پاراچنار

ویکی‌وحدت سے
پاراچنار
شهر پاراچنار پاکستان.jpg
ملکپاکستان
صوبہخیبر پختونخواہ
آبادیدس لاکھ
خاص خصوصیتسوق الجیشی اور سرحدی علاقہ

پاراچنار افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستان کے خوبصورت علاقوں میں سے ایک ہے۔ پاراچنار کا علاقہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ہے جو کہ مشرق اور شمال مشرق میں ہنگو، اورکزئی اور خیبر کے شہروں اور جنوب مشرق میں شمالی وزیرستان سے ملحق ہے۔ پاراچنار کے جنوب میں صوبہ خوست، صوبہ پکتیا مغرب میں اور صوبہ ننگرہار کے شمال میں واقع ہیں۔ یہ سٹریٹجک اور سوق الجیشی علاقہ مغربی اداکاروں کے لیے بہت اہم اور اہمیت کا حامل جگه ہے کیونکہ اس کا فاصلہ سب سے کم ہے- دوسرے قبائلی علاقوں کے درمیان- کابل شہر سے، اور کمیونسٹ حکومتوں کی موجودگی کے دوران، مغربی علاقوں کا راستہ۔ اس راستے سے مجاہدین کو امداد ملتی تھی۔ بین الاقوامی تزویراتی اصطلاح میں پاراچنار - جو کہ کرم ایجنسی کا مرکز ہے- کو طوطے کی چونچ (Parrots Beak) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خطہ اسٹریٹجک ہے کیونکہ یہ واحد مسلح شیعہ خطہ ہے اور اس جس کی ناکامی کو پاکستان کے تمام شیعوں کی ناکامی سمجھا جاتا ہے اور یہ پاکستان کے شیعوں کے لیے بہت اہم ہے۔

وجہ تسمیہ

بعض کا کہنا ہے کہ اس شہر کا نام اس علاقے میں درختوں کی کثرت کی وجہ سے رکھا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس کا نام "پارا" قبیلہ سے لیا گیا ہے۔ اس شہر کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے لیے کُرم کے علاقے کی تاریخ کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ وادی کرم کا گذرگاہ ایک آسان ترین راستہ رہا ہے جس سے آریائی قبائل 2000-4000 قبل مسیح میں ہندوستان میں اپنی عظیم ہجرت کے دوران گزرے تھے۔ 5ویں-7ویں صدی میں کرم عالیہ کے علاقے کا دورہ کرنے والے بدھ چینی راہبوں کے مطابق، اس علاقے کے لوگوں نے بدھ مت مذہب کو قبول کیا تھا۔

پاراچنار کا پس منظر

ایک سیاسی تقسیم میں پاکستان کی سرحدی ریاست، کئی ایجنسیوں میں تقسیم ہوی ہے۔ پاراچنار شہر دراصل شمال مغربی سرحدی ریاست کی ایک ایجنسی کا مرکز ہے جسے کرم ایجنسی کہا جاتا ہے، اور یہ پاکستان کے پشتونستان علاقے کا بھی ایک حصہ ہے، جو پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے جس میں سبز وادیوں، آبشاروں، سرچشموں اور دیودار اور پودے کے جنگلات اور پھل دار باغات اور زرخیز زرعی زمینیں بند ہیں۔

انگریزوں کے زمانے سے اپنے سنہری رنگ کے لیے مشہور سیب گولڈن ڈشز مشہور ہیں۔ پاراچنار نام رکھنے کی وجہ، پرانے چنار کے درختوں کی موجودگی یا اس علاقے میں ایک بڑے چنار کے آس پاس پارا یا پارہ قبیلے کی رہائش کو قرار دیا جاتا ہے۔ کرم ایجنسی دو شمالی اور جنوبی حصوں پر مشتمل ہے۔ شمال میں اکثریت شیعہ اور جنوب میں اکثریت سنیوں کی ہے۔ ایجنسی افغانستان کی سرحد پر واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباً 10 لاکھ افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 60% شیعہ ہیں۔ جو زیادہ تر پاراچنار اور اس کے گردونواح میں رہائیش پذیر ہیں۔ ایدی زئی، دوئیل زئی، غنڈی خیل، مستوخیل، حمزہ خیل، منگل، مستب، درزداران منٹواں، وازئی، حاجی غلزئی، لسانی اور پارہ قبائل اس علاقے میں رہتے ہیں۔۔

پاراچنار کے علاقے سے بہت سے علماء منسوب ہیں، جن میں مولانا سید پادشاہ حسین، مولانا علی سرور سرحدی (14ویں صدی)، مولانا غلام قاسم خان کورائی (14ویں صدی)، مولانا عبدالحسین (وفات 1365) اور مولانا محمد عباس (وفات 1364) شامل ہیں۔ جنهوں نے اپنی مذہبی تعلیم ایران اور عراق میں مکمل کی ہیں۔

جغرافیائی محل وقوع

پاراچنار شہر صوبہ خیبر پختونخوا کے آخری حصوں میں اور افغانستان کی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ شہر پشاور سے 280 کلومیٹر جنوب مغرب میں کرم کی سرسبز وادی میں افغان سرحد کے قریب واقع ہے۔ وادی کرم کو بالائی اور نچلے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور پاراچنار بالائی کورم کا مرکز ہے۔ کرم، جو ایک پہاڑی سرزمین ہے، ایک وسیع وادی میں ختم ہوتی ہے اور ایک کھڑا میدان بناتا ہے جہاں پارچنار واقع ہے۔

پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام فاٹا کرم ایجنسی کا صدر مقام پاڑاچنار جو پشاور سے 80 میل کے فاصلے پر مغرب کی طرف کوہ سفید کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں سے درۂ پیوار سے ہو کر افغانستان کو راستہ جاتا ہے بلکہ درحقیقت پاڑاچنار کے تین اطراف میں افغانستان ہے اور صرف مشرق میں پاکستانی سرزمین ہے۔ شہر کا نام چنار کے درخت کی وجہ سے مشہور ہوا جو اب بھی موجود ہے۔ جس کے سائے تلے قبیلے کے لوگ آکر بیٹھتے تھے۔

بچہ سقا جو افغانستان کا بادشاہ بنا تھا۔ پارار چنار کے ایک بازار میں ماشکی کا کام کرتا رہا۔ قدرتی مناظر اور دلکش ہیں۔ جب کہ لوگوں کی زیادہ تر تعداد ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم اور ترقی کی شرح بھی کافی بہتر رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں افغان جنگ میں مجاہدین نے پاڑا چنار کو ہی اپنا مزاحمتی گڑھ بنایا۔ 2005ء کے بعد تو کئی سالوں تک پاکستان سے پارا چنار جانے والا راستہ بند رہا اور افغانستان کے راستے ایک لمبا چکر کاٹ کر ہی یہاں پہنچنا ممکن تھا۔

اس علاقے کی بلندیاں جنگل سے ڈھکی ہوئی ہیں اور خوبصورت گاؤں ہیں، اور گرمیوں میں اس کا درجہ حرارت 37 ° C سے زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ پاراچنار شہر کوہاٹ اور ہنگو کے علاقوں کے شیعوں کا اہم سیاسی اور ثقافتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ شہر سرحدی ریاست کا واحد شہر ہے [1]۔

پاراچنار موجود قبائل

یہاں پر اکثریت طوری اور بنگش قبائیل کی ہیں۔ طوری عرصہ دراز سے یہی آباد ہیں۔ جبکہ بنگش قبائیل افغانستان سے آکر یہاں آباد ہوگئے ہیں۔ وادئ کرم میں طوری اور بنگش قبائل پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ سے آباد ہیں اور اس کا ذکر پہلی دفعہ پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی سوانح حیات "بابُرنامہ" میں کیا ہے۔ ظہیر الدین بابر نے جب افغانستان پر قبضہ مضبوط کر چکا تو ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور درہ خیبر سے ہوتے ہوئے کوہاٹ، ہنگو، ٹل اور بنوں میں قتل و غارت گری کی داستان رقم کی۔

وادی کرم وزیرستان، خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت زرخیز وادئ ہے لہٰذا یہاں کے لوگ آبا و اجداد کے وقت سے کھیتی باڑی کرتے رہے ہیں، مال مویشی رکھتے ہیں اور باغات بھی قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ لہٰذا اجناس اور میوہ جات اور مال مویشی کے حوالے سے وادی کرم نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ زمانہ قدیم سے نزدیکی علاقوں کو برآمد بھی کرتے رہے ہیں، جن میں میںٹل بازار، ہنگو، کوہاٹ اور پشاور سمیت کابل، گردیز اور ہرات تک کی مارکیٹس شامل ہیں۔ جب کہ وہاں سے وہ اشیائے ضرورت، جو وادئ کرم میں ناپید تھیں/ہیں، درآمد کرتے تھے/ہیں جن میں کپڑا، نمک، گُڑ وغیرہ شامل ہیں۔

ان سب اشیا کی خرید و فروخت، درآمد و برآمد ہندو تاجر کرتے تھے اور پشتون تجارت اور دکان داری کو گھٹیا کام سمجھتے تھے، بلکہ ’تلہ‘ یعنی ترازو کو گالی سمجھا جاتا تھا۔ یہاں پر موجود قبائل درجہ ذيل :

  • دری پلاری
  • شکرخیل
  • پاڑا خیل
  • سپین خیل
  • ستی خیل
  • جانی خیل
  • بڈے خیل
  • اکاخیل
  • مالی خیل
  • بنگش

