سید علی سیستانی

ویکی‌وحدت سے
سید علی سیستانی
سیستانی.jpg
پورا نامسید علی سیستانی
دوسرے نامسید علی حسینی سیستانی
ذاتی معلومات
پیدائش1930 ء، 1308 ش، 1348 ق
یوم پیدائش9 ربیع الاول
پیدائش کی جگہمشہد،ایران
اساتذہ
  • آیت اللہ خوئی
  • آیت اللہ محسن الحکیم
  • آیت اللہ بروجردی
  • شیخ حسین حلی
مذہباسلام، شیعہ
مناصبمرجع تقلید اثنائے عشری

سید علی حسینی سیستانی المعروف آیت اللہ سیستانی، عراق کے معروف ایرانی عالم دین ہیں اور اثنا عشری شیعوں میں اصولی گروہ کے مرجع تقلید ہیں۔ آپ نجف کے حوزہ علمیہ کے مرجع ہیں یا آسان الفاظ میں آیت اللہ العظمٰی ہیں۔ آپ 9 ربیع الاول 1349 ه( 4 اگست 1930) کو مشہد، ایران میں پیدا ہوئے اور 1951 سے نجف اشرف عراق میں قیام پزیر ہیں۔ اس کے علاوہ عراق میں جنگ کے بعد ایک اہم سیاسی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ آپ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ آپ نے 2014ء میں داعش کے خلاف فتوی دیا جس کے بعد عراق کی رضا کار فورس نے داعش کو نیست نابود کر دیا۔ آپ کئی اداروں کے سرپرست ہیں ۔ آپ 8 اگست 1992 سے آیت اللہ خوئی کے بعد حوزہ علمیہ نجف اشرف کے زعیم بھی ہیں ۔ آپ کا دفتر ایران اور عراق دونوں ممالک میں واقع ہے۔

سوانح عمری

سید علی حسینی سیستانی ۱۳۰۹ مرداد ۱۳۰۹ ہجری شمسی مطابق ۹ ربیع الاول ۱۳۴۹ ہجری قمری میں شہر مشہد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد باقر شیعہ علما میں سے ہیں اور ان کی والدہ سید رضا مہربانی سرابی کی بیٹی تھیں، ان کے جد سید علی سیستانی نجف اشرف میں میرزائے شیرازی کے شاگردوں میں سے تھے وہ سن ۱۳۱۸ ق میں ایران واپس آ گئے تھے۔

تعلیم

سید سیستانی نے ابتدائی اور مقدماتی تعلیم مشہد میں حاصل کی اور سن ۱۳۶۰ ق کی ابتدائ میں انہوں نے حوزوی علوم کی مقدماتی تعلیم کا آغاز کیا۔ ادبیات عرب ادیب نیشاپوری سے، شرح لمعہ و قوانین سید احمد مدرس یزدی سے، فقہ و اصول کی اعلیٰ سطح کی کتابیں میرزا ہاشم قزوینی سے پڑھیں اور فلسفہ کے دروس سیف اللہ ایسی میانجی، شیخ مجتبی قزوینی اور میرزا مھدی اصفہانی سے پڑھے، اسی طرح انہوں نے میرزا مہدی آشتیانی اور میرزا ھاشم قزوینی کے درس خارج میں بھی شرکت کی۔

قم

سید علی سیستانی سن ۱۳۶۸ ق میں شہر قم میں وارد ہوئے اور وہاں آیت اللہ بروجردی کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی اور اسی طرح وہ آیت اللہ حجت کوہ کمرہ ای کے درس خارج میں بھی شرکت کرتے تھے۔

اسی دور میں انہوں نے سید علی بھبھانی سے جو محقق تھرانی کے مکتب فقہی کے پیروکار تھے، خط و کتابت کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہوئے قبلہ شناسی کے موضوع پر خامہ فرسائی کی۔ جس کے نتیجہ میں سید علی بھبھانی نے انہیں ۷ رجب ۱۳۷۰ ق کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے سید علی سیستانی کو جن کی عمر اس وقت ۲۱ سال تھی، عمدۃ العلماء و نخبۃ الفقہاء المدققین کے لقب سے سرفراز کیا اور باقی بحث کو ملاقات کے وقت پر موکول کیا۔

