ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے [[مسلمان|مسلم]] اکثریتی صوبے سنکیانگ کا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر، جنوب میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جبکہ مغرب میں پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں <ref>شمالی علاقہ جات کو صوبائی حیثیت دینے کا اعلان روزنامہ آج، 4 ستمبر 2009ء</ref>۔ | |||
== سیاسی صورتحال == | |||
چینی سیاح فاہیان جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو پورے گلگت بلتستان پے پھیلی ہوئی تھی اور اس کا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا۔ پھر ساتھویں صدی میں اس کے بعض حصے تبت کی شاہی حکومت میں چلے گئے پھر نویں صدی میں یہ مقامی ریاستوں میں بٹ گئی جن میں سکردو کے مقپون اور ہنزہ کے ترکھان خاندان مشہور ہیں مقپون خاندان کے راجاؤں نے بلتستان سمیت لداخ،گلگت اور چترال تک کے علاقوں پر حکومت کی احمد شاہ مقپون اس خاندا کا آخری راجا تھا جسے ڈوگرہ افواج نے ایک ناکام بغاوت میں 1840ء میں قتل کر ڈالا پھر 1947ء میں بر صغیر کے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہاں بھی آزادی کی شمع جلنے لگی کرنل مرزا حسن خان نے اپنے ساتھیوں کے ہماراہ پورے علاقے کو ڈوگرہ استبداد سے آزاد کر ڈالا۔ | |||
== آزادی == | |||
گلگت اور بلتستان۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجا نے ان علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر و اقصاے تبت میں شامل تھا۔ 1948ء میں اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اس آزادی کا آغاز گلگت سے ہوا اور یکم نومبر 1947 کو گلگت پر ریاستی افواج کے مسلمان افسروں نے قبضہ کر لیا اور آزاد جمہوریہ گلگت کا اعلان کر دیا اس آزادی کے سولہ دن بعد پاکستان نے آزاد ریاست ختم کر کے ایف سی آر نافذ کر دیا۔ | |||
== نیم صوبائی حیثیت == | |||
آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا لیکن، 2009ء میں [[پاکستان پیپلز پارٹی]] کی مرکزی حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیے۔ یہ واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں چار ملکوں سے ملتی ہیں نیز پاکستان اور بھارت تین جنگیں سن 1948 کی جنگ، کارگل جنگ اور سیاچن جنگ اسی خطے میں لڑے ہیں۔ جبکہ سن1971 کی جنگ میں میں اس کے کچھ سرحدی علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جس میں کئی پاکستان کے کئی گاؤں بھارتی قبضے میں چلے گئے اور بھارت کے کئی گاؤں پاکستان کے قبضے میں چلے گئے۔ | |||
انہی وجوہات کی بنا پر یہ علاقہ دفاعی طور پر ایک اہم علاقہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہیں سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ 2009ء میں اس علاقے کو نیم صوبائی حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں عام انتخابات کروائے گئے، جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے <ref>گلگت بلتستان: مہدی شاہ نئے وزیر اعلیٰ بی بی سی اردو، 11 دسمبر، 2009ء</ref>۔ | |||
[[عمران خان]] نے 2020 میں گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کا اعلان کر دیا۔ نئے صوبوں کو پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دی جائے گی لیکن اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے ختم ہونے تک خطے کو نہ آئینی صوبے کا درجہ ملا اور نہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملی <ref>[https://www.hindustantimes.com/world-news/imran-khan-announces-provincial-status-for-[gilgit-baltistan-despite-anger-at-home-opposition-from-india/story-589JQ9iMb9JlbS2Ix6ittN.html Imran Khan announces provincial status for Gilgit-Baltistan despite anger at home, opposition from Ind ]- شائع شدہ از: 1 نومبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 اکتوبر 2025ء</ref>۔ | |||
== اقتصادی ترقی == | |||
سیاحت نسبتاً ترقی یافتہ ہے، پاکستان شاہراہ قراقرم کے ذریعے چین کے سنکیانگ سے منسلک ہے اور گلگت پاک چین اقتصادی راہداری کے مرکزوں میں سے ایک ہے <ref>"اقتصادی راہداری کی حفاظت کے لیے ایف سی تعینات کی جائے گی"۔ BBC۔ 2016</ref>۔ | |||
== اضلاع اور اعداد و شمار == | |||
گلگت بلتستان اب چودہ اضلاع پر مشتمل ہے جن میں سے پانچ بلتستان میں، پانچ گلگت اور چار دیامرکے اضلاع ہیں۔ | |||
ڈویژن اضلاع رقبہ (مربع کلومیٹر) آبادی (2013ء) مرکز | |||
=== بلتستان === | |||
* ضلع سکردو 8,000 305,000 سکردو | |||
* ضلع گانچھے 9,400 خپلو | |||
* ضلع شگر 8,500 شگرٹاون | |||
* ضلع کھرمنگ 5,500 طولتی | |||
* ضلع روندو ڈمبوداس | |||
=== دیامر === | |||
* ضلع استور 8,657 114,000 گوری کوٹ/عید گاہ | |||
* ضلع دیامر 10,936 چلا | |||
* ضلع داریل | |||
* ضلع تانگیر | |||
=== گلگت === | |||
* ضلع غذر 9,635 190,000 گاہکوچ | |||
* ضلع گلگت | |||
* ضلع ہنزہ 20,057 70,000 علی آبادضلع یاسین | |||
* ضلع نگر 51,387 (1998) | |||
گلگت و بلتستان۔ مجموعاً 14 اضلاع 72,971 1،996,797 گلگت | |||
گلگت و بلتستان کے کل رقبہ کا درست شمار دستیاب نہیں اور مختلف جگہ مختلف رقبے ملتے ہیں اس لیے یہاں صرف تمام رقبوں کا درست مجموعہ دیا گیا ہے۔ | |||
=== ضلع نگر === | |||
نگر جو کبھی ماضی میں ایک خود مختار ریاست تھی پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ یہاں کے باشندوں کو بروشو اور ان کی بولی کو بروشسکی کہا جاتا ہے۔ بروشو لوگوں کو شمال کے قدیم ترین باشند ے اور اولین آبادکار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہاں کے لوگوں کی زبان بروشسکی ہے۔ یہاں شیعہ مسلمان آباد ہیں ضلع نگر کا کل رقبہ 5000 کلومیٹر ہے۔ آج کل نگر 3 سب ڈویژنوں پر مشتمل ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً 115000 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔ نگر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ | |||
یہ پہلے بروشال کے نام سے مشہور تھا جس کا دار الحکومت کیپل ڈونگس تھا۔ جہاں کا بادشاہ تھم کہلاتا تھا۔ اور یہ آج کے نگر اور ھنزہ پر مشتمل تھا۔ چونکہ کیپل ڈونگس کے چاروں اطراف برفانی گلیشرتھے جن کے بڑھنے سے وہاں کی نظام آبپاشی سخت متاثر ہوا۔ وہاں سے لوگ ہوپر میں آکر آبار ہوئے۔ اس کے بعد راجا میور خان کے بیثوں (مغلوٹ اور گرکس نے بروشال کو نگر اور ھنزہ میں تقسیم کیا۔ نگر اور ھنزہ چھو ٹی ریاستں تھیں اور یہ اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ چین سے آنے والی تجارتی قافلوں کو لوٹ کر حاصل کرتی تھیں۔ | |||
چونکہ انگریز یہاں سے روس تک تجارت کرنا چاہتے تھے لیکن یہ ریاستیں ایسا کرنے سے روک رہی تھی اس لیے1891میں کرنل ڈیورنڈ کی سربراہی میں نگر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور نگر کی طرف چڑہائی شروع کی۔ انگریزوں نے چھ مہینوں تک نلت قلعہ کا محاصرہ کیا۔ آخر کار ایک غدار کی مدد سے انگریز فوج قلعے کی اوپر والی چوٹی پر پہچ گھی۔ اور قلعے پر حملہ کیا اور یوں نگر کی ہزاروں سال پر مشتمل آزادی ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں انگریزفوج کو چار وکٹوریہ کراس ملے جو اصل نگر کی چھوٹی سی فو ج کی بہادری کا اعتراف ہے۔ | |||
== تاریخ == | |||
