مندرجات کا رخ کریں

سید علی نقوی

ویکی‌وحدت سے
سید علی نقوی
دوسرے نامسید العلماء سید علی نقی نقوی نجفی معروف نقن
ذاتی معلومات
یوم پیدائش26رجب
پیدائش کی جگہلکھنؤ، ہندوستان
وفات1988 ء، 1366 ش، 1408 ق
یوم وفات18 مئی
وفات کی جگہلکھنؤ ہندوستان
اساتذہسید ابو الحسن رضوی (پٹنہ)، مولانا سید فرحت حسین (پٹنہ)، مولانا سید غلام مصطفیٰ جوہرؔ(پٹنہ)، مولانا سید مختار احمد (پٹنہ)، مولانا شیخ کاظم حسین (بنارس)، مولانا علی سجاد بھیکپوری و آیت اللہ سید ظفر الحسن رضوی (بنارس)۔
مذہباسلام، شیعہ

آیت اللہ العظمیٰ سید علی نقی نقوی نقن سید العلماء سید علی نقی نقوی نجفی معروف نقن برصغیر کے ایک معروف شیعہ عالم دین تھے جنھوں نے 26 رجب المرجب سنہ 1323ھ کو ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار اور بڑے بھائی سے حاصل کی پھر مزید علم حاصل کرنے کے لیے نجف تشریف لے گئے جہاں اپنی زندگی کا ایک نمایاں باب رقم کیا اور پانچ سال کی مدت میں اس دور کے بزرگ علما سے کسب فیض کے بعد بھارت واپس آ گئے، جہاں علوم اہل بیت اطہارعلیہم السلام کی تبلیغ و ترویج میں مشغول ہو گئے۔ اس دوران آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں ـ آپ نے اپنی زندگی میں مختلف عناوین پر جو کتابیں یا رسالے تحریر کیے ان کی تعداد 411 کے قریب ہے جن میں سے کچھ عناوین کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔

زندگی نامہ

سید العلماء سید علی نقی نقوی نجفی معروف نقن صاحب برصغیر پاک و ہند کے ایک معروف عالم دین تھے جنھوں نے 26 رجب المرجب 1323 کو ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی. اپنے خاندان کے ساتھ عراق کا پہلا سفر ۱۳۲۷ ھ میں ہوا۔ انہوں نے نجف ، عراق میں سات سال کی عمر میں "بسم الله" سیکھا اور اپنی ابتدائی دینی تعلیم سید محمد علی شاہ شاہ عبدالزمانی سے حاصل کی۔ اپنے والد سید ابوالحسن کا اجتہاد حاصل کرنے کے بعد ، جبکہ سید علی 9 سال کے تھے ، وہ اپنے خاندان کے ساتھ لکھنؤ روانہ ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار اور بڑے بھائی کے پاس حاصل کی اور پھر مزیدعلم حاصل کرنے کیلئے نجف اشرف تشریف لے گئے جہاں اپنی زندگی کا ایک نمایاں باب رقم کیا اور پانچ سال کی مدت میں اس دور کے بزرگ علماء سے کسب فیض کے بعد بھارت واپس آگئے . جہاں علوم اہل بیت اطہار(ع) کی تبلیغ و ترویج میں مشغول رہے . اس عرصے میں بہت سی کتابیں تصانیف کیں. آپ نے اپنی زندگی میں مختلف عناوین پر جو کتابیں یا رسالے تحریر کئے انکی تعداد 141 عدد کے قریب ہے [1]۔

پیدائش

26 رجب 1323 ھ مطابق 1905ء لکھنؤ، بہارت کو ممتاز العلماء ابو الحسن منن صاحب کے ہاں پیدا ہوئے کہ جوشمس العلماء سید ابراہیم بن جنت مآب سید تقی بن سید العلماء سید حسین علیین مکان ابن غفران مآب دلدار علی کے فرزند تھے.

تعلیم و تربیت

ابھی آپ کی عمر ۳. ۴ سال کے درمیان تھی کہ آپ کے والد ماجد ۱۳۲۷ھ میں مع متعلقین تکمیل علوم کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے. آپ کی عمر ۹/برس کی تھی جب ۱۳۲۳ھ میں آپ کے والد گرامی ہندوستان واپس آئے. اس وقت تک آپ کی صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں ختم ہوچکی تھیں. لکھنؤ واپس آ کر آپ کے والد صاحب طاب ثراہ نے آپ کی تعلیم اپنے ذمے رکھی. والد کی علالت کے زمانے میں آپ کے برادر معظم مولانا سید محمد عرف میرن صاحب آپ کو پڑھاتے تھے.

علمی صلاحیت

آپ بے پناہ علمی صلاحیتوں کے مالک تھے . آپ ایک ہی وقت میں دو مدرسوں:مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس میں پڑھتے تھے اور آپ نے مدرسہ ناظمیہ کے "فاضل" اور سلطان المدارس کے "سند الافاضل" کا ایک ہی ساتھ امتحان دیا. پھر دوسرے سال دونوں درجوں کے ضمیموں کا اور تیسرے سال "ممتاز الافاضل" اور "صدر الافاضل" کاایک ساتھ ہی امتحان دیا.

