"پاکستان تحریک انصاف" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(3 صارفین 12 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{خانہ معلومات پارٹی
| عنوان = پاکستان تحریک انصاف
| تصویر = تحریک انصاف پاکستان.jpg
| نام = پاکستان تحریک انصاف (PTI)
| قیام کی تاریخ = 1966 ء
| بانی = [[عمران خان]]
| رہنما = عمران خان
| مقاصد =اسلامی جمہوریت ، انصاف کی تلاش
}}


<div class="references" style="margin: 0px 0px 10px 0px; max-height: 300px; overflow: auto; padding: 3px; font-size:95%; background: #FFA500; line-height:1.4em; padding-bottom: 7px;"><noinclude>
[[پرونده:Ambox clock.svg|60px|بندانگشتی|راست]]
<br>
'''''نویسنده این صفحه در حال ویرایش عمیق است. '''''<br>
'''یکی از نویسندگان مداخل ویکی وحدت مشغول ویرایش در این صفحه می باشد. این علامت در اینجا درج گردیده تا نمایانگر لزوم باقی گذاشتن صفحه در حال خود است. لطفا تا زمانی که این علامت را نویسنده کنونی بر نداشته است، از ویرایش این صفحه خودداری نمائید. '''
<br>
''آخرین مرتبه این صفحه در تاریخ زیر تغییر یافته است: ''{{#time:H:i، j F Y|{{REVISIONTIMESTAMP}}}}؛</small>
<noinclude>
</div>
<div class="wikiInfo">
[[فائل:تحریک انصاف پاکستان.jpg|250px|تصغیر|بائیں| پاکستان تحریک انصاف]]
{| class="wikitable aboutAuthorTable" style="text-align:right" |+ |
!پارٹی کا نام
! پاکستان تحریک انصاف (PTI)
|-
|قیام کی تاریخ
|1966م
|-
|پارٹی کے بانی
|[[عمران خان]]
|-
|مقاصد اور بنیادی باتیں
|اسلامی جمہوریت ، انصاف کی تلاش
|-
|سرگرمی
|[[پاکستان]] کی حکمران جماعت اور وزیراعظم عمران خان
|-
|}
</div>
'''پاکستان تحریک انصاف''' کی حکمران سیاسی جماعت ہے ۔ پارٹی کی بنیاد 25 اپریل 1996 کو سابق کرکٹر [[عمران خان]] نیازی نے رکھی تھی۔
'''پاکستان تحریک انصاف''' کی حکمران سیاسی جماعت ہے ۔ پارٹی کی بنیاد 25 اپریل 1996 کو سابق کرکٹر [[عمران خان]] نیازی نے رکھی تھی۔
 
== پارٹی کا قیام ==
 
'''پاکستان تحریک انصاف''' کی بنیاد [[پاکستان]] کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے 1966 میں رکھی تھی۔ عمران خان نے سیاسیات، معاشیات اور فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ عمران نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔اور عمران خان کے ذہن میں تین نکات تھے: 1- آزاد الیکشن کمیشن 2- آزاد عدلیہ 3- آزاد احتساب دفتر، پارٹی نے اس حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔<br>
= پارٹی کا قیام =
'''پاکستان تحریک انصاف''' کی بنیاد [[پاکستان]] کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے 1966 میں رکھی تھی۔ عمران خان نے سیاسیات، معاشیات اور فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ عمران نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اور عمران خان کے ذہن میں تین نکات تھے: 1- آزاد الیکشن کمیشن 2- آزاد عدلیہ 3- آزاد احتساب دفتر، پارٹی نے اس حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔<br>
اس وقت تحریک انصاف نے بطور اپوزیشن پارٹی اپنا کردار ادا کیا <ref>[https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9_%D8%A7%D9%86%D8%B5%D8%A7%D9%81 اردو ویکیپیڈیا سے ماخوذ]</ref> ۔
اس وقت تحریک انصاف نے بطور اپوزیشن پارٹی اپنا کردار ادا کیا <ref>[https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86_%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9_%D8%A7%D9%86%D8%B5%D8%A7%D9%81 اردو ویکیپیڈیا سے ماخوذ]</ref> ۔


