مندرجات کا رخ کریں

محمد بن حسن المهدی

ویکی‌وحدت سے

محمد بن حسن المهدی (ولادت 255 ھ)، امام مہدی، امام زمانہ اور حجت بن الحسن جیسے القاب سے مشہور شیعوں کے آخری اور بارہویں امام ہیں۔ 260ھ کو امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی امامت شروع ہوئی جو آپ کے ظہور کے بعد تک جارے رہے گی۔ شیعوں کے مطابق آپ وہی مہدی موعود ہیں جو ایک طولانی عرصے تک غیبت میں رہنے کے بعد ظہور کریں گے۔ شیعہ مآخذ کے مطابق امام حسن عسکریؑ کے دور امامت میں عباسی حکومت کے کارندے، آپؑ کے فرزند اور جانشین کی تلاش میں تھے اس لئے امام مہدیؑ کی ولادت خفیہ رکھی گئی یہاں تک کہ امام حسن عسکریؑ کے کچھ خاص اصحاب کے سوا کسی کو آپؑ کا دیدار نصیب نہیں ہوا۔ امام مہدیؑ کی خفیہ ولادت سبب بنی کہ بہت سے شیعہ آپؑ کی امامت کے سلسلے میں شک و تردید کے شکار ہوگئے اور شیعہ معاشرے میں مختلف قسم کے فرقے وجود میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے ایک گروہ نے آپؑ کے چچا جعفر کذاب کی پیروی شروع کردی۔ لیکن اس دوران امام زمانہؑ کی توقیعات جو عام طور پر شیعیان اہل بیت کے نام لکھی جاتی تھیں اور خاص نائبین کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھیں، مکتب تشیع کے استحکام کا سبب قرار پائیں۔ یہان تک کہ چوتھی صدی ہجری میں امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد وجود میں آنے والے مذاہب میں صرف شیعہ اثنا عشریہ باقی رہے۔ شیعہ مفکرین نے ان کی طویل عمر کی وجوہات اور تفصیلات کے بارے میں مختلف وضاحتیں کی ہیں۔ مہدی موعود اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک عالمی حکومت قائم کرے گا اور دنیا کو انصاف سے بھرا ہوا دکھائے گا کیونکہ دنیا ظلم سے بھری ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے شیعہ روایات کے مطابق امام کی موت کی حقیقی توقع بہترین عبادتوں میں سے ایک ہے ۔

نام، کنیت اور لقب

شیعہ احادیث میں بارہویں امام کے لئے محمد، احمد اور عبداللہ جیسے نام نقل ہوئے ہیں، لیکن آپؑ شیعیان اہل بیت کے درمیان مہدیؑ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جو آپؑ کے القاب میں سے ایک ہے [1]۔ متعدد احادیث کے مطابق آپؑ، اپنے جد امجد رسول اللہؐ کے ہم نام ہیں۔ بعض شیعہ احادیث اور مکتوب مآخذ من جملہ کلینی رازی کی تالیف الکافی و شیخ صدوق کی کتاب کمال الدین، میں آپؑ کے نام کے حروف کو جداگانہ طور پر "م ح م د" لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس ابہام نویسی کا سبب وہ متعدد احادیث ہیں جن میں آپؑ کا نام لینے سے منع کیا گیا ہے۔ [2]

ولادت امام زمان

امام زمانہؑ کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض متقدم مآخذ نے آپؑ کی تاریخ ولادت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے اور اس کو خفیہ قرار دیا ہے۔ لیکن بہت سی شیعہ اور بعض سنی روایات میں ہے کہ امام دوازدہمؑ سنہ255ھ یا 256ھ ق میں متولّد ہوئے ہیں۔

امام زمانہؑ کی ولادت کے مہینے کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن قول مشہور شعبان المعظم پر تاکید کرتا ہے اور بہت سے قدیم شیعہ مآخذ میں بھی ماہ شعبان ہی کو آپؑ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود بعض شیعہ اور سنی مآخذ کے مطابق آپؑ کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی ہے جبکہ اہل سنت کے بعض مآخذ نے ربیع الاول اور ربیع‌الثانی کو آپؑ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا ہے۔

تاریخی مآخذ میں بارہویں امام کی تاریخی ولادت کے بارے میں گیارہ مختلف روایات نقل کی ہیں جن میں پندرہ شعبان والی تاریخ زیاده مشہور ہے۔ شیعہ علماء کے درمیان کلینی، مسعودی، شیخ صدوق، شیخ مفید، شیخ طوسی، فتال نیشابوری، امین الاسلام طبرسی، سید ابن طاؤس، ابن طقطقی، علامہ حلی، شہید اول، کفعمی، شیخ بہائی وغیرہ، اور اہل سنت کے علماء میں سے ابن خلکان، ابن صباغ مالکی، شعرانی حنفی، ابن طولون، اور دوسروں نے اسی قول کو نقل کیا ہے۔

نو ربیع الاول، 19 ربیع الاول، 9 ربیع الثانی، یکم رجب، 23 رمضان، 3 شعبان اور 8 شعبان کو سنی مآخذ نے نقل کیا ہے اور شب جمعہ یکم رمضان یا رمضان کی ایک شب جمعہ کو شیخ صدوق نے کمال الدین میں نقل کیا ہے [3]۔

