مسودہ:احسان الہی ظہیر

احسان الہی ظہیر
احسان الہی ظہیر.jpg
دوسرے ناماحسان الہی ظہیر بن حاجی ظہور الہی ظہیر
ذاتی معلومات
پیدائش1945 ء، 1323 ش، 1363 ق
یوم پیدائش13 مئی
پیدائش کی جگہسیالکوٹ پاکستان
وفات1978 ء، 1356 ش، 1397 ق
یوم وفات30 مارچ
وفات کی جگہریاض سعودی عرب
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • مرزائیت اور اسلام
  • البابیہ عرض ونقد
  • البہائیہ نقد وتحلیل
  • الشیعۃ والسنۃ
مناصبجمعیۃ اہل حدیث

احسان الہی ظہیر پاکستانی عالم دین تھے جن کا پورا نام احسان الہی ظہیر بن حاجی ظہور الہی ظہیر ہے۔ احسان الٰہی ظہیر پاکستان کی ایک بے مثال نمایاں دینی وسیاسی شخصیت تھے سیاسی ودینی حلقوں میں انہیں بیک وقت پذیرائی حاصل تھی ۔ تمام مکاتب فکر کے اکابرکے ساتھ ان کی بے تکلف دوستی تھی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خطابت نہ صرف برصغیرکی تاریخ میں بے مثال تھی بلکہ وہ عربی زبان میں بھی اسی روانگی اورسلاست کے ساتھ خطابت کرتے تھے کہ اہل زبان کو بھی رشک آتا تھا۔ آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے قدیم فاضل تھے۔

سوانح عمری

حافظ علامہ احسان الہی ظہیر 31 مئی 1945ءبمطابق 18 جمادی الاولی 1364ھ بروزجمعرات سیالکوٹ میں ہوئی۔ وہ ایک پاکستانی عالم دین تھے جن کا پورا نام احسان الہی ظہیر بن حاجی ظہور الہی ظہیر ہے۔

کائنات میں کچھ ہستیاں ایسی پیدا ہوئیں اور تا قیام قیامت پید ا ہوتی رہیں گی کہ جن کی زندگیاں دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہوتی ہیں۔ ایسی شخصیات جب روشنی کی کرنیں اپنی زندگیوں میں بکھیرکر اس دارِفانی سے رخصت ہوتی ہیںتو بعدمیں آنے والے لوگ مدتوں اس روشنی سے راہ پاتے ہیں اور اپنے آپ کو بھٹکنے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ایسی ہی شخصیات میں سے ایک علامہ احسان الٰہی ظہیر تھے۔

تعلیم

وہ سیالکوٹ کے ایک کاروباری مگر دین دوست گھرانے میں 31مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ شروع ہی سے پڑھنے لکھنے کی طرف راغب تھے ۔ ساڑھے آٹھ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ابتدائی تعلیم جامعہ شہابیہ سیالکوٹ سے حاصل کرنے کے بعد گوجرانوالہ کے جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لے لیا۔ یہاں مولانا ولی العصر مولانا البرکات اور محدث العصر علامہ محمد گوندلوی سے فیض حاصل کیامزید تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لے لیا۔

جامعہ سلفیہ سے سند ِفراغت نمایاں پوزیشن میںحاصل کرلینے کے بعد ان کے اساتذہ نے انہیں جامعہ کی طرف سے سعودی عرب کی ــالریاض یونیورسٹی" میں مزید تعلیم کے لئے بھیج دیا۔ 1970ء میں مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد انہوں نے سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے آنے والی اعلیٰ عہدوں کی پیشکشوں کو ٹھکراتے ہوئے تبلیغ وتحریر کے مشن کو اپنایا اور تادمِ ِ آخر اسی سے وابستہ رہے۔

تحریک استقلال میں شمولیت

علامہ شہید نے 1968ء میں باقاعدہ سیاست کا آغاز اقبال پارک میں خطبہ عید کے دوران کیا اس وقت کیا جب جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ ابتداء میں علامہ ظہیر ؒ تحریکِ استقلال سے وابستہ ہوئے تو انہیں تحریک کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات بنا دیا گیا۔بعد ازاںقائم مقام سربراہ بھی رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی نام نہاد عوامی حکومت کے خاتمے کے لئے علامہ نے ـتحریک ِ ختم نبوت میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا اور تحریک کے اہم مرکزی قائدین میں شمار ہوئے۔