= پارٹی کے مقاصد =
== پارٹی کے مقاصد ==
تحریک انصاف پارٹی بدعنوانی کے خاتمے اور خود کو عوامی تحریک کے طور پر ظاہر کرنے کا وعدہ کرکے نوجوانوں اور شہری متوسط ​​طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے انصاف پارٹی نے مختلف شعبوں کے ماہرین سے مشاورت کرتے ہوئے حکومت کا پہلا 100 روزہ پلان پیش کیا۔<br>
تحریک انصاف پارٹی بدعنوانی کے خاتمے اور خود کو عوامی تحریک کے طور پر ظاہر کرنے کا وعدہ کرکے نوجوانوں اور شہری متوسط ​​طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے انصاف پارٹی نے مختلف شعبوں کے ماہرین سے مشاورت کرتے ہوئے حکومت کا پہلا 100 روزہ پلان پیش کیا۔<br>
اس پروگرام میں خارجہ پالیسی، عمومی معیشت، تعلیم، صحت وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس دوران ایک طرف عمران خان اور ان کی جماعت نے سیاسی جماعتوں یا خاندانی جماعتوں میں جمہوریت کے فقدان پر زور دیا اور پاکستان میں سیاسی خاندان کی روایت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی جماعت نے دونوں پر حملے کرکے پارٹی کی حیثیت کو بڑھانے کی کوشش کی۔ پاکستان کی اہم جماعتیں<br>
اس پروگرام میں خارجہ پالیسی، عمومی معیشت، تعلیم، صحت وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس دوران ایک طرف عمران خان اور ان کی جماعت نے سیاسی جماعتوں یا خاندانی جماعتوں میں جمہوریت کے فقدان پر زور دیا اور پاکستان میں سیاسی خاندان کی روایت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی جماعت نے دونوں پر حملے کرکے پارٹی کی حیثیت کو بڑھانے کی کوشش کی۔ پاکستان کی اہم جماعتیں<br>
سطر 47: سطر 21:
اس کے علاوہ، اگرچہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پارٹی کی سماجی بنیاد خیبرپختونخوا ہے؛ تاہم، یہ جماعت گزشتہ برسوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہی ہے اور عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور عوام اور پولیس کے حقوق کے نفاذ پر زور دے کر اور بغیر دھاندلی کے انتخابات کروانے پر اپنی پارٹی کے مخالفین کو منہ کی کھاتی رہی ہے۔
اس کے علاوہ، اگرچہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پارٹی کی سماجی بنیاد خیبرپختونخوا ہے؛ تاہم، یہ جماعت گزشتہ برسوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہی ہے اور عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور عوام اور پولیس کے حقوق کے نفاذ پر زور دے کر اور بغیر دھاندلی کے انتخابات کروانے پر اپنی پارٹی کے مخالفین کو منہ کی کھاتی رہی ہے۔