امام زمانہؑ کی ولادت کے سلسلے میں مشہور روایت وہی ہے جو امام عسکریؑ کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون نے نقل کی ہے۔ شیخ صدوق حکیمہ خاتون کے حوالے سے لکھتے ہیں: امام حسن عسکریؑ نے مجھ [حکیمہ خاتون] کو بلوا کر فرمایا: پھوپھی جان! آج ہمارے یہاں قیام کریں کیونکہ نیمہ شعبان کی شب ہے اور خداوند متعال آج رات اپنی حجت کو ـ جو روئے زمین پر اس کی حجت ہے ـ ظاہر فرمائے گا۔ میں نے عرض کیا: ان کی ماں کون ہے؟ فرمایا: نرجس خاتون۔ میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں، ان میں حمل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ فرمایا: بات وہی ہے جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں۔

میں آئی ، سلام کیا اور بیٹھ گئی تو نرجس آئیں اور میرے جوتے اٹھا لئے اور مجھ سے کہا: اے میری سیدہ اور میرے خاندان کی سیدہ! آپ کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا: تم میری اور میرے خاندان کی سیدہ ہو۔ نرجس میرے اس کلام سے ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں: پھوپھی جان! یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا: میری بیٹی! خداوند متعال تمہیں ایسا فرزند عطا کرے گا جو دنیا اور آخرت کا سید و سردار ہے۔ نرجس شرما گئیں اور حیا کر گئیں۔ میں نے نماز ادا کی، روزہ افطار کیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ آدھی رات کو نماز (تہجد) کے لئے اٹھی اور نماز پڑھ لی؛ جبکہ نرجس سو رہی تھیں۔ میں نماز کے بعد کے اعمال کے لئے بیٹھ گئی اور پھر سو گئی اور خوفزدہ ہوکر جاگ اٹھی؛ وہ ابھی سو رہی تھیں؛ چنانچہ اٹھیں اور نماز (تہجد) بجا لا کر سوگئیں۔

جناب حکیمہ خاتون مزید کہتی ہیں: میں باہر آئی اور فجر کی تلاش میں آسمان کی طرف دیکھا؛ دیکھا کہ فجر اول طلوع کرچکی ہے اور وہ ابھی سو رہی ہیں۔ شک میرے دل پر عارض ہوا۔اچانک ابو محمد نے اپنے کمرے سے صدا دی: پھوپھی جان! عجلت سے کام مت لیں، کیونکہ امر قریب ہوچکا ہے۔

کہتی ہیں: میں بیٹھ گئی اور سورہ سجدہ اور سورہ یس کی تلاوت میں مصروف ہوئی۔ اسی اثناء میں نرجس ہراساں سی ہوکر اٹھیں اور میں فورا ان کے پاس پہنچی اور ان سے کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، کیا کچھ محسوس ہورہا ہے؟ کہنے لگیں: پھوپھی جان! ہاں محسوس کررہی ہوں۔ میں نے کہا: اپنے پر قابو کرو اور دل مضبوط رکھیں کیونکہ وہی ہونے جارہا ہے جو میں نے کہا تھا۔ جناب حکیمہ کہتی ہیں: مجھ پر بھی اور نرجس پر بھی ضعف طاری ہوا اور اپنے سید و سردار (امام عسکریؑ) کی آواز پر میری جان میں جان آئی اور کپڑا ان کے چہرے سے اٹھایا اور اچانک میں نے اپنے سید و سرور (نرجس کے فرزند) کو دیکھا جو حالت سجدہ میں تھے اور آپؑ کے سجدہ کے ساتوں اعضاء [پیشانی، ہتھیلیاں، گھٹنے اور پاؤں کے انگوٹھے) زمین پر تھے]۔ میں نے آپؑ کو آغوش میں لیا اور دیکھا کہ پاک و پاکیزہ ہیں۔

ابو محمد نے فرمایا: پھوپھی جان! میرا فرزند میرے پاس لائیں، میں آپؑ کو امامؑ کے پاس لے گیی؛ امامؑ نے اپنے پاؤں کو پھیلایا اور فرزند کو پاوں کے درمیان قرار دیا اور آپؑ کے پیروں کو اپنے سینے پر رکھا اور پھر اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں رکھ دی اور اپنا ایک ہاتھ آپؑ کی آنکھوں، کانوں اور بدن کے جوڑوں پر پھیرا ؛

اور فرمایا: اے میرے فرزند! بولو۔ چنانچہ آپؑ نے کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللہِ بعدازاں امیرالمؤمنینؑ اور دوسرے ائمہ معصومینؑ کو درود و سلام کا ہدیہ بھیجا، حتی کہ آپؑ کے والد کی باری آئی تو زبان روک لی[4]۔

امام مہدی مالکی علماء کی نظر میں

مالکی فرقہ کے علماء نے بھی دیگر اسلامی مکاتب فکر کے علماء کی طرح امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے عقیدہ کو اپنے عقیدوں میں شمار کیا ہے اور اس پر تاکید کی ہے۔ یہ حقیقت ان کی تحریروں اور کاموں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ مختلف ادوار میں اس رائے کی وضاحت بہت سی کتابوں اور ان کی تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اب مثال کے طور پر اس فرقہ کے چند ممتاز علماء کی تحریروں اور اقوال کی ایک رپورٹ پیش کی جائے گی:

