آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

ویکی‌وحدت سے
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ.png

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانان ہند کی ایک غیر حکومتی تنظیم ہے جو سنہ 1972ء میں قائم ہوئی۔ بورڈ کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ اور بالخصوص مسلم پرسنل لا ایکٹ، 1937ء کو بدستور نافذ العمل رہنے کے لیے مناسب اور ضروری حکمت عملی اختیار کی جائے۔ نیز بھارت کے مسلمانوں کے نجی معاملات میں شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے، سنہ 1937ء سے قبل ان معاملات میں کچھ مسلمان ہندو رسم و رواج کی پیروی کرتے تھے۔ مذکورہ قانون چند وراثتی معاملات کو چھوڑ کر تمام عائلی قوانین کا احاطہ کرتا ہے [1].

تاسیس

مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھارتی مسلم رائے عامہ کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہرچند کہ اس نمائندگی کی کچھ مسلمانوں نے مخالفت بھی کی[ لیکن بیشتر مسلم فرقوں، جماعتوں اور مسلکوں نے بورڈ کی نمائندگی پر اتفاق کیا اور عملاً اس کی کارگردگی میں شریک رہے۔ بورڈ میں مسلم معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات موجود ہیں جن میں بالخصوص مذہبی رہنما، علما، ماہرین قانون اور سیاست دان قابل ذکر ہیں۔ تاہم بعض دانشوروں مثلاً سید طاہر محمود، عارف محمد خان اور عدالت عظمی کے سبکدوش جج مارکنڈے کاٹجو وغیرہ نے بورڈ کو تحلیل کرنے کی وکالت کی ہے۔

بورڈ کے موجودہ صدر محمد رابع حسنی ندوی ہیں جبکہ دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی، اہل حدیث(سلفی) اور شیعہ مکاتب فکر کی سرکردہ نمائندہ شخصیات بحیثیت نائب صدر منتخب کی جاتی ہیں۔

1972 میں بھارتی پارلیمنٹ میں لے پالک بل پیش کیا گیا جو تمام مذاہب کے لیے تھا۔ اس بل کی رو سے منہ بولے بیٹے کو سگے بیٹے کے تمام حقوق حاصل ہو رہے تھے۔ اس وقت کے وزیر قانون ایچ آر گوکھلے نے اس بل کو یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم بتایا تھا۔ اس بل کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کے کئی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ سید منت اللہ رحمانی کی تحریک پر دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب قاسمی نے 13 ،14 مارچ، 1972ء کو دیوبند میں اہل فکر کا ایک اجلاس بلایا جس میں ملک بھر کے علماء اور دانشور جمع ہوئے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ مسلم عائلی قوانین کے تحفظ کی پرزور آواز ممبئی سے اٹھ رہی ہے، اس لیے ممبئی میں ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہونا چاہیے [2]

27 ،28 دسمبر، 1972ء کو ممبئی میں ایک بڑے اجتماع میں اجلاس منعقد ہوا۔ ایک طرف لاکھوں عوام کا مجمع تھا تو دوسری طرف حنفی، شافعی، مقلد، غیر مقلد، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، داؤدی بوہرہ، سلیمانی بوہرہ، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علمائے ہند غرض یہ کہ تمام مسلم فرقوں، مسلکوں اور جماعتوں کے رہنما موجود تھے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تاسیس پر اتفاق ہوا۔ لہٰذا 7 اپریل، 1973ء کو حیدرآباد، دکن میں بورڈ کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ قاری محمد طیب قاسمی اس کے پہلے صدر اور منت اللہ رحمانی پہلے معتمد عمومی منتخب ہوئے [3]

مقاصد

مسلم پرسنل لا بورڈ کے مقاصد حسب ذیل ہیں :

