سید احمد خان ہندی
| سید احمد خان ہندی | |
|---|---|
| دوسرے نام | سر سید احمد خان ہندی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1817 ء، 1195 ش، 1231 ق |
| یوم پیدائش | 17 اکتوبر |
| پیدائش کی جگہ | دہلی ہندوستان |
| یوم وفات | 27 مارچ |
| وفات کی جگہ | علی گڑھ |
| اساتذہ | مولوی خلیل اللہ |
| مذہب | اسلام، سنی |
| اثرات |
|
| مناصب |
|
سید احمد خان متقی بن محمد متقی المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دو قومی نظریہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے دوقومی نظریے کو سترہویں صدی کے غیر اہم کردار حضرت مجدد الف ثانی کو قرار دیتے ہیں۔ جس کا کوئی ٹھوس علمی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اثر اور متاثر کی اتنی نسبت ہے جتنی کہ سکندراعظم اور نپولین میں موجود ہو سکتی ہے۔ سر سید کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند (معتزلہ) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور ناقابل تلافی نقصان دیا۔ پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں۔
ابتدائی زندگی
سید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آبا و اجداد ترک برلاس قبیلے سے تھے۔ شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ سر سید احمد خان نے دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ سر سید نے کئی سال ادویات کا مطالعہ بھی کیا۔ ان کے بڑے بھائی نے شہر میں سب سے پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی، جہاں سے جریدہ القران اکبر شائع ہوتا تھا[1]۔
تعلیم
ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ 1837ء میں آگرہ میں کمیشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ 1841ء سے 1842ء میں مین پوری اور 1842ء سے 1846ء تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید" 1847ء میں لکھی۔ 1857ء میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔
ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں انھوں نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور" لکھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران میں آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں انھوں نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں بچائیں۔ انھوں نے یہ کام انسانی ہمدردی کے لیے ادا کیا۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد انگریزوں نے اس خدمت کے عوض انعام دینے کے لیے آپ کو ایک جاگیر کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
برصغیر میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے علمبردار
سرسید برصغیر میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انھوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی وہ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالا پانی بھیجے جاتے تھے[2]۔
ان کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُن کی جائیدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس، خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔
سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔" "جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے ۔۔۔ مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں"
تفسیر قرآن
قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے سر سید کا مقصد، جیسا کہ عموماً خیال کیا جاتا ہے، یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کے مضامین عام طور پر تمام اہلِ اسلام کی نظر سے گزریں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی نہایت معقول اور ذی استعداد ان کے پاس آئے اور کہا کہ "میں آپ کی تفسیر دیکھنے کا خواہش مند ہوں اگر آپ مستعار دیں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں۔" سر سید نے ان سے کہا کہ
"آپ کو خدا کی وحدانیت اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت پر تو ضرور یقین ہو گا؟" انھوں نے کہا، "الحمد للہ!" پھر کہا،
"آپ حشرونشر اور عذاب و ثواب اور بہشت و دوزخ پر اور جو کچھ قرآن میں قیامت کی نسبت بیان ہوا ہے، سب پر یقین رکھتے ہوں گے؟"
انھوں نے کہا، "الحمد للہ!"
سر سید نے کہا،
"بس تو میری تفسیر آپ کے لیے نہیں ہے۔ وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو مذکورہ بالا عقائد پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا ان پر معترض یا ان میں متردد ہیں۔" سر سید نے ایک موقع پر تفسیر کی نسبت کہا کہ "اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے، اس کو کوئی کھول کر نہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!"
رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے علاوہ سیرت فرید، جام جم بسلسلۃ الملکوت، تاریخ ضلع بجنور اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقالات سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں[3]۔
تعلیمی خدمات
اس کا نقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انھوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انھوں نے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انھوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوؤں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔
1859ء میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ء میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔ 1875ء میں انھوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انھوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔ 1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔
بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں منتقل کر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئی۔
1886ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم قوم کی تعلیمی ضرورتوں کے لیے افراد کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کانفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ لاہور میں اسلامیہ کالج کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام، پشاور میں اسلامیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی۔
مسلمانوں کی بھلائی کی فکر
بمقام بنارس "کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان" منعقد ہو گئی جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالبِ علم کس لیے کم پڑھتے ہیں، علومِ قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علومِ جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے اور جب یہ موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے۔
نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ "جس تاریخ کو کمیٹی مذکور کے انعقاد کے لیے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں اُن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار روتے جاتے ہیں، میں نے گھبرا کر پُوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے لگے اور کہا کہ: "اس سے زیادہ اور کیا مُصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے اور بگڑتے جاتے ہیں اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔"
پھر آپ ہی کہنے لگے کہ: "جو جلسہ کل ہونے والا ہے، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اُدھیڑ بن میں گذر گئی ہے کہ دیکھیے، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جُوں چلتی ہے یا نہیں۔" نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گذری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں۔ “
مدرسہ کے لیے دوروں کے اخراجات
مدرسہ کے لیے انھوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کیے۔۔۔ ہزا رہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا۔ اگرچہ ان کے دوست اور رفیق بھی، جو ان کے ہمراہ جاتے تھے، اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے اُٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سر سید کا ہر سفر میں ہونا ضروری تھا۔ اس کے سوا ہمیشہ ریزروڈ گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں اُن کی کمی زیادہ تر سر سید کو پوری کرنی پڑتی تھی۔
ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ کیجئے۔ “ سر سید نے کہا، "روپیہ نہیں ہے۔" اُن کے منہ سے نکلا کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا سفرِ خرچ کمیٹی کو دینا چاہیے۔ “ سر سید نے کہا: "میں اس بات کو ہرگز گوارا نہیں کر سکتا۔ مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لیے سفر کر سکتا ہوں جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں۔"
کالج کا قیام، قومی احساسات کی ترجمانی
74ء میں جبکہ سر سید پہلی بار چندہ کے لیے لاہور گئے ہیں اس وقت انھوں نے راقم کے سامنے بابو نوین چندر سے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا تھا کہ: "صرف اس خیال سے کہ یہ کالج خاص مسلمانوں کے لیے انھی کے رُوپے سے قائم کیا جاتا ہے، ایک تو مسلمانوں میں اور دوسری طرف ان کی ریس سے ہندوؤں میں توقع سے زیادہ جوش پیدا ہو گیا ہے۔"
اور پھر خان بہادر برکت علی خاں سے پُوچھا کہ: "کیوں حضرت اگر یہ قومی کالج نہ ہوتا تو آپ ہماری مدارات اسی جوشِ محبت کے ساتھ کرتے؟“ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ "ہرگز نہیں۔ “ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر سید اپنے کام کے شروع ہی میں اس قومی فیلنگ سے بخوبی واقف تھے[4]۔