یہ قبائل دوستی کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ طوری اور ہزارہ کے دو قبائل 100% شیعہ ہیں۔ لیکن خوشی اور بنگش قبائل میں بھی سنی ہیں۔

سیاسی تاریخ

پاراچنار اور اس کے آس پاس کے دیہات کے زیادہ تر لوگ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلامی دور میں یہ خطہ پہلے غزنویوں اور پھر غوریوں نے فتح کیا۔ آخر کار، یہ ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا الحاق بن گیا اور ان کے اہم ترین اڈوں میں سے ایک بن گیا۔ منگول حکمرانی کمزور ہوتے ہی یہ سرزمین افغان حکمرانوں کی سرزمین کا حصہ بن گئی۔ 1151ھ/1738ء میں نادر شاہ نے ہندوستان جاتے ہوئے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔

1272ھ/1856ء میں برطانوی افواج وہاں داخل ہوئیں اور اس پر قبضہ کر لیا، لیکن وہاں پر برطانوی افواج اور افغان قبیلوں کے درمیان تنازعات جاری رہے، یہاں تک کہ 1309 ہجری میں اس علاقے میں رہنے والے 1326/1947ء میں تقسیم ہند اور ملک پاکستان کے قیام کے بعد پاراچنار پاکستان کا حصہ بن گیا۔

نقشہ کی تبدیلی

جنوری 2007ء میں، کرم ایجنسی کے علاقے کے گورنر نے تقریر کی اور یہ تقریر علاقے کے شیعوں کے خلاف ایک پوشیدہ اور جامع سازش کی نشاندہی کرتی تھی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاراچنار میں سپاہ صحابہ نے مقامی حکام کے تعاون سے دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کیں اور اس گروہ کے مقامی رہنما وزارت داخلہ کی سفارش پر انہیں فاروقیہ ایسوسی ایشن (مقامی سنی اسمبلی) کا سیکرٹری منتخب کیا گیا اور اس انجمن کو سرکاری طور پر دہشت گردوں کے حوالے کر دیا گیا اور انہیں اور ان کے دوستوں کو محفوظ علاقہ بنانے کی مکمل اجازت دے دی گئی۔ یزیدی سوچ کو زندہ کرکے پاراچنار کو غیر محفوظ بنایا گیا۔

گورنر کے علاوہ کچھ دوسرے سرکاری اہلکاروں نے بھی کہا کہ 2007 میں طالبان کی اس خطے میں بڑی موجودگی ہوگی! اسی سال مارچ میں عید نظر نے ایوب نامی ایک شیعہ کو بے دردی سے قتل کر دیا جس کے ساتھ کئی دوسرے لوگ بھی تھے جس کا مقصد شباک کے علاقے میں شیعہ اور سنی کے اتحاد کو نقصان پہنچانا تھا۔ کچھ عرصہ بعد شباک اور شاشو کے ایک ہی علاقے میں شیعوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی وجہ سے نواب نے دو سنیوں کے سر قلم کر دیے!

اسی دوران اس خطے کو سیلاب کی آسمانی آفت کا سامنا کرنا پڑا اور ریاست کے گورنر نے شلوزان کے علاقے میں ایک عوامی اجتماع میں تقریر کی اور کہا: اس کے بعد پاراچنار میں 12 ربیع الاول کو ناامنی ہوگی! اس کے بعد چونکہ پاراچنار کا منصوبہ علاقے کے اہل تشیع کی جرأت مندانہ مزاحمت کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوا تھا، اس لیے پشاور میں سپاہ صحابہ نے اعلان کیا کہ اس بار کشمیر اور افغانستان کے تمام جہادی گروہ جو ہندوستان، سوویت یونین اور امریکیوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ پاراچنار کے شیعوں پر حملہ کرے گا! اس دھمکی کے بعد اگست 2007 میں شیعوں کے خلاف ایک خودکش حملہ ہوا۔

جس میں 14 افراد شہید اور 40 زخمی ہوئے، جس کا بعد میں پتہ چلا کہ بعض مقامی حکام کو اس کا علم تھا۔ جیسا کہ حملہ آور ڈپٹی گورنر کے ساتھ شہر میں آیا تھا تاکہ راستے میں سرکاری فوج اس کی گاڑی کا معائنہ نہ کر لے!

شیعہ نسل کشی پاراچنار میں آج تک جاری ہے۔ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت، فوج اور سیکورٹی اداروں کے بعض عناصر تکفیری اور سلفی وہابی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں اور ہتھیار چھپاتے ہیں اور بعض اہم عناصر ان ہولناک واقعات کے پس پردہ ہیں۔ نیز، جیسا کہ ناقابل تردید دستاویزات سے ثابت ہے، غیر ملکی حکومتیں، خاص طور پر خلیج فارس کی ریاستیں، بشمول سعودی عرب، بحرین اور قطر، ان گروہوں کی حمایت کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ امریکی حکومت اور فوج اور غاصب اسرائیل کا وہابی گروہوں کو لیس کرنے اور ان کی مدد کرنے میں بنیادی کردار ہے۔

پاراچنار سے پشاور جانیوالی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے 60 شیعہ مسلمان شہید، متعدد زخمی

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پاراچنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے 60 شیعہ مسلمان شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پاراچنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے 60 شیعہ مسلمان شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔

ذرائع کے مطابق ضلع کرم لوئر کے علاقے بگن اور اوچت میں سکیورٹی فورسز کی سربراہی میں جانے والے کانوائے میں شامل مسافر گاڑیوں پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مل کر مقامی مسلح دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ کانوائے پاراچنار سے پشاور جا رہا تھا کہ قافلے میں شامل مسافر گاڑیوں کو پہاڑوں سے نشانہ بنایا گیا۔ گاڑیوں پر خودکار ہتھیاروں سے شدید فائرنگ کی گئی۔

فائرنگ سے شہید ہونے والوں میں خاتون سمیت 60 شیعہ مسلمان شامل ہیں، جبکہ متعدد زخمی ہوگئے، جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے، جس کے باعث شہادتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ سکیورٹی حکام نے علاقے کی ناکہ بندی کرکے دہشتگردوں کی تلاش شروع کر دی ہے[2]۔

رد عمل

آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی

پاکستان کے شہر پاراچنار میں دہشت گردوں کی جانب سے معصوم مسافروں پر ہونے والے حملے کی نجف اشرف میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے دفتر نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے شہر پاراچنار میں دہشت گردوں کی جانب سے معصوم مسافروں پر ہونے والے حملے کی نجف اشرف میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے دفتر نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس حملے میں کئی بے گناہ مؤمنین شہید اور زخمی ہوئے، جس پر مرجع تقلید نے پاکستانی حکومت سے دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے کی تاکید کی ہے۔

بیانیہ کا مکمل متن اس طرح ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

إنا لله وإنا الیه راجعون

مومنینِ کرام، اہلِ پاراچنار (پاکستان)

السلام علیکم و رحمۃ الله وبرکاتہ

ایک بار پھر سنگدل دہشت گردوں نے ایک خوفناک جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے، پاراچنار سے پشاور جانے والے معصوم مسافروں پر مسلح حملہ کر کے کئی بے گناہ مؤمنین کو شہید اور زخمی کر دیا۔

ہم اس المناک سانحے پر دلی تعزیت پیش کرتے ہیں اور شہداء کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کو صبر جمیل عطا فرمائے، زخمیوں کو جلد صحت یابی نصیب ہو، اور شہداء کو بلند درجات سے نوازے۔

حوزہ علمیہ نجف اشرف اور مرجعیت شیعہ اس ہولناک واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، جو امت مسلمہ کے اتحاد کو نشانہ بنانے کی سازش ہے۔ ہم حکومت پاکستان سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان بے سہارا عوام کو دہشت گرد گروہوں کے مظالم اور جرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ ضروری ہے کہ ایسے پیشگی اقدامات کیے جائیں جن سے بے گناہ مؤمنین ان سنگدل اور شدت پسند گروہوں کی پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننے سے بچ سکیں۔

ہم خداوند متعال سے دعا گو ہیں کہ پاکستان کے معزز اور شریف عوام کو ہمیشہ عزت اور سربلندی عطا فرمائے۔

20 جمادی الاول 1446ھ

22 نومبر 2024ء

دفتر آیت اللہ العظمی سیستانی – نجف اشرف [3]۔

آيت اللہ بشير نجفی

پاراچنار کے مظلوم مومنین پر ظلم کے خلاف دفتر آیت اللہ العظمیٰ حافظ بشیر حسین نجفی کا مذمتی بیان آيت اللہ بشير نجفی دفتر آیت اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی نے پاراچنار کے مومنین کو نشانہ بنائے جانے پر ایک بیان جاری کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دفتر آیت اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی نے پاراچنار کے مومنین کو نشانہ بنائے جانے پر عربی زبان میں ایک بیان جاری کیا ہے جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

قال الله سبحانه:

﴿ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، أُوْلَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴾

صدق اللہ العلی العظیم۔

پاراچنار میں ہمارے عزیزوں کے غم کی وجہ سے آج عزا کی تجدید ہوگئی ہے، غداری، ظلم و ناانصافی اور جارحیت کی وجہ سے درجنوں شہید یا زخمی ہو گئے۔ ہم بارگاہ خداوندی میں اس کی شکایت کرتے ہیں اور صاحب الزمان (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اور اپنے شہداء اور زخمیوں کے اہل خانہ کی خدمت میں اس دردناک مصیبت پر دل کی گہرائیوں سے تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔

یہ وہ مصیبت ہے کہ جس کے حل کے لیے ہمیں ذمہ دار اداروں میں سنجیدگی نظر نہیں آتی، حالانکہ ہم نے اپنے گزشتہ بیانوں میں متنبہ بھی کیا تھا اور یہ سب کچھ جو ہوا ان کی نظروں کے سامنے ہوا۔

﴿ ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم﴾ [4]۔

پاکستانی حکومت

لوئر کرم (ڈیلی پاکستان آن لائن) خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 38 افراد جاں بحق ہوگئے۔ جیو نیوز کے مطابق ضلع کرم میں پارا چنار سے پشاور جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر اوچت کے مقام پر مسلح افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی ۔

غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق فائرنگ سے 38 افراد جاں بحق ہوگئے اور متعدد زخمی ہیں۔ واقعے کے بعد سکیورٹی حکام نے علاقے کی ناکہ بندی کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے۔ صدر مملکت آصف زرداری نے بھی ضلع کُرّم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نہتے مسافروں پرحملہ انتہائی بزدلانہ اور انسانیت سوز عمل ہے، شہریوں پر حملے کے ذمےداران کو کیفر کردار پہنچایا جائے۔

واقعے کے بعد وزیرداخلہ محسن نقوی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے حملوں پر اظہارتشویش کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا جب کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے سکیورٹی صورتحال پر مزید روابط اور اتفاق رائے پر زور دیا۔ وزیراعلیٰ کے پی نے بھی ضلع کرم میں مسافروں گاڑیوں پر مسلح افراد کے حملے کی مذمت کرتےہوئے صوبائی وزیرقانون، متعلقہ ایم این اے و ایم پی اے،چیف سیکرٹری کو کرم کا دورہ کرنے کی ہدایت کی۔

علی امین گنڈاپور نے ہدایت کی کہ وفد کرم جاکر وہاں کے معروضی حالات کا خود جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے، کرم میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سابقہ جرگے کو دوبارہ فعال کیا جائے۔ وزیر اعلی خیبر پختونخوا کی جانب سے حملے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان بھی کیا گیا [5]۔

ایران

کرم ایجنسی میں دہشت گردی، ایران کا حکومت پاکستان اور شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی ایرانی حکومتی ترجمان نے کرم ایجنسی میں دہشت گردی پر حکومت پاکستان اور شہداء کے لواحقین سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی حکومتی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے گذشتہ روز کرم ایجنسی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں 42 افراد کی شہادت پر حکومت پاکستان اور شہداء کے لواحقین سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے حملے میں بڑی تعداد میں شہادتوں پر ایرانی حکومت تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔ گذشتہ روز پاراچنار سے پشاور جانے والے مسافروں کے قافلے پر مسلح دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 42 افراد شہید ہوگئے۔ شہداء میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ واقعے کے بعد پاکستانی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ شیعہ اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کرچکے ہیں[6]۔

ایرانی صدر

کرم ایجنسی میں دہشت گردی، صدر پزشکیان کی پاکستانی حکومت اور شہداء کے لواحقین سے تعزیت ایرانی صدر پزشکیان نے کرم ایجنسی میں دہشت گردی پر پاکستانی حکومت اور شہداء کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پاکستانی صوبے خیبر پختونخواہ کے علاقے کرم ایجنسی میں دہشت گرد حملے میں بے گناہ لوگوں کی شہادت پر پاکستانی حکومت اور شہداء کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گرد حادثے میں درجنوں افراد کی شہادت اور زخمی ہونے پر حکومت پاکستان اور شہداء کے لواحقین کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔ صدر پزشکیان نے کہا کہ دہشت گردی کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ اس حساس واقعے پر ایران پاکستانی حکومت اور شہداء کے لواحقین کے ساتھ ہے اور دونوں ممالک مل کر دہشت گردی کے خلاج جدوجہد کریں گے۔ اس سے پہلے ایرانی وزیرخارجہ اور حکومتی ترجمان نے بھی پاکستانی حکومت اور شہداء کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے[7]۔

ایرانی وزیر خارجہ

ایران اور پاکستان مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے، ایرانی وزیر خارجہ کرم ایجنسی میں دہشت گردی پر اپنے تعزیتی پیغام میں ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ ایران اور پاکستان مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی صوبے خیبر پختونخواہ کے سرحدی علاقے پاراچنار میں دہشت گردوں مسافروں کے قافلے پر حملہ کرکے 42 افراد کو شہید کردیا جس میں خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہیں۔

واقعے کے بعد اندرون ملک اور بیرون ملک شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ تکفیری دہشت گردوں کے حملے کی دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم پاراچنار کے بے گناہ مسافروں پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم شہداء کے لواحقین، پاکستانی عوام اور حکومت کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد شفایابی کی دعا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کسی بھی شکل اور صورت میں ہو، قابل مذمت ہے اور عمومی سطح پر اس کی مذمت اور حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ عراقچی نے کہا کہ ایران اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہیں اور یہ جنگ ہمارا مشترکہ ہدف ہے۔ ہم اس لعنت کی جڑ اکھاڑ کر پھینکنے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے [8]۔

مدیر حوزہ علمیہ قم ایران

پاکستانی حکومت شیعہ مسلمانوں کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کرے / تفرقہ پیدا کرنے والوں اور انتہا پسند گروہوں کو جرائم کی اجازت نہ دے آیت الله اعرافی مدیر حوزہ علمیہ نے کہا: پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو چاہئے کہ وہ بے یار و مددگار اور مظلوم شیعہ مسلمانوں کو دہشت گرد گروہوں کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے تدابیر اختیار کریں، ان جرائم کے اعادے کو روکیں اور پاکستانی ملت کے اتحاد کے دشمنوں اور مجرم عناصر کو معصوم اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم اور انتہا پسند و جاہل گروہوں کا شکار ہونے کی اجازت نہ دیں۔

حوزہ علمیہ کے سربراہ آیت اللہ اعرافی اپنے ایک پیغام میں پاکستان کے شہر پاراچنار کے مسلمانوں پر انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہونے والے مظالم پر گہرے دکھ کا اظہار کیا، ان جرائم کی شدید مذمت کی اور مسلمانوں کے خلاف ان ظالمانہ سانحات کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کے پیغام کا متن درج ذیل ہے:

پاکستان کے علاقے پاراچنار میں اہل بیت علیہم السلام کے حقیقی اور مخلص پیروکار مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے دہشت گرد اور تکفیری گروہوں، استکباری قوتوں اور صیہونی ایجنٹوں کے ہاتھوں شہید ہونے کی خبر نے شدید رنج و غم میں مبتلا کر دیا ہے۔

یقیناً اسلام دشمن عناصر اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے مخالفین، اپنے ان اجرتی مجرم گروہوں کے ذریعہ پاکستان میں شیعہ اور اہل سنت مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستانی حکومت شیعہ مسلمانوں کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کرے / تفرقہ پیدا کرنے والوں اور انتہا پسند گروہوں کو جرائم کی اجازت نہ دے

پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ مظلوم اور بے سہارا شیعہ مسلمانوں کے تحفظ اور ان دہشت گرد گروہوں کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں، ان جرائم کی تکرار کو روکیں اور پاکستانی ملت کے اتحاد کے دشمنوں کو معصوم مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے کی اجازت نہ دیں۔

میں اپنی جانب سے اور حوزہ علمیہ جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے اس المناک سانحہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، جس میں بے گناہ شیعہ مسلمانوں کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ ان شہداء کی قربانیوں کو پاکستانی قوم، مذہبی و ثقافتی اداروں اور خاص طور پر متاثرہ خاندانوں کی خدمت میں تسلیت پیش کرتا ہوں۔ خداوند متعال سے شہداء کے درجات کی بلندی، زخمیوں کی جلد صحت یابی اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتا ہوں۔

علی رضا اعرافی

سرپرست حوزہ علمیہ[9]۔

ایرانی سفارت خانہ

کرم ایجنسی میں دہشت گرد حملہ، ایرانی سفارت خانے کی مذمت اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے نے کرم ایجنسی میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلام آباد میں واقع ایرانی سفارت خانے نے کرم ایجنسی میں پاراچنار سے پشاور جانے والے مسافروں کے قافلے پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

سفارت خانے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی سے پورے خطے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ دہشت گردی جہاں بھی ہوجائے، مذمت کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ پاراچنار سے پشاور جانے مسافروں کے قافلے پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں 42 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ ابھی تک کسی گروہ نے واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے [10]۔

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے

سید ساجد علی نقوی کی پاراچنار میں دہشتگردی کے واقعہ کی شدید مذمت انہوں نے پاکستان کے علاقہ ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ کو انتہائی گھناؤنا عمل قرار دیا ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے پاکستان کے علاقہ ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ کو انتہائی گھناؤنا عمل قرار دیا ہے۔

قائد ملت جعفریہ نے کہا: ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے مسلح افراد کی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے شہادتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکام اور پاکستان کے ذمہ دار افراد سے تقاضا کیا ہے کہ شہداء کے قاتلوں کو کیفر و کردار تک پہنچایا جائے۔

انہوں نے مزید کہا: ضلع کرم کے شہریوں کی آمد و رفت اور حفاظت کو یقینی بنایا جائے اور اس واقعہ کے قاتلوں اور مجرموں کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ علامہ سید ساجد نقوی نے کہا: ہم ضلع کرم کے شہید مسافروں کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ سید ساجد علی نقوی نے کہا: ضلع کرم، پاراچنار میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ حالات خراب کرنے کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی، ان شاءاللہ[11]۔

