شاہ عبد العزیز دہلوی
| شاہ عبد العزیز دہلوی | |
|---|---|
![]() | |
| دوسرے نام | عبد العزیز محدث دہلوی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1975 ء، 1353 ش، 1394 ق |
| یوم پیدائش | 15 رمضان |
| پیدائش کی جگہ | ہندوستان مظفر نگر |
| وفات | 1823 ء، 1201 ش، 1238 ق |
| یوم وفات | 9 شوال |
| شاگرد | مولانا شاہ رفیع الدین ، مولانا شاہ عبدالقادر ، مولانا شاہ عبدالغنی، مولانا منورالدین دہلوی |
| مذہب | اسلام، سنی |
| اثرات |
|
شاہ عبد العزیز دہلوی جو سراج الہند کے لقب سے مشہور ہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزندِ اکبر تھے۔ ان کے جد محترم شاہ عبد الرحیم تھے۔ شاہ عبد العزیز کو علم کی وسعت کے ساتھ استحضار میں بھی کمال حاصل تھا۔
سوانح عمری
عبد العزیز محدث دہلوی 25 رمضان المبارک 1159ھ بمطابق 11 اکتوبر 1746ء بروز منگل کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام غلام حلیم ہے جس کے اعداد 1159 ہیں۔ جس سے سنہ ولادت نکلتا ہے آپ کا سلسلۂ نسب 34 واسطوں سے سیدنا عمر فاروق تک منتہی ہوتا ہے [1]۔
شاہ صاحب ؒ کی ولادت با سعادت بروزچہار شنبہ ۴ شوال المکرم ۱۱۱۴ ھ طلوع آفتاب کے وقت اپنے نانہال قصبہ پھلت ضلع مظفر نگر یوپی میں ہوئی ، شاہ ولی اللہ کی ولادت کے وقت آپ کے والد ماجد شاہ عبد الرحیم ؒ کی عمر ساٹھ سال تھی ، شاہ عبد الرحیم صاحب ؒ کو اس مبارک فرزند کی ولادت سے پہلے بہت سے مبشّرات نظر آئے تھے ۔ولادت سے پہلے شاہ عبد الرحیم ؒ نے خواجہ قطب الدین بختیار کعکی ؒ کی خواب میں زیارت کی انھوں نے فرزند کی بشارت دی ، اور فرمایا کہ اس کا نام میرے نام پر قطب الدین احمد رکھنا ، شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ جب میری ولادت ہوئی تو والد محترم کو یہ بات یاد نہیں رہی اور انھوں نے میرا نام ولی اللہ رکھا ، کچھ مدت کے بعد جب خیال آیا تو میرا دوسرا نام قطب الدین احمد تجویز کیا۔
تعلیم
آپ نے علوم عقلیہ تو والد ماجد کے بعض شاگردوں سے حاصل کئے لیکن حدیث وفقہ آپکو خاص طور سے والد ہی نے پڑھائے ۔ابھی آپکی عمر سترہ برس کی تھی کہ والد کا وصال ہوگیا ۔ لہذا آخر ی کتابوں کی تکمیل شاہ ولی اللہ کے تلمیذ خاص مولوی محمد عاشق پھلتی سے کی ۔ چونکہ آپ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور علم وفضل میں بھی ممتاز لہذا مسند درس وخلافت آپ کے سپرد ہوئی ۔
آپ کو تمام علوم عقلیہ میں کامل دستگاہ حاصل تھی ،حافظہ بھی نہایت قوی تھا ۔تقریر معنی خیز وسحر انگیز ہوتی جسکی وجہ سے آپ مرجع خواص وعوام ہوگئے تھے ۔علو اسناد کی وجہ سے دور دراز سے لوگ آتے اور آپکے حلقہ درس میں شرکت کرکے سند فراغ حاصل کرتے ۔آپکی ذات ستودہ صفات اپنے دور میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی ۔ آپکی ذات سے ہندوستان میں علوم اسلامیہ خصوصاً حدیث وتفسیر کا خوب چرچا ہوا، جلیل القدر علماء ومشائخ آپکے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔
وہ جب سترہ سال کے ہوئے تو ان کے والد بزرگوار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وفات ہوئی۔ پچیس برس کی عمر ہی سے آپ متعدد موذی امراض میں مبتلا رہنے لگے تھے اور آخر عمر تک اس میں گرفتار رہے۔ اوائل عمر ہی میں کثرت امراض کے باوجود شاہ صاحب نے مدة العمر درس و تدریس کا بازار گرم رکھا اور اپنے والد کے جانشین مقرر ہوئے [2]۔
