"محمد امین شہیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 12 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
'''محمد امین شہدی''' امت واحدہ کا سربراہ، [[مجلس وحدت المسلمین پاکستان]] کا سابقہ نائب صدر، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مشہور مناظر اور سیاسی اور اجتماعی مسائل کا  تجزیہ کار ہیں۔
{{Infobox person
| title = محمد امین شہیدی
| image =  محمد امین شهیدی.jpg
| name =
| other names = شیخ محمد امین شہیدی کاشغری
| brith year = 1966 ء
| brith date =
| birth place = [[پاکستان]]
| death year =
| death date =
| death place =
| teachers = {{hlist| شيخ اعتمادی|شیخ وجدانی|شیخ فتوحی |شیخ سعید رہائی}}
| students =
| religion = [[اسلام]]
| faith = [[شیعہ]]
| works =    {{hlist| حوزہ علمیہ میں طالب علموں کی ذمہ داریاں| مفاخر اسلام| تاریخ حدیث اور اجتہاد |تفسیر پیام}}
| known for = {{hlist|سراہ امت واحدہ پاکستان|معاون مجلس وحدت المسلمین پاکستان}}
| website =
}}
 
'''محمد امین شہیدی''' امت واحدہ کا سربراہ، [[مجلس وحدت المسلمین پاکستان]] کا سابقہ نائب صدر، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مشہور مناظر اور سیاسی و اجتماعی مسائل کا  تجزیہ کار ہیں۔
== سوانح عمری ==
== سوانح عمری ==
شیخ محمد امین شہدی کاشغری 1966ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام محمد یوسف ہے۔ آپ کے دادا احمد خان کشمیر سے یارقند، کاشغر گئے کچھ عرصے کے بعد ان کے صاحب زادے محمد یوسف لے آئے۔
شیخ محمد امین شہدی کاشغری 1966ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام محمد یوسف ہے۔ آپ کے دادا احمد خان کشمیر سے یارقند، کاشغر گئے کچھ عرصے کے بعد ان کے صاحب زادے محمد یوسف گلگت تشریف لے آئے۔
== تعلیم ==
== تعلیم ==
انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت شہر میں حاصل کی، ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے بعد اوائل 1986ء میں حوزہ علمیہ ایرا قم چلے گئے اور اس حوزہ مشہور علماء اور  اساتذہ سے دینی علوم حاصل کی۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت شہر میں حاصل کی، کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے بعد،  اعلٰی دینی تعلیم حاصل کرنے لیے 1986ء کے اوائل میں حوزہ علمیہ قم [[ایران]] چلے گئے اور اس حوزہ کے مشہور علماء اور  اساتذہ سے دینی علوم حاصل کی۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف کی ترویج کے لئے تشکیل دیا تھا۔
 
ان  اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیے <ref>[http://mwmpak.org/2015-04-23-09-07-19/2015-04-23-09-07-54/tag/%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA%20%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86?start=498جی بی کے الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد روایتی سیاست کے بت کو گرانا اور عوامی حقوق کی بازیابی ہے، علامہ امین شہیدی ]-mwmpak.org-شا‏ئع شدہ از:15مئی 20015ء-اخذ بہ تاریخ:6مئی 2024ء۔</ref>۔
 
== اساتذہ ==
== اساتذہ ==
* شیخ سعید رہائی
* شیخ سعید رہائی
سطر 11: سطر 34:
== علمی آثار ==
== علمی آثار ==
آپ نے مندرجہ ذیل کتابوں کا ترجمہ کئے ہیں:
آپ نے مندرجہ ذیل کتابوں کا ترجمہ کئے ہیں:
* تفسیر پیام [[قرآن]](فارسی) از آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
* تفسیر پیام [[قرآن]](فارسی) از آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
* [[ اسلام|مفاخر اسلام]](فارسی) از آقای دوانی
* [[ اسلام|مفاخر اسلام]](فارسی) از آقای دوانی
مندرجہ ذیل عنوانات پر مقالات لکھے:
مندرجہ ذیل عنوانات پر مقالات لکھے:
حوزہ علمیہ میں طالب علموں کی ذمہ داریاں
* حوزہ علمیہ میں طالب علموں کی ذمہ داریاں  
تاریخ تدوین [[حدیث]] و اجتہاد <ref>سید عارف نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان(شمالی علاقہ جات)، 2994ء، امامیہ دارالتبلیغ، اسلام آباد جی سکس ٹو، ص131</ref>۔
* تاریخ تدوین [[حدیث]] و اجتہاد  
<ref>سید عارف نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان(شمالی علاقہ جات)، 2994ء، امامیہ دارالتبلیغ، اسلام آباد جی سکس ٹو، ص131</ref>۔
 
== اتحاد امت مسلمہ کے بارے میں ان کا موقف ==
== اتحاد امت مسلمہ کے بارے میں ان کا موقف ==
=== اسلامی معاشرے میں وحدت کی ضرورت ===
=== اسلامی معاشرے میں وحدت کی ضرورت ===
سطر 23: سطر 48:
امت کے درمیان اتحاد کا قیام قرآن اور نبی کریم کی دعوت پر لبیک کہنا ہے اسی لئے اسلامی معاشروں کے اندر وہ علماء اور اہل دانش جو حکمت دین اور فلسفہ نزول قرآن کو سمجھتے ہیں وہ افتراق امت کو لعنت اور اتحاد امت کو رحمت سمجھتے ہیں، اگر توحید اور رسالت کی بنیاد پر انسان کو یکجا کیا جائے اور اس میں جہاں دین خدا کی سربلندی وقوع پذیر ہوتی ہے وہی پر دین خدا کو ماننے والوں کی عزت، شرف، سربلندی اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔
امت کے درمیان اتحاد کا قیام قرآن اور نبی کریم کی دعوت پر لبیک کہنا ہے اسی لئے اسلامی معاشروں کے اندر وہ علماء اور اہل دانش جو حکمت دین اور فلسفہ نزول قرآن کو سمجھتے ہیں وہ افتراق امت کو لعنت اور اتحاد امت کو رحمت سمجھتے ہیں، اگر توحید اور رسالت کی بنیاد پر انسان کو یکجا کیا جائے اور اس میں جہاں دین خدا کی سربلندی وقوع پذیر ہوتی ہے وہی پر دین خدا کو ماننے والوں کی عزت، شرف، سربلندی اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔


امت کی سربلندی اور کامیابی کی بنیاد، امت کے تمام فرقوں اور گروپوں کے درمیان فکری اور عملی اتحاد ہے لیکن اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے روح کی بلندی اور فکر کی وسعت کے ساتھ قرآن اور سنت کا وسیع مطالعہ بھی درکار ہے۔  اسی امت کے درمیان جو ان نعمتوں سے محروم ہیں وہ اپنی دکانوں کو آباد کرنے کے لئے امت کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور لڑانے کے ذریعے گویا وہ جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ امت کو لڑا کر اپنی دکانیں آباد کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن امت اسلام کے مفادات کی حفاظت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور دشمنان دین کو بھی اس چیز کا خوف ہے.
امت کی سربلندی اور کامیابی کی بنیاد، امت کے تمام فرقوں اور گروپوں کے درمیان فکری اور عملی اتحاد ہے لیکن اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے روح کی بلندی اور فکر کی وسعت کے ساتھ قرآن اور سنت کا وسیع مطالعہ بھی درکار ہے۔  اسی امت کے درمیان جو ان نعمتوں سے محروم ہیں وہ اپنی دکانوں کو آباد کرنے کے لئے امت کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور لڑانے کے ذریعے گویا وہ جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ امت کو لڑا کر اپنی دکانیں آباد کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن امت اسلام کے مفادات کی حفاظت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور دشمنان دین کو بھی اس چیز کا خوف ہے۔
 
ہمارے دشمن  تب امت پر غلبہ حاصل کرسکتا ہے کہ  جب امت کے درمیان اتحاد پیدا نہ ہو اور افتراق اپنے عروج کو پہنچے،  اسی لئے امت کے درمیان اتحاد، تقریب فکر اور تقریب عمل ہر دور کی ضرورت تھی اور آج سب سے زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے اور اس موضوع کو تمام معاشروں میں زندہ رہنا چاہئے اور ہمیشہ اس پر بحث کے ذریعے غلط فہمیاں دور ہونی چاہیں، ہمیں مل بیٹھ کر ان نکات پر جو ہمیں ایک دوسرے کو نزدیک کرسکتے ہیں سوچنا اور تقریب کے لئے کوشش کرنی چاہے۔


=== اتحاد امت کے لیے اہل سنت کی کوشش ===
=== اتحاد امت کے لیے اہل سنت کی کوشش ===
سطر 38: سطر 61:


اس بنیاد پر [[ ایران|انقلاب اسلامی ایران]] کے بعد جو جدوجہد ہوئی ہے وہ کم نظیر اور انتہائی مؤثر بھی رہی ہے، [[پاکستان]] میں سیمیناروں اور مذہبی پلیٹ فارمز پر تمام مسالک کے اہل دانش کو جمع کرکے، لبرل اور ضدِ دین کے مقابلے میں دیندار طاقتوں کو طاقتور کرکے مرزائیت اور [[احمدیہ|قادیانیوں]] کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد ہوکر علماء نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے کامیابی بھی حاصل کی ہے، قادیانیت کے مقابلے میں تشیع اور اہل سنت کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں عظیم کامیابی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جب بھی شیعہ اور سنی نے مل کر جدوجہد کی ہے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اس بنیاد پر [[ ایران|انقلاب اسلامی ایران]] کے بعد جو جدوجہد ہوئی ہے وہ کم نظیر اور انتہائی مؤثر بھی رہی ہے، [[پاکستان]] میں سیمیناروں اور مذہبی پلیٹ فارمز پر تمام مسالک کے اہل دانش کو جمع کرکے، لبرل اور ضدِ دین کے مقابلے میں دیندار طاقتوں کو طاقتور کرکے مرزائیت اور [[احمدیہ|قادیانیوں]] کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد ہوکر علماء نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے کامیابی بھی حاصل کی ہے، قادیانیت کے مقابلے میں تشیع اور اہل سنت کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں عظیم کامیابی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جب بھی شیعہ اور سنی نے مل کر جدوجہد کی ہے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
 
=== ہفتۃ وحدت کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنے اور دنیائے اسلام پر اس کے اثرات ===
دشمنوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ ہر صورت میں مشترکات کو نظرانداز اور افتراق کو ہوا دیں تاکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور رکھے۔
اب یہ علماء اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی نصاب، مساجد کے نطام اور یونیورسٹیز میں ان مشترکات کے فروغ کے لئے عملی جدوجہد کریں اور معاشرے کے پڑھے لکھے، فہیم اور دین کے ادراک رکھنے والوں کو مسلسل اس حوالے سے ترغیب دلائےاور یہی نجات کا راستہ ہے اور اس کے ذریعے سے ہم بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
=== ہفتۃ وحدت کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنے اور دنیائے اسلام پر اس کے کیا اثرات ===


جب ہم [[ہفتہ وحدت|ہفتۂ وحدت]] مناتے ہیں تو گویا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں اٹھاتے ہیں، نبی کریم (ص) کا پرچم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اندر ڈیڑھ ارب سے زیادہ [[مسلمان|مسلمانوں]] کو ایک پرچم کے نیچے جمع کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دین کے دشمنوں کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے،  لہذا پوری دنیا کے اندر جب ان ایام میں کروڑوں لوگ میدان میں نکل کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں لیکر آپ سے عشق اور محبت کا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سب سے پہلے پوری دنیا کو بالخصوص استعمار، [[اسرائیل]] سمیت مغربی دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں امت متحد ہے۔
جب ہم [[ہفتہ وحدت|ہفتۂ وحدت]] مناتے ہیں تو گویا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں اٹھاتے ہیں، نبی کریم (ص) کا پرچم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اندر ڈیڑھ ارب سے زیادہ [[مسلمان|مسلمانوں]] کو ایک پرچم کے نیچے جمع کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دین کے دشمنوں کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے،  لہذا پوری دنیا کے اندر جب ان ایام میں کروڑوں لوگ میدان میں نکل کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں لیکر آپ سے عشق اور محبت کا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سب سے پہلے پوری دنیا کو بالخصوص استعمار، [[اسرائیل]] سمیت مغربی دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں امت متحد ہے۔
سطر 54: سطر 74:


امام علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ کسی تاریخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ امام علیہ السلام نے کسی سے کچھ سیکھا ہو، اس کی وجہ یہی ہے کہ صادق آل محمد علیہم السلام، علوم آل محمد علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہ علوم ان کے لئے کسبی نہیں بلکہ وہنی اور لدنی ہیں اور نبی کریم (ص) کی ذات اقدس سے ان تک منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم احادیث میں [[علی ابن ابی طالب|امیرالمومنین علی علیہ السلام]] کو بابِ علم نبی(ص) سمجھتے ہیں تو یہی علوم اس باب سے آگے آئمہ(ع)کے توسط سے امام صادق علیہ السلام تک منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ "حضرت ثابت ابن نعمان” یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو دو سال کے عرصے کو میں نے صادق آل محمد(ع) کی بارگاہ میں نہیں گزارا ہوتا تو میں ہلاک ہوتا، یہی وجہ ہے کہ محدثین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اپنے آپ کو امام علیہ السلام سے فیض پانے کی مرہونِ منت سمجھتی ہے۔
امام علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ کسی تاریخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ امام علیہ السلام نے کسی سے کچھ سیکھا ہو، اس کی وجہ یہی ہے کہ صادق آل محمد علیہم السلام، علوم آل محمد علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہ علوم ان کے لئے کسبی نہیں بلکہ وہنی اور لدنی ہیں اور نبی کریم (ص) کی ذات اقدس سے ان تک منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم احادیث میں [[علی ابن ابی طالب|امیرالمومنین علی علیہ السلام]] کو بابِ علم نبی(ص) سمجھتے ہیں تو یہی علوم اس باب سے آگے آئمہ(ع)کے توسط سے امام صادق علیہ السلام تک منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ "حضرت ثابت ابن نعمان” یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو دو سال کے عرصے کو میں نے صادق آل محمد(ع) کی بارگاہ میں نہیں گزارا ہوتا تو میں ہلاک ہوتا، یہی وجہ ہے کہ محدثین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اپنے آپ کو امام علیہ السلام سے فیض پانے کی مرہونِ منت سمجھتی ہے۔
شیعہ نیوز:امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک علمی و فکری نشست میں شرکت کی اور خطاب کیا۔
تفصیلات کے مطابق، نشست کا موضوع ”اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ“ تھا۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جاری ہے۔ اسلام پر یلغار سیکولرز اور لبرلز کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی راہ میں جو چیز حائل ہے، وہ انسان کی معنویت ہے۔ معنویت وہ واحد نظریہ ہے جو انسان کی روح کی ضرورت اور تکمیل کا ذریعہ ہے۔ دینِ اسلام کےعلاوہ یہ نظریہ ہندو ازم، سکھ ازم، بدھ ازم، عیسائیت اور یہودیت میں بھی موجود ہے۔
یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ روحانی سکون کا خواہش مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکینِ مکہ کا بتوں کو سجدہ کرنا بھی ان کی معنوی ضرورت کا تقاضہ تھا۔ اس معنویت کو راہِ راست پر لانے اور درست عبودیت کا راستہ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ درست عبودیت کے انتخاب کے نتیجہ میں انسان کی معنویت کو سکون ملتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرے ذرائع سے حاصل کیے جانا والا سکون عارضی اور ناپائیدار ہے۔
جیسے شراب کا نشہ وقتی طور پر انسان کو پرسکون تو کر دیتا ہے لیکن نشہ کا اثر ختم ہونے کے بعد وہ اضطراب محسوس کرتا ہے اور دوبارہ سکون حاصل کرنے کے لئے مزید شراب پیتا ہے۔ ایسے اضطراب کا شکار انسان اگر درست راستہ کا انتخاب کرے تو اس کے اندر کی بےچینی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے فرمانِ خداوندی ہے کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔ یہاں ذکر سے مراد صرف زبان سے چند مخصوص کلمات کا ادا کرنا نہیں ہے، کلمات ذکر کا مظہر ہیں جب کہ ذکر کی اصل روح وہ سکون اور اطمینان ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔
== پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ==
== پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ==
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے دینِ اسلام کو انسان کی تسکین کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اہم ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس نظام کا حاصل یہ ہے کہ انسان پیسہ کمانے کی مشین اور یہی پیسہ سرمایہ داروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے دینِ اسلام کو انسان کی تسکین کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اہم ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس نظام کا حاصل یہ ہے کہ انسان پیسہ کمانے کی مشین اور یہی پیسہ سرمایہ داروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
سطر 71: سطر 84:
شہیدی نے [[ایران]] میں [[مہسا امینی]] کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں مہسا امینی کو حجاب مخالف تحریک کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر مہسا امینی نہ ہوتی تو اس چال کے لئے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جاتا۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپ کے سرمایہ دار ممالک مہسا امینی کے نام کو استعمال کر کے حجاب مخالف تحریک کی اقتصادی اورثقافتی پشت پناہی رہے ہیں۔ ایران پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے جب کہ اس کے مقابلہ میں ان کے اپنے معاشرہ میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن وہ ان کے لئے چیلنج نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ ان کے لئے چیلنج ہے اور وہ اس بات کو بہانہ بنا کر ہماری دینی اقدار اور کلچر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں <ref>[https://shianews.com.pk/at-this-time-the-war-between-islam-and-the-capitalist-system-is-going-on-all-over-the-world-allama-muhammad-amin-shahidi/اس وقت پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جاری ہے, علامہ محمد امین شہیدی ]-shianews.com.pk-شائع شدہ از:22اکتوبر 2022ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی2024۔</ref>۔
شہیدی نے [[ایران]] میں [[مہسا امینی]] کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں مہسا امینی کو حجاب مخالف تحریک کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر مہسا امینی نہ ہوتی تو اس چال کے لئے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جاتا۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپ کے سرمایہ دار ممالک مہسا امینی کے نام کو استعمال کر کے حجاب مخالف تحریک کی اقتصادی اورثقافتی پشت پناہی رہے ہیں۔ ایران پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے جب کہ اس کے مقابلہ میں ان کے اپنے معاشرہ میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن وہ ان کے لئے چیلنج نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ ان کے لئے چیلنج ہے اور وہ اس بات کو بہانہ بنا کر ہماری دینی اقدار اور کلچر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں <ref>[https://shianews.com.pk/at-this-time-the-war-between-islam-and-the-capitalist-system-is-going-on-all-over-the-world-allama-muhammad-amin-shahidi/اس وقت پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جاری ہے, علامہ محمد امین شہیدی ]-shianews.com.pk-شائع شدہ از:22اکتوبر 2022ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی2024۔</ref>۔
== شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا ==
== شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا ==
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے [[قاسم سلیمانی|شہیدِ قدس جنرل قاسم سلیمانی]] کے تیسرے یومِ شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید حاج قاسم کا شمار ان عظیم ترین ہیروز میں ہوتا ہے جنہوں نے صرف ایک قوم کی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے مظلومین کی بھی خدمت کی۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ ان کو صرف سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بریگیڈ کے کمانڈر کے طور پر دیکھتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ [[یمن]] میں ہونے والی استعماری مداخلت ہو، شام کی حکومت کے خاتمہ کے لیے مغرب، اسرائیل اور عرب ریاستوں کی مشترکہ جدوجہد ہو، عراق میں مغربی حکومت کے قیام کے لیے یورپ، امریکہ اور عرب ریاستوں کی سرمایہ کاری اور دہشت گردی ہو، افغانستان کی گھمبیر صورتحال ہو، داعش کی تشکیل کے ذریعہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا ہو یا پھر اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کر کے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہو، شہید حاج قاسم وہاں ایک جنگی ماہر، درد مند اسلامی رہنما، کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور نجات دہندہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔
امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے [[قاسم سلیمانی|شہیدِ قدس جنرل قاسم سلیمانی]] کے بارے میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ [[یمن]] میں ہونے والی استعماری مداخلت ہو، شام کی حکومت کے خاتمہ کے لیے مغرب، اسرائیل اور عرب ریاستوں کی مشترکہ جدوجہد ہو، عراق میں مغربی حکومت کے قیام کے لیے یورپ، امریکہ اور عرب ریاستوں کی سرمایہ کاری اور دہشت گردی ہو، افغانستان کی گھمبیر صورتحال ہو، داعش کی تشکیل کے ذریعہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا ہو یا پھر اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کر کے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہو، شہید حاج قاسم وہاں ایک جنگی ماہر، درد مند اسلامی رہنما، کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور نجات دہندہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔


[[فلسطین]]، مشرقِ وسطی کا سب سے اہم ایشو ہے۔ فلسطینی مقاومت و مجاہدت کی حمایت اور پیش رفت کے حوالہ سے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے میں جو کردار شہید حاج قاسم نے ادا کیا، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ سنہ 2006ء کی جنگ میں لبنان فرنٹ لائن تھا جہاں حزب اللہ اور دیگر مقاومتی قوتوں کے ذریعہ لبنان کی سرزمین کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے لبنان کی عوام کو اس بربریت سے نجات دلائی اور اتنا طاقتور بنا دیا کہ اسرائیلی، لبنان کی حکومت کی بجائے حزب اللہ سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ نے لکھا کہ ایک ملک میں منتخب حکومت ہونے کے باوجود وہاں کے منظم گروہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ قومی حمیت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل جیسی خوفناک قوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
[[فلسطین]]، مشرقِ وسطی کا سب سے اہم ایشو ہے۔ فلسطینی مقاومت و مجاہدت کی حمایت اور پیش رفت کے حوالہ سے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے میں جو کردار شہید حاج قاسم نے ادا کیا، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ سنہ 2006ء کی جنگ میں لبنان فرنٹ لائن تھا جہاں حزب اللہ اور دیگر مقاومتی قوتوں کے ذریعہ لبنان کی سرزمین کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے لبنان کی عوام کو اس بربریت سے نجات دلائی اور اتنا طاقتور بنا دیا کہ اسرائیلی، لبنان کی حکومت کی بجائے حزب اللہ سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ نے لکھا کہ ایک ملک میں منتخب حکومت ہونے کے باوجود وہاں کے منظم گروہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ قومی حمیت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل جیسی خوفناک قوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔


شہید جنرل قاسم سلیمانی کے حوالہ سے شاید دنیا کو بہت سے حقائق کا علم نہیں۔ وہ کوئی افسانوی کردار نہیں، البتہ انہیں کسی ناول کے ایمان دار، بے خوف اور بہادر ہیرو کی حقیقی شکل ضرور قرار دیا جاسکتا ہے وہ مردِ مجاہد کہ جس کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران عراق کے صدر جلال طالبانی کے ساتھ شہید حاج قاسم کی موجودگی کا سن کر امریکی صدر پر سکتہ طاری ہوگیا۔ یعنی شہید حاج قاسم ایک طرف استکبار کے لیے خوف کی علامت تھے تو دوسری طرف مظلومین کے لئے شفقت و مہربانی کا مظہر۔ انسانی صفات و رشتوں کا بہترین مجموعہ اور عالمی استکبار کے مقابل کھڑا ہونے اور ان سے نبرد آزما ہونے کا ماہر، اگر ان سب کو ایک ہی جگہ تلاش کرنا چاہیں تو وہ شہید حاج قاسم کی جامع ذات ہے۔
آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپ کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا لیکن آپ کی شہادت نے ایرانی، عراقی، شامی، لبنانی، یمنی، فلسطینی، بحرینی، حجازی، پاکستانی اور افغان عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا۔ ان کی شخصیت تمام مظلوم انسانوں کو تاریکی سے نکالنے اور معاشرتی ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، اپنی ذات میں جامع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر غور و فکر، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہیے کہ آلِ محمؐد کی تعلیمات پر عمل کے نتیجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین جنم لیتے ہیں جو دنیا کی تمام ظالم اور سرکش حکومتوں اور طاقتوں کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد عوام کو ان کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید حاج قاسم اس حوالہ سے انسانی معاشرہ کے عظیم ہیرو ہیں <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1913977/%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85-%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%AF%D8%AA-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%AA%D9%85-%D8%AF%DB%8C%D8%AF%DB%81-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%AF%D9%88%D8%AC%DB%81%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%85%D8%A7%D8%B1 شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا]-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:3جنوری 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی 2024ء۔</ref>۔
== مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں،بلکہ نظریاتی ہے ==
امت  واحدہ پاکستان کے سربراہ نے '''یومِ نکبہ''' کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، بلکہ نظریاتی ہے۔ یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے، جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔
 