1977ء کی تحریک میں بھی سرگرم رہے ،قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں،مقدمات جھیلے، ان پر بھٹو حکومت کے دوران 95 سیاسی مقدمات قائم کئے گئے۔ جن میں قتل کے مقدمات بھی شامل تھے بعدازاں تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان سے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے تحریک استقلال سے علیحدگی اختیار کرلی وہ ایم آر ڈی کی رونق تھے لیکن ایم آر ڈی میں باقاعدہ شامل نہ ہوئے۔

پنجاب میں وہ جنرل ضیاء الحق کے سب سے بڑے مخالف خیال کئے جاتے تھے۔ وہ مارشل لائی نظام حکومت کو اسلام کے منافی قرار دیتے تھے۔انہوں نے ایک سہ جماعتی اتحاد بھی بنایا جو عام اتحادوں کی طرح زیادہ دیر نہ چل سکاپھر انہوں نے اپنی جماعت کو سیاسی قوت بنانے کا فیصلہ کر لیا یہ فیصلہ انہوں نے اس وقت کیا جب ان کی اپنی جماعت کے بہت سے علماء حضرات مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے انہوں نے جماعت کے بزرگوں میاں فضل حق مرحوم ، معین الدین لکھوی سابق ایم این اے، عبدالقادر روپڑی مرحوم اور مولانا محمد حسین شیخوپوری سے درخواستیں کرنے کے بعد جمعیت اہل حدیث کے نام سے الگ جماعت بنا لی۔

جس کے سربراہ مولانا محمد عبداللہ مرحوم پرنسپل جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ منتخب ہوئے اور علامہ ظہیر ناظم اعلیٰ ، انہوں نے اہل حدیث نوجوانوں کو اہل حدیث یوتھ فورس کے پلیٹ فارم پر جمع کرنا شروع کردیااور براہِ راست نوجوانوں کی تربیت شروع کی دوسری طرف ان کی یہ کوشش رہی کہ وہ تما م اہل حدیث جو دوسری جماعتوں میں شامل ہیں ان کو واپس لایا جائے ۔ ان کی کوششوں سے بہت جلد جمعیت اہل حدیث ملک کی صفِ اول کی سیاسی جماعتوں کے شانہ بشانہ آکھڑی ہوئی۔

موچی دروازہ ، لیاقت باغ، نشتر پارک ، قلعہ کہنہ، قاسم باغ، دھوبی گھاٹ فیصل آباد ، شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ ، وائس آف جرمنی، وائس آف امریکہ اور بی بی سی کے تبصرے اس بات کے واضح گواہ ہیں کہ مارشل لاء کے حواریوں کو علامہ مرحوم خار کی مانند کھٹکتے تھے ۔ شریعت بل پیش ہوا تو مختلف فورموں میں بالخصوص اور عوامی جلسوں میں بالعموم انہوں نے شریعت بل کے پرخچے اڑا دئیے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اہلِ حدیثوں اور بالخصوص میرے ہوتے ہوئے کوئی عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتا[1]۔

تعلیم و تربیت

ابتدائی تعلیم حفظِ قرآن سے لے کردرسِ نظامیہ اور عالم فاضل تک جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اور جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے حاصل کیں،اعلیٰ تعلیم کے لیے اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ تشریف لے گئے، سنہ 1969ء میں ممتاز ڈویژن سے پاس ہوکر وطن آ گئے اور جامعہ پنجاب سے چھ مضامین میں ایم اے کیا یعنی عربی، اردو، فارسی، فلسفۂ تاریخ، ایم او ایل (قانون) اور اسلامیات۔ تمام امتحانات میں اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کی، آپ کئی زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔

دینی تعلیم کےلیے آپ جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اورجامعہ سلفیہ فیصل آباد میں زیر تعلیم رہے۔اور1963ء میں مسجدابرھیمی میانہ پورہ میں خطابت فرماتے رہے۔ 1967ء میں آپ فارغ التحصیل ہوئے۔ فارغ التحصیل ہونےکےساتھ آپ نےمولوی فاضل ،منشی فاضل اورادیب فاضل کےامتحانات بھی پاس کئے کچھ عرصہ تک آپ دارالحدیث چینیانوالی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔بعدازں آپ اعلی تعلیم کےلیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے۔اور اللیسانس فی الشریعہ کی اعلی ترین ڈگری لےکروطن واپس لوٹے۔اس کےبعد پےدرپے امتحانات دینےشروع کیےاوریوں ایم اے عربی۔اسلامیات۔اردو۔فاسی۔سیاسیات کی ڈگریاں حاصل کی۔