شمالی علاقہ جات دور دارز اور دنیا کے بلندترین علاقوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے زمانہ قدیم میں دنیا سے اوجھل رہے۔ یہ خطہ اپنے جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے ایسے حصے میں واقع ہے، جو انتہائی اہم ہے۔ زمانہ عتیق میں وسط ایشیاء اور چین کو دنیا سے ملانے والا یہ واحد راستہ تھا۔ آزادی سے پہلے یہ علاقے دنیا کی تین بڑی سلطنتوں، چین، روس، اور ہندوستان کے مابین بحیثیت بفر سٹیٹ (Buffer State) واقع تھے۔ انگریزوں کی جب کشمیر کے بارے میں ڈوگروں سے سودے بازے ہو گئی تو گلگت بلتستان کے علاقے ڈوگروں کی تحویل میں چلے گئے، لیکن یہاں کی ریاستیں بدستور یہاں کے میروں اور راجوں کے قبضے میں رہیں۔ 1935ء میں ان علاقوں کی سرحدوں کی حفاظت کے تناظر میں انگزیوں ںے گلگت بلتستان کو 60 سالہ لیز پر ڈوگروں سے حاصل کر لیا اور یہاں پر مقامی جوانوں پر مشتمل ایک ملیشیا فوج '''گلگت سکاؤٹس'''کے نام سے بنا ڈالی، جس نے یکم نومبر 1947ء کو یہاں علم بغاوت بغاوت بلند کرتے ہوئے ڈوگروں کی غلامی کا طوق اتار پھینکا <ref>میجر ولیم الیگزنڈر براؤن، بغاوت گلگت، مترجم، ظفر حیات پال، 2009ء،ص29</ref>۔ مہاراجہ کی فوج متعین بونجی کے سکستھ کشمیر انفنٹری کے کیپٹن حسن خان (بعد میں ریٹائرڈ کرنل) نے گلگت کی آزادی کے بعد [[پاکستان]] سے الحاق کرنے بجائے گلگت بلتستان کو ایک الگ [[شیعہ]] ریاست بنانے کی کوشش کی تھی، جس کے لیے اس نے باقاعدہ ایک عبوری کیبنٹ بھی تشکیل دی تھی۔ | |||
== جغرافیا == | |||
گلگت (Gilgit) پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم کے قریب واقع ہے۔ دریائے گلگت اس کے پاس سے گزرتا ہے۔ گلگت ایجنسی کے مشرق میں کارگل شمال میں چین شمال مغرب میں [[افغانستان]] مغرب میں چترال اور جنوب مشرق میں بلتستان کا علا قہ ہے۔دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم اس کے قریب ہی ہے۔ یہاں کی زبان شینا ہے لیکن اردو عام سمجھی جاتی ہے۔ چین سے تجارت کا مرکز ہے۔ | |||
کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی اور شمال کی دوسری بلند چوٹیاں سر کرنے والے یہاں آتے ہیں۔يهاں كى خاص بات بلندو بالاپہاڑ اور یہاں کے بہتے ہوئے دریا اور سبزدار ہیں۔گلگت شہر میں تین سے زیادہ مسالک کے لوگ آباد ہیں جن میں سنی ،شیعہ اسماعیلی مسلک اور [[نوربخشیہ]] مسلک کے لوگ شامل ہیں گلگت شہر کے آس پاس سنی مسلک کی آبادی زیادہ ہے۔ | |||
شہر گلگت صوبہ گلگت بلستان کا دار الحکومت ہے یہ علاقہ . یکم نومبر ١٩٤٧ کو ڈوگرا راج سے آذادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان، پاکستان سے ملحق ہوا تاہم قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کی وجہ سے اور پاکستان کے انتظامی مشکلات کی وجہ سے تا دم تحریر پاکستان کے قومی اسمبلی میں نمائندگی موجود نہیں۔ | |||
== مذہبی صورتحال == | == مذہبی صورتحال == | ||
یہ علاقے اپنے حدود اربعہ کے لحاظ سے سنی فرقہ سے تعلق رکھنے والی آبادیوں میں گھرے ہوئے ہیں، جو کچھ یوں ہے کہ گلگت سے پاکستان کی جانب اگر باہر نکلیں تو گلگت کے مضافاتی گاؤں سکوار کے بعد سنی علاقہ شروع ہوجاتا ہے، جبکہ دوسری جانب بلتستان کے لوگ بے شک شیعہ ہیں، لیکن بلتستان اس پار کشمیر بھی سنیوں کا علاقہ ہے۔ علاوہ از این تیسری طرف ضلع غذر میں بھی زیادہ آبادی [[اسماعیلیہ|اسماعیلی]] اور سنی فرقوں کی ہے، شیعہ تعداد میں کم ہیں، جبکہ ضلع غذر کی سرحدوں کی ایک طرف چترال میں بھی اسماعیلی اور [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]] ہی آباد ہیں اور دوسری جانب روس واقع ہے۔ بلاشک کہ گلگت کی چوتھی جانب ریاست نگر شیعوں کی ہے، لیکن اس کے سامنے ریاست ہنزہ کی آبادی اسماعیلی ہے، جہاں ان کے مقابلے میں شیعہ انتہائی قلیل ہے، جبکہ ان دونوں ریاستوں اک سرحدیں ہیں۔ | یہ علاقے اپنے حدود اربعہ کے لحاظ سے سنی فرقہ سے تعلق رکھنے والی آبادیوں میں گھرے ہوئے ہیں، جو کچھ یوں ہے کہ گلگت سے پاکستان کی جانب اگر باہر نکلیں تو گلگت کے مضافاتی گاؤں سکوار کے بعد سنی علاقہ شروع ہوجاتا ہے، جبکہ دوسری جانب بلتستان کے لوگ بے شک شیعہ ہیں، لیکن بلتستان اس پار کشمیر بھی سنیوں کا علاقہ ہے۔ علاوہ از این تیسری طرف ضلع غذر میں بھی زیادہ آبادی [[اسماعیلیہ|اسماعیلی]] اور سنی فرقوں کی ہے، شیعہ تعداد میں کم ہیں، جبکہ ضلع غذر کی سرحدوں کی ایک طرف چترال میں بھی اسماعیلی اور [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]] ہی آباد ہیں اور دوسری جانب روس واقع ہے۔ بلاشک کہ گلگت کی چوتھی جانب ریاست نگر شیعوں کی ہے، لیکن اس کے سامنے ریاست ہنزہ کی آبادی اسماعیلی ہے، جہاں ان کے مقابلے میں شیعہ انتہائی قلیل ہے، جبکہ ان دونوں ریاستوں اک سرحدیں ہیں۔ | ||
== گلگت کے بارے میں == | == گلگت کے بارے میں == | ||
گلگت بلتستان اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتا ہے۔ پاکستان کے شمال میں موجود یہ علاقہ اپنے بلند و بالا پہاڑوں، دلکش دریاوں اور خوشگوار موسموں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ بڑے بہادر اور محنت کش ہوتے ہیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنے خطے کے ساتھ آزاد کشمیر کو بھی بھارتی قبضے سے چھڑانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس خطے کی تاریخ کچھ اس طرح سے ہے۔ چینی سیاح فاہیان جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو پورے گلگت بلتستان پرپھیلی ہوئی تھی اور اس کا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا۔ | گلگت بلتستان اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتا ہے۔ پاکستان کے شمال میں موجود یہ علاقہ اپنے بلند و بالا پہاڑوں، دلکش دریاوں اور خوشگوار موسموں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ بڑے بہادر اور محنت کش ہوتے ہیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنے خطے کے ساتھ آزاد کشمیر کو بھی بھارتی قبضے سے چھڑانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس خطے کی تاریخ کچھ اس طرح سے ہے۔ چینی سیاح فاہیان جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو پورے گلگت بلتستان پرپھیلی ہوئی تھی اور اس کا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا۔ | ||
| سطر 29: | سطر 85: | ||
کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی اور شمال کی دوسری بلند چوٹیاں سر کرنے والے یہاں آتے ہیں۔ یہاں كى خاص بات بلندو بالا پہاڑ اور یہاں کے بہتے ہوئے دریا اور سبزہ ہیں۔ گلگت شہر میں تین سے زیادہ مسالک کے لوگ آباد ہیں جن میں سنی، شیعہ، اسماعیلی مسلک اور نوربخشیہ مسلک کے لوگ شامل ہیں۔ گلگت شہر کے آس پاس سنی مسلک کی آبادی زیادہ ہے شہر گلگت صوبہ گلگت بلتستان کا دارالخلافہ ہے یہ علاقہ یکم نومبر 1947 کو ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان، پاکستان سے ملحق ہوا۔ | کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی اور شمال کی دوسری بلند چوٹیاں سر کرنے والے یہاں آتے ہیں۔ یہاں كى خاص بات بلندو بالا پہاڑ اور یہاں کے بہتے ہوئے دریا اور سبزہ ہیں۔ گلگت شہر میں تین سے زیادہ مسالک کے لوگ آباد ہیں جن میں سنی، شیعہ، اسماعیلی مسلک اور نوربخشیہ مسلک کے لوگ شامل ہیں۔ گلگت شہر کے آس پاس سنی مسلک کی آبادی زیادہ ہے شہر گلگت صوبہ گلگت بلتستان کا دارالخلافہ ہے یہ علاقہ یکم نومبر 1947 کو ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان، پاکستان سے ملحق ہوا۔ | ||
