جہاد

جہادسے مراد مسلمانوں کا دشمنوں سے لڑنے کا طریقہ کار اور کردار کی طرف اشارہ ہے۔ یہ لغت قرآن مجید کے آیات کے علاوہ روایات میں بھی متعدد بار آئی ہے اور شرعی احکام میں اس کے بارے میں تفصیلی بحث کی گئی ہے اور اس کے اہم ابواب میں شمار ہوتا ہے۔ اسلام کی آفاقی اور ہمہ جہت تعلیمات کا دائرہِ کار انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی، ہر شعبہِ حیات کو محیط ہے۔ اِن تعلیمات کا مقصود ایک متحرک، مربوط، معتدل اور پُراَمن اِنسانی معاشرے کا قیام ہے۔ اسلام نے اِجتماعی اور ریاستی سطح پر قیامِ اَمن (establishment of peace)، نفاذِ عدل (enforcement of justice)،حقوقِ اِنسانی کی بحالی (restoration of human rights) اور ظلم و عدوان کے خاتمہ (elimination of violence and aggression) کے لیے جہاد کا تصور عطا کیا ہے۔ جہاد دراَصل اِنفرادی زندگی سے لے کر قومی، ملی اور بین الاقوامی زندگی کی اِصلاح کے لیے عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے۔
لغوی معنی
جہاد جہد بالضم یا جہد بالفتح سے مشتق ہے جس کا معنی خوب محنت و مشقت کے ہیں ۔ لغت کی کتابوں میں جہاد کے لغوی معنی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ بذل اقصی ما یستطیعہ الانسان من طاقتہ لنیل محبوب او لدفع مکروہ انسان کا اپنی کسی مرغوب چیز کو حاصل کرنے یا نا پسندیدہ چیز سے بچنے کے لئے انتہائی درجے کی بھر پور کوشش کرنا۔ لذا جہاد کا لغوی معنی مشقت اور توانائی صرف کرنا ہے۔
اصلاحی معنی
جہاد دینی اور مذہبی اصطلاح میں اسلام کو پھیلانے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے، خدا کی راہ میں انسان اپنی جان ، مال اور دیگر اثاثوں کے ساتھ جدوجہد کرنا ہے۔ [1]۔ جہاد ، دوسرے مفاہیم اور اصطلاحات کی طرح ، جیسے جہاد اکبر ، شیطانی وسوسوں اور ہواء نفس سے مقابلہ کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ [2]۔
حدیث میں بھی ، کچھ اعمال جہاد سے تشبیہ دی گئی ہے ، جو بظاہر ان کی اہمیت بیان کرنے کے لیے ہے۔ امر بالمعروف اور نہی از منکر، ظالم اور جابر کے سامنے انصاف اور عدالت کی بات کرنا، معاشرے میں اچھی عادت کو رواج دینا ، شوہر کی اچھی خدمت کرنا اور رزق حلال حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا جہاد کے مصداقوں میں سے ہیں [3]۔ تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ جہاد شریعت میں قتال فی سبیل اللہ اور اس کی معاونت کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں جہاد فی سبیل اللّٰه کی اصطلاح اپنے معنی کے اعتبار سے بہت وسیع ہے۔ اللّٰه کریم نے ارشاد فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ [4]۔ اور جنہوں نے ہمارے راستے میں جہاد کیا ہم انہیں ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے۔
مفسران کرام فرماتے ہیں: یعنی جو لوگ اللہ تعالی کی خوشنودی اور ہدایت کے طلب گار ہو کر اپنی خواہشات اور شہوات خلاف اپنے آپ سے لڑتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے راستے کی ہدایت دیں گے۔ جہاد کا اطلاق دشمنوں سے لڑنے پر بھی ہوتا ہے جس کا مقصد حملہ آوروں کو روکنا اور جان اورسر زمین کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اللّٰه کریم نے ارشاد فرمایا: ﴿انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ [5]۔ نکلو تم ہلکے ہو یا بوجھل اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں لڑو۔