اساتذہ

آپ نےمندرجہ ذیل علماء کرام سےاپنی کشت علم کو سیراب کیا۔

  • استادالاساتذہ شیخ الحدیث حضرت مولانا گوندلوی
  • شیخ الحدیث حضرت مولانا ابوالبرکات احمدمدظلہ
  • فضیلۃ الشیخ علامہ ناصرالدین البانی
  • محمد امین الشنقیطی
  • فضیلۃ الشیخ عبدالقادر شیبۃ الحمدمصر
  • فضیلۃ الشیخ عطیہ محمدسالم
  • فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز
  • فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن العباد

درس وتدریس

فراغت کے بعد کچھ عرصہ آپ دارالحدیث چینیانوالی لاہور میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہےپھرمدینہ روانہ ہوئے اوروہاں تعلیم حاصل کرنے کےبعدجب پاکستان لوٹےتوجماعتی اورسیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیناشروع کردیا۔ 1972ءمیں تحریک استقلال میں شامل ہوئے اسی دوران آپ پرقتل وغیرہ کےمقدمات قائم کیےگئے۔اور قیدو بندکی صعوبتیں برداشت کیں۔مختلف مقدمات اوراپنوں کی بے وفائی کی وجہ سے 1978ءمیں تحریک سےدستبردارہوگئے۔اورآپ کو ہفت روزہ اہلحدیث کارئیس مقرر کیاگیا۔

اس دوران حافظ محمدگوندلوی سےشرف دامادی حاصل ہوا۔ ادارتی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ جامع مسجد اہل حدیث چینیانوالی رنگ محل لاہور میں خطبہ جمعہ ارشادفرمانے لگے اور یہ سلسلہ بہت عرصہ تک جاری وساری رہا۔اورلاہور کےاطراف و اکناف سےلوگ کھینچ کھینچ کرخطبہ سننے کے لیے تشریف لاتےتھے۔

اندرون ملک اوربیرون ملک جمعیت اہل حدیث جس کےمولانا ناظم اعلی تھےکاتعارف کروانےمیں آپ کی کاوش اور صلاحیتیں اور قابل صدمبارکباد ہیں۔علاوہ ازیں آپ نےجمعیت اہل حدیث کےدفتر کےلیے مرکز کےطور پردوستوں کےتعاون سےانتہائی خطیر رقم خرچ کرکے 53لارنس روڑ لاہور میں ایک وسیع وعریض جگہ خریدی۔جہاں آپ نےمجلس شوریٰ منعقدکروائی ۔اورجمعہ احباب جماعت نےاس مرکزی خریداری پرآپ کوخراج تحسین پیش کیا[2]۔

آثار

زمانہ تعلیم ہی سے تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیا تھا،کم وبیش بیس ضخیم کتابیں تالیف کیں۔ اس کے علاوہ بے شمار مقالات و مضامین لکھے،ان کی آخری کتاب قتل سے صرف آٹھ گھنٹے قبل مکمل ہوئی تھی،آپ کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں :

  • الشعية والتشیع (فرق وتاریخ)(عربی)اس کتاب میں علامہ صاحب نےشیعہ کی مکمل تاریخ پس منظراور اس کےمختلف فرقوں کابذکرہ کیاہے۔
  • بین الشیعۃ و اہل السنۃ
  • التصوف (عربی)
  • مرزائیت اور اسلام (اردو)
  • البابیہ عرض ونقد (عربی)
  • البہائیہ نقد وتحلیل (عربی)
  • الشیعۃ والسنۃ (عربی،فارسی،انگریزی)
  • الشیعہ و اہل البیت (عربی)
  • الشیعہ و القرآن (عربی)
  • البریلویہ عقائد و تاریخ(عربی)
  • الاسماعیلیہ (عربی)

ان میں سے اکثر کتب کے دس سے زیادہ ایڈیشن نکل چکے ہیں، دنیا کی کئی زندہ زبانوں میں ان کتابوں کے ترجمے ہوئے ہیں۔ عربی، اردو، فارسی، انگریزی کے علاوہ ترکی، تھائی، انڈونیشی اور مالدیپی زبانوں میں ان کی کئی کتابیں کئی بار اور کئی کئی ترجموں کے ساتھ نکل چکی ہیں،"الشیعۃ والسنۃ"کے صرف انڈونیشی زبان میں تین ترجمے ہوئے، جن میں ایک پر "پیشِ لفظ" انڈونیشیا کے وزیرِ اعظم ڈاکٹر محمد ناصر نے لکھاہے۔