کالج فاؤنڈرز ڈے کی بجائے فاؤنڈیشن ڈے
ایک دفعہ کالج کے بعض یورپین پروفیسروں نے یہ تحریک کی کہ یہاں بھی ولایت کے کالجوں کی طرح فاؤنڈرز ڈے (یعنی بانی مدرسہ کی سالگرہ کا دن) بطور ایک خوشی کے دن کے قرار دیا جائے جس میں ہر سال کالج کے ہوا خواہ اور دوست اور طالب علم جمع ہو کر ایک جگہ کھانا کھایا کریں اور کچھ تماشے تفریح کے طور پر کیے جایا کریں۔ سر سید نے اس کو بھی منظور نہیں کیا اور یہ کہا کہ: "ہمارے ملک کی حالت انگلستان کی حالت سے بالکل جداگانہ ہے۔
وہاں ایک ایک شخص لاکھوں کروڑوں روپیہ اپنے پاس سے دے کر کالج قائم کر دیتا ہے اور یہاں سِوا اس کے کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے کہ چندہ جمع کر کے کالج قائم کیا جائے اور کوئی صُورت ممکن نہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کالج قوم کے روپیہ سے قائم ہو اُس کے کسی خاص بانی کے نام پر ایسی رسم ادا کی جائے، اس لیے میرے نزدیک بجائے فاؤنڈرز ڈے کے فاؤنڈیشن ڈے (کالج کی سالگرہ کا دن) مقرر ہونا چاہیے۔ “ چنانچہ اسی تجویز کے موافق کئی سال تک یہ رسم ادا کی گئی۔
مدرسہ کے علاوہ دیگر رفاہی کاموں میں کوشش کرنے سے انکار
سر سید نے مدرسہ کی خاطر اس بات کو بھی اپنے اُوپر لازم کر لیا تھا کہ کوئی سعی اور کوشش کسی ایسے کام میں صرف نہ کی جائے جو مدرسۃ العلوم سے کچھ علاقہ نہ رکھتا ہو۔۔۔ سر سید کے ایک معزز ہم وطن نے ایک رفاہِ عام کے کام میں ان کو شریک کرنا اور اپنی کمیٹی کا رکن بنانا چاہا۔ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ: "میں صلاح و مشورے سے مدد دینے کو آمادہ ہوں لیکن چندہ نہ خود دوں گا اور نہ اوروں سے دلوانے میں کوشش کروں گا، اگر اس شرط پر ممبر بنانا ہو تو مجھ کو ممبری سے کچھ انکار نہیں۔ “
قومی بھلائی کے لیے لاٹری کا جواز
صیغہ تعمیرات کے سوا کالج کے اور اخراجات کے لیے سر سید نے نئے نئے طریقوں سے رُوپیہ وصُول کیا جس کو سن کر لوگ تعجب کریں گے۔ ایک دفعہ تیس ہزار کی لاٹری ڈالی۔ ہر چند مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی، مگر سر سید نے کچھ پروا نہ کی اور بعد تقسیم انعامات کے بیس ہزار کے قریب بچ رہا۔ اس دوران ایک لطیفہ بھی ہوا۔ جن دنوں میں لاٹری کی تجویز درپیش تھی، دو رئیس سر سید کے پاس آئے اور لاٹری کے ناجائز ہونے کی گفتگو شروع کی۔ سر سید نے کہا: "جہاں ہم اپنی ذات کے لیے ہزاروں ناجائز کام کرتے ہیں وہاں قوم کی بھلائی کے لیے بھی ایک ناجائز کام سہی۔"
سائنٹفک سوسائٹی (غازی پور)
سید احمد خان نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔ سر سید کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے انھوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا[5]۔
سر بیچنے کا ذکر
مذہبی عقائد اور اقوال کے سوا اور طرح طرح کے اتہامات اس خیرخواہِ خلائق پر لگائے جاتے تھے۔ اس بات کا تو سر سید کی وفات تک ہزاروں آدمیوں کو یقین تھا کہ انھوں نے اپنا سر دَس ہزار روپے کو انگریزوں کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ بعد مرنے کے انگریز ان کا سر کاٹ کر لندن لے جائیں گے اور لندن کے عجائب خانہ میں رکھیں گے۔ ایک بار یہی سر بیچنے کا تذکرہ سر سید کے سامنے ہوا تو انھوں نے نہایت کشادہ دلی کے ساتھ فرمایا کہ:
"جو چیز خاک میں مل کر خاک ہو جانے والی ہے، اس کے لیے اس زیادہ اور کیا عزت ہو سکتی ہے دانش مند لوگ اس کو روپیہ دے کر خریدیں اس کے ڈسکشن× سے کوئی علمی نتیجہ نکالیں اور اس کی قیمت کا روپیہ قوم کی تعلیم کے کام آئے دَس ہزار چھوڑ دس روپے بھی اگر اس کی قیمت میں ملیں تو میرے نزدیک مفت ہیں۔"
عہدحاضر میں سرسیداحمدخان کی معنویت
سرسید احمد خان اور ا ن کے علی گڑھ کالج کے خلاف ملک بھر میں خوب فتوے جاری ہوئے۔ یہاں تک کہ مخالفین نے ایک فتویٰ علمائے مکّہ سے بھی منگوایا جس میں تحریر تھا کہ ایمان والوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اس درسگاہ کو منہدم کردیں۔ اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے سرسید نے انجمن اسلامیہ لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا [6]
"میں عرض کرتا ہوں کہ میں ایک کافر ہوں مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک کافر، آپ کی قوم کی بھلائی کے لئے کوشش کرے تو آپ اس کو اپنا خادم اور خیر خواہ نہیں سمجھیں گے۔ آپ میری محنت اور اپنی مشقت سے اپنے بچوں کے لئے ایک عظیم تعلیمی ادارہ بننے دیجئے اس کالج کو قائم کرنے میں مجھے دس سال لگے ہیں اور آپ ایک ہی دن میں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں." سرسید احمد خان کے عہد میں مسلمانوں کے جو مسائل تھے ،آج بھی تقریباً وہی مسائل ہیں،بلکہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے اور ان تمام مسائل کا حل سرسید نے تعلیم میں دیکھا تھا۔ اسی لئے انھوں نے علی گڑھ کالج کو ایک تحریک بنادیا تھا۔ آج یہ تعلیمی ادارہ موجود ہے اور مزید بڑا ہوگیا ہے مگر اب یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے، نہ کہ تحریک۔ اگر سرسید کی تحریک انھیں کے جوش وجذبے کے ساتھ جاری رہتی تو آج عالم اسلام کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ نہیں رہتے۔