طالب علمی میں ہی سر فراز لکھنؤ،الواعظ لکھنؤ اور شیعہ لاہور میں آپ کے علمی مضامین شائع ہونے لگے تھے. کتابیں بھی عربی اور اردو میں اسی زمانے میں شائع ہوئیں. تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا. کچھ عرصے تک بحثیت مدرس ناظمیہ میں بھی معقولات کی تدریس کی اس دور کے شاگردوں میں مولانا محمد بشیر صاحب فاتح ٹیکسلا. علامہ سید مجتبی حسن صاحب کاموں پوری اور جناب حیات اللہ انصاری شامل تھے.

عربی ادب میں آپ کی مہارت اور فی البدیہ قصائد ومراثی لکھنے کے اسی دور میں بہت سے مظاہرے ہوئے اور عربی شعر وادب میں آپ کے اقتدار کو شام، مصر اور عراق کے علماء نے قبول کیا. اسی مہارت کو قبول کرتے ہوئے علامہ امینی نے آپ کے قصائد کے مجموعے میں سے حضرت ابو طالب کی شان میں آپ کے قصیدے کو (الغدیر) میں شامل کیا [2]۔ اور آغائے بزرگ تہرانی طاب ثراہ نے شیخ طوسی کے حالات کو آپ ہی کے لکھے ہوئے مرثیے پر ختم کیا ہے .

اسی طرح آپ کی مزید علمی صلاحیتوں کا مشاہدہ عراق میں حصول علم کے ان ایام کی تالیفات سے کیا جا سکتا ہے جہاں آپ نے سب سے پہلے "وہابیت" کے خلاف ایک کتاب تصنیف کی جو بعد میں " کشف النقاب عن عقائد ابن عبدالوهاب " [3]۔ کے نام سے شائع ہوئی. عراق وایران کے مشہور اہل علم نے اس کتاب کو ایک شاہکار قرار دیا. دوسری کتاب " اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر" [4]۔ حضرت امام حسین کی عزاداری کے جواز میں اور تیسری کتاب " السیف الماضی علی عقائد الاباضی " [5]۔ کے نام سے چار سو صفحات پر مشتمل کتاب خوارج کے رد میں لکھی.

اساتذہ

  • لکھنو میں جن حضرات سے آپ نے علم حاصل کیا :
  • ان کے والد بزرگوارممتاز العلماء ابو الحسن منن صاحب
  • مولانا سید محمد عرف میرن صاحب
  • نجم الملۃ
  • جناب باقر العلوم

سفر عراق اور حصول علم

سید العلماء اپنی زندگی میں دو مرتبہ عراق تشریف لے گئے . پہلی مرتبہ اپنے والد محترم کے ساتھ گئے اور دوسری مرتبہ ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۷ء میں تکمیل علم کے لئے عراق تشریف لے گئے. آپ نے عراق میں صرف پانچ سال کا عرصہ گزارا. ان پانچ برسوں میں آپ نے فقہ واصول میں وہ ملکہ پیدا کیا کہ اس دور میں آپ کی علمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس زمانے کے ۳/مجتہدین یعنی "آیۃ اللہ اصفہانی"، "آیۃ اللہ نائینی" اور "آیۃ اللہ سید ضیاء الدین عراقی" نے آپ کو واضح الفاظ میں اجتہاد کے اجازے دے کر آپ کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کیا. علم کلام اور دفاع مذہب میں آپ کی مہارت کا لوہا "سید محسن امین عاملی"، "شیخ جواد بلاغی"، "محمد حسین کاشف الغطاء"' اور " سید عبد الحسین شرف الدین موسوی" نے مان لیا.

اجازۂ اجتہاد

درج ذیل شخصیات نے آپ کو اجازۂ اجتہاد سے نوازا:

  • آیۃ اللہ اصفہانی
  • آیۃ اللہ نائینی
  • آیۃ اللہ سید ضیاء الدین عراقی
  • آیت اللہ شیخ عبد الکر یم یزدی حائریؒ (مؤسس حوزہ علمیہ قم)
  • آیت اللہ محمد حسین اصفہانیؒ
  • آیت اللہ ابراہیم معروف بہ میراز آقائے شیرازیؒ
  • آیت شیخ ہادی کاشف الغطاءؒ
  • آیت اللہ میرزا علی یزدانیؒ
  • آیت اللہ شیخ محمدحسین تہرانیؒ
  • آیت اللہ شیخ کاظم شیرازیؒ
  • آیت اللہ میرزا ابو الحسن مشکینیؒ
  • آیت اللہ سید سبط حسن مجتہدؒ