محمد امین شہیدی نے یومِ نکبہ کے حوالہ سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی نے بالعموم اقوامِ عالم اور بالخصوص نوجوان نسل میں فکری و نظریاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر مغربی اقدار اور حکمرانوں کے طرزِ عمل میں واضح ٹکراؤ نے وہاں کے عوام کو حق کی شناخت کا شعور بخشا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب کی نصابی کتب میں پڑھائی جانے والی اخلاقی اقدار کے برخلاف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ غزہ میں گزشتہ سات ماہ سے ہونے والی حیوانیت اور انسان سوزی شرمناک ہے۔ اسی لئے آج کے میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے [[اسرائیل]] اور اس کے حمایتی ممالک کے مظالم دیکھنے کے بعد مغربی نوجوانوں کے اذہان میں سوال اٹھنا شروع ہوا کہ ان کے حکمرانوں کا طرزِ عمل، نصاب میں شامل اخلاقی اقدار سے مختلف کیوں ہے؟ نتیجتًا یہ لوگ اس درندگی اور بربریت کے خلاف میدانِ عمل میں اترے ہیں۔
 
شہیدی نے مزید کہا : کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، نظریاتی ہے۔  یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔ اہلِ مغرب کی بیداری اِس چیز کی علامت ہے کہ جب انسان کا شعور بلند ہوتا ہے تو پھر اسے کسی ہادی کے بغیر بھی سچائی کا راستہ نظر آتا ہے۔ [[علی ابن ابی طالب|امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام]] نے [[نہج البلاغہ]] میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے [[انبیاء علیہم السلام]] کو مقروض کیا ہے۔ کیوں؟  کیونکہ انسان کی ہدایت کے لئے ایک نبی باہر اور دوسرا نبی اُس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ باہر والے نبی کو خداوند متعال مبعوث فرماتا ہے تاکہ وہ انسان کے اندر موجود باطنی نبی کو بیدار کرے۔ باطنی نبی سے مراد  [[فطرتِ سلیم]] ہے جسے  ہم ضمیر کہتے ہیں۔ اگر ضمیر جاگا ہوا ہو اور انسان خدا کو قبول نہ بھی کرے، تب بھی وہ ضمیر کی آواز کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ غزہ کی جنگ نے اسی شعور میں اضافہ کیا ہے۔
 
انہوں نے کہا: کہ  کہ [[سید علی خامنہ ای|حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای]] نے ابتدا میں ایک جملہ کہا تھا کہ غزہ کی جنگ حق اور باطل کے درمیان وہ لکیر ہے جو اس بات کی وضاحت اور تصدیق کرے گی کہ [[حسن بن علی|امام مہدی آخر الزماں عجل اللہ فرج]] کی سپاہ اور ان کے مقابلہ میں کون لوگ ہوں گے۔  ہم  شیعہ سنی دونوں روایات میں پڑھتے ہیں کہ امام زماں علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/398904/%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D9%84%D8%B3%D8%B7%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D9%85%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%DB%8C%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%B0%DB%81%D8%A8%DB%8C-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D9%84%DA%A9%DB%81-%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں،بلکہ نظریاتی ہے: علامہ امین شہیدی]-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از: 16 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 مئی 2024ء۔</ref>۔
 
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}


آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپ کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا لیکن آپ کی شہادت نے ایرانی، عراقی، شامی، لبنانی، یمنی، فلسطینی، بحرینی، حجازی، پاکستانی اور افغان عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا۔ ان کی شخصیت تمام مظلوم انسانوں کو تاریکی سے نکالنے اور معاشرتی ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، اپنی ذات میں جامع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر غور و فکر، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہیے کہ آلِ محمؐد کی تعلیمات پر عمل کے نتیجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین جنم لیتے ہیں جو دنیا کی تمام ظالم اور سرکش حکومتوں اور طاقتوں کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد عوام کو ان کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید حاج قاسم اس حوالہ سے انسانی معاشرہ کے عظیم ہیرو ہیں <ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1913977/%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF-%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85-%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%AF%D8%AA-%D9%86%DB%92-%D8%B3%D8%AA%D9%85-%D8%AF%DB%8C%D8%AF%DB%81-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AC%D8%AF%D9%88%D8%AC%DB%81%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%85%D8%A7%D8%B1 شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا]-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:3جنوری 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی 2024ء۔</ref>۔
{{پاکستان}}
{{پاکستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:پاکستان]]

حالیہ نسخہ بمطابق 11:05، 17 مئی 2024ء

محمد امین شہیدی
محمد امین شهیدی.jpg
دوسرے نامشیخ محمد امین شہیدی کاشغری
ذاتی معلومات
پیدائش1966 ء، 1344 ش، 1385 ق
پیدائش کی جگہپاکستان
اساتذہ
  • شيخ اعتمادی
  • شیخ وجدانی
  • شیخ فتوحی
  • شیخ سعید رہائی
مذہباسلام، شیعہ
اثرات
  • حوزہ علمیہ میں طالب علموں کی ذمہ داریاں
  • مفاخر اسلام
  • تاریخ حدیث اور اجتہاد
  • تفسیر پیام
مناصب
  • سراہ امت واحدہ پاکستان
  • معاون مجلس وحدت المسلمین پاکستان

محمد امین شہیدی امت واحدہ کا سربراہ، مجلس وحدت المسلمین پاکستان کا سابقہ نائب صدر، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مشہور مناظر اور سیاسی و اجتماعی مسائل کا تجزیہ کار ہیں۔

سوانح عمری

شیخ محمد امین شہدی کاشغری 1966ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام محمد یوسف ہے۔ آپ کے دادا احمد خان کشمیر سے یارقند، کاشغر گئے کچھ عرصے کے بعد ان کے صاحب زادے محمد یوسف گلگت تشریف لے آئے۔

تعلیم

انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت شہر میں حاصل کی، کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے بعد، اعلٰی دینی تعلیم حاصل کرنے لیے 1986ء کے اوائل میں حوزہ علمیہ قم ایران چلے گئے اور اس حوزہ کے مشہور علماء اور اساتذہ سے دینی علوم حاصل کی۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف کی ترویج کے لئے تشکیل دیا تھا۔

ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیے [1]۔

اساتذہ

  • شیخ سعید رہائی
  • شیخ علی وجدانی
  • شیخ اعتمادی
  • شیخ فتوحی

علمی آثار

آپ نے مندرجہ ذیل کتابوں کا ترجمہ کئے ہیں:

  • تفسیر پیام قرآن(فارسی) از آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
  • مفاخر اسلام(فارسی) از آقای دوانی

مندرجہ ذیل عنوانات پر مقالات لکھے:

  • حوزہ علمیہ میں طالب علموں کی ذمہ داریاں
  • تاریخ تدوین حدیث و اجتہاد

[2]۔

اتحاد امت مسلمہ کے بارے میں ان کا موقف

اسلامی معاشرے میں وحدت کی ضرورت

جب ان سے سوال کیا گیا کہ وحدت کے بارے میں گفتگو کیوں اور صرف اسلامی معاشرے میں ہی وحدت پر بات کیوں ضروری ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں کہا: اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہےاور خاتم الانبیاء پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ان تمام سابقہ انبیاء(ع) کی تعلیمات کی کامل ترین شکل لے کر تشریف لائے. آپ کا کلمہ پڑھنے والوں کو آپ کی امت کہا گیا ہے، امت کے درمیان اتحاد، وحدت اور یکجہتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش، قرآن کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اللہ تعالیٰ قرآن میں کلمۂ اللہ کی بنیاد پر تمام انسانوں کو ایک پرچم تلے جمع ہونے اور اللہ کے مقابلے میں کھڑی غیر الہی قوتوں کے مقابلے میں طاقت کے اظہار کی دعوت دیتا ہے، ایسی صورتحال میں امت کے درمیان افتراق قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف ہے۔

امت کے درمیان اتحاد کا قیام قرآن اور نبی کریم کی دعوت پر لبیک کہنا ہے اسی لئے اسلامی معاشروں کے اندر وہ علماء اور اہل دانش جو حکمت دین اور فلسفہ نزول قرآن کو سمجھتے ہیں وہ افتراق امت کو لعنت اور اتحاد امت کو رحمت سمجھتے ہیں، اگر توحید اور رسالت کی بنیاد پر انسان کو یکجا کیا جائے اور اس میں جہاں دین خدا کی سربلندی وقوع پذیر ہوتی ہے وہی پر دین خدا کو ماننے والوں کی عزت، شرف، سربلندی اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں فتح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔

امت کی سربلندی اور کامیابی کی بنیاد، امت کے تمام فرقوں اور گروپوں کے درمیان فکری اور عملی اتحاد ہے لیکن اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے روح کی بلندی اور فکر کی وسعت کے ساتھ قرآن اور سنت کا وسیع مطالعہ بھی درکار ہے۔ اسی امت کے درمیان جو ان نعمتوں سے محروم ہیں وہ اپنی دکانوں کو آباد کرنے کے لئے امت کو تقسیم کرتے ہیں، لڑاتے ہیں اور لڑانے کے ذریعے گویا وہ جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ امت کو لڑا کر اپنی دکانیں آباد کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتے ہیں، لیکن امت اسلام کے مفادات کی حفاظت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور دشمنان دین کو بھی اس چیز کا خوف ہے۔

اتحاد امت کے لیے اہل سنت کی کوشش

طول تاریخ میں وہ علماء اور اہل دانش جن کا دین کے حوالے سے جامع مطالعہ ہے ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مشترکات امت کی بنیاد پر کفر اور شرک کی بغاوت کے مقابلے میں موحدین اور نبی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یکجا کیا جائے اس میں شیعہ اور سنی کا کوئی فرق نہیں ہے، شیعوں میں ایسے بڑے بڑے عالم گزرے ہیں جنہوں نے عملی طور پر اس راستے میں قدم اٹھایا اور تقریب بین المذاہب کے لئے جدوجہد کی اور اس عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ فکری اور نظریاتی جدوجہد بھی کی ہے، چاہئے وہ علماء نجف کے ہوں یا لبنان و قم کی سرزمین پر اور ان کے راستے کو اپنانے والے ایسے علماء برصغیر میں بھی گزرے ہیں جنہوں نے اس نظریات کو اپناتے ہوئے امت کو آپس میں متحد کرنے کے لئے اپنی زندگیاں صرف کیں، اس میں اہل سنت اور شیعہ دونوں ہیں۔

اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے یہ معرفت دین اور گہرے فہم و شعور کا ہے، جن حضرات کا فہم سطحی ہے چاہئے تشیع میں ہو یا تسنن میں ان کی سطحی فکر کی وجہ سے وہ مسلکی اختلافات کو ہوا دیتے رہے ہیں اور جن کی نگاہ عميق ہے اور دین کی روح سے واقف ہیں ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ مشترکات کی بنیاد پر امت کو متحد کرکے معاشرے میں موجود ظالمانہ نطام کے مقابلے میں امت کو کھڑا کرکے معاشرے کے اندر عدالت کی حکومت کے لئے جدوجہد کریں۔

لہذا اس سلسلے میں مصر کے علماء، کاشف الغطاء، شہید موسی صدر، آیت اللہ بروجردی، امام خمینی رح یا رہبر معظم انقلاب ہوں یا علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح، علامہ شہید عارف الحسینی جیسی شخصیات ہوں انہوں نے ہمیشہ اتحاد امت کے لئے جدو جہد کی اور مختلف تحریکوں میں علماء اور مفکرین نے ان کا ساتھ دیا.اتحاد کے حوالے سے قاضی حسین احمد مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی اور ابو اعلی مودودی کا اتحاد امت کے حوالے سے اہم کردار رہا ہے۔ اس لئے کشتی امت کی نجات کے لئے شیعہ اور سنی دونوں مکاتب کے بافہم علماء اور اکابرین کا رول اور کردار نطر آتا ہے۔

پاکستان میں اتحاد امت کے لیے اقدامات

اب تک پاکستان میں مذہبی اختلافات کو دور کرنے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں امین شہیدی نے کہا کہ : وحدتِ امت کے حوالے سے جن میدانوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے، ان میں سے سب سے اہم ترین میدان مسجد، ممبر اور قلم ہے، اگر وہ مراکز جہاں سے لوگ دین لیتے ہیں اتحادِ امت کی فضا قائم ہو تو معاشرے میں اتحادِ امت کی فضا قائم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن وہاں پر افتراق کی بنیادیں مضبوط ہوجائیں تو پھر معاشرے کے اندر بھی تفرقہ عام ہوجاتا ہے۔

اس بنیاد پر انقلاب اسلامی ایران کے بعد جو جدوجہد ہوئی ہے وہ کم نظیر اور انتہائی مؤثر بھی رہی ہے، پاکستان میں سیمیناروں اور مذہبی پلیٹ فارمز پر تمام مسالک کے اہل دانش کو جمع کرکے، لبرل اور ضدِ دین کے مقابلے میں دیندار طاقتوں کو طاقتور کرکے مرزائیت اور قادیانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد ہوکر علماء نے بڑی جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے کامیابی بھی حاصل کی ہے، قادیانیت کے مقابلے میں تشیع اور اہل سنت کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں عظیم کامیابی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ جب بھی شیعہ اور سنی نے مل کر جدوجہد کی ہے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