= پاکستان میں موجودہ جماعتوں سے اختلافات =
== پاکستان میں موجودہ جماعتوں سے اختلافات ==
== پاکستان مسلم لیگ نواز ==
=== پاکستان مسلم لیگ نواز ===
پاکستان تحریک انصاف کی پالیسیاں اور گزشتہ برسوں میں [[پاکستان مسلم لیگ نواز]] پارٹی کی کرپشن کو پبلک میڈیا کے ذریعے بے نقاب کرنے کی حکمت عملی پر انحصار کرنا پاکستان مسلم لیگ نواز پارٹی کو بڑی حد تک نقصان پہنچا رہا ہے۔ درحقیقت، پاناما پیپرز اسکینڈل، پاکستان میں [[نواز شریف]] کی حکومت کے دوران غیر مثبت کارکردگی سمیت متعدد وجوہات کی وجہ سے مسلم لیگ کو شدید دھچکا لگا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی پالیسیاں اور گزشتہ برسوں میں [[پاکستان مسلم لیگ نواز]] پارٹی کی کرپشن کو پبلک میڈیا کے ذریعے بے نقاب کرنے کی حکمت عملی پر انحصار کرنا پاکستان مسلم لیگ نواز پارٹی کو بڑی حد تک نقصان پہنچا رہا ہے۔ درحقیقت، پاناما پیپرز اسکینڈل، پاکستان میں [[نواز شریف]] کی حکومت کے دوران غیر مثبت کارکردگی سمیت متعدد وجوہات کی وجہ سے مسلم لیگ کو شدید دھچکا لگا ہے۔
=== پیپلز پارٹی ===
[[پاکستان پیپلز پارٹی]] کی بنیاد پاکستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کے طور پر [[ذوالفقار علی بھٹو]] نے رکھی تھی، جو [[بے نظیر بھٹو]] کے والد تھے ۔ لیکن پاکستان میں اس طاقتور سیاسی قوت کو 2013 کے انتخابات میں پاکستانی پارلیمنٹ کی 76 نشستوں سے شکست ہوئی۔ اس دوران پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ [[آصف علی زرداری]] نے 2014 میں نواز شریف کا ساتھ دیا اور اس کی وجہ سے عمران خان اور انصاف پارٹی کے نائب اور دیگر رہنما پیپلز پارٹی پر تنقید کرنے لگے۔ اور زرداری نے ذاتی طور پر پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی پر تنقید کی۔وہ صوبہ سندھ میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ جانتے ہیں <ref>[https://www.css.ir/fa/content/114682/%D8%AD%D8%B2%D8%A8_%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9_%D8%A7%D9%86%D8%B5%D8%A7%D9%81_%D9%88_%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%A7%D8%B1%D9%88%DB%8C%DB%8C_%D8%A8%D8%A7_%D8%B3%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D8%A7%D8%B1_%D8%AF%D9%88%D8%AD%D8%B2%D8%A8%DB%8C_%D8%B3%D9%86%D8%AA%DB%8C_%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86 صدارتی اسٹریٹجک سینٹر کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے]</ref>۔
== الیکشن میں فتح اور وزیراعظم عمران خان ==
[[فائل:عمران خان.jpg|250px|تصغیر|بائیں|عمران خان]]
پاکستان میں قومی انتخابات 3 اگست 2018 کے برابر 25 جولائی 2018 کو ہوئے۔ اس الیکشن میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کیا گیا اور وہ پانچ سال کے لیے اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اس انتخاب میں پنجاب، سندھ میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی شامل ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا بھی تعین کیا گیا۔ اس الیکشن میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی پارٹی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور 116 سیٹیں جیت کر الیکشن جیتنے میں کامیاب رہی۔ 18 اگست 2018 بروز ہفتہ، عمران خان کو آزادی کے بعد سے پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم کے طور پر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے ملک میں غربت اور کرپشن کے خلاف لڑنے کا وعدہ کیا. <ref>[https://www.mizan.news/fa/news/575198/%D8%A8%DB%8C%D9%88%DA%AF%D8%B1%D8%A7%D9%81%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D9%84-%D8%B9%D9%85%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AE%D8%A7%D9%86-%D8%AA%D8%B5%D8%A7%D9%88%DB%8C%D8%B1 میزان نیوز ایجنسی سے ماخوذ]</ref>۔
= انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں جماعت کے بانی کا نقطہ نظر =
عمران خان نے [[امام خمینی]]  کے بارے میں یہ کہا: ایران کے لوگ [[امام خمینی]] سے اپنے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے تھے اور امام خمینی کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی سادہ زندگی تھی۔ امام خمینی کی وفات کے بعد دنیا نے ان کی سادہ زندگی کا مشاہدہ کیا۔ ایک ایسا کردار جسے پرتعیش زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اس نے طرز حکمرانی کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالا تھا۔ وہ عالمی سیاست دانوں کے لیے ایک نمونہ ہیں <ref>[https://www.tasnimnews.com/fa/news/1399/07/19/2366149/%D8%B9%D9%85%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%AE%D8%A7%D9%86-%D8%B9%D9%84%D8%AA-%D9%85%D8%AD%D8%A8%D9%88%D8%A8%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D8%B1%D9%87-%D8%B3%D8%A7%D8%AF%D9%87-%D8%B2%DB%8C%D8%B3%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D9%88%D8%AF تسنیم نیوز ایجنسی سے ماخوذ]</ref>۔
== پی ٹی آئی کارکنان صوابی انٹرچینج پر جمع ہونا شروع، پنجاب میں متعدد رہنما گرفتار ==
بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی کال پر آج اسلام آباد کی جانب مارچ اور ڈی چوک پر احتجاج کیا جائے گا جس کے لیے کارکنان پشاور موٹروے پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔
مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیف وہیپ عامر ڈوگر اور رہنما زین قریشی کو پنجاب پولیس نے گرفتار کرلیا۔ دونوں رہنماؤں کو قادرپوراں ٹول پلازہ ملتان سے حراست میں لیا گیا ہے۔
=== پہلا معرکہ صوابی پل پر ہوگا ===
صوابی سے موٹروے ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند ہے۔ دریائے سندھ صوابی کے مقام پر کنٹینر رکھ کر پل کو بند کر دیا گیا ہے اور پنجاب پولیس کی بھاری نفری صوابی پل کی دوسری طرف موجود ہے۔ پی ٹی آئی قافلے کا پہلا معرکہ صوابی پل پر ہوگا۔
بانی تحریک انصاف کی ہدایت اور کال کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے آج کے احتجاج کو فیصلہ کن قرار دیا اور عوام سے بڑی تعداد میں شرکت کی اپیل کی ہے۔


وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا سے قافلے صوابی پہنچیں گے اور پھر مرکزی قافلے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب چل پڑیں گے۔
علی امین گنڈا پور کا کہا تھا کہ عمران خان کی رہائی سمیت تمام مطالبات کی منظوری تک ڈی چوک پر بیٹھیں گے۔ وزیراعلیٰ کے ترجمان کے مطابق کتنی ہی سڑکیں بلاک کی جائیں یا پھر کنٹینر لگائی جائیں، اسلام آباد پہنچ کر احتجاج کریں گے اور مطالبات منوائیں گے، راستے کھولنے کیلیے سرکاری نہیں بلکہ پرائیوٹ مشینری ساتھ لے کر جائیں گے۔


پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار نے کہا کہ 12 گھنٹے لگیں یا 100 گھنٹے، ہر صورت میں ڈی چوک پہنچیں گے، حکومت سڑکیں کھودے یا کنٹینر لگائے جہاں راستہ بند ہوگا دھرنا وہیں پر شروع کردیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ بشری بی بی نے احتجاج میں شرکت نہ کرنے اور قافلوں کی وزیراعلیٰ ہاؤس خیبرپختونخوا سے نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1928346/%D9%BE%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D9%86%D8%A7%D9%86-%D8%B5%D9%88%D8%A7%D8%A8%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D9%B9%D8%B1%DA%86%DB%8C%D9%86%D8%AC-%D9%BE%D8%B1-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%DB%81%D9%88%D9%86%D8%A7-%D8%B4%D8%B1%D9%88%D8%B9-%D9%BE%D9%86%D8%AC%D8%A7%D8%A8-%D9%85%DB%8C%DA%BA پی ٹی آئی کارکنان صوابی انٹرچینج پر جمع ہونا شروع، پنجاب میں متعدد رہنما گرفتار]- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 24 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 نومبر 2024ء۔</ref>۔
== پی ٹی آئی قافلے ڈی چوک پہنچ گئے، فوج نے کنٹرول سنبھال لیا، پولیس کی طرف سے شیلنگ ==
پی ٹی آئی قافلہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں زیرو پوائنٹ سے جناح ایونیو کی طرف رواں دواں ہے جبکہ پاک فوج نے ڈی چوک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے آبپارہ مارکیٹ اور سپر مارکیٹ بند کروا دیں، خیابان سہروردی سے آبپارہ تک سڑکوں سے گاڑیاں بھی ہٹوا دی گئیں۔ ڈی چوک سے ملحقہ بلیو ایریا میں بھی دکانیں اور سروس روڈ سے گاڑیاں ہٹوا دی گئیں۔
== عمران خان کے حکم تک ہم نے واپس نہیں جانا ==
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہم ڈی چوک پہنچ گئے ہیں لیکن عمران خان کا جب تک حکم نہیں آنا ہم نے واپس نہیں جانا۔ ڈی چوک پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ حکومت نے فسطائیت شروع کر رکھی ہے لیکن ہم نے پرامن دھرنا دینا ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا ملک ہے اور اس ملک کو آزاد کرانے نکلے ہیں، کسی کا باپ بھی اپنے فیصلے ہم پر مسلط نہیں کرسکتا۔ دوران خطاب وزیراعلیٰ نے نعرے بھی لگائے اور کارکنوں کا لہو گرمایا۔