علمی خدمات

آپ بے پناہ علمی صلاحیتوں کے مالک تھے ـ ایک ہی وقت میں دو مدرسوں (مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس) میں پڑھتے تھے اور آپ نے مدرسہ ناظمیہ کے فاضل اور سلطان المدارس کے سند الافاضل کا ایک ہی ساتھ امتحان دیا۔ پھر دوسرے سال دونوں درجوں کے ضمیموں کا اور تیسرے سال ممتاز الافاضل اور صدر الافاضل کا ایک ساتھ امتحان دیا ـ طالب علمی میں ہی رسالہ سر فراز لکھنؤ، الواعظ لکھنؤ اور شیعہ لاہور میں آپ کے علمی مضامین شائع ہونے لگے تھے ـ

3 یا 4 کتابیں بھی عربی اور اردو میں اسی زمانے میں شائع ہوئیں ـ تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا ،ـ کچھ عرصے تک بحثیت مدرس، مدرسہ ناظمیہ میں بھی معقولات کی تدریس کی ،ـ آپ کے اس دور کے شاگردوں میں مولانا محمد بشیر (فاتح ٹیکسلا)، علامہ سید مجتبی حسن کامون پوری اورحیات اللہ انصاری قابل ذکر ہیں ـ

عربی ادب میں آپ کی مہارت اور فی البدیہہ قصائد ومراثی لکھنے کے اسی دور میں بہت سے مظاہرے ہوئے اور عربی شعر و ادب میں آپ کے اقتدار کو شام، مصر اور عراق کے علما نے قبول کیا ـ اسی مہارت کو قبول کرتے ہوئے علامہ عبد الحسین امینی نے آپ کے قصائد کے مجموعے میں سے حضرت ابو طالب کی شان میں آپ کے قصیدے کو اپنی عظیم شاہکار کتاب (الغدیر) کی زینت قرار دیا [6]۔

نیز آقا بزرگ تہرانی نے شیخ طوسی کے حالات کو آپ ہی کے لکھے ہوئے مرثیے پر ختم کیا ـ اسی طرح آپ کی مزید علمی صلاحیتوں کا مشاہدہ عراق میں حصول علم کے ابتدائی ایام کی تالیفات سے کیا جا سکتا ہے جہاں آپ نے سب سے پہلے عربی میں وہابیت کے خلاف ایک کتاب تصنیف کی جو کشف النقاب عن عقائد ابن عبد الوهاب کے نام سے شائع ہوئی [7]۔

عراق وایران کے مشہور اہل علم نے اس کتاب کو ایک شاہکار قرار دیا ـ دوسری کتاب اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر امام حسین کی عزاداری کے جواز میں لکھی

نیز تیسری کتاب چار سو صفحات پر مشتمل السیف الماضی علی عقائد الاباضی خوارج کے عقائد کی رد میں لکھی [8]۔

خطابت

سید العلماء کی خطابت کا ایک خاص رنگ تھا جو عبارت آرائی وسست نکتہ آفرینی کی بجائے علم اور تحقیق پر مبنی تھا ـ ایک گھنٹہ کی تقریر میں حقائق کے بے شمار دروازے وا ہوجاتے تھے ـ آپ کی تقریر اور تحریر میں بہت کم فرق ہوتا تھا ـ دوسری خاص بات آپ کی تقریر میں یہ تھی کہ ہرمذہب وملت کا ماننے والا اسے اطمینان قلب کے ساتھ سن سکتا تھا اور فیض یاب ہو سکتا تھا ـ کسی جملہ سے کسی کی دل آزاری کا خطر ہ نہیں تھا ـ

تدریس

لکھنؤ یونیورسٹی : عراق سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد سنہ 1932ء میں آپ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے وابستہ ہو گئے اور ستائیس سال تک طلاب کو فیض پہنچاتے رہےـ علی گڑھ یونیورسٹی : سنہ 1959ء میں علی گڑھ یونیورسٹی نے آپ کو شیعہ دینیات کے شعبے میں بحیثیت ریڈر مدعو کیا اور آپ علی گڑھ منتقل ہو گئے ـ پھر آپ شیعہ دینیات کے پروفیسر بنائے گئے ـ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ نے مستقل طور پر علی گڑھ میں ہی سکونت اختیار کرلی ـ

سنہ 1977ء میں لکھنؤ کے کچھ شرپسندوں نے آپ کے لکھنؤ کے مکان میں آگ لگادی ،ـ جس میں ہزاروں قیمتی کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں ـ اسی میں آپ کی عربی تصانیف کے غیر مطبوعہ مسودات بھی خاکستر ہو گئے جس کا آپ کو آخر عمر تک صدمہ رہا ـ آپ کی علمی زندگی کو تین حصوں : خطابت، شاگرد پروری، تحریر میں تقسیم کیا جا سکتا ہے[9]۔

شاگرد پروری

لکھنویونیورسٹی:عراق سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ۱۹۳۲ء میں آپ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے وابستہ ہوگئے اور "ستائیس برس" تک طلباء کو فیض پہنچاتے رہے. علی گڑھ یونیورسٹی :۱۹۵۹ء میں علی گڑھ یونیورسٹی نے آپ کو شیعہ دینیات کے شعبے میں بحیثیت ریڈر مدعو کیا اور آپ علی گڑھ منتقل ہوگئے. پھرآپ شیعہ دینیات کے پروفیسر بنائے گئے. ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے علی گڑھ ہی میں سکونت اختیار کرلی. ۱۹۷۷ء میں لکھنؤ کے کچھ شرپسندوں نے آپ کے لکھنؤ کے مکان میں آگ لگادی. جس میں ہزاروں قیمتی کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں. اس میں آپ کے عربی تصانیف کے غیر مطبوعہ مسودات بھی تلف ہوگئے جن کا انھیں آخر عمر تک صدمہ رہا.