کون عناصر پاراچنار میں امن نہیں چاہتے؟صوبائی اور وفاقی حکومت ہوش کے ناخن لیں

کون عناصر پاراچنار میں امن نہیں چاہتے؟صوبائی اور وفاقی حکومت ہوش کے ناخن لیں راجہ ناصر عباس جعفری پاراچنار اور ضلع کرم میں کشیدہ حالات کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟ کون سے عناصر ہیں جو پاراچنار میں امن نہیں چاہتے؟ میں صوبائی اور وفاقی حکومت کو ایک مرتبہ پھر ہوش کے ناخن لینے کی انتباہ کرتا ہوں۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پارہ چنار میں شیعہ نسل کشی کے واقعہ کے خلاف اپنے بیان میں کہا ہے کہ خیبرپختونخواہ کے ضلع کرم اوچت(بگن)میں دہشتگردوں کی کانوائے پر فائرنگ کے نتیجے میں کم و بیش40 افراد کی شہادت یا زخمی ہونے پر انتہائی افسردہ ہوں۔

دہشتگردی کی اس گھناونی واردات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم نے ضلع کرم اور پاراچنار کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو کئی پریس کانفرنسز، احتجاجات، میٹنگز اور پیغامات کے ذریعے خبردار کیا ہے لیکن کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ صوبائی حکومت کی درجنوں میٹنگز اور کئی جرگے بھی اس ظلم کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ وزیرا علیٰ خیبرپختونخواہ صوبے میں امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ضلع کرم(پاراچنار) کا ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او تک بدلنے کے اختیارات نہیں رکھتے۔ افسوس؛ ہمارے سیکیورٹی ادارے معاملات کو حل کرنے کے بجائے، جنگ کی آگ کو بڑھکانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ پاراچنار اور ضلع کرم میں کشیدہ حالات کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟ کون سے عناصر ہیں جو پاراچنار میں امن نہیں چاہتے؟ میں صوبائی اور وفاقی حکومت کو ایک مرتبہ پھر ہوش کے ناخن لینے کی انتباہ کرتا ہوں[12]۔

امام جمعہ سکردو بلتستان

پارہ چنار پاکستان کا غزہ بن چکا، خوارجی دہشتگرد آزاد اور دن دہاڑے کارروائیاں کر رہے ہیں، امام جمعہ سکردو علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے پارا چنار سے سیکورٹی فورسز کے حصار میں پشاور جانے والے قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی متعدد شہادتوں پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی سرپرستی میں جانے والے قافلے پر فائرنگ قابلِ تشویش ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے پارا چنار سے سیکورٹی فورسز کے حصار میں پشاور جانے والے قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی متعدد شہادتوں پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی سرپرستی میں جانے والے قافلے پر فائرنگ قابلِ تشویش ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پارا چنار میں تسلسل کے ساتھ حالات خراب کیے جارے ہیں، پارہ چنار پاکستان کا غزہ بنا ہوا ہے اور خوارجی دہشتگرد آزاد اور دن دہاڑے دہشتگردانہ کاروائیاں کر رہے ہیں۔

امام جمعہ سکردو نے مزید کہا کہ سیکورٹی اداروں کی سرپرستی میں جانے والے قافلے پر دہشتگردوں کی جانب سے فائرنگ کرنا سیکورٹی اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے پاکستان آرمی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں پاک فوج کو متنبہ کرتا ہوں کہ دہشتگردوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کر کے ان کا قلع قمع کرے، جب عوام کانوائے میں بھی محفوظ نہیں تو یہ سیکورٹی اداروں کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کل نمازِ جمعہ کے بعد نمازیوں سے احتجاجی مظاہرے میں بھر پور انداز میں شرکت کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے[13]۔

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان

دہشت گردوں کا فوجی حفاظتی حصار میں جانے والے قافلوں پر حملہ، سمجھ سے بالاتر ہے۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان نے گزشتہ روز پاکستان آرمی کے حفاظتی حصار میں پارا چنار سے پشاور جانے والے شیعہ مسلمانوں کی المناک شہادتوں پر دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حیرت ہے کہ دہشت گرد فوجی حفاظتی حصار میں جانے والے قافلوں پر حملہ آور ہوئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری نے پشاور سے پارا چنار جانے والے مسافروں پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہتے شہریوں پر دہشت گردوں کا حملہ دل خراش سانحہ ہے۔ حیرت ہے کہ دہشت گرد فوج کے حفاظتی حصار میں جانے والے قافلوں پر حملہ آور ہوئے۔ پارہ چنار کے راستوں کو مستقل بنیادوں پر محفوظ بنایا جائے۔ علاقے میں امن کے قیام کے لیے آرمی آپریشن ضروری ہے۔

میڈیا سیل کی طرف سے جاری مذمتی بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ پارا چنار کے عوام ایک عرصے سے دہشت گردی اور حکومتی بے حسی کا شکار ہیں۔ پاراچنار افغان بارڈر کے ساتھ واقع علاقہ ہے، جہاں ریاستی ادارے امن قائم کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ کافی عرصے سے جاری مسلسل دہشت گردی سے لگتا ہے حکمران پارا چنار اور پشاور روڈ کو محفوظ بنانے میں ناکام ہیں۔ ریاستی اداروں کو اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارا چنار ایک عرصے سے غیر انسانی رویوں کا بھی شکار ہے۔ پشاور پارا چنار ٹل روڈ بند ہونے کی وجہ سے علاقے میں پٹرول، ڈیزل، کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات دستیاب نہیں اور تعلیمی ادارے بند ہیں [14]۔

جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان

ضلع کرم دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع افسوس ناک ہے۔ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کرم میں 38 افراد کے قتل پر کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں۔ضلع کرم میں درجنوں افراد کے قتل پر اپنے جاری بیان میں انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ضلع کرم میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع افسوس ناک ہے، واقعہ حکومت، اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی ہے، آئے روز آپریشن کے فیصلے ہوتے ہیں لیکن دہشت گردی کسی کے قابو میں نہیں۔انہوں ںے مزید کہا کہ مقتولین کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتا ہوں[15]۔

ایف سی کی جگہ کرم ملیشیا کو تعیینات کیا جائے

کرم ایجنسی میں دہشت گردی، ایف سی کی جگہ کرم ملیشیا کو تعیینات کیا جائے۔ ضلع کرم سے ممبر قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین کہا ہے کہ کرم ایجنسی کا روڈ محفوظ کیا جائے اور غیر مقامی افراد کی جگہ روڈ کی سیکورٹی مقامی اہلکاروں کے حوالے کی جائے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پاراچنار سے پشاور جانے والے مسافروں کے قافلے پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں اب تک خبروں کے مطابق 45 افراد شہید ہوگئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

دہشت گرد حملے کے بعد عوام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ ضلع کرم سے ممبر قومی اسمبلی اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پارلیمانی لیڈر انجینئر حمید حسین مہر نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے دہشت گرد واقعے کی شدید مذمت کی اور راستے کی سیکورٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے بھی ایک واقعہ ہوا تھا جس میں اسی طرح اہل سنت برادری کے قافلے پر اٹیک ہوا تھا۔ واقعے میں دس سے بارہ لوگ شہید ہوگئے تھے جن میں بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ اس وقت بھی آگے پیچھے سیکیورٹی تھی۔

اس کے باوجود جو ہونا تھا ہو گیا۔ کل کے واقعے میں بھی قافلے پر سیکورٹی کی موجودگی میں اٹیک ہو جاتا ہے اور سیکیورٹی کے ایک بندے کو بھی خراش نہیں آتا اور 45 بندے شہید کیے جاتے ہیں۔ جو حفاظت کے لیے ان کے ساتھ آئے تھے، ان کو کچھ نہ ہونا سوالیہ نشان ہے۔ یہاں لوگ یہی پوچھ رہے ہیں کہ سیکورٹی میں لوگ آرہے ہیں، سیکیورٹی ساتھ ہے اور لوگ مر رہے ہیں جبکہ سیکورٹی اہلکاروں میں سے کسی کو کچھ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ سکیورٹی دستوں میں فوج اور ایف سی دونوں کے اہلکار تھے۔ اتنے بڑے قافلے کو مختصر سیکورٹی میں بھیجنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں کافی عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ لوگوں اور مسافروں کے بجائے روڈ کو محفوظ بنائیں۔ روڈ کی سیکورٹی کو یقینی بنائیں لیکن ہماری شنوائی نہیں ہوئی اور ہماری تجاویز کو کسی نے قبول نہیں کیا۔ چند سیکورٹی اہلکاروں اور گاڑیوں کے درمیان میں سو مسافر گاڑیوں کو رکھنا لوگوں کو باندھنے کے مترادف ہے۔ وہ بیچارے کچھ نہیں کرسکتے ہیں اور اس طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔

حمید حسین نے مزید کہا کہ یہ واقعات نہ زمینی تنازعات کا شاخسانہ ہیں اور نہ مذہبی فسادات ہیں۔ ضلع کرم واحد علاقہ جہاں کا زمینی ریکارڈ موجود ہے لہذا ان ریکارڈز کی موجودگی میں کوئی تنازع نہیں ہے۔ اگر ہے تو بھی حکومت چاہے تو ایک دو دنوں میں حل کرسکتی ہے۔ یہ واقعہ مذہبی فسادات بھی نہیں ہے کیونکہ اس میں جو 31 افراد بچ گئے تھے انہوں نے اہل سنت برادران کے گھروں میں جاکر اپنی جان بچائی ہے۔ اہل سنت نے ان کو احترام کے ساتھ رکھا اور باعزت اپنے گھروں تک پہنچادیا۔ اگر مذہبی فسادات ہوتے تو یہ افراد کیسے بچ گئے؟ یہ سب کسی خاص مقصد کے تحت کروایا گیا ہے۔

