مندرجات کا رخ کریں

زیدیہ

ویکی‌وحدت سے
زیدیہ
نامزیدیہ
عام نامزیدیہ
بانی
  • زید بن علی بن حسین علیہ السلام

زیدیہحضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند زید شھید کے پیروکار ہیں۔ یہ فرقہ امام زین العابدین کے بعد امام محمد باقر کی بجائے ان کے بھائی امام زید بن زین العابدین کی امامت کے قائل ہیں۔ یہ فرقہ اپنی نسبت زید بن علی بن حسین بن علی کی طرف کرتا ہے۔ان کے عقیدے کے مطابق ائمہ عام انسان ہی ہوتے ہیں مگر علی بن ابی طالب پیغمبر اسلام کے بعد سب سے افضل ہیں، زیدیہ صحابہ میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتا اور نہ تبرا کرتا ہے۔ یمن میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی زیدیہ موجود ہیں۔

امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بعد زیدی شیعوں میں کوئی بھی ایسا فاطمی سید خواہ وہ امام حسن کے نسل سے ہوں یا امام حسین کے نسل سے امامت کا دعوی کر سکتا ہے، زیدیوں کے نزدیک پنجتن پاک کے علاوہ کوئی امام معصوم نہیں، کیونکہ ان حضرات کی عصمت قرآن سے ثابت ہے۔ زیدیوں میں امامت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ فرقہ اثنا عشری کی طرح امامت، توحید، نبوت اور معاد کے عقائد رکھتے ہیں تاہم ان کے ائمہ امام زین العابدین کے بعد اثنا عشری شیعوں سے مختلف ہیں۔ لیکن یہ فرقہ اثنا عشری کے اماموں کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کو "امام علم" مانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زیدی کتابوں میں امام باقر، امام جعفر صادق اور امام عسکری وغیرہ سے بھی روایات مروی ہیں۔

لغوی معنی

زیدیہ زید کی طرف منسوب ہے، اس سے مراد زیدی فرقہ ہے۔ ان کا یہ نام زید بن علی نامی ایک شخص کی طرف نسبت کی وجہ سے پڑا۔ زیدیہ شیعہ کے فرقوں میں سے ایک فرقہ جو زید بن علی بن حسین کے پیروکار ہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ مرتکبِ کبیرہ مخلد فی النار ہوگا، ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) جائز ہے اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی امامت (خلافت) صحیح ہے۔

مسند زید

اس فرقے کے امام، امام زید بن زین العابدین کی ایک کتاب "مسند امام زید" ہے، جو مختلف احادیث کا مجموعہ ہے۔

زید بن علی اور مسئلہ امامت

زید ابن علی ابن الحسین امام محمد باقر علیہ السّلام کے بھائی ہیں اور صالح و محترم شخص ہیں۔ ہمارے ائمہ نے آپ کی اور آپ کے مجاہدانہ اقدام کی تعریف کی ہے۔ بلکہ آپ امام محمد باقر علیہ السّلام کی خلافت کے خواہاں تھے، یہ مسلم ہے کہ ہمارے ائمہ نے آپ کی تعریف و توصیف کی ہے اور آپ کو شہید کہا ہے۔ اور یہی ان کی عظمت کے لئے کافی ہےکہ:" مضیٰ واللہ شھیداً " وہ شہید ہوکر دنیا سے اٹھے ۔ آپ نے خود فرمایا کہ لوگوں کو بتادوں کہ میں بھی اس نکتہ سے غافل نہیں ہوں۔

وہ کہیں شبہ کا شکار نہ ہوں، میں بھی اس مسئلہ کو نہ صرف جانتا ہوں بلکہ اس کا اعتراف و اعتقاد بھی رکھتا ہوں۔ گفتگو کے آخری جملہ میں اسی مطلب کا اظہار ہے کہ میں پورے علم و ارادہ کے ساتھ نیز اپنے بھائی کے حکم سے جہاد کے لئے اٹھ رہاہوں۔ آپ نے خود فرمایا کہ میرے بھائی امام محمد باقر علیہ السّلام نے مدینہ میں مجھ سے فرمایا:" انی اقتل واصلب بالکناسۃ" کہ تمہیں قتل کیا جائےگا اور کانسۂ کوفہ پر سولی دی جائے گی۔" وان عندہ لصحیفۃ فیھا قتلی وصلبی" اور ان کے پاس ایک صحیفہ (کتاب) ہے جس میں میرے قتل کئے جانے اور دار پر چڑھائے جانے کا ذکر ہے۔