تحریری خدمات

آپ نے جہاں ترویج دین کیلئے خطابت کو اختیار کیا وہاں اس کے ساتھ ساتھ اپنی علمی صلاحیتوں کو قرطاس و قلم کے حوالے بھی کیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ آپ اپنی زندگی میں تبلیغ دین کی نشر و اشاعت کیلئے خطابت کی نسبت شعبہ تدریس اور تحریر کو زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ آپ کی کتب کی طویل فہرست کو دیکھ کر لگایا سکتا ہے.

آپ نے اپنی مصروفیات کے باوجود خاص طور پر اردو زبان میں نہایت اہم کتب، رسائل اور مضامین کا ذخیرہ آنے والی نسلوں کیلئے صدقۂ جاریہ کے عنوان سے چھوڑا اور اس کے علاوہ عربی زبان میں بھی [10]۔ عمدہ کتابیں تصنیف کیں. آپ کے قلم سے تحریر ہونے والی کتب، رسائل اور مضامین کی کل تعداد فہرست کتابچہ سید العلماء کے مطابق 141 بیان ہوئی ہے. آپ نے اپنی مصروفیات کے باوجود خاص طور پر اردو زبان میں نہایت اہم کتب، رسائل اور مضامین کا ذخیرہ آنے والی نسلوں کیلئے صدقۂ جاریہ کے عنوان سے چھوڑا اور اس کے علاوہ عربی زبان میں بھی خورشید خاور تذکرہ علماء ہند و پاک ص263.

اردو تحریریں

الف

علامہ سید علی نقی نقن اعلی اللہ مقامہ کی "اردو" کتب کی فہرست :

  • آثار قدرت
  • اصول دین اور قرآن
  • اسلام کا پیغام پس افتادہ اقوام کے نام
  • امامت ائمہ اثنا عشر اور قرآن
  • اسلام دین عمل ہے۔
  • اسلامی کلچر کیا ہے ؟
  • اسلامی نظریہ حکومت
  • اسلامی تمدن
  • اسلام اور انسانیت
  • اسلام کی حکیمانہ زندگی
  • اسلامی عقائد
  • اصول اور ارکان دین
  • الدین القیم
  • اسوہ حسینی ؑ
  • امام حسین ؑ کی شہادت اور دستور اسلامی کی حفاظت
  • اسیری اہل حرم
  • اثبات پردہ
  • اشک ماتم
  • اتحاد بین المسلمین(درمندوں کی آوازیں)
  • ابو الائمہ کے تعلیمات
  • اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟
  • استقامت علی الحق کا معیاری نمونہ
  • التوائے حج پر شرعی نقطہ نظر سے بحث
  • اسلام کی فکر حاضر میں موزونیت
  • امام رضاؑ
  • امام منتظرؑ
  • امامت
  • انصار حسینؑ
  • ایمان بالغیب
  • اسلام کا نظریہ حکومت
  • اسلامی قانون وراثت