قرطبی مالکی

وہ جو کہ مشہور و معروف سنی علماء اور مصنفین میں سے ہیں، نے اپنی سائنسی اور مشہور تصانیف چھوڑی ہیں، جن میں سب سے اہم "الجامع لہکم القرآن" کی تفسیر ہے۔ انہوں نے اپنی دوسری کتاب "موت کی حالت اور بعد کی زندگی کے معاملات کی یاد" میں ابواب اور ابواب امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بحث کے لیے مختص کیے ہیں اور اس موضوع پر سنی منابع سے متعدد احادیث نقل کی ہیں، اور ان میں سے بعض احادیث کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں کچھ باتیں بیان کی ہیں۔ البتہ مصنف نے اپنی کتاب تفسیر میں سورہ توبہ کی آیت نمبر 33 کی تفسیر میں اس آیت کے مندرجات پر غور کیا ہے جو کہ دین اسلام پر غالب آنے کا خدا کا وعدہ ہے، ایک قول کے مطابق جو زمانہ سے مطابقت رکھتا ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ

ابن سباغ مالکی

وہ جو اپنے عہد اور زمانے میں مالکی فرقے کے بزرگوں میں سے تھے، انہوں نے "الفصول المشتہ فی معرفۃ الائمہ علیہ السلام" کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کے مصنف کا مقصد تھا۔ بارہ اماموں کی تاریخ اور حکام کو بیان کرنے کے لیے، اور اس تحریر کو اپنے ہم عصروں میں سے بعض کی درخواست پر متعارف کرایا۔ اس کتاب کے بارہویں باب میں انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کی سیرت اور خصوصیات کو بیان کیا ہے اور اس میں امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں مختلف موضوعات اور احادیث بیان کی ہیں۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وعدے کو ثابت کیا کہ وہ ظاہر ہوں گے اور اس بزرگ کے نسب کے بارے میں بات کریں گے۔ اس مصنف کی تحریروں میں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ بعض دوسرے سنی علماء کی طرح وہ بھی امام مہدی علیہ السلام کی ولادت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب زندہ ہیں۔

محمد بن جعفر بن ادریس الکتانی المالکی

کتاب "نظم المطنطر من الحدیث المتواتر" میں جس میں انہوں نے متواترہ احادیث کو جمع کیا ہے، ان میں سے امام مہدی علیہ السلام سے متعلق احادیث کو شمار کیا ہے اور مشہور لوگوں کے الفاظ و بیانات کو نقل کیا ہے۔ اور مشہور سنی علماء نے ان احادیث کی تعدد پر زور دیا اور ان کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور اور ظہور ان احادیث اور ان میں کئے گئے وعدوں کی بنیاد پر ضروری اور بعض چیزوں میں سے ایک ہے۔

علمائے حنبلی کی نظر میں امام مہدی علیہ السلام

احمد بن حنبل

وہ حنبلی فرقے کے سربراہ ہیں اور انہیں سب سے وسیع اور قدیم ترین سنی حدیث معاشروں میں سے ایک کا مصنف بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس احادیث کے مجموعے میں انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں متعدد اور متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ مدرسہ قم کے ایک معزز رکن نے امام مہدی علیہ السلام سے متعلق احادیث کو جمع کیا ہے جو اس حدیث کی کتاب میں شامل ہیں اور اسے.

احادیث المہدی علیہ السلام کے نام سے شائع کیا ہےمسند احمد بن حنبل۔ اس کتاب میں احمد کی مسند سے 136 احادیث کو نکال کر کئی حصوں میں ترتیب دیا گیا ہے جن میں امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بہت سے اور مختلف موضوعات شامل ہیں۔ ان کے ظہور کے آثار سے لے کر ظہور کے زمانے کی حیثیت اور امام مہدی علیہ السلام سے متعلق دیگر مسائل۔ کہا جا سکتا ہے: چونکہ احمد بن حنبل کے پاس ان احادیث کے بارے میں کوئی خاص فیصلہ نہیں تھا، اس لیے ان احادیث کا ذکر کرنا اس معاملے میں ان کے نقطہ نظر اور رائے کو ثابت کرنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ لیکن اس کے جواب میں یہ کہنا چاہیے: احادیث کی اس بڑی تعداد کو اس پرانے احادیث کے مجموعہ میں درج کرنے سے یقیناً مصنف کی ان احادیث پر قبولیت اور اعتماد ظاہر ہوتا ہے، اور اس کی طرف سے اس طرح کی کوشش اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کا مواد اس کے لیے قابل قبول ہے۔ لہٰذا حنبلی مسلک کی سب سے اہم شخصیت جو کہ مہدیت کے موضوع پر واضح اور واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان کے امام احمد بن حنبل ہیں۔