=== 3- اسکردو === | === 3- اسکردو === | ||
[[فائل: سکردو.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
سکردو گلگت بلتستان کا ایک اہم شہر اور ضلع ہے۔ سکردو شہر سلسلہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات میں شنگریلا، سدپارہ جھیل اور کت پناہ جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح سکردو کا رخ کرتے ہیں۔ سکردو میں بسنے والے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں جو تبتی زبان کی ایک شاخ ہے جبکہ سکردو کے لوگ انتہائی ملنسار، خوش مزاج، پر امن اور مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔ | سکردو گلگت بلتستان کا ایک اہم شہر اور ضلع ہے۔ سکردو شہر سلسلہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات میں شنگریلا، سدپارہ جھیل اور کت پناہ جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح سکردو کا رخ کرتے ہیں۔ سکردو میں بسنے والے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں جو تبتی زبان کی ایک شاخ ہے جبکہ سکردو کے لوگ انتہائی ملنسار، خوش مزاج، پر امن اور مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔ | ||
=== 4- سدپارہ جھیل === | === 4- سدپارہ جھیل === | ||
[[فائل:سدپارہ.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
سدپارہ جھیل سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی سکردو شہر سے کچھ دور پر واقع ہے۔ یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دو تین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے یہ تمام مناظر آنکھوں کیلئے صحت افزا احساس لے کر آتے ہیں۔ | سدپارہ جھیل سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی سکردو شہر سے کچھ دور پر واقع ہے۔ یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دو تین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے یہ تمام مناظر آنکھوں کیلئے صحت افزا احساس لے کر آتے ہیں۔ | ||
| سطر 40: | سطر 97: | ||
=== 6- شگر === | === 6- شگر === | ||
[[فائل: شگر.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
شگر پاکستان کے شمالی علاقہ جات بلتستان میں واقع ایک نہایت وسیع اور خوبصورت وادی ہے۔ یہ بلتستان ڈویژن کے کسی بھی ضلع سے رقبہ اور آبادی دونوں لحاظ سے بڑا علاقہ ہے۔ شگر کی آبادی لمسہ نامی گاوں سے شروع ہوتی ہے، یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر شگر خاص آتا ہے جو پورے ضلع کا ہیڈ کوارٹر کہلاتا ہے۔ شگر خاص دریائے باشہ اور دریائے برالدو کا سنگم ہے۔ شگر خاص سے برالدو نالے کی جانب جانے والی سڑک برالدو نالے کے آخری گاوں تستے پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ شگر خاص سے تستے کے بیچ میں یونین کونسل چھورکاہ، الچوڑی اور داسو واقع ہیں۔ یہ ایریا شگر کی داہنی جانب واقع ہے، جس کے اختتام پر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی واقع کے ٹو کے علاوہ گشہ بروم 1، گشہ بروم 2، ٹرانگ اینڈ ٹاور جیسی چوٹیاں بھی برالدو ایریا میں دنیا بھر سے کوہ پیماوں اور سیاحوں کو کھینچ لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ | شگر پاکستان کے شمالی علاقہ جات بلتستان میں واقع ایک نہایت وسیع اور خوبصورت وادی ہے۔ یہ بلتستان ڈویژن کے کسی بھی ضلع سے رقبہ اور آبادی دونوں لحاظ سے بڑا علاقہ ہے۔ شگر کی آبادی لمسہ نامی گاوں سے شروع ہوتی ہے، یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر شگر خاص آتا ہے جو پورے ضلع کا ہیڈ کوارٹر کہلاتا ہے۔ شگر خاص دریائے باشہ اور دریائے برالدو کا سنگم ہے۔ شگر خاص سے برالدو نالے کی جانب جانے والی سڑک برالدو نالے کے آخری گاوں تستے پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ شگر خاص سے تستے کے بیچ میں یونین کونسل چھورکاہ، الچوڑی اور داسو واقع ہیں۔ یہ ایریا شگر کی داہنی جانب واقع ہے، جس کے اختتام پر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی واقع کے ٹو کے علاوہ گشہ بروم 1، گشہ بروم 2، ٹرانگ اینڈ ٹاور جیسی چوٹیاں بھی برالدو ایریا میں دنیا بھر سے کوہ پیماوں اور سیاحوں کو کھینچ لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ | ||
=== 7-دیوسائی نیشنل پارک === | === 7-دیوسائی نیشنل پارک === | ||
[[فائل:دیوسائی.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
گلگت بلتستان میں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی میں بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000 فٹ بلند ہے۔ | گلگت بلتستان میں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی میں بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000 فٹ بلند ہے۔ | ||
=== 7- بلتورو گلیشیر === | === 7- بلتورو گلیشیر === | ||
[[فائل:بلتورو.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
بلتورو گلیشیر قطبین کے بعد سب سے لمبا گلیشیر ہے جو پاکستان کے صوبے گلگت بلتستان کے علاقے بلتستان میں واقع ہے اس کی لمبائی 62 کلومیٹر تک ہے جہاں مشہور زمانہ کے ٹو پہاڑ بھی واقع ہے اسی گلیشیر سے برالدو دریاء نکلتا ہے جو بعد میں دریاۓ سندھ میں جا گرتا ہے۔ اس گلیشیر تک رسائی سکردو شہر سے ہی کی جا سکتی ہے۔ | بلتورو گلیشیر قطبین کے بعد سب سے لمبا گلیشیر ہے جو پاکستان کے صوبے گلگت بلتستان کے علاقے بلتستان میں واقع ہے اس کی لمبائی 62 کلومیٹر تک ہے جہاں مشہور زمانہ کے ٹو پہاڑ بھی واقع ہے اسی گلیشیر سے برالدو دریاء نکلتا ہے جو بعد میں دریاۓ سندھ میں جا گرتا ہے۔ اس گلیشیر تک رسائی سکردو شہر سے ہی کی جا سکتی ہے۔ | ||
=== 8- بیافو گلیشیر === | === 8- بیافو گلیشیر === | ||
[[فائل:بیافو.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
بیافو گلیشیرقراقرم کے پہاڑوں میں واقع 63 کلومیٹر لمبا گلیشیر بلتستان ڈویژن میں واقع ہے۔ یہ آگے جاکر ہسپر گلیشیر سے جاملتا ہے جو ہنزہ میں واقع ہے بلتورو کے بعد یہ تیسرا بڑا گلیشیر ہے۔ یہ علاقہ مارخور ، برفانی چیتا اوربھورے ریچھ کے لیے مشہور ہے۔ | بیافو گلیشیرقراقرم کے پہاڑوں میں واقع 63 کلومیٹر لمبا گلیشیر بلتستان ڈویژن میں واقع ہے۔ یہ آگے جاکر ہسپر گلیشیر سے جاملتا ہے جو ہنزہ میں واقع ہے بلتورو کے بعد یہ تیسرا بڑا گلیشیر ہے۔ یہ علاقہ مارخور ، برفانی چیتا اوربھورے ریچھ کے لیے مشہور ہے۔ | ||
=== 9- قلعہ التیت === | === 9- قلعہ التیت === | ||
[[فائل:بلتت.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
قلعہ التیت گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں بالائی کریم آباد پر واقع ایک قدیم قلعہ ہے۔ یہ اصل میں ریاست ہنزہ کے آبائی حکمرانوں کا گھر تھا جن کے نام کے ساتھ میر لگتا تھا اگرچہ تین صدیوں کے بعد وہ کسی قریبی چھوٹے قلعے بلتیت میں چلے گئے۔ التیت قلعہ اور خاص طور پر شکاری ٹاور کی تقریبا 900 سال پرانی تاریخ ہے جوکہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔ | قلعہ التیت گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں بالائی کریم آباد پر واقع ایک قدیم قلعہ ہے۔ یہ اصل میں ریاست ہنزہ کے آبائی حکمرانوں کا گھر تھا جن کے نام کے ساتھ میر لگتا تھا اگرچہ تین صدیوں کے بعد وہ کسی قریبی چھوٹے قلعے بلتیت میں چلے گئے۔ التیت قلعہ اور خاص طور پر شکاری ٹاور کی تقریبا 900 سال پرانی تاریخ ہے جوکہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔ | ||