اسلام میں فوج طلب، احتجاج کرنے والوں کو گولی مارنے کا حکم
وفاقی دارالحکومت میں چار رینجرز اہلکاروں کی شہادت کے بعد فوج کو طلب کرلیا گیا، فوجی دستے پارلیمنٹ ہاؤس، ڈی چوک اور سپریم کورٹ کے باہر تعینات کردیے گئے جنہیں احتجاج کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا۔


پی ٹی آئی کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تضادم میں اب تک رینجرز کے 4 جوان اور پولیس کے 2 جوان جانبحق ہو چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے متعدد کارکن زخمی ہوئے ہیں۔
آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں پاک فوج کو بلا لیا گیا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے احکامات جاری کیے گئے ہیں<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1928397/%D9%BE%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%82%D8%A7%D9%81%D9%84%DB%92-%DA%88%DB%8C-%DA%86%D9%88%DA%A9-%D9%BE%DB%81%D9%86%DA%86-%DA%AF%D8%A6%DB%92-%D9%81%D9%88%D8%AC-%D9%86%DB%92-%DA%A9%D9%86%D9%B9%D8%B1%D9%88%D9%84-%D8%B3%D9%86%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D9%84-%D9%84%DB%8C%D8%A7-%D9%BE%D9%88%D9%84%DB%8C%D8%B3 پی ٹی آئی قافلے ڈی چوک پہنچ گئے، فوج نے کنٹرول سنبھال لیا، پولیس کی طرف سے شیلنگ]-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 26 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 نومبر 2024ء۔</ref>۔






== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}


= حوالہ جات =
{{پاکستان}}
[[زمرہ:پاکستان]]
[[زمرہ:پاکستان]]

حالیہ نسخہ بمطابق 22:44، 27 نومبر 2024ء

پاکستان تحریک انصاف
تحریک انصاف پاکستان.jpg
پارٹی کا نامپاکستان تحریک انصاف (PTI)
قیام کی تاریخ1966 ء، 1344 ش، 1385 ق
بانی پارٹیعمران خان
پارٹی رہنماعمران خان
مقاصد و مبانیاسلامی جمہوریت ، انصاف کی تلاش

پاکستان تحریک انصاف کی حکمران سیاسی جماعت ہے ۔ پارٹی کی بنیاد 25 اپریل 1996 کو سابق کرکٹر عمران خان نیازی نے رکھی تھی۔

پارٹی کا قیام

پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے 1966 میں رکھی تھی۔ عمران خان نے سیاسیات، معاشیات اور فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ عمران نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔اور عمران خان کے ذہن میں تین نکات تھے: 1- آزاد الیکشن کمیشن 2- آزاد عدلیہ 3- آزاد احتساب دفتر، پارٹی نے اس حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
اس وقت تحریک انصاف نے بطور اپوزیشن پارٹی اپنا کردار ادا کیا [1] ۔

پارٹی کے مقاصد

تحریک انصاف پارٹی بدعنوانی کے خاتمے اور خود کو عوامی تحریک کے طور پر ظاہر کرنے کا وعدہ کرکے نوجوانوں اور شہری متوسط ​​طبقے کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے انصاف پارٹی نے مختلف شعبوں کے ماہرین سے مشاورت کرتے ہوئے حکومت کا پہلا 100 روزہ پلان پیش کیا۔
اس پروگرام میں خارجہ پالیسی، عمومی معیشت، تعلیم، صحت وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس دوران ایک طرف عمران خان اور ان کی جماعت نے سیاسی جماعتوں یا خاندانی جماعتوں میں جمہوریت کے فقدان پر زور دیا اور پاکستان میں سیاسی خاندان کی روایت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی جماعت نے دونوں پر حملے کرکے پارٹی کی حیثیت کو بڑھانے کی کوشش کی۔ پاکستان کی اہم جماعتیں
درحقیقت عمران خان کے خاندانی سیاست کو مسترد کرنے، نئے پاکستان کے قیام، ملک میں اصلاحات کو آگے بڑھانے اور نیم مافیا حکمرانوں کا مقابلہ کرنے پر زور دینے نے ان کی پارٹی کو اس ملک کے مستقبل کے لیے ایک صاف ستھرا اور اہم متبادل دکھائی دیا ہے۔ دوسری جانب متحد تعلیمی نظام، ہر ریاست کے لیے تعلیمی نظام، عوام کی انشورنس، ٹیکس نظام میں اصلاحات اور ملک کو قرضوں کی ادائیگی سے بچانے، قومی آڈٹ اور مالی بدعنوانی کی روک تھام، سرمایہ کاری میں اضافہ پر انصاف پارٹی کی توجہ اور زور۔ پاکستان میں داخلی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے نئے فنڈز کو راغب کرنا، زرعی نظام میں اصلاحات، 10 بلین سے زائد درختوں کے ساتھ ملک کی آب و ہوا کو بہتر بنانا اور لوگوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانا، معاشرے کے کمزور دسویں طبقے کی مدد کرنا، پاکستان کو ایک ملک میں تبدیل کرنا۔ دنیا کے سیاحتی مرکز وغیرہ کو حقیقی قومی جماعت بننے کے لیے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ، اگرچہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پارٹی کی سماجی بنیاد خیبرپختونخوا ہے؛ تاہم، یہ جماعت گزشتہ برسوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہی ہے اور عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور عوام اور پولیس کے حقوق کے نفاذ پر زور دے کر اور بغیر دھاندلی کے انتخابات کروانے پر اپنی پارٹی کے مخالفین کو منہ کی کھاتی رہی ہے۔