یحییٰ بن محمد حنبلی

مہدیت کے دعویداروں اور اصول مہدیت کے منکروں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے درج ذیل لکھا: "الحمدللہ کے واسطے، اے اللہ جب حق میں اختلاف ہو تو ہمیں بتا دے! مذکورہ بالا عقیدہ بلا شبہ باطل ہے۔ کیونکہ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نازل ہونے والی صحیح احادیث کی مخالفت اور رد کی ضرورت ہے اور ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی علیہ السلام کے ظہور کا اعلان فرمایا۔ اس نے آخر وقت میں، اور مہدی علیہ السلام کی ذاتی خصوصیات اور ان کے ظہور کے وقت کے واقعات کا ذکر کیا۔ مہدی علیہ السلام کے ظہور کی ایک اہم نشانی جس کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول اور آپ کا مہدی علیہ السلام کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ اور اس کے پیچھے اس کی نماز پڑھنا، نیز دجال کا ظہور اور اس کا قتل... اور جو شخص مہدی موعود کا انکار کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے۔ اسے اپنے کفر کا... امام مہدی (ع) حنفی علماء کی نظر میں بارہویں امام مہدی (ع) کے بارے میں ایک مضمون کا عنوان ہے۔ رسول خدا کی اولاد کا ایک بچہ اور دنیا کے شیعوں کے بارہویں امام جو اپنے قول کے مطابق خدائی وعدہ کے دن تک غیبت میں رہیں گے۔ اس مضمون میں اس مسئلہ پر احناف کے مسلک کا جائزہ لیا گیا ہے۔

حنفی علماء اور امام مہدی علیہ السلام

ابن جوزی

انہوں نے اپنی مشہور کتاب "انبیاء علیہم السلام کی صفات میں قوم کی صفات کو یاد رکھنا" میں ایک الگ باب امام مہدی علیہ السلام کے لیے مختص کیا ہے اور اس کے بارے میں مختلف موضوعات اور عنوانات لکھے ہیں اور اس باب کے شروع میں ان کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

المہدی کی دلیل کے ذکر کا باب، وہ محمد بن الحسن ابن علی ابن محمد بن علی ابن موسی الرضا ہیں، اور ان کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو القاسم ہے، اور وہ آل محمد کے جانشین ہیں۔ حجاج صاحب الزمان۔

اس کے بعد وہ سنی منابع سے روایات کا ذکر کرتے ہیں جن میں امام مہدی علیہ السلام سے متعلق مسائل اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے بعد ابن جوزی نے امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں امامیہ کے نظریہ کو بیان کیا اور اس سلسلے میں چند شیعہ وجوہات کا ذکر کیا۔ ابن جوزی کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ کو قبول کیا اور اسے معقول اور قابل قبول سمجھا۔

سلیمان بن ابراہیم قندروزی

بلخ میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی تعلیم کا بیشتر حصہ اسی ملک میں گزارا اور بخارا میں تعلیم جاری رکھی۔ اس کے بعد وہ تصوف اور تصوف کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور عظیم صوفیاء میں شمار ہونے لگے۔ اس طرح وہ بیانیہ اور طریقی دونوں مسائل میں حکام کا مالک بن گیا۔ انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مناقب پر کتاب "ینابی المودہ" لکھی اور اس کا بڑا حصہ امام مہدی علیہ السلام سے متعلق موضوعات کے لیے مختص کیا اور اس کا تذکرہ کیا۔ ان کے بارے میں آیات کی تفسیر و تشریح کی گئی ہے، نیز ان کے بارے میں احادیث مختلف منابع سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے بارہ خلفاء کی احادیث اور ان کی دی گئی تشریحات کا ذکر کیا اور ان کی ولادت کے بارے میں روایات کا ذکر کیا، اسی طرح سنی علماء نے بھی ان کی پیدائش کی تصریح کی۔ دوسرے حصے میں انہوں نے اس نبی کے فضائل اور غیر معمولی عادات کو بیان کیا ہے اور غیبت کے دوران ان کی زیارت کرنے والوں کو یاد دلایا ہے۔ ان کی تمام تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں شیعہ کی طرح سوچتا ہے اور اس امام کی پیدائش اور وجود پر یقین رکھتا ہے۔

شیعہ فرقے

زیدیہ اور اسماعیلیہ جیسے شیعہ فرقے مہدویت کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے، امام زمانہؑ کے موعود ہونے اور موعود کے مصداق کے تعین میں امامیہ کے ساتھ اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ زیدیہ کی بعض شاخوں سمیت کچھ شیعہ فرقے، ماضی میں امام مہدیؑ کی ولادت اور آپؑ کی غیبت کو نہیں مانتے اور ان کا صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام زمانہؑ موعود ہیں اور آخر الزمان میں ظہور کریں گے چنانچہ وہ بارہویں امام یعنی محمد بن حسن عسکریؑ پر ـ امامیہ کی مانند ـ امام موعود اور امام منتظَر کے مصداق کی تطبیق کو یا تو سرے سے مسترد کرتے ہیں یا کم از کم اس کی تائید و تصدیق نہیں کرتے۔ ان کا صرف یہی عقیدہ ہے کہ امام منتظَر آخر الزمان میں پیدا ہونگے اور اٹھ کر قیام فرمائیں گے۔

بحیثیت مجموعی، زیدیہ میں مہدویت کا عقیدہ، مہدویتِ نوعیہ ہے۔ وہ سلسلۂ امامت کے آخری امام کو ـ جو پورے عالم کو عدل و انصاف سے پر کرے گا ـ مہدی موعود سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہر سید جو لوگوں کو اپنی جانب بلائے اس کی پیروی کرنا لازمی ہے؛ ممکن ہے کہ وہی مہدی موعود ہو! اگر اس نے دنیا کو عدل و انصاف سے پر کیا تو اس کا موعود ہونا ثابت ہوجائے گا اور بصورت دیگر، امام منتظر کوئی دوسرا سید ہوگا۔