یہ جہاد کی اقسام میں سے ایک ایسی قسم ہے جس کی کچھ خاص شرائط ہیں جیسا کہ امامِ وقت کا موجود ہونا، اس کا اجازت دینا، ایک واضح اسلامی پرچم ہو، ہتھیار اور جرات و طاقت کی بھی ہو اور اس کی تنظیم و ترتیب صرف ولی امر کے ہاتھ میں ہو۔ یہی سبب ہے کہ اسے اسلام میں جہاد اصغر کہا جاتا ہے پس روایت ہے کہ غازیوں کا ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نےانہیں فرمایا: آپ نے جہاد ِ اصغرسے جہاد ِ اکبر کی طرف بہترین پیش رفت کی ہے۔ انہوں نے عرض کیا: جہاد ِ اکبر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: بندے کی اپنی خواہشات کے خلاف جدوجہد [6]۔
اسلامی جہاد کی حقیقت قرآن وحدیث کی روشنی میں
انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے، دنیا کے سارے مذاہب میں احترامِ نفس کا یہ اصول موجود ہے اور جس مذہب اورقانون میں اس دفعہ کو تسلیم نہیں کیاگیاہے، اس مذہب اور قانون کے تحت رہ کر کوئی انسان پُرامن زندگی نہیں گذارسکتا ہے۔ اور اگر خالص انسانیت کی نظر سے دیکھا جائے، تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی مفاد کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرنا، بدترین جرم ہے، جس کا ارتکاب کرکے انسان میں کوئی اخلاقی بلندی پیدا کرنا تو در کنار، اس کا درجہٴ انسانیت پر قائم رہنا بھی ناممکن ہے۔
دنیا کے سیاسی قوانین، تو انسانی احترام کو صرف سزا کے خوف سے قوت کے بل بوتے پر قائم کرتے ہیں؛ مگر ایک سچے دین ومذہب کا کام انسانی دلوں میں اس کی صحیح قدر وقیمت پیدا کردیتا ہے؛ تاکہ جہاں انسانی تعزیر کا خوف نہ ہو، وہاں بھی ایک انسان دوسرے انسان کا خون کرنے سے پرہیز کرے، اس نقطئہ نظر سے احترامِ نفس کی جیسی صحیح اور موٴثر تعلیم اسلام میں دی گئی ہے۔
جہاد قرآن میں
وہ کسی دوسرے اور ادیان ومذاہب میں ناپید ہے، قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز وپیرایہ سے اس تعلیم کو انسانی دلوں میں دل نشیں کیاگیا ہے؛ چنانچہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَاماً﴾ [7]۔ ور جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہیں، ہاں مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا۔“
اس تعلیم کے اولین مخاطب وہ لوگ تھے، جن کے نزدیک انسانی جان ومال کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی اور جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے اولاد جیسی عظیم نعمت کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے؛ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طبیعتوں کی اصلاح کے لیے خود بھی ہمیشہ احترامِ نفس کی تلقین کیاکرتے تھے، احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کرنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ اس قسم کے ارشادات وبیانات سے بھرا پُرا ہے۔
جہاد حدیث ميں
جس کے اندر ناحق خون بہانے کو گناہِ عظیم اور بدترین جرم بتایا گیا ہے، جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”الکبائرُ الاشراکُ باللہِ وقتلُ النَفْسِ وعقوقُ الوالدینِ والیَمِیْنُ الغَمُوسُ﴾ [8]۔ ترجمہ: بڑے گناہوں میں سے اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جان مارنا، والدین کی نا فرمانی کرنا اور جھوٹی قسمیں کھانا ہے۔ حرمت نفس کی یہ تقسیم کسی فلسفی یا معلم اخلاق کی نہ تھی کہ اس کا دائرئہ کار صرف کتابوں کی حد تک محدود رہتا؛ بلکہ وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تھی، جن کا ہر ہر لفظ مسلمانوں کے لیے ایمان ویقین کا درجہ رکھتا ہے۔