انہوں نے حملہ آوروں کے بارے میں کہا کہ ان کا کچھ پتہ نہیں چلتا ہے۔ وہ جنات کی طرح فورا غائب ہوجاتے ہیں۔ یہی تو ہمارا سوال ہے کہ 45 عام افراد مارے جاتے ہیں لیکن ان کا کوئی بندہ مارا نہیں جاتا ہے۔

پاکستانی رکن قومی اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ ضلع میں روڈ کی سیکورٹی کرم ملیشیا کے حوالے کی جائے جس میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں۔ ہمیں اپنا کرم ملیشیا واپس کردیں اور ایف سی کو جو بعض اوقات یکطرفہ کارروائی کرتی ہے، علاقے سے واپس لے جائیں۔ اس طرح امن واپس آسکتا ہے۔ رکن قومی اسمبلی نے عوام سے کہا کہ باہمی اختلافات کو چھوڑ دیں۔ اختلافات اور جھگڑوں میں ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جب ہم آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں گے تو علاقے میں امن آئے گا [16]۔

پاراچنار کے واقعے نے تکفیریوں کا مکروہ اور وحشتناک چہرہ عیاں کردیا

پاراچنار کے واقعے نے تکفیریوں کا مکروہ اور وحشتناک چہرہ عیاں کردیا، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے پاراچنار میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تکفیریوں نے نہتے شہریوں پر حملہ کرکے دنیا کے سامنے اپنا وحشتناک اور قبیح چہرہ عیاں کردیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں دہشت گردوں کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں کے قتل عام پر دنیا بھر میں شدید مذمت کی جارہی ہے۔ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے دہشت گرد حملے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ برادر ملک پاکستان کے شہر پاراچنار میں دہشت گردی کے واقعے میں بے گناہ مومنین کو قتل کیا گیا۔ تکفیریوں نے اس واقعے کے ذریعے دنیا کو ایک مرتبہ پھر اپنا مکروہ اور وحشتناک چہرہ دکھادیا ہے۔

استکبار اور صہیونیت کے ایجنٹ پاکستان میں شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات ایجاد کرنا چاہتے ہیں تاکہ وحدت امت مسلمہ کے ذریعے استکبار کی راہ میں آنے والی رکاوٹ کو ختم کیا جائے۔ اگرچہ صہیونی منصوبے کو دقت اور پیچیدہ طریقے سے بنایا گیا ہے تاہم علماء کی کوششوں سے یہ سازشیں ناکام ہوں گی اور ان واقعات میں ملوث عناصر کا چہرہ سامنے آئے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت پاکستان شیاطین کی ان سازشوں سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹ نہ لے تو پاکستان کی سیکورٹی مخدوش ہوجائے گی۔ ان فتنوں میں ملوث عناصر کے خلاف تدبیر کرتے ہوئے مظلوم شیعوں کی حفاظت کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم پاکستان کے مجاہد علماء، پاراچنار کے عوام اور شہداء کے لواحقین کے ساتھ اس غم میں برابر شریک ہے۔ اللہ تعالی شہداء کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت کرے اور زخمیوں کو جلد شفا عطا کرے[17]۔

ادویات کی فراہمی اور زخمیوں کی منتقلی ایئر ایمبولینس پارچنار جائے گی

ائیر ایمبولینس.jpg

شیعہ علماء کونسل پاکستان کی طبی امداد: ادویات کی بڑی کھیپ پارا چنار روانگی کے لیے تیار قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی (دامت برکاتہ) کی خصوصی ہدایت پر شیعہ علماء کونسل پاکستان نے ایک اہم اقدام اٹھایا ہے۔ تنظیم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کی کاوشوں اور اعلیٰ سطحی رابطوں کے نتیجے میں، آئندہ ایک یا دو روز میں ائیر ایمبولینس کے ذریعے زہراء اکیڈمی پاکستان کی جانب سے ادویات کی بڑی کھیپ پارا چنار پہنچائی جائے گی۔

پارا چنار میں یہ ادویات مریضوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ائیر ایمبولینس کے ذریعے وہاں کے مریضوں کو پشاور منتقل کرنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ یہ اقدام ضلع کرم کے عوام کے لیے طبی امداد کی فراہمی میں ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔ امن و امان کے قیام کی اہمیت اس موقع پر علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

“ضلع کرم میں امن و امان کے لیے کی جانے والی کاوشوں کا کامیاب ہونا ضروری ہے۔ مکمل قیامِ امن تمام پاکستانیوں کے لیے خوش آئند ہوگا۔” دعائے خیر اور تعمیرِ وطن کا عزم۔ انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ پاکستان بھر میں امن و امان برقرار رکھے اور ضلع کرم میں اتحاد و وحدت کے ذریعے عوام ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ قائد ملت جعفریہ کا اہم اقدام

علامہ سید ساجد علی نقوی نے ضلع کرم میں طبی امداد کی فراہمی کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ انہی کاوشوں کے تحت ائیر ایمبولینس کے ذریعے ادویات کی فراہمی ممکن ہوئی ہے، جو کہ ایک دو دن میں پارا چنار پہنچ جائے گی۔ یہ اقدام نہ صرف انسانی خدمت کی عمدہ مثال ہے بلکہ ملک میں اتحاد اور امن کے فروغ کے لیے قائد ملت جعفریہ کی بصیرت کا بھی عکاس ہے[18]۔

پارا چنار میں خوراک، ادویات کی قلت، کئی بچے شہید

پاراچنار کے عوام ادویات اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ کئی معصوم بچے مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاراچنار کے مظلوم عوام گزشتہ 65 دنوں سے محاصرے کی اذیت سے دوچار ہیں۔ ادویات کی قلت کے باعث معصوم بچوں کی اموات اور خوراک کی شدید کمی نے علاقے میں انسانی بحران کو جنم دے دیا ہے۔ پیٹرول سمیت دیگر ضروری ضروریات زندگی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں، ا2024ءور عوام فاقوں پر مجبور ہیں۔

پاراچنار کے عوام ادویات اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ کئی معصوم بچے مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ عوام روزے رکھنے پر مجبور ہیں۔ صورتحال اس حد تک سنگین ہو چکی ہے کہ فاقوں سے موت کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق، پاراچنار جانے والے راستے کی بندش کے باعث علاج معالجے کی سہولیات اور جان بچانے والی ادویات کی قلت سے سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔پیٹرول اور اشیائے خورد و نوش کی شدید قلت کے باعث عوام انتہائی مشکلات کا شکار ہیں، ریاست دہشت گردوں کے قبضے کے باوجود بے بس دکھائی دیتی ہے[19]۔

پاکستان کے جید علمائے کرام اور عمائدین پاراچنار کا مشترکہ اعلامیہ

مشترکہ اعلامیہ.jpg

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی سے کرم پاراچنار سے تشریف لائے انجمن حسینیہ پاراچنار کے وفد نے علامہ انور نجفی کی میزبانی میں جامعۃ الکوثر میں ملاقات کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی سے آجمورخہ ۶ا دسمبر ۲۰۲۴ء بروز پیر کرم پاراچنار سے تشریف لائے انجمن حسینیہ پاراچنار کے وفد نے علامہ انور نجفی کی میزبانی میں جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں ملاقات کی اور پاراچنار کے حالات سے قائد ملت جعفریہ پاکستان کو بریفنگ دی۔

ضلع کرم کے مشران و عمائدین نے قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی اور دیگر جید علمائے کرام سے پاراچنار کی عوام کو در پیش سنگین انسانی بحران اور مقامی کشیدگی کے حوالے سے اہم ملاقات کی اور ان کو امن وامان کے قیام کے لیے منعقدہ جرگہ سمیت دیگر صور تحال پر مکمل بریف کیا۔ جس کے بعد پاکستان کے جید علمائے کرام اور عمائدین و ممبران جرگه پارا چنار نے متفقہ طور پر مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا۔ تمام جید علمائے کرام و عمائدین پارا چنار نے مقامی عوام کو اگلے لائحہ عمل تک پر امن رہنے کی بھی تلقین کی۔

اعلامیه کا متن حسبِ ذیل ہے

1

ضلع کرم بالخصوص پاراچنار کی عوام کے لئے گزشتہ ۶۷ دنوں سے راستوں کی بندش اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے پارا چنار کے زمینی راستے منقطع ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اور حکمرانوں کے اس اقدام کو غیر انسانی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے اور اس انسانی بحران کی کیفیت کے باعث حکمرانوں سے فی الفور راستوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

2

حکمران ملک کے دیگر حصوں کی طرح پاراچنار کی محب وطن عوام کا تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ترجیہی بنیادوں پر انتظامات کریں۔

3

راستوں کی بندش کی وجہ سے ادویات کے ناپید ہونے کے باعث معصوم بچوں اور بزرگوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں جو انسانی المیہ کے مترادف ہے لہذا حکمران فوری طور پر پاراچنار ادویات باہم پہنچا کر مزید انسانی جانوں کو نقصان سے بچائیں۔