  • بھارت میں مسلم عائلی قوانین کے تحفظ اور شریعت ایکٹ کے نفاذ کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیار کرنا۔
  • بالواسطہ، بلا واسطہ یا متوازی قانون سازی، جس سے قانون شریعت میں مداخلت ہوتی ہو، علاوہ ازیں کہ وہ قوانین پارلیمنٹ یا ریاستی مجلس قانون ساز میں وضع کیے جا چکے ہوں یا آئندہ وضع کیے جانے والے ہوں یا اس طرح کے عدالتی فیصلے جو مسلم عائلی قوانین میں مداخلت کا ذریعہ بنتے ہوں، انھیں ختم کرانے یا مسلمانوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی جدوجہد کرنا۔
  • مسلمانوں کو عائلی و معاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام و آداب، حقوق و فرائض اور اختیارات و حدود سے واقف کرانا اور اس سلسلے میں ضروری لٹریچر کی اشاعت کرنا۔
  • شریعت اسلامی کے عائلی قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں پر ان کے نفاذ کے لیے ہمہ گیر خاکہ تیار کرنا۔
  • مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحریک کے لیے بہ وقت ضرورت مجلس عمل بنانا، جس کے ذریعے بورڈ کے فیصلے درآمد کرنے کی خاطر پورے ملک میں منظم جدوجہد کی جا سکے۔
  • علما اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک مستقل کمیٹی کے ذریعے مرکزی یا ریاستی حکومتوں یا دوسرے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ذریعے نافذ کردہ قوانین اور گشتی احکام یا ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے مسودات قانون کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیتے رہنا کہ ان کا مسلم پرسنل لا پر کیا اثر پڑتا ہے۔
  • مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابین خیر سگالی، اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کے جذبات کی نشو و نما کرنا اور مسلم عائلی قوانین کی بقا و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے درمیان رابطے اور اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔
  • ہندستان میں نافذ محمڈن لا کا شریعت اسلامی کی روشنی میں جائزہ لینا اور نئے مسائل کے پیش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقیقی مطالعے کا اہتمام کرنا اور شریعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی اساس پر ماہرین شریعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی میں پیش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا۔
  • بورڈ کے مذکورہ بالا اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے وفود کو ترتیب دینا، مطالعاتی شرائط تشکیل دینا، سیمی نار، سمپوزیم، خطابات، اجتماعات، دوروں اور کانفرنسوں کا انتظام کرنا۔ نیز ضروری لٹریچر کی اشاعت اور بہ وقت ضرورت اخبارات و رسائل اور خبرناموں وغیرہ کا اجرا اور اغراض و مقاصد کے لیے دیگر ضروری امور انجام دینا [4]

بورڈ کے صدور

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پہلے صدر حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی تھے، جو 1973ء سے 1983ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ قاری طیب صاحب کی وفات کے بعد سید ابو الحسن علی ندوی کو بورڈ کا دوسرا صدر منتخب کیا گیا۔ آپ 1983ء سے 1999ء کے اختتام تک بخوبی اس فریضہ کو انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد بورڈ کے تیسرے اور سب سے مختصر وقتی صدر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا۔ یہ دور 2000ء سے شروع ہوا اور 2002ء میں ان کی وفات پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد 2002ء میں سید محمد رابع حسنی ندوی کو بورڈ کا چوتھا صدر منتخب کیا گیا جو اب بھی اس عہدے پر فائز ہیں۔ حال ہی میں بورڈ کے پچیسویں اجلاس میں انھیں ایک بار پھر چھٹی مرتبہ بالاتفاق صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ منت اللہ رحمانی بورڈ کے پہلے معتمد عمومی (جنرل سکریٹری )۔ ان کے بعد سید نظام الدین معتمد عمومی رہے۔ ان کی وفات کے بعد سید محمد ولی رحمانی کو معتمد عمومی نام زد کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

  1. vakilno1.com. "The Muslim Personal Law (Shariat) Application Act, 1937". vakilno1.com. 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2012
  2. Katju favours uniform civil law". 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016.
  3. سہ ماہی خبرنامہ بورڈ، شمارہ : جنوری - جون 2005، ص: 29
  4. تعارف نامہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، ص:2