پاکستان میں موجودہ جماعتوں سے اختلافات

پاکستان مسلم لیگ نواز

پاکستان تحریک انصاف کی پالیسیاں اور گزشتہ برسوں میں پاکستان مسلم لیگ نواز پارٹی کی کرپشن کو پبلک میڈیا کے ذریعے بے نقاب کرنے کی حکمت عملی پر انحصار کرنا پاکستان مسلم لیگ نواز پارٹی کو بڑی حد تک نقصان پہنچا رہا ہے۔ درحقیقت، پاناما پیپرز اسکینڈل، پاکستان میں نواز شریف کی حکومت کے دوران غیر مثبت کارکردگی سمیت متعدد وجوہات کی وجہ سے مسلم لیگ کو شدید دھچکا لگا ہے۔

پیپلز پارٹی

پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد پاکستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی، جو بے نظیر بھٹو کے والد تھے ۔ لیکن پاکستان میں اس طاقتور سیاسی قوت کو 2013 کے انتخابات میں پاکستانی پارلیمنٹ کی 76 نشستوں سے شکست ہوئی۔ اس دوران پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے 2014 میں نواز شریف کا ساتھ دیا اور اس کی وجہ سے عمران خان اور انصاف پارٹی کے نائب اور دیگر رہنما پیپلز پارٹی پر تنقید کرنے لگے۔ اور زرداری نے ذاتی طور پر پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی پر تنقید کی۔وہ صوبہ سندھ میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ جانتے ہیں [2]۔

الیکشن میں فتح اور وزیراعظم عمران خان

عمران خان

پاکستان میں قومی انتخابات 3 اگست 2018 کے برابر 25 جولائی 2018 کو ہوئے۔ اس الیکشن میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کیا گیا اور وہ پانچ سال کے لیے اس ملک کے صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اس انتخاب میں پنجاب، سندھ میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی شامل ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا بھی تعین کیا گیا۔ اس الیکشن میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی پارٹی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور 116 سیٹیں جیت کر الیکشن جیتنے میں کامیاب رہی۔ 18 اگست 2018 بروز ہفتہ، عمران خان کو آزادی کے بعد سے پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم کے طور پر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے ملک میں غربت اور کرپشن کے خلاف لڑنے کا وعدہ کیا. [3]۔

انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں جماعت کے بانی کا نقطہ نظر

عمران خان نے امام خمینی کے بارے میں یہ کہا: ایران کے لوگ امام خمینی سے اپنے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے تھے اور امام خمینی کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی سادہ زندگی تھی۔ امام خمینی کی وفات کے بعد دنیا نے ان کی سادہ زندگی کا مشاہدہ کیا۔ ایک ایسا کردار جسے پرتعیش زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اس نے طرز حکمرانی کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالا تھا۔ وہ عالمی سیاست دانوں کے لیے ایک نمونہ ہیں [4]۔

پی ٹی آئی کارکنان صوابی انٹرچینج پر جمع ہونا شروع، پنجاب میں متعدد رہنما گرفتار

بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی کال پر آج اسلام آباد کی جانب مارچ اور ڈی چوک پر احتجاج کیا جائے گا جس کے لیے کارکنان پشاور موٹروے پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیف وہیپ عامر ڈوگر اور رہنما زین قریشی کو پنجاب پولیس نے گرفتار کرلیا۔ دونوں رہنماؤں کو قادرپوراں ٹول پلازہ ملتان سے حراست میں لیا گیا ہے۔