4

مقامی عوام کو راستوں کی بندش کے باعث اشیائے خوردونوش و دیگر ضرویات زندگی کی شدید قلت کا سامنا ہے جو ایک انسانی المیہ ہے لہذا حکمران ترجیبی بنیادوں پر عوام کو تمام ضروریات زندگی باہم پہنچانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائیں۔

5

اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ حکمران تمام نکات پر فی الفور عمل درآمد کو ممکن بنائیں بصورت دیگر اگلے مرحلے پر ملک گیر لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی، سربراہ مجلس وحدت مُسلمین پاکستان سینیٹر علّامہ راجہ ناصر عباس جعفری، مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء پاکستان علامہ شبیر حسن میثمی، علامہ شیخ شفا نجفی، مرکزی نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی، وفاق المدارس سے علامہ افضل حیدری، علامہ سید واجد علی شاہ، سابقہ سینٹر سجاد طوری، ایم این اے حمید حسین، پیش نماز جامع مسجد پاراچنار علامہ شیخ فدا حسین مظاہری،مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد علی اخونزادہ سمیت دیگر شخصیات بھی موجود تھیں[20]۔

پارا چنار میں راستوں کی بندش ، ادویات کی قلت ،50 بچے جاں بحق

پاکستانی میڈیا کے مطابق راستوں کی بندش سے علاج نہ ملنے سے اب تک مبینہ طور پر 50 بچے دم توڑ گئے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ضلع کرم میں پشاور پاراچنار مرکزی شاہراہ سمیت آمدورفت کے راستوں کی بندش 75 روز بھی جاری رہی۔

تفصیلات کے مطابق شہر میں اشیائے خوردونوش، ادویات، تیل، لکڑی، ایل پی جی کی شدید قلت ہوگئی جبکہ آمدورفت کے راستوں کی بندش کیخلاف شہریوں نے گزشتہ روز سے پریس کلب کے باہر شدید سردی میں احتجاجی دھرنا دیا ہوا ہے۔

مظاہرین نے کہا کہ مرکزی شاہراہ اور افغان بارڈر سمیت راستوں کی بندش سے شہری بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں، اشیائے خورونوش سمیت روز مرہ استعمال کی اشیا ختم ہوچکیں۔ اْدھر ایدھی ذرائع کے مطابق راستوں کی بندش سے علاج نہ ملنے سے اب تک مبینہ طور پر 50 بچے دم توڑ گئے جن میں سے 31 اموات ڈی ایچ کیو اور باقی اطراف کے ہسپتالوں میں ہوئیں[21]۔

پاراچنار میں شیعوں کے قتل عام سے دواوں کی قلت تک اسباب و محرکات

پارا چنار کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ خوراک اور ادویات کی قلت نے عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہو سکے اور علاقے میں امن و امان بحال ہو۔ ابھی شیعوں کے اوپر سفاکہ حملوں کا زخم مندمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ پارا چنار پھر سے ایک اجتماعی منصوبہ بندی نسل کشی کا شکار ہو گیا جس طرح اس وقت پارا چنار میں مسلسل دواوں کی قلت ہے اور معمولی دوائیں بھی دستیاب نہیں وہ آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور کے لئے ایک کلنک ہے۔

بعض بہت معمولی دوائیں جو ہر دیہات و گاوں میں مل جاتی ہیں جیسے پیناڈول کی گولی یہ بھی بعض ذرائع کے مطابق پاراچنار میں دستیاب نہیں تو بڑی بیماریوں کی بات ہی کیا آکسیجن کی کمی سے بچے ماں باپ کی آغوش میں دم توڑ رہے ہیں پاراچنار بر ضغیر کا غزہ بنا ہوا ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ۔

آپ نے چند ہفتوں قبل سنا کہ کس طرح تکفیری عناصر نےمحض شیعہ ہونے کی بنیاد پر گاڑیوں کے ایک قافلے پر حملہ کر کے عورتوں بوڑھوں اور جوانوں اور دودھ پیتے بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کر کے شہید کر دیا ۔

یاد رہے ہے کہ پارا چنار، جو خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں واقع ہے، حالیہ دنوں میں شدید کشیدگی اور دہشت گردی کے واقعات کا شکار رہا ہے اسی کے چلتے 22 نومبر 2024 کو ایک مسافر قافلے پر ہونے والے حملے میں 100 کے قریب افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے اس واقعے کو انسانی حقوق اور امن کے خلاف سنگین جرم قرار دیا ہے، یہ ایسا واقعہ تھا جس کی مذمت دنیا بھر کےمختلف سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے کی ہے۔ یہ حملے عموماً فرقہ وارانہ تشدد کے پس منظر میں ہو رہے ہیں جس کے لئے پاکستان کی زمین ہمیشہ ہی زرخیز رہی ہے اور مسلسل یہاں دہشت گرد عناصر پھلتے پھولتے رہے ہیں اور انہیں بیرونی تعاون بھی حاصل ہوتا رہا ہے ۔

پاراچنار میں شیعوں کی موجودہ صورت حال

شیعوں کے خلاف ۔مسلسل حملوں اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں علاقے میں اشیائے خوردونوش کی قلت اور طبی سہولیات کی کمی شدت اختیار کر چکی ہے۔ ہر طرف سے بیماروں کی کراہنے بچوں کے سسک سسک کے ماں باپ کے ہاتھوں میں دم توڑنے کے بعد ایک والدین کی بلند فریادوں کو سنا جا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت نے حالات کو قابو میں لانے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کے ساتھ جرگے کے نظام کو فعال کرنے کی کوشش کی ہے یہ کوشش اگر کامیاب بھی ہوئی تو محض تنازعات کو ختم کر سکتی ہے۔

مریضوں اور بیماروں کے لئے طبی سہولیات کی ضرورت ہے جس پر کسی کی توجہ نہیں رہی بات تنازعات کی تو وہ بھی اب تک مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے ہیں یہ صورتحال امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے مقامی و قومی سطح پر مضبوط اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ امن کے قیام کے لیے دیرپا حل اور تمام فریقوں کی شمولیت کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور سیرہ پیغمبر ص کو محور بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے قابل ذکر ہے۔

پارا چنار میں شیعہ قوم ایک طویل عرصے سے فرقہ وارانہ تشدد، زمین کے تنازعات، اور دہشت گردی کے حملوں کا سامنا کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں، ان پر ہونے والے حملوں نے ان کی حالت کو مزید خراب کر دیا ہے۔ 22 نومبر 2024 کو پیش آنے والے مسافروں کے قافلے پر حملے میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد کی شہادت ایک بار پھر اس مسئلے کو نمایاں کرتی ہے کہ ایک امن پسند قوم کو مسلسل نشانہ بنا کر کچھ لوگ اس وقت جب دنیا صہیونیزم کے خلاف متحد ہو رہی ہے ایک مسلکی جنگ چھیڑ کر اس بات پر وادار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی جوابی کاروائیاں کرے اور پھر دشمن داخلی جنگ چھیڑ کر ایک اسلامی ملک کو درونی جنگ میں الجھا کر جہان اسلام کے بڑھتے دباو کو کم کرے ۔

فرقہ وارانہ کشیدگی اور پارا چنار

تاریخی پس منظر سے دیکھا جائے تو پارا چنار میں شیعہ قوم کا وجود تاریخی طور پر اہم ہے، لیکن علاقے میں موجود دیگر قبائل کے ساتھ زمین کے تنازعات اور فرقہ وارانہ اختلافات کے باعث اس کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور ان تنازعات نے وقتاً فوقتاً تشدد کو جنم دیا ہے۔ حالیہ جھڑپیں واضح طور پر فرقہ واریت پر مبنی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف جانی نقصان کا سبب بن رہی ہے بلکہ مقامی لوگوں کی روزمرہ زندگی کو بھی اس نے مفلوج کر رکھا ہے۔

انسانی بحران

اشیائے خوردونوش کی قلت کی بنا پر لوگ مشکلات کا شکار ہیں متاثرہ علاقوں میں اشیائے خوردونوش اور طبی امداد کی شدید قلت ہے، جس کے سبب خواتین، بچے اور بزرگ سبھی پریشان ہیں اور سلامتی و حفظان صحت کو لیکر صورت حال تشویش ناک ہے۔

سلامتی کے خدشات کے ساتھ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی معطلی، نقل و حرکت پر پابندی، اور خوف کے ماحول نے مقامی لوگوں کی زندگی کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جبکہ حکومت نے علاقے میں نیم فوجی دستوں اور پولیس کو تعینات کیا ہے، اور امن کے قیام کے لیے جرگے کا نظام فعال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ وہ ساری چیزیں ہیں جن سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہے

شیعوں کے لیے پارا چنار میں حالات انتہائی نازک ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے مقامی قبائل کے درمیان امن معاہدے، ریاست کی مضبوط حکمت عملی، اور انسانی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر اس مسئلے کا مستقل حل ممکن نہیں۔

پارا چنار اور اس جیسے دیگر علاقوں میں شیعوں کے قتل عام کے مختلف اسباب اور محرکات ہیں، جن کی جڑیں سیاسی، مذہبی، سماجی، اور جغرافیائی عوامل میں بہت گہری ہیں ۔ ان میں سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

فرقہ وارانہ کشیدگی اور نظریاتی اختلافات

مذہبی اختلافات: شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان عقائد میں موجود اختلافات کو بعض عناصر نے دشمنی میں تبدیل کیا ہے۔ شدت پسند گروہوں نے ان اختلافات کو استعمال کرتے ہوئے فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دی ہے بارہا شیعوں کے خلاف گالی گلوچ کفر کے فتوے دینا یہ وہ چیزیں ہیں جنہوں جاہلوں کے دماغ میں انگارے بھر دئے ہیں ۔