عالم اسلام کے مسائل کیا ہیں؟
آج عالم اسلام کے مسائل کیا ہیں؟کیا دنیابھر میں مسلمان دوسری اقوام سے پیچھے نہیں ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں جمہوریت کم، تاناشاہی زیادہ ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ مسلم ملکوں کے قدرتی وسائل پر خود وہاں کے باشندوں کے بجائے مغرب قابض ہے؟ کیا مسلمان، معاشی اعتبار سے پسماندہ نہیں ہیں؟ کیا مسلمان، سائنس اور تیکنالوجی میں پیچھے نہیں ہیں؟کیا یہ درست نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں جو ریسرچ ورک ہوتا ہے، اس کے مقابلے ایک فیصد بھی، مسلم ملکوں میں نہیں ہوتا؟
کیا یہ درست نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں تعلیمی اداروں کا فقدان ہے اور تعلیم کے میدان میں مسلمان سب سے پیچھے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر مسلمانوں نے سرسید کی بتلائی ہوئی راہ اپنائی ہوتی تو کیا یہ مسائل باقی رہتے؟جی ہاں! یہ تمام مسائل صرف اسلئے ہیں کہ ہم نے سرسید کے راستے کو اختیار نہیں کیا اور تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھا۔ سرسید، مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تعلیم میں مضمردیکھتے تھے۔ انھوں نے1857ء کے پرآشوب حالات دیکھے تھے اور عہد مغل کے زوال میں مسلمانوں کی ابتری بھی دیکھی تھی۔ عام مسلمان، اپنی عظمت رفتہ کا ماتم کرنے میں مصروف تھے اور انھیں لگتا تھا کہ اگر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرالیا گیا تو ان کی پرانی شان وشوکت واپس آجائے گی مگر سرسید اسے دیوانے کا خواب سمجھتے تھے۔
انھوں نے حالات کو حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا۔ وہ برطانیہ جاکر وہاں کی ترقی بھی دیکھ آئے تھے۔ انھیں احساس ہوگیا تھا کہ علم وفن اور سائنس و تیکنالوجی کے بغیر مغربی استعمار کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتالہٰذا وہ مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ سیاست سے دور رہیں اور انگریزوں سے لڑنے کے بجائے،ان سے جدید علوم سیکھیں۔سرسید کی دوررس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ جدید دنیا پر وہی راج کرے گاجس کے پاس سائنس اور تیکنالوجی کی قوت ہوگی۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ مسلمان بچے ایسی تعلیم حاصل کریں کہ ان کے دائیں ہاتھ میں حکمت و فلسفہ، بائیں ہاتھ میں سائنس کے تکنیکی علوم اور سر پر لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج ہو۔ کتنا خوبصورت خواب تھا سر سید کا اور کیا نرالا انداز تھا،ان کا۔
اپنے وقت سے آگے کی سوچ رکھتے تھے سرسید
سرسید احمد خان نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے مسلمانوں کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں۔ وہ زنگ آلودہ تلواروں کے ذریعے انگریزوں کے ٹینکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ مغرب کے مقابلے پر آئیں تو پہلے انھیں سائنس اور تیکنالوجی میں آگے آنا پڑے گا اور جس طرح دنیا کی معیشت پر مغرب نے قبضہ کیا ہے،اسی طرح اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی معاشرتی حالت کو بدلیں اور یہ ذہن نشین کر لیں کہ اس وقت وہ نہایت ہی کمزور ہیں ،وہ طاقت کے بل پر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
انہیں اپنے بچوں کی علمی ترقی پر ہر حال میں توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ سرسید کی باتوں پر مسلمانوں کے صرف ایک طبقے نے کان دھرا اور انھوں نے جان لیا کہ اب منہ چرانے، سر چھپانے اور ہائے ہائے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، سر سید ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ علم و ہنر کے ہتھیار کے بغیر ہم نہتے ہیں۔سرسید ،مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تعلیم میں مضمر سمجھتے تھے اور اس کے لئے انتہائی خلوص کے ساتھ کوشاں تھے۔یہاں ایک واقعے کا ذکر برمحل ہوگا۔
’’ بمقام بنارس ’کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان‘منعقد ہو گئی، جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے، اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالبِ علم کس لئے کم پڑھتے ہیں، علومِ قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علومِ جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے، اور جب یہ موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے۔‘‘
نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ، ’’جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لئے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔
دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں اْن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار روتے جاتے ہیں، میں نے گھبرا کر پْوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے لگے اور کہا کہ: اس سے زیادہ اور کیا مْصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے، اور بگڑتے جاتے ہیں، اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔ پھر آپ ہی کہنے لگے کہ:
جو جلسہ کل ہونے والا ہے، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اْدھیڑ بن میں گزر گئی ہے کہ دیکھیے، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جْوں چلتی ہے یا نہیں۔ نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گزری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں۔ ‘‘
علی گڑھ تحریک کی فکری بنیادیں
عہد حاضر میں ترقی کا راز اخلاقی قدروں کی بلندی کے ساتھ ساتھ جدید علوم میں مہارت بھی ہے اور اس بات کو سرسید نے بہت پہلے سمجھ لیا تھا۔اسی لئے انھوں نے علی گڑھ کی پہلی فکری بنیاد اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی پررکھی تھی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں شکست کا خمیازہ ہندوستانی مسلمانوں کو زیادہ اٹھانا پڑا۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سرسید نے اس کے بعدمان لیا کہ مادی خوش حالی مغربی علوم و فنون کو حاصل کیے بغیر نہیں آسکتی ہے[7]۔
انھوں نے علم کے قدیم تصورپر اصرار نہیں کیااور ایسے علم کو حاصل کرنے کا مشورہ دیا جس سے قوم کی ترقی ہو اور معاشی زندگی میں دشواریاں نہ پیش آئیں۔ علی گڑھ تحریک کی دوسری فکری بنیاد، انھوں نے عقلیت پر مرکوزکی تھی۔ سرسید کا ماننا تھا کہ مذہبی معاملات میں عقل کا دخل ہونا چاہیے اور بغیر عقلی استدلال کے آنکھ بند کرکے مذہبی مسائل کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اسی لیے انھوں نے مذہب اسلام کو سائنس، فلسفے اور قانون فطرت کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک کی تیسری بنیادی فکر اجتماعیت پر تھی[8]۔
سرسید مانتے تھے کہ اجتماعیت میں برکت ہے اور اس سے پوری قوم کو متحرک رکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ایک لکچر میں کہا: ’’تعلیم و تربیت کی مثال کمہار کے آوے کی سی ہے کہ جب تک تمام کچے برتن ، بہ ترتیب ایک جگہ نہیں چنے جاتے اور ایک قاعدہ داں کمہار کے ہاتھ سے نہیں پکائے جاتے کبھی نہیں پکتے پھر اگر تم چاہو کہ ایک ہانڈی کو آوے میں رکھ کر پکالو ہرگز درستی سے نہیں پک سکتی۔‘‘
اگر بہ غور دیکھیں تو سرسید کی علی گڑھ تحریک جدید تعلیم کی تحریک تھی۔ وہ ایسی تعلیم مسلمانوں کو دلانا چاہتے تھے جو ان کے تمام مسائل کا حل بن جائے اور اگر ان کے راستے پر مسلمان چلتے اور یہ تحریک آج بھی جاری ہوتی تو عالم اسلام کے تمام مسائل حل ہوچکے ہوتے۔اس تحریک کو ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں اور اس کے زیر اثر ساری مسلم دنیا میں تعلیمی اداروں کا قیام ہونا چاہئے تھا اور ملت کے ایک ایک فرد کو تعلیم یافتہ ہونا چاہئے تھامگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔بقول اکبرالٰہ آبادی:
| ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا | نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں |
'
| کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبرؔ | خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں |
وفات
سرسید احمد خان 80 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں فوت ہوئے اور اپنے کالج کی مسجد میں دفن ہوئے[9]
حوالہ جات
- ↑ حیات جاوید(حالی)نیشنل بک ہاؤس،الہور،۱۹۸۶ء،ص۵۴۰ا
- ↑ مولوی عبدالحق، سر سید احمد خان ، حاالت،وافکار،انجمن ترقی اردو ، کراچی،۱۹۵۹ء، ص:۷۶
- ↑ محمد اکرم، شیخ، موج ِ کوثر، ادارہ ثقافت ِ اسالمیہ، الہور، سن:۱۹۸۲ء،ص:۷۷
- ↑ سر سید احمد خان علمی اور ادبی خدمات-شائع شدہ از:15 ستمبر 2023ء -اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اکتوبر 2025ء
- ↑ اسلوب احمد انصاری،’’سر سید کا نظریہ عقل و فطرت‘‘، مشمولہ مسلک،ایجوکیشن کالج ملتان ،۲۰۰۰ء ، ص:۹۶
- ↑ تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
- ↑ توصیف احمد بٹ، سر سید احمد خان : ایک مصلح رہنما ، ادیب اور مفکر-شائع شدہ از: 11جون 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اکتوبر 2025ء
- ↑ عہدحاضر میں سرسیداحمدخان کی معنویت- شائع شدہ از: 18 اگست 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اکتوبر 2025ء
- ↑ محمد اکرم چغتائی،مرتب: مطالعہ سر سید،سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۶: ص ، ء۱۰۵