مندرجات کا رخ کریں

حنفی

ویکی‌وحدت سے
حنفی
نامحنفی
عام ناممکتب فقهی ابو حنیفه
بانیابو حنیفه( نعمان ابن ثابت)
نظریہاحکام کے استنباط کے اصول: قرآنِ مجید اور سنتِ رسولؐ کی طرف رجوع، صحابۂ کرام کے اقوال سے استفادہ، قیاس اور استحسان کا استعمال

حنفی، اہلِ سنت کے فقہی مذاہب کی ایک شاخ کا نام ہے، جس کے بانی اہلِ سنت کے چار ائمہ میں سے ایک، امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ہیں۔ یہ فقہی مسلک اہلِ سنت کے چاروں مذاہب میں سب سے زیادہ پیروکار رکھتا ہے۔ اس مسلک کے پیروکار بڑی تعداد میں وسطی ایشیا، افغانستان، پاکستان، چین، ترکیہ، بلقان، برصغیرِ ہند، عراق، شام، لبنان، اردن اور ایران کے وسطی ایشیائی، شمال مشرقی، مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں میں آباد ہیں۔

مسلکِ حنفیہ کا دائرۂ اثر

دیگر اسلامی مذاہب کے مقابلے میں اس مسلک کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس کا جغرافیائی دائرہ ترکیہ، افغانستان، وسطی ایشیا، عراق، قفقاز، ہندوستان، چین، بلقان کے ممالک، برازیل، شام، لبنان اور فلسطین تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حنفی محدود تعداد میں ایران، حجاز، یمن اور مصر میں بھی پائے جاتے ہیں۔[1] اسی وسیع جغرافیائی پھیلاؤ کے باعث کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تقریباً ایک تہائی مسلمان اس فقہی مسلک کے پیروکار ہیں۔[2]

فقہِ حنفی کی خصوصیات اور اہم آراء

فقہِ حنفی کی اہم ترین خصوصیات میں درج ذیل امور شامل ہیں:

عبادات اور معاملات کے احکام میں نرمی و سہولت

ایک اهم خصوصیت عبادات اور معاملات کے احکام میں نرمی و سہولت هے، حتیٰ الامکان انسان کے اعمال اور تصرفات کو صحیح قرار دینا، انسانوں کی عملی آزادی کا احترام [3]، وقوع سے پہلے مفروض فقہی مسائل کو مطرح کرنا۔ اسی بنا پر فقہِ حنفی کو فقہِ تقدیری بھی کہا گیا ہے، اور مفروض مسائل کی کثرت نے فقہِ حنفی میں تفریعی فقہ کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا ہے.[4]

حیلِ شرعیہ کے استعمال پر اصرار

فقہِ حنفی کی ایک اور نمایاں خصوصیت حیلِ شرعیہ کے استعمال پر اصرار ہے، جنہیں شرعی تنگناؤں سے نکلنے کا ذریعہ (المخارج من المضایق) سمجھا گیا ہے۔ اس طرزِ عمل پر دیگر مذاہب کے بہت سے فقہا نے اعتراض کیا ہے [5]۔ بعض مستشرقین نے فقہِ حنفی کے بعض سہل گیر فتاویٰ و احکام کی بنا پر اس مسلک کو اسلام میں رواداری کا علم بردار قرار دیا ہے [6]۔

مسلکِ حنفی کی ایک اور خصوصیت آراء و اقوال کی کثرت ہے۔ اس کے اہم اسباب یہ ہیں: امام ابو حنیفہ سے منقول اقوال و روایات میں اختلاف (کیونکہ ان کے اقوال کسی ایک مدوّن کتاب میں جمع نہیں تھے اور ان سے روایت کرنے والے بہت تھے)، ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کے درمیان آراء کا اختلاف، اور خود فقہائے حنفی کے باہمی اختلافات [7]۔ منقول ہے کہ امام ابو حنیفہ لوگوں کو اپنی اندھی تقلید سے روکتے اور اپنے شاگردوں کو استقلالِ رائے کی تلقین کرتے تھے [8]۔ ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کے آراء کے تقابلی مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ محض مقلّد نہ تھے۔ چنانچہ ابن عابدین (1399ھ، ج 1، ص 67) کے مطابق قاضی ابو یوسف یعقوب انصاری (وفات 182ھ) اور محمد بن حسن شیبانی (وفات 189ھ) کی قریباً ایک تہائی آراء اپنے استاد ابو حنیفہ کی رائے سے مختلف تھیں۔