=== 10- بلتت قلعہ === | === 10- بلتت قلعہ === | ||
[[فائل:التیت.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
بلتت قلعہ پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع ہے اور نہایت خوبصورت سیاحتی مقام پے<ref>[https://meridharti.pk/gilgit/gilgit/about گلگت کے بارے میں]- شائع شدہ از: 10 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اکتوبر 2025ء</ref>۔ | بلتت قلعہ پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع ہے اور نہایت خوبصورت سیاحتی مقام پے<ref>[https://meridharti.pk/gilgit/gilgit/about گلگت کے بارے میں]- شائع شدہ از: 10 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اکتوبر 2025ء</ref>۔ | ||
== گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کیا کہانی سناتی ہے؟ == | |||
2007ء میں صدر پاکستان نے ترمیم کر کے ناردرن ایریاز فریم ورک آرڈر 1994 کو شمالی علاقہ جات گورننس آرڈر کا نام دیا اور قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا۔ 2009 میں صدر پاکستان [[آصف علی زرداری|آصف زرداری]] نے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کا نفاذ کیا <ref>تحریر:خلیق زیب</ref>۔ | |||
72،496 مربع کلومیٹر پر محیط یہ علاقہ جو پاکستان کے شمال میں واقع ہے گلگت بلتستان کہلاتا ہے۔ گلگت بلتستان عہد قدیم سے ہی انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے جس کی بدولت یہ خطہ آج بھی عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ گلگت ڈوگروں کے تسلط سے یکم نومبر 1947 کو آزاد ہوا اور اسی دن عبوری حکومت کا قیام عمل میں لیا گیا جس کے تحت شاہ رئیس خان کو صدر مقرر کیا گیا۔ 16 دن تک آزاد جمہوریہ میں عبوری حکومت قائم کی گئی اور ساتھ ہی قائد اعظم محمد علی جناح کو خطوط لکھے گئے جن میں گلگت کو فی الفور پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے اور نظم و نسق سنبھالنے کی درخواست کی گئی۔ | |||
16 نومبر کو حکومت پاکستان کا نمائندہ گلگت پہنچا اور گلگت باقاعدہ پاکستان میں شامل ہو گیا جس پر حکومت پاکستان نے ایف سی آر لاگو کیا اور گلگت کو این ڈبلیو ایف پی کے پولیٹیکل ریذیڈنٹ کے ماتحت کر دیا گیا۔ بلتستان 14 اگست 1948 کو آزاد ہوا اور پاکستان نے اپنا نمائندہ بھیج کر اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ | |||
دیامر کی بات کی جائے تو یہ علاقہ 1952 تک علیحدہ حیثیت میں تھا۔ 1952 میں باقاعدہ مشروط معاہدے کے ذریعے پاکستان میں شامل ہوا۔ اس طرح گلگت بلتستان باقاعدہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ کچھ عناصر گلگت بلتستان کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے جی بی کی آئینی حیثیت سے متعلق متضاد بیانات دیتے چلے آ رہے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ جی بی پاکستان کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔ پاکستان نے گلگت بلتستان کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے 1959 میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ولیج ایڈ پروگرام کا آغاز جی بی میں بھی کیا اور بعدازاں 1962 میں اس ادارے کا نام تبدیل کر کے بنیادی جمہوریت رکھا گیا۔ | |||
1969میں جی بی کو ایک الگ انتظامی اکائی کی حیثیت دی گئی، اسے ناردرن ایریاز کا نام دیا گیا اور مشاورتی کونسل کی بنیاد رکھی گئی۔ 1970 میں جی بی کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کے ذریعے ممبران کا انتخاب کیا گیا جن میں گلگت سے 8 اور بلتستان سے 6 نمائندے منتخب ہوئے اور کونسل چیئرمین کا عہدہ ریذیذنٹ کو دیا گیا۔ 1971 میں ناردرن ایریاز ایڈوائزری کونسل کا نفاذ کیا گیا اور ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا۔ | |||
3 جولائی 1975 کو حکومت پاکستان نے ناردرن ایریاز کونسل لیگل فریم ورک آرڈر 1975 کا نفاذ کیا اور نئی اصلاحات پیش کی گئیں۔ اس آرڈر کے نتیجے میں ایڈوائزری کونسل کو ناردرن ایریاز کونسل میں تبدیل کر دیا گیا اور وزیر برائے امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو اس کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد نئے قوانین وضع کیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں؛ | |||
1۔ ناردرن ایریاز الیکشن آرڈر | |||
2۔ ناردرن ایریاز الیکشن رولز | |||
3۔ ناردرن ایریاز الیکٹورل رولز 1975 | |||
ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد یہ کونسل دو سال کے لیے معطل ہوئی اور پھر ختم کر دی گئی۔ 1979 میں مزید اصلاحات نافذ کی گئیں جس کے نتیجے میں اس خطے کو سرکاری سطح پر شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا اور بلدیاتی ادارے قائم کیے گیے۔ ضیاء کے ہی دور میں 1981 کو پاکستان کی مجلس شوریٰ میں جی بی سے 3 ممبران کو بھی رکنیت دی گئی جس پر انڈیا نے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ | |||
12 جون 1994 کو وفاقی حکومت نے لیگل فریم ورک آرڈر 1975 کو ناردرن ایریاز لیگل فریم ورک آرڈر 1994 کے ساتھ تبدیل کر دیا اور بطور قانون کے شاگرد کے مجھے ایک بات پر تعجب اور حیرت ہوئی کہ میری سرزمین میں اتنے عرصے بعد پہلی بار چیف کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور ساتھ ساتھ چیف کمشنر کے عہدے کو چیف سیکرٹری کے عہدے سے تبدیل کر دیا گیا۔ اسی آرڈر کی مہربانی سے کونسل کے چیئرمین اور وائس چئیرمین کے عہدوں کو بھی چیف ایگزیکٹو اور ڈپٹی چیف کا نام دیا گیا۔ اسی آرڈر کی بنیاد پر پہلی مرتبہ سیاسی بنیادوں پر 25 اکتوبر 1994 کو الیکشن منعقد کیے گیے۔ یکم جولائی 2000 کو وفاق نے ایل ایف او 1994 میں مزید ترامیم کیں اور ناردرن ایریاز کونسل کو ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کا درجہ دیا۔ | |||
2007 میں صدر پاکستان نے ترمیم کر کے ناردرن ایریاز فریم ورک آرڈر 1994 کو شمالی علاقہ جات گورننس آرڈر کا نام دیا اور قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا۔ 2009 میں صدر پاکستان آصف زرداری نے مزید اصلاحات کا اعلان کیا اور گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کا نفاذ کیا۔ قانون ساز اسمبلی کی سربراہی قانون ساز اسمبلی کے منتخب شدہ وزیر اعلیٰ کو دی اور خطے کو گلگت بلتستان کا نام اور اس کی پہچان دی گئی۔ قانون ساز اسمبلی کے علاوہ جی بی کونسل کے نام سے سینیٹ طرز کا ایوان بنایا گیا اور وزیر اعظم کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔ | |||
اس آرڈر کے مطابق خارجہ امور، دفاع، شہریت اور کرنسی کے معاملات کے علاوہ 61 شعبہ جات پر قانون سازی کا اختیار جی بی کی قانون ساز اسمبلی کو دیا گیا اور اسی آرڈر کی روشنی میں سپریم اپیلٹ کورٹ کا قیام بھی کیا گیا۔ | |||
2 مئی 2018 کو صدر پاکستان نے ایک اور تبدیلی کرتے ہوئے گلگت بلتستان سیلف گورننس اینڈ امپاورمنٹ آرڈر 2009 کی جگہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا اعلان کیا۔ اس آرڈر کے نتیجے میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا نام تبدیل کر کے گلگت بلتستان اسمبلی رکھا گیا اور وزیر اعظم کو جی بی کے چیف ایگزیکٹو کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کو جی بی اسمبلی کے بنائے گئے کسی بھی قانون کو ویٹو کرنے کی پاور بھی عطا کر دی گئی۔ صدر پاکستان کو بھی کسی بھی قسم کے آرڈر میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا۔ | |||