تاریخ اسلام کی ابتداء سے زیدیہ کی بعض جماعتیں، مختلف تحریکوں میں مارے جانے والے اپنے بعض ا‏ئمہ کی مہدویت کا دعوی کرتی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ یہ کسی دن پلٹ آئیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے۔ وہ زید بن علی، نفس زکیہ، محمد بن قاسم بن علی بن عُمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (متوفیٰ 219ھ ق)، یحیی بن عمر بن یحیی بن حسین بن زید بن علی بن الحسین (متوفیٰ 250ھ ق)، اور حسین بن قاسم عیانی (متوفیٰ 404ھ ق) کی مہدویت [مہدی ہونے] کا دعوی کرتے ہیں [5]۔

مہدویت اور انتظار کی اہمیت پر تاکید

قائد انقلاب اسلامی نے مہدویت کے موضوع کے ماہرین، مصنفین اور دانشوروں سے خطاب میں امام مہدی پر عقیدے کو انسانی تاریخ میں انبیائے کرام کی جدوجہد کا اہم ترین ہدف قرار دیتے ہوئے اس عقیدے کی اہمیت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مہدویت کے عقیدے اور انتظار کی اہمیت پر تاکید کی ہے۔

انہوں نے مہدویت کے موضوع کے ماہرین، مصنفین اور دانشوروں سے خطاب میں امام مہدی پر عقیدے کو انسانی تاریخ میں انبیائے کرام کی جدوجہد کا اہم ترین ہدف قرار دیتے ہوئے اس عقیدے کی اہمیت پر زور دیا۔ آپ نے فلسفہ انتظار پر روشنی ڈالتے ہوئے انتظار کو امام مہدی علیہ السلام پر عقیدے کا لازمہ قرار دیا اور فرمایا کہ مہدویت کے عقیدے کے سلسلے میں ایک ضروری کام ماہرین اور اہل علم کے ذریعے دقیق عالمانہ تحقیق و مطالعے میں سرعت لانا اور عامیانہ، جاہلانہ، غیر معتبر اور حقائق سے عاری تخیلات پر مبنی باتوں سے گریز کرنا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مہدویت کے عقیدے کو دین کے اعلی معارف کا اہم ترین جز قرار دیا اور فرمایا کہ انبیائے کرام کی مہم اور رسولوں کی بعثت کا مقصد انصاف کی بنیاد پر اور توحیدی طرز فکر کے تناظر میں کائنات کے لئے منصوبہ بندی کرنا اور انسان کے اندر موجود تمام صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام زمانہ علیہ السلام کے دور میں توحید، روحانیت، دین اور عدل و انصاف کا شخصی و سماجی زندگی کے تمام پہلوؤں پر احاطہ ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر امام مہدی علیہ السلام کا عقیدہ نہ ہو تو انبیائے کرام کی تمام محنتیں رائگاں چلی جائیں گی۔

رہبر انقلاب نے آسمانی ادیان میں مہدویت کے موضوع پر خاص توجہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام ادیان الہی میں امام مہدی علیہ السلام سے متعلق عقیدہ کلی طور پر بیان کیا گيا ہے لیکن اسلام میں یہ عقیدہ مسلمہ عقائد میں ہے جبکہ اسلامی مکاتب فکر میں شیعہ مکتب فکر ایسا ہے جو مہدویت کے موضوع کو واضح مصداق اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مکمل شخصی اور خاندانی خصوصیات کے ساتھ پیش کرتا ہے جو معتبر شیعہ و غیر شیعہ روایات سے ماخوذ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انتظار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ انتظار کے بھی کچھ لوازمات اور تقاضے ہیں جن میں سے ایک، انسان کا سماجی، باطنی اور روحانی طور پر اس کے لئے آمادہ ہونا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتظار کرنے والے شخص کو چاہئے کہ ہمیشہ اس دور کی ضروری خصوصیات اپنے اندر محفوظ رکھے جس کا وہ انتظار کر رہا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے دور کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کی حکومت کا زمانہ در حقیقت توحید، عدل و انصاف، حق و صداقت، اخلاص و بے لوثی اور عبودیت خداوندی کا دور ہوگا بنابریں انتظار کرنے والے افراد کو چاہئے کہ اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کریں اور موجودہ حالت پر مطمئن ہوکر بیٹھ نہ رہیں۔


ایران کے سپریم لیڈر نے امام مہدی علیہ السلام کے عقیدے سے متعلق ایک اور اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات کا ذکر کرکے انہیں کسی دوسرے شخص پر منطبق کرنے کی کوششیں کی گئي ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمام باتیں غلط اور انحرافی ہیں کیونکہ ظہور کی علامتوں میں بعض غیر معتبر ہیں اور جو معتبر علامات ہیں ان کے لئے صحیح مصداق کی تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس طرح کی غلط بیانیوں سے مہدویت کی اصلی حقیقت نظر انداز ہو جاتی ہے بنابریں عامیانہ قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مہدویت اور انتظار کے باب میں عالمانہ اور معتبر تحقیق کرنا ایسے علمائے کرام اور ماہرین فن کا کام ہے جو علم حدیث اور علم رجال سے پوری طرح واقف ہوں اور فلسفیانہ نظریات پر بھی مکمل عبور رکھتے ہوں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کو دعاؤں کی قبولیت کے لئے وسیلہ بنانے اور آپ سے عقیدت و ارادت کے سلسلے میں فرمایا کہ مہدویت کے عقیدے سے صحیح اور علمی آشنائی حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے تئیں عقیدت و ارادت میں اضافے اور بلند اہداف کی جانب مشتاقانہ پیش قدمی کا باعث بنے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حضرت سے توسل اور آپ کے تقرب کے سلسلے میں صحیح اور پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ آپ کو غائبانہ طور پر دعاؤں کی قبولیت کے لئے وسیلہ قرار دیا جائے اور قریب سے آپ کی زیارت کے دعوے غالبا بے بنیاد یا تخیلاتی باتیں ہیں [6]۔