صحافت

میدان صحافت میں طویل عرصہ رہے اور مختلف اوقات میں ہفت روزہ "الاعتصام"ہفت روزہ "اہلِ حدیث"ہفت روزہ "الاسلام"کے مدیر رہے اور پھر اپنا ذاتی ماہنامہ "ترجمان الحدیث" نکالا،جس کے تاحیات مدیر رہے۔

سیاست

اپنی دینی،علمی اور فکری مصروفیات کے سبب 1968ء تک آپ سیاست سے دور رہے،1969ء میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا،بھٹو دور میں کئی بار قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں،عزائم میں فرق آنا تو کجا آپ کے لہجے میں تک کوئی فرق نہ آیا بلکہ آئیں جواں مرداں حق گوئی و بیباکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی کی زندہ مثال بن کر رہے۔ تحریکِ استقلال میں زبردست حصہ لیا یہاں تک کہ اس کے مرکزی ناظمِ اطلاعات بھی رہے۔1977ء میں تحریکِ استقلال کے قائم مقام سربراہ بنائے گئے۔ بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔

تحریک نظام مصطفی کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ ضیاء الحق کی حکومت نے آپ کو علمائے کرام کی ایڈوائزری کونسل کا کارکن نامزد کیا لیکن آپ نے استعفی دے دیا۔ تحریکِ استقلال سے علٰیحیدگی کے بعد جمعیۃ اہل حدیث کی تنظیمِ نو کی اور اس کو زبردست کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اہلِ حدیث یوتھ فورس کی بنیاد ڈالی جس کے ذریعہ نوجوانانِ اہل حدیث میں جہاد کی روح پھونکی۔ جمعیۃ اہلِ حدیث کے جنرل سیکریٹری رہے۔ آپ کی سیاسی سرگرمیوں سے خوفزدہ ہوکر حکومتِ پاکستان نے با رہا فرضی مقدمات میں پھنسایا اور جائداد کی قرقی کے احکامات صادر کیے مگر پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی۔

تبلیغی سرگرمیاں

آپ کی علمی و فکری قابلیت نے آپ کو متعدد بار غیر ملکی دوروں پر آمادہ کیا۔ دنیاکے کونے کونے سے کانفرسوں اور سیمناروں میں شرکت کی دعوتیں آتی رہتیں،جن میں آپ اکثر شامل ہوا کرتے۔ سعودی عرب، کویت، قطر،متحدہ امارات و مصر میں آپ کا اکثر آنا جانا ہوتا علاوہ ازیں امریکا، برطانیہ،کنیڈا،سوڈان،تھائی لینڈ،انڈونیشیا،ملیشیا کے بھی متعدد دورے کیے تھے۔

آپ فطری طور پر سیاسی رجحانات رکھتے تھے۔ قومی جرائد ہی کا مطالعہ نہ کیا کرتے بلکہ بین الاقوامی جرائد بھی اکثر آپ کے زیر مطالعہ رہا کرتے تھے اور ویسے بھی ایک شخص جو سیاسی معاملات کو سمجھتا ہوں ان کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو، ان پر ماہرانہ رائے دینے کا اہل ہو، وہ کیونکر زیادہ دیر سیاست سے کنارہ کش رہ سکتا ہے۔ آپ کی سیاسی زندگی کا آغاز تو اسی دن ہو گیا تھا ،جب آپ نے مینار ِپاکستان میں عید کے اجتماع سے خطاب کیا تھا۔

لیکن باضابطہ طور پر آپ میدان سیاست میں اس وقت قدم رنجہ ہوئے جب سقوط ِمشرقی پاکستان کا المناک سانحہ رونما ہوا۔ اس سانحے نے آپ کے جذبات کو دنیا میں تلاطم پیدا کردیا تھا۔ آپ اتنے مضطرب ہوئے کہ آپ نے نظری سیاست کو ترک کر کے عملی سیاست میں کودنے کا ارادہ کرلیا۔جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، اس وقت میری عمر بمشکل چار ماہ تھی اور میں بابا کا پہلا بیٹا تھا۔