جن کی پیروی ہر اس شخص پر واجب اور ضروری ہوجاتی ہے، جو کلمہٴ توحید (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کا اقرار کرتا ہو؛ چنانچہ ایک چوتھائی صدی کے قلیل عرصہ میں ہی اس تعلیم کی بدولت عرب جیسی خونخوار اور جانور نما قوم کے اندراحترامِ نفس اور امن پسندی کا ایسا مادہ پیداہوا کہ ایک عورت رات کی تاریکی میں تنِ تنہا قادسیہ سے صنعا تک سفر کرتی تھی اور کوئی اس کی جان ومال پر حملہ نہ کرتا تھا اور بہ حفاظت وہ اپنی منزل تک پہونچ جایا کرتی تھی؛ حالانکہ یہ انھیں درندوں اور لٹیروں کا شہر اور ملک تھا، جہاں بڑے بڑے دل گردے والے بھی گذرتے ہوئے لرزجایا کرتے تھے۔
گویا کہ حیوانیت اور قساوتِ قلبی ان کے لیے عام بات تھی، ایسے سنگین حالات میں اسلام نے ببانگِ دُہُل یہ آواز بلند کی: ﴿وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ [9] ۔ ”یعنی انسانی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے،اس کو ناحق قتل مت کرو؛ مگر اس وقت جب کہ حق اس کے قتل کا مطالبہ کرے“ اس آواز میں ایک قوت وطاقت تھی۔
اس لیے دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہونچی اور اس نے انسانوں کو اپنی جان کی صحیح قدر وقیمت سے آگاہ کیا، خواہ کسی قوم وملت نے یا کسی ملک وشہر نے اسلام کو اختیار کیا ہو یا نہ کیاہو، اجتماعی تاریخ کا کوئی بھی انصاف پسند انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کے اخلاق وقوانین میں انسانی جان کی حرمت وکرامت قائم کرنے کا جو فخر مذہبِ اسلام کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے ادیان ومذاہب کو حاصل نہیں۔
غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ﴿وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ﴾ ہی نہیں فرمایا؛ بلکہ ﴿اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ بھی کہا گیا، ایسے ہی ﴿مَنْ قَتَلَ نَفْساً فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً﴾ ہی نہیں فرمایا؛ بلکہ اس کے ساتھ ﴿بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ﴾ بھی کہا گیا، یہ نہیں کہ کسی بھی جان کو کسی بھی حال میں قتل مت کرو، اگر ایسا کہا جاتا ، تو یہ عدل کے بالکل خلاف ہی نہیں؛ بلکہ حقیقی ظلم ہوتا، دنیا کو اصل ضرورت اس بات کی نہ تھی کہ انسان کو قانونی گرفت سے بالکل آزاد کردیاجائے
کہ جتنا چاہے، جہاں چاہے، جب چاہے فساد برپا کرے، جس قدر چاہے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، جس کو چاہے اور جب چاہے بے آبرو کرکے اس کی عزت وآبرو کا جنازہ نکال دے اور ان تمام کے باوجود اس کی جان محترم ہی رہے؛ بلکہ اصل ضرورت یہ تھی کہ دنیامیں امن وامان کی خوش گوار فضا قائم کی جائے اور ایک ایسا منظم دستورالعمل تیار کیاجائے، جس کے تحت ہر فرد اپنی حدود میں آزاد رہے اور کوئی شخص اپنے حدود سے تجاوز نہ کرے، اس غرض کے لیے ﴿اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ کی محافظ قوت درکار تھی ورنہ امن کی جگہ بدامنی ہوتی۔
قتل حق اور قتل ناحق اور قتل بغیر الحق کا فرق
قتل ناحق کی ایسی سخت ممانعت اور قتل حق کی ایسی سخت تاکید کرکے شریعت ِ اسلامیہ نے افراط وتفریط کی راہوں کے درمیان عدل وتوسط کی سیدھی راہ کی طرف ہماری راہ نمائی کی ہے، ایک طرف وہ مُسرف اور حد سے تجاوز کرنے والا گروہ ہے، جو انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں سمجھتا اور دوسری طرف وہ غلط فہم اور کورچشم گروہ ہے، جو انسانی خون کی دائمی حرمت کا قائل ہے اور کسی صورت میں بھی اسے بہانا جائز نہیں گردانتا۔