اس آرڈر کے تحت جی بی کونسل کو تحلیل کیا گیا تھا مگر اس آرڈر کو پہلے سپریم اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کیا گیا جہاں پر اسے معطل کیا گیا تو اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں حکومت جی بی نے چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے مختلف ترامیم کے ساتھ اسے جی بی ریفارمز آرڈر کی شکل میں دوبارہ بحال کیا اور اس آرڈر میں مزید کسی بھی ترمیم کے لیے وفاقی حکومت کو عدالت سے پیشگی اجازت لینے کا پابند کر دیا<ref>[https://urdu.nayadaur.tv/19-Aug-2024/27030 گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کیا کہانی سناتی ہے؟]- شائع شدہ از: 19 اگست 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اگست 2025ء</ref>۔ | |||
== حوالہ جات == | |||
{{حوالہ جات}} | |||
{{پاکستان}} | |||
[[زمرہ:پاکستان]] | |||
حالیہ نسخہ بمطابق 10:47، 11 اکتوبر 2025ء

گلگت بلتستان (انگریزی: Gilgit Baltistan شینا زبان (گِلِیٗتْ پَلوٗلْ) پاکستان کا پانچوان صوبہ ہے۔ 1840سے پہلے یہ علاقے مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن میں بلتستان، گلگت شامل ہیں اس کے علاؤہ ہنزہ، نگر الگ خود مختار علاقے تھے۔ ان علاقوں میں گلگت اور بلتستان کو جنرل زور اور سنگھ نے فتح کر لیا اور ریاست جموں کشمیر میں شامل کر دیا۔ تقسیم ہند کے وقت ریاست کشمیر کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا معاملہ اٹھا، ریاست کے اکثریتی باشندوں کی خواہش کے برخلاف مہارجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اس وقت گلگت سکاوٹس کے مقامی افسران کی رہنمائی میں مقامی لوگوں مہاراجا کشمیر کی افواج کے خلاف بغاوت کی اور انھیں شکست دیکر گلگت سمیت، دیامر، استور اور بلتستان کے اکثریتی علاقے آزاد کرا لیے۔ کچھ دن گلگت میں مقامی لوگوں کی حکومت رہی اس کے بعد پاکستان کی طرف سے پولیٹکل ایجنٹ بھیج کر اپنے زیر انتظام کیا گیا۔ ریاست کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں گیا، لیکن تاحال اقوام عالم ہندوستان اور پاکستان کو اس مسئلے کے حل پر متفق نہیں کر سکی ہیں۔
آبادی
گلگت بلتستان کی آبادی تقریباً 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے ۔ شینا، بلتی ،بروشسکی، کھوار اور وخی یہاں کی مشہور زبانیں ہیں، جبکہ سب سے بڑی زبان شینا ہے جو 65 فیصد لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے تین ڈویژن ہیں؛ بلتستان ، دیامیراور گلگت۔ بلتستان ڈویژن سکردو،شگر،کھرمنگ اور گانچھے کے اضلاع پر مشتمل ہے ۔ گلگت ڈویژن گلگت،غذر، ہنزہ اورنگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ جب کہ دیا میر ڈویژن داریل،تانگیر،استوراور دیامرکے اضلاع پر مشتمل ہے ۔
جغرافیا
گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر، جنوب میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جبکہ مغرب میں پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں [1]۔
سیاسی صورتحال
چینی سیاح فاہیان جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو پورے گلگت بلتستان پے پھیلی ہوئی تھی اور اس کا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا۔ پھر ساتھویں صدی میں اس کے بعض حصے تبت کی شاہی حکومت میں چلے گئے پھر نویں صدی میں یہ مقامی ریاستوں میں بٹ گئی جن میں سکردو کے مقپون اور ہنزہ کے ترکھان خاندان مشہور ہیں مقپون خاندان کے راجاؤں نے بلتستان سمیت لداخ،گلگت اور چترال تک کے علاقوں پر حکومت کی احمد شاہ مقپون اس خاندا کا آخری راجا تھا جسے ڈوگرہ افواج نے ایک ناکام بغاوت میں 1840ء میں قتل کر ڈالا پھر 1947ء میں بر صغیر کے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہاں بھی آزادی کی شمع جلنے لگی کرنل مرزا حسن خان نے اپنے ساتھیوں کے ہماراہ پورے علاقے کو ڈوگرہ استبداد سے آزاد کر ڈالا۔
آزادی
گلگت اور بلتستان۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجا نے ان علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر و اقصاے تبت میں شامل تھا۔ 1948ء میں اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اس آزادی کا آغاز گلگت سے ہوا اور یکم نومبر 1947 کو گلگت پر ریاستی افواج کے مسلمان افسروں نے قبضہ کر لیا اور آزاد جمہوریہ گلگت کا اعلان کر دیا اس آزادی کے سولہ دن بعد پاکستان نے آزاد ریاست ختم کر کے ایف سی آر نافذ کر دیا۔
نیم صوبائی حیثیت
آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا لیکن، 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیے۔ یہ واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں چار ملکوں سے ملتی ہیں نیز پاکستان اور بھارت تین جنگیں سن 1948 کی جنگ، کارگل جنگ اور سیاچن جنگ اسی خطے میں لڑے ہیں۔ جبکہ سن1971 کی جنگ میں میں اس کے کچھ سرحدی علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جس میں کئی پاکستان کے کئی گاؤں بھارتی قبضے میں چلے گئے اور بھارت کے کئی گاؤں پاکستان کے قبضے میں چلے گئے۔
انہی وجوہات کی بنا پر یہ علاقہ دفاعی طور پر ایک اہم علاقہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہیں سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ 2009ء میں اس علاقے کو نیم صوبائی حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں عام انتخابات کروائے گئے، جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے [2]۔
عمران خان نے 2020 میں گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کا اعلان کر دیا۔ نئے صوبوں کو پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دی جائے گی لیکن اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے ختم ہونے تک خطے کو نہ آئینی صوبے کا درجہ ملا اور نہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملی [3]۔
اقتصادی ترقی
سیاحت نسبتاً ترقی یافتہ ہے، پاکستان شاہراہ قراقرم کے ذریعے چین کے سنکیانگ سے منسلک ہے اور گلگت پاک چین اقتصادی راہداری کے مرکزوں میں سے ایک ہے [4]۔
اضلاع اور اعداد و شمار
گلگت بلتستان اب چودہ اضلاع پر مشتمل ہے جن میں سے پانچ بلتستان میں، پانچ گلگت اور چار دیامرکے اضلاع ہیں۔ ڈویژن اضلاع رقبہ (مربع کلومیٹر) آبادی (2013ء) مرکز
بلتستان
- ضلع سکردو 8,000 305,000 سکردو
- ضلع گانچھے 9,400 خپلو
- ضلع شگر 8,500 شگرٹاون
- ضلع کھرمنگ 5,500 طولتی
- ضلع روندو ڈمبوداس
دیامر
- ضلع استور 8,657 114,000 گوری کوٹ/عید گاہ
- ضلع دیامر 10,936 چلا
- ضلع داریل
- ضلع تانگیر
گلگت
- ضلع غذر 9,635 190,000 گاہکوچ
- ضلع گلگت
- ضلع ہنزہ 20,057 70,000 علی آبادضلع یاسین
- ضلع نگر 51,387 (1998)
گلگت و بلتستان۔ مجموعاً 14 اضلاع 72,971 1،996,797 گلگت گلگت و بلتستان کے کل رقبہ کا درست شمار دستیاب نہیں اور مختلف جگہ مختلف رقبے ملتے ہیں اس لیے یہاں صرف تمام رقبوں کا درست مجموعہ دیا گیا ہے۔
ضلع نگر
نگر جو کبھی ماضی میں ایک خود مختار ریاست تھی پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ یہاں کے باشندوں کو بروشو اور ان کی بولی کو بروشسکی کہا جاتا ہے۔ بروشو لوگوں کو شمال کے قدیم ترین باشند ے اور اولین آبادکار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہاں کے لوگوں کی زبان بروشسکی ہے۔ یہاں شیعہ مسلمان آباد ہیں ضلع نگر کا کل رقبہ 5000 کلومیٹر ہے۔ آج کل نگر 3 سب ڈویژنوں پر مشتمل ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً 115000 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔ نگر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