نجف کی طرف ہجرت

انہوں نے سن ۱۳۷۱ ق میں نجف اشرف کا سفر اختیار کیا اور وہاں مدرسہ بخارایی میں سکونت اختیار کی۔ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی کے درس خارج میں شرکت کی۔ ان دونوں دروس میں طولانی مدت تک شرکت کرنے کے علاوہ انہوں نے سید محسن حکیم اور سید محمود شاہرودی کے دروس سے بھی کسب فیض کیا۔

اجتہاد و مرجعیت

سن ۱۳۸۰ ق میں ۳۱ سال کی عمر میں اپنے دو اساتذہ آیت اللہ خویی اور شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کیا۔ شیخ حسین حلی سے اجتہاد کا اجازہ مطلق حاصل کرنے والے وہ فرد فرید ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے بھی سن ۱۳۸۰ ق کی اپنی ایک تحریر میں ان کے علم رجال اور حدیث پر تسلط کی گواہی دی ہے۔

جمادی الثانیۃ ۱۴۰۹ ق میں اپنے استاد آیت اللہ خوئی کی خواہش پر مسجد خضراء کے امام جماعت متعین ہوئے۔ اس سے پہلے تک آیت اللہ خوئی مسجد خضراء میں نماز جماعت کا فرائض انجام دے رہے تھے، بیماری کے سبب انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے شاگرد کے سپرد کر دی۔ سید سیستانی ذی الحجہ ۱۴۱۴ ق کے آخری جمعہ اور عراقی حکومت (صدام حسین کے زمانہ میں) کی طرف سے اس مسجد کا دروازہ بند ہونے تک اس میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔

وہ ۸ صفر ۱۴۱۳ ق میں آیت اللہ خوئی کے انتقال کے بعد مرجعیت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ۱۴۱۴ ق میں سید عبد الاعلی سبزواری اور سید محمد رضا گلپایگانی کی رحلت کے بعد اور اس کے بعد محمد علی اراکی اور سید محمد روحانی انتقال کے بعد ان کے مقلدین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا [1]

تصنیفات

آیت اللہ سیستانی کی تالیفات میں کچھ کتابیں نشر ہو چکی ہیں جبکہ بعض تصنیفات ابھی بھی غیر مطبوعہ شکل میں ہیں۔ مطبوعہ کتابوں میں زیادہ تر ان کے فتاوی اور دروس کی تقریرات ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

  • منھاج الصالحین:فتاوی پر مشتمل ہے جو تین جلدوں میں سن ۱۳۱۵ ق میں قم میں طبع ہوئی ہے۔ منھاج الصالحین سید محسن الحکیم کی تالیف ہے، آیت اللہ خوئی نے اپنے فتاوی کو اس پر تطبیق دے کر اور اس میں بعض ابواب و فصول کا اضافہ کرکے شائع کیا ہے۔ اور ان کے بعد ان کے شاگرد سید علی سیستانی نے بھی اسی روش کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کتاب پر آیت اللہ سیستانی کی طرف سے مقدمہ لکھے جانے کی تاریخ ۲۰ ذی الحجۃ ۱۴۱۳ ق ہے [2]۔
  • قاعدہ لا ضرر و لا ضرار: فقہ کے دروس کی تقریرات ہیں، جنہیں سید محمد رضا سیستانی نے تحریر کیا ہے اور یہ کتاب سن ۱۴۱۴ ق میں شائع ہوئی ہے [3]
  • اختلاف الحدیث:دروس حدیث کی تقریرات ہیں، جنہیں سن ۱۳۹۶ میں ان کے ایک شاگرد سید ہاشم ھاشمی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۵ صفحات پر مشتمل ہے اور اسے ذاتی طور پر (غیر رسمی طور پر) شائع کیا گیا ہے۔ اس تالیف سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف احادیث کے رفع کے سلسلہ میں آیت اللہ سیستانی کے نظریات، تعادل و تراجیح پر مبتنی ہونے سے زیادہ اس کے اسباب اور سبب پیدائش کی تجدید پر مشتمل ہیں [4]
  • الرافد فی علم اصول سید منیر سید عدنان القطیفی کی تالیف ہے۔ اس میں آیت اللہ سیستانی کے دروس اصول کی تقریرات ہیں۔ یہ کتاب ایک جلد پر مشتمل ہے اور عربی زبان میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں مکتب امامیہ میں علم اصول فقہ کی اہمیت و منزلت، اس کے ادوار فکری وغیرہ کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے [5]