اسلام نے ان دونوں غلط خیالوں کی تردید کردی اور اس نے یہ تعلیم دی کہ انسانی نفس کی حرمت نہ تو ابدی اور دائمی ہے اور نہ اس کی قدر وقیمت اس قدر ارزاں اور سستی ہے کہ نفسانی جذبات کی تسکین کی خاطر اسے ہلاک کردینا جائزہو؛ مگر جب وہ سرکشی اختیار کرکے حق پر دست درازی کرتاہے، تو اپنے خون کی قیمت کو کھودیتا ہے، پھر اس کے خون کی قیمت اتنی بھی نہیں رہ جاتی جتنی کہ پانی کی قیمت ہوتی ہے۔
جنگ ایک اخلاقی فریضہ
جب کوئی جماعت سرکشی پر اتر آتی ہے، تو وہ کوئی ایک فتنہ نہیں ہوتا، جو وہ برپا کرتی ہو؛ بلکہ ان میں طرح طرح کے شیطان صفت انسان بھی شامل ہوتے ہیں اور ہزاروں طرح کے فتنے ان کی بدولت وجود پذیر ہوتے ہیں، ان شیطانوں میں سے تو بعض طمع وحرص کے پجاری ہوتے ہیں جو غریب قوموں پرڈاکہ ڈالتے ہیں اور ان کے خون پسینہ سے کمائے ہوئے روپیوں پیسوں کو اپنی عیارانہ چالوں سے لوٹتے ہیں اور پھر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، عدل وانصاف کو مٹاکر جور وجفا کے علَم کو بلند کرتے ہیں۔
ان کے ناپاک اثر سے قوموں کے اخلاق تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں، تو ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں؛ بلکہ فرض ہوجاتی ہے، اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان ظالم بھیڑیوں کے خون سے صفحہٴ ہستی کے سینے کو سرخ کردیا جائے اور ان مفسدوں کے شر سے اللہ کے مظلوم وبے کس بندوں کو نجات دلائی جائے، جو شیطان کی امت بن کر اولادِ آدم پر اخلاقی، روحانی اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں۔
وہ لوگ انسان نہیں؛ بلکہ انسانوں کی شکل وصورت میں درندے اورانسانیت کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں، جن کے ساتھ اصلی ہمدردی یہی ہے کہ ان کو صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جائے، ایسے وقت میں ہر سچے، بہی خواہ انسانیت کا اولین فرض ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائے اور اس وقت تک آرام نہ کرے، جب تک کہ خدا کی مخلوق کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق واپس نہ مل جائیں۔
جنگ کی حکمت ومصلحت
جنگ کی مصلحت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکیمانہ انداز میں بیان فرمایا ہے کہ ﴿وَلَوْلاَ دَفَعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّ صَلَوٰاتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللہِ کَثِیْراً﴾ [10]۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا، تو صومعے اور گرجے اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیاجاتا ہے، مسمار کردیے جاتے۔“ جنگ کی اسی مصلحت کو ایک دوسری جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ: ﴿وَلَوْلاَ دَفَعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ﴾ [11]۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا، تو زمین فساد سے بھر جاتی؛ مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔“ (کہ وہ دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)
جہاد فی سبیل اللہ
یہی فساد وبدامنی ظلم وجبر کی جنگ ہے، جس کو دفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ o الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلاَّ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ﴾ [12]۔ جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے؛ کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اللہ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ یہ اللہ کو اپنا پروردگار کہتے تھے۔