یہ پہلے بروشال کے نام سے مشہور تھا جس کا دار الحکومت کیپل ڈونگس تھا۔ جہاں کا بادشاہ تھم کہلاتا تھا۔ اور یہ آج کے نگر اور ھنزہ پر مشتمل تھا۔ چونکہ کیپل ڈونگس کے چاروں اطراف برفانی گلیشرتھے جن کے بڑھنے سے وہاں کی نظام آبپاشی سخت متاثر ہوا۔ وہاں سے لوگ ہوپر میں آکر آبار ہوئے۔ اس کے بعد راجا میور خان کے بیثوں (مغلوٹ اور گرکس نے بروشال کو نگر اور ھنزہ میں تقسیم کیا۔ نگر اور ھنزہ چھو ٹی ریاستں تھیں اور یہ اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ چین سے آنے والی تجارتی قافلوں کو لوٹ کر حاصل کرتی تھیں۔
چونکہ انگریز یہاں سے روس تک تجارت کرنا چاہتے تھے لیکن یہ ریاستیں ایسا کرنے سے روک رہی تھی اس لیے1891میں کرنل ڈیورنڈ کی سربراہی میں نگر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور نگر کی طرف چڑہائی شروع کی۔ انگریزوں نے چھ مہینوں تک نلت قلعہ کا محاصرہ کیا۔ آخر کار ایک غدار کی مدد سے انگریز فوج قلعے کی اوپر والی چوٹی پر پہچ گھی۔ اور قلعے پر حملہ کیا اور یوں نگر کی ہزاروں سال پر مشتمل آزادی ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں انگریزفوج کو چار وکٹوریہ کراس ملے جو اصل نگر کی چھوٹی سی فو ج کی بہادری کا اعتراف ہے۔
تاریخ
شمالی علاقہ جات دور دارز اور دنیا کے بلندترین علاقوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے زمانہ قدیم میں دنیا سے اوجھل رہے۔ یہ خطہ اپنے جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے ایسے حصے میں واقع ہے، جو انتہائی اہم ہے۔ زمانہ عتیق میں وسط ایشیاء اور چین کو دنیا سے ملانے والا یہ واحد راستہ تھا۔ آزادی سے پہلے یہ علاقے دنیا کی تین بڑی سلطنتوں، چین، روس، اور ہندوستان کے مابین بحیثیت بفر سٹیٹ (Buffer State) واقع تھے۔ انگریزوں کی جب کشمیر کے بارے میں ڈوگروں سے سودے بازے ہو گئی تو گلگت بلتستان کے علاقے ڈوگروں کی تحویل میں چلے گئے، لیکن یہاں کی ریاستیں بدستور یہاں کے میروں اور راجوں کے قبضے میں رہیں۔ 1935ء میں ان علاقوں کی سرحدوں کی حفاظت کے تناظر میں انگزیوں ںے گلگت بلتستان کو 60 سالہ لیز پر ڈوگروں سے حاصل کر لیا اور یہاں پر مقامی جوانوں پر مشتمل ایک ملیشیا فوج گلگت سکاؤٹسکے نام سے بنا ڈالی، جس نے یکم نومبر 1947ء کو یہاں علم بغاوت بغاوت بلند کرتے ہوئے ڈوگروں کی غلامی کا طوق اتار پھینکا [5]۔ مہاراجہ کی فوج متعین بونجی کے سکستھ کشمیر انفنٹری کے کیپٹن حسن خان (بعد میں ریٹائرڈ کرنل) نے گلگت کی آزادی کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے بجائے گلگت بلتستان کو ایک الگ شیعہ ریاست بنانے کی کوشش کی تھی، جس کے لیے اس نے باقاعدہ ایک عبوری کیبنٹ بھی تشکیل دی تھی۔
جغرافیا
گلگت (Gilgit) پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم کے قریب واقع ہے۔ دریائے گلگت اس کے پاس سے گزرتا ہے۔ گلگت ایجنسی کے مشرق میں کارگل شمال میں چین شمال مغرب میں افغانستان مغرب میں چترال اور جنوب مشرق میں بلتستان کا علا قہ ہے۔دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم اس کے قریب ہی ہے۔ یہاں کی زبان شینا ہے لیکن اردو عام سمجھی جاتی ہے۔ چین سے تجارت کا مرکز ہے۔
کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی اور شمال کی دوسری بلند چوٹیاں سر کرنے والے یہاں آتے ہیں۔يهاں كى خاص بات بلندو بالاپہاڑ اور یہاں کے بہتے ہوئے دریا اور سبزدار ہیں۔گلگت شہر میں تین سے زیادہ مسالک کے لوگ آباد ہیں جن میں سنی ،شیعہ اسماعیلی مسلک اور نوربخشیہ مسلک کے لوگ شامل ہیں گلگت شہر کے آس پاس سنی مسلک کی آبادی زیادہ ہے۔
شہر گلگت صوبہ گلگت بلستان کا دار الحکومت ہے یہ علاقہ . یکم نومبر ١٩٤٧ کو ڈوگرا راج سے آذادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان، پاکستان سے ملحق ہوا تاہم قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کی وجہ سے اور پاکستان کے انتظامی مشکلات کی وجہ سے تا دم تحریر پاکستان کے قومی اسمبلی میں نمائندگی موجود نہیں۔
مذہبی صورتحال
یہ علاقے اپنے حدود اربعہ کے لحاظ سے سنی فرقہ سے تعلق رکھنے والی آبادیوں میں گھرے ہوئے ہیں، جو کچھ یوں ہے کہ گلگت سے پاکستان کی جانب اگر باہر نکلیں تو گلگت کے مضافاتی گاؤں سکوار کے بعد سنی علاقہ شروع ہوجاتا ہے، جبکہ دوسری جانب بلتستان کے لوگ بے شک شیعہ ہیں، لیکن بلتستان اس پار کشمیر بھی سنیوں کا علاقہ ہے۔ علاوہ از این تیسری طرف ضلع غذر میں بھی زیادہ آبادی اسماعیلی اور سنی فرقوں کی ہے، شیعہ تعداد میں کم ہیں، جبکہ ضلع غذر کی سرحدوں کی ایک طرف چترال میں بھی اسماعیلی اور سنی ہی آباد ہیں اور دوسری جانب روس واقع ہے۔ بلاشک کہ گلگت کی چوتھی جانب ریاست نگر شیعوں کی ہے، لیکن اس کے سامنے ریاست ہنزہ کی آبادی اسماعیلی ہے، جہاں ان کے مقابلے میں شیعہ انتہائی قلیل ہے، جبکہ ان دونوں ریاستوں اک سرحدیں ہیں۔
گلگت کے بارے میں
گلگت بلتستان اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتا ہے۔ پاکستان کے شمال میں موجود یہ علاقہ اپنے بلند و بالا پہاڑوں، دلکش دریاوں اور خوشگوار موسموں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ بڑے بہادر اور محنت کش ہوتے ہیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنے خطے کے ساتھ آزاد کشمیر کو بھی بھارتی قبضے سے چھڑانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس خطے کی تاریخ کچھ اس طرح سے ہے۔ چینی سیاح فاہیان جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو پورے گلگت بلتستان پرپھیلی ہوئی تھی اور اس کا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا۔
پھر ساتویں صدی میں اس کے بعض حصے تبت کی شاہی حکومت میں شامل کرلئے گئے اس کے بعد نویں صدی میں یہ مختلف مقامی ریاستوں میں بٹ گئے جن میں سکردو کے مقپون اور ہنزہ کے ترخان خاندان مشہور ہیں۔ مقپون خاندان کے راجاؤں نے بلتستان سمیت لداخ، گلگت اور چترال تک کے علاقوں پر حکومت کی۔ احمد شاہ مقپون اس خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔
گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر و اقصاے تبت کا شمالی علاقہ بھی ہے۔ 1840 سے پہلے یہ علاقے مختلف ریاستوں میں بٹے ہوئے تھے۔ جن میں بلتستان گلگت شامل ہیں اس کے علاوہ ہنزہ، نگر الگ خود مختار علاقے تھے۔ ان علاقوں کو بعد ازاں جنرل زوراور سنگھ نے فتح کیا اور ریاست جموں کشمیر میں شامل کر دیا۔ بر صغیر کی تقیسم کے وقت انیس ویں صدی کے نصف میں دوسری ریاستوں کی طرح یہاں بھی آزادی کی شمع جلنے لگی کرنل مرزا حسن خان نے اپنے ساتھیوں کے ہماراہ پورے علاقے کو ڈوگرہ استبداد سے آزاد کر ڈالا۔
قیام پاکستان کے موقع پر یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر و اقصاے تبت میں شامل تھا۔ اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اس آزادی کا آغاز گلگت سے ہوا اور یکم نومبر 1947 کو گلگت پر ریاستی افواج کے مسلمان افسروں نے قبضہ کر لیا اور آزاد جمہوریہ گلگت کا اعلان کر دیا اس آزادی کے سولہ دن بعد پاکستان نے آزاد ریاست ختم کر کے ایف سی آر نافذ کر دیا۔ آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا رہا لیکن دوہزار نو میں پاکستانی حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دے دیئے۔