ہفتۃ وحدت کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں متحد کرنے اور دنیائے اسلام پر اس کے اثرات

جب ہم ہفتۂ وحدت مناتے ہیں تو گویا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں اٹھاتے ہیں، نبی کریم (ص) کا پرچم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اندر ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کو ایک پرچم کے نیچے جمع کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دین کے دشمنوں کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے، لہذا پوری دنیا کے اندر جب ان ایام میں کروڑوں لوگ میدان میں نکل کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم ہاتھ میں لیکر آپ سے عشق اور محبت کا اظہار کرتے ہیں تو اس کا سب سے پہلے پوری دنیا کو بالخصوص استعمار، اسرائیل سمیت مغربی دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں امت متحد ہے۔

یہی اتحاد فلسطین،شام، عراق، یمن، ایران، افغانستان اور کشمیر میں شیعہ سنی کو اکٹھا کرکے بت پرستوں اور سرمایہ دارانہ نظام اور بےدینی کے مقابلے میں ایک بہت بڑی قوت کے طور پر پیش کر سکتا ہے اور یہ اتحاد و وحدت پوری دنیا کے لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

وحدت اسلامی کے پیش نظر فلسطین کی آزادی میں کردار

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم قدس شریف اور فلسطین کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے عرب، عجم اور شیعہ سنی کی تفریق کو مٹانا ہوگا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ افتراق بھی باقی رہے اور قدس بھی آزاد ہو کیونکہ اسرائیل کی بھی یہی کوشش رہی ہے کہ امت کو فرقہ وارانہ معاملات میں ایک دوسرے کے سامنے پیش کرکے ایک ایک کرکے گردن کاٹے لہذا فلسطین اور قدس کی آزادی سے امت کے اتحاد و وحدت کا گہرا تعلق ہے۔ آزادی تب ممکن ہو گی جب ہم قوموں، جغرافیائی اور مسالک و فرق کی قید سے نکل کر امت محمدی کی حیثیت سے مل کر جدوجہد کریں گے۔

اہل بیت علیہم السلام وحدت اسلامی کا محور

امام جعفر صادق علیہ السلام عالم اسلام کی وہ متفقہ اور مستند ہستی ہیں جن کو امام اہلبیت کہا جاتا ہے اور سب سے دلچسپ اور خوبصورت بات یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام عالم اسلام میں ایک محور اور مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں اور جتنے بھی فقہی اور کلامی مکاتب ہیں ان کے جتنے بھی پیشوا، آئمہ اور فقہاء ہیں، سب کے سب یا بالواسطہ یا بلاواسطہ صادق آل محمد علیہم السلام کے شاگرد ہیں اور ان تمام شخصیات کے بارے میں امام علیہ السلام کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ ٹیکنے کا تذکرہ شیعہ سنی کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔

امام علیہ السلام کا مقام اتنا بلند ہے کہ کسی تاریخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ امام علیہ السلام نے کسی سے کچھ سیکھا ہو، اس کی وجہ یہی ہے کہ صادق آل محمد علیہم السلام، علوم آل محمد علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہ علوم ان کے لئے کسبی نہیں بلکہ وہنی اور لدنی ہیں اور نبی کریم (ص) کی ذات اقدس سے ان تک منتقل ہوئے ہیں۔ جب ہم احادیث میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کو بابِ علم نبی(ص) سمجھتے ہیں تو یہی علوم اس باب سے آگے آئمہ(ع)کے توسط سے امام صادق علیہ السلام تک منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ "حضرت ثابت ابن نعمان” یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو دو سال کے عرصے کو میں نے صادق آل محمد(ع) کی بارگاہ میں نہیں گزارا ہوتا تو میں ہلاک ہوتا، یہی وجہ ہے کہ محدثین اور متکلمین کی ایک بہت بڑی جماعت اپنے آپ کو امام علیہ السلام سے فیض پانے کی مرہونِ منت سمجھتی ہے۔

پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ

امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے دینِ اسلام کو انسان کی تسکین کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اہم ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس نظام کا حاصل یہ ہے کہ انسان پیسہ کمانے کی مشین اور یہی پیسہ سرمایہ داروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے نزدیک انسان ایک آلہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی نظر میں انسان ہدف ہے، اسی لئے اس کی تربیت کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا گیا۔ مطالعہ اور تحقیق کے بعد حیرت انگیز حقائق کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام دنیا اسلام کے خلاف مصروفِ عمل ہے لیکن اس دین کی آئیڈیالوجی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چند یورپی مالک کے تھنک ٹینکس نے اپنی حکومتوں کو خبردار کیا ہے کہ اگلے چالیس سالوں میں اسلام ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ سال کے تقریبا ہر روز ایک کلیسا کو گرا کر پارک، ہسپتال یا مسجد کو تعمیر کیا جا رہا ہے۔

کلیسا جو دنیا کے سب سے بڑے مذہب مسیحیت کا مرکز ہے، اب مسیحوں کی قلبی و روحانی تسکین کا باعث نہیں رہا۔ تیزی سےبڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت کلیساؤں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ صرف دینِ اسلام ہی انسان کی روح کو مخاطب کر کے اسے آخری وقت تک مایوس ہونے نہیں دیتا۔ پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے امین شہیدی نے کہا: کہ ہمارے تعلیمی نظام، نصاب اور اس کے ڈھانچہ کو بھی مغرب نے تشکیل دیا ہے اور اسی نصاب کے ذریعہ دیسی لبرلز تیار کیے جاتے ہیں۔ دیسی لبرلز کی مثال "کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا" جیسی ہے جن کو نہ سرمایہ ملتا ہے اور نہ خدا و رسولؐ ہمارے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑا چیلنج دین بیزاری کا ہے۔