سقوط ڈھاکہ

بابا نے میری پیدائش پر بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا تھا اور غالباً اسی مسرت اور خوشی کی نسبت سے میرا نام ابتسام یعنی ’’ مسکراہٹ‘‘ رکھ دیا تھا، لیکن بنگال کے علیحدہ وطن بننے پر آپ اتنے مغمور ہوئے کہ آپ نے بے ساختہ یہ کہا تھا: ’’ میرا ایک ہی بیٹا ہے اگر کٹ جاتا،مر جاتا ،تو مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا ،جتنا آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ہوا‘‘۔آپ نے سقوط ڈھاکہ کے موقع پر چینیانوالی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا تھا، وہ آج بھی مجھے رلا رہا ہے۔

آپ نے کہا تھا: ’’ مسجدیں تمہیں بلاتیں رہیں!منبر و محراب تمہیں آوازیں دیتے رہےربّ کا قرآن تم کو روکتا رہا!رسول اللہ کا فرمان تم کو ٹوکتا رہا!لیکن تم نے ہر چیز کو پامال کردیا!اور نتیجتاً تم خود پامال ہو کر رہ گئے ہو!‘‘خطبہ کا دوسرا مقام ملاحظہ ہو:’’ آج ڈھاکہ کی مسجد بیت المکرم اپنی ماں کعبۃ اللہ کو کہہ رہی ہو گی، اے میری ماں! آج مجھ کو تیرے رکھوالے اغیار کے حوالے کر کے بھاگ نکلے ہیں‘‘۔

آپ کو مشرقی پاکستان سے کتنا پیار تھا۔ آپ اس کے شہروں کو کتنا یاد کرتے تھے۔ سقوط ڈھاکہ پر پڑھائے گئے خطبہ جمعہ میں آپ کے کتنے پیار سے مشرقی پاکستان کے شہروں کا نام لے رہے تھے۔ آپ کیسے کہہ رہے تھے۔ تم نے پٹنہ کو چھوڑا۔ تم نے پونا کو چھوڑا۔ تم نے کھلنا کو چھوڑا، تم نے چٹاگانگ کو چھوڑا،تم نے راس کماری کو چھوڑا ہے۔ آپ نے عالم وارفتگی میں یہ کہا تھا:’’خدا کی قسم! مجھے چٹاگانگ کی سرزمین اتنی ہی پیاری ہے، جتنا مجھ کو لاہور اور سیالکوٹ پیارا ہے‘‘۔

سانحہ سقوط ِمشرقی پاکستان آپ کو صحن مسجد سے کھینچ کر بازاروں، چوراہوں اور میدان میں لے آیا تھا۔ آپ نے قریہ قریہ، نگر نگر،بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلائی۔ یہاں تلک کہ بیرونی نیوز ایجنسیاں بھی اس بات کو ماننے کو مجبور ہو گئیں کہ پاکستان میں چار افراد بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک میں سرفہرست رہے ہیں، جن میں سے ایک احسان الٰہی ظہیر ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی مغربی پاکستان یا بقیہ پاکستان میں میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہو گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو کا کردار چونکہ تقسیم وطن کے حوالے سے کافی مشکوک تھا۔ ’’ادھر ہم اور ادھر تم‘‘ کے نعرے کا زخم ابھی بہت سے محب وطن لوگوں کے سینوں پر موجود تھا۔ اس لیے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کے فطری مخالفین کافی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان نے چونکہ بابا کی روح کو گھائل کر کے رکھ دیا تھا۔ اس لئے آپ بھی اس سانحہ شعوری یا غیر شعوری، ارادی یا غیر ارادی، بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث کسی بھی شخص کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے پر تیار نہ تھے۔

چنانچہ آپ قدرتی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے حریف بن گئے ۔ ان حریفانہ جذبات میں ذوالفقار علی بھٹو کے سوشلزم کے نعرے اور سیکولر نظریات کے سبب بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ آپ نے ملک بھر میں ذوالفقار علی بھٹو کے سیکولر نظریات کی مخالفت میں تقاریر کیں۔ اپنی طوفانی خطابت کی وجہ سے آپ اہل ِاختلاف کے دلوں میں سمانے لگے۔آپ چونکہ اہل ِحدیث تھے۔ اس لئے آپ نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو بھی جمعیت ِاہل ِحدیث کے پلیٹ فارم سے جاری رکھا ہوا تھا۔

