شاہ ولی اللہ دہلوی
| شاہ ولی اللہ دہلوی | |
|---|---|
| دوسرے نام | شاہ ولی اللہ محدث دہلوی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1703 ء، 1081 ش، 1114 ق |
| پیدائش کی جگہ | موضع پھلت، ضلع مظفر نگر |
| وفات | 1762 ء، 1140 ش، 1175 ق |
| یوم وفات | 20 اگست |
| وفات کی جگہ | ہندوستان دہلی |
| اساتذہ |
|
| شاگرد | شاہ عبد العزیز دہلوی |
| مذہب | اسلام، سنی |
| اثرات |
|
شاہ ولی اللہ دہلوی(1703ء،1762ء) بر صغیر پاک و ہند کے ممتاز اسلامی مفکر، محدث اور فلسفی تھے، جو مغلیہ سلطنت کے دور میں علم و دانش کا روشن مینار سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کی اصل روح کے مطابق اصلاح کا بیانیہ پیش کیا اور "تحریک ولی اللہی" کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد مسلمانوں کی فکری اصلاح، اتحاد اور روحانی بیداری تھا۔ شاہ ولی اللہ کا فلسفہ ولی اللہی اسلامی اصولوں، عقل اور اجتہاد کی بنیاد پر استوار تھا، جس میں معاشرتی بگاڑ اور فرقہ واریت کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ان کی تعلیمات نے برصغیر میں اسلامی احیاء کی ایک مضبوط تحریک کو جنم دیا[1]۔
سوانح عمری
21 فروری 1703ء (1114ھ) کو موضع پھلت، ضلع مظفر نگر، اتر پردیش میں شاہ عبد الرحیم دہلوی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی علاقہ دہلی تھا، نسبی اعتبار سے آپ کا تعلق قبیلہ فاروقی سے تھا، رہائش کے لحاظ سے آپ کو دہلوی کہا جاتا ہے اور فقہی اعتبار سے آپ حنفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے [2]۔
تعلیم
ابتدائی تعلیم
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا اور سات سال کی عمر میں قرآن کریم مکمل کر لیا۔ ساتویں سال کے آخر میں انھوں نے فارسی اور عربی کے ابتدائی رسائل کا مطالعہ شروع کیا اور ایک سال میں ان کو مکمل کیا۔ بعد ازاں، انھوں نے صرف و نحو کی طرف توجہ مبذول کی اور دس سال کی عمر میں نحو کی مشہور کتاب "شرح جامی" تک پہنچ گئے [3]
اعلی درسی علوم
صرف و نحو سے فراغت کے بعد شاہ ولی اللہ نے علوم عقلیہ و نقلیہ کی جانب توجہ دی اور پندرہ سال کی عمر میں تمام متداول درسی علوم سے فارغ ہو گئے۔ اس عرصے میں آپ نے زیادہ تر کتب اپنے والد حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی سے پڑھیں۔ پندرہ سال کی عمر کے بعد انھوں نے درس و تدریس کا آغاز کیا اور 17 سال کی عمر میں اپنے والد سے بیعت و ارشاد کی اجازت بھی حاصل کی۔
مسند درس و ارشاد
انہوں نے 1143ھ تک اپنے والد حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی کی مسند درس و ارشاد کو سنبھالا اور خلقِ خدا کو علمی و روحانی فیض پہنچایا۔ اس دوران انھوں نے لوگوں کو علمِ دین سکھانے کے ساتھ اصلاح و تربیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
شاہ ولی اللہ ہند و پاک کے نامور عالم دین، الہیات داں، فلسفی اور محدث گزرے ہیں۔ انہوں نے سات سال کی عمر میں قرآن حافظ کیا۔ ان کے والد شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی بھی اپنے عہد کے مایہ ناز محدث تھے۔ انہیں سے اکتساب فیض کیا اور بیعت و خلافت بھی پائی۔ شاہ ولی اللہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ کی پیروی کیا کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم تاریخ اور تصوف پر بھی کتابیں لکھیں مگر ان کو شہرت ان کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ سے ملی۔ شاہ ولی اللہ نے بحیثیت داعی بھی بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ سماج کی برائیوں کو دور کیا اور معاشرے میں پھیلنے والی غلط فہمیوں کو حکمت و دانائی سے ختم کیا[4]۔