مہدویت اور انتظار فرج رھبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں

نیمۂ شعبان کا دن امیدوں کا دن ہے، یہ امید شیعیان آل محمد (ص) سے مخصوص نہیں ہے حتٰی امت مسلمہ سے بھی مخصوص نہیں ہے، عالم بشریت کے ایک روشن و درخشاں مستقبل کی آرزو اور پوری دنیا میں انصاف قائم کرنے والے ایک عدل گستر، منجی عالم موعود کے ظہور پر تقریبا" وہ تمام ادیان اتفاق رکھتے ہیں جو آج دنیا میں پائے جاتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ دین اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ حتٰی ہندوستان کے ادیان میں، بودھوں اور جینیوں یہاں تک کہ ان مذہبوں نے بھی کہ جن کے نام دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں بھی نہیں ہیں اپنی تعلیمات میں ایک اس طرح کے مستقبل کی بشارت دی ہے، یہ سب کچھ دراصل تاریخ کے طویل دور میں تمام انسانوں کے اندر امید کی شمع روشن رکھنے اور تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ایک حقیقت کے لئے پرامید رہنے کے لئے بیان ہوا ہے۔

تمام ادیان الہی میں امام مہدی علیہ السلام سے متعلق عقیدہ کلی طور پر بیان کیا گيا ہے لیکن اسلام میں یہ عقیدہ مسلمہ عقائد میں ہے، جبکہ اسلامی مکاتب فکر میں شیعہ مکتب فکر ایسا ہے جو مہدویت کے موضوع کو واضح مصداق اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مکمل شخصی اور خاندانی خصوصیات کے ساتھ پیش کرتا ہے، جو معتبر شیعہ و غیر شیعہ روایات سے ماخوذ ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں شیعوں کے عقیدے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس حقیقت کو مذہب تشیع میں صرف ایک آرزو اور ایک تخیلاتی چیز سے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کر دیا گیا ہے

اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیعہ جس وقت "مہدی موعود " کے انتظار کی بات کرتے ہیں اور اس نجات دہندہ ہاتھ کے انتظار کا ذکر کرتے ہیں تو انتظار کے وقت صرف تخیلات میں غوطہ زنی نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی حقیقت کی جستجو کرتے ہیں جو اس وقت موجود ہے، حجت خدا کی صورت میں لوگوں کے درمیان زندہ ہے اور موجود ہے، لوگوں کے ساتھ زندگي گزار رہا ہے، لوگوں کو دیکھ رہا ہے ان کے ساتھ ہے، ان کے دردوں کو، ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتا ہے۔

شیعوں کے عقیدہ کی خصوصیات

انسانوں میں بھی جو لوگ اہل سعادت ہوں، جن میں صلاحیت و ظرفیت پائی جاتی ہو، بعض اوقات ناآشنا اور ناشناس کے طور پر ان کی زیارت کرتے ہیں، وہ موجود ہے، ایک حقیقی اور مشخص و معین انسان کے عنوان سے جو خاص نام رکھتا ہے، جس کے ماں باپ معلوم ہیں، لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ ہم شیعوں کے عقیدہ کی خصوصیات میں سے ہے۔ وہ لوگ بھی، جو دوسرے مذاہب کے ہیں اور اس عقیدہ کو قبول نہیں کرتے، آج تک کبھی کوئی ایسی عقل پسند دلیل پیش نہیں کرسکے جو اس فکر اور اس عقیدہ کو رد کرتی ہو اور خلاف حقیقت ہونا ثابت کرتی ہو، بہت سی روشن و واضح، مضبوط دلیلیں، جن کی بہت سے اہلسنت نے بھی تصدیق کی ہے

پورے قطع و یقین کے ساتھ اس عظیم انسان، خدا کی اس عظیم حجت اور اس تابناک و درخشاں حقیقت کے وجود پر ان ہی خصوصیات کے ساتھ جو ہم اور آپ جانتے ہیں، دلالت و حکایت کرتی ہیں اور آپ بہت سی بنیادی کتابوں میں بھی جو شیعوں کی نہیں ہیں، اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں مسئلۂ مہدویت کے سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ اسلامی آثار میں شیعی کتابوں میں حضرت مہدی موعود (عج) کے ظہور کے انتظار کو "انتظار فرج" سے تعبیر کیا گيا ہے، اس فرج کا کیا مطلب ہے؟

فرج یعنی گرہیں کھولنے والا؛ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتا ہے؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو، کہیں کوئی گرہ پڑ گئی ہو، جب کوئی مشکل پھنسی ہوئی ہو، کسی مشکل کی موجودگي میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اپنی تدبیر کے ذریعہ الجھی ہوئی گرہ کھول دے، کوئی ہو جو مشکلوں اور مصیبتوں کے عقدے باز کر دے۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظ میں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا، حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو

انسانی زندگي کی الجھی ہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ پڑی ہوئي ہے، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اور رکاوٹ برطرف ہو جائے، مسئلہ ہمارے اور آپ کے شخصی اور ذاتی کاموں میں رکاوٹ اور گرہ پڑ جانے کا نہیں ہے، امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کے لئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو پریشانی سے نجات دیں گے انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں جو کچھ آج ہو رہا ہے اور اس وقت پایا جاتا ہے، انسانی (ہاتھوں اور ذہن کا بنایا ہوا)

یہ غیر منصفانہ نظام، یہ انسانی نظام کہ جس میں بے شمار انسان مظلومیت کا شکار ہیں، بے شمار دلوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے، بے شمار انسانوں سے بندگی کے مواقع چھین لئے گئے ہیں، اس صورت حال کے خلاف احتجاج اور اعتراض ہے، جو امام زمانہ کے ظہور کا منتظر ہے۔ انتظار فرج کا مطلب ہے اس صورت حال کو مسترد کر دینا اور نہ ماننا جو انسانوں کی جہالت اور انسانی زندگی پر حکمران بشری اغراض و مقاصد کے زیر اثر دنیا پر مسلط کر دی گئی ہے، انتظار فوج کا مفہوم یہی ہے۔

پورے عالم بشریت پر عدل و انصاف حکمراں نظر آئے گا

رھبرانقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں آج آپ لوگ دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں، وہی چیز جو حضرت ولی عصر (ہماری جانیں جن پر فدا ہوجائیں) کے ظہور سے متعلق روایات میں ہیں، آج دنیا پر حکمراں ہیں، دنیا کا ظلم و جور سے بھر جانا، آج دنیا ظلم و ستم سے بھر گئی ہے، ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے متعلق روایتوں، دعاؤں اور مختلف زیارتوں میں ملتا ہے : یملا اللہ بہ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا" " ویسے ہی جیسے ایک دن پوری دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہو گی، جس زمانہ میں ظلم و جور پوری بشریت پر حکمراں ہو گا، اسی طرح خداوند عالم ان کے زمانے میں وہ صورت حال پیدا کر دے گا کہ پورے عالم بشریت پر عدل و انصاف حکمراں نظر آئے گا۔

وہ وقت یہی ہے، اس وقت ظلم و جور بشریت پر حکمراں ہے، آج انسانی زندگي عالمی سطح پر ظلم و استبداد کے ہاتھوں میں مغلوب و مقہور ہے (اور ظالموں کے قہر و غلبہ کا شکار ہے) ہر جگہ ظلم و جور کا ماحول ہے، آج عالم بشریت ظلم کے غلبہ کے سبب، انسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کے تسلط کے باعث بے پناہ مشکلات میں گرفتار ہے۔ آج کی دنیا میں دو ارب بھوکے انسانوں کا وجود اور دسیوں لاکھ انسان جو حرص و ہوس سے مغلوب طاغوتی قوتوں کے طاغوتی نظاموں میں زندگي گزار رہے ہیں، حتٰی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مؤمنین و مجاہدین اور راہ حق میں برسر پیکار ملتیں منجملہ ایرانی قوم، جس نے ایک محدود ماحول میں، ایک معین و مشخص دائرے میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کر رکھا ہے، اس پر اور مجاہدین راہ خدا پر دباؤ پوری دنیا پر ظلم و جور کا جال بچھا ہونے کی کھلی نشانیاں ہیں۔

اس انتظار فرج کا مفہوم، مختلف ادوار میں انسانی زندگي کی موجودہ کیفیات بیان کرتی ہیں۔ آج ہم کو فرج یعنی گرہ گشائی کا انتظار ہے یعنی ہم سب ایک عدل گستر قوی و توانا دست قدرت کے منتظر ہیں کہ وہ آئے اور ظلم و جور کے اس تسلط کو توڑ دے کہ جس نے پوری بشریت کو محروم و مقہور بنا رکھا ہے، ظلم و ستم کی ان فضاؤں کو دگرگوں کر دے اور انسانوں کی زندگي ایک بار پھر نسیم عدل کے جھونکوں سے تازہ کر دے، تاکہ تمام انسانوں کو عدل و انصاف کا احساس ہو، یہ ایک آگاہ و باخبر زندہ و بیدار انسان کی دائمی ضرورت ہے۔

ہر وہ انسان جو خود اپنے وجود میں سر ڈال کر نہ بیٹھا ہوا ہو، صرف اپنی زندگی میں مست نہ ہو، وہ انسان جو وسعت نظر سے کام لے کر انسانوں کی عام زندگی کو دیکھ رہا ہو، قدرتی طور پر انتظار کی حالت اس کے یہاں پائی جائے گی، انتظار کا یہی مطلب ہے۔ انتظار یعنی انسانی زندگی کی موجودہ صورت حال کو قبول نہ کرنا اور ایک قابل قبول صورت حال کی فکر و جستجو میں رہنا، چنانچہ مسلمہ طور پر یہ قابل قبول صورت حال ولی خدا حضرت حجۃ ابن الحسن مہدی آخر الزمان صلوات اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ و ارواحنا فداہ کے قوی و توانا ہاتھوں سے ہی عملی جامہ پہنے گی۔