مولانا دادو غزنوی کی رحلت کے بعد جماعت کے ایک معروف تاجر میاں فضل حق مرحوم جماعت کے ناظم اعلیٰ بنے ،میاں صاحب بنیادی طور پر ایک تاجر آدمی تھے۔ آپ سیاست میں کھل کر حصہ لینے کے قائل نہ تھے، تا ہم درمیانی سی چال چلتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں سیاست کرنے کے مخالف بھی نہ تھے۔بابا شہیداس پالیسی کے قائل نہ تھے۔آپ اس بات کو درست نہ سمجھتے تھے کہ انسان ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق ہو، آپ کہتے تھے کہ انسان جو کام بھی کر دے ڈنکے کی چوٹ کرے۔

سماجی سرگرمیاں

غلط کو غلط کہے درست کو درست کہے۔ آپ تبلیغی پلیٹ فارم سے حکمرانوں کی غلطیوں کی نشاندہی بڑے بھرپور انداز میں گرنے لگے تھے۔ آپ کے تیور جمعیت کے قائدین کو کھٹکنے لگے۔ جمعیت کے قائدین نے ان جلسوں اور جلوسوں میں شامل ہونے سے احتراز کرنا شروع کر دیا، جن میں بابا شہید شریک ہوا کرتے تھے۔ جب کوئی شخص حکومت وقت کی پالیسیوں پر متواتر تنقید کرتا رہتا ہے، تو وہ وقت کی حکومت کے عتاب کا نشانہ بھی بنتا ہے، مقدمات بھی بنتے ہیں، جیلوں میں بھی جانا پڑھتا ہے، مشکلات بھی جھیلنا پڑتی ہیں۔

بالکل اسی قسم کے معاملات شہید بابا کے ساتھ بھی رونما ہونے لگی۔ مختلف شہروں اور اضلاع میں آپ پر حکومتی کارندوں اور اہل کاروں کی طرف سے مقدمات کو دائر کیا جانے لگا۔ جوں جوں یہ مقدمات بڑھے ،توں توں قائدین جمعیت آپ سے دُور ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ دن بھی آگیا جب جمعیت ِاہل ِحدیث پاکستان نے مکمل طور پر آپ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ اس عالم تنہائی میں بابا نے اس بات کو ضروری خیال کیا کہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کو اختیار کیا جائے۔

ایئر مارشل اصغر خان ان ایام میں بہت بڑے انقلابی رہنما کے طور پر متعارف ہوئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ بابا کا اپنا مزاج بھی ویسا تھا چنانچہ آپ نے ایئر مارشل اصغر خان کی جماعت’’تحریک ِاستقلال‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اللہ تعالیٰ شہید بابا کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے[3]۔

خطابت

یہ آپ کا مخصوص و محبوب ترین میدان تھا،آپ کی شعلہ بیانی اور اثر آفرینی کا ایک زمانہ قائل ہے۔ پاکستان کے ایک نامور ادیب،صحافی و خطیب آغا حشر کاشمیری نے اپنی کتاب "ختمِ نبوت"میں علامہ کے بارے میں یہ الفاظ لکھے تھے : "علامہ صاحب ایک شعلہ بیان خطیب،معجز رقم ادیب،بالغ نظر صحافی اور بہت سی زبانوں میں مہارتِ تامہ رکھنے کے باوجود دور رس نگاہ کے عالمِ متبحر ہیں"۔

ایک علمی شخصیت

احسان الٰہی ظہیر پاکستان کی ایک بے مثال نمایاں دینی وسیاسی شخصیت تھے سیاسی ودینی حلقوں میں انہیں بیک وقت پذیرائی حاصل تھی ۔ تمام مکاتب فکر کے اکابرکے ساتھ ان کی بے تکلف دوستی تھی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خطابت نہ صرف برصغیرکی تاریخ میں بے مثال تھی بلکہ وہ عربی زبان میں بھی اسی روانگی اورسلاست کے ساتھ خطابت کرتے تھے کہ اہل زبان کو بھی رشک آتاتھا۔

عربی زبان میں خطابت

مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران انہیں مسجدنبوی میں درس کا حلقہ ملا تو عربی زبان کے بڑے بڑے خطیبوں نے مانا کہ اس طرح کی طلاقت لسانی اور قدرت بیانی تو اہل زبان کو بھی حاصل نہیں ہے۔ سابق عراقی صدر صدام حسین کی موجودگی میں علامہ احسان الٰہی نے جو بے مثال تقریر کی تھی اس نے صدام حسین جیسے سخت گیر انسان پر بھی رقت طاری کردی تھی ۔ 1978میں کراچی میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں علامہ صاحب نے عربی میں فی البدیہہ ایسی موثر تقریر کی کہ تمام عرب وزراء بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔

جنرل ضیاء الحق مرحوم بھی اس میں موجود تھے انہوں نے علامہ صاحب کا ماتھا چوما اور کہا کہ پاکستان کیلئے یہی فخر کیا کم ہے کہ ہم میں علامہ احسان الٰہی جیسا سپوت موجود ہے ۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق نے آپ کو حکومت میں شامل کرنے کی کئی دفعہ کوشش کی لیکن یہ شاہین کسی طرح زیردام نہ آیا ۔آغا شورش کاشمیری جو خود بھی بلند پایہ خطیب وادیب تھے۔

ان کے بقول خطابت کی تمام خوبیاں(وجاہت ، شجاعت ، طلاقت لسانی ، قادر الکلامی ، مدلل گفتگو ، اور بلند آہنگی ) صرف علامہ احسان الٰہی ظہیرکے اندر موجود ہیں اور آغا صاحب کی نیازمندی اس وقت سے تھی جب علامہ صاحب نے مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعداقبال پارک میں پہلا عید کا خطبہ دیا اور حکومت کی متشددانہ کاروائیوں کی دھجیاں بکھیردی تھیں ۔بقول کسے سیالکوٹ کی مردم خیزسرزمین نے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے لیکن علامہ کالقب دو ہی شخصیتوں پر جچتا ہے۔

ایک علامہ محمد قبال اور دوسرے علامہ احسان الٰہی ظہیر۔ علامہ صاحب کے والد حاجی ظہور الٰہی ایک کامل ولی انسان تھے ،نہایت پاکباز اور متبع شریعت ۔ جنہوں نے اپنے اس بیٹے کو بڑے لاڈ پیار سے بڑا کیا ان کے بچپن کے تمام ناز اٹھاکر انہیں ایک اعلیٰ منصب پر پہنچنے کیلئے ماحول فراہم کیا ۔ علامہ صاحب میں بچپن ہی سے کچھ کرگزرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ انہوںنے جامعہ سلفیہ فیصل آباد ، جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اور پھر مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب سے علوم اسلامیہ میں کامل دسترس حاصل کی اسی دوران میں ان کی شادی شیخ الحدیث حضرت العلام حافظ محمدمحدث گوندلوی کی صاحبزادی سے ہوگئی جو خود بھی عالمہ فاضلہ اور قرآن کریم کی حافظہ تھیں۔

فرق وادیان کے مشکل سبجیکٹ

مدینہ یونیورسٹی تعلیم کے دوران علامہ صاحب نے فرق وادیان کے مشکل سبجیکٹ کو اختیار کرکے اس میں مکمل رسوخ حاصل کیااور پھر انہوں نے شہرہ آفاق کتابیں لکھ کر فرق باطلہ قادیانیت رفض و تشیع کے تاروپود بکھیرے ۔مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے اسی زمانے میں علامہ صاحب نے لاہورمیں قیام اختیار کیا اور تاریخی مسجد چینیانوالی میں خطابت کے منصب پرفائز ہوئے۔

اس مسجد کا تعلق شاہ اسماعیل شہید کی تحریک مجاہدین کے ساتھ تھا اس لیے یہاں بڑے بڑے جغادری خطیب فریضہ خطابت سرانجام دیتے رہے ۔مثلاًمولانا سید داود غزنوی کہ برصغیرکی تاریخ میں ایک بلند پایہ نام ہے چونکہ یہ مسجد رنگ محل کی ایک چھوٹی سی گلی کوچہ چابک سواراں میں ہے۔ اس لیے نمازعید اقبال پارک کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں ادا کی جاتی ہے اندرون لاہورکی بیشترآبادی یہیں نماز عید ادا کرتی تھی حتیٰ کہ مشہور ولی اللہ مفسر قرآن مولانا احمدعلی لاہوریؒ بھی ساری زندگی یہیں مولانا داود غزنویؒ کی اقتدا میں نماز عیدادا کرتے رہے۔

سیدغزنوی کی وفات 1963میں ہوئی تھی اس کے بعد سے اب تک چینیانوالی مسجد کو کوئی ایسا بلند آہنگ خطیب نہیں ملا تھااور نہ ہی سیدداود غزنوی جیسی قدآور شخصیت کے بعدکوئی ہستی اس معیار پر پورا اترتی تھی ۔علامہ احسان الٰہی کی بطور خطیب تقرری سے یہ خلا پر ہوتا نظر آیا۔یہ وہ دور ہے جب سقوط مشرقی پاکستان کازخم ابھی تازہ ہی تھا ۔اپنی تقرری کے فورا بعدعلامہ صاحب نے پہلا خطبہ عید اقبال پارک میں دیا تو اجتماع میں قافلہ آزادی کے بطل حریت، نامور ادیب و خطیب مدیر چٹان آغا شورش کاشمیریؒ بھی موجود تھے ۔