حرمین شریفین کا سفر
1143ھ میں، جب آپ کی عمر تقریباً 30 سال تھی، آپ نے حرمین شریفین کا سفر کیا اور وہاں کے مشائخ سے مختلف علوم حاصل کیے۔ شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردی مدنی سے "بخاری شریف" کی سماعت کی اور "صحاح ستہ"، موطا امام مالک، مسند دارمی اور امام محمد کی "کتاب الاثار" ان کے سامنے پڑھی۔ مزید برآں، شیخ عبد اللہ مالکی مکی اور شیخ تاج الدین حنفی سے بھی آپ نے علمی استفادہ کیا۔
درس و تدریس
حرمین شریفین سے واپس آ کر والد کے بنائے مدرسہ رحیمیہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔
اصلاح کا کام
سیاسی اصلاحات
شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر مضبوط بنانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے مختلف بادشاہوں اور امرا سے خط کتابت کی۔ انھوں نے مسلمانوں کے اتحاد اور حفاظت کے لیے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا، جس کے نتیجے میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دی۔ یہ حملہ برصغیر میں مسلمانوں کی بقا اور سیاسی استحکام کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔
سماجی اصلاحات
شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں میں سماجی اصلاحات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ اس زمانے میں ہندوؤں کے اثر کی وجہ سے بیوہ عورتوں کی شادی کو برا سمجھا جانے لگا تھا، جس کی شاہ ولی اللہ نے شدید مخالفت کی۔ انھوں نے اس رسم کو ختم کرنے پر زور دیا اور اسی طرح شادی میں بڑے بڑے مہر باندھنے اور خوشی و غم کے مواقع پر فضول خرچی سے بھی منع کیا۔ شاہ ولی اللہ نے ان مسائل پر خاص توجہ دی اور ان رسوم کو ختم کرنے کی تلقین کی۔
فرقہ وارانہ اختلافات کا خاتمہ
انہوں نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو اختلافات میں انتہا پسندی کی بجائے اعتدال کی راہ اپنانے کا درس دیا تاکہ مسلمان باہمی تنازعات سے بچ سکیں۔ ان کا مقصد مسلمانوں کو ایک متحد امت بنانا تھا جو اسلامی اصولوں پر کاربند ہو۔
تصوف کی اصلاح
شاہ ولی اللہ نے تصوف میں موجود خرابیوں کی نشان دہی کی اور اس میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ انھوں نے پیری مریدی کے غلط طریقوں کی مخالفت کی اور صوفیانہ تعلیمات کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک تصوف کی اصل روح اللہ تعالیٰ کے قرب کی جستجو تھی، نہ کہ دنیاوی مفاد یا مریدوں کی تعداد میں اضافہ۔
سرگرمیاں
آپ نے برصغیر پاک و ہند میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور معاشرتی اصلاح کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان کے کام نے مسلمانوں کی فکری اور روحانی زندگی کو گہرے انداز میں متاثر کیا اور ان کے فلسفہ اور اصلاحی تحریک نے آنے والی نسلوں پر بھی دیرپا اثرات چھوڑے [5]۔
قرآن کا ترجمہ
شاہ ولی اللہ کا ایک بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے۔ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی علمی زبان فارسی تھی اور قرآن چونکہ عربی میں تھا، اس لیے اکثر لوگ اسے براہ راست سمجھنے سے قاصر تھے۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کرکے اس رکاوٹ کو دور کیا اور عام مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا، جس کے نتیجے میں زیادہ لوگ قرآن کے پیغام کو سمجھنے لگے [6]۔
علمی آثار
- حجۃ اللہ البالغہ، اسلامی عقائد و فلسفہ، عربی، یہ شاہ ولی اللہ کی مشہور کتاب ہے جس میں انھوں نے اسلامی عقائد اور تعلیمات کی وضاحت کی ہے۔
- الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،علم تفسیر، عربی، اس کتاب میں شاہ ولی اللہ نے اصول تفسیر پر بحث کی ہے اور قرآن فہمی کے اصول بیان کیے ہیں۔
- ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء، نظام خلافت، فارسی، یہ کتاب خلافت اور اسلامی ریاست کے نظام پر تفصیلی بحث کرتی ہے۔
- الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، فقہی اختلافات، عربی ،اس کتاب میں شاہ ولی اللہ نے فقہی اختلافات کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔
- تحفۃالمجاہدین، جہاد کے اصول، عربی، یہ کتاب اسلامی نقطۂ نظر سے جہاد کے اصول اور اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
- فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن، ترجمہ قرآن، فارسی، یہ شاہ ولی اللہ کا قرآن کا فارسی ترجمہ ہے، جو عام مسلمانوں کو قرآن کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے کیا گیا۔
- البدور البازغہ ،علم الکلام، عربی، اس کتاب میں اسلامی عقائد پر مبنی مسائل کا فلسفیانہ جائزہ لیا گیا ہے۔
- القول الجمیل، تصوف،عربی، یہ کتاب تصوف اور روحانیت کے موضوع پر شاہ ولی اللہ کی اہم تصنیف ہے۔
- رسالہ فی علم التوحید، علم التوحید، عربی، اس رسالے میں اسلامی توحید کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔
- عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید، اجتہاد و تقلید ، عربی، یہ کتاب اجتہاد و تقلید کے احکام اور اصولوں پر مشتمل ہے۔
ازالۃ الخفا اور خلافت کا نظام
شاہ ولی اللہ نے اسلامی ریاست اور اس کے نظام پر ایک اہم اور منفرد کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی زبان میں تالیف کی۔ یہ کتاب خلافت، حکومت اور اسلامی نظام کے اصولوں پر بحث کرتی ہے اور اس میں اسلامی ریاست کے بارے میں مفصل ابحاث پیش کی گئی ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا عبدالشکور فاروقی مجددی نے کیا جو آرام باغ، کراچی سے شائع ہوا [7]۔
فلسفہ ولی اللہی
شاہ ولی اللہ کا فلسفہ ولی اللہی اسلامی اصولوں، اعتدال اور اجتہاد پر مبنی تھا، جس نے مسلمانوں کو اپنے دین کی اصل تعلیمات کی طرف واپس آنے کا درس دیا۔ ان کے فلسفے کا مقصد تھا کہ اسلامی معاشرت کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے[8]۔
تحریک ولی اللہی
شاہ ولی اللہ نے تحریک ولی اللہی کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد اسلامی معاشرت میں اصلاح، اخلاقی بیداری اور سماجی انصاف کی ترویج تھی۔ اس تحریک نے برصغیر میں اسلامی بیداری اور احیاء کی لہریں پیدا کیں اور آنے والے مصلحین کے لیے ایک فکری اور عملی بنیاد فراہم کی [9]۔
مجدد اور احیائے دین
شاہ ولی اللہ کو اپنی صدی کا مجدد بھی سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ غزالی، ابن تیمیہ اور مجدد الف ثانی۔ انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں مذہبی بیداری کا شعور پیدا کیا اور ان کی اولاد اور شاگردوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا، جس سے ہند و پاک کے مسلمانوں کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں آئیں [10]۔
جانشین
شاہ ولی اللہ کے سب سے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز عربی اور فارسی کے انشا پرداز تھے اور 60 سال تک دینی علوم اور احادیث کی تعلیم دیتے رہے۔ وہ ان افراد میں شامل ہیں جن کی وجہ سے برصغیر میں علم حدیث پھیلا۔ دوسرے صاحبزادے شاہ رفیع الدین کا سب سے بڑا کارنامہ اردو میں قرآن مجید کا پہلا ترجمہ ہے۔ تیسرے صاحبزادے شاہ عبد القادر دہلوی کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کی اردو تفسیر ہے جو "موضح القرآن" کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تفسیر آج بھی انتہائی مقبول ہے۔
چوتھے صاحبزادے شاہ عبد الغنی تھے جن کا شمار بھی اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ شاہ ولی اللہ کی اولاد میں شاہ اسماعیل شہید کا مقام بھی بہت بلند ہے۔ آپ شاہ ولی اللہ کے چوتھے صاحبزادے, شاہ عبد الغنی کے بیٹے تھے جن کا شمار بھی اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ شاہ صاحب کے کام کو سب سے زیادہ ترقی شاہ اسماعیل نے ہی دی۔ وہ کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں "تقویۃ الایمان" سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
برصغیر میں غلبہ اسلام اور اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش کرنے والی عظیم شخصیت سید احمد بریلوی شہید, شاہ عبد العزیز کے شاگرد اور شاہ اسماعیل شہید کے ساتھی تھے۔ شاہ صاحب نے فک کل نظام کا فتوی دیا جس کا مطلب تمام فرسودہ نظام کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس کی جگہ عادلانہ نظام کا قیام کیا جائے۔
شاہ ولی اللہ کی خدمات
عرض مترجم: "درج ذيل تحریر ہندوستانی تاریخ دان اور صحافی" گریش ماتھور “کے مضمون کا ترجمہ ہے جو1963ء میں ایک انگریزی ہفت روزہ ” پیٹریاٹ“ میں شائع ہوا۔ عام طور پر پاکستان کے غیر دینی اور مذہب بےزار دانش ور حلقوں میں شاہ ولی اللہ کو ایک روایتی عالم دین سمجھا جاتا ہے، جنھوں نے کچھ مذہبی عقائد اور ماضی کے علوم پر کام کیا ہوگا۔ اس کے برعکس شاہ ولی اللہ کا حقیقی تعارف ایک سماجی مفکر کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے [11]۔
جنہوں نے ہندوستانی معاشرے کو زوال پذیر ہوتے دیکھا، تو نہ صرف اِس زوال کے سیاسی، معاشی اور سماجی اسباب کا کھوج لگایا ،بلکہ اِس زوال سے نکلنے کی حکمت ِعملی (موجودہ نظام کو جڑسے اکھاڑ کر نئے نظام کو قائم کرنا) تجویز کی۔ اور اس کے لیے عملی میدان میں کوششیں بھی کیں۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کےمشن کو آپ کی تیار کردہ ولی اللہی جماعت نے آگے بڑھایا ،جِس کا حتمی نتیجہ برعظیم پاک و ہند کی آزادی کی صورت میں نکلا۔ قیام پاکستان کے کم و بیش تہتر 73 سال بعد ہم آج بھی ایک زوال یافتہ اور ناکام سماج کے طور پر کسی معجزے کا انتظار کررہے ہیں۔
ملک کا دانش ور اور نوجوان اپنی تاریخ ، تہذیب اور دینی روایت سے نہ صرف لاعلم ہے،بلکہ فکری انتشار، مرعوبیت اورمایوسی کا شکار بھی ہے۔ ایک غیر مسلم تاریخ دان کا مضمون ترجمہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ شاید اِس کو پڑھ کر ہمارے دانش ور حلقے شاہ ولی اللہ کے اَفکار کی طرف متوجہ ہوں اور اِن اَفکار کی روشنی میں ایسا لائحہ پیش کرسکیں جو ملک کے نوجوان کو مایوسی، انفرادیت اور بے عملی سے نکال کر سماج کو تبدیل کرنے کی ایک فعال قوت بنا دے۔مضمون میں شاہ ولی اللہ کی خدمات کی طرف محض چند اشارے کیے گئے ہیں۔ اِن خدمات کی تفصیلات جاننے کے لیے شاہ ولی اللہ ؒکی اپنی تصنیفات اور ولی اللہی تحریک سے متعلق شائع کردہ کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ترجمے میں قاری کی آسانی اور تفہیم کے لیے چند اضافے کیے گئے ہیں۔“
1963ء کا سال گزرتا جارہا ہے، لیکن دہلی شہر کے باسی (اِس موقع سے)غافل ہیں کہ وہ اُس عظیم شخصیت کی وفات کی دو سو ویں برسی منائیں، جس کا شمار اِس شہر کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ میں پیدا شدہ عظیم ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔
اسلام کی نشأۃ ثانیہ
1763ء میں شاہ ولی اللہ کی وفات ایک ایسے مسلمان مفکر کی موت تھی، جس نے برصغیر میں اسلام کو ایک نئی سمت اور توانائی فراہم کی ۔شاہ ولی اللہ نے ہندوستان میں ایک ایسی علمی وفکری تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ ؒکےفرزند اور شاگرد شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں برطانوی سامراج کو درپیش اولین عوامی مزاحمت کی شکل میں سامنے آئی۔
سرسید احمد خان اور مولانا ابوالکلام جیسی متضاد سیاسی اور مذہبی نظریات رکھنے والی شخصیات اپنے فکر و عمل میں شاہ ولی اللہ سے متأثرتھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو سو سال میں برصغیر کے مسلمانوں میں شاید ہی کوئی ایسی تحریک ابھری ہوجس پر شاہ ولی اللہ کے نظریات اور تعلیمات کا اثر نہ ہوا ہو۔
یورپ میں سائنسی اشتراکیت کے نظریات کی تشکیل سے کم و بیش ڈیرھ سو سال پہلے، شاہ ولی اللہ اپنی بصیرت کی روشنی میں یہ نتیجہ نکال چکے تھے کہ انسانی سماجوں کو درپیش بحرانوں کا اصل سبب معاشی مسائل ہیں۔ اِس بحران کا حل آپ نے ایک متوازن معاشی نظام اور فلاحی ریاست کی شکل میں پیش کیا جس کی بنیاد بادشاہت کے خاتمے(عوامی جمہوریت کے قیام) اور شاہانہ عیش و عشرت اور دوسروں کی محنت پر پلنے والے طبقات کے خاتمے پر مبنی تھی۔( آپ نےمعروف مغربی مفکرین بہ شمول کارل مارکس سے کم و بیش سو سال پہلے روٹی،کپڑا، مکان ،نکاح کرنے کی استطاعت اور بیوی بچوں کی پرورش کے لیے روزگار کو ہر انسان کا بنیادی حق قرار دیا اور کام کے اوقات محدود کرنے کا نظریہ پیش کیا تاکہ مزدور ،کسان اور محنت کش طبقات معاشی جدوجہد کے ساتھ اپنی اخلاقی اور ذہنی ترقی کی طرف بھی متوجہ ہوسکیں، نہ یہ کہ وہ گدھوں او بیلو ں کی طرح ساری زندگی جسمانی محنت ہی کرتے رہیں۔)
آپ نے اپنی ساری زندگی ایک ایسے مشن کے نام کردی جس کا ہدف موجودہ نظام کی تبدیلی اور سماجی تحفظ پر مبنی نئے نظام کی تشکیل تھا۔ لازم تھا کہ ایسے عظیم مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے والے ریفارمر (اصلاح کرنے والا) کو طاقتور طبقات کی طرف سے مزاحمت اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑے۔ آپ اور آپ کے بیٹےشاہ عبد القاد پر قاتلانہ حملے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے بیٹے کو اپنے خاندان سمیت دہلی کو خیرباد کہنا پڑا۔ آپ کے نواسے شاہ اسماعیل(شہیدؒ) اِنھیں مقاصد کے حصول کے لیے لڑتے ہوئے شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔
اپنے نظریات کےلیےتکالیف سہنے اور قربانی دینے کا سبق شاہ ولی اللہؒ نے اپنے والد شاہ عبدالرحیم سے سیکھا تھا جو (مغل بادشاہ) اورنگزیب عالمگیر کے زمانے کے اہم اور مشہور عالم تھے۔بادشاہ نے دور کے تقاضوں کے مطابق شریعت کے احکام مرتب کرنے کے لیے علما کی ایک وسیع جماعت تشکیل دی تھی۔ ان احکامات کے مجموعے کو فتاویٰ عالمگیری کا نام دیا گیا۔ شاہ عبد الرحیم نےخطرناک نتائج بھگتنے کے امکانات کے باوجود دربار میں ملازمت اور پُرکشش مراعات کی پیش کش کو کبھی قبول نہ کیا۔
اُن دنوں اکبرِ اعظم کی اسلام کو مقامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی کوششوں کو شدت پسندی سے دبانے کا سلسلہ جاری تھا۔دین کی تشریح کا کام درباری علما کے گھر کی لونڈی بنا ہوا تھا (جسے وہ اپنی خواہشات کے مطابق بدلنے میں مصروف تھے)۔ شاہ عبدالرحیم اِس عمل کا حصہ بننے کو تیار نہ تھے۔اورنگزیب کے دور حکومت میں کیے جانے والے اِن قدامت پسند اقدامات کے نتائج شاہ ولی اللہ کے دور میں نکلنے لگے۔(جدید علمی تحقیق اورنگزیب پر مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کے الزامات کو انگریز دور میں غلط تراجم اور تحاریر کے زریعے اورنگزیب اور دیگر مسلمان حکمرانوں کے کردار کو مسخ کرنے کی تحریک کا حصہ ثابت کررہی ہے۔
قرآن حکیم کے اولین مترجم
شاہ ولی اللہ نے محسوس کیا کہ لوگوں نے قرآن سے رہنمائی اور بصیرت لینی چھوڑ دی ہے۔ قرآن کو حِفظ اور تلاوت تو کیا جاتا ہے لیکن اِس کے معانی سمجھنے کی کوشش کم ہی کی جاتی ہے۔ چناں چہ شاہ ولی اللہ نے قرآن کو برصغیر کے اہلِ علم کی زبان یعنی فارسی میں ترجمہ کیا۔قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ قرآن کا کسی بھی ہندوستانی زبان میں پہلا ترجمہ تھا، جس طرح بھگوت گیتا کا ترجمہ اور تبصرہ تِلک اور گاندھی نے کیا تھا ، اسی طرح قرآن کا یہ ترجمہ بھی گہرے سماجی مقاصد لیے ہوئے تھا۔
اُس زمانے میں قرآن کا ترجمہ کرنے کو قرآن کی بے حرمتی خیال کیا جارہا تھا اور اِس عمل پر شاہ ولی اللہ کو شدیدمخالفت اور تنقید کا سامنا تھا۔ ایک موقع پر قدامت پرست علما کے بھڑکائے ہوئے ہجوم نے فتح پوری مسجد سے نکلتے ہوئے آپ کو گھیر لیا اور آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے ایک بیٹے (شاہ رفیع الدین) نے قرآن کواہل ِدہلی کی زبان یعنی ہندی/اردو میں ترجمہ کیا۔ آپ کے ایک اور بیٹے (شاہ عبد القادرؒ )نے قرآن کی اردو زبان میں تفسیر بھی لکھی۔
علم و حکمت کی تلاش میں بے قرار طبیعت، شاہ ولی اللہ کو حجاز کے سفر پر لے گئی،جہاں آپ نے الجیریا، ترکی اور دیگر مسلم ممالک کے سماجی حالات کا مطالعہ کیا۔ وطن واپسی پر آپ رح نے اپنے والد کی قائم کردہ درس گاہ میں درس و تدریس کے کام کا آغاز کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ آپؒ نے اپنے نظریات کی ترویج کے لیے مختلف مراکز بھی قائم کیے۔آپؒ نے (دینیات، سماج ،تاریخ سمیت) مختلف موضوعات پر تقریباً ایک سو پانچ (105) کتابیں تصنیف کیں۔ شاو ولی اللہ پر دین میں قدامت پرستی کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔
لیکن( حقیقت یہ ہے کہ) جب وہ قرآن کی طرف رجوع اور اسلامی روایت سے رہنمائی کی بات کرتے ہیں، تو اِس عمل سے ان کا مقصد اِجتہاد کی اہمیت واضح کرنا ہوتا ہے ۔اِجتہاد ، دین کی متواتر تشریح کا وہ عمل ہے جِس کے ذریعے اسلام ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شاہ ولی اللہؒ سمجھتے تھے کہ اسلام کی آفاقیت کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے ایک مخصوص علاقے کی تعبیر اور پیرہن میں قید کرنے سے بچا یا جائے۔اس تعبیر کو شاہ ولی اللہؒ کے پیروکار اہل ِعلم عرب قومیت (یا عرب رسم و رواج) کے نام سے بیان کرتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے اسلامی تعلیمات کو اندھے اعتقادات اور توہم پرستی سے آزاد کرواتے ہوئے دین اسلام کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا۔ آپؒ نے اسلامی احکامات کے پیچھے موجود حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے اسلام کو عقلی اور منطقی دلائل سے ثابت کیا۔آپؒ نے اس بات پر زور دیا کہ تمام مذاہب کی بنیاد اور مقاصد مشترک ہیں (فرق صرف اِن مقاصد کواپنے اپنے حالات اور زمانے کے مطابق حاصل کرنے کے طریقہ کار میں ہے)۔ آپ نے مسلمانوں کے تمام فرقوں کو یکجا کرنے اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوششیں بھی کیں۔
مرہٹوں کی مخالفت کرتے ہوئے آپ نے مسلم دیہات کی طرح ہندؤں کے دیہات کی تباہی کی بھی اِسی شَدّومَد سے مذمت کی۔ اِسی طرح نادر شاہ کے حملےاور اس کے نتیجے میں دہلی کے ہندو اور مسلم شہریوں کےقتل عام پر بھی آپؒ نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا ۔(اِن واقعات سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ رح کی طرف سے کسی حکمران کی مخالفت یا حمایت مذہبی بنیادوں کے بجائے خالصتا ًانسانی بنیادوں اور زمینی حقائق پرمبنی تھی۔)
شاہ ولی اللہ کی کوششوں کا مقصد نہ تو مغلیہ سلطنت کی بحالی تھا اور نہ کسی نئی مسلم بادشاہت کا قیام تھا۔ اس کے برعکس آپ کی جدوجہد کا محور پرانے اور شکست خوردہ سیاسی نظام کی جگہ ایک نئے نظام کی تشکیل تھا۔شاہ ولی اللہؒ انتشار پسند(انارکسٹ: ایسا مفکر جوسماج میں ریاستی ڈھانچے کو غلط سمجھے اور ریاستی نظام کے بغیر سماج کا خواب دیکھے) نہیں تھے۔ لیکن آپؒ سمجھتے تھے کہ اگر سماج کو منظم انداز میں چلانا ہے ، تو اس کے لیے ایسی قیادت کی موجودگی ضروری ہے جو باصلاحیت ہو اور اسے (جمہوری بنیادوں پر) معاشرے کی تائید بھی حاصل ہو۔
آپ نے بیان کیا کہ انسان جانوروں سے اِسی بنیاد پر امتیاز رکھتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل ایک شائستہ اورمہذب انداز میں کرتا ہے اور یہ سارا عمل انسانوں کے درمیان باہمی تعاون کی بنیاد پر تکمیل پذیر ہوتا ہے۔ (معاشی معاملات میں) آپ رح نے نظریہ پیش کیا کہ پیدائش ِدولت کی بنیاد محنت ہےاور جو شحض پیدائشِ دولت کے اِس عمل میں حصہ نہیں لیتا یا سماجی بھلائی کا کوئی اور کام سرانجام نہیں دیتا، اُسے ملکی وسائل سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
آپ نےکسانوں اور دستکاروں کے حقوق کی فراہمی پر زور دیا۔ آپ رح تجارت پر غیر ضروری پابندیوں اور ٹیکسوں کے قائل نہیں تھے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ تجارتی بدعنوانیوں پر سخت گرفت کرنے پر بھی یقین رکھتے تھے۔ اِنہیں وجوہات کی وجہ سے جاگیرداروں نے اُنہیں اپنا دشمن خیال کیاجبکہ عام عوام نے آپ رح کو اپنا علمی اور فکری رہنما بنایا۔
سامراجی نوآبادیاتی نظام کی مزاحمت
شاہ ولی اللہ کے اَفکار سے متأثر ہوکر جو تحریک جاگیرداری نظام کے خلاف شروع ہوئی تھی ، اُس کا رخ انگریز سامراج کے خلاف موڑنا پڑا جو کہ دہلی سمیت پورے ملک پر قابض ہورہا تھا۔(ان حالات میں دور کا تقاضا یہی تھا کہ نظام کی تبدیلی کی تحریک کو ملک کی آزادی کی تحریک میں بدل دیا جائے)۔
آپ کے فرزند شاہ عبد العزیز نے (1802ء میں) برطانوی حملہ آور طاقت کے خلاف جہاد کا فتویٰ (جسے فتویٰ دارالحرب کہا جاتا ہے) جاری کیا (تاکہ عوام میں ملک کی غلامی کاشعور اور اسے آزاد کروانے کا جذبہ پیدا ہو)۔
شاہ ولی اللہ (اور ان کی جماعت کی پیدا کردہ) تحریک نے انگریز کے خلاف پہلی مُسلح جِدوجہد کو مُنظم کیا (جِس کا ایک اظہار تحریکِ ریشمی رومال کی صورت میں سامنے آیا) لیکن اَگلے دور (پہلی جنگِ عظیم میں سلطنت ِعثمانیہ کے خاتمے کے بعد) میں جب گاندھی نے عدم تشدد کی بنیاد پر جِدوجہد کا نظریہ پیش کیا،تو اِسی ولی اللہی تحریک نے سب سے پہلےآزادی اور سماجی تبدیلی کے لیے عدم تشدد کے اِس نظریے کی تائید کی۔ ہندوستان میں انگریز اقتدار کے خلاف سازش کا پہلا مقدمہ اِنہیں رہنماؤں (شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒ کے ساتھیوں)کے خلاف بنا، جس کے نتیجے میں اُنھیں کالا پانی کی سزا دی گئی۔
اِسی طرح(1915ء میں) آزاد ہندوستان کی پہلی عبوری حکومت بھی اِسی جماعت کے ارکان نے کابل میں قائم کی۔ (مولانا عبید اللہ سندھی ؒاِس حکومت کے وزیر داخلہ اورمولانا برکت اللہؒ بھوپالی وزیراعظم مقرر ہوئے۔)ولی اللہی تحریک ہندوستان کی پہلی اجتماعیت تھی، جس نےتمام مذاہب (اور قومیتوں) کے اتحاد کی بات بہ طور اصول کے کی۔ولی اللہی تحریک نے سید احمد خان اور کانگریس کی مذہبی تقسیم پر مبنی سوچ کی بھی مخالفت کی جِس کے حتمی نتیجے کے طور پر ہندوستان مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔
اگر معاشر ے میں اِن حقائق کا تعارف بہت محدود ہے، تو اِس کی بنیادی وجہ ولی اللہی تحریک کے قائدین کا اپنے امور کو خفیہ رکھنا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعدانگریز نے جس بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کیا، اِخفا (معاملات کو رازداری سے سَرانجام دینا) کی یہ روایت اُس کا لازمی تقاضا تھا۔ (اِسی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے 1857ء کی جنگِ آزادی میں بہ ظاہر ناکامی کے بعد دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں لایا گیا اور انگریز کے خلاف جِدوجہد پر علمی چادر ڈال دی گئی)۔ آگے چل کر ہندومذہب کے ماتحت چلنے والی فرقہ وارانہ تحریکیں بھی اِس رازداری کی ایک وَجہ تھیں۔
(رازداری کی ایک اور وَجہ ولی اللہی علما کا تقویٰ یعنی صرف رَضائے الٰہی کے لیے جدوجہد کرنا اور ریاکاری اور نمود و نمائش سے بچنے کی تدبیر کرتے رہنا بھی تھی ۔)1930ء کی دہائی میں (مولانا)عبیداللہ سندھیؒ نے ولی اللہی علوم واَفکار کو دارالعلوم دیو بند جیسے تعلیمی اداروں کی چار دیواری سے نکال کر عوام میں مقبول بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا (لیکن برصغیر کی تقسیم کے بعد اِن کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ قیام پاکستان کے بعد شاہ سعید احمد رائے پوریؒ نے معاشرے میں ولی اللہی علوم کے فروغ کے لیے دل وجان سے کوشش کی۔) مختصراً یہ کہ ہماری لاعلمی اپنی جگہ ، لیکن اِس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ آزادی کی قومی تحریک پر رہنمائی اور توانائی لینے کے حوالے سے ولی اللہی اَفکار و اعمال کے گہرے اثرات نَقش ہیں[12]۔
وفات
20 اگست 1762ء بمطابق 1174ھ کو 59 سال کی عمر میں دہلی میں وفات پائی، دہلی کے قبرستان مہندیان (عقب ارون اسپتال دہلی گیٹ) تدفین ہوئی۔
حوالہ جات
- ↑ محمد انور کاظمی (2005)۔ فلسفہ ولی اللہی: شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکار و نظریات۔ اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اسلامی۔ ص 45–47
- ↑ محمد اسلم رضا (2002)۔ تاریخ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کا مقام۔ لاہور: ادارہ علوم اسلامی۔ ص 23
- ↑ رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ، ج 1، ص36
- ↑ شاہ ولی اللہ دہلوی کا تعارف- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2025ء
- ↑ محمد انور کاظمی (2005)۔ شاہ ولی اللہ کا فلسفہ اور تحریک۔ اسلام آباد: ادارہ تحقیقات اسلامی۔ ص 45–50
- ↑ جمیل احمد (2003)۔ شاہ ولی اللہ کی تفسیری خدمات۔ لاہور: قرآنی علوم مرکز۔ ص 23
- ↑ عبدالشکور فاروقی مجددی (1998)۔ ازالۃ الخفاء: اردو ترجمہ۔ کراچی: قدیمی کتب خانہ
- ↑ تقی الدین رحمانی (2007)۔ "فلسفہ ولی اللہی اور اس کی بنیاد"۔ اسلامی فکر۔ ج 15 شمارہ 3: 12–15
- ↑ غلام محی الدین صدیقی (2004)۔ تحریک ولی اللہی: برصغیر میں اسلامی بیداری۔ لاہور: ادارہ احیاء علوم اسلامی۔ ص 29–31
- ↑ محمد یاسر نقوی (2010)۔ شاہ ولی اللہ اور برصغیر میں اسلامی بیداری۔ اسلام آباد: اشاعت اسلامی۔ ص 48–50
- ↑ مصنف: گریش ماتھور، ترجمہ: محمد عثمان
- ↑ محمد عثمان، شاہ ولی اللہ کی خدمات، شاہ ولی اللہ کی خدمات کا مختصر تعارف- شائع شدہ از: 4 جون 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اکتوبر 2025ء