اس کے اندر جن لوگوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، ان کا جرم یہ نہیں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ ایک دوسرے مذہب کے پیروکار ہیں؛ بلکہ ان کا جرم واضح انداز میں یہ بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ظلم کرتے ہیں، لوگوں کو بے قصور ان کے گھروں سے نکالتے ہیں، ایسے لوگوں کے خلاف صرف مدافعتی جنگ کا حکم نہیں دیاگیا؛ بلکہ دوسرے مظلوموں کی اعانت کا بھی حکم دیاگیا اور تاکید کی گئی کہ کمزور و بے بس لوگو کو ظالموں کے پنجوں سے چھڑاؤ۔
حق وباطل کی حد بندی
پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ کی اہمیت وضرورت کو ظاہر کرنے کے بعد یہ تصریح بھی فرمادی : ﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ج وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْآ اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ ج اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفاً﴾ [13] جو لوگ ایمان دار ہیں، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر وسرکش ہیں وہ ظلم وسرکشی کی خاطر لڑتے ہیں، پس شیطان کے دوستوں سے لڑوکہ شیطان کی تدبیر لچر ہوتی ہے۔
یہ ایک قولِ فیصل ہے، جس کے اندر حق وباطل کے درمیان خط کھینچ دی گئی ہے کہ جو لوگ ظلم وسرکشی کے لیے جنگ کریں گے، وہ شیطان کے حامی ہیں اور جولوگ ظلم کو مٹانے کے لیے جنگ کرتے ہیں، وہ راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔
جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت
یہی وہ جہاد ہے، جس کی فضیلت سے قرآن وحدیث کے صفحات بھرے پُرے ہیں، یہی وہ حق پرستی کی جنگ ہے، جس میں ایک رات کا جاگنا ہزار راتیں جاگ کر عبادت کرنے سے بڑھ کر ہے، جس راہ میں غبار آلود ہونے والے قدموں سے وعدہ کیا گیاہے کہ ان کو جہنم کی آگ کی طرف نہیں گھسیٹا جائے گا[14]۔
جہاد اسلامی ثقافت میں
جہاد اسلامی ثقافت میں برائے خدا اصلاح معاشرہ کی راہ میں دشمن سے آگاہانہ جدوجہد کرنے کے معنی میں ہے۔ جہاد کی اہداف کے لحاظ سے چند قسمیں ہیں: جہاد دفاعی مسلحانہ تجاوز کے مقابلے میں اور جہاد ابتدائی جو دعوت اسلام کے لئے ہے اور اہل بغی سے جہاد ہے یعنی جو گروہ دوسرے گروہ پر ناحق غلبہ کرنا چاہتا ہے یا اس کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا ہے۔
آئین اسلام میں جہاد کی تمام قسموں میں اصلی مقصد، ظلم و ستم اور برائی کو روکنا ہے اور جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہوجائے تو وہ شہید کہلاتا ہے۔ میدان جنگ میں کفار ومشرکین سے جہاد کرنے کو حدیث نبوی(ص) میں جہاد اصغر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں نفس سے جہاد کرنے کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے جو جہاد اصغر سے کہیں زیادہ عظیم اور سخت تر ہے۔ نفس سے جہاد یعنی اخلاقی رذائل، باطنی کثافتوں اور شیطانی وسوسوں سے جہاد کرنا[15]۔
جہاد کی اقسام
کافروں سے جہاد کرنے کی دو قسمیں ہیں:
1۔ اقدامی جہاد 2۔ دفاعی جہاد
اقدامی جہاد یا جہاد ابتدائی
اقدامی جہاد:یعنی مسلمانوں کا کافروں کے خلاف خود اقدام جہاد کرنا ، اگر یہ اقدام ان کافروں پر ہے جن تک دین کی دعوت پہنچ چکی ہے تو ایسے کافروں کو حملے سے پہلے دعوت دینا مستحب ہے اور اگردعوت نہیں پہنچی تو پہلے دعوت دی جائے گی اگر نہ مانیں تو جزیہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور یہ بھی نہ مانیں تو ان سے قتال کیا جائےگا۔ اقدامی جہاد: کی بدولت وہ کافر جو مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہوں دب جاتے ہیں اور ان کے دشمن خوف زدہ اور مرعوب ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں نہیں کرتے۔