یہ واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں چار ملکوں سے ملتی ہیں نیز پاکستان پڑوسی ملک بھارت سے تین جنگیں 48 کی جنگ، کارگل جنگ اور سیاچین جنگ اسی خطے میں لڑا ہے جبکہ سن 71 کی جنگ میں میں اس کے کچھ سرحدی علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جس میں کئی دیہات بھارتی قبضے میں چلے گئے اس وجہ سے یہ علاقہ دفاعی طور پر ایک اہم علاقہ کی حیثیت رکھتا ہے نیز یہیں سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ 2009ء میں اس علاقے کو نیم صوبائی حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان منتخب ہوئے۔
پاکستان اور چین کے درمیان تعمیر ہونے والی سی پیک کے بعد اس خطے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ پاک چین راہداری اسی خطے سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہورہی ہے۔ گلگت بلتستان کی آبادی 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971 مربع کلومیٹر ہے۔ گلگت بلتستان میں 9 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ گلگت و بلتستان تین ڈویژنز بلتستان، دیا میراور گلگت اور 14 اضلاع پر مشتمل ہے۔ بلتستان ڈویژن سکردو، شگر، کھرمنگ، روندو اور گانچھے کے اضلاع پر مشتمل ہے۔
گلگت ڈویژن گلگت، غذر، ہنزہ، یسین، اورنگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ جب کہ دیا میر ڈویژن داریل، تانگیر، استوراور دیامیر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے جبکہ دنیا کی مشکل ترین قاتل پہاڑ کے نام سے مشہور نانگا پربت بھی اسی خطے میں واقع ہے۔
گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات:
1- کے ٹو (K-2)

کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ یہ سلسلہ کوہ قراقرم، گلگت بلتستان پاکستان میں واقع ہے۔ اس کی بلندی 8611 میٹر/28251 فٹ ہے۔ اسے پہلی بار 31 جولائی 1954ء کو دو اطالوی کوہ پیماؤں لیساڈلی اور کمپانونی نے سر کیا تھا۔ کے ٹو کو ماؤنٹ گڈون آسٹن اور شاہگوری بھی کہتے ہیں۔
2- گلگت
گلگت پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم کے قریب واقع ہے۔ دریائے گلگت اس کے پاس سے گزرتا ہے۔ گلگت ایجنسی کے مشرق میں کارگل شمال میں چین شمال مغرب میں افغانستان مغرب میں چترال اور جنوب مشرق میں بلتستان کا علاقہ ہے۔ دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم گلگت کے قریب ہی ہے۔ یہاں کی زبان شینا ہے لیکن اردو عام سمجھی جاتی ہے۔ گلگت چین سے تجارت کا مرکز بھی ہے۔

کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی اور شمال کی دوسری بلند چوٹیاں سر کرنے والے یہاں آتے ہیں۔ یہاں كى خاص بات بلندو بالا پہاڑ اور یہاں کے بہتے ہوئے دریا اور سبزہ ہیں۔ گلگت شہر میں تین سے زیادہ مسالک کے لوگ آباد ہیں جن میں سنی، شیعہ، اسماعیلی مسلک اور نوربخشیہ مسلک کے لوگ شامل ہیں۔ گلگت شہر کے آس پاس سنی مسلک کی آبادی زیادہ ہے شہر گلگت صوبہ گلگت بلتستان کا دارالخلافہ ہے یہ علاقہ یکم نومبر 1947 کو ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان، پاکستان سے ملحق ہوا۔
3- اسکردو

سکردو گلگت بلتستان کا ایک اہم شہر اور ضلع ہے۔ سکردو شہر سلسلہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات میں شنگریلا، سدپارہ جھیل اور کت پناہ جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح سکردو کا رخ کرتے ہیں۔ سکردو میں بسنے والے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں جو تبتی زبان کی ایک شاخ ہے جبکہ سکردو کے لوگ انتہائی ملنسار، خوش مزاج، پر امن اور مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔
4- سدپارہ جھیل

سدپارہ جھیل سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی سکردو شہر سے کچھ دور پر واقع ہے۔ یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دو تین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے یہ تمام مناظر آنکھوں کیلئے صحت افزا احساس لے کر آتے ہیں۔
5- کچورہ جھیل
یہ جھیل 8200 فٹ چوڑی ہے۔ اس جھیل کو بلتی زبان میں فروق ژھو کہتے ہے۔ موسم گرما میں ملکی و غیر ملکی لوگ اس جگہ کو دیکھنے آتے ہیں اور خوب لطف اُٹھاتے ہیں۔
6- شگر

شگر پاکستان کے شمالی علاقہ جات بلتستان میں واقع ایک نہایت وسیع اور خوبصورت وادی ہے۔ یہ بلتستان ڈویژن کے کسی بھی ضلع سے رقبہ اور آبادی دونوں لحاظ سے بڑا علاقہ ہے۔ شگر کی آبادی لمسہ نامی گاوں سے شروع ہوتی ہے، یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر شگر خاص آتا ہے جو پورے ضلع کا ہیڈ کوارٹر کہلاتا ہے۔ شگر خاص دریائے باشہ اور دریائے برالدو کا سنگم ہے۔ شگر خاص سے برالدو نالے کی جانب جانے والی سڑک برالدو نالے کے آخری گاوں تستے پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ شگر خاص سے تستے کے بیچ میں یونین کونسل چھورکاہ، الچوڑی اور داسو واقع ہیں۔ یہ ایریا شگر کی داہنی جانب واقع ہے، جس کے اختتام پر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی واقع کے ٹو کے علاوہ گشہ بروم 1، گشہ بروم 2، ٹرانگ اینڈ ٹاور جیسی چوٹیاں بھی برالدو ایریا میں دنیا بھر سے کوہ پیماوں اور سیاحوں کو کھینچ لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
7-دیوسائی نیشنل پارک

گلگت بلتستان میں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی میں بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000 فٹ بلند ہے۔
7- بلتورو گلیشیر

بلتورو گلیشیر قطبین کے بعد سب سے لمبا گلیشیر ہے جو پاکستان کے صوبے گلگت بلتستان کے علاقے بلتستان میں واقع ہے اس کی لمبائی 62 کلومیٹر تک ہے جہاں مشہور زمانہ کے ٹو پہاڑ بھی واقع ہے اسی گلیشیر سے برالدو دریاء نکلتا ہے جو بعد میں دریاۓ سندھ میں جا گرتا ہے۔ اس گلیشیر تک رسائی سکردو شہر سے ہی کی جا سکتی ہے۔
8- بیافو گلیشیر

بیافو گلیشیرقراقرم کے پہاڑوں میں واقع 63 کلومیٹر لمبا گلیشیر بلتستان ڈویژن میں واقع ہے۔ یہ آگے جاکر ہسپر گلیشیر سے جاملتا ہے جو ہنزہ میں واقع ہے بلتورو کے بعد یہ تیسرا بڑا گلیشیر ہے۔ یہ علاقہ مارخور ، برفانی چیتا اوربھورے ریچھ کے لیے مشہور ہے۔
9- قلعہ التیت

قلعہ التیت گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں بالائی کریم آباد پر واقع ایک قدیم قلعہ ہے۔ یہ اصل میں ریاست ہنزہ کے آبائی حکمرانوں کا گھر تھا جن کے نام کے ساتھ میر لگتا تھا اگرچہ تین صدیوں کے بعد وہ کسی قریبی چھوٹے قلعے بلتیت میں چلے گئے۔ التیت قلعہ اور خاص طور پر شکاری ٹاور کی تقریبا 900 سال پرانی تاریخ ہے جوکہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔
10- بلتت قلعہ

بلتت قلعہ پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع ہے اور نہایت خوبصورت سیاحتی مقام پے[6]۔
گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کیا کہانی سناتی ہے؟
2007ء میں صدر پاکستان نے ترمیم کر کے ناردرن ایریاز فریم ورک آرڈر 1994 کو شمالی علاقہ جات گورننس آرڈر کا نام دیا اور قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا۔ 2009 میں صدر پاکستان آصف زرداری نے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کا نفاذ کیا [7]۔