انہوں نے کہا احسان الٰہی اگر آج کے بعد تم خطبہ دینا بند بھی کردو تو صف اول کے نامور خطباء کی فہرست میں تمہارا نام شامل ہی رہے گا ۔اس کے بعد تا زندگی آغا صاحب اورعلامہ صاحب کی رفاقت رہی ۔ خطابت کے ساتھ ساتھ علامہ صاحب کو مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے ترجمان ہفت روزہ الاعتصام جس کے مالک و مسئول شیخ الحدیث علامہ محمد عطاء اللہ حنیفؒ تھے، اس ہفت روزہ کا مدیر بھی بنادیاگیا۔

علامہ صاحب کے انقلابی اداریوں نے حکومتی ایوانوں میں ہلچل پیدا کردی ۔ جماعت کو بھی ایک نئے آہنگ والے مدیر مل گیا ۔ آپ نے اپنا ماہنامہ ترجمان الحدیث کا ڈیکلریشن بھی منظور کرالیاجو اب تک جامعہ سلفیہ فیصل آباد کی زیرنگرانی نکل رہاہے جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ نے سیاسی طو رپر اپنی راہ ورسم خوب بڑھالی نوبزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے ساتھ علامہ صاحب کے نیازمندانہ تعلقات تا حیات رہے ۔ نتیجے میں آپ کو قیدوبندکی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔

رد قادیانیت

علامہ احسان الٰہی قادیانیت کی تاریخ پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے انہوں نے بالکل نوجوانی کی عمر اور مدینہ یونیورسٹی میں دوران تعلیم سب سے پہلے رد قادیانیت کے موضوع پرمدلل کتاب لکھی تھی۔ 1974میں نشترکالج ملتان کے طلباء پر ربوہ اسٹیشن پر تشدد کی وجہ سے پورے ملک میں قادیانی مخالفت تحریک شروع ہوگئی اور1953کی تحریک کی جوچنگاری دی ہوئی تھی وہ پھر بھڑک اٹھی ۔

حکومت نے اسے روکنے اور ٹالنے کی پوری کوشش کی لیکن تحریک بہت پرزور ہوچکی تھی ۔ مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا مفتی محمود ، مولانا ابوالاعلی مودودی ، مولانا شاہ احمد نورانی ، نوابزادہ نصر اللہ خان ، علامہ احسان الٰہی ظہیر، اور سیدمظفر علی شمسی صف اول کے قائدین تھے ۔ مجلس عمل کے قائدین کی بے پناہ دینی وسیاسی بصیرت نے تحریک کو تشددسے بچائے رکھا اس اتحاد و یکجہتی کی وجہ سے حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی اور 7ستمبر1974کو قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردینے کا تاریخی قانون پاس کردیا[4]۔

وفات

آپ 23 مارچ 1988ء کی شب مینار پاکستان کے پاس واقع فوارہ چوک قلعہ لچھمن سنگھ لاہور میں جمعیۃ اہلِ حدیث کے ایک جلسے میں خطاب کر رہے تھے کہ ایک زور دار دھماکا ہوا جس میں آپ شدید زخمی ہوئے، فورا اسپتال لے جایا گیا،جب یہ خبر سعودی عرب پہنچی تو خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز ابن سعود کے حکم سے ریاض منتقل کیا گیا، مگر ہزار کوششوں کے باوجود آپ جانبر نہ ہو سکے۔ 30 مارچ 1988ء]] کو وفات پائی، آپ کو جنت البقیع، مدینہ منورہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔

حوالہ جات

  1. حفیظ الرحمان ڈار،علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ- شائع شدہ از: 31 مئی 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 اپریل 2025ء
  2. تذکرہ علماء اہل حدیث ازمحمدعلی جانباز،علامہ احسان الہی ظہیر- اخذ شدہ بہ تاریخ:12 اپریل 2025ء
  3. تحریر : ابتسام الٰہی ظہیر، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ (سیاسی زندگی کا احوال)-شائع شدہ از: 4 اپریل 2014ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 اپریل 2025ء
  4. شہید حضرت علامہ احسان الہٰی ظہیر- شائع شدہ از؛ 25 مارچ 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 اپریل 2025ء