اس لئے کافروں کو مرعوب رکھنے اور انہیں اپنے غلط عزائم کی تکمیل سے روکنے اور دعوت اسلام کو دنیا کے ایک ایک چپے تک پہنچانے اور دعوت کے راستے سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے اقدامی جہاد فرض کفایہ ہے۔ اگر کچھ مسلمان یہ عمل کرتے ہیں تو سب کی طرف سے کافی ہے لیکن اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب گناہ گار ہوں گے۔ فتاویٰ شامی میں ہیں مسلمانوں کے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ دارالحرب کی طرف ہر سال ایک یا دو مرتبہ لشکر بھیجے اور عوام پر ضروری ہے کہ وہ اس میں اپنے امام کی مدد کریں اگر امام لشکر نہیں بھیجے گا تو گناہ گار ہوگا۔
قرآن مجید نے مسلمانوں کو اقدامی جہاد کی تلقین فرمائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اقدامی جہاد ہوتا رہے تو دفاعی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے لیکن جب مسلمان اقدامی جہاد کے فریضے غفلت کرتے ہیں تو انہیں دفاعی جہاد پر مجبور ہونا پڑتا ہے جیسا کہ اس دور میں ہو رہاہے۔
دفاعی جہاد
دفاعی جہاد: یعنی اپنے ملک پر حملہ کرنے والے کفار سے دفاعی جنگ لڑنا یہ اہم ترین فریضہ ہے ۔ حضرات فقہاء کرام کی عبارت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ ذیل صورتوں میں جہاد فرض عین ہو جاتا ہے:
- جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر یا بستی پر حملہ آور ہو جائیں یا قابض ہو جائیں ۔
- جب کفار مسلمانوں کے کچھ افراد کو گرفتار کرلیں ۔
- ایک مسلمان عورت گرفتار ہو جائے تو اسے کافروں سے نجات دلانا تمام مسلمانان عالم پر فرض ہو جاتا ہے۔
- جب امام پوری قوم یا کچھ افراد کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دے۔
- جب مسلمانوں اور کافروں کی جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائٰیں اور جنگ شروع ہو جائے[16]۔
حواله جات
- ↑ ابن عبدین، ردّ المحتار علی الدّر المختار، ج۲، ص۲۱۷؛ هیکل، الجهاد والتقال فی السیاسة الشرعیة، ج۱، ص44
- ↑ نجفی، جواهر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، ج۲۱، ص۳۵۰.
- ↑ کلینی، الکافی، ج۴، ص259؛ ج۵، ص۹، 10، 12، 60، 88؛ مناوی، فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر، ج۲، ص366
- ↑ سورہ عنكبوت، آیہ69
- ↑ سورہ توبہ، آیہ 41
- ↑ اسلام میں جہاد فی سبیل اللّٰه صحیح...- شائع شدہ از: 22 مئی 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 اپریل 2025ء
- ↑ سورہ، فرقان آیہ 68
- ↑ مشکوٰة:۱۷، باب الکبائر وعلامات النفاق
- ↑ سورہ فرقان، آیہ 68
- ↑ سورہ حج، آیہ 20
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ 215
- ↑ سورہ حج، آیہ ۳۹-۴۰
- ↑ سورہ، نساء آیہ 76
- ↑ مولانانصیرالدین قاسمی ولیدپوری،استاذ مدرسہ دارالعلوم محمدیہ قصبہ گدرپور، سلامی جہاد کی حقیقت قرآن وحدیث کی روشنی میں- شائع شدہ از:31 مارچ 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 اپریل 2025ء۔
- ↑ اسلام میں جہاد کا استعمال کس معنی میں ہے اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟- شائع شدہ از: 25 جون 2015ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 اپریل 2025ء
- ↑ جہاد کے لغوی اور شریعی معنی اور اور کتب جہاد کے حوالہ جات- شائع شدہ از: 15 مارچ 2008ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 اپریل 2025ء