72،496 مربع کلومیٹر پر محیط یہ علاقہ جو پاکستان کے شمال میں واقع ہے گلگت بلتستان کہلاتا ہے۔ گلگت بلتستان عہد قدیم سے ہی انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے جس کی بدولت یہ خطہ آج بھی عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ گلگت ڈوگروں کے تسلط سے یکم نومبر 1947 کو آزاد ہوا اور اسی دن عبوری حکومت کا قیام عمل میں لیا گیا جس کے تحت شاہ رئیس خان کو صدر مقرر کیا گیا۔ 16 دن تک آزاد جمہوریہ میں عبوری حکومت قائم کی گئی اور ساتھ ہی قائد اعظم محمد علی جناح کو خطوط لکھے گئے جن میں گلگت کو فی الفور پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے اور نظم و نسق سنبھالنے کی درخواست کی گئی۔
16 نومبر کو حکومت پاکستان کا نمائندہ گلگت پہنچا اور گلگت باقاعدہ پاکستان میں شامل ہو گیا جس پر حکومت پاکستان نے ایف سی آر لاگو کیا اور گلگت کو این ڈبلیو ایف پی کے پولیٹیکل ریذیڈنٹ کے ماتحت کر دیا گیا۔ بلتستان 14 اگست 1948 کو آزاد ہوا اور پاکستان نے اپنا نمائندہ بھیج کر اسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔
دیامر کی بات کی جائے تو یہ علاقہ 1952 تک علیحدہ حیثیت میں تھا۔ 1952 میں باقاعدہ مشروط معاہدے کے ذریعے پاکستان میں شامل ہوا۔ اس طرح گلگت بلتستان باقاعدہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ کچھ عناصر گلگت بلتستان کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے جی بی کی آئینی حیثیت سے متعلق متضاد بیانات دیتے چلے آ رہے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ جی بی پاکستان کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔ پاکستان نے گلگت بلتستان کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے 1959 میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ولیج ایڈ پروگرام کا آغاز جی بی میں بھی کیا اور بعدازاں 1962 میں اس ادارے کا نام تبدیل کر کے بنیادی جمہوریت رکھا گیا۔
1969میں جی بی کو ایک الگ انتظامی اکائی کی حیثیت دی گئی، اسے ناردرن ایریاز کا نام دیا گیا اور مشاورتی کونسل کی بنیاد رکھی گئی۔ 1970 میں جی بی کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کے ذریعے ممبران کا انتخاب کیا گیا جن میں گلگت سے 8 اور بلتستان سے 6 نمائندے منتخب ہوئے اور کونسل چیئرمین کا عہدہ ریذیذنٹ کو دیا گیا۔ 1971 میں ناردرن ایریاز ایڈوائزری کونسل کا نفاذ کیا گیا اور ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا۔
3 جولائی 1975 کو حکومت پاکستان نے ناردرن ایریاز کونسل لیگل فریم ورک آرڈر 1975 کا نفاذ کیا اور نئی اصلاحات پیش کی گئیں۔ اس آرڈر کے نتیجے میں ایڈوائزری کونسل کو ناردرن ایریاز کونسل میں تبدیل کر دیا گیا اور وزیر برائے امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو اس کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد نئے قوانین وضع کیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں؛
1۔ ناردرن ایریاز الیکشن آرڈر
2۔ ناردرن ایریاز الیکشن رولز
3۔ ناردرن ایریاز الیکٹورل رولز 1975
ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد یہ کونسل دو سال کے لیے معطل ہوئی اور پھر ختم کر دی گئی۔ 1979 میں مزید اصلاحات نافذ کی گئیں جس کے نتیجے میں اس خطے کو سرکاری سطح پر شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا اور بلدیاتی ادارے قائم کیے گیے۔ ضیاء کے ہی دور میں 1981 کو پاکستان کی مجلس شوریٰ میں جی بی سے 3 ممبران کو بھی رکنیت دی گئی جس پر انڈیا نے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
12 جون 1994 کو وفاقی حکومت نے لیگل فریم ورک آرڈر 1975 کو ناردرن ایریاز لیگل فریم ورک آرڈر 1994 کے ساتھ تبدیل کر دیا اور بطور قانون کے شاگرد کے مجھے ایک بات پر تعجب اور حیرت ہوئی کہ میری سرزمین میں اتنے عرصے بعد پہلی بار چیف کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور ساتھ ساتھ چیف کمشنر کے عہدے کو چیف سیکرٹری کے عہدے سے تبدیل کر دیا گیا۔ اسی آرڈر کی مہربانی سے کونسل کے چیئرمین اور وائس چئیرمین کے عہدوں کو بھی چیف ایگزیکٹو اور ڈپٹی چیف کا نام دیا گیا۔ اسی آرڈر کی بنیاد پر پہلی مرتبہ سیاسی بنیادوں پر 25 اکتوبر 1994 کو الیکشن منعقد کیے گیے۔ یکم جولائی 2000 کو وفاق نے ایل ایف او 1994 میں مزید ترامیم کیں اور ناردرن ایریاز کونسل کو ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کا درجہ دیا۔
2007 میں صدر پاکستان نے ترمیم کر کے ناردرن ایریاز فریم ورک آرڈر 1994 کو شمالی علاقہ جات گورننس آرڈر کا نام دیا اور قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا۔ 2009 میں صدر پاکستان آصف زرداری نے مزید اصلاحات کا اعلان کیا اور گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کا نفاذ کیا۔ قانون ساز اسمبلی کی سربراہی قانون ساز اسمبلی کے منتخب شدہ وزیر اعلیٰ کو دی اور خطے کو گلگت بلتستان کا نام اور اس کی پہچان دی گئی۔ قانون ساز اسمبلی کے علاوہ جی بی کونسل کے نام سے سینیٹ طرز کا ایوان بنایا گیا اور وزیر اعظم کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔
اس آرڈر کے مطابق خارجہ امور، دفاع، شہریت اور کرنسی کے معاملات کے علاوہ 61 شعبہ جات پر قانون سازی کا اختیار جی بی کی قانون ساز اسمبلی کو دیا گیا اور اسی آرڈر کی روشنی میں سپریم اپیلٹ کورٹ کا قیام بھی کیا گیا۔
2 مئی 2018 کو صدر پاکستان نے ایک اور تبدیلی کرتے ہوئے گلگت بلتستان سیلف گورننس اینڈ امپاورمنٹ آرڈر 2009 کی جگہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا اعلان کیا۔ اس آرڈر کے نتیجے میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا نام تبدیل کر کے گلگت بلتستان اسمبلی رکھا گیا اور وزیر اعظم کو جی بی کے چیف ایگزیکٹو کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کو جی بی اسمبلی کے بنائے گئے کسی بھی قانون کو ویٹو کرنے کی پاور بھی عطا کر دی گئی۔ صدر پاکستان کو بھی کسی بھی قسم کے آرڈر میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا۔
اس آرڈر کے تحت جی بی کونسل کو تحلیل کیا گیا تھا مگر اس آرڈر کو پہلے سپریم اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کیا گیا جہاں پر اسے معطل کیا گیا تو اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں حکومت جی بی نے چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے مختلف ترامیم کے ساتھ اسے جی بی ریفارمز آرڈر کی شکل میں دوبارہ بحال کیا اور اس آرڈر میں مزید کسی بھی ترمیم کے لیے وفاقی حکومت کو عدالت سے پیشگی اجازت لینے کا پابند کر دیا[8]۔
حوالہ جات
- ↑ شمالی علاقہ جات کو صوبائی حیثیت دینے کا اعلان روزنامہ آج، 4 ستمبر 2009ء
- ↑ گلگت بلتستان: مہدی شاہ نئے وزیر اعلیٰ بی بی سی اردو، 11 دسمبر، 2009ء
- ↑ [gilgit-baltistan-despite-anger-at-home-opposition-from-india/story-589JQ9iMb9JlbS2Ix6ittN.html Imran Khan announces provincial status for Gilgit-Baltistan despite anger at home, opposition from Ind - شائع شدہ از: 1 نومبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 اکتوبر 2025ء
- ↑ "اقتصادی راہداری کی حفاظت کے لیے ایف سی تعینات کی جائے گی"۔ BBC۔ 2016
- ↑ میجر ولیم الیگزنڈر براؤن، بغاوت گلگت، مترجم، ظفر حیات پال، 2009ء،ص29
- ↑ گلگت کے بارے میں- شائع شدہ از: 10 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اکتوبر 2025ء
- ↑ تحریر:خلیق زیب
- ↑ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کیا کہانی سناتی ہے؟- شائع شدہ از: 19 اگست 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اگست 2025ء