"غفور احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 36: | سطر 36: | ||
= حوالہ جات = | = حوالہ جات = | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
{{پاکستان}} | |||
{{پاکستانی علماء}} | {{پاکستانی علماء}} | ||
{{جماعت اسلامی پاکستان}} | {{جماعت اسلامی پاکستان}} |
نسخہ بمطابق 15:11، 13 فروری 2024ء
غفور احمد | |
---|---|
پورا نام | غفور احمد |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1927 ء، 1305 ش، 1345 ق |
یوم پیدائش | 26 جون |
پیدائش کی جگہ | هندوستان |
وفات | 2021 ء، 1399 ش، 1442 ق |
یوم وفات | 26 دسمبر |
مذہب | اسلام، سنی |
مناصب |
|
غفور احمد ایک ممتاز دانشور، سیاست دان اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب رہنما تھے۔ وہ 1973 میں پاکستان کی آئینی کمیٹی کے رکن تھے اور انہوں نے پاکستان کے آئین کا مسودہ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سوانح عمری
غفور احمد 26 جون 1927 کو باری، انڈیا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں مکمل کی۔ 1948 میں انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے انڈسٹریل اکاؤنٹنگ کورس بھی مکمل کیا اور اکاؤنٹنگ کورس مکمل کرنے کے بعد پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکاؤنٹنٹس کی مینجمنٹ کا ممبر بن گیا۔ سیاسی میدان میں آنے سے پہلے
غفور احمد نے مختلف کاروباری اداروں میں کام کیا اور مختلف تعلیمی اداروں میں بطور ماہر تعلیم کام کیا، جن میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس، انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس آف جناح، اور کراچی کالج شامل ہیں [1]۔
پڑھانا
تجارتی اداروں میں کام کرنے کے علاوہ غفور احمد نے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھایا بھی۔ ان میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف سرٹیفائیڈ پبلک اکاؤنٹنٹس، انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس اور کراچی اردو کالج شامل ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی اور جوش کی وجہ سے، انہوں نے کئی سالوں تک سندھ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی بزنس بورڈ کے نصاب کے ساتھ تعاون کیا۔
جماعت اسلامی پاکستان
غفور احمد نے 1950 میں اس وقت جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی جب ان کی عمر صرف 23 سال تھی اور وہ کئی سال تک جماعت کراچی کے امیر رہے۔ وہ طویل عرصے تک جماعت اسلامی پاکستان کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
پارلیمنٹ اور سیاست میں داخل ہونا
غفور احمد اپنے نرم مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی دانشمندی کے ساتھ ساتھ فکری ہوشیاری کے لیے بھی مشہور تھے۔ وہ شروع سے سیاست میں سرگرم تھے۔ 1958 میں وہ کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ بعد ازاں وہ 1970 میں قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے، 1977 میں وہ دوبارہ قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ وہ پاکستان کے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک اینڈ ایتھنک الائنس کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔
وہ قومی اتحاد کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے جس نے فوجی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ فیصلہ کن مذاکرات کیے تھے۔ 1978 سے 1979 تک وہ پاکستان نیشنل الائنس کی قیادت میں وفاقی وزیر صنعت رہے۔ غفور احمد وزارت کے دور کو اپنی زندگی کا تاریک موسم قرار دیا ہے۔ بعد ازاں وہ 1988 سے 1992 تک اسلامک ڈیموکریٹک فرنٹ کے سیکرٹری جنرل رہے۔
غفور احمد کے پیرپگارا، شیرباز مزاری، نصراللہ خان نوابزادہ اور پاکستان کے ممتاز سیاستدانوں سے قریبی تعلقات تھے اور وہ سیاسی حلقوں میں اپنی شائستگی، صبر، جمہوری مزاج اور ایمانداری کی وجہ سے مقبول تھے۔
گرفتاری اور قید
بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے پہلے دور (1992-1992) کے دوران وہ اسلامی جمہوریہ یونین کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپوزیشن میں رہے۔ اپنے طویل سیاسی کیرئیر کے دوران انہیں اکثر جیل بھیجا گیا۔ ان کی طویل ترین قید نو ماہ تھی، جب جماعت اسلامی کی تحریک کو حکومت نے 1964 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔ جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹاتے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں رہا کر دیا تھا۔ غفور احمد پاکستانی سیاست پر پانچ کتابوں کے مصنف ہیں [2].
وفات ہو جانا
غفور احمد طویل علالت کے بعد 26 دسمبر 2012 کو 85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے [3]۔