شدت پسند تنظیموں کی مداخلت

طالبان اور داعش جیسے گروہ فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے حملے کرتے ہیں، جس کا مقصد شیعوں کو دباؤ میں رکھنا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے جبکہ مظلوم شیعہ مسلسل نشانہ بننے کے بعد بھی جوابی کاروائوں میں اسلامی اور اخلاقی اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے بسا اوقات جاہل و خبطی دشمن اسی کو کمزوری کے طور پر لیتا ہے۔

سیاسی و قبائلی تنازعات

مسلکی و مذہبی منافرت کے علاوہ پارا چنار کے کئی تنازعات قبائلی دشمنیوں پر مبنی ہیں، جن میں زمین اور وسائل کے مسائل شامل ہیں۔ یہ تنازعات وقت کے ساتھ فرقہ واریت کا رنگ اختیار کر جاتے ہیں اور حکومت کی عدم موجودگی یا موثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے یہ مسائل مزید بگڑتے ہیں، اور شدت پسند تنظیمیں اس خلا کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں

جغرافیائی و سیاسی اہمیت

پارا چنار افغانستان کے قریب ہونے کی وجہ سے مختلف گروہوں کی رسائی میں ہے، جو سرحد پار دہشت گردی کو آسان بناتا ہے۔ یہ علاقہ اہم تجارتی اور نقل و حرکت کے راستے پر واقع ہے، جس کی وجہ سے یہاں طاقت کے حصول کے لیے مختلف گروہوں کے درمیان کشمکش رہتی ہے۔ مذہبی منافرت پر مبنی پروپیگنڈہ اتنا شدید ہے کہ تمام تر لسانی و قبائلی اختلافات ایک طرف اور پروپیگنڈہ ایک طرف اس پروپیگنڈہ کا نشانہ و ہ لوگ بنتے ہیں جو جاہل ہیں۔

کم تعلیم یافتہ علاقوں میں مذہبی منافرت پر مبنی پراپیگنڈا زیادہ آسانی سے اثر کرتا ہے، جو مقامی آبادی کو شدت پسند عناصر کے لیے استعمال کے قابل بناتا ہے۔ علاوہ از ایں معاشی و سماجی مسائل بھی شدت پسندانہ کاروائیوں کا سبب بن جاتے ہیں جن میں غربت اور بے روزگاری بہت اہم ہے کمزور معاشی حالات کی وجہ سے لوگ شدت پسند تنظیموں کا حصہ بن جاتے ہیں، جو مالی یا نظریاتی مدد کے بدلے نفرت انگیز سرگرمیوں میں شامل ہونے والوں کو مالی تعاون فراہم کرتی ہیں۔

عالمی طاقتوں کے اثرات کو بھی یہاں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بین الاقوامی مفادات جہاں ہر جگہ جڑے ہیں وہاں پاک کی سرزمیں اس مستثنی نہیں مشرق وسطیٰ کے تنازعات کا اثر پاکستان کے شیعہ سنی تعلقات پر بھی پڑتا ہے، جہاں مختلف طاقتیں اپنے مفادات کے لیے فرقہ واریت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔

راہ حل

شیعوں کے قتل عام کے پیچھے مذہبی شدت پسندی، قبائلی تنازعات، اور حکومتی ناکامی جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ریاست، علماء، اور عوام کو مل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ، تعلیم کی بہتری، اور شدت پسند تنظیموں کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی اور ہم سب کو مل کر اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے آواز اٹھانا ہوگی ۔ساری دنیا کے شیعوں کو نظریات سےماوراء ہو کر عاشقان حیدر کرار کے تحفظ کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے۔

امید ہے کہ ہم اس مسئلہ کو کسی دوسرے ملک کا مسئلہ نہ سمجھ کر اپنا مسئلہ سمجھیں گے اور ہمیشہ کی طرح مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہتے ہوئے ظالموں کو بے نقاب کریں گے۔ پارا چنار حالیہ دنوں میں شدید فرقہ وارانہ کشیدگی اور راستوں کی بندش کے باعث سنگین مسائل کا شکار ہے۔ ان حالات نے خوراک اور ادویات کی قلت کو جنم دیا ہے، جس سے مقامی آبادی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، معمولی چوٹوں اور زخموں سے لوگ تڑپ رہے ہیں ابتدائی طبی سہولیات کا فقدان ہے جس کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر پڑ رہا ہے ۔

فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں پارا چنار اور اس کے گردونواح میں امن و امان کی صورتحال بگڑ چکی ہے۔ راستوں کی بندش کے باعث شہر کا صوبے کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے، جس سے اشیائے خوردونوش اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق، اپر کرم کی تقریباً چار لاکھ آبادی محصور ہو کر رہ گئی ہے۔

ادویات کی قلت

راستوں کی بندش کے باعث ہسپتالوں میں ادویات اور طبی سہولیات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف موجود ہونے کے باوجود، ادویات کی عدم دستیابی کے سبب مریضوں کا مؤثر علاج ممکن نہیں ہو پا رہا۔ شدید سردی اور معیاری علاج نہ ملنے کی وجہ سے ہسپتالوں میں اموات کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں کچھ بچے تو نمونیا جیسی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔

بچوں کی صورت حال

پاراچنار میں حالیہ کشیدہ حالات اور راستوں کی بندش کے باعث ادویات کی شدید قلت نے خاص طور پر بچوں کے لیے سنگین مسائل پیدا کیے ہیں۔ بچوں کی صحت اور فلاح کے تناظر میں،

1. بچوں کی نازک جسمانی حالت: بچے، خاص طور پر نوزائیدہ اور کمسن، بیماریوں کے خلاف کمزور مدافعت رکھتے ہیں۔ نمونیا، اسہال، اور دیگر عام بیماریوں کے باعث بچوں کی اموات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ غذائی قلت کے شکار بچوں کو اضافی خطرات لاحق ہیں کیونکہ ان کے جسمانی مدافعتی نظام کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے۔

2. نمونیا اور سردی سے متاثرہ بچے: سردیوں کے موسم میں نمونیا اور دیگر سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن: اینٹی بایوٹکس اور دیگر ضروری ادویات دستیاب نہ ہونے کے سبب علاج ناممکن ہو رہا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق، دوا کی قلت کی وجہ سے کچھ بچوں کی موت ہو چکی ہے، اور مزید بچوں کے بیمار ہونے کا خدشہ ہے۔

3. حفاظتی ٹیکوں کا تعطل: بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی میں رکاوٹ: ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے بیماریوں جیسے خسرہ، پولیو اور دیگر متعدی امراض کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ویکسینیشن کے پروگرامز معطل ہونے سے بچے زیادہ خطرے میں ہیں۔

4. ماں اور بچے کی صحت پر اثر: حاملہ خواتین کے لیے زچگی کی ادویات دستیاب نہ ہونے کے سبب نومولود بچوں کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے اور زندگی کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔زچگی کے دوران پیچیدگیوں کے نتیجے میں ماں اور بچے دونوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

5. ذہنی اور نفسیاتی اثرات: بیماری اور علاج کی عدم دستیابی بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے نفسیاتی دباؤ کا باعث بن رہی ہے۔ بچوں کی ذہنی نشوونما متاثر ہو رہی ہے کیونکہ وہ خوراک اور ادویات کی کمی کے ماحول میں پل رہے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ فوری امداد فراہم ہو حکومت اور امدادی اداروں کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کے لیے متبادل راستوں کی تلاش کرنی چاہیے۔

نیز علاقائی موبائل کلینکس متحرک کردار ادا کریں ایسے علاقوں میں موبائل طبی یونٹس بھیجنا جہاں بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے اشد ضروری ہے اسی کے ساتھ ادویات کا ذخیرہ بھی بعد کا مرحلہ ہے جس کا آغاز ابھی سے ہونا چاہیئے تاکہ مستقبل میں ایسی قلت سے بچا جا سکے۔ یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاراچنار میں امن و اماں بحال نہ ہو۔

امن و امان کی بحالی کے لئے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جلد از جلد امن اقدامات کیے جائیں تاکہ خردو نوش کی اشیاء طبی سہولتوں اور دوائیوں کی سپلائی دوبارہ بحال ہو سکے۔ تمام مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے ناطے سبھی کو مل کر فیصلہ کرنا ہوگا میں دواوں کی قلت نے بچوں کی صحت اور زندگیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ فوری اور مؤثر اقدامات کیے بغیر ان معصوم جانوں کو بچانا مشکل ہوگا۔ بچوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے تاکہ اس انسانی بحران پر قابو پایا جا سکے[22]۔

پاراچنار تکفیریوں کے محاصرے میں، پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہرے

پاراچنار میں احتجاج.jpg

وہابی تکفیریوں کی جانب سے پاراچنار کے مسلسل محاصرے اور شہریوں کو شدید مشکلات کے پیش نظر پاکستان کے مختلف شہروں میں عوامی مظاہرے ہورہے ہیں جبکہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں مسلسل بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے شمال مغرب میں واقع سرحدی شہر پاراچنار گذشتہ دو مہینوں سے زیادہ عرصے سے تکفیری وہابیوں کے محاصرے میں ہے۔ شہر میں نقل و حمل کے وسائل پر پابندی اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے شہری زندگی کی بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق ہسپتالوں میں ادویہ جات کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ 73 دنوں سے محاصرے کی وجہ سے شہر میں قحطی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ 4 لاکھ کی آبادی پر مشتمل شہر کو مختلف حوالوں سے بحران درپیش ہے۔