وابستہ ادارے

  • امام علی (ع) سینٹر، قم؛
  • آل البیت ثقافتی سینٹر، استانبول؛
  • اعتقادی تحقیقاتی سینٹر، قم؛
  • المصطفی اسلامی تحقیقاتی سینٹر، قم؛
  • اسلامی میراث کے احیائ کا مزکر، قم؛
  • فلکیات و نجومی تحقیقات کا مرکز، قم؛
  • امام صادق کلچرل کامپلیکس، بیروت؛
  • آل البیت گلوبل انفارمیشن سینٹر، قم؛
  • شہر قم میں تخصصی کتب خانے (کتب خانہ تخصصی تفسیر علوم قرآن، کتب خانہ تخصصی علوم حدیث، کتب خانہ تخصصی فقہ و اصول، کتب خانہ تخصصی فلسفہ و کلام، کتب خانہ تخصصی
  • ادبیات عرب، کتب خانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران)؛
  • مدینۃ العلم ثقافتی رہائشی کامپلیکس، نجف اشرف؛
  • مدرسہ علمیہ بلاغی و نجم الائمہ نجف اشرف؛
  • فلاحی اسپتال حضرت امام صادق (ع).

سیاسی و سماجی

  • آیت اللہ خویی کی نماز جنازہ کی امامت: آیت اللہ خوئی کی وفات کے بعد، سید علی سیستانی نے جو ان کے مہم ترین شاگردوں میں سے تھے، ان کی نماز جنارہ پڑھائی۔ حوزہ کی سنت کے مطابق، جو بھی گزشتہ مرجع تقلید کے جنازہ پر نماز پڑھاتا ہے وہی اس کا جانشین بنتا ہے۔ اگر چہ صدام حسین کی حکومت کے زمانہ میں شیعوں اور حوزہ علمیہ نجف کے حالات سخت اور پیچیدہ ہونے اور آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری کے ۲۵ مرداد ۱۳۷۲ ش تک حیات ہونے کے سبب خاموشی کے ساتھ آیت اللہ سیستانی کی مرجعیت کا آغاز ہوا۔

البتہ آیت اللہ خوئی کے ایک شاگرد جعفر نطنزی کا ماننا ہے کہ آیت اللہ خوئی کے جنازہ پر آیت اللہ سیستانی کا نماز پڑھانا ان کے جانشین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ہے کیونکہ اس وقت نجف اشرف میں کوئی بچا ہی نہیں تھا۔ نطنزی اسی طرح سے آیت اللہ خوئی کی تشییع جنازہ اور آیت اللہ سیستانی کے نماز پڑھانے کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ کوئی تشییع کا ماحول یا ہلچل نہیں تھی، جنازہ کو لایا گیا انہوں نے نماز پڑھائی اور چلے گئے۔ بعد میں بھی کوئی ایسی علامت دیکھنے میں نہیں آئی جو ان کی مرجعیت کی دلیل بن سکتی ہو۔ وہ ایک فہیم اور با فراست انسان ہیں۔ ان کے بعد آیت اللہ سید عبد الاعلی سبزواری مرجع تقلید تھے۔