ب

  • بنی امیہ کی عداوت اسلام کی مختصر تاریخ
  • بین الاقوامی شہید اعظم حسین بن علیؑ
پ
  • پانچویں امام ؑ
  • پیغام حسین ؑبہ عالم انسانیت(فارسی)
ت
  • توحید
  • تقیہ
  • تاریخ شیعہ کا مختصر خاکہ
  • تاریخ تدوین حدیث
  • تحقیق اذان
  • تحفۃ العوام مطابق فتوائے سید العلماء
  • تراجم قرآن پاک بزبان اردو(سولہ حصے)
  • ترجمہ سید علی نقی بقلمہ(ھماں ص۱۱۷و۳۹۳)
  • تذکرہ حفاظ شیعہ (دو جلدیں)
  • تاجدار کعبہ
  • تاریخ اسلام میں واقعہ کربلا کی اہمیت
  • تاریخ اسلام (چار جلدوں میں)
  • تعزیہ داری کی مخالفت کا اصل راز
  • تحریف قرآن کی حقیقت
  • تجارت اور اسلام
  • تفسیر قرآن فصل الخطاب، (سات جلدوں میں)
  • تقریرات بحث آیۃ اللہ نائینی فی الاصول
ث
  • ثنائے پروردگار (از کلام امیر المومنینؑ)
ج
  • جبر واختیار
  • جہاد
  • جناب رضوان مآب
  • جناب جنت مآب
  • جناب غفران مآب
  • جواب رسالۃ الی صاحب ھذہ المجموعۃ من صدیقہ العلامۃ الحجۃ السید علی نقی النقوی اللکھنوی(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۸۹)
  • جہاد مختار
ح
  • حیات قومی
  • حقیقت اسلام
  • حقیقت صبر
  • حجج وبینات
  • حسن مجتبی ؑ
  • حسن عسکریؑ
  • حج
  • حجج ومعاذیر (عربی واردو)
  • حدیث حوض
  • حیات جاوداں
  • حسین ؑ اور قرآن
  • حسین ؑ اور اسلام
  • حضرت علی ؑ کی شخصیت علم واعتقاد کی منزل میں
  • حسینؑ حسین ؑ ایک تعارف
  • حسین ؑ اور ان کا پیغام
  • حسینی اقدام کا پہلا قدم
  • حسین کا پیغام عالم انسانیت کے نام
خ
  • خدا پرستی اور مادیت کی جنگ
  • ختم نبوت
  • خمس
  • خدا کا ثبوت
  • خدااور مذہب
  • خدا کی معرفت
  • خلافت اور امامت (چھ حصے)
  • خطبات کربلا
  • خطبات سید العلماءؒ
  • خلافت یزید کے متعلق آزادرائیں
  • حضرت خدیجۃ الکبری
د
  • دو اسلام پر ایک نظر
  • دسویں امام ؑ
  • دنیا آخر ت کی کھیتی ہے
  • دیں پناہ است حسینؑ
  • دعای سمات
ذ
  • ذات وصفات
  • ذاکری کی کتاب(چار حصے)
  • ذوالجناح
ر
  • رہنمائے ذاکری (چار حصے)
  • رسول خداﷺ
  • رسول ﷺکا مرتبہ فصاحت اور کلام رسو ل ﷺکی خاص انفرادیت
  • رد وہابیت
  • رہبر کامل
  • رہنمایان اسلام
  • روزہ
ز
  • زندگی کا حکیمانہ تصور
  • زکوۃ
  • زندہ جاوید کا ماتم
  • زندہ سوالات
س
  • سید سجادؑ
  • سفر نامہ عراق
  • سید عالم سلام اللہ علیہا
  • سر ابراہیمؑ واسماعیلؑ
  • سرور شہیداں
  • سفر نا مہ حج
  • سجدہ گاہ
  • سامان عزا
ش
  • شہادت کبری(تبصرہ)
  • شادی خانہ آبادی
  • شہید انسانیت
  • شیعیت کا تعارف
  • شہید کربلا
  • شجاعت کے مثالی کارنامے
  • شاہ است حسین ؑ بادشاہ است حسین ؑ
  • شہید کربلا کا سال بہ سال ماتم
  • شہادت زار کربلا
  • شب شہادت
  • شہدائے کربلا(تین حصے)
  • شہادت حسین ؑ کے اسباب
  • شہید کربلا کی خاندانی خصوصیات
  • شہید کربلا کی کی یادگار کا آزاد ہندوستان سے مطالبہ
ص
  • صنائع کردگار
  • صلح اور جنگ(عقل وفطرت کی روشنی میں)
  • صحیفہ سجادیہ کی عظمت
  • صادق آل محمد ؑ
  • صدیقہ صغری
ض
  • ضرورت مذهب
ع
  • عبادت اور طریق عبادت
  • عید غدیر
  • عظمت حسین ؑ
  • عالمی مشکلات کا حل
  • عدل
  • عزائے مظلوم
  • عزائے حسینؑ کی اہمیت
  • عد م تشدد اور اسلام
  • عزائے حسینؑ پر تاریخی تبصرہ
  • عورت اور اسلام
  • عشرہ محرم اور مسلمانان پاکستان
ف
  • فلسفہ گریہ
  • فریاد مسلمانان عالم
  • فضائل جناب امیر المومنین ؑ کی خصوصیات
  • فتاوائے سید العلماء(یہ ضخیم کتاب سعودی کسٹم پر ضبط ہوگئی)
ق
  • قرآن مجید کے انداز گفتگو میں معیار تہذیب ورواداری
  • قتیل العبرۃ
  • قرآن اور نظام حکومت
  • قرآن کے بین الاقوامی ارشادات
  • قانون وراثت
  • قاتلان حسین ؑ کا مذہب
ک
  • کتاب شہید اعظم پر تبصرہ
  • کتاب مسئلہ حیات النبی
  • کتاب نبوت
  • کربلا کی یاد گار پیاس
  • کربلا کا تاریخی واقعہ مختصر یا طولانی
گ
  • گیارہویں امامؑ
ل
  • لارڈرسل کے ملحدانہ خیالات کی رد
  • لاتفسدوا فی الارض
م
  • مذہب شیعہ اور تبلیغ
  • مسلمانوں کی حقیقی اکثریت (واقعہ کربلا کا ایک خاص پہلو)
  • مقتل ابو مخنف کا تحقیقی جائزہ
  • مباہلہ
  • مقدمہ مختصر بر ائے ترجمہ وحواشی قرآن
  • مقدمہ تفسیر قرآن
  • محاربہ کربلا
  • معرکہ کربلا
  • موسی کاظم ؑ
  • معاد
  • مسائل ودلائل
  • مجموعہ تقاریر (پانچ حصے)
  • مقدمہ نہج البلاغہ
  • مقالات سید العلماء(دو حصے)
  • مسلم پر سنل لا ء نا قابل تبدیل
  • متعہ اور اسلام
  • مذہب کی ضرورت
  • مادیت کا علمی جائزہ
  • مذہب اور عقل
  • مذہب شیعہ ایک نظر میں
  • مذہب باب وبہاء(دو جلدیں)
  • معراج انسانیت
  • مولود کعبہ
  • مقصود کعبہ
  • مطلوب کعبہ
  • مجسمہ انسانیت
  • مجاہدہ کربلا
  • مظلوم کربلا
  • مقصد حسینؑ
  • مسلمانوں کی نقلی اکثریت
  • معصوم شهزادی
  • مراکز مہم علمی شیعہ
ن
  • نہج البلاغہ کا استناد
  • نوروز و غدیر
  • نماز
  • نظام ازدواج
  • نظام زندگی(چارحصے)
  • نظام تمدن اوراسلام
  • نویں امامؑ
  • نفس مطمئنہ
و
  • وجیزۃ الاحکام (عملیہ)
  • وعدہ جنت
  • واقعہ وفات رسول
  • وجود حجت