لہذا خود کو ایک جانباز سپاہی اور ایک ایسے انسان کے عنوان سے تیار کرنا چاہئے جو اس طرح کے حالات میں مجاہدت اور سرفروشی سے کام لے سکے۔ انتظار فرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور کوئی کام انجام نہ دے، کسی طرح کی اصلاح کا اقدام نہ کرے، صرف اس بات پر خوش رہے کہ ہم امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام کے منتظر ہیں۔ یہ تو انتظار نہ ہوا۔ انتظار کس کا ہے۔؟ ایک قوی و مقتدر الہی اور ملکوتی ہاتھ کا انتظار ہے کہ وہ آئے اور ان ہی انسانوں کی مدد سے دنیائے ظلم و ستم کا خاتمہ کر دے، حق کو غلبہ عطا کرے اور لوگوں کی زندگي میں عدل و انصاف کو حکمراں کر دے، توحید کا پرچم لہرا کر انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنا دے، اس کام کی آمادگي ہونی چاہئے۔

اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سے ہے، عدل و انصاف کی برقراری کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرف ایک قدم

اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سے ہے، عدل و انصاف کی برقراری کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرف ایک قدم ہے، انتظار کا مطلب یہ ہے۔ انتظار تحرک اور انقلاب کا نام ہے، انتظار تیاری اور آمادگي کو کہتے ہیں۔

اس آمادگی کو خود اپنے وجود میں، خود اپنے گرد و پیش کے ماحول میں محفوظ رکھنا ہمارا فریضہ ہے، یہ خداوند متعال کی دی ہوئي نعمت ہے کہ ہماری عزیز و باوقار قوم اور ملت ایران نے یہ عظیم قدم اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور حقیقی انتظار کا ماحول فراہم کیا ہے، انتظار فرج کا یہی مطلب ہے، انتظار فرج یعنی کمر کس لینا، تیار ہو جانا، خود کو ہر رخ سے، وہ ہدف کہ جس کے لئے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام انقلاب برپا کریں گے آمادہ و تیار کرنا، وہ عظیم تاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہو گا وہ عدل و انصاف قائم کرنے، انسانی زندگي کو الہی زندگي بنانے اور خدا کی بندگي رواج دینے سے عبارت ہے اور انتظار فرج کا یہی مطلب ہے۔

انتظار کے لوازمات

رھبر انقلاب اسلامی نے انتظار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایک اور مقام پر فرمایا کہ انتظار کے بھی کچھ لوازمات اور تقاضے ہیں جن میں سے ایک، انسان کا سماجی، باطنی اور روحانی طور پر اس کے لئے آمادہ ہونا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ انتظار کرنے والے شخص کو چاہئے کہ ہمیشہ اس دور کی ضروری خصوصیات اپنے اندر محفوظ رکھے جس کا وہ انتظار کر رہا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے دور کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کی حکومت کا زمانہ در حقیقت توحید، عدل و انصاف، حق و صداقت، اخلاص و بے لوثی اور عبودیت خداوندی کا دور ہو گا،

بنابریں انتظار کرنے والے افراد کو چاہئے کہ اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کریں اور موجودہ حالت پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہ رہیں۔ رھبر انقلاب اسلامی نے امام مہدی علیہ السلام کے عقیدے سے متعلق ایک اور اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامات کا ذکر کر کے انہیں کسی دوسرے شخص پر منطبق کرنے کی کوششیں کی گئي ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ یہ تمام باتیں غلط اور انحرافی ہیں کیونکہ ظہور کی علامتوں میں بعض غیر معتبر ہیں اور جو معتبر علامات ہیں ان کے لئے صحیح مصداق کی تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس طرح کی غلط بیانیوں سے مہدویت کی اصلی حقیقت نظر انداز ہو جاتی ہے۔ بنابریں عامیانہ قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے۔ مہدویت کے عقیدے کے سلسلے میں ایک ضروری کام ماہرین اور اہل علم کے ذریعے دقیق عالمانہ تحقیق و مطالعے میں سرعت لانا اور عامیانہ، جاہلانہ، غیر معتبر اور حقائق سے عاری تخیلات پر مبنی باتوں سے گریز کرنا ہے[7]۔

حواله جات

  1. محمدی رے شہری، دانش نامہ امام مہدیؑ، 1393ھ ش، ج2، ص283
  2. محمدی رے شہری، دانش نامہ، 1393ھ ش، ج2، ص297-305
  3. یہ دو اقوال خادم "عقید" سے منسوب کئے گئے ہیں اور یہ دو اقوال کمال الدین کے الگ الگ نسخوں میں مندرج ہوئے ہیں:- مقدسی، بازپژوهی تاریخ ولادت و شہادت معصومان علیہم السلام، ص601؛ صدوق، کمال الدین، 1390ق، ج2، ص474۔
  4. سلیمیان، درسنامہ مہدویت (1)، ص183۔؛ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج2، باب 42، ح1۔؛ نیز رجوع کریں: طوسی، کتاب الغیبہ، 1411ھ، ص238۔؛ اور، اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج2، ص449
  5. موسوی نژاد، سید علی، مہدویت اور حسینیہ زیدی فرقہ، حفت اسمان، جلد 27، زوال 2014، صفحہ 162-127
  6. مہدویت اور انتظار کی اہمیت پر تاکید- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 فروری 2025ء۔
  7. مہدویت اور انتظار فرج رھبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی نظر میں- اخذ شدہ بہ تاریخ: 2 ستمبر 2025ء