پہلا معرکہ صوابی پل پر ہوگا

صوابی سے موٹروے ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند ہے۔ دریائے سندھ صوابی کے مقام پر کنٹینر رکھ کر پل کو بند کر دیا گیا ہے اور پنجاب پولیس کی بھاری نفری صوابی پل کی دوسری طرف موجود ہے۔ پی ٹی آئی قافلے کا پہلا معرکہ صوابی پل پر ہوگا۔ بانی تحریک انصاف کی ہدایت اور کال کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے آج کے احتجاج کو فیصلہ کن قرار دیا اور عوام سے بڑی تعداد میں شرکت کی اپیل کی ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبرپختونخوا سے قافلے صوابی پہنچیں گے اور پھر مرکزی قافلے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب چل پڑیں گے۔ علی امین گنڈا پور کا کہا تھا کہ عمران خان کی رہائی سمیت تمام مطالبات کی منظوری تک ڈی چوک پر بیٹھیں گے۔ وزیراعلیٰ کے ترجمان کے مطابق کتنی ہی سڑکیں بلاک کی جائیں یا پھر کنٹینر لگائی جائیں، اسلام آباد پہنچ کر احتجاج کریں گے اور مطالبات منوائیں گے، راستے کھولنے کیلیے سرکاری نہیں بلکہ پرائیوٹ مشینری ساتھ لے کر جائیں گے۔

پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار نے کہا کہ 12 گھنٹے لگیں یا 100 گھنٹے، ہر صورت میں ڈی چوک پہنچیں گے، حکومت سڑکیں کھودے یا کنٹینر لگائے جہاں راستہ بند ہوگا دھرنا وہیں پر شروع کردیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ بشری بی بی نے احتجاج میں شرکت نہ کرنے اور قافلوں کی وزیراعلیٰ ہاؤس خیبرپختونخوا سے نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے[5]۔

پی ٹی آئی قافلے ڈی چوک پہنچ گئے، فوج نے کنٹرول سنبھال لیا، پولیس کی طرف سے شیلنگ

پی ٹی آئی قافلہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں زیرو پوائنٹ سے جناح ایونیو کی طرف رواں دواں ہے جبکہ پاک فوج نے ڈی چوک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے آبپارہ مارکیٹ اور سپر مارکیٹ بند کروا دیں، خیابان سہروردی سے آبپارہ تک سڑکوں سے گاڑیاں بھی ہٹوا دی گئیں۔ ڈی چوک سے ملحقہ بلیو ایریا میں بھی دکانیں اور سروس روڈ سے گاڑیاں ہٹوا دی گئیں۔

عمران خان کے حکم تک ہم نے واپس نہیں جانا

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہم ڈی چوک پہنچ گئے ہیں لیکن عمران خان کا جب تک حکم نہیں آنا ہم نے واپس نہیں جانا۔ ڈی چوک پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ حکومت نے فسطائیت شروع کر رکھی ہے لیکن ہم نے پرامن دھرنا دینا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا ملک ہے اور اس ملک کو آزاد کرانے نکلے ہیں، کسی کا باپ بھی اپنے فیصلے ہم پر مسلط نہیں کرسکتا۔ دوران خطاب وزیراعلیٰ نے نعرے بھی لگائے اور کارکنوں کا لہو گرمایا۔

اسلام میں فوج طلب، احتجاج کرنے والوں کو گولی مارنے کا حکم وفاقی دارالحکومت میں چار رینجرز اہلکاروں کی شہادت کے بعد فوج کو طلب کرلیا گیا، فوجی دستے پارلیمنٹ ہاؤس، ڈی چوک اور سپریم کورٹ کے باہر تعینات کردیے گئے جنہیں احتجاج کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا۔

پی ٹی آئی کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تضادم میں اب تک رینجرز کے 4 جوان اور پولیس کے 2 جوان جانبحق ہو چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے متعدد کارکن زخمی ہوئے ہیں۔ آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں پاک فوج کو بلا لیا گیا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے احکامات جاری کیے گئے ہیں[6]۔


حوالہ جات