حنفی علما نے ان اختلافات اور تعددِ اقوال کی توضیح و تحلیل کی اور اس کے لیے اصول و ضوابط مقرر کیے۔ ان کے نزدیک ابو حنیفہ کے اقوال میں اختلاف کی وجوہات یہ ہو سکتی ہیں: راوی کی سماعت میں غلطی؛ یا امام ابو حنیفہ کا اپنے سابقہ موقف سے رجوع (جبکہ راوی نے نیا قول نہ سنا ہو)؛ یا ایک رائے قیاس پر اور دوسری استحسان پر مبنی ہونا؛ یا ایک قول اصل حکمِ شرعی کے بیان کے لیے اور دوسرا بابِ احتیاط کے طور پر ہونا۔ ایک ہی مسئلے میں اگر ابو حنیفہ کی متعدد آراء ہوں اور متأخر رائے معلوم ہو جائے تو وہی معتبر ہوگی؛ اور اگر تعین ممکن نہ ہو تو دونوں اقوال نقل کیے جاتے ہیں اور قواعدِ ترجیح کے مطابق ایک کو ترجیح دی جاتی ہے [9]۔ ابو زہرہ (ص 506) کے نزدیک ایک مسئلے میں ابو حنیفہ کے اقوال کا اختلاف نقص نہیں بلکہ حکمِ شرعی تک پہنچنے کی مخلصانہ کوشش کی علامت ہے۔

اگر ابو حنیفہ کے اصحاب کی آراء ان سے یا آپس میں مختلف ہوں تو ہر ایک کی رائے ابو حنیفہ کی رائے کی طرح معتبر سمجھی جاتی ہے، کیونکہ مسلکِ حنفی انہی مجموعی آراء سے تشکیل پایا ہے اور یہ اختلافات خود اس مسلک کی شناخت کا حصہ ہیں [10]۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعد کے حنفی مجتہدین کی آراء میں اختلاف زیادہ تر اُن مسائل میں پایا جاتا ہے جن کا حکم عرف پر موقوف ہوتا ہے۔

حنفی مفتیان فتویٰ دیتے وقت متقدمینِ حنفی کے مختلف منقول اقوال میں سے راجح قول کا تعین کرتے ہیں۔ اس کے لیے اصول و قواعد مقرر ہیں؛ مثلاً اختلافِ روایات کی صورت میں ظاہر الروایہ کی کتابوں میں منقول روایات کو مخصوص شرائط کے ساتھ ترجیح دی جاتی ہے، اور اگر سب میں یہ وصف ہو تو دیگر قواعد سے ترجیح قائم کی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر ابو حنیفہ کی رائے ان کے دو ممتاز شاگردوں (ابو یوسف اور محمد بن حسن شیبانی، المعروف “صاحبان”) کی رائے سے متعارض ہو تو خاص قواعد کے تحت راجح رائے نکالی جاتی ہے [11]۔ بعض حنفی علما نے اپنی تصانیف میں قواعدِ ترجیح تفصیل سے بیان کیے ہیں [12]۔

علمی تعامل و تبادلہ

مسلکِ حنفی کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے شاگردوں اور اہلِ سنت کے دیگر مذاہب کے ائمہ کے درمیان علمی تعامل و تبادلہ رہا۔ مثال کے طور پر محمد بن حسن شیبانی، امام مالک بن انس کی درسگاہ میں بھی شریک ہوئے؛ اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل نے ابو یوسف انصاری اور شیبانی سے کسبِ علم کیا۔ اس تعامل نے نہ صرف افکار کے تبادلے اور مذاہب کے دلائل و اصول سے آشنائی میں مدد دی بلکہ حنفیوں کے لیے یہ فائدہ بھی ہوا کہ رائے کے افراطی استعمال میں اعتدال پیدا ہوا [13]۔

متعلقه تلاشیں

حوالہ جات

  1. مذهب حنفی، تارنمای رواق الحجاج.
  2. عبدالهادی فضلی و دیگران، المذاهب الاسلامیة الخمسة، بیروت، انتشارات الغدیر، سال 1998 م، ج ۱، ص ۳۴۱.
  3. (زلمی، ص 47ـ48)
  4. (حجوی ثعالبی، ج 1، قسم 2، ص 419؛ ابو زہرہ، ص 259ـ261؛ نیز دیکھیے: نقیب، ج 1، ص 419ـ422؛
  5. (دیکھیے: حجوی ثعالبی، ج 1، قسم 2، ص 433ـ436؛ ابو زہرہ، ص 470ـ490؛ نیز دیکھیے: حیلِ شرعی)
  6. (دیکھیے: حتّی و ہمکاران، ج 2، ص 483ـ484؛ آدامز، ص 377ـ387؛ باسورتھ، ج 1، ص 176)
  7. (ابو زہرہ، ص 504)
  8. (دیکھیے: ابن عبدالبر، ص 267؛ ابن عابدین، 1400ھ، ج 1، ص 23)
  9. (ابن عابدین، 1400ھ، ج 1، ص 21ـ22؛ ابو زہرہ، ص 504ـ506)
  10. (ابن عابدین، 1400ھ، ج 1، ص 23ـ25؛ ابو زہرہ، ص 508ـ514)
  11. (دیکھیے: ابو زہرہ، ص 514ـ519؛ حوّی، ص 441ـ449)
  12. ابن عابدین، 1400ھ، ج 1، ص 10ـ52)
  13. (دیکھیے: خطیب بغدادی، ج 2، ص 561؛ ج 16، ص 359؛ کردری، ص 389ـ390، 396، 419، 424، 433؛ نقیب، ج 1، ص 383ـ384؛ حجوی ثعالبی، ج 1، قسم 2، ص 512ـ513)