ھ

  • ہمارے رسوم وقیود
  • ہلاکت اور شہادت
ی
  • یاد اور یادگار
  • یزید اور جنگ قسطنطنیہ[11]۔

عربی تحریریں

  1. آیۃ اللہ النائینی وموقفہ العلمی بین الطائفہ
  2. اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر
  3. البیت المعمور فی عمارۃ القبور
  4. پیغام حسین ؑبعالم انسانیت
  5. تفسیر قرآن
  6. تلخیص عماد الاسلام
  7. جواب رسالۃ الی صاحب ھذہ المجموعۃ من صدیقہ العلامۃ الحجۃ السید علی نقی النقوی اللکھنوی
  8. جہاد مختار
  9. الحجج والبینات
  10. حجج ومعاذیر
  11. حاشیۃ الکفایہ فی مباحث الفاظ للعلامۃ المیرزا ابو الحسن المشکینی
  12. حول کتاب اعیان الشیعہ
  13. حواشی علی الرسائل
  14. حواشی علی المکاسب
  15. الراحل العظیم(عربی)
  16. الرد القرآنیہ علی الکتاب المسیحیۃ
  17. رسالۃ ابی عبد اللہ الحسین ؑ
  18. روح الادب شرح الامامیۃ العرب
  19. رسالۃ من ابن حسن نجفی(مکتبۃ بحر العلوم ۱۹۹)
  20. رسالۃ الی السید محمد صادق بحرالعلوم (للسید محمد تقی بحرالعلوم) (مکتبۃ بحرالعلوم ۱۹۹)
  21. عدۃ رسائل للسید محمد صادق بحرالعلوم وفیھا تواریخ لوفاۃ شیخھم الطھرانی (مکتبۃ بحرالعلوم ۱۹۹)
  22. رسالۃ فی الاجتہاد والتقلید
  23. رسالۃ المولف سید علی نقی ۲۷ ذی القعدہ(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۳)
  24. رسالۃ السید علی نقی للشیخ الاوردبادی(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۳)
  25. رسالۃ السید علی نقی الی الشیخ الاوردبادی(اا) (مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۵)
  26. رسالۃ السید علی نقی النقوی (۲۲)(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۶)
  27. رسالہ شریفہ فی تراجم مشاھیر علماء الھند (ایضاً؛ ص۱۱۵و۳۹۲)
  28. رسالۃ فی نیت الصوم
  29. زبدۃ الکلام او تلخص عماد الاسلام
  30. السبطان فی موقفھما
  31. السیف الماضی عن عقائد الاباضی (عربی)(فہرست بحرالعلوم ص۶۸)
  32. شھادۃ بحق السید النقوی من الشیخ راضی آل یاسین(۲۴)(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۶)
  33. العقود الذھبیہ فی السلسلۃ النسبیہ (عربی اشعار)(ہماں ص۱۱۷)
  34. السید علی نقی النقوی الکھنوی نثرا(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۴۲)
  35. السید علی نقی النقوی الکھنوی (مکتبۃ بحرالعلوم ۲۴۸)
  36. الکلام علی الفقہ الرضوی
  37. کتاب صدیقنا العلامۃ السید علی نقی النقوی اللکھنوی الذی کتبہ لنا من الھند یعزینا فیہ بوفاۃ ابن عمنا المرحوم السید علی وصدیقنا المیرزا محمد علی الاوردبادی وکانت وفاتھما متقاربۃ فی سنۃ ۱۳۸۰(۳۹)(مکتبۃ بحرالعلوم۲۸۲)
  38. الکراس الثالث(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۰۰)
  39. کشف‌النقاب‌ عن‌ عقائد ابن عبدالوہاب
  40. لمحات حول السفور والحجاب
  41. المتحف العربی من الادب العصری
  42. المتحف العربی
  43. مقدمہ تفسیر القرآن
  44. متجمع التبثیر
  45. مشقت النذیر فی المسئلۃ التصویر
  46. مسئلۃ فی الخیر والشر
  47. النجعۃ فی اثبات الرجعہ
  48. نظرات بحاثہ فی الاخبار الثلاثہ(فہرست مکتبہ العلامہ السیدمحمدصادق بحرالعلوم ص۱۰۸)
  49. نجف ام طف
  50. نقد الفرائد
  51. وجیزۃ الاحکام (عملیہ)
  52. الوضاعون للاحادیث فی مذمۃ علی علیہ السلام ومن کان منحرفا عنہ ومبغضا(مکتبۃ بحرالعلوم ۲۸۹)