سلسلہ شیوخ
- شیخ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
- شیخ احمدشاہ ولی اللہ محدث دہلوی
- شیخ شاہ عبد الرحیم دہلوی
- شیخ سید عبد اللہ واسطی
- شیخ سید آدم بنوری مہاجر مدنی
- مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی
شاگرد
بعض تلامذہ کے اسماء یہ ہیں آپ کے برادران:
- مولانا شاہ رفیع الدین ،
- مولانا شاہ عبدالقادر ،
- مولانا شاہ عبدالغنی،
- مولانا منورالدین دہلوی ،
- علامہ فضل حق خیر آبادی ،
- علامہ شاہ آل رسول مارہروی
- شیخ امام احمد رضا فاضل بریلوی۔
فتوی
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا تاریخی فتوٰی
ہندوستان پر جب انگریزی حکومت نے تغلب کیا تو سب سے پہلے کون تھا جس نے قانونِ اسلام کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان کو دوبارہ دارالاسلام بنانے کی سعی کی؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد جب ہندوستان کی حکومت کو گھن لگنا شروع ہوا اور اس میں ابتری پیدا ہوئی تو حضرت شاہ ولی اللہ نے نہ صرف یہ کہ اس کو محسوس کیا بلکہ اپنی تصانیف اور تحریرات کے ذریعے شہنشاہیت کے خلاف آواز بلند کی، اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے پوری فراستِ ایمانی اور سیاست دانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے اسباب و علل پر بڑی دیدہ وری اور جامعیت کے ساتھ بحث کی، اور حکومت، امراء وزراء اور سوسائٹی کے دوسرے طبقات کو مخاطب کر کے ایک پروگرام دیا جس کا متن سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں یہ ہے:
"ہندوستان پر اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہوئی کہ عین تنزل اور سقوط کے آغاز میں شاہ ولی اللہؒ کے وجود نے مسلمانوں کی اصلاح کی دعوت کا ایک نیا نظام مرتب کر دیا تھا [3]۔
اس متن کی شرح مولانا موصوف ہی سے سننے کے لائق ہے: "دلی میں اسلامی حکومت کا آفتاب غروب ہو رہا تھا تو اسی کے مطلع سے ایک اور آفتاب طلوع ہو رہا تھا۔ یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کا خاندان تھا۔ سچ یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ کی پیشین گوئی کے مطابق اس کے بعد جس کو ملا، اسی دروازہ سے ملا۔ ہندوستان میں ردِ بدعات کا ولولہ، ترجمۂ قرآن پاک کا ذوق، صحاحِ ستہ کا درس، شاہ اسماعیل اور مولانا سید احمد بریلوی کا جذبۂ جہاد، فرقِ باطلہ کی تردید کا شوق، دیوبند کی تحریک، ان میں سے کون سی چیز ہے جس کا سررشتہ اس مرکز سے وابستہ نہیں!"[4]۔
پھر آپ کے بعد شاہ عبد العزیز کے زمانہ میں دہلی کے حالات اور زیادہ بگڑے اور ’’حکومتِ شاہ عالم از دہلی تا پالم‘‘ کی مثل صادق آنے لگی۔ انگریزوں کا اقتدار اور ان کا ظلم و ستم اور اس کے بالمقابل لال قلعہ کے بادشاہ کی طاقت و قوت کا اضمحلال روز افزوں ہو گیا۔
انگریز حکمرانوں کے خلاف سب سے پہلے جس شخص نے آواز بلند کی وہ شاہ عبد العزیز تھے
اس صورتحال کے پیشِ نظر انگریز حکمرانوں کے خلاف سب سے پہلے جس شخص نے آواز بلند کی وہ شاہ عبد العزیز تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کو ابھارا، ان کے جبن اور بزدلی کو دور کیا، ان کے اندر جذبۂ جہاد پیدا کیا، انہیں حوصلہ دیا، انہیں دلائل و براہین سے مسلح کیا، ان کی لکنت اور تھوتھلے پن کو دور کیا، بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے انہیں ہمت و جرأت سے آگے بڑھنے اور غصب شدہ حقوق حاصل کرنے کی تلقین کی، انہوں نے عوام کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ وہ اگر تیار ہو جائیں تو سارے مصائب کا علاج ممکن ہے۔