ہسپتال ذرائع کے مطابق طبی مراکز میں دوائیوں کی قلت کی وجہ سے اب تک مجموعی طور پر 50 بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سردی کے موسم میں شہری ایندھن کی کمی کی وجہ سے سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ پشاور شہر کی طرف جانے والا مرکزی شاہراہ بند ہے۔ راستے میں موجود تکفیری عناصر پاراچنار جانے والے شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ تازہ ترین واقعے میں پشاور سے پاراچنار جانے والے دو جوانوں کو تکفیریوں نے راستے میں گاڑی سے اتار کر شہید کردیا۔ عینی شاہدین کے مطابق دونوں جوانوں کے سر کاٹ کر جسموں کو سڑکوں پر گھمایا گیا۔

ذرائع نے کہا ہے کہ دونوں جوان عراق میں کئی سال مزدوری کرنے کے بعد اپنے آبائی علاقے پاراچنار واپس جارہے تھے تاہم راستے میں دونوں بے گناہ جوان تکفیریوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ سیکورٹی ادارے اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کی جانب سے تکفیری دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کے بجائے فریقین کے درمیان مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔ پاراچنار کے بے گناہ اور مشکلات میں مبتلا عوام کے لئے پشاور کا مرکزی راستہ بحال کرنے کے بجائے صبر و تحمل کی تلقین کی جارہی ہے۔

پاراچنار کے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے پاکستان کے دیگر شہروں میں عوامی احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ کراچی سمیت بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر شہریوں نے تکفیریوں کی جانب سے پاراچنار کے محاصرے کے خلاف مظاہرہ شروع کیا ہے۔ پاراچنار تکفیریوں کے محاصرے میں، پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہرے، صوبائی اور وفاقی حکومت کی مسلسل بے

مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کراچی ڈویژن کی جانب سے نمائش چورنگی پر پرامن احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ احتجاجی دھرنے میں بزرگ عالم دین خطیب اہل بیتؑ علامہ سید حسن ظفر نقوی، علامہ شیخ محمد صادق جعفری، علامہ مبشر حسن، علامہ ملک عباس سمیت دیگر علماءِ کرام و عوام کی بڑی تعداد سخت سردی کے موسم کے باوجود قومی و ملی غیرت و بیداری کے ساتھ شریک ہیں۔

ترجمان ایم ڈبلیو ایم کراچی نے عوام سے احتجاج میں شرکت کی اپیل کی ہے

کراچی میں عوامی مظاہرے کے بعد سندھ حکومت نے مظاہرین کو احتجاج ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر پاراچنار کے حالات کے خلاف عوامی مظاہرہ ہوا ہے۔ اسی طرح راولپنڈی اور لاھور میں بھی احتجاجی مظاہروں کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔

لاہور، پارا چنار کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کیلئے دھرنا جاری، اہلسنت رہنماوں کی شرکت لاہور پریس کلب کے باہر مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے زیراہتمام مظلومین پارا چنار کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے دھرنا آج دوسرے روز بھی جاری ہے۔ اس دھرنا میں اہلسنت قائدین نے بھی شرکت کی اور پارا چنار کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کیا۔

پاراچنار تکفیریوں کے محاصرے میں، پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہرے، صوبائی اور وفاقی حکومت کی مسلسل بے ممتاز اہلسنت رہنما اور کل مسالک علماء بورڈ کے چیئرمین مولانا عاصم مخدوم اور صوبائی صدر انٹرفیتھ کونسل علامہ قاری خالد محمود نے دھرنے میں شرکت کی اور پاراچنار کے مظلومین کیساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی اس وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ جاری ہے[23]۔

گلگت بلتستان میں احتجاجی مظاہرے

گلگت بلتستان احتجاج.jpg

پاکستان بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی آج نمازِ جمعہ کے بعد پارا چنار کے راستوں کی بندش کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی آج نمازِ جمعہ کے بعد پارا چنار کے راستوں کی بندش اور نعرہ تکبیر کے ساتھ بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹے جانے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

پاکستان؛ گلگت بلتستان میں بھی دیگر صوبوں کی طرح پارا چنار کے راستوں کی بندش کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے آج نمازِ جمعہ کے بعد، جامع مسجد سکردو سے یادگار شہداء چوک تک ہزاروں مؤمنین نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کر کے پارا چنار کے مؤمنین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔ ضلع بلتستان سمیت ضلع گانچھے، کھرمنگ، شگر اور روندو میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔


گلگت دنیور میں بھی شیخ مرزا علی کی قیادت میں نمازِ جمعہ کے بعد عظیم الشان احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں پارا چنار کے راستوں کی فوری بحالی پر زور دیا گیا۔ واضح رہے پارا چنار کے معاملے پر، اس وقت تقریباً پورا پاکستان جام ہے، تاہم اب تک کی رپورٹ کے مطابق، حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدام کی اطلاع نہیں ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان کی تمام شیعہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں پارا چنار کے حق میں سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک پارا چنار کے معاملے کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جائے ہمارا احتجاج جاری رہے گا[24]۔

حوالہ جات

  1. پارا چنار شہر کی وجہ تسمیہ، اس شہر کا نام ’’پاڑہ چنار‘‘ کیسے پڑ گیا؟-شائع شدہ از: 16 جولائی 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء
  2. پاراچنار سے پشاور جانیوالی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے 60 شیعہ مسلمان شہید، متعدد زخمی-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 21 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 نومبر 2024ء۔
  3. آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی پاراچنار میں معصوم مسافروں پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت- ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء
  4. پاراچنار کے مظلوم مومنین پر ظلم کے خلاف دفتر آیت اللہ العظمیٰ حافظ بشیر حسین نجفی کا مذمتی بیان-ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 23 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 نومبر 2024ء۔
  5. پاراچنار سے پشاور جانیوالی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ ،بچی اور خاتون سمیت 38افراد جاں بحق-dailypakistan.com.pk- شائع شدہ از: 21نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 نومبر 2024ء۔
  6. کرم ایجنسی میں دہشت گردی، ایران کا حکومت پاکستان اور شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء۔
  7. کرم ایجنسی میں دہشت گردی، صدر پزشکیان کی پاکستانی حکومت اور شہداء کے لواحقین سے تعزیت-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22نومبر 2024ء-
  8. ایران اور پاکستان مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے، ایرانی وزیر خارجہ-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء۔
  9. پاکستانی حکومت شیعہ مسلمانوں کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کرے / تفرقہ پیدا کرنے والوں اور انتہا پسند گروہوں کو جرائم کی اجازت نہ دے-ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 23نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 نومبر 2024ء۔
  10. کرم ایجنسی میں دہشت گرد حملہ، ایرانی سفارت خانے کی مذمت-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از: 22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء۔۔
  11. ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ کی جتنی مذمت کی جائ کم ہےur.hawzahnews.com-شائع شدہ از: 21 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 نومبر 2024ء۔
  12. کون عناصر پاراچنار میں امن نہیں چاہتے؟صوبائی اور وفاقی حکومت ہوش کے ناخن لیں- ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 21 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 نومبر 2024ء۔
  13. پارہ چنار پاکستان کا غزہ بن چکا، خوارجی دہشتگرد آزاد اور دن دہاڑے کارروائیاں کر رہے ہیں، امام جمعہ سکردو-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از:22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء
  14. دہشت گردوں کا فوجی حفاظتی حصار میں جانے والے قافلوں پر حملہ، سمجھ سے بالاتر ہے-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء۔
  15. کرم واقعہ: وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں، فضل الرحمان-karaktimes.com- شائع شدہ از: 21 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء۔
  16. کرم ایجنسی میں دہشت گردی، ایف سی کی جگہ کرم ملیشیا کو تعیینات کیا جائے-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 22 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 نومبر 2024ء۔
  17. پاراچنار کے واقعے نے تکفیریوں کا مکروہ اور وحشتناک چہرہ عیاں کردیا، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 25 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 نومبر 2024ء
  18. ادویات کی فراہمی اور زخمیوں کی منتقلی ایئر ایمبولینس پارچنار جائے گی-شائع شدہ از:15 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔
  19. پارا چنار میں خوراک، ادویات کی قلت، کئی بچے شہید- شائع شدہ از: 16 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 دسمبر 2024ء۔
  20. پاکستان کے جید علمائے کرام اور عمائدین پاراچنار کا مشترکہ اعلامیہ- شائع شدہ از: 16 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 دسمبر 2024ء۔
  21. پارا چنار میں راستوں کی بندش ، ادویات کی قلت ،50 بچے جاں بحق- شائع شدہ از: 23ش دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 دسمبر 2024ء-
  22. پاراچنار میں شیعوں کے قتل عام سے دواوں کی قلت تک اسباب و محرکات، تحریر: سید نجیب الحسن زیدی- شائع شدہ از: 21 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 دسمبر 2024ء۔
  23. پاراچنار تکفیریوں کے محاصرے میں، پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہرے- شائع شدہ از: 25 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 دسمبر 2024ء۔
  24. پاکستان؛ گلگت بلتستان میں بھی دیگر صوبوں کی طرح پارا چنار کے راستوں کی بندش کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے- شائع شدہ از: 27 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 دسمبر 2024ء۔