شیخ مفید اپنی کتاب ارشاد میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ حضرت زید کی امامت کے بارے میں اس طرح وضاحت فرمائی کیونکہ حضرت نے قیام کی دعوت کےوقت فرمایا تھا کہ میں یہ آل محمد کی خوشنودی کے لئے کر رہا ہوں اس لئے کچھ لوگ غلط فہمی سے آپ کو امام جان لیا جبکہ خود آپ نے خود اپنے بھائی امام باقر علیہ السّلام اور امام صادق علیہ السّلام کی امامت کا اعتراف اور اقرار کیا تھا۔

امامت کا نظریہ

آپ کی وفات کے بعد ایک مستقل فرقہ وجود میں آ گیا جو زیدیہ کہلایا۔ آپ کے ماننے والے امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد امام محمد باقر علیہ السلام کی بجائے آپ کو امام مانتے ہیں۔ اس فرقہ کے ماننے والوں کی اب بھی کافی تعداد موجود ہے۔ یہ فرقہ خلافت کو بھی تسلیم کرتا ہے اور امامت کو بھی مانتا ہے۔ یہ حضرت زید بن علی بن حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب کے پیروکار ہیں۔ امام کے متعلق بھی ان کا نظریہ کا فی حد تک معتدل تھا۔

ان کے نزدیک امامت منصوص بالوحی نہیں ہوتی بلکہ ہر فاطمی ،عالم،زاھد،بہادر،سخی اور حق کے راستہ میں جہاد کی قدرت رکھنے والاامام ہو سکتا ہے اگروہ مطالبہٴِ خلافت کے لیے سلاطین کے خلاف خروج کی اہلیت رکھتا ہو۔اس لحاظ سے ان کے ہاں امامت عملی چیز تھی سلبی نہیں۔ خروج کے باب میں آپ کے بھائی محمد باقر اور کئی شیعہ آپ کے ہم خیال نہ تھے۔ امام باقر فرمایا کرتے تھے کہ تمھارے مذہب کی رُو سے تو تمھارے والد بھی امام نہیں کیونکہ انھوں نے کبھی خروج نہ کیا۔

زیدیہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اپنے ائمہ کو الوہیت یا رسالت کے منصب پر فائز کرتے تھے۔ تعدّدِخلفاء کے بارے میں زیدیہ کازاویہ نگاہ یہ تھا کہ دوالگ الگ ملکوں میں دوجداگانہ امام پائے جا سکتے ہیں۔جبکہ ایک ہی ملک میں دو خلفاء کاوجود ممکن نہیں۔ مرتکبِ کبائر کے بارے میں یہ اعتزالی ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ کبائر کا مرتکب اگر توبہ نہ کرے توابدی جہنمی ہے۔حضرت زید کے بعد آپ کے بیٹے حضرت یحییٰ کی بیعت کی گئی۔

یحیی بن زید کا خروج

حضرت یحییٰ ٰ نے بھی 125ھء میں خروج کیا پھر جب آپ مقتول ہوئے تو بعد میں عبداللہ ابن حسن کے دونوں بیٹوں محمد اورابراہیم کی بیعت کی گئی۔عبداللہ بن حسن امام ابوحنیفہ کے محترم استاد تھے۔پھر ابراہیم نے عراق میں خروج کیا اور محمد نے مدینہ میں اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ کو عراق میں اور امام مالک کومدینہ میں بڑی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔اگرچہ یہ فرقہ آج تک یمن میں موجود چلاآرہا ہے مگرخلیفہ ابوجعفر منصور کے دور میں زیرِعتاب آنے کی وجہ سے یہ فرقہ کمزور پڑ گیااور دوسرے شیعہ اس پر غالب آگئے اس لیے یہ اپنی خصوصیات کھو بیٹھے۔

حسینییت کی عالمی تحریکیں

امام حسین کی شہادت کے بعد ہمارے دیگر ائمہ نے بھی اپنے زمانے کی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ،مقتضائے وقت کے مطابق اپنی جد وجہد جاری رکھی ۔البتہ ائمہ کے فرزندوں اور ان کے شیعوں نے مسلح جد و جہد سے بھی دریغ نہیں کیا ، چنانچہ جن لوگوں نے حکام جور اور ظالم حکومتوں کے خلاف مسلح انقلاب بپا کئے ہیں ان کے اسماء اور سَنِ انقلاب کو اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں :

یمن کے زیدیہ اور تحریک یمن

یمن کے زیدیہ متقدمین زیدیہ سے بہت قریب ہیں اور وہی عقائد رکھتے ہیں۔ 2004 میں یمنیوں پر کئی بڑے حملے ہوئے اور شیعیان یمن وسائل نہ ہونے کے باوجود دارالحکومت صنعا تک پیش قدمی کرکے جنرل علی عبداللہ صالح کے لئے خطرہ بن گئے تو وہ قطر کی ثالثی سے اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوا۔ یمن جزیرہ نمائے عرب کے انتہائی جنوب میں واقع ہے؛ یہ ملک شمال کی جانب سعودی عرب اور عمان کا ہمسایہ ہے اور مغرب کی جانب سے بحر احمر کے ساحل پر واقع ہے اور اس کے سمندر پار پڑوسی سومالیہ اور ایتھوپیا ہیں جب کہ جنوب اور مغرب کی جانب سے بحر ہند کے کنارے واقع ہے۔

اس ملک کے باشندے حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ہیں اور یہ ملک صدر اول سے ہی تشیع کی ترقی و ترویج کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور یہاں کے عوام اہل بیت علیہم السلام ولایت اور امامت کی پیروی کے حوالے سے مشہور ہیں۔ صوبہ صعدہ یمن کے شمال میں واقع ہے اور سعودی سرحد پر واقع ہے؛ یہ ایک کوہستانی علاقہ ہے جو دارالحکومت صنعا سے 243 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس صوبے کی آبادی کی اکثریت زیدی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔

یمن 1990 تک شمالی اور جنوبی یمن کی صورت میں دو حصوں میں بٹا رہا اور 1990 میں شمالی اور جنوبی یمن متحد ہوئے اور 12 سال تک شمالی یمن کی صدارت کے عہدے پر براجماں رہنے والے جنرل علی عبداللہ صالح یمن کی تعمیر و ترقی کا نعرہ لگا کر متحدہ یمن کا تا حیات صدر بن بیٹھا۔ اس زمانے سے یمن میں ترقی کا عمل تو درکنار، یہ ملک متعدد بحرانوں سے دوچار رہا اور بڑی طاقتوں نے جنرل صالح کو بارہا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا مگر کبھی یمن کی دستگیری کے لئے کسی نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا اور جنرل صالح عرب ممالک ممالک کے مالدار حکام کے ساتھ بیٹھ کرکے عیاشی کے مزے لوٹ کر اپنی مملکت ویراں میں بھی بادشاہوں کی سی زندگی گذارتا رہا

مگر اس کی خوشیاں عرب کانفرنس ہالوں اور صنعا کے صدارتی محل کی چار دیواری تک محدود رہیں۔ یمن میں کوئی بھی سنجیدہ ترقیاتی منصوبہ نافذ نہیں ہوا اور ملک روز بروز غریب سے غریب تر ہوتا گیا اور یمنی آمر نے شمالی اور جنوبی یمن کے شافعی اور شیعہ باشندوں کو حقوق سے محروم کرکے صنعا اور اس کے نواح کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی مگر صنعا بھی یمن ہی کا شہر تھا اور غربت ملک پر غالب تھی چنانچہ صنعا کا چہرہ بھی تبدیل ہونے سے قاصر رہا۔

یمن کی 42 فیصد آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے اور اہل تشیع زیدی، اسماعیلی اور اثناعشری مکاتب میں بٹے ہوئے ہیں۔ اہل تشیع کی اکثریت زیدیوں پر مشتمل ہے۔ شیعیان یمن کی اکثریت زیدیوں پر مشتمل ہے اور زیدی مذہب شیعہ، حنفی، اور معتزلی افکار کا آمیزہ ہے لیکن زیدیوں کی فقہ کے 90 فیصد تک مسائل اثنی عشری ـ جعفری فقہ کے ساتھ مشترک ہیں۔زیدی‌ پنجتن آل عبا علیہم السلام کی عصمت، امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت بلافصل، امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کی امامت اور آخر الزمان کے نجات دہندہ حضرت امام زمانہ (عج) پر راسخ ایمان و عقیدہ رکھتے ہیں۔

یمن کی کل آبادی تقریبا دو کروڑ کے لگ بھگ ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی سنی مسلمانوں کے شافعی مذہب کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور دوسرے درجے پر زیدی شیعہ ہیں جن کی آبادی 25 فیصد ہے جبکہ اثنی عشری شیعیان اہل بیت (ع) مذہبی اقلیت ہیں جو محرومیت کے لحاظ سے پہلے رتبے پر ہیں۔ شیعیان اثنی عشری صوبہ صعدہ اور دارالحکومت صنعا میں سکونت پذیر ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اثنی عشری معاشرتی محرومیوں کے باوجود علمی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں اور یمن کے اکثر علماء، دانشوروں، اساتذہ، اور اطباء و مہندسین (انجنئیرز) کا تعلق اثناعشری مکتب سے ہے اور سرکاری یونیورسٹیوں کے اکثر اساتذہ بھی اثنا عشری ہیں۔

یمن کے اہل تشیع میں سے پچاس لاکھ سادات ہیں جو مجموعی طور پر 200 خاندانوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد حسنی سادات اور 10 فیصد حسینی سادات ہیں۔الحوثی گروہ زیدیوں پر مشتمل ہے جو شمالی یمن کے صوبہ صعدہ میں سکونت پذیر ہیں؛ یہ لوگ بدرالدین حوثی سے منسوب ہیں اور حوثی کے نام سے مشہور۔ حوثی گروہ 1980 کی دہائی میں تشکیل پایا ہے اور اب تک اپنے حقوق کے حصول کی خاطر چھ مرتبہ تباہ کن حملوں کا نشانہ بنا ہیں۔حوثی گروہ دینی و سیاسی سرگرمیوں سے محرومی، زیدیوں کے عقائد اور ان کی تہذیب کے خاتمے کی سرکاری کوششوں سمیت یمنی آمر کی جانب سے صوبہ صعدہ میں تعمیر و ترقی کے عمل کی مخالفت پر معترض ہے۔

جنرل علی عبداللہ صالح 12 سال تک شمالی یمن کا صدر تھا اور 1990 میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کے بعد سے اب تک (19 سال کے عرصے سے) متحدہ یمن کا صدر ہے۔ صدر کو ملک کی تعمیر و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس نے چند سال قبل امریکہ اور سعودی بادشاہت کے ساتھ بعض قراردادیں منعقد کی ہیں جس کے بعد اس نے اعلان کیا کہ حوثی گروہ کی سرکوبی کے لئے فوجی کاروائی کے لئے بھی تیار ہیں اور وہ صعدہ میں حوثیوں کو کچل دیں گے۔ویسے تو جنرل علی عبداللہ صالح کا دعوی ہے کہ وہ خود زیدی شیعہ ہے مگر اس کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بعثی ہے شیعہ ور سنی سب کو یکساں طور پر کچل ڈالنے پر مصر نظر آتا ہے

اور اس کا بھی کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ جنرل صالح کی پوری کوشش رہی ہے کہ شمالی یمن میں سماجی ڈھانچہ تبدیل کرکے شیعہ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردے۔انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی اثناعشری مکتب کے پیروکاروں کی آبادی میں بہت اضافہ ہوا اور اس زمانے کے بعد زیدی اور اثنی عشری اہل تشیع کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم و دائم ہے اور "وحدت شیعیان جزیرہ" نامی تنظیم زیدی اور اثنی عشری اہل تشیع کی سرگرمیوں کو ہماہنگ کرتی ہے اور اتحاد کی حفاظت کرتی ہے۔ زیدیوں کا عقیدہ ہے کہ ہر زمانے میں حکومت کا حق صرف حسنی اور حسینی سادات کا ہے اور ان کے سوا کوئی بھی حاکم غاصب تصور کیا جاتا ہے۔ یمن کے اہل تشیع کے پاس ذرائع ابلاغ تک رسائی کے وسائل بھی نہیں ہیں اور ریڈیو ایران کی عربی سروس ان کو بیرونی دنیا سے باخبر رکھتی ہے اور وہ اتنی بڑی آبادی کے باوجود عید غدیر اور محرم الحرام کے

زید بن علی کی اولاد

  • حسین بن زید (ذوالدمعہ یا ذی العبرہ)
  • محمد بن زید
  • عیسی بن زید (موتم الاشبال)
  • یحیی بن زید (سیف ُ الاسلام)[1]۔

شہید زید بن علی

زید نے 121ھ اموی خلیفہ ھشام بن عبدالملک کے خلاف تحریک چلائی تھی اور ایک بڑی جماعت نے ان کی بیعت کرلی تھی لیکن شھر کوفہ میں ان کے مریدوں اور پیروکاروں اور اموی خلیفہ کی فوج کے درمیان جنگ ھوئی اورحضرت زیدب ھی اس جنگ میں شھید ہوگئے۔ زید شھید اپنے ماننے والوں اور پیروکاروں کے لئے اھلبیت(ع) کے پانچویں امام شمار کئے جاتے ہیں اور ان کے بعد ان کے بیٹے یحییٰ بن زید جنھوں نے اموی خلیفہ ولید بن یزید کے خلاف تحریک چلائی تھی اورشھید ھوگئے تھے ، آپ کے جانشین مقرر ہوئے۔

ان کے بعد محمد بن عبدا للہ اور ابراھیم بن عبداللہ جنھوں نے عباسی خلیفہ منصور دوانقی کے خلاف مھم شروع کی تھی اوریکے بعد دیگرے دونوں شھید ھوگئے تھے ، فرقہ زیدیہ کے امام سمجھے جاتے ھیں ۔ اسکے بعد کچھ مدت کے لئے زیدیہ فرقہ غیر منظم رھا۔ یہاں تک کہ ناصر اطروش نے جو حضرت زید کے بھائی کی اولاد میں تھا ، خراسان میں اپنی امامت کا اعلان کردیا ۔ وہاں حکومت نے اس کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ کر مازندران پھنچ گیا جھاں کے لوگوں نے ابھی اسلام قبول نھیں کیاتھا۔

وہاں اس نے تیرہ سال اسلام کی تبلیغ کی اوربھت سے افراد کومسلمان بنا کر زیدیہ مذھب کا گرویدہ بنا لیا تھا اس کے بعد انھی افراد کی مدد سے طبرستان پرقبضہ کرنے میں کامیاب ھوگیا اور اپنی امامت کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد اس کی اولاد میں سے بعض افراد نے کافی عرصے تک اس علاقے میں اپنی حکومت اور امامت جاری رکھی ۔ زیدیہ فرقے کے عقیدے کے مطابق ھروہ شخص جوفاطمی نسل سے ھواور اس کے ساتھ ساتھ عالم فاضل ، زاھد ، پارسا اورسخی بھی ھواور حق کی خاطر ظلم وستم کے خلاف اٹھے اورظلم و ستم کو ختم کرنے کی تحریک چلائے ، امام ھوسکتا ہے۔

شروع شروع میں زیدی لوگ خود حضرت زید کی طر ح پھلے دوخلفاء (ابوبکر و عمر )کو اپنے آئمہ میں شمار کیا کرتے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد لوگوں نے ان خلفاء کے نام اپنے اماموں کی فھرست سے نکال دیے اور اپنی امامت کو حضرت علی(ع) سے شمار کرنا شروع کر دیا۔ تاریخی شواھد کے مطابق فرقۂ زیدیہ اصول اسلام میں معتزلہ کا ذوق رکھتا ہے۔ او ر تقریبا ً اسی مذھب کاپیروکار ھے ، فروعی اورفقھی عقائد میں امام ابوحنیفہ کی پیروی کرتا ھے جواھلسنت کے چار اماموں میں سے ایک ھیں ۔ ان کے درمیان بعض فقھی مسائل کے بارے میں تھوڑا بھت اختلاف موجودہے[2]۔

اس فرقہ کا اہل سنت کے مطابقت

یہ فرقہ اہل سنت کے بہت نزدیک ہے۔ اس فرقہ کے لوگ صحابہ کرام پر تبراء کو جائز نہیں سمجھتے، تقیہ کے قائل بھی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ خلفائے راشدین کا نام بھی احترام سے لیتے ہیں البتہ امیر معاویہ اور طلحہ و زبیر سے متعلق بعض ان کے کفر کے قائل ہیں اور بعض زیدی ان اصحاب کو فاسق سمجھتے ہیں۔ سب و شتم کے بھی سخت مخالف ہیں۔ وضو میں یہ لوگ اہل سنت حضرات کی طرح پاؤں دھونے کے قائل ہیں۔ اہل تشیع اثناء عشری کی طرح نماز میں قنوت نہیں پڑھتے اور سجدگاہ بھی نہیں رکھتے۔

اہل سنت حضرات کی طرح سلام پھیرتے ہیں۔ نکاح متعہ کو حرام سمجھتے ہیں۔ امام مہدی سے متعلق زیدی عقیدہ یہی ہے کہ ان کی پیدائش نہیں ہوئی بلکہ قرب قیامت ان کی پیدائش ہوگی اور ان کی حکومت ھوگی

اثنا عشری سے مطابقت

اس فرقے میں عقائد میں اثنا عشری سے مطابقت ہونے کے ساتھ ساتھ اذان میں بھی یہ لوگ "حی علی خیر العمل "پرھتے ہیں۔ البتہ اس فرقہ کے لوگ، اذان میں"اشھد ان علیا ولی اللہ" نہیں پڑھتے۔ نماز میں ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ اثنا عشری کی طرح نھج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ کو مانتے ہیں۔

شوکانی اور زیدی مذہب

مشہور عالم دین علامہ شوکانی بھی شروع میں زیدی مذہب سے ہی تعلق رکھتے تھے اور بعد میں اس مذہب کے مصلحین میں آپ کا شمار ہوا۔

زیدیوں کے ا‏ئمہ

یہ شیعان زیدیہ کے پہلے بیس متفقہ امام ہیں۔ ان کے بعد شیعان زیدیہ یمن ، مراکش اور دیگر کئی علاقوں میں اپنی حکومتیں قائم کر کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں کے حکمران علاقائی امام کہلائے حتیٰ کہ ان کی آخری حکومت، جس کے حکمران امامان یمن کہلاتے تھے ، یمن میں بیسویں صدی کے وسط سے زیادہ تک قائم رہی اور ایک جمہوری انقلاب کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ یمن کی موجودہ حوثی جماعت شیعان زیدیہ کی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق امامت ایک مسلسل اور غیر منقطع عمل ہے اس لیے حوثیوں کے رہنما بجا طور پر آج کے زیدیہ شیعوں کے امام ہیں۔

  • علی بن ابی طالب
  • حسن بن علی
  • حسین بن علی
  • زین العابدین
  • حسن مثنیٰ
  • زید بن علی
  • یحییٰ بن زید
  • محمد نفس الزکیہ
  • ابراہیم بن عبداللہ علوی
  • عبداللہ شاہ غازی
  • الحسن بن ابراہیم
  • الحسین ابن علی العابد
  • عیسیٰ بن زید ابن علی
  • یحییٰ بن عبداللہ الکامل
  • ادریس بن عبداللہ
  • ابن طباطبا علوی
  • محمد بن محمد ابن زید
  • محمد ابن سلیمان ابن داؤد
  • قاسم بن ابراہیم الراسی
  • یحییٰ ابن عمر

تاریخی پس منظر

ایک شیعی فرقہ ہے، اس کی نسبت اس فرقہ کے بانی زید بن علی زین العابدین کی طرف ہے، جو ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی امامت کی صحت کے قائل تھے، اور ان میں سے کسی نے بھی کسی ایک بھی صحابی کی تکفیر نہیں کی۔ ان کے کچھ عقائد یہ ہیں:

  • افضل شخص کی موجودگی میں مفضول شخص کی امامت جائز ہے، کوئی بھی امام معصوم نہیں اور نہ ہی ائمہ کے حق میں نبی ﷺ کی وصیت ثابت ہے۔ یہ لوگ نہ ہی رجعت (یعنی شیعہ کے تمام ائمہ کا دوبارہ زندہ ہو کر حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے) کے قائل ہیں اور نہ ہی امامِ غائب (شیعوں کے مہدی منتظر محمد بن الحسن العسکری) کو مانتے ہیں۔
  • مؤمنین میں سے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب ہیں وہ مخلد فی النار ہوں گے۔
  • ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کو جائز قرار دیتے ہیں۔
  • فاسق امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
  • اللہ تعالیٰ کی ذات اور اعمال میں اختیار کے بارے میں وہ اعتزال کی طرف مائل ہیں۔
  • نکاحِ متعہ کے بارے میں عام شیعوں سے اختلاف کرتے ہیں اور اسے ناپسند گردانتے ہیں۔
  • زکاتِ خمس اور بوقتِ ضرورت تقیہ کے جائز ہونے میں عام شیعوں کے ساتھ متفق ہیں۔

فرقے

زیدیہ تین ذیلی فرقوں میں بٹ گئے:

جارودیہ

یہ ابو الجارود زیاد بن منذر عبدی (متوفی 150 هـ) کے پیروکار ہیں۔ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ترک کرنے کے دعوی کی بنیاد پر صحابۂ کرام کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نبی ﷺ نے وصف کے ذریعہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تنصیص کی ہے، تاہم نام لے کر صراحت نہیں کی ہے۔

سلیمانیہ

یہ سلیمان بن جریر زیدی کے پیروکار ہیں۔ انہیں ’جریریہ‘ بھی کہتے ہیں۔ اس فرقہ کا عقیدہ ہے کہ امامت کی بنیاد شورائیت ہے، اور یہ اچھے مسلمانوں میں سے دو آدمیوں کے عقد سے صحیح ہوجائے گی، نیز مفضول کی امامت بھی صحیح ہو سکتی ہے اگرچہ فاضل شخص ہر حال میں افضل ہے۔ یہ شیخین یعنی ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی صحت کے قائل ہیں، مگر انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں پیش آنے والے حادثات کی بنیاد پر ان کی تکفیر کی ہے۔

نیز انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا، زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما کے کفر کے بھی قائل ہیں اور رافضی شیعوں کے ’بَداء‘ اور ’تقیہ‘ کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے ان پر لعن طعن کرتے ہیں۔

بَتْریّہ

یہ کثیرُ الثواب (متوفی 169 ھ تقریباً) جس کا لقب الأبتر تھا، کے پیروکار ہیں۔ امامت کے متعلق ان کا مذہب بھی سلیمانیہ کے مذہب ہی کی طرح ہے، تاہم وہ عثمان رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں وارد نصوص کا ان کی طرف منسوب حادثات سے متعارض ہونے کی وجہ سے اُن کے کفر کے بارے میں توقف اختیار کرتے ہیں، اسی طرح وہ قاتلینِ عثمان کی تکفیر میں بھی توقف کرتے ہیں[3]۔

حوالہ جات

  1. شجره طیبه زیدی سادات مقیم شبه قاره هند- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2025ء
  2. شیعوں کے مختلف فرقے- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2025ء
  3. زیدیہ (فرقۂ زیدیہ)-شائع شدہ از: 8 جون 2025ء