پھر دہلوی نے اسی ترغیب و تاکید اور تبلیغ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہندوستان کے "دارالحرب" ہونے کا باضابطہ فتوٰی بھی دیا۔ اصل فتوٰی فارسی زبان میں ہے، اختصار کے پیشِ نظر اس وقت اس کے ترجمہ پر اکتفا کیا جاتا ہے، وہ پیشِ خدمت ہے:
"یہاں رؤسا نصارٰی (عیسائی افسران) کا حکم بلا دغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے۔ اور ان کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری، انتظاماتِ رعیت، خراج، باج عشر و مال گزاری، اموالِ تجارت، ڈاکوؤں اور چوروں کے انتظامات، مقدمات کا تصفیہ، جرائم کی سزاؤں وغیرہ (یعنی سول، فوج، پولیس، دیوانی اور فوجداری معاملات، کسٹم اور ڈیوٹی وغیرہ) میں یہ لوگ بطور خود حاکم اور مختارِ مطلق ہیں، ہندوستانیوں کو ان کے بارے میں کوئی دخل نہیں۔
بے شک نمازِ جمعہ، عیدین، اذان اور ذبیحہ گاؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے لیکن جو چیز ان سب کی جڑ اور حریت کی بنیاد ہے (یعنی ضمیر اور رائے کی آزادی اور شہری آزادی) وہ قطعاً بے حقیقت اور پامال ہے۔ چنانچہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ عوام کی شہری آزادی ختم ہو چکی ہے۔ انتہا یہ کہ کوئی مسلمان یا غیر مسلم ان کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اس کے اطراف و جوانب میں نہیں آسکتا۔
عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے۔ اس کے بالمقابل خاص خاص ممتاز اور نمایاں حضرات مثلاً شجاع الملک اور ولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتے۔ دہلی سے کلکتہ تک انہی کی عملداری ہے۔ بے شک کچھ دائیں بائیں مثلاً حیدر آباد، لکھنؤ، رام پور میں چونکہ وہاں کے فرمانرواؤں نے اطاعت قبول کر لی ہے، براہِ راست نصارٰی کے احکام جاری نہیں ہوتے (مگر اس سے پورے ملک کے دارالحرب ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا)" [5]۔
دار الحرب کا مطلب کیا؟
ایک دوسرے فتوٰی میں بھی حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے مخالفوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ہندوستان کا دارالحرب ہونا ثابت کیا [6]۔ کسی ملک کے ’’دارالحرب‘‘ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اب اس ملک کی باگ ڈور اور اقتدار کافروں کے پاس جا چکا ہے، قانون سازی کے اختیارات کافروں کے پاس ہیں، اسلام اور شعائرِ اسلام کا احترام ختم ہو چکا ہے، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ان کی شہری آزادی سلب کر لی گئی ہے، اس لیے ان حالات میں مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے اور کافر حکمرانوں کا مقابلہ اور ان سے مقاتلہ اب مسلمانوں پر ضروری ہو گیا ہے۔
چنانچہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جتنی تحریکیں چلیں، معرکے ہوئے، جنگیں ہوئیں اور لڑائیاں لڑی گئیں، ان سب کی بنیاد یہی فتوٰی ہے۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی اس تاریخی فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "شاہ عبد العزیز نے ہندوستان کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دے کر غیر ملکی اقتدار کے خلاف سب سے پہلا اور سب سے زیادہ مؤثر قدم اٹھایا۔ اس فتوے کی اہمیت کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ’’دارالحرب‘‘ کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پر خاندانِ ولی اللہ کے اثرات کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں۔ سید احمد شہید، مولانا اسماعیل شہید نے اپنے سیاسی فکر میں انگریزی اقتدار کو جو درجہ دیا تھا، اس کی بنیاد یہی فتوٰی تھا" [7]۔
جس طرح شہنشاہیت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے بانی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے شہنشاہیت کے خلاف ہر طبقہ کے لوگوں کو ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا، اسی طرح ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے والے حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی مجاہدِ اول ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس فتوٰی کے ذریعے مسلمانوں میں جذبۂ جہاد پیدا کرنے کی سعئ بلیغ کی۔ وہاں اسی فتوٰی کے ذریعے مسلمانوں کو غلامی اور محکومی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کی تاکیدِ شدید بھی کی۔
ہندوستان کی شرعی حیثیت کے تعین کے ساتھ ساتھ بہت سارے شکوک و شبہات کا ازالہ بھی کیا
مولانا مفتی نسیم احمد قاسمی مظفر پوری رفیق مجمع الفقہ الاسلامی (الہند) حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ اور ان کے جاری کردہ فتوٰی کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: "حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ شیخ الاسلام شاہ ولی اللہ کے چشم و چراغ اور ان کے علوم و معارف کے وارث و امین ہیں۔ شاہ ولی اللہ ہی کے زمانہ میں خاندانِ مغلیہ زوال سے دوچار ہونے لگا تھا اور شاہ عبد العزیز کے زمانہ میں خاندانِ مغلیہ کا چراغ ہمیشہ کے لیے بے نور ہو گیا اور ہندوستان کی قسمت اور اس کے تاجِ شاہی کی مالک ایک بدیسی قوم انگریز بن گئی تھی۔ جب انگریز پوری طرح ہندوستان پر قابض ہو گئے تو مفکر اسلام شاہ عبد العزیز تڑپ اٹھے
اور بلا خوف لومۃ لائم یہ فتوٰی دیا کہ ہندوستان انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے دارالحرب بن گیا اور مختلف دلائل و شواہد سے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کو ثابت فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا نہایت مفصل فتوٰی صادر کیا۔
"شاہ صاحب نے اپنے اس فتوٰی میں ہندوستان کی شرعی حیثیت کے تعین کے ساتھ ساتھ بہت سارے شکوک و شبہات کا ازالہ بھی کیا ہے اور دارالحرب کی تعریف بیان فرما کر واضح کیا کہ محض بعض احکامِ اسلام مثلاً جمعہ و عیدین، تلاوت اور گاؤ کشی پر پابندی عائدنہ کرنے کی وجہ سے دارالحرب دارالاسلام نہیں بنتا۔ جن لوگوں نے انگریزوں کے دورِ اقتدار میں بھی ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیا ہے، ان سب نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ بعض احکامِ اسلام مثلاً جمعہ و عیدین ہندوستان میں اس وقت بھی باقی اور جاری تھے، اور جب تک کسی ملک میں اسلام کے بعض احکام بھی جاری رہیں گے وہ ملک دارالحرب نہیں بنے گا۔