شہیدی نے ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں کو سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں مہسا امینی کو حجاب مخالف تحریک کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر مہسا امینی نہ ہوتی تو اس چال کے لئے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جاتا۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپ کے سرمایہ دار ممالک مہسا امینی کے نام کو استعمال کر کے حجاب مخالف تحریک کی اقتصادی اورثقافتی پشت پناہی رہے ہیں۔ ایران پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے جب کہ اس کے مقابلہ میں ان کے اپنے معاشرہ میں سنگین جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن وہ ان کے لئے چیلنج نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ ان کے لئے چیلنج ہے اور وہ اس بات کو بہانہ بنا کر ہماری دینی اقدار اور کلچر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں [3]۔

شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا

امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ محمد امین شہیدی نے شہیدِ قدس جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یمن میں ہونے والی استعماری مداخلت ہو، شام کی حکومت کے خاتمہ کے لیے مغرب، اسرائیل اور عرب ریاستوں کی مشترکہ جدوجہد ہو، عراق میں مغربی حکومت کے قیام کے لیے یورپ، امریکہ اور عرب ریاستوں کی سرمایہ کاری اور دہشت گردی ہو، افغانستان کی گھمبیر صورتحال ہو، داعش کی تشکیل کے ذریعہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا ہو یا پھر اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کر کے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہو، شہید حاج قاسم وہاں ایک جنگی ماہر، درد مند اسلامی رہنما، کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور نجات دہندہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔

فلسطین، مشرقِ وسطی کا سب سے اہم ایشو ہے۔ فلسطینی مقاومت و مجاہدت کی حمایت اور پیش رفت کے حوالہ سے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے میں جو کردار شہید حاج قاسم نے ادا کیا، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ سنہ 2006ء کی جنگ میں لبنان فرنٹ لائن تھا جہاں حزب اللہ اور دیگر مقاومتی قوتوں کے ذریعہ لبنان کی سرزمین کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے لبنان کی عوام کو اس بربریت سے نجات دلائی اور اتنا طاقتور بنا دیا کہ اسرائیلی، لبنان کی حکومت کی بجائے حزب اللہ سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ نے لکھا کہ ایک ملک میں منتخب حکومت ہونے کے باوجود وہاں کے منظم گروہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ قومی حمیت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل جیسی خوفناک قوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔

آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپ کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا لیکن آپ کی شہادت نے ایرانی، عراقی، شامی، لبنانی، یمنی، فلسطینی، بحرینی، حجازی، پاکستانی اور افغان عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا۔ ان کی شخصیت تمام مظلوم انسانوں کو تاریکی سے نکالنے اور معاشرتی ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، اپنی ذات میں جامع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر غور و فکر، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہیے کہ آلِ محمؐد کی تعلیمات پر عمل کے نتیجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین جنم لیتے ہیں جو دنیا کی تمام ظالم اور سرکش حکومتوں اور طاقتوں کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد عوام کو ان کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید حاج قاسم اس حوالہ سے انسانی معاشرہ کے عظیم ہیرو ہیں [4]۔

مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں،بلکہ نظریاتی ہے

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے یومِ نکبہ کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، بلکہ نظریاتی ہے۔ یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے، جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔

محمد امین شہیدی نے یومِ نکبہ کے حوالہ سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی نے بالعموم اقوامِ عالم اور بالخصوص نوجوان نسل میں فکری و نظریاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر مغربی اقدار اور حکمرانوں کے طرزِ عمل میں واضح ٹکراؤ نے وہاں کے عوام کو حق کی شناخت کا شعور بخشا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کی نصابی کتب میں پڑھائی جانے والی اخلاقی اقدار کے برخلاف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ غزہ میں گزشتہ سات ماہ سے ہونے والی حیوانیت اور انسان سوزی شرمناک ہے۔ اسی لئے آج کے میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک کے مظالم دیکھنے کے بعد مغربی نوجوانوں کے اذہان میں سوال اٹھنا شروع ہوا کہ ان کے حکمرانوں کا طرزِ عمل، نصاب میں شامل اخلاقی اقدار سے مختلف کیوں ہے؟ نتیجتًا یہ لوگ اس درندگی اور بربریت کے خلاف میدانِ عمل میں اترے ہیں۔

شہیدی نے مزید کہا : کہ مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، نظریاتی ہے۔ یہ قیام اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے جس کی بنیاد غیر منصفانہ پالیسیز پر رکھی گئی ہے۔ اہلِ مغرب کی بیداری اِس چیز کی علامت ہے کہ جب انسان کا شعور بلند ہوتا ہے تو پھر اسے کسی ہادی کے بغیر بھی سچائی کا راستہ نظر آتا ہے۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام نے نہج البلاغہ میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو مقروض کیا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ انسان کی ہدایت کے لئے ایک نبی باہر اور دوسرا نبی اُس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ باہر والے نبی کو خداوند متعال مبعوث فرماتا ہے تاکہ وہ انسان کے اندر موجود باطنی نبی کو بیدار کرے۔ باطنی نبی سے مراد فطرتِ سلیم ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔ اگر ضمیر جاگا ہوا ہو اور انسان خدا کو قبول نہ بھی کرے، تب بھی وہ ضمیر کی آواز کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ غزہ کی جنگ نے اسی شعور میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا: کہ کہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ابتدا میں ایک جملہ کہا تھا کہ غزہ کی جنگ حق اور باطل کے درمیان وہ لکیر ہے جو اس بات کی وضاحت اور تصدیق کرے گی کہ امام مہدی آخر الزماں عجل اللہ فرج کی سپاہ اور ان کے مقابلہ میں کون لوگ ہوں گے۔ ہم شیعہ سنی دونوں روایات میں پڑھتے ہیں کہ امام زماں علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے[5]۔


حوالہ جات

  1. بی کے الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد روایتی سیاست کے بت کو گرانا اور عوامی حقوق کی بازیابی ہے، علامہ امین شہیدی -mwmpak.org-شا‏ئع شدہ از:15مئی 20015ء-اخذ بہ تاریخ:6مئی 2024ء۔
  2. سید عارف نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان(شمالی علاقہ جات)، 2994ء، امامیہ دارالتبلیغ، اسلام آباد جی سکس ٹو، ص131
  3. وقت پوری دنیا میں اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ جاری ہے, علامہ محمد امین شہیدی -shianews.com.pk-شائع شدہ از:22اکتوبر 2022ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی2024۔
  4. شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے ستم دیدہ اقوام میں جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:3جنوری 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:1مئی 2024ء۔
  5. مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں،بلکہ نظریاتی ہے: علامہ امین شہیدی-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از: 16 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 مئی 2024ء۔