[12]۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی نقی نقوی نقن طاب ثراہ کی زندگی پر بین الاقوامی سیمینار

سید العلماء آیت اللہ العظمیٰ سید علی نقی نقوی نقن صاحب قبلہ کی حیات و کارناموں پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیمینار، کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سید العلماء آیت اللہ العظمیٰ سید علی نقی نقوی نقن صاحب قبلہ کی حیات و کارناموں پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیمینار، کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زیرے اہتمام شعبہ شیعہ تھیالوجی کی جانب سے میڈیکل کالج آڈیٹوریم میں سید العلماء آیت اللہ العظمیٰ علی نقی نقوی نقن صاحب قبلہ کی یاد میں بین الاقوامی سیمینار بعنوان زندگی اور کارنامے منعقد کیا گیا. جس میں مجلس علمائے ہند کے سربراہ و امام جمعہ لکھنؤ مولانا کلب جواد نقوی، ادارے تنظیم المکاتب کے سکریٹری مولانا سید صفی حیدر زیدی، ہندوستان میں آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی مہدوی پور اور یوپی شیعہ سنٹرل بورڈ آف وقف کے چیئرمین سید علی زیدی نے شرکت کی۔

مہمان خصوصی کے طور پر اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور، مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن ، پروفیسر عبدالحق دہلی یونیورسٹی ، ڈاکٹر محمد علی ربانی ثقافتی قونصلر سفارت خانہ ایران، ڈاکٹر ظفر محمود صدر زکوۃ فانڈیشن دہلی، پروفیسر سعود عالم قاسمی نے خطاب کیا۔اس موقع پر کتاب کی رسم اجراء بھی کی گئی۔ آخر میں مولانا محمد علی نقوی اور شعبہ کے پروفیسر طیب رضا نقوی نے آنے والے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا[13]۔

نجف اشرف اور ایران کے علماء سید العلماء کے علمی مرتبے کے معترف رہے ہیں

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کی جانب سے میڈیکل کالج آڈیٹوریم میں عالم اسلام کے عظیم مفکر،محقق اور صاحب اسلوب مصنف سید العلماء علامہ سید علی نقی نقوی المعروف بہ’’ نقّن صاحب‘‘ کی حیات اور خدمات پر ایک عظیم الشان بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا ،جس میں قومی و بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی ۔

سیمینار میں افتتاحی تقریر کرتے ہوئے مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر عین الحسن نے کہاکہ ۱۹۰۵ء میں سیدالعلماء کی ولادت ہوئی جو مسلمانوں کا انحطاطی دور ہے ۔اس وقت دنیا سیاسی ونظریاتی کشمکش سے گذر رہی تھی ۔ترکی ،ایران ،افغانستان اور ہندوستان سمیت دنیا مختلف مسائل میں الجھی ہوئی تھی ۔مغربی سامراج پائوں پسار رہا تھا ۔ایسے پرآشوب دور میں سیدالعلماء نے اپنی علمی و فکری خدمات سے مسلمانوں کو نئی راہ دکھلائی ۔جدیدیت اور ویسٹرنائزیشن کی یلغار سے بچاتے ہوئے متعدد دینی و فکری مسائل پر مجتہدانہ رائے رکھی اور مسائل کا حل پیش کیا ۔

انہوں نے اپنی تقریر میں کہاکہ سیدالعلما مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کے پیامبر تھے ۔انہوں نے مسلمانوں کو فکری اور سماجی کشمکش سے نکالنے کے لئے جدوجہد کی ۔ان کی تین سو سے زائد تصنیفات اور ایک ہزار سے زیادہ مقالات اس دعوےٰ پر بیّن دلیل ہیں ۔ اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ سیدالعلماایک عظیم مفکر اور دانشور تھے جس کا مشاہدہ ہم نے یونیورسٹی میں زمانۂ طالب علمی میں کیا ہے۔انہوں نے کسی یونیورسٹی سے رسمی تعلیم یعنی پی ایچ ڈی وغیرہ حاصل نہیں کی تھی اس کے باوجود عالمی سطح پر انہوں نے اپنے فکروفن کا لوہا منوایا ۔