شاہ صاحبؒ نے اسے رد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اقتدار اور ملک کی باگ ڈور غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہے اور اس میں اس کے احکام جاری ہوتے ہیں تو وہ ملک دارالحرب قرار پائے گا، چاہے اس میں اسلام کے بعض احکام جاری ہوں" [8]۔
دارالاسلام یا دارالحرب ہونے کا مدار
اسی مسئلہ کو مزید وضاحت کے ساتھ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن خیرآبادی مفتی دارالعلوم دیوبند مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں: " بہرحال کسی شہر یا ملک کے دارالاسلام یا دارالحرب ہونے کا مدار محض غلبہ و شوکت اور نظامِ احکام پر ہے۔ اگر وہاں مسلمانوں کا غلبہ ہے تو وہ دارالاسلام ہے، اور کفار و مشرکین کا غلبہ ہے تو وہ دارالحرب ہے۔ اگر کسی جگہ مسلمان بھی رہتے ہوں لیکن انہیں اقتدارِ اعلیٰ اور غلبہ و شوکت حاصل نہ ہو تو اسے دارالاسلام نہیں کہتے، ورنہ جرمنی، فرانس، روس اور چین کو بھی دارالاسلام کہا جائے گا۔ اسی طرح جمعہ و عیدین کفار و مشرکین کی اجازت سے ادا کیے جانے پر بھی اسے دارالاسلام نہیں کہیں گے۔ جس طرح دارالاسلام میں ذمی کفار اپنی تمام رسوم آزادی سے ادا کریں تو اسے دارالحرب نہیں کہیں گے"۔
اسی موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب مدظلہ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں: "وہ مملکت جہاں مسلمانوں کو اس قسم کا اقتدار (غلبہ و شوکت) حاصل نہ ہو خواہ مسلمان وہاں ہر طرح امن و اطمینان سے رہتے ہوں، وہاں کے سیاسی اور غیر سیاسی کاموں میں حصہ لیتے ہوں، اس کو اپنا وطن سمجھتے ہوں اور باشندہ ملک کی حیثیت سے اس کی حفاظت و ترقی کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہوں، اس کے لیے ایثار و قربانی بھی کر دیتے ہوں، مسلمان کی حیثیت سے یا مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کی بنا پر نہیں بلکہ ایک شہری کی حیثیت سے وہ اقتدارِ اعلیٰ میں حصہ لے سکتے ہوں، مثلاً رئیس جمہوریہ یا وزیراعظم بن سکتے ہوں، مگر احکامِ اسلام جاری نہ کر سکتے ہوں، جرم و سزا اور اقتصادی مسائل، کرنسی اور شرح تبادلہ وغیرہ کے سلسلے میں احکامِ اسلام کو قانون نہ بنا سکتے ہوں، بلکہ ان میں (یعنی ان مسائل وغیرہ میں) اس ملک کے قوانین کے پابند ہوں، تو وہ دارالاسلام نہیں ہے"[9]۔
فتوے کے اثرات
غرضیکہ غیر ملکی اقتدار کے خاتمے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے بنیادی کردار اگر کسی نے ادا کیا ہے تو وہ خاندانِ ولی اللہ کا کردار ہے جس نے ہندوستان پر غیر ملکیوں کے قابض ہونے اور اس کی اسلامی حیثیت کے ختم ہونے پر سب سے پہلے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوٰی دے کر مسلمانوں کے اندر غیر ملکیوں، غیر مسلموں، ظالموں اور سفاکوں کے خلاف جذبۂ جہاد پیدا کرنے اور عَلمِ بغاوت بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عبد العزیز کا فتویٰ 1822 ء کے لگ بھگ اس اعلان کے بعد شاہ عبد العزیز نے یہ فتوٰی دیا کہ پورے برصغیر پر نصارٰی کا غلبہ ہو گیا ہے اور ہمارے قوانین منسوخ کر کے انھوں نے اپنے قوانین نافذ کر دیے ہیں، اس لیے یہ ملک دارالحرب ہے اور جہاد فرض ہو گیا ہے۔
اسی فتوے کی بنیاد پر بالا کوٹ کی جنگ لڑی گئی، بنگال میں حاجی شریعت اللہ اور تیتومیر نے جنگ لڑی، جنوبی پنجاب میں سردار احمد خان شہید نے جنگ لڑی، سرحدی علاقہ میں حاجی صاحب ترنگ زئی اور فقیر ایپی نے جنگ لڑی، بیسیوں جنگیں ہوئیں۔ وہی جنگیں جب آگے بڑھیں تو پھر حضرت شیخ الہندؒ کے زمانے میں آخری جنگ کا منصوبہ ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ کے عنوان سے بنایا گیا جو ناکام ہوئی، اس کے بعد ہم عسکری جنگ سے سیاست کی طرف منتقل ہوئے[10]۔
آتار
عبد العزیز صاحب نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امراض کی شدت اور آنکھوں کی بصارت زائل ہونے کے سبب بعض کتابوں کو آپ نے املا کرایا ہے [11]۔ اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
تحفۂ اثنا عشریہ
یہ فارسی زبان میں رد شیعیت میں بے مثال کتاب ہے، جس کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کا عربی اور اردو میں ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
عجالہ نافعہ
فن حدیث کے متعلقات پر ایک اہم رسالہ ہے۔ یہ بھی فارسی میں ہے اور متداول ہے اور اس کا اردو ترجمہ مع تعلیقات و حواشی چھپ چکا ہے۔
بستان المحدثین
محدثین کے حالات کا ایک مجموعہ ہے۔ فارسی میں ہے متداول ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
فتاوی عزیزی
اس کے فتاویٰ کا مجموعہ اہل علم میں کافی مقبول اور متداول ہے اور اس کا بھی اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔
تفسیر فتح العزیز معروف بہ تفسیر عزیزی
یہ ان کی مشہور تفسیری تصنیف ہے، جس کی صرف چار جلدیں دو اول کی اور دو آخر کی ملتی ہیں۔ یہ بھی فارسی میں ہے۔ ان کے علاوہ بلاغت، کلام، منطق اور فلسفے کے موضوعات پر بھی شاہ صاحب نے متعدد رسالے اور حاشیے فارسی اور عربی زبان میں لکھے ہیں یہ تفسیر نامکمل صورت میں پائی جاتی ہے۔ سورة فاتحہ اور سورة البقرہ کی ابتدائی ایک سورت چوراسی آیتوں کی تفسیر پہلی دو جلدوں میں اور آخر کے دو پاروں کی تفسیر علاحدہ علاحدہ جلدوں میں ہیں۔ یہ جلدیں متعدد بار شائع ہو چکی ہیں۔
تفسیر کے مقدمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاہ صاحب کے ایک شاگرد شیخ مصدق الدین عبد اللہ تھے، جن کی تحریک پر یہ تفسیر لکھی گئی اور انھی کو شاہ صاحب نے اس کا املا کرایا تھا اور یہ سلسلہ 1208ھ/1793/ میں مکمل ہوا [12]۔
سر الشہادتین
یہ واقعہ کربلا پر فارسی تالیف ہے۔
بستان المحدثین
یہ تصنیف حدیث کی مشہور کتابوں اور انکے مؤلفین کے حالات وتعارف پر مشتمل ہے ۔
باقی تصانیف یہ ہیں :
- فتح العزیز’معروف بہ تفسیر عزیزی (فارسی)
- مجموعہ فتاوی ’فارسی ‘
- تقریر دل پذیر فی شرح عدیم النظیر (فارسی )
- ہدایت المومنین بر حاشیہ سوالات عشرہ محرم (اردو)
- شرح میزان منطق (عربی )
- حواشی بدیع المیزان (عربی )
- حواشی شرح عقائد (عربی )
- تعلیقات علی المسوی من احادیث المؤطا (عربی )[13]۔
امام شاہ عبدالعزیز دہلوی کی خدمات
شاہ عبدالعزیزدہلوی ایک عام مولوی یا عالم نہیں ہیں بلکہ ایک انقلابی ہیں۔ جنہوں نےہندوستان میں سب سے پہلے فتویٰ دارالحرب کے ذریعے انگریزوں [14]۔ ایک ایسا دورجہاں انگریز پورے برعظیم ہند میں اپنے پاؤں مضبوط کرنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا تو اس دوران دہلی کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات میں اہم تبدیلیاں آرہی تھیں۔ مغلیہ سلطنت اپنے زوال کے دور سے گزر رہی تھی۔ مغل بادشاہت کا اقتدار زیادہ تر ایسٹ انڈیا کمپنی کو منتقل ہوچکا تھا اور دہلی کی سلطنت کا اثر ورسوخ محدود ہوچکا تھا۔
اس مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ نے برعظیم ہند پر اپنا خاص کرم کیا کہ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی وفات کے بعد، ان کے بڑے صاحبزادے امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ ان کے جانشین بنے۔ آپ کے زمانہ میں اردو زبان مقبولیت حاصل کرچکی تھی، اس لیے خواجہ میردرد سے آپ نے اردو محاوروں کا فن سیکھا۔ آپ کو اس زبان میں اتنی مہارت حاصل ہوگئی کہ آپ کے دور کے شعرا ئےکرام، امرا اور شہزادے اپنے کلام کی اصلاح کے لیے آپؒ کی خدمت میں حاضرہوتے۔
تاریخ اور جغرافیہ میں بھی آپ بےنظیر کمال رکھتے تھے۔ آپ نے زیادہ تر تعلیم اپنے والد ماجد شاہ ولی اللہ دہلوی سے حاصل کی۔ مولانا شاہ محمد عاشق پھلتی اور مولانا محمد امین کشمیری ولی اللہی سے بھی تعلیم وتربیت میں تکمیلی درجے کا فیض حاصل کیا، کیوں کہ وہ شاہ ولی اللہ کی جماعت کے اہم رکن اور بااعتماد ساتھی تھے۔ تیرہ سال کی عمر میں آپ نے فقہ، اصول فقہ، منطق، کلام، عقائد اور ریاضی وغیرہ میں مہارت حاصل کر لی۔ ان علوم کو حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے والد ماجد شاہ ولی اللہ دہلوی کی صحبت اختیار کی اور علم حدیث پڑھا۔
آپ نے دو سال میں حدیث مبارکہ کی کتابوں پر عبور حاصل کر لیا۔ آپؒ کو ایک سو پچاس علوم پر دسترس حاصل تھی۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ جن علوم کا میں نے مطالعہ کیا ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے وہ ایک سو پچاس علوم ہیں۔ نصف سابقین اولین کے ہیں اور نصف علوم دیگر ہیں۔ پندرہ سال کی عمر میں ہی اپنے والد ماجد سے تمام علوم عقلیہ ونقلیہ اور کمالات ظاہری وباطنی حاصل کر چکے تھے۔ جب آپؒ سترہ برس کے ہوئے تو آپؒ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا اور آپؒ کو ان کا جانشین تسلیم کیاگیا۔ آپ 63 سال تک بلند ہمتی اور جہد مسلسل سے اس پروگرام کی تکمیل میں مصروف رہے جسے آپؒ کے والد ماجد امام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے شروع کیاتھا۔ 1823ء کو 80سال کی عمر میں رُکے اور تھکے بغیر دین کی خدمت کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ ؒ کی نماز جنازہ امام شاہ محمد اسحاق دہلویؒ نے پڑھائی جو آپ کے نواسے اور جانشین تھے۔
فکری وراثت کا تسلسل
شاہ ولی اللہ دہلوی کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیزدہلوی کو ان کا جانشین تسلیم کیا گیا۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی نے کوئی نیا کام شروع نہیں کیا، بلکہ اپنے والد ماجد کے مشن کو نئی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھایا۔ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مخاطب امرائے سیاست، اعلیٰ درجے کے اہل علم اور کامل المعرفت صوفیائے کرام تھے، مگر آپ کشف اور عقل کی عام فہم چیزیں نقلی علوم میں استعمال کرتے تھے، یعنی اپنے والد کے علوم کو عوام کی زبان میں لکھتے تھے۔
جو انقلاب ولی اللہ دہلوی اپنے خواص سے مکمل کرانا چاہتے تھے، اسی مقصد کو آپ ؒاپنے حالات و زمانہ کے مطابق عوام سے پورا کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے ہندوستان میں درس قرآنِ حکیم کا سلسلہ شروع کیا۔ مدرسہ رحیمیہ دہلی کے ذریعے تعلیم و تربیت اور نشرواشاعت کا سلسلہ اس قدر ترقی کر گیا کہ سارے ہندوستان میں کوئی علمی حلقہ یا عالم ایسا نہیں تھا، جس کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ آپؒ سے نہ ہو۔
فتویٰ دار الحرب
دارالحرب کا لغوی معنی "جنگ کا گھر یعنی جنگ کا ملک" ہے۔ فقہی وقانونی اصطلاح میں اس سے مراد ایسی جگہ ہے "جہاں مسلمانوں کے خلاف جنگ جاری ہو یا وہاں اسلامی حکومت یعنی نظام عدل کے قوانین کا نفاذ نہ ہو۔ ہندوستان کی تاریخ میں انگریزوں کے خلاف امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے’’فتویٰ دارالحرب‘‘ دیا۔ اس فتویٰ کا اثر یہ ہوا کہ ہر ہندوستانی کے دل میں آزادی کی شمع روشن ہوگئی۔ آزادی کی جتنی بھی تحریکیں چلائی گئیں یا جنگیں لڑیں گئیں ان سب کی روح یہی فتویٰ تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تقریباًبیس سال اقتدار مرہٹوں کے ہاتھ میں رہا، کئی بار دہلی پر قبضے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان کے ظالمانہ و باغیانہ حملوں سے عوام الناس تنگ تھے تو شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ان کی طاقت کو توڑنے کے لیے احمد شاہ درانی ابدالی کو توجہ دِلائی اور اس نے اس میں کردار ادا کیا، لیکن چوں کہ وہ بدیسی طاقت نہیں تھے، اس لیے ان کے خلاف فتویٰ صادر نہیں کیا گیا[15]۔
وفات
چنانچہ 80 برس کی عمر میں 9/شوال 1239ھ /1823/ کو یک شنبہ کے روز وفات پائی۔ مختلف شعرا نے تاریخ وفات کہی، جن میں حکیم مومن خان دہلوی کے قطعہ تاریخ اس فن کی ایک نادر مثال ہے۔ دست بیداد اجل سے بے سر و پا ہو گئے فقر و دین، فضل و ہنر، لطف و کرم، علم و فضل [16]۔
حوالہ جات
- ↑ محمد رحیم بخش، دہلوی حیات ولی، مکتبہ سلفیہ، لاہور، ص587
- ↑ محمد بیگ دہلوی، مرزا، دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص4
- ↑ مولانا سندھی کے افکار و خیالات پر ایک نظر ۔ ص9
- ↑ حیاتِ شبلی ص ۲۹۸
- ↑ فتاوٰی عزیزی فارسی صفحہ ۱۷ بحوالہ علماء ہند کا شاندار ماضی جلد ۲ صفحہ ۸۰ ۔ و ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ ص ۱۰
- ↑ فتاوٰی عزیزی فارسی ص ۱۰۵ بحوالہ شاندار ماضی ج ۲ ص ۸۰
- ↑ ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ ص ۱۱
- ↑ مجلہ فقہ اسلامی سیمینار نمبر ۲ ص ۴۵۱
- ↑ نظام الفتاوٰی ص ۱۹۹ ج ۲
- ↑ مولانا محمد طیب کشمیری، ضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا تاریخی فتوٰی-اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 ستمبر 2025ء
- ↑ عبد الحئی، مولانا، نزہۃ الخواطر، ج7، ص273
- ↑ شاہ عبد العزیز، تفسیر فتح العزیز، مطبع حیدری، ج1، ص3، بمبئی،1294ھ۔
- ↑ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی- شائع شدہ از: 20 جولائی 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 ستمبر 2025ء
- ↑ تحریر: سلمان نواز۔ بہاولپور
- ↑ [ https://baseeratafroz.pk/article/1074 امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کی خدمات]- شائع شدہ از: 10 فروری 2015ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 ستمبر 2025ء
- ↑ محمد بیگ، مرزا، دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص10