  • عراقی حکومت اور قانون انہوں عراق پر امریکی فوج کے حملہ اور صدام حسین کی حکومت کے سقوط کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی مزاحمت میں دلچسبی نہیں دکھائی۔ اور انہوں نے ہمیشہ جی گارنر اور پال بارمر جیسی امریکی شخصیات سے ملاقات سے پرہیز کیا۔ اسی طرح سے انہوں نے عراق میں جدید حکومت کے قیام اور جدید ملی قوانین کی تدوین کے سلسلہ میں ہونے والے مختلف انتخابات میں عوام کو اس میں شرکت کرنے کی طرف تشویق کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کرداد ادا کیا۔
  • امریکی و عراقی افواج اور مقتدی صدر کے تنازع کا حل: جیش المہدی کے نیم فوجی دستوں اور عراق میں موجود امریکی افواج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہ بحران امریکی فوج کے ٹینکوں کے کربلا، نجف اور کوفہ جیسے شہروں میں داخل ہونے اور وہاں لڑائی اور جھڑپوں کا سبب بنا۔جس کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ اپریل 2004سے لیکر جولائی 2004 تک سپاہ مہدی اور امریکی و عراقی افواج کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ جس کے نتیجہ میں شہر نجف کا محاصرہ کر لیا گیا اور امیر المومنین (ع) کے حرم کو نقصان پہنچا اور عراق کے شیعہ نشین علاقوں میں بسنے والے دسیوں افراد جاں بحق ہوئےور امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں سپاہ مہدی نے اپنے سنگر بنا لئے۔ آخر کار اس بحران کا حل آیت اللہ سیستانی کے اس میں وارد ہونے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف پیش کی گئیں امن پسند تجاویز سے نکالا گیا اور 27 اگست 2004 کو اس کا سد باب ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد سے امیر المومنین علیہ السلام کے حرم اور مسجد کوفہ کی تمام تر ذمہ داریوں کو مرجعیت کے سپرد کر دیا گیا [6] ۔
  • داعش سے جہاد کا فتوا: آیت اللہ سیستانی نے عراقی شہر موصل کے سقوط اور داعش کے عراق کے مرکزی اور جنوبی علاقوں کی طرف رخ کرنے کے بعد ملک و ملت اور مقدسات دینی کے دفاع کے سلسلہ میں واجب کفائی کا حکم دیا۔ اور جنگ کرنے کی توانائی رکھنے والے شہریوں کو دفاع اور مقابلہ کے لئے اسلحہ اٹھانے اور فوج کے ساتھ ملحق ہونے کے لئے طلب کیا۔ ان کےاس حکم کا شہر کربلا کے امام جمعہ اور آیت اللہ سیستانی کے نمایندہ عبد المہدی کربلائی نے اعلان کیا اگر چہ یہ حکم فتوی کی شکل میں نہیں تھا۔ لیکن بعض تجزیوں کے مطابق فتوی کے حکم میں تھا اور یہ حکم سبب بنا کہ لاکھوں افراد داعش کے ساتھ مقابلہ کے لئے عراقی افواج کے ساتھ ملحق ہو گئے [7]

آیت اللہ سیستانی اور پوپ فرانسس کی ملاقات

شیعوں کے عظیم مرجع تقلید اور کیتھولک عیسائیوں کے سربراہ پوپ فرانسس نے سنیچر کے روز 27 فروری 2021 کو نجف میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات تقریبا پونے گھنٹے جاری رہی ۔ دونوں مذہبی راہنماؤں نے مختلف موضوعات پر بات کی۔ ملاقات کے بعد پوپ نے یہ بیان دیا کہ وہ آیت اللہ سیستانی کی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور وہ مسلم دنیا کی ایک ایسے شخص سے ملے ہیں جوکہ روحانی طور پر زیادہ مضبوط ہیں [8]

حوالہ جات

  1. زندگی‌نامه حضرت آیت الله سید علی حسینی سیستانی
  2. سیستانی، منهاج الصالحین، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۵.
  3. سیستانی، قاعدة لا ضرر و لا ضرار، قم، ۱۴۱۴ق.
  4. آیت الله العظمی سیستانی و اختلاف الحدیث.
  5. سیستانی، الرافد فی علم الاصول، ۱۴۱۴ق.
  6. سفر درمانی حضرت آیت الله سیستانی؛ بازگشت به عراق و حل بحران نجف - بخش پایانی
  7. آیت الله سیستانی فتوای جهاد صادر کرد
  8. ndtv.com