انہوں نے کہاکہ شعبۂ دینیات میں ان کے بے شمار خدمات ہیں ،اس لئے ان پر ایسے پروگراموں کا انعقاد ہونا چاہیے ،اس سلسلے میں یونیورسٹی ہر ممکن تعاون کے لئے تیار ہے ۔ افتتاحی اجلاس میں نمایندہ مقام معظم رہبری در ہند حجۃ الاسلام آقای شیخ مہدی مہدوی پور نے اپنی تقریرمیں کہاکہ سید العلماایک صاحب نظر مجتہد تھے جو نہ صرف تفسیر و حدیث بلکہ فقہ ،علم کلام ،فلسفہ اور علم اجتماعیات میں یدطولیٰ رکھتے تھے ۔احکام دین میں استدلال کے ساتھ انہوں نے استنباط کیا ۔وہ عارف زمانہ تھے اور وقت کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے تھے ۔نجف اشرف اور قم کے علماء اور طلباء ان کے علمی مرتبہ کے معترف رہے ہیں۔ان کی جیسی عظیم شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے.

مہمان اعزازی ڈاکٹر علی ربانی (کلچر ل کونسلر ،سفارت خانہ ایران دہلی) نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سید العلماعظیم دانشور تھے جنہوں نے جدیدیت ،سامراجیت اور مغربی تہذیب کی یلغار کا فکری مقابلہ کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور فکروفلسفہ کا بھرپور دفاع کیا ۔سیدالعلماء مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھتے تھے اور دانشورانہ عقلیت کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی تشریع پر قادر تھے ۔

مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سیدکلب جواد نقوی نے اپنی تقریر میں کہاکہ سید العلماء کی شخصیت نابغۂ روزگار تھی ۔ان کے علمی و فکری خدمات کو ہرگز بھلایا نہیں جاسکتا ۔انہوں نے مختلف علمی و فکری میدانوں میں مسلمانوں کی رہنمائی کی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کیا ۔آج سیدالعلما کی حیات اور خدمات کا اعتراف کیا جارہاہے اور ایران و عراق میں ان کی کتابیں محققین کے لئے سرمایہ افتخار ہیں ۔مولانانے کہاکہ سیدالعلماء پر مختلف پروگراموں کی ضرورت ہے تاکہ ان کے فکروفن کی افادیت منور ہوسکے ۔

پروفیسر طیب رضا نقوی(صدر شعبۂ دینیات اور کنوینر) نے خطبہ ٔاستقبالیہ پیش کیا اور سیمینار کی اہمیت و افادیت پر گفتگو کی ۔سیمینار میں کے افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر محمود الظفر (زکاۃ فائونڈیشن دہلی) مولانا سید صفی حیدر (سکریٹری ادارہ تنظیم المکاتب )حکیم سید ظل الرحمان ،پروفیسر شاہد مہدی،شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین سید علی زیدی ،اور دیگر معززین نے اظہار خیال کیا ۔نظامت کے فرائض شارق عقیل نے انجام دیے ۔اس موقع پر تفسیر مجمع البیان کے ترجمے اور سیدالعلما کے اے ایم یو سے تعلق پر مبنی کتاب کا رسم اجرا بھی عمل میں آیا ۔ معروف عالم دین ڈاکٹر علی محمد نقوی اور شعبہ شیعہ دینیات کے پروفیسر مولانا طیب رضا نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا خیر مقدم کیا[14]۔

وفات

آپ نے یکم شوال روزعید الفطر ۱۴۰۸ھ/۱۸مئی ۱۹۸۸ء کو لکھنؤ میں رحلت فرمائی . اور وہیں سپر د خاک کئے گئے [15]۔

حوالہ جات

  1. سوانح حیات- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
  2. الغدیر ج7 ص405
  3. معجم المؤلفین . عمر کحالہ ج10 ص270؛علی فی الکتاب و السنۃ. حاج حسین شاکری ج5 ص229.
  4. الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بزرگ تہرانی. ج2 ص263؛معجم المطبوعات النجفیہ، محمد ہادی امینی ص88.
  5. الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بزرگ تہرانی، ج12 ص288 ش1938.
  6. عبد الحسین امینی، الغدیر، ج: 7، ص: 405
  7. معجم المؤلفین، عمر کحالہ، ج: 10، ص: 270
  8. معجم المطبوعات النجفیہ، محمد ہادی امینی، ص: 88
  9. سید علی نقی نقوی نجفی- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
  10. خورشید خاور تذکرہ علماء ہند و پاک ص263. 268
  11. سید علی نقی نقوی معروف نقن- شائع شدہ از: 26 اگست 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
  12. مجلہ شش ماہی مآب شمارہ1
  13. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی نقی نقوی نقن طاب ثراہ کی زندگی پر بین الاقوامی سیمینار- شائع شدہ از: 2 نومبر 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
  14. نجف اشرف اور ایران کے علماء سید العلماء کے علمی مرتبے کے معترف رہے ہیں : آقائی شیخ مہدی مہدوی پور- شائع شدہ از: 24 نومبر 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
  